"تبلیغی جماعت کی اس صدی کی جدوجہدکے 100سال"

 تبلیغی جماعت کا آغاز نومبر 1926 (جما دی الاول 1345) میں ہوا۔ نومبر 2023 (جمادی الاول 1445) تک اسلامی کیلنڈر کے مطابق تبلیغی جماعت کے 100 سال مکمل ہوچکے ہیں لہذا اس حوالے سے تبلیغی جماعت کے قیام سے لیکر اب تک تک جدوجہد اور اس کے نظم کے حوالے سے چیدہ چیدہ معلومات قارئین کے استفادہ کے شائع کی جارہی ہیں۔


بانی تبلیغی جماعت مولانا الیاس کاندھلویؒ


عالمی تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس کاندھلوی بن مولانا محمد اسماعیل 1886 میں کاندھلہ، مظفر نگر، یوپی، انڈیا میں پیدا ہوئے۔

مولانا الیاس کا تعلق ایک نہایت متقی گھرانے سے تھا۔ مولانا الیاس کے والد مولانا محمد اسماعیل پیاسے مزدوروں کو پانی پلانے کے لیے سڑکوں پر انتظار کرنے کے لیے جانے جاتے تھے۔ پھر 2 رکعت نماز پڑھتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کرتے کہ اس نے خدمت کا موقع دیا۔ ایک دن اس کی ملاقات میوات کے کچھ مزدوروں سے ہوئی جو کام کی تلاش میں تھے۔ انھوں نے ان سے پوچھا کہ وہ اس طرح کے کام سے کتنا کمائیں گے اور اتنی ہی رقم کی پیشکش کی کہ اگر وہ اس کے بجائے ان سے کلمہ اور نماز سیکھیں گے۔ وہ راضی ہو گئے اور تب سے تقریباً 10 میواتی طلباء ہر وقت ان کے ساتھ رہنے لگے اس طرح بنگلہ والی مسجد میں مدرسہ کا آغاز ہوا۔

مولانا الیاس ؒ کاپورا گھرانہ انتہائی متقی اور پرہیزگار تھا ان کے بھائی مولانا محمد نے اپنی وفات سے پہلے 16 سال تک ایک بھی تہجد کی نماز نہیں چھوڑی۔ وتر کی نماز پڑھتے ہوئے سجدے میں وفات پائی۔مولانا الیاس کی والدہ بی صفیہ روزانہ 5000 مرتبہ درود شریف، 5000 مرتبہ اسم ذات اللہ، 5000 مرتبہ، بسم اللہ الرحمن الرحیم 1000 مرتبہ، حسبنا اللہ ونعم الوکیل 1000 مرتبہ، منزل اور متعدد دیگر ذکر روزانہ ہزار مرتبہ پڑھتی تھیں۔. رمضان کے دوران، اس سب سے بڑھ کر، وہ ہر روز پورے قرآن کے علاوہ مزید 10 پاروں کی تلاوت کرتی تھیں۔ اس طرح وہ رمضان المبارک میں 40 مرتبہ قرآن پاک کی تلاوت مکمل کریں گی۔

مولانا الیاسؒ خود بھی بڑے پرہیزگار تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اکثر اوقات ذکر الٰہی میں گھنٹوں تنہائی میں رہتے تھے۔ جب وہ نظام الدین میں تھے تو بعض اوقات وہ عرب سرہ کے دروازے پر دوپہر تک گھنٹوں قیام کرتے تھے، جہاں اللہ کے عظیم ولی حضرت نظام الدین اولیاء عبادت کیا کرتے تھے۔


تبلیغی جماعت کی تاریخ

8 فروری 1918 – مولانا الیاس (32 سال) نے بنگلے والی مسجد میں رہائش اختیار کی۔ اس زمانے میں یہ صرف ایک چھوٹی سی مسجد تھی جس کے اندر ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ گھنے جنگل سے گھرا ہوا تھا۔ نلکے کے پانی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اور پانی کہیں اور سے لانا پڑتا تھا۔ وہاں صرف 4 سے 5 لوگ نماز پڑھتے تھے جو سب ان کے شاگرد تھے۔ مولانا الیاسؒ مسجد میں ذکر و اذکار میں زیادہ وقت گزارتے تھے۔

مدرسہ میں کھانا اس قدر ناقص تھا کہ انہیں کئی بار بھوکا رہنا پڑا، لیکن مولانا الیاس نے خوش دلی سے یہ سب برداشت کیا۔ انتہائی غربت نے اس پر کوئی اثر نہیں ڈالا کیونکہ جس چیز نے اسے پریشان کیا وہ فراوانی اور خوشحالی کا امکان تھا۔


تبلیغی جماعت کی تاریخ

1920ء – مولانا الیاس مسلمانوں کی عمومی جہالت اور بے دینی کو دیکھ کر پریشان ہوئے، یہاں تک کہ دارالعلوم کے طلبہ میں بھی۔ ایک دفعہ مولانا کے سامنے ایک نوجوان کو اس تعریف کے ساتھ پیش کیا گیا کہ اس نے میوات کے فلاں مکتب میں قرآن مجید کی تعلیم مکمل کی ہے۔ مولانا یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کی داڑھی منڈوائی گئی ہے اور ان کی شکل وصورت اور لباس سے کوئی نہیں جان سکتا تھا کہ وہ مسلمان ہیں۔

29 اپریل 1926 – مولانا الیاس (40 سال کی عمر میں) کئی علماء کرام کے ساتھ حج پر گئے۔

20 جولائی 1926 – مولانا الیاس کا حج گروپ اس دن ہندوستان واپس آنا تھا لیکن مولانا الیاس اس قدر پریشان اور بے چین تھے کہ انہیں مدینہ میں مزید قیام کرنے کی شدید خواہش محسوس ہوئی۔

1926 – ایک رات مدینہ کے مقدس شہر میں، مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ مسجد نبوی کے اندر سو گئے۔ مولانا الیاس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ رہے ہیں کہ ”ہندوستان لوٹ جاؤ اللہ سبحانہ وتعالیٰ تم سے کام لے گا”۔

شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا فرماتے ہیں کہ ان کے رفقاء ہندوستان واپس لوٹ گئے لیکن ان کا دل واپسی کونہیں کررہا تھا انھوں نے اللہ والے سے اپنی بے چینی کاتذکرہ کیاتواس نے کہاکہ یہ تونہیں کہاگیا کہ تم کام کرو گے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ تم سے کام لیا جائے گااس اللہ والے کی بات سن کر ان کواطمینان ہوگیااور ہندوستان واپس آکر مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ سے دعوت والے کام اور اس کی محنت کے متعلق استفتاء کرکے باقاعدہ کام کا آغاز کیا۔1926 نومبر میں 40 سال کی عمر میں مولانا الیاس حج سے ہندوستان واپس آئے اور تبلیغی کام کا باقاعدہ آغاز کیا۔

28 اپریل 1930 – مولانا الیاس نے دارالعلوم سہارنپور میں (پہلی بار) مدرسہ کے سالانہ پروگرام میں دعوت کی کوشش پیش کی۔

1932 – مولانا الیاس کے دعوت اور تبلیغ کا کام شروع کرنے کے 6 سال بعد پہلی جماعت قائم ہوئی۔ 2 جماعتیں یہ تھیں:

مولانا حافظ مقبول کی جماعت – کاندھلہ بھیجی گئی۔

مولانا داؤد میواتی کی جماعت – سہارنپور بھیجی گئی


تبلیغی جماعت کے 6 نکات

2 اگست 1934 – ایک مشورہ کیا گیا کہ یہ کوشش کیسے کی جائے۔ مولانا الیاس (48 سال) اور مولانا زکریا (46 سال) نے مشورہ کروایا۔ یہ وہ مشورہ ہے جس میں تبلیغ کے 6 نکات پر اتفاق کیا گیا تھا (واضح رہے کہ اصل میں مولانا الیاس کے 60 نکات تھے)۔ آج تک تبلیغ کے 6 نکات یہ ہیں:

کلمہ

نماز

علم و ذکر

اکرام مسلم

تصحیح نیت

دعوت و تبلیغ


8 نومبر 1939 – مولانا ہارون کاندھلوی بن مولانا یوسف بن مولانا الیاس (مولانا سعد کے والد) پیدا ہوئے۔

28 مئی 1941ء مولانا زکریا کے بیٹے مولانا طلحہ کی پیدائش ہوئی۔

1941 30 نومبر – میوات میں پہلا اجتماع منعقد ہوا جہاں 25,000 شرکاء آئے۔ مولانا احمد مدنی اور مفتی کفایت اللہ سمیت بہت سے علمائے کرام تشریف لائے


مستورات کی جماعت

1942 – پہلی مستورات (خواتین) جماعت قائم کی گئی جہاں مولانا داؤد میواتی امیر تھے۔ پہلے تو مولانا یوسف اور مولانا انعام الحسن سمیت کئی علمائے کرام ایسی جماعت سے متفق نہیں تھے۔ تاہم اس طرح کی جماعت کی وضاحت اور مکمل ترتیب (طریقہ) بتانے کے بعد انہوں نے اس کی مکمل تائید کی ہے۔


حاجی عبدالوہابؒ کی بستی نظام الدین اولیاء آمد:

جنوری 1944 میں حاجی عبدالوہاب (اس وقت 22 سال کی عمر کے تھے کہ) نظام الدین مرکز گئے اور دعوت کے کام میں شامل ہوئے۔ مولانا الیاس کے انتقال سے پہلے وہ 6 ماہ تک مولانا الیاس کی صحبت میں رہے۔


مولانامحمد الیاس کی بیماری اور ان کی نیابت کی فکر

1944 مئی تا جولائی – اس پورے مہینے میں مولانا الیاس کی بیماری دن بدن بڑھتی گئی۔

اس وقت کے بزرگوں اور ممتاز علما کے درمیان ایک مشترکہ فکر تھی، یعنی؛ مولانا الیاس کا انتقال ہوگیا تو ان کی وفات کے بعد دعوت و تبلیغ جماعت کی قیادت کون سنبھالے گا؟

ان راتوں میں تقریباً تمام نامور علماء جیسے؛ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ،شیخ ابوالحسن علی ندوی، مولانا شاہ عبدالقادر رائیپوری، مولانا ظفر احمد تھانوی، حافظ فخرالدین،صوفی مقبول احمد گنگوہی ، اور ان سے محبت کرنے والے دوسرے علماء، جو مولانا الیاس سے تبلیغی یا ذاتی طور پر رابطے میں تھے مسجد نظام الدین مرکز میں جمع ہوئے اور رات بسر کی۔

ان علماء کی نظر میں، دعوت و تبلیغ کی جماعت میں مولانا الیاس کی امارت کی جگہ لینے کے لیے سب سے موزوں ترین شیخ الحدیث مولانا زکریاؒ ہیں۔مولانا محمد زکریا واحد شخص تھے جو علم، روحانیت، عمل، اعلیٰ درجے اور حکمت دونوں لحاظ سے مولانا الیاس کی جگہ جماعت دعوت اور تبلیغ کا امیر بنانے کے اہل تھے۔

اس کے بعد معزز علماء کرام شیخ الحدیث مولانا زکریا (46 سال) کے پاس آئے اور ان سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مولانا زکریا نے نرمی

سے انکار کیا اور جواب دیا کہ آپ کو اس کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کا انتظام کر دے گا۔


مولانا یوسف کاندھلوی ؒ کی بطور جانشین نامزدگی:

11 جولائی 1944 – مولانا الیاس کے انتقال سے دو دن پہلے مولانا الیاس نے مولانا زکریا اور شیخ عبدالقادر رائے پوری کو مشاورت کے لیے بلایا۔ جمع ہونے کے بعد مشورے میں انہوں نے علمائے کرام اور مذہبی شخصیات کے سامنے کہا کہ ”فوراً ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو میری موت کے بعد میری جگہ لیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ میرے سامنے بیعت کریں۔ میری پسند کے چھ لوگ ہیں۔ مولانا حافظ مقبول، مولانا داؤد میواتی، مولانا احتشام الحسن، مولانا یوسف کاندھلوی، مولانا انعام الحسن، مولانا سید ردو حسن بھوپالی۔ ذاتی طور پر، میں مولانا حافظ مقبول کو تجویز کرتا ہوں، کیونکہ وہ طویل عرصے سے ذکر اور اس کوشش دونوں میں شامل ہیں۔ دوسری طرف مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری نے مولانا یوسف کو دعوت و تبلیغ کا اگلا امیر بنانے کی تجویز دی۔ جب یہ دونوں آپشن سامنے آئے تو مولانا الیاس نے کہا، ” میواتیوں کے ساتھ یوسف سے بہتر کون سلوک کر سکتا ہے؟” ان خیالات کی بنیاد پر، مولانا عبدالقادر رائے پوری نے بالآخر مولانا یوسف کو دعوت و تبلیغ کا امیر بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت مولانا یوسف کی عمر 27 سال تھی۔

مولانا الیاس نے کہا کہ اگر یہ واقعی آپ کا انتخاب ہے تو اللہ تعالیٰ خیر و برکت عطا فرمائے۔ پہلے میرے دل کو سکون نہیں تھا لیکن اب میری روح بہت پرسکون محسوس کر رہی ہے۔ مجھے امید ہے کہ میرے جانے کے بعد یہ کام آگے بڑھتا رہے گا۔“

پھر مولانا محمد زکریا اور مولانا الیاس نے مولانا یوسف کو دیئے گئے کاغذ پر لکھا۔ ”میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ لوگوں سے بیعت کرو۔”

مولانا محمد الیاس نے مولانا یوسف کو تحریری طور پر بیعت کرنے کی اجازت دی۔

13 جولائی 1944 – مولانا الیاس بنگلہ والی مسجد میں انتقال کر گئے اور انہیں بنگلہ والی مسجد، نظام الدین کے کور کے باہر دفن کیا گیا۔ مولانا محمد یوسف کو دعوت و تبلیغ کے تمام اراکین کی مشاورت سے دعوت و تبلیغ کا دوسرا امیر مقرر کیا گیا اور حلف لیا۔ مولانا محمدزکریا نے رسمی طور پر مولانا محمد الیاس کی پگڑی مولانا یوسف کے سر پر رکھی۔ مولانا محمد یوسف کا پہلا بیان ایک درخت کے نیچے، بنگلہ والی مسجد، نظام الدین کے صحن میں تھا۔


"تبلیغی جماعت کی تاریخ"

تبلیغ میں مولانا یوسف کا دور:


1946 – مولانا یوسف نے پہلی جماعت کو سعودی عرب میں حج کے موسم میں خصوصی طور پر کام کرنے کے لیے بھیجا تھا۔

1946 – مولانا یوسف نے مولانا عبید اللہ بلیاوی کو مدینہ میں مقامی طور پر رہنے اور وہاں عربوں کے درمیان دعوت کا کام شروع کرنے کے لیے بھیجا۔ بعد میں مولانا سعید احمد خان ان کے جانشین ہوئے۔


مولانا سعید احمد خان

1947 – حاجی عبدالوہاب (اس وقت 25 سال) نے لاہور، پاکستان میں رائیونڈ مرکز میں رہائش اختیار کی۔

رائے ونڈ مرکز (تبلیغی جماعت کی تاریخ)


رائے ونڈ مرکز:

15 اگست 1947 ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازعہ شروع ہوا۔ ہزاروں مسلمانوں نے خوف کے مارے اسلام چھوڑ دیا۔ کئی جانیں ضائع ہوئیں۔ تمام مشائخ نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعائیں مانگیں۔ میوات کی ایک بڑی جماعت نے نظام الدین مرکز میں پناہ لی۔ حضرت جی مولانا یوسف، مولانا منظور نعمانی، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، اور مولانا زکریا نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کو ہندوستان نہیں چھوڑنا چاہئے۔ یا تو وہ رہیں یا مر جائیں۔ مولانا زکریا نے فتویٰ کونسل پر زور دیا کہ وہ مسلمانوں کے لیے ہندوستان نہ چھوڑنے کا فتویٰ جاری کرے۔ اگر یہ فتویٰ جاری نہ ہوتا تو شاید آج ہندوستان میں مسلمان نہ ہوتے۔

1947 اگست مولانا محمد یوسف نے مرتد بن جانے والے مسلمانوں کو واپس اسلام کی دعوت دینے کے لیے بہت سی سخت گیر جماعتیں بھیجیں۔ یہ جماعتیں اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اللہ کی راہ میں شہید ہونے کے لیے تیار ہو گئیں۔

1947 15 ستمبر – مولانا یوسف کی اہلیہ کا نماز مغرب کی ادائیگی کے دوران سجدہ کے دوران انتقال ہوگیا۔ ان کے بیٹے مولانا ہارون کی عمر اس وقت صرف 8 سال تھی۔

26 دسمبر 1947 – پاکستان کی ہندوستان سے علیحدگی کے بعد کراچی میں پہلا اجتماع ہوا۔

13 مارچ 1948 – پاکستان میں ایک اجتماع ہوا جس میں مولانا یوسف نے پاکستان کی ہندوستان سے علیحدگی کے بعد پہلی بار شرکت کی۔ اس اجتماع کے دوران فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کا مرکز رائے ونڈ لاہور ہوگا۔

1949 – مولانا محمد زکریا نے کتاب فضائل صدقات مکمل کی۔

30 مارچ 1950 مولانا زبیر الحسن کاندھلوی بن مولانا انعام الحسن پیدا ہوئے۔

1954 11 جنوری – پہلا اجتماع ڈھاکہ، مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے) میں منعقد ہوا۔ مولانا یوسف اور مولانا انعام الحسن نے اجتماع میں شرکت کی۔

10 اپریل 1954 – رائیونڈ میں پہلا اجتماع ہوا۔

1960 – مولانا یوسف نے حیات صحابہ کی پہلی کاپی شائع کی۔

16 اگست 1962ء مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری کا انتقال ہوا۔ وہ نہ صرف ایک مشہور صوفی شیخ تھے بلکہ دہلی سے سعودی عرب جانے والی تیسری پیدل جماعت قافلہ کے امیر بھی تھے جہاں اس جماعت میں ایک نوجوان مولانا سعید احمد خان بھی تھے۔

 مولانا یوسف  1965 میں جمعہ کو 14.50 پر لاہور میں انتقال کر گئے۔ اس وقت ان کی عمر 48 سال تھی۔ مولانا انعام الحسن نے سورت یاسین کی تلاوت کی۔ مولانا یوسف آخری سانس تک شہادت کا ورد کرتے رہے۔ انہیں اپنے والد مولانا محمد الیاس کے مقام کے پاس دفن کیا گیا۔


مولانا انعام الحسن کا دور:

12 اپریل 1965 – ایک مشورہ مولانا محمد زکریا نے کروایا۔ اس مشورہ میں یہ طے پایا کہ مولانا انعام الحسن کو دعوت و تبلیغ کا تیسرا امیر مقرر کیا جانا ہے۔ مشورے کے نتائج کا اعلان مولانا فخرالدین دیوبندی نے مولانا عمر پالنپوری کے بیان (گفتگو) کے بعد کیا۔

مولانا ہارون نے بھی اس فیصلے کو خوشی سے قبول کیا – مولانا محمد یوسف ؒکے فرزند مولانا ہارون خود خوش تھے اور ان لوگوں کے اصرار سے متاثر نہیں ہوئے جو انہیں امیر بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے مشورے کے فیصلے کو کھلے دل سے قبول کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے مشورے کے فیصلے کو ماننے کی اہمیت پر بیانات بھی دیے اور جو بھی فیصلہ ہوا وہی صحیح ہے۔

3 اپریل 1965 – مولانا انعام الحسن کی بیعت شروع ہوئی۔ مولانا انعام الحسن کو دعوت و تبلیغ کا امیر منتخب کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ بچپن سے لے کر وفات تک مولانا یوسف کے سب سے قریبی دوست تھے۔ اس کے علاوہ مولانا انعام الحسن بھی مولانا الیاس کے دست راست تھے۔ اور مولانا محمد الیاس رح سے تفصیلی سلوک طے کرکے خلافت بھی پائی تھی۔ اور وہ مولانا الیاس رحمہ اللہ کے نام سے ہی بیعت بھی لیا کرتے تھے۔ وہ مولانا الیاس کے ساتھ اپنے زیادہ تر دعوتی سفروں میں ساتھ رہے، اس طرح دعوت کے کاموں کو سمجھتے رہے۔

10 مئی 1965 – مولانا سعد کاندھلوی بن مولانا ہارون پیدا ہوئے۔

21 اگست 1967 – مولانا انعام الحسن نے دعوت و تبلیغ کے امیر مقرر ہونے کے بعد بیرون ملک اپنا پہلا دعوتی سفر کیا۔ یہ سری لنکا کا اجتماع تھا جو 26 سے 30 اگست کے درمیان کولمبو میں منعقد ہوا۔

1967 نومبر – پہلا ٹونگی اجتماع مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش کی تشکیل سے پہلے) میں منعقد ہوا۔

1969 – مولانا ابراہیم دیولہ 36 سال کی عمر میں اپنے 1 سالہ خروج کے لیے ترکی، اردن اور عراق گئے۔ خروج کی مدت 19 ماہ تک بڑھا دی گئی۔23 اپریل 1973 – مولانا محمدزکریا نے 75 سال کی عمر میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔

28 ستمبر 1973 – مولانا ہارون کاندھلوی بن مولانا یوسف (مولانا محمد سعد کے والد) 35 سال کی عمر میں انتقال کر گئے جب انہیں ایک بیماری نے لپیٹ میں لیا اور 13 دن تک ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ ان کی نماز جنازہ  مولانا انعام الحسن نے پڑھائی۔ اس وقت ان کے بیٹے مولانا محمد سعد کی عمر 8 سال تھی۔

تا حیات مولانا عبید اللہ بلیاوی ، مولانا اظہار الحسن نانا جان اور مولانا انعام الحسن صاحب نے مولانا محمد سعد کاندھلوی کی احسن انداز میں تربیت فرمائی۔۔


9 اگست 1974 – مولانا زبیر (عمر 25) نے اللہ کی راہ میں ایک سال کا آغاز کیا۔

10 فروری 1978 – مولانا محمد زکریا (جو مدینہ میں مقیم ھو چکے تھے) نے باضابطہ طور پر مولانا زبیر کو اپنے طریقہ (چشتیہ ) میں بیعت کی اجازت دی۔ یہ تقریب مسجد نبوی کے سامنے منعقد ہوئی۔

مولانا زبیر نے 4 مشائخ سے طریقت کی اجازت حاصل کی ہے: (1) مولانا انعام الحسن، (2) مولانا زکریا، (3) مولانا سعید ابوالحسن علی ندوی، اور (4) مولانا افتخار۔ الحسن سے، آپ کی انتہائی پرہیزگاری کی وجہ سے اللہ نے عام مقبولیت نصیب فرما رکھی تھی،

27 جولائی 1980ء مولانا حافظ مقبول کا انتقال ہوا۔ وہ 1932 میں مولانا الیاس کی تشکیل کردہ پہلی جماعت کے امیر تھے اور ان کے جانشین (اگلے امیر) کے طور پر مولانا الیاس کا پسندیدہ انتخاب تھا۔ تاہم مولانا شاہ عبدالقادر رائیپوری نے مولانا یوسف کی امارت کا بجا فیصلہ کیا۔

24 مئی 1982 – مولانا زکریا کاندھلوی کا مدینہ منورہ میں انتقال ہوا (84 سال کی عمر میں) انہیں قبر صحابہ میں ‘ جنت البقیع ‘ میں سپرد خاک کیا گیا۔ اس کے منہ سے آخری الفاظ تھے؛ ”اللہ… اللہ“۔ آپ کا انتقال مغرب سے پہلے 17:40 پر ہوا اور اسی دن عشاء کے بعد تدفین ہوئی۔


تبلیغی جماعت کی تاریخ

باقی قبرستان

4 نومبر 1983ء پاکستان میں رائے ونڈ اجتماع منعقد ہوا جس میں تمام بزرگوں نے شرکت کی۔ اس اجتماع کے دوران تبلیغ کے لیے شوریٰ نظام رکھنے کا تصور سب سے پہلے مولانا انعام الحسن نے عالمی مشورے کے دوران پیش کیا تھا جو 12 نومبر کو ہونے والے اجتماع کے ایک ہفتہ بعد منعقد ہوا تھا۔

اس کے بعد سے مولانا انعام الحسن نے ہندوستان اور دنیا کے کئی حصوں میں تمام جگہوں پر شورٰی قائم کیں۔

20 مئی 1993 – مولانا انعام الحسن کی حالت بگڑ گئی۔ وہ مکہ میں گر گئے۔ 1990 کے بعد سے یہ ساتویں مرتبہ تھی کہ وہ گرے تھے۔

مئی 1993 – حج کے موسم میں مکہ میں مولانا انعام الحسن نے مفتی زین العابدین، مولانا سعید احمد خان، حاجی افضل، حاجی عبدالمقیت، حاجی عبدالوہاب اور کئی دوسرے بزرگوں سے گفتگو کی: ” آپ کو معلوم ہے کہ میری طبیعت خراب ہو رہی ہے۔ میری بیماری کی وجہ سے بدتر ہے۔ یہ کام پہلے ہی پوری دنیا میں پھیل چکا ہے اور اب میرے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے لیے میں ایک شورٰی بنانا چاہتا ہوں جو دعوت کے کام میں مدد کرے۔ ”

14 جون 1993 – نظام الدین مرکز میں، تمام بزرگ مولانا انعام الحسن کے کمرے میں جمع ہوئے۔ وہ تھے: مولانا سعید احمد خان، مفتی زین العابدین، حاجی افضل، حاجی عبدالمقیت، حاجی عبدالوہاب، مولانا اظہار الحسن، مولانا عمر پالنپوری، اور مولانا زبیر۔اور مولانا محمد سعد کاندھلوی۔

حضرت مولانا انعام الحسن نے حاضرین سے فرمایا کہ اب میری صحت کا حال آپ کو معلوم ہے۔ میری صحت مسلسل گرتی چلی جا رہی ہے جبکہ یہ کام بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ میں اب یہ کام خود سے نہیں سنبھال سکتا۔ ہمیں مل کر کام کرنا ہے۔ پھر فرمایا: اب سے تم میری شوریٰ ہو۔ اور دو مزید شامل کرلیں۔ میانجی محراب اور مولانا محمد سعد کاندھلوی ۔ انشاء اللہ ان دس شورٰی ارکان سے یہ کام چلتا رہے گا۔


شوریٰ اس طرح قائم ہوئی: (1) مولانا سعید احمد خان، (2) مفتی زین العابدین، (3) حاجی افضل صاحب ، (4) حاجی عبدالمقیت، (5) حاجی عبدالوہاب، (6) مولانا اظہار الحسن، (7)۔) مولانامحمد عمر پالنپوری، (8) مولانا زبیر، (9) میاجی محراب میواتی، اور (10) مولانا محمد سعد۔


1993 مولاناانعام الحسن کے شورائی نظام اور فیصل کے تقرر کا آغاز

شوریٰ بننے کے بعد مولانا سعید احمد خان نے تمام مقررہ شوریٰ کے سامنے مولانا انعام الحسن سے پوچھا کہ جب آپ یہاں ہیں تو آپ ہمارے امیر اور فیصل ہیں۔ لیکن اگر آپ نہیں ہیں تو ہم فیصلہ کیسے بنائیں گے؟” مولانا انعام الحسن نے جواب دیا کہ آپ میں سے باری باری فیصل کا انتخاب کریں۔

ساری زندگی مولانا زبیر الحسن دائیں اور مولانا محمد سعد کاندھلوی حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب کے ساتھ تمام سفروں میں شریک رھا کرتے تھے۔


پاکستان میں تبلیغی جماعت کے ذمہ داران کی تقرری


تبلیغی جماعت پاکستان کے امیر اول الحاج شفیع محمدقریشی ؒ

قیام پاکستان کے بعد حضرت جی مولانا محمد یوسف کی طرف سے حاجی عبد الوہاب صاحب کی تشکیل پاکستان کے لیے کی گئی ہے دوتین سال بعد جب پاکستان میں دعوت کے کا کام کو استحکام مل گیا تو پرانے ساتھیوں کی مشاورت سے الحاج محمد شفیع قریشی صاحب کو چار دسمبر 1950 کو پاکستان میں تبلیغی جماعت کا امیر بنایا گیا اور رائے ونڈ لاہور کو تبلیغی جماعت کا مرکز بنایا گیا۔ محمد شفیع قریشی متحدہ  ہندوستان میں 1904میں پیدا ہوئے قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور مدرسہ عربیہ تبلیغی مرکز زکریا مسجد راولپنڈی سے متصل رہائش اختیار کرلی۔ آپ اکیس سال تک امیررہنے کے بعد 19 دسمبر 1971 کو پشاور میں ایک سہ روزہ تبلیغی اجتماع کے دوران انتقال فرماگئے اس وقت ان کی عمر67برس تھی۔


تبلیغی جماعت پاکستان کے امیر دوم الحاج محمد بشیرؒ

مولانا محمداحسان الحق رائے ونڈ کے والد اور حضرت جی مولانا محمد یوسف کے قریبی ساتھی الحاج محمد بشیر کو محمد شفیع قریشی صاحب کے بعد تبلیغی جماعت پاکستان کا امیر نامزد کیا گیا آپ اپنی وفات 9 جون 1992 تک تبلیغی جماعت پاکستان کے امیر رہے۔


تبلیغی جماعت پاکستان کے امیرسوم حاجی عبدالوہابؒ صاحب

الحاج محمد بشیر صاحب کی وفات کے بعد حاجی عبدالوہاب صاحب کو تبلیغی جماعت پاکستان کا تیسرا امیر مقرر کیا گیا۔ حاجی صاحب کا تعلق پنجاب کے ضلع کرنال کے گاؤں راؤ گمتھلہ سے تھا آپ نے انبالہ سے میٹرک کرنے کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا جہاں سے پہلے ایف ایس سی پری میڈیکل اور اس کے بعد بی اے کیا ۔ آپ یکم جنوری 1944 کو تبلیغی مرکز نظام الدین تشریف لے گئے اور پورے چھ ماہ مولانا محمد الیاس ؒکی صحبت میں گزارے اور اس چھ ماہ کی صحبت نے آپ کی زندگی پر وہ نقوش ثبت کیے کہ آپ نے اپنی پوری زندگی اس کام کے لیے وقف کردی۔1954میں سالانہ تبلیغی اجتماع رائے ونڈ میں شرکت کے لیے آمد کے موقع پر جب حضرت جی مولانا محمد یوسفؒ نے پاکستان میں دعوت تبلیغ کی محنت کے لیے موت پر بیعت لی توسب سے پہلے حاجی عبدالوہاب صاحب کھڑے ہوئے اور عہد کیا کہ اس کے بعد وہ دعوت والی محنت کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کریں گے۔ 18 نومبر 2018 میں حاجی عبدالوہاب صاحب ؒرحلت فرماگئے حاجی صاحب کاجنازہ پاکستانی تاریخ کے بڑے جنازوں میں سے ایک تھا رائے ونڈ کے چاروں اطراف تیس چالیس کلومیٹر تک گاڑیوں کی لائنیں لگی ہوئی تھیں اور ہر شخص کی خواہش تھی کہ کسی طرح حاجی عبدالوہاب صاحب کے جنازے میں شرکت کی سعادت نصیب ہوجائے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان کے جنازے میں پندرہ بیس لاکھ لوگوں نے شرکت کی جبکہ پانچ چھ لاکھ افراد ٹریفک میں پھنسے ہونے کی وجہ سے جنازے میں شرکت سے محرو م رہ گئے۔


مولاناضیاء الحق نے ایک مرتبہ حاجی عبدالوہاب صاحب سے عرض کی کہ ہندوستان والے ہم سے پوچھتے ہیں کہ اگر حاجی صاحب کو کچھ ہوگیا تو پھر کیا ہوگا؟ ہم نے عرض کی کہ ہماری ترتیب یہ ہے کہ حاجی صاحب نہ ہوں تو مولانا نذرالرحمان صاحب فیصلے فرماتے ہیں اور اگر وہ بھی موجود نہ ہوں تو مولانا احمد بٹلہ صاحب مشورے کو لیکر چلتے ہیں اور اگر وہ بھی موجود نہ ہوں تو مولانا خورشید صاحب امور مشورہ کو لیکر چلتے ہیں۔ اس پر حاجی عبدالوہاب صاحب نے فرمایا کہ یوں ہی چلتے رہو۔ حاجی صاحب کا یہ فیصلہ شورٰی کے ارکان کو سنایا گیا تو سب اس پر متفق ہوگئے۔

منقول

Share:

علمائے حق و علمائے سوء


اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ 

Oإِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُور

 اللہ سے اُس کے بندوں  میں  وہی ڈرتے ہیں  جو علم والے ہیں ۔ بے شک  اللہ سب پر غالب، بے حد بخشنے والا ہے۔


 رسالت مآب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے اس  دنیا سے کوچ کرنے  کے بعد آپ کے سر چشمۂ ھدایت سے فیض یافتہ رشد و ھدایت  کے  تاباں ودرخشندہ ستارے صحابۂ کرام  اور پھر اُن کے بعد تابعین عظام و علمائے دین متین  نے امت مسلمہ کی ہرطرح کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا, اسی طریقے سے امت کی رہنمائی کا یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا، جب تک علمائے حق اس دھرتی پر موجود ہیں،اسوقت تک دین اسلام میں کوئی تحریف و تبدیلی نہیں ہوسکتی ، اس لیے علمائے حق نبئ کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے سچے وارثین ہیں، جن کے قلوب کی طرف علوم نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے روحانی تار کی جلوہ گری ہوتی رہتی ہے ، اس روحانی تار کا کنکشن کہیں اور نہیں بلکہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے ملتا ہے ، علمائے حق دنیا کی روشنی کے محتاج نہیں ہوتے ، یہی وہ جماعت ، جو نبی کے وارثین کی سچی جماعت ہے، لہذا آفتاب نبوت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے بعد اب یہی علمائے حق اس کے نائب اور علم نبوت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے ضامن اور محافظ ہیں ، جن سے نور ھدایت اور علم شریعت حاصل کیا جائے گا ۔

خوف اور خَشیَت کا مدار ڈرنے والے کے علم اور ا س کی معرفت پر ہے اور چونکہ مخلوق میں  سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں  علم حضور  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو ہے اس لئے آپ ہی مخلوق میں  سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں  ۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں  ہے’’ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشادفرمایا’’ اللہ عزوجل کی قسم ! میں  اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ جاننے والا ہوں  اور سب سے زیادہ اس کا خوف رکھنے والا ہوں ۔ 

لوگوں  کو چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا صحیح طریقے سے معرفت اور علم حاصل کریں  تاکہ ان کے دلوں  میں  اللہ تعالیٰ کا خوف زیادہ ہو ۔ علم والوں  کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں ، لہٰذا علماء کرام کو عام لوگوں  کے مقابلے میں زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے اور لوگوں  کو بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی ترغیب دینی چاہئے ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : صحیح معنوں  میں  فقیہ وہ شخص ہے جو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ کرے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر انہیں  جَری نہ کرے ، اللہ تعالیٰ کے عذاب سے انہیں  بے خوف نہ کر دے اور قرآن کے بغیر کوئی چیز اسے اپنی طرف راغب نہ کر سکے ۔ (تفسیر قرطبی )

ایک شخص نے اما م شعبی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ سے عرض کی’’مجھے فتویٰ دیجئے کہ عالِم کون ہے ؟ ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ نے فرمایا : ’’عالم تو صرف وہی ہے جو اللہ  تعالیٰ سے ڈرتا ہو ۔ اورحضرت ربیع بن انس رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جس کے دل میں  اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں  وہ عالم نہیں ۔ (تفسیر خازن )

علم والے بہت مرتبے والے ہیں  کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خَشیَت اور خوف کو ان میں  مُنْحَصَر فرمایا ،لیکن یاد رہے کہ یہاں  علم والوں  سے مراد وہ عالم ہیں  جو دین کا صحیح علم رکھتے ہوں  اپنے علم پر عمل کرنے والےھوں اوران کے عقائد و اَعمال درست ہوں ۔ اس آیت مبارکہ میں علماء سے مراد وہ لوگ نہیں ہیں جو محض تاریخ ، فلسفہ اور دنیاوی اور مروجہ علوم کے عالم ہوں ، بلکہ آیت مبارکہ میں اس سے مراد  وہ علماءِ دین ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے عالم ہوں ، قرآن ، حدیث اور فقہ کی کتب پر عبور رکھتے ہوں ان کو قدر ضروری احکام شرعیہ مستحضر ہوں اور ان کو اتنی مہارت ہو کہ وہ عقیدہ اور عمل سے متعلق ہر مطلوبہ مسئلہ کو اس کی متعلقہ کتابوں سے نکال سکتے ہوں اور ان کے دل میں خوف خدا اس قدر ہو جس کی بناء پر وہ علم کے تقاضوں پر عمل کرتے ہوں اور جو شخص عالم تو ھے لیکن بےعمل ھے اور خوفِ خدا کی صفت سے بھی محروم ھے تو وہ شخص عالم کہلانے کا مستحق نہیں ہے ۔ گو وہ بڑے سے بڑے دارالعلوم سے فارغ کیوں نہ ھوا ھو ۔ عالم وہ ھے جو قرآن و سنت کا علم رکھتا ھو اور اللہ تعالی سے ڈرتا ھو ۔ قطع نظر اس کے کہ وہ کسی دارالعلوم سے فارغ ھوا ھو یا نہ ھوا ھو اسکی مثالیں ھمارے زمانے میں بھی موجود ھیں ۔ حال ھی میں وفات پانے والے حضرت مولانا پیر ذوالفقار  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  باقاعدہ کسی دارالعلوم سے فارغ التحصیل نہیں تھے لیکن ان کے مریدوں اور خلفاء میں ھزاروں علماء کرام بلکہ دیوبند کے شیخ الحدیث تک شامل ھیں 

مالک بن مغول روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے شعبی سے پوچھا مجھے بتائیے کہ عالم کون ہے ؟ انہوں نے کہا عالم وہ جو اللہ کا خوف رکھتا ہو ۔ (سنن دارمی ) حسن بیان کرتے ہیں کہ فقیہ (عالم) وہ ہے جو دنیا سے بےرغبتی کرے، آخرت میں رغبت کرے، اس کو اپنے دین پر بصیرت ہو اور اپنے رب کی عبادت پر دوام اور ہمیشگی کرتا ہو ۔ (سنن دارمی )سعد بن ابراہیم سے پوچھا گیا کہ اہل مدینہ میں سب سے بڑا فقیہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہو ۔ (سنن دارمی) مجاہد نے کہا فقیہ وہ شخص ہے جو اللہ سے ڈرتا ہو ۔  (سنن دارمی  )حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ آیت پڑھی اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ  پھر فرمایا عالم وہ شخص ہے جو اللہ سے ڈرتا ہو ۔


علمائے دین کی فضیلت

حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو آدمی علم کی طلب میں کسی راستہ پر چلا ، اللہ اس کو جنت کے راستہ پر چلائے گا اور طالب علم کی رضا کے لئے فرشتے اپنے پر اس کے قدموں میں بچھاتے  ہیں اور آسمانوں اور زمینوں کی تمام چیزیں عالم کے لئے استغفار کرتی ہیں حتیٰ کہ پانی میں مچھلیاں بھی اور عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جیسے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے اور بیشک علماء انبیاء کرام کے وارث ہیں اور انبیاء کرام درہم اور دینار کے وارث نہیں بناتے وہ صرف علم کا وارث بناتے ہیں پس جس نے علم کو حاصل کیا اس نے بڑے حصے کو حاصل کیا ۔ (سنن الترمذی - سنن ابو دائود - سنن ابن ماجہ - مسند احمد ) 

حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا ایک ان میں سے عابد تھا اور دوسرا عالم تھا ، تب رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا ، بیشک اللہ اور اس کے فرشتے اور تمام آسمانوں اور زمینوں والے حتیٰ کہ چیونٹی اپنے بل میں اور حتیٰ کہ مچھلی بھی ، یہ سب نیکی کی تعلیم دینے والے کےلیے استغفار کرتے ہیں ۔۔ (سنن الترمذی )

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس کے ساتھ اللہ خیر کا ارادہ فرماتا ہے اس کو دین کی فقہ (سمجھ) عطا فرما دیتا ہے۔

 (صحیح البخاری - صحیح مسلم  - سنن الترمزی)

اس کے برعکس علمائے سوء  دنیا دار حاکموں سے ڈرتے رھتے ہیں حالانکہ حقیقت یہی ھے کہ جو شخص جتنا بڑا عالم ہوگا وہ اتنا ہی  صرف اللہ سے ڈرنے والا ہوگا ۔ موجودہ دور میں امت مسلمہ کو ان دنیا پرست عالموں سے سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے جو سیٹھوں  اور حکومت کی درباری کرتے پھرتے ہیں وہ اپنے آپ کو مقدس و محترم علمائے کرام سے برتر و بالا سمجھتے ہیں ، جو دراصل بالکل اناڑی و جاہل ہیں ، ان درباری علماء سے ہر زمانہ میں دین اسلام کو نقصان پہنچا ہے اور پہنچتا رہے گا ، ایسے ناسمجھ و جاہل عالموں کو اہل تقویٰ وطہارت علماء کے صف سے باہر کرنے کی سخت ضرورت ہے ، یہ اسی وقت ہوگا جب اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی رضا پر چلنے والے معزز اہل علم ان منحوس دنیا دار ، ریاکار عالموں کے منحوس سائے سے اپنے آپ کو بچائیں، وہ ریاکار اپنی ریاکاری کی بنیاد پر بے باک و نڈر مجاہدانہ صفت کے حامل علمائے ذوی الاحترام کے مابین دراڑیں پیدا کرکے اپنی عیاری کو چھپا لیا کرتے ہیں،لیکن ان کے دام فریب میں مقدس نفوس قدسیہ کبھی نہیں آتے ، ان کی عیاریوں کو وہ فراست مؤمنانہ سے بھانپ لیا کرتے ہیں،پھر بھی وہ چاپلوس دنیا دار باز نہیں آتے ، انہیں کی وجہ سے ملت کا شیرازہ بکھراؤ کے دھانے پر پہنچ جاتا ہے، کم علم لوگ دین و مسلک اور اسکے ستون کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں، تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ مسلک و ملت کی مخالفت میں درباری علماء کا عمل دخل ہمیشہ رہا ہے جیسا کہ اکبر بادشاہ کے زمانے میں اگر کوئی علمائے حق و صداقت میں سے اس کے خلاف آواز اٹھاتا تو اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ، دنیا جانتی ہے کہ اپنے وقت کا بے باک و نڈر مجاہد اعظم مرد قلندر، عظیم عالم دین امام ربانی شیخ احمد سرھندی، حضرت شیخ مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کو اکبر بادشاہ اور جہانگیر کے عقائد و نظریات کی مخالفت میں گوالیار کے قلعہ میں قید و بند کر دیا گیا ، ایسی بےشمار مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔ تاریخ شاہد ہے کہ بادشاہوں اور حکمرانوں نے اپنے دربار کو چمکانے اور اپنے موقف کی تائید و حمایت میں علمائے سوء کو جمع کرکے ان کو اپنا ہمنوا بناکر درباری علماء کا درجہ دینے کا کام کیا ، ان کو منفعت بخش عہدہ دیکر اپنے جوتے کی نوک پر رکھا تاکہ حق و صداقت کا سامنا کرنے میں وہ اوندھے منہ پڑے رہیں،اورانکی ہمت و قوت کو پست کرتے رہے ۔ کبھی بھی ان علمائے سوء نے سچ بات کہنے کی ہمت نہیں کی،

جب ہم دور حاضر پہ نگاہ ڈالتے ہیں تو اس دور میں بھی درباری علماء سوء کی کمی نہیں ہے حاکم وقت کی دربار گیری میں وہ اپنی بڑی شان سمجھتے ہیں، عالمانہ لبادہ اوڑھے کچھ کم علم نادان واحمق اسی فراق میں رہتے ہیں کہ کوئی دنیا دار صاحب اقتدار آواز دے تاکہ ہم حاضر دربار ہوجائیں،ایسا ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں جیسے کی استاذ کے سامنے شاگرد کھڑے ہوں، لیکن ہمارے وہ مقدس، مطہر،معظم، معزز،محترم، مکرم،حق گو،حق شناس،مصطفے جان رحمت  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے سچے نائبین علمائے ذوی الاحترام نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دینِ اسلام  کی حفاظت کیلئے آج بھی کسی حاکم وقت کے سامنے ویسے کھڑے رھتے ھیں جیسے حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ بادشاہ وقت کے سامنے عزم واستقلال، عزم مصصم، حق و صداقت کا پہاڑ بن کر کھڑے رہے بادشاہ کی ہاں میں ہاں نہیں ملایا، مگر کچھ دنیا دار عالم اکبر اور جہانگیر کے تلوے جاٹتے رہے، حالیہ تناظر میں نہ جانے کتنے چہرے آپ کو ویسے ہی ملیں گے جو حکمرانوں اور امراء کی خوشنودی حاصل کرنے والوں کی قطار میں کھڑے رہتے ہیں، تاریخ کے چند واقعات بڑے ہی بھیانک اور درد ناک ہیں کہ جن کو پڑھ کر دل پارہ پارہ ہوجاتا ہے کہ دین اسلام کے نقلی پاسبانوں نے دنیاوی لالچ میں مال زر اور عہدے کی خاطر چند سکوں میں بادشاہوں کے من پسند کے مطابق اسلام کی روح پامال کرکے بادشاہوں کے سامنے اسلام کا نقشہ پیش کیا چنانچہ اکبر بادشاہ کے دربار میں اپنے وقت کے دو بہت بڑے عالم گزرے ہیں ایک کا نام ابوالفضل اور دوسرے کا نام فیضی تھا دونوں اکبر بادشاہ کے نئے نئے فتنوں کو فروغ دینے کا کام کرتے تھےاور اکبر بادشاہ کے دین الٰہی کی ترویج و اشاعت میں دن رات ایک کرنے اور یہ ثابت کرنے میں لگے رہے اور اس کے نظریات کو لوگوں پر تھوپنے میں لگے رہے،اور یہ بتاتے رہے کہ مذہب کے معاملے میں اکبر بادشاہ سے بہتر کوئی نہیں ہے ۔ (

ایسے ہی دنیا دار علماء کی وجہ سے بادشاہ اپنا نظریہ امت مسلمہ کے سامنے پیش کرتے رہے، ہر دور میں زرخرید درباری علماء بادشاہوں اور حکمرانوں کو دستیاب ھوتے ھیں  اور دستیاب ھوتے رہیں گے، جب جب اسلام اور اسکے ماننے والوں پر حاکم وقت کی طرف سے کوئی پریشانی آئی ہے تو انہیں دنیا دار منحوس مولویوں سے جو چند ٹکے میں اپنا ضمیر ہی نہیں بلکہ اسلام کے اصولوں کو بیچنے میں لگے رہتے ہیں، یہ قوم ایسے ہی نہیں ہم پر مسلط ہوئی ہے اس کے پیچھے بھی انہیں دنیا دار احمق عالموں کی کارستانی پوشیدہ ہے، جب سے ہم نے اپنی مسند جاہلوں کے حوالے کرنا شروع کردیا ہے، انکی جی حضوری کرنا شروع کردیا ہے، ان کی تعظیم میں اپنے آپ کو کھڑا کرنا شروع کردیا، تبھی سے ہمارا رتبہ گھٹتا چلا گیا، ہماری وقعت انکی نظر میں گھٹنے لگی ۔ آج بھی ضرورت اس امر کی ھے کہ ھم ان دنیا دار عالموں  سے دور ہوجائیں  ،  ان کی صحبت سے اجتناب کریں ورنہ کل قیامت کے دن جہاں وہ ہوں گے اسی جگہ تم ہوگے، انہیں کے ساتھ تم بھی جاؤ گے، انہیں کیساتھ تمہارا بھی حشر ہوگا اسلیئے دنیا میں جو جس سے محبت کرتا ہے قیامت کے دن وہ اسی کےساتھ اٹھایا جائیگا، 

لیکن آفرین ھے  ان علمائے ذوی الاحترام پر کہ جنہوں نے کسی دنیا دار حاکم  کو اپنے منہ نہیں لگایا ، ایک مرتبہ خلیفہ ھارون رشید نے امام مالک کو ملاقات کا پیغام بھیجا اور کہا جو آپ نے کتاب لکھی ہے اسے میں سننا چاہتا ہوں امام مالک نے جواب بھیجوایا کہ علم کی زیارت خود کی جاتی ہے وہ کسی کی زیارت نہیں کرتا،آج کے دور میں اگر سیٹھ جی کہدیں کہ فلاں صاحب آپ نے جو کتاب لکھی ہے وہ میں آپ سے سننا چاہتا ہوں تو دنیا دار عالم سیٹھ کی زیارت کیلئے بےتاب ہوجاتا ہے، وہ عالم عالم نہیں جو دنیا کے پوجاریوں کی جی حضوری میں اپنی زندگی گزاردے، شاید انہیں معلوم نہیں کہ وہ فقیر بہتر ہے جو کسی امیر کے آستانے پر حاضری نہیں دیتا،تاریخ گواہ ہے کہ وہی علماء قابل تقلید ہیں جو بلا وجہ شرعی امراء کے درباروں میں حاضری نہیں دیتے بلکہ امراء خود چل کر ان کے پاس جاتے ہیں،ایک مثال اور لیجیے کہ حاکم وقت ابو جعفر عبداللہ بن محمد المنصور جو دوسرا عباسی خلیفہ تھا، جو امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کو اپنی حکومت کا چیف جسٹس بنانا چاہتا تھا لیکن امام وقت نے اس کی پیش کش کو ٹکھرادیا اور کہا کہ میں اپنے آپ کو اس عہدے کے قابل نہیں سمجھتا،خلیفہ ان کی بات سن کر طیش میں آکر کہنے لگا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو امام اعظم ابو حنیفہ نے کہا کہ میں جب جھوٹا ہوں تو پھر تو  واقعی میں اس کے لائق نہیں ھوں کیونکہ جھوٹا شخص قاضی بننے کا اھل نہیں ھے اسی پاداش میں میں امام صاحب کو  جیل جانا پڑا، ایسی مثالیں بہت ہیں، امام اعظم ابو حنیفہ اور امام مالک، امام احمد بن حنبل،تیرہویں صدی کے مجدد حضرت الف ثانی،چودہویں صدی کے اکابرین علمائے دیوبند  ، انہیں اکابرین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس زمانہ میں علمائے حق  تاریخ کے صفحات پر انکے درخشندہ کارنامے بھرے پڑے ہیں، بس کہنا یہ ہے کہ اول الذکر کے زمانے میں دنیا دار اور درباری علماء جو اپنی خوشامد کے باعث خلیفہ کے منظور نظر بن گئے تھے،خوشامد کرنے والے علماء کو آج کوئی نہیں جانتا لیکن امام اعظم و مقدس علماء کو زمانہ کل بھی اور آج بھی اور صبح قیامت تک جانتا رہے گا، درباریوں کا نام و نشان مٹ گیا ان کا نام لیوا کوئی نہیں اور حق گو علماء کل بھی روز روشن کیطرح چمک رہے تھے اور آج بھی چمک دمک رہے ہیں ، لیکن آج کے خود غرض دنیا پرست حکمراں پرست مولویوں نے اسلام کی صحیح شبیہ بگاڑنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے جس سے اچھے بھی دشمن کے نشانے پر آجاتے ہیں ابھی بھی وقت ہے کہ دنیا کے یہ لالچی علماء  اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح  کریں تاکہ انکی  ایمانی طاقت و قوت میں کوئی فرق نہ آنے پائے اگر ان علماء نے ہدایت پر عمل نہ کیا تو پھر یاد رکھیں یہ  اپنی حقیقی منزل سے دور ہوجائیں گے، عزت و شہرت سے محروم ہو جائیں گے اور دنیا دار لوگ تم پر غالب و مسلط ہوجائیں گے یہی وجہ ہے کہ جب سے دنیا پرست عالموں نے جاہلوں کی جی حضوری شروع کردیا ہے ان کی ہاں میں ہاں ملانے کا سلسلہ اپنا لیا ہے،انہیں کو اپنا آقا تسلیم کر لیا ہے ، ان جاہلوں کے اشارے پر چلنے کا مزاج بنا لیا ہے تبھی سے یہ جاہل واناڑی لوگ ہمارے صدر ، سرپرست ، ناظم ، وغیرہ وغیرہ بن گئے ، ہم ان کے محکوم وہ ہمارے حاکم ۔ 

ان چاپلوس عالموں کی وجہ سے یہ ماحول بنا ھے ورنہ ایسا بھی دور گزرا ہے کہ مدرسےاور بڑے بڑے اداروں کی بنیاد ہمارے مقتدرومقدس علمائے کرام نے رکھی تھی وہ کسی کے تابع دار نہیں تھے بلکہ یہ جاہل قوم (الا ماشاء اللہ) ان بزرگوں کی تابعداری میں فخر محسوس کرتی تھی آج حال اس کے برعکس ہے چونکہ اکثر اداروں کے ٹرسٹی جاہل واناڑی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ آج ہماری قدرت ومنزلت ان جاہلوں کی نظر میں کچھ بھی نہیں وہ اس لئے بھی کہ ایک جگہ سے جب کسی عالم، امام، مدرس کو نکالا جاتا ہے تو اسکے نکلنے سے پہلے ہی دوچار دس امیدوار  وھاں پہنچ جاتے ہیں اوراپنے ہی بھائیوں کو قوم کی نگاہ میں ذلیل و رسوا کرنے میں لگ جاتے ہیں،اگر یہ ایسا نہ کریں ان جاہلوں کی اتنی ہمت نہیں ھو سکتی کہ ہمارے بھائی کو اس کے منصب سے علیحدہ کردے، رزاق کسی ادارے کا ٹرسٹی نہیں ہے رزاق تو خالق کائنات اللہ رب العزت کی ذات ہے،جو سارے جہان کا مالک ہے اس سے بہتر روزی کوئی نہیں دیتا وہ ایک بار ہی نہیں بار بار زندگی بھر عطاء کرتا ہے،وہی عزت، شہرت،دولت، منصب، عہدہ،مکان، دوکان، ترقی، عروج و ارتقاء، شان و شوکت،صحت و سلامتی، صحت وشفاء، دانائی بینائی سب عطاء کرتا ہے، قطرے کو سمندر، ذرے کو آفتاب،تنکے کو پہاڑ بناتا ہے،تو پھر دنیا دار کی تھوکروں میں پڑے رہنے سے کیا فائدہ دنیا دار اک بار دیتا ہے تو سو بار جتاتا بھی ھے۔ 

ہدایت کے بدلے گمراہی خریدنا یعنی ’’ایمان کی بجائے کفر اختیار کرنا‘‘ نہایت خسارے اور گھاٹے کا سودا ہے ۔ یہ آیت یا توان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے یا یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی جوپہلے تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر ایمان رکھتے تھے مگر جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی تشریف آوری ہوئی تو منکر ہو گئے، یا یہ آیت تمام کفار کے بارے میں نازل ہوئی اس طور پر کہ اللہ  تعالیٰ نے انہیں فطرت سلیمہ عطا فرمائی ، حق کے دلائل واضح کئے ، ہدایت کی راہیں کھولیں لیکن انہوں نے عقل و انصاف سے کام نہ لیا اور گمراہی اختیار کی تو وہ سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے تاجر ہیں کہ انہوں نے نفع ہی نہیں بلکہ اصل سرمایہ بھی تباہ کرلیا ۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکْتُمُوۡنَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللہُ مِنَ الْکِتٰبِ وَیَشْتَرُوۡنَ بِہٖ ثَمَنًا قَلِیۡلًاۙ اُولٰٓئِکَ مَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمْ اِلَّا النَّارَ وَلَا یُکَلِّمُہُمُ اللہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَا یُزَکِّیۡہِمْۚۖ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۔ (سورہ البقرہ ) 

وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی مول لی اور بخشش کے بدلے عذاب، تو کس درجہ انہیں آگ کی سہار ہے ۔

یعنی جو ہدایت و مغفرت یہ لوگ اختیار کرسکتے تھے اس کے چھوڑنے کو یہاