اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ
Oإِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُور
اللہ سے اُس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں ۔ بے شک اللہ سب پر غالب، بے حد بخشنے والا ہے۔
رسالت مآب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے اس دنیا سے کوچ کرنے کے بعد آپ کے سر چشمۂ ھدایت سے فیض یافتہ رشد و ھدایت کے تاباں ودرخشندہ ستارے صحابۂ کرام اور پھر اُن کے بعد تابعین عظام و علمائے دین متین نے امت مسلمہ کی ہرطرح کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا, اسی طریقے سے امت کی رہنمائی کا یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا، جب تک علمائے حق اس دھرتی پر موجود ہیں،اسوقت تک دین اسلام میں کوئی تحریف و تبدیلی نہیں ہوسکتی ، اس لیے علمائے حق نبئ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے سچے وارثین ہیں، جن کے قلوب کی طرف علوم نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے روحانی تار کی جلوہ گری ہوتی رہتی ہے ، اس روحانی تار کا کنکشن کہیں اور نہیں بلکہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے ملتا ہے ، علمائے حق دنیا کی روشنی کے محتاج نہیں ہوتے ، یہی وہ جماعت ، جو نبی کے وارثین کی سچی جماعت ہے، لہذا آفتاب نبوت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے بعد اب یہی علمائے حق اس کے نائب اور علم نبوت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ضامن اور محافظ ہیں ، جن سے نور ھدایت اور علم شریعت حاصل کیا جائے گا ۔
خوف اور خَشیَت کا مدار ڈرنے والے کے علم اور ا س کی معرفت پر ہے اور چونکہ مخلوق میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں علم حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو ہے اس لئے آپ ہی مخلوق میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں ۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے’’ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’ اللہ عزوجل کی قسم ! میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ جاننے والا ہوں اور سب سے زیادہ اس کا خوف رکھنے والا ہوں ۔
لوگوں کو چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا صحیح طریقے سے معرفت اور علم حاصل کریں تاکہ ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف زیادہ ہو ۔ علم والوں کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں ، لہٰذا علماء کرام کو عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے اور لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی ترغیب دینی چاہئے ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : صحیح معنوں میں فقیہ وہ شخص ہے جو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ کرے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر انہیں جَری نہ کرے ، اللہ تعالیٰ کے عذاب سے انہیں بے خوف نہ کر دے اور قرآن کے بغیر کوئی چیز اسے اپنی طرف راغب نہ کر سکے ۔ (تفسیر قرطبی )
ایک شخص نے اما م شعبی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ سے عرض کی’’مجھے فتویٰ دیجئے کہ عالِم کون ہے ؟ ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ نے فرمایا : ’’عالم تو صرف وہی ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو ۔ اورحضرت ربیع بن انس رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں وہ عالم نہیں ۔ (تفسیر خازن )
علم والے بہت مرتبے والے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خَشیَت اور خوف کو ان میں مُنْحَصَر فرمایا ،لیکن یاد رہے کہ یہاں علم والوں سے مراد وہ عالم ہیں جو دین کا صحیح علم رکھتے ہوں اپنے علم پر عمل کرنے والےھوں اوران کے عقائد و اَعمال درست ہوں ۔ اس آیت مبارکہ میں علماء سے مراد وہ لوگ نہیں ہیں جو محض تاریخ ، فلسفہ اور دنیاوی اور مروجہ علوم کے عالم ہوں ، بلکہ آیت مبارکہ میں اس سے مراد وہ علماءِ دین ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے عالم ہوں ، قرآن ، حدیث اور فقہ کی کتب پر عبور رکھتے ہوں ان کو قدر ضروری احکام شرعیہ مستحضر ہوں اور ان کو اتنی مہارت ہو کہ وہ عقیدہ اور عمل سے متعلق ہر مطلوبہ مسئلہ کو اس کی متعلقہ کتابوں سے نکال سکتے ہوں اور ان کے دل میں خوف خدا اس قدر ہو جس کی بناء پر وہ علم کے تقاضوں پر عمل کرتے ہوں اور جو شخص عالم تو ھے لیکن بےعمل ھے اور خوفِ خدا کی صفت سے بھی محروم ھے تو وہ شخص عالم کہلانے کا مستحق نہیں ہے ۔ گو وہ بڑے سے بڑے دارالعلوم سے فارغ کیوں نہ ھوا ھو ۔ عالم وہ ھے جو قرآن و سنت کا علم رکھتا ھو اور اللہ تعالی سے ڈرتا ھو ۔ قطع نظر اس کے کہ وہ کسی دارالعلوم سے فارغ ھوا ھو یا نہ ھوا ھو اسکی مثالیں ھمارے زمانے میں بھی موجود ھیں ۔ حال ھی میں وفات پانے والے حضرت مولانا پیر ذوالفقار رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ باقاعدہ کسی دارالعلوم سے فارغ التحصیل نہیں تھے لیکن ان کے مریدوں اور خلفاء میں ھزاروں علماء کرام بلکہ دیوبند کے شیخ الحدیث تک شامل ھیں
مالک بن مغول روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے شعبی سے پوچھا مجھے بتائیے کہ عالم کون ہے ؟ انہوں نے کہا عالم وہ جو اللہ کا خوف رکھتا ہو ۔ (سنن دارمی ) حسن بیان کرتے ہیں کہ فقیہ (عالم) وہ ہے جو دنیا سے بےرغبتی کرے، آخرت میں رغبت کرے، اس کو اپنے دین پر بصیرت ہو اور اپنے رب کی عبادت پر دوام اور ہمیشگی کرتا ہو ۔ (سنن دارمی )سعد بن ابراہیم سے پوچھا گیا کہ اہل مدینہ میں سب سے بڑا فقیہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہو ۔ (سنن دارمی) مجاہد نے کہا فقیہ وہ شخص ہے جو اللہ سے ڈرتا ہو ۔ (سنن دارمی )حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ آیت پڑھی اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ پھر فرمایا عالم وہ شخص ہے جو اللہ سے ڈرتا ہو ۔
علمائے دین کی فضیلت
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو آدمی علم کی طلب میں کسی راستہ پر چلا ، اللہ اس کو جنت کے راستہ پر چلائے گا اور طالب علم کی رضا کے لئے فرشتے اپنے پر اس کے قدموں میں بچھاتے ہیں اور آسمانوں اور زمینوں کی تمام چیزیں عالم کے لئے استغفار کرتی ہیں حتیٰ کہ پانی میں مچھلیاں بھی اور عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جیسے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے اور بیشک علماء انبیاء کرام کے وارث ہیں اور انبیاء کرام درہم اور دینار کے وارث نہیں بناتے وہ صرف علم کا وارث بناتے ہیں پس جس نے علم کو حاصل کیا اس نے بڑے حصے کو حاصل کیا ۔ (سنن الترمذی - سنن ابو دائود - سنن ابن ماجہ - مسند احمد )
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا ایک ان میں سے عابد تھا اور دوسرا عالم تھا ، تب رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا ، بیشک اللہ اور اس کے فرشتے اور تمام آسمانوں اور زمینوں والے حتیٰ کہ چیونٹی اپنے بل میں اور حتیٰ کہ مچھلی بھی ، یہ سب نیکی کی تعلیم دینے والے کےلیے استغفار کرتے ہیں ۔۔ (سنن الترمذی )
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس کے ساتھ اللہ خیر کا ارادہ فرماتا ہے اس کو دین کی فقہ (سمجھ) عطا فرما دیتا ہے۔
(صحیح البخاری - صحیح مسلم - سنن الترمزی)
اس کے برعکس علمائے سوء دنیا دار حاکموں سے ڈرتے رھتے ہیں حالانکہ حقیقت یہی ھے کہ جو شخص جتنا بڑا عالم ہوگا وہ اتنا ہی صرف اللہ سے ڈرنے والا ہوگا ۔ موجودہ دور میں امت مسلمہ کو ان دنیا پرست عالموں سے سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے جو سیٹھوں اور حکومت کی درباری کرتے پھرتے ہیں وہ اپنے آپ کو مقدس و محترم علمائے کرام سے برتر و بالا سمجھتے ہیں ، جو دراصل بالکل اناڑی و جاہل ہیں ، ان درباری علماء سے ہر زمانہ میں دین اسلام کو نقصان پہنچا ہے اور پہنچتا رہے گا ، ایسے ناسمجھ و جاہل عالموں کو اہل تقویٰ وطہارت علماء کے صف سے باہر کرنے کی سخت ضرورت ہے ، یہ اسی وقت ہوگا جب اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی رضا پر چلنے والے معزز اہل علم ان منحوس دنیا دار ، ریاکار عالموں کے منحوس سائے سے اپنے آپ کو بچائیں، وہ ریاکار اپنی ریاکاری کی بنیاد پر بے باک و نڈر مجاہدانہ صفت کے حامل علمائے ذوی الاحترام کے مابین دراڑیں پیدا کرکے اپنی عیاری کو چھپا لیا کرتے ہیں،لیکن ان کے دام فریب میں مقدس نفوس قدسیہ کبھی نہیں آتے ، ان کی عیاریوں کو وہ فراست مؤمنانہ سے بھانپ لیا کرتے ہیں،پھر بھی وہ چاپلوس دنیا دار باز نہیں آتے ، انہیں کی وجہ سے ملت کا شیرازہ بکھراؤ کے دھانے پر پہنچ جاتا ہے، کم علم لوگ دین و مسلک اور اسکے ستون کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں، تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ مسلک و ملت کی مخالفت میں درباری علماء کا عمل دخل ہمیشہ رہا ہے جیسا کہ اکبر بادشاہ کے زمانے میں اگر کوئی علمائے حق و صداقت میں سے اس کے خلاف آواز اٹھاتا تو اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ، دنیا جانتی ہے کہ اپنے وقت کا بے باک و نڈر مجاہد اعظم مرد قلندر، عظیم عالم دین امام ربانی شیخ احمد سرھندی، حضرت شیخ مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کو اکبر بادشاہ اور جہانگیر کے عقائد و نظریات کی مخالفت میں گوالیار کے قلعہ میں قید و بند کر دیا گیا ، ایسی بےشمار مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔ تاریخ شاہد ہے کہ بادشاہوں اور حکمرانوں نے اپنے دربار کو چمکانے اور اپنے موقف کی تائید و حمایت میں علمائے سوء کو جمع کرکے ان کو اپنا ہمنوا بناکر درباری علماء کا درجہ دینے کا کام کیا ، ان کو منفعت بخش عہدہ دیکر اپنے جوتے کی نوک پر رکھا تاکہ حق و صداقت کا سامنا کرنے میں وہ اوندھے منہ پڑے رہیں،اورانکی ہمت و قوت کو پست کرتے رہے ۔ کبھی بھی ان علمائے سوء نے سچ بات کہنے کی ہمت نہیں کی،
جب ہم دور حاضر پہ نگاہ ڈالتے ہیں تو اس دور میں بھی درباری علماء سوء کی کمی نہیں ہے حاکم وقت کی دربار گیری میں وہ اپنی بڑی شان سمجھتے ہیں، عالمانہ لبادہ اوڑھے کچھ کم علم نادان واحمق اسی فراق میں رہتے ہیں کہ کوئی دنیا دار صاحب اقتدار آواز دے تاکہ ہم حاضر دربار ہوجائیں،ایسا ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں جیسے کی استاذ کے سامنے شاگرد کھڑے ہوں، لیکن ہمارے وہ مقدس، مطہر،معظم، معزز،محترم، مکرم،حق گو،حق شناس،مصطفے جان رحمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے سچے نائبین علمائے ذوی الاحترام نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دینِ اسلام کی حفاظت کیلئے آج بھی کسی حاکم وقت کے سامنے ویسے کھڑے رھتے ھیں جیسے حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ بادشاہ وقت کے سامنے عزم واستقلال، عزم مصصم، حق و صداقت کا پہاڑ بن کر کھڑے رہے بادشاہ کی ہاں میں ہاں نہیں ملایا، مگر کچھ دنیا دار عالم اکبر اور جہانگیر کے تلوے جاٹتے رہے، حالیہ تناظر میں نہ جانے کتنے چہرے آپ کو ویسے ہی ملیں گے جو حکمرانوں اور امراء کی خوشنودی حاصل کرنے والوں کی قطار میں کھڑے رہتے ہیں، تاریخ کے چند واقعات بڑے ہی بھیانک اور درد ناک ہیں کہ جن کو پڑھ کر دل پارہ پارہ ہوجاتا ہے کہ دین اسلام کے نقلی پاسبانوں نے دنیاوی لالچ میں مال زر اور عہدے کی خاطر چند سکوں میں بادشاہوں کے من پسند کے مطابق اسلام کی روح پامال کرکے بادشاہوں کے سامنے اسلام کا نقشہ پیش کیا چنانچہ اکبر بادشاہ کے دربار میں اپنے وقت کے دو بہت بڑے عالم گزرے ہیں ایک کا نام ابوالفضل اور دوسرے کا نام فیضی تھا دونوں اکبر بادشاہ کے نئے نئے فتنوں کو فروغ دینے کا کام کرتے تھےاور اکبر بادشاہ کے دین الٰہی کی ترویج و اشاعت میں دن رات ایک کرنے اور یہ ثابت کرنے میں لگے رہے اور اس کے نظریات کو لوگوں پر تھوپنے میں لگے رہے،اور یہ بتاتے رہے کہ مذہب کے معاملے میں اکبر بادشاہ سے بہتر کوئی نہیں ہے ۔ (
ایسے ہی دنیا دار علماء کی وجہ سے بادشاہ اپنا نظریہ امت مسلمہ کے سامنے پیش کرتے رہے، ہر دور میں زرخرید درباری علماء بادشاہوں اور حکمرانوں کو دستیاب ھوتے ھیں اور دستیاب ھوتے رہیں گے، جب جب اسلام اور اسکے ماننے والوں پر حاکم وقت کی طرف سے کوئی پریشانی آئی ہے تو انہیں دنیا دار منحوس مولویوں سے جو چند ٹکے میں اپنا ضمیر ہی نہیں بلکہ اسلام کے اصولوں کو بیچنے میں لگے رہتے ہیں، یہ قوم ایسے ہی نہیں ہم پر مسلط ہوئی ہے اس کے پیچھے بھی انہیں دنیا دار احمق عالموں کی کارستانی پوشیدہ ہے، جب سے ہم نے اپنی مسند جاہلوں کے حوالے کرنا شروع کردیا ہے، انکی جی حضوری کرنا شروع کردیا ہے، ان کی تعظیم میں اپنے آپ کو کھڑا کرنا شروع کردیا، تبھی سے ہمارا رتبہ گھٹتا چلا گیا، ہماری وقعت انکی نظر میں گھٹنے لگی ۔ آج بھی ضرورت اس امر کی ھے کہ ھم ان دنیا دار عالموں سے دور ہوجائیں ، ان کی صحبت سے اجتناب کریں ورنہ کل قیامت کے دن جہاں وہ ہوں گے اسی جگہ تم ہوگے، انہیں کے ساتھ تم بھی جاؤ گے، انہیں کیساتھ تمہارا بھی حشر ہوگا اسلیئے دنیا میں جو جس سے محبت کرتا ہے قیامت کے دن وہ اسی کےساتھ اٹھایا جائیگا،
لیکن آفرین ھے ان علمائے ذوی الاحترام پر کہ جنہوں نے کسی دنیا دار حاکم کو اپنے منہ نہیں لگایا ، ایک مرتبہ خلیفہ ھارون رشید نے امام مالک کو ملاقات کا پیغام بھیجا اور کہا جو آپ نے کتاب لکھی ہے اسے میں سننا چاہتا ہوں امام مالک نے جواب بھیجوایا کہ علم کی زیارت خود کی جاتی ہے وہ کسی کی زیارت نہیں کرتا،آج کے دور میں اگر سیٹھ جی کہدیں کہ فلاں صاحب آپ نے جو کتاب لکھی ہے وہ میں آپ سے سننا چاہتا ہوں تو دنیا دار عالم سیٹھ کی زیارت کیلئے بےتاب ہوجاتا ہے، وہ عالم عالم نہیں جو دنیا کے پوجاریوں کی جی حضوری میں اپنی زندگی گزاردے، شاید انہیں معلوم نہیں کہ وہ فقیر بہتر ہے جو کسی امیر کے آستانے پر حاضری نہیں دیتا،تاریخ گواہ ہے کہ وہی علماء قابل تقلید ہیں جو بلا وجہ شرعی امراء کے درباروں میں حاضری نہیں دیتے بلکہ امراء خود چل کر ان کے پاس جاتے ہیں،ایک مثال اور لیجیے کہ حاکم وقت ابو جعفر عبداللہ بن محمد المنصور جو دوسرا عباسی خلیفہ تھا، جو امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کو اپنی حکومت کا چیف جسٹس بنانا چاہتا تھا لیکن امام وقت نے اس کی پیش کش کو ٹکھرادیا اور کہا کہ میں اپنے آپ کو اس عہدے کے قابل نہیں سمجھتا،خلیفہ ان کی بات سن کر طیش میں آکر کہنے لگا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو امام اعظم ابو حنیفہ نے کہا کہ میں جب جھوٹا ہوں تو پھر تو واقعی میں اس کے لائق نہیں ھوں کیونکہ جھوٹا شخص قاضی بننے کا اھل نہیں ھے اسی پاداش میں میں امام صاحب کو جیل جانا پڑا، ایسی مثالیں بہت ہیں، امام اعظم ابو حنیفہ اور امام مالک، امام احمد بن حنبل،تیرہویں صدی کے مجدد حضرت الف ثانی،چودہویں صدی کے اکابرین علمائے دیوبند ، انہیں اکابرین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس زمانہ میں علمائے حق تاریخ کے صفحات پر انکے درخشندہ کارنامے بھرے پڑے ہیں، بس کہنا یہ ہے کہ اول الذکر کے زمانے میں دنیا دار اور درباری علماء جو اپنی خوشامد کے باعث خلیفہ کے منظور نظر بن گئے تھے،خوشامد کرنے والے علماء کو آج کوئی نہیں جانتا لیکن امام اعظم و مقدس علماء کو زمانہ کل بھی اور آج بھی اور صبح قیامت تک جانتا رہے گا، درباریوں کا نام و نشان مٹ گیا ان کا نام لیوا کوئی نہیں اور حق گو علماء کل بھی روز روشن کیطرح چمک رہے تھے اور آج بھی چمک دمک رہے ہیں ، لیکن آج کے خود غرض دنیا پرست حکمراں پرست مولویوں نے اسلام کی صحیح شبیہ بگاڑنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے جس سے اچھے بھی دشمن کے نشانے پر آجاتے ہیں ابھی بھی وقت ہے کہ دنیا کے یہ لالچی علماء اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح کریں تاکہ انکی ایمانی طاقت و قوت میں کوئی فرق نہ آنے پائے اگر ان علماء نے ہدایت پر عمل نہ کیا تو پھر یاد رکھیں یہ اپنی حقیقی منزل سے دور ہوجائیں گے، عزت و شہرت سے محروم ہو جائیں گے اور دنیا دار لوگ تم پر غالب و مسلط ہوجائیں گے یہی وجہ ہے کہ جب سے دنیا پرست عالموں نے جاہلوں کی جی حضوری شروع کردیا ہے ان کی ہاں میں ہاں ملانے کا سلسلہ اپنا لیا ہے،انہیں کو اپنا آقا تسلیم کر لیا ہے ، ان جاہلوں کے اشارے پر چلنے کا مزاج بنا لیا ہے تبھی سے یہ جاہل واناڑی لوگ ہمارے صدر ، سرپرست ، ناظم ، وغیرہ وغیرہ بن گئے ، ہم ان کے محکوم وہ ہمارے حاکم ۔
ان چاپلوس عالموں کی وجہ سے یہ ماحول بنا ھے ورنہ ایسا بھی دور گزرا ہے کہ مدرسےاور بڑے بڑے اداروں کی بنیاد ہمارے مقتدرومقدس علمائے کرام نے رکھی تھی وہ کسی کے تابع دار نہیں تھے بلکہ یہ جاہل قوم (الا ماشاء اللہ) ان بزرگوں کی تابعداری میں فخر محسوس کرتی تھی آج حال اس کے برعکس ہے چونکہ اکثر اداروں کے ٹرسٹی جاہل واناڑی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ آج ہماری قدرت ومنزلت ان جاہلوں کی نظر میں کچھ بھی نہیں وہ اس لئے بھی کہ ایک جگہ سے جب کسی عالم، امام، مدرس کو نکالا جاتا ہے تو اسکے نکلنے سے پہلے ہی دوچار دس امیدوار وھاں پہنچ جاتے ہیں اوراپنے ہی بھائیوں کو قوم کی نگاہ میں ذلیل و رسوا کرنے میں لگ جاتے ہیں،اگر یہ ایسا نہ کریں ان جاہلوں کی اتنی ہمت نہیں ھو سکتی کہ ہمارے بھائی کو اس کے منصب سے علیحدہ کردے، رزاق کسی ادارے کا ٹرسٹی نہیں ہے رزاق تو خالق کائنات اللہ رب العزت کی ذات ہے،جو سارے جہان کا مالک ہے اس سے بہتر روزی کوئی نہیں دیتا وہ ایک بار ہی نہیں بار بار زندگی بھر عطاء کرتا ہے،وہی عزت، شہرت،دولت، منصب، عہدہ،مکان، دوکان، ترقی، عروج و ارتقاء، شان و شوکت،صحت و سلامتی، صحت وشفاء، دانائی بینائی سب عطاء کرتا ہے، قطرے کو سمندر، ذرے کو آفتاب،تنکے کو پہاڑ بناتا ہے،تو پھر دنیا دار کی تھوکروں میں پڑے رہنے سے کیا فائدہ دنیا دار اک بار دیتا ہے تو سو بار جتاتا بھی ھے۔
ہدایت کے بدلے گمراہی خریدنا یعنی ’’ایمان کی بجائے کفر اختیار کرنا‘‘ نہایت خسارے اور گھاٹے کا سودا ہے ۔ یہ آیت یا توان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے یا یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی جوپہلے تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر ایمان رکھتے تھے مگر جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی تشریف آوری ہوئی تو منکر ہو گئے، یا یہ آیت تمام کفار کے بارے میں نازل ہوئی اس طور پر کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فطرت سلیمہ عطا فرمائی ، حق کے دلائل واضح کئے ، ہدایت کی راہیں کھولیں لیکن انہوں نے عقل و انصاف سے کام نہ لیا اور گمراہی اختیار کی تو وہ سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے تاجر ہیں کہ انہوں نے نفع ہی نہیں بلکہ اصل سرمایہ بھی تباہ کرلیا ۔
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکْتُمُوۡنَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللہُ مِنَ الْکِتٰبِ وَیَشْتَرُوۡنَ بِہٖ ثَمَنًا قَلِیۡلًاۙ اُولٰٓئِکَ مَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمْ اِلَّا النَّارَ وَلَا یُکَلِّمُہُمُ اللہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَا یُزَکِّیۡہِمْۚۖ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۔ (سورہ البقرہ )
وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی مول لی اور بخشش کے بدلے عذاب، تو کس درجہ انہیں آگ کی سہار ہے ۔
یعنی جو ہدایت و مغفرت یہ لوگ اختیار کرسکتے تھے اس کے چھوڑنے کو یہاں فرمایا گیا کہ انہوں نے ہدایت و مغفرت کی جگہ ضلالت و عذاب خرید لیا ۔ یہ نہیں کہ ان کے پاس ہدایت و مغفرت تھی اور پھر انہوں نے اسے بیچ دیا۔ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : دنیا میں سب سے بہترین چیز ہدایت اور علم ہے اور سب سے بری چیز گمراہی اور جہالت ہے تو جب یہودی علماء نے دنیا میں ہدایت اور علم کو چھوڑ دیا اور گمراہی و جہالت پر راضی ہو گئے تو اس بات میں کوئی شک نہ رہاکہ وہ دنیا میں (اپنی جانوں کے ساتھ) انتہائی خیانت کر رہے ہیں۔نیز آخرت میں سب سے بہترین چیز مغفرت ہے اور سب سے زیادہ نقصان دہ چیز عذاب ہے تو جب انہوں نے مغفرت کو چھوڑ دیا اور عذاب پر راضی ہو گئے تو بلا شبہ وہ آخرت میں انتہائی نقصان اٹھانے والے ہیں اور جب ان کاحال یہ ہے تو لامحالہ دنیا و آخرت میں سب سے بڑے خسارے میں یہ لوگ ہیں ۔ اس آیت میں یہودی علماء کے بارے میں فرمایا گیا کہ انہوں نے مغفرت کے بدلے عذاب خریدلیا ، کیونکہ وہ حق بات کو جانتے تھے اور انہیں یہ بھی علم تھا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے اوصاف ظاہر کرنے میں اور ان کے بارے میں شبہات زائل کرنے میں عظیم ثواب ہے اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی عظمت و شان چھپانے میں اور ان سے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات ڈالنے کی صورت میں بڑا عذاب ہے ،اس کے باوجود جب انہوں نے حق کو چھپایا تو لا محالہ انہوں نے مغفرت کے بدلے عذاب خریدلیا ۔
اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالْہُدٰی ۪ فَمَا رَبِحَتۡ تِّجٰرَتُہُمْ وَمَا کَانُوۡا مُہۡتَدِیۡنَ ۔ (سورہ البقرہ )
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی تو ان کا سودا کچھ نفع نہ لایا اور وہ سودے کی راہ جانتے ہی نہ تھے ۔
ظاہر سی بات ہے کہ سچ کڑوا ہوتا ہے ، سچ کا سامنا بہت کم ہی لوگ کر پاتے ہیں ، جو مخلص ہوتے ہیں وہ سچ کا سامنا کرنے میں نہیں کتراتے اس لیے کہ سچ ان کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ہے ، سچائی کا سر چشمہ تقویٰ وطہارت ہے جب بندہ قول سدید کی ڈگر پر چلنے لگتا ہے تو اس کے دیگر اعمال خود بخود سدھرنے لگتے ہیں وہ خود ہر معاملہ میں دین و شریعت کی پابندی کرنے لگتا ہے اس کے اعمال صالحہ ماضی کے گناہوں کو مٹانے لگتے ہیں ، اعمال صالحہ اس کےلیے بخشش و مغفرت کا سامان بن جاتے ہیں پھر اس کےلیے زندگی پرسکون اور اطمینان کا باعث بن جاتی ہے ، دنیا کا خوف اس کے دل سے نکل جاتا ہے ، اسی لیے تو اللہ والے بےخوف و خطر ہوتے ہیں ،
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے رب کریم ہمیں نیک راستے پر اور بزرگان دین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق رفیق عطاء فرمائے آمین یا رب العالمین