اولاد کی پرورش سے متعلق حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه کی چند ضروری ہدایات

اولاد کی پرورش والدین کے لئے سب سے زیادہ اھمیت کی حامل ھے کیونکہ اگر بچوں کی پرورش اور تربیت صحیح طریقے سے ھو گئی تو یہ نہ صرف والدین کے لئے سکون و اطمینان  کا باعث ھوگی بلکہ یہ اولاد کی  مستقبل کی کامیابی کی بھی ضمانت ھو گی اور پھر یہی بچے  اگے چل کر بہترین معاشرہ تشکیل دیں گے 

حکیم الاُمت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں اولاد کی پرورش و تربیت کے طریقے تحریر فرمائے ھیں جن میں سے کچھ ذیل میں درج کیے جا رھے ھیں ۔ ان کا مطالعہ یقئناً والدین کی لئے مفید ھو گا

(1) عورتوں میں عموماً یہ عادت ھوتی ہے کہ بچوں کو جن بھوت اور دوسری ڈراؤنی چیزوں سے ڈراتی ہیں یہ بہت ھی غلط بات ہے اس سے بچے کا دل کمزور ہوتا ہے۔

(2) ماں کو چاہیۓ بچے کو باپ سے ضرور ڈراتی رہے تاکہ بچہ یہ نہ سمجھے کہ مجھے کوئی پوچھنے والا نہیں ھے 

(2) اگر لڑکا ہو تو اسکے سر پر زیادہ بال مت بڑھاؤ اور اگر لڑکی ہے تو جب تک پردے میں بیٹھنے کے قابل نہ ہوجائے زیور مت پہناؤ۔ اس سے ایک تو جان کا خطرہ رہتا ہے اور دوسری بات کہ بچپن سے ہی زیور کا شوق دل میں ہونا اچھی بات نہیں۔

(3) بچوں کے ہاتھوں سے غریبوں کو کھانا، کپڑا پیسہ اور ایسی چیزیں دلوایا کریں۔ اسی طرح کھانے پینے کی چیزیں انکے بھائی بہنوں کو یا اور بچوں کو تقسیم کرایا کرو تاکہ آپکے بچوں میں سخاوت کی عادت پیدا ہو۔

(4)  ضرورت دے زیادہ کھانے والے کی برائی بچوں کے سامنے کیا کرو لیکن کسی کا نام لیکر نہیں کہ فلاں زیادہ کھاتا ہے بلکہ اس طرح کے جو زیادہ کھاتے ہیں لوگ انہیں پیٹو یا حبشی کہتے ہیں  انہیں بیل جانتے ہیں وغیرہ وغیرہ

(5) اگر لڑکا ہو تو سفید کپڑے کی رغبت اسکے دل میں پیدا کیجئے اور شوخ رنگین لباس سے اسکو  اس طرح نفرت دلائیں کہ ایسے کپڑے تو لڑکیاں پہنتی ہیں۔  تم  تو ماشاءاللہ مرد ہو اور مرد سفید کہڑوں میں اچھا لگتا ھے ۔  ہمیشہ اسکے سامنے ایسی باتیں کیا کریں۔

(6) اگر لڑکی ہو تو بہت تکلف کے کپڑوں کی اسے عادت مت ڈالئے بلکہ سادہ کپڑوں کی عادت ڈالیں 

(7) بچوں  کو لاڈ پیار ضرور کریں لیکن ان کی سب ضدیں پوری مت کریں۔ اس سے بچے کا مزاج بگڑ جاتا ہے اور پھر اپنی ھی بات منوانے کی عادت پختہ ھو جاتی ھے 

(8) بچوں کو چلاً کر بولنے سے روکیے ، خاص طور پر اگر لڑکی ہے تو اُسے چلّانے پر خوب ڈانٹئے۔ ورنہ بڑی ہوکر یہ پختہ عادت ہوجائے گی۔

(9) اپنے بچوں کو  ایسے بچوں کے ساتھ کھیلنے اور انکے ساتھ بیٹھنے سے سے مکمل طور پر بچائیں جن بچوں کی عادتیں خراب ہیں یا پڑھنے لکھنے سے بھاگتے ہیں یا تکلف کے کھانے کے اور کپڑے کے عادی ہیں، گالم گلوچ کرتے ہیں  ورنہ یہ اثرات غیر محسوس طریقہ سے آپ کے بچوں میں بھی آ سکتے ھیں 

(10) اپنے بچوں کو  نرمی اور پیار سے ان باتوں سے نفرت دلاتے رہو:-مثلاً   غصہ کرنا ، جھوٹ بولنا، کسی کو دیکھ کر جلنا ،      کسی کی حرص کرنا، چوری کرنا، چغلی  کرنا ، بے فائدہ زیادہ باتیں کرنا۔ بات بات پہ ہنسنا یا زیادہ ہنسنا، کسی کو دھوکہ دینا، بھلی بری بات کا نہ سوچنا۔ کسی کی چیز بغیر آجازت کے لینا  وغیرہ ۔  جب بچے سے اس طرح کی کوئی غلطی سرزد ھو جائے  تو اسے فوراً   روکیں اور اس پر تنبیہ کیجئے کہ دوبارہ ایسی حرکت نہ کرے

(11) اگر بچہ  کوئی  چیز توڑ پھوڑ دے یا کسی کو مار بیٹھے تو بچے کو ڈانٹو اور ھلکی پھلکی سزا دو تاکہ وہ پھر ایسا نہ کرے۔ ایسی باتوں میں زیادہ  پیار دلار بچے کو بگاڑ  دیتا ہے۔

