مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهٗ
جسے اللہ ہدایت دے، اسے گمراہ کرنے والا کوئی نہ ہو گا
حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا شمار السابقون الاولون میں ہوتا ہے۔ حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ طبابت کے ساتھ جھاڑ پھونک بھی کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا تعلق ازدشنوہ قبیلہ سے تھا، یہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ آئے، وہاں انھوں نے ایک مجلس میں روساء قریش سے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی شخصیت اوران کی دعوت کا تذکرہ سنا، امیہ بن خلف نے آپ پر (نعوذ باللہ) دیوانہ ہونے کا اتہام لگا دیا ، حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے نیک نیتی کے ساتھ کہا میں پاگل پن، دیوانگی اورجنات کے اثرات کا جھاڑ پھونک کے ذریعے علاج کرتا ہوں، یہ شخص اب کہا ں ہے؟ شاید اللہ تعالیٰ اس کو میرے ہاتھوں سے شفاء عطاء فرمادے ، دوسرے دن حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو مقام ابراہیم پر نماز پڑھتے ہوئے پایا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا : اے ابن عبدالمطلب ! آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی قوم آپ کے بارے میں گمان کررہی ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ جنون میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ان کے دیوتاؤں میں عیب نکالتے ہیں، انھیں بے وقوف گردانتے ہیں، اگر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ مناسب سمجھیں تو میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا علاج کرسکتا ہوں، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اپنی بیماری کو گراں نہ سمجھیں کیونکہ میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے بھی زیادہ شدید بیمار وں کا علاج کرچکا ہوں، یہ سن کر حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے خطبہ مسنونہ کے ابتدائی کلمات تلاوت فرمائے،
رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا”
اِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَسْتَعِيْنُه وَنَسْتَغْفِرُه وَنَعُوْذُ باللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهٗ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِىَ لَه، وَاَشْهَدُ اَنْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَرَسُوْلُه،
بلاشبہ، تمام تعریفیں اللہ ھی کے لیے ہیں، ہم اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اسی سے مغفرت کے طلب گار ہیں۔ہم اپنے نفسوں کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے، اسے گمراہ کرنے والا کوئی نہ ہو گا اور جسے وہ گمراہ کردے ،کوئی اسے ہدایت نہیں دے سکتا۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ اکیلے کے سوا کوئی معبود نہیں، کوئی اس کا شریک کار نہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔“
حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کہنے لگے میں نے تو ایسا کلام پہلے کبھی نہیں سنا، اس میں تو سمندر سے زیادہ گہرائی ہے، از راہ کرم اسے دوبارہ ارشاد فرمائیے ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے یہ کلمات مبارکہ دو ہرا دیے۔ حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے استفسار کیا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ، ایک اللہ پر ایمان لے آؤ جس کا کوئی شریک نہیں، اورخود کو بتوں کی غلامی سے آزاد کرلو اوراس بات کی گواہی دو کہ میں اللہ کا رسول ہوں، حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا: اگر میں ایسا کر لوں تو مجھے کیا ملے گا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ فرمایا : جنت ! حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا : اپنا دست اقدس بڑھائیے۔ میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے اسلام پر بیعت کرتا ہوں۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے انھیں بیعت کرلیا ،اور پھر ارشاد فرمایا یہ بیعت تمہاری قوم کے لیے بھی ہے، حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا : بہت اچھا میری قوم کے لیے بھی۔
ایک عرصے بعد مسلمانوں کے ایک لشکر کا گزر ان کی قوم پر سے ہوا، لشکر کے امیر نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا : کہیں تم نے اس قوم کی کوئی چیز تو نہیں لے لی، ایک لشکر ی نے کہا میں نے ان کا ایک لوٹا اٹھا لیا ہے، امیر نے کہا : اسے فوراً واپس لوٹا دو، کیونکہ یہ حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی قوم ہے، دوسری روایت میں کہ حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی قیادت میں ایک لشکر کا بھی وہاں سے گزر ھوا ، لشکریوں کو وہاں بیس اونٹ الگ تھلک ملے تو انھوں نے ساتھ لے لیے ، حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو خبر ہوئی کہ یہ تو حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی قوم کے ہیں تو انھوں نے وہ اونٹ واپس فرمادئیے ۔
( مسلم ، بیہقی ، نسائی، ابونعیم)