Pages - Menu

دُعاؤں والی ایک ماں ھونی چاہیے*

 پیرِ طریقت رہبرِ شریعت محبوب العلماء والصلحاء انجینیئر حضرت مولانا حافظ پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کی وفات پر جس طرح دنیا بھر میں غم، محبت، وابستگی اور عقیدت کی لہر اٹھی، وہ  ایک پورے عہد کا وداع ہے ۔ لاکھوں مریدین، غیر معمولی اجتماع، دنیا کے مختلف خطوں میں پھیلا ہوا فکری و روحانی نیٹ ورک، اور خاص طور پر جدید تعلیم یافتہ، سنجیدہ اور متانت والے طبقے کی اصلاح یہ سب کچھ کسی ایک دن کی محنت کا نتیجہ نہیں تھا۔ لیکن اگر ھم  اس عظیم الشان منظر کے پیچھے جھانک کر دیکھیں تو ایک خاموش، گمنام اور بے مثال حقیقت نظر آتی ہے وہ حقیقت ھے   *ایک ماں کی دعا۔* 

حضرت پیر ذوالفقار نقشبندی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرمایا کرتے تھے کہ انہوں نے زندگی میں سب سے زیادہ جس ہستی کو اپنے لئے  روتے ہوئے دیکھا، وہ ان کی ماں تھیں۔آپ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرمایا کرتے تھے کہ میری تقریباً تین سال کی عمر تھی ، تہجد کا وقت ھوتا تھا ، میری ماں کے اللہ کے سامنے رونے، گڑگڑانے، دعائیں کرنے کی آواز سے میں  بھی جاگ کر بیٹھ جاتا تھا ۔ کبھی کبھی ماں دعا میں اپنے بیٹے یعنی میرا  نام بھی لے لیتی تھیں۔ اپنی ماں کے اس طرح آنسو بہانے سے مجھے بھی ان پر بہت ترس آتا تھا ۔ ماں کے وہ آنسو کسی دنیاوی کامیابی کے لیے نہیں ھوتے تھے بلکہ وہ آنسو اللہ سے ایک بندہ مانگنے کے لئے ھوتے تھے۔آج ہم حضرت پیر ذوالفقار رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کے لاکھوں مریدین کو دیکھتے ہیں، مگر اصل میں کہنا یہ چاہیے کہ اس سب کے پیچھے ایک ماں کی گڑگڑا کر مانگی ھوئی دعائیں ھی ھیں  

امام محمد بن اسماعیل بخاری  رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کو دیکھ لیجیے۔ سات سال کی عمر میں  امام رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کی بینائی ختم ہو گئی تھی ۔ ایک ماں تھی جس نے  ہمت نہیں ہاری تھی ، مایوس نہیں ہوئی تھی ، راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ رب العزت کے سامنے  روتی تھی ، دعائیں کرتی تھی ، تڑپتی تھی۔ یہاں تک کہ ایک دن خواب میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی زیارت ھوئی اور حضرت ابراھیم عَلَیْہِ السَّلَام نے خواب میں بشارت دی  کہ تمہاری دعاؤں کی وجہ سے اللہ تعالی  نے تمہارے بیٹے کی بینائی واپس کر دی ھے۔ صرف بینائی ہی واپس نہیں آئی بلکہ ساتھ میں اللہ تعالی کی طرف سے ایسی غیر معمولی ذہانت بھی عطا ہوئی کہ وہ امام بخاری (رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ )بن گئے۔ ہم امام بخاری رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کو دیکھتے ہیں، مگر تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہ سب کچھ ایک ماں کی دعاؤں کا کرشمہ تھا۔* 

حضرت ابوالحسن علی حسنی ندوی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  جنہیں دنیا محبت سے علی میاں رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  اور میاں جی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کہتی ہے۔ ایک عجمی عالم، مگر عرب دنیا میں ایسی علمی قبولیت کہ بڑے بڑے عرب علماء ان کے معترف بن گئے۔ یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔ اس کے پیچھے بھی ایک ماں کی دعا ھی تھی دعاؤں میں گھلی ہوئی، آنسوؤں میں بھیگی ہوئی، ہر لمحہ بیٹے کو اللہ کے حوالے کرنے والی۔ تو آصل بات یہ ھے کہ یہ عظمت خود بخود نہیں آتی بلکہ اس کے پیچھے بھی وہی راز ہے: ایک ماں کی گڑگڑاتے  ہوئی دعائیں ۔ 

دعوت و تبلیغ کے عالمی کام کو دیکھیے۔ حضرت مولانا محمد الیاس رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ایک عالمی دعوتی تحریک قائم فرمائی۔ ظاہر میں یہ ایک جماعت ہے، ایک نظم ہے، ایک تحریک ہے، مگر اس کے پیچھے بھی ایک ماں کا درد، ایک ماں کی قربانی، ایک ماں کی دعائیں شامل ہیں۔ دعوت کی تاریخ بھی ہمیں یہی سبق دیتی ہے: *ایک ماں کی دعا ہونی چاہیے* ۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  بچپن میں ڈاکوؤں کے سامنے بھی جھوٹ نہ بولنا، یہ کوئی وقتی نیکی نہیں تھی، یہ ماں کی گود میں دی گئی تربیت تھی۔ سچ بولنے کا وہ سبق جس نے ایک عبدالقادر (رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ )کو غوثِ اعظم (رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ )بنا دیا۔ یہ کردار یونہی نہیں بنتے، ان کے پیچھے بھی وہی حقیقت ہے: *ایک دُعاؤں والی ماں ہونی چاہیے* ۔

اور ذرا موجودہ دور کی مثال لیجیے۔ حرمِ کعبہ کے امام، شیخ عبدالرحمن السدیس حفظہ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کے متعلق روایت ہے کہ بچپن میں جب وہ شرارت کرتے تو ان کی ماں محبت اور دعا کے انداز میں کہا کرتی تھیں: "جا، تجھے اللہ حرم کا امام بنائے!" وہ جملہ ماں کی زبان سے بار بار ان کے لئے نکلا، اور دعا بن کر آسمانوں تک پہنچ گیا۔ جو ماں  بار بار یہ جملہ بولتی تھیں وہ راتوں میں اُٹھ کر اپنے بیٹے کے لئے کتنی رو رو کر  دُعائیں کرتی ھونگی کہ آج وہی بچہ حرمِ کعبہ کا امام ہے، دنیا میں کروڑوں لوگوں کے دل اس کی آواز سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ بھی کوئی محض اتفاق نہیں تھا، اس کے پیچھے بھی وہی راز ہے یعنی ایک ماں کی دلی دعائیں 

یہ تحریر کسی ایک شخصیت کی تعریف یا کسی ایک  کی وفات کا نوحہ نہیں، بلکہ ایک  پیغام ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں بہتر نسل چاہیے، ہمیں علماء  با عمل چاہیں ، ہمیں داعی الی اللہ چاہیں، ہمیں مصلح  فی الدین چاہیں  تو ھمیں یہ بھی ھر گز نہیں بھولنا چاھیے کہ نسلیں صرف اداروں سے نہیں بنتیں بلکہ اصل نسل ماں کی گود میں بنتی ہے۔

اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ پیر ذوالفقار آحمد نقشبندی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ   جیسے لوگ پیدا ہوں،امام بخاری رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  جیسے محقق آئیں، علی میاں رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  جیسے مفکر پیدا ہوں، مولانا الیاس رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  جیسے داعی اٹھیں، اور شیخ  عبدالرحمن السدیس حفظہ  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  جیسے امام سامنے آئیں تو پھر ہمیں اس حقیقت کو بھی  ماننا ہوگا: * اُن کی ماؤں جیسی  ایک ماں بھی ہونی چاہیے*