(12) بچہ جب سات برس کا ہوجائے تو اُسے نماز کی عادت ڈالو۔ جب مدرسہ میں جانے کے قابل ہوجائے تو سب سے پہلے قرآن مجید شروع کرواؤ ۔ 

(13) بہت بچے کو صبح سویرے سونے نہ دو اور  ھمیشہ جلدی اٹھنے کی عادت ڈالیں۔

(14) کبھی کبھی بچوں کو اپنے پاس بٹھا کر نیک لوگوں کی حکایتیں سنایا  کرو اس سے بچی میں نیک کاموں کا شوق پیدا ھو جاتا ھے ۔ 

(15) بچوں کو نہ تو ایسی کتابیں لا کر دو اور نہ ھی ایسی کتابیں دیکھنے دو جن میں عاشقی معشوقی کی باتیں ہوں یا بےہودہ قصے اور غزلیں وغیرہ ہوں۔

(16) مکتب سے آنے کے بعد بچے کو کسی قدر دل بہلانے واسطے کچھ دیر کھیلنے دو تاکہ اسکی طبعیت کند نہ ہوجائے ۔ لیکن کھیل ایسا ہو جس میں کوئی گناہ نہ ہو اور بچے کو چوٹ لگنے کا اندیشہ نہ ہو۔

(17) آتش بازی، یا باجہ یا فضول چیزیں مول لینے کے لیۓ بچے کو پیسے مت دو اور کھیل تماشے دکھانے کی عادت مت ڈالو۔

(آج کے دور کے اعتبار سے بے مقصد موبائل وہ بھی اسمارٹ فونز ، ویڈیو گیمز ، ایسے کھیل جن سے صحت کا نقصان ہو اور صرف پیسوں کا ضیاع ہو ، اپنے گلی محلے ، اسکولز ،کالجز یا یونیورسٹیز کے ایسے دوستوں اور سہیلیوں کے ساتھ گھومنے کےلیے پیسے اور اجازت دینا وغیرہ سب شامل ہیں۔)

(18) اولاد کو ضرور کوئی ایسا ہنر سکھلا دو  جس سے ضرورت اور مصیبت کے وقت چار پیسے حاصل کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا گذارہ کرسکے۔

(19) لڑکیوں کو بھی علم سکھاؤ اور کم از کم اتنا لکھنا پڑھنا ضرور سکھا دو  کہ ضروری خطوط  لکھ اور پڑھ سکیں اور گھر کا حساب کر سکیں۔

(20) بچوں کو اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنے کی عادت ڈالو تاکہ وہ ناکارہ اور سست نہ ہوجائیں۔ انہیں کہیں رات کو اپنابستر خود بچھائیں اور صبح اٹھ کر خود تہہ کرکے احتیاط سے رکھ دیں۔ یہ عادتیں ان کی آنے والی زندگی میں اُن کے کام آئیں گی 

(21) لڑکیوں کو یہ ہدایات دیں کہ جو کام  کھانے پکانے، سینے پرونے, برتن اور کپڑے دھونے  وغیرہ کے ہیں انہیں نہایت دل لگا کر سیکھیں۔

(22) جب بچے سے کوئی اچھی بات ظاہر ہو یا امتحان میں آچھے نمبر حاصل کرے تو لازمی اسے شاباش دو، پیار کرو اور کچھ انعام بھی ضرور دو تاکہ اسکی حوصلہ آفزائی ھو اور جب بچے میں کوئ بری بات دیکھو تو بچے کو کسی کے سامنے نہیں بلکہ تنہائی میں سمجھاؤ  کہ دیکھو بیٹا ! اچھے بچے ایسا کام نہیں کرتے اور ایسا کرنے والے کو لوگ بہت برا جانتے ہیں۔ اور اگر بچہ دوبارہ غلط عمل دہرائے تو بچے کو ھلکی پھلکی مناسب سزا  دو ۔ 

(23) بچے کو کوئی بھی کام چھپا کر مت کرنے دیں۔ کھیل ہو یا کھانا ہو یا شغل کا کوئی بھی کام ہو۔

(24) گھر میں کوئی کام محنت کا اس کے ذمہ مقرر کریں جس سے وہ صحت مند اور باہمت رہے اور اُس میں سستی نہ آنے پائے.

(25) بچوں کو چلنے میں تاکید کریں کہ بہت جلدی نہ چلیں اور چلتے ہوئے نگاہ اوپر اٹھا کر نہ چلے۔

(26)  اپنے بچے کو عاجزی اختیار کرنے کی عادت ڈالیں، زبان سے، چال سے اور برتاؤ سے۔ شیخیاں نہ مارے۔ اُسے عاجزی کے فضائل و فوائد بتاتے رھیں کہ عاجز بندے سے اللہ پاک بہت خوش ھوتے ھیں 

(27)  کھبی کھبار بچے  کوکچھ پیسے بھی دیا کرو کہ وہ اپنی مرضی کے موافق خرچ کیا کرےتاکہ اس کے اندر شعور پیدا ھو مگر اسکو یہ عادت ڈالو کہ وہ آپ سے چھپا کر کچھ نہ خریدے۔

(*نوٹ) اس پیغام کو دوسروں تک بھی پہنچائیے ممكن ھے اللہ تعالٰی کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے*

Share: