Pages - Menu

مرنے سے پہلے مرنے کی تیاری کیجئے

وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَسَعٰى لَـهَا سَعْيَـهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِكَ كَانَ سَعْيُـهُـمْ مَّشْكُـوْرًا (19) 

اور جو آخرت چاہتا ہے اور اس کے لیے مناسب کوشش بھی کرتا ہے اور وہ مومن بھی ہے تو ایسے لوگوں کی کوشش مقبول ہوگی

(سورہ اسراء)

 اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کو بہتر بنانے کے لئے جس نے جو عمل کرنا ہے وہ موت آنے سے پہلے پہلے ہی کر سکتا ہے اور جب موت کا وقت آ جائے گا تو اس وقت عمل کرنے کا وقت ختم ہوجائے گا۔اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ھیں 

’وَ اَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنِیْۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍۙ-فَاَصَّدَّقَ وَ اَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۰) وَ لَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَاؕ-وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ‘‘(منافقون)

 اور ہم نے تمہیں  جو رزق دیا اس سے اس وقت سے پہلے پہلے کچھ (ہماری راہ میں ) خرچ کرلو کہ تم میں  کسی کو موت آئے تو کہنے لگے، اے میرے رب! تو  نے مجھے تھوڑی سی مدت تک کیوں  مہلت نہ دی کہ میں  صدقہ دیتا اور صالحین میں  سے ہوجاتا۔ اور ہرگز اللّٰہ کسی جان کومہلت نہ دے گا جب اس کا مقررہ وقت آجائے 

“ گویا “نفاق “ کی بیماری کا بالمثل علاج “انفاق  فی سبیل اللہ ہے۔ سورة الحدید کی آیت 18  میں اسے اور وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ مال کی محبت کو دل سے نکالنے کے لیے دل کی زمین میں ”انفاق“ کا ہل چلانا پڑتا ہے اور جو لوگ یہ ہل چلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اصل کامیابی انہی کے حصے میں آتی ہے چنانچہ ارشادِ خداوندی ھے 

{ اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقٰتِ وَاَقْرَضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَھُمْ وَلَھُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌ۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ صلے وَالشُّھَدَآئُ عِنْدَ رَبِّھِمْ …}”

یقینا صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جو اللہ کو قرض حسنہ دیں ‘ ان کو کئی گنا بڑھا کر دیاجائے گا اور ان کے لیے بڑا باعزت اجر ہوگا۔ اور جو لوگ ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسولوں پر انہی میں سے صدیق اور شہداء ہوں گے اپنے رب کے پاس…“ 

آیت مبارکہ بالا میں نقشہ کھینچا گیا ہے کہ ایک بڑا حسرت کا وقت آئے گا جب انسان کف ِافسوس ملے گا کہ اے کاش ! میں اس مال کو اللہ کی راہ میں صدقہ کرسکتا۔ آج یہ لوگ دونوں ہاتھوں سے مال جمع کر رہے ہیں اور گھروں کی آرائش و زیبائش پر بےتحاشا خرچ کر رہے ہیں ‘ لیکن ایک وقت آئے گا جب اہل و عیال ‘ عزیز و اقارب ‘ مال و دولت اور جائیداد ‘ سب کو چھوڑ کر یہاں سے جانا ہوگا۔ اس وقت انسان حسرت سے کہے گا کہ پروردگار ! کیوں نہ تو نے مجھے ذرا اور مہلت دے دی ! تو اگر ذرا اس وقت کو ٹال دے تو پھر میں یہ سب کچھ تیری راہ میں لٹا دوں ‘ سارا مال صدقہ کر دوں اور میں بالکل سچائی اور نیکوکاری کی راہ اختیار کرلوں۔ لیکن اس وقت اس حسرت کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ اللہ کی یہ سنت ِثابتہ ہے کہ جب کسی کا وقت معین آجائے تو پھر اسے موخر نہیں کیا جاتا


حضرت بہلول دانا  رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ کا نصیحت آموز واقعہ

حضرت بہلول دانا  رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  آمیر المؤمنین خلیفہ ہارون الرشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ کے زمانے میں ایک مجذوب صفت بزرگ تھے۔ ہارون الرشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ ان کی باتوں سے ظرافت کے مزے لیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت بہلول دانا رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  ہارون الرشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ کے پاس پہنچے۔ ہارون الرشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے ایک چھڑی اٹھا کر انہیں دے دی۔ اور مزاحا کہا کہ بہلول(رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ)  یہ چھڑی میں تمہیں دے رہا ہوں۔ جو شخص تمہیں اپنے سے زیادہ بے وقوف نظر آئے یہ اسے دے دینا۔ حضرت بہلول دانا رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ چھڑی لے کر رکھ لی۔ اور واپس چلے آئے۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ شاید ہارون الرشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ بھی اس بات کو بھول گئے ھوں گے کیونکہ انہوں تو یہ صرف مذاق ھی کیا تھا ۔ 

عرصہ کے بعد ہارون الرشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ کو سخت بیماری لاحق ہو گئی۔ بچنے کی کوئی امید نہ تھی۔ اطبا نے جواب دیا۔ حضرت بہلول دانا رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ عیادت کے لئے پہنچے اور سلام کے بعد پوچھا۔ امیر المومنین!  کیا حال ہے؟ امیر المومنین نے کہا کیا حال پوچھتے ہو بہلول؟ بڑا لمبا سفر درپیش ہے۔ حضرت بہلول رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نےپوچھا آمیر المؤمنین کہاں کا سفر ھے ؟ ھارون  رشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے جواب دیا۔ آخرت کا سفر درپیش ھے  حضرت بہلول دانا رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے سادگی سے پوچھا، واپسی کب ہو گی؟ھارون رشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے  جواب دیا بہلول! تم بھی عجیب آدمی ہو۔ بھلا آخرت کے سفر سے بھی کوئی کھبی واپس ہوا ہے۔ حضرت بہلول دانا رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے تعجب سے کہا۔ اچھا آپ واپس نہیں آئیں گے۔ تو آپ نے کتنے حفاظتی دستے آگے روانہ کئے اور ساتھ ساتھ کون جائے گا؟ ھارون رشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ جواب دیا۔ آخرت کے سفر میں کوئی ساتھ نہیں جایا کرتا۔ خالی ہاتھ جا رہا ہوں۔ حضرت بہلول دانا رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ بولے۔ اچھا اتنا لمبا سفر کوئی معین و مددگار نہیں پھر تو لیجئے ہارون الرشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ کی چھڑی بغل سے نکال کر کہا۔ یہ آپ کی امانت  آپ کو ھی واپس کر رھا ھوں کیونکہ میں نے پہت تلاش کیا لیکن مجھے آپ کے سوا کوئی دوسرا انسان اپنے سے زیادہ بے وقوف نہیں مل سکا۔ بہلول دانا رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے آمیر المؤمنین ھارون رشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ کو یاد دلاتے ھوئے کہا آپ جب کبھی چھوٹے سفر پر جاتے تھے۔ تو ہفتوں پہلے اس کی تیاریاں ہوتی تھیں۔ حفاظتی دستے آگے چلتے تھے۔ حشم و خدم کے ساتھ لشکر ہمرکاب ہوتے تھے۔ اور اب جبکہ آپ اتنے لمبے سفر میں جس میں واپسی بھی ناممکن ہے جارھے ھیں اور آپ نے اس سفر کی کوئی تیاری ھی نہیں کی۔ ہارون الرشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے یہ سنا تو رو پڑے اور کہا۔ بہلول !  تم نے سچی بات کہی، ہم تجھے دیوانہ سمجھا کرتے تھے۔ مگر آج پتہ چلا۔ کہ تمہارے جیسا کوئی دانا نہیں۔یہ کہہ کر ہارون رشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  پھر روپڑا اور کہا: ساری عمر ہم تم کو بیوقوف سمجھتے رہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکمت کی بات تم نے ہی کہی، واقعۃً ہم نے اپنی عمر ضائع کردی اور اس آخرت کے سفر کی کوئی تیاری نہیں کی۔


عقلمند کون ھے ؟

درحقیقت حضرت بہلول رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے جو بات کہی وہ حدیثِ مبارکہ  ہی کی بات ہے، حدیث شریف میں حضوراقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا کہ:

اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ وَعَمِلَ لِماَبَعْدَ الْمَوْتِ۔

عقلمند انسان وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو کرے، اور مرنے کے بعد کے لئے تیاری کرے۔ (ترمذی) 

اس حدیثِ مبارکہ میں حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے بتا دیا کہ  عقلمند کون ہوتا ہے؟ آج کی دنیا میں عقلمند اس شخص کو کہا جاتا ہے جو مال کمانا خوب جانتا ہو، دولت کمانا اور پیسے سے پیسے بنانا خوب جانتا ہو، دنیا کو بیوقوف بنانا خوب جانتا ہو، لیکن اس حدیث مبارکہ میں حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا کہ عقلمند انسان وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو کرے، اور نفس کی ہرخواہش کے پیچھے نہ چلے، بلکہ اس نفس کو اللہ کی مرضی کے تابع بنائے اور مرنے کے بعد کے لئے تیاری کرے، ایسا شخص عقلمند ہے، اور اگر یہ  کام نہیں کرتا  یعنی مرنے کے بعد کی تیاری نہیں کرتا تو وہ بیوقوف ہے کہ ساری عمر فضولیات میں گنوادی، جس جگہ ہمیشہ رہنا ہے وہاں کی کچھ تیاری نہ کی۔


ہم سب موت سے غافل ہیں 

جو بات بہلول دانا رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے ہارون رشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ کے  لئے کہی، اگر غور کریں  تو یہ بات ہم میں سے ہرشخص پر صادق آتی ہے، اس لئے کہ ہم میں سے ہرشخص کو دنیا میں رہنے کے لئے ہر وقت یہ فکر سوار رہتی ہے کہ مکان کہاں بناؤں ؟ کس طرح کا بناؤں  ؟ اس میں کیا کیا راحت و آرام کی اشیاء جمع کروں ؟ اگر دنیا میں کہیں سفر پر جاتے ہیں تو کئی کئی دن پہلے اس کی تیاری کرتے ھیں ۔ سیٹ کی بکنگ کراتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں سیٹ نہ ملے، گویا کئی دن پہلے سے اس سفر کی تیاری شروع ہوجاتی ہے، جس جگہ پہنچنا مقصود ہے وہاں پر پہلے سے اطلاع دی جاتی ہے، ہوٹل کی بکنگ کرائی جاتی ہے، پہلے سے یہ سب کام کئے جاتے ہیں ، اور سفر صرف چند دن کا ھوتا ہے، اور بشرط زندگی واپسی کی بھی اُمید ھوتی ھے 

 مقامِ آفسوس ھے کہ جس جگہ جا کر ھم نے  ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے، جہاں کی زندگی کی کوئی انتہا نہیں ہے، اس کے لئے ھم یہ فکر کرنے کی ضرورت محسوس ھی نہیں کرتے کہ وہاں کا مکان کیسے بنایا جائے  ؟ وہاں کے لئے کس طرح کی بکنگ کرائی جائے  ؟  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  فرمارہے ہیں کہ عقلمند شخص وہ ہے جو مرنے کے بعد کے لئے تیاری کرے، ورنہ وہ بیوقوف ہے، چاہے وہ کتنا ھی بڑا مالدار اور سرمایہ دار کیوں نہ بن جائے، اور آخرت کی تیاری کا راستہ یہ ہے کہ موت سے پہلے موت کا دھیان کرو کہ ایک دن مجھے اس دنیا سے جانا ہے۔


پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو 

حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا:

«اِغْتَنِمْ خمساً قَبْلَ خمسٍ، شَباَبَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ وَ صِحَتَكَ قَبْلَ سُقمِكَ وَ غِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ وَ فَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ وَ حَیٰوتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ»

''پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت شمار کرو! اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے، اپنی مالداری کو اپنی تنگدستی سے پہلے، اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے ۔''

اللہ پاک ھمیں  موت کے بعد کی ھمیشہ ھمیشہ کی زندگی کی تیاری  کرنے کی توفیق عنایت فرمائے 

آمین یا رب العالمین