رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبالِ رمضان

 رمضان المبارک سے دو ماہ پیشتر یعنی رجب کے مہینہ ہی سے  رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں رمضان المبارک کی تیاری اور اس حوالہ سے مذاکرے شروع ہوجاتے تھے ایک روایت کےمطابق آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رجب کے مہینہ میں یہ دعا مانگا کرتے تھے :۔

اللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَب، وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَان 

شعب الایمان للبیہقی

یعنی اے اللہ ! ہمیں رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور رمضان نصیب فرما۔

جب رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان کے مہینہ میں داخل ہوتے تو رمضان المبارک پانے کا اشتیاق مزید بڑھ جاتا ۔ گویا رمضان المبارک کی برکات سے بھر پور طریقہ سے فیضیاب ہونے کی خاطر ریہرسل فرمارہے ہوں ۔ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :۔

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يصوم، حتى نقول: لا يفطر، ويفطر حتى نقول: لا يصوم، فما رايت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم استكمل صيام شهر إلا رمضان، وما رأيته اكثر صياما منه في شعبان

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینہ میں اس قدر نفلی روزے رکھتے کہ ہمیں محسوس ہوتا گویا آپ مسلسل روزے رکھتے چلے جائیں گے۔ اور جب روزہ رکھنا چھوڑ دیتے تو ہمیں لگتا کہ آپ مزید روزے نہ رکھیں گے۔ نیز آپ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے رمضان المبارک کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی پورے مہینے کےنفلی روزےرکھتے نہیں دیکھا اور جتنے روزے آپ شعبان میں رکھتے میں نے کسی مہینہ میں اس سے زیادہ روزے رکھتے آپ کو نہیں دیکھا۔

(صحیح بخاری  )

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ :۔

ما رأيت رسول اللّٰه ﷺ يصوم شهرين متتابعين، إلا أنه كان يصل شعبان برمضان

یعنی میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی لگا تار دو مہینے روزے رکھتے نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ آپ شعبان کو رمضان المبارک سے ملا دیتے۔

(سنن ابی داؤد )

پس یہ بھی استقبال رمضان کا ایک طریق تھا کہ آپ اس مبارک مہینہ میں داخل ہونے کی تیاری کے پیش نظر کثرت سے نفلی روزے رکھتے چلے جاتے اور روزے رکھتے رکھتے ہی رمضان المبارک کے مبارک ایام میں داخل ہوجاتے ۔ حدیث کے ان الفاظ سے مراد یہ ہے کہ  رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان میں بکثرت نفلی روزے رکھتے تھے۔

صحیح مسلم کی روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کو بھی شعبان کے مہینہ میں روزہ رکھنے کی ترغیب دلاتے۔

حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے۔

اَنَّ رسول اللّٰه ﷺ قال له او لآخر: “ اصمت من سرر شعبان؟ 
قال: لا، قال: فإذا افطرت فصم يومين

رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’تم نے شعبان کے اول میں کچھ روزے رکھے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم افطار کے دن تمام کر لو تو دو دن روزے رکھو۔‘‘

(صحیح مسلم )

شعبان کے دنوں میں رمضان المبارک کو پالینے کی تڑپ کا اظہار اس حدیث سے بھی ہوتا ہے جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان کے انتظار میں شعبان کے دن گن گن کر گزرنے کی تحریک فرمائی ہے ۔ چنانچہ روایت  میں ھے کہ

عن ابي هريرة، قال: قال رسول اللّٰه: احصوا هلال شعبان لرمضان

یعنی شعبان کے چاند رمضان المبارک کے انتظار میں گن گن کر گزارو۔

(سنن ترمذی ۔کتاب الصیام عن رسول اللہ ﷺ)

رؤیت ہلال کے پہلو کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس حدیث سے یہ بھی مراد ہے کہ رمضان المبارک کی آمد کے پیش نظر شعبان کی تاریخوں کا بھی حساب رکھو۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و وآلہ سلم نے شعبان کی آخر ی تاریخ کو وعظ فرمایا اور رمضان المبارک کی آمد کی خبر دیتے ہوئے آ پ نے فرمایا:۔

“سنو!  تم پر ایک مہینہ سایہ فگن ہونے والاہے جو بہت بڑا اوربہت مبارک مہینہ ہے۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کے روزے رکھنافرض فرمایا اور اس کی رات کے قیام کو ثواب ٹھہرایاہے۔ جو شخص اس مہینہ میں کوئی نفلی نیکی بجا لائے گا تو وہ ایسے ہی ہے جیسا کہ عام دنوں میں فرض کا ثواب ہو اور جو شخص اس مہینہ میں کسی فرض کو ادا کرے گا وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں ستر فرائض ادا کرے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے۔ اس مہینہ میں مومن کارزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اس کے لئے گناہوں کے معاف ہو نے اور آگ سےنجات کا سبب ہو گا اور اسے روزہ دار کے ثواب کے برابر ثواب ہو گا مگر روزہ دار کے ثواب سے کچھ بھی کمی نہیں ہوگی۔

صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم نے عرض کیا:یا رسول اﷲ! ہم میں سے ہر شخص تو اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ (یہ ثواب پیٹ بھر کرکھلانے پر موقوف نہیں) بلکہ اگر کوئی شخص ایک کھجور سے روزہ افطار کرا دے یا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ دودھ کاپلادے تو اللہ تعالیٰ اس پربھی یہ ثواب مرحمت فرما دےگا۔یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم کی آگ سے آزادی کاہے۔ جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام اور نوکر کے بوجھ کو ہلکا کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادے گا اور آگ سے آزادی عطا فرمائے گا۔ اس مہینہ میں چار چیزوں کی کثرت کیا کرو جن میں سے دو چیزیں اﷲ کی رضا کے لیے ہیں اور دوچیزیں ایسی ہیں جن سے تمہیں چارہ کار نہیں۔ پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور جہنم کی آگ سے پناہ مانگو۔جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کراتے ہوئے پانی پلائے گا تو اللہ تعالیٰ میرے حوض سے اس کوایسا پانی پلائے گا جس کے بعد جنت میں داخل ہو نے تک اسے پیاس نہیں لگے گی۔‘‘

(صحیح ابن خزیمۃ)

حضرت ابو جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے رمضان المبارک کا چاند دیکھا تو آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور پھر یہ جامع دعا کی :۔

اَللّٰھم اہلہ علینا بالامن والایمان والسلامة والاسلام والعافیة المجللہ ، ورفع الاسقام والعون علی الصیام والصلٰوة وتلاوة القرآن، اللھم سلمنا لرمضان وسلمہ لنا ، وتسلمہ منا حتی یخرج رمضان وقد غفرت لنا ورحمتنا وعفوتنا۔

(فضائل رمضان لابن ابی دنیا)

یعنی اے اللہ اسے (رمضان کے چاند کو) ہم پر امن، ایمان، سلامتی اسلام، عظیم عافیت کے ساتھ طلوع فرما۔ اور بیماریوں کودور کرنے، روزوں، نماز، تلاوت قرآن کے لئے مددگار کے طور پر (طلوع ہو) اے اللہ! ہمیں رمضان کے لئے سلامت رکھیو اور رمضان کو ہمارے لئےسلامتی کا موجب بنا۔ اور اسے ہم سے اس حالت میں واپس لیجیئو کہ رمضان جائے اور تو ہمیں بخش چکا ہو، ہم پر رحم فرما چکا ہو اور ہم سے درگزر فرماچکا ہو۔

جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کا چاند دیکھتے تو دعا کرتے : یہ چاند خیر و برکت کا ہے، یہ چاند خیر و برکت کا ہے، میں اس ذات پر ایمان رکھتا ہوں جس نے تجھے پیدا فرمایا۔

(مصنف ابن ابی شیبہ)

آسمان پر رمضان المبارک کے استقبال کی تیاریوں کا منظر

رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم کے دروازے وسیع ہوجاتے ہیں اور خیر و برکت کے طالب ہر شخص کے لئے نیکیوں کا حصول آسان کر دیا جاتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :۔

قال رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم: ’’إذا كان اول ليلة من شهر رمضان، صفدت الشياطين ومردة الجن، وغلقت ابواب النار فلم يفتح منها باب، وفتحت ابواب الجنة فلم يغلق منها باب، وينادي مناد يا باغي الخير اقبل، ويا باغي الشر اقصر، ولله عتقاء من النار وذلك كل ليلة

یعنی جب ماہ رمضان المبارک کی پہلی رات آتی ہے، تو شیطان اور سرکش جن جکڑ دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھلا نہیں رکھا جاتا۔ اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، پکارنے والا پکارتا ہے۔ اے خیر کے طلب گار! آگے بڑھ، اور اے شر کے طلب گار! رک جا اور  اللہ کے بہت سے بندے آگ سے آزاد کئے جاتے ہیں اور ایسا (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے۔

(سنن ترمذی )

اسی طرح ایک روایت کے مطابق رمضان المبارک کا چاند دیکھنے پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر وبرکت اورسلامتی کی دعا مانگی اور اس کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوئے اور فرمایا:۔

ایھا الناس، ان ھذا شہر رمضان، غلت فی الشیاطین و غلقت فیہ ابواب جہنم و فتحت فیہ ابواب الجنان ونادی مناد کل لیلة، ھل من سائل فیعطی، ھل من مستغفر فاغفر لہ

(فضائل رمضان لابن ابی دنیا)

اے لوگو! یہ رمضان کا مہینہ ہے ۔ اس میں شیاطین جکڑ دئے گئے ہیں اورجہنم کے دروازے بند کر دئے گئے ہیں اور اس میں جنتوں کے دروازے کھول دئے گئے ہیں۔ اور ہر رات کو منادی اعلان کرے گا کہ کیا کوئی مانگنے والا ہے تاکہ اسے عطا کیا جائے ، کیا کوئی بخشش کا طلبگار ہے تاکہ میں اسے بخش دوں۔ 

اللّٰهمَّ صلِّ على محمَّد وعلى آل محمَّد، كما صليتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم؛ إنَّك حميدٌ مجيد۔
اللّٰهمَّ بارِك على محمَّد وعلى آل محمَّد، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم؛ إنَّك حميدٌ مجيد۔


Share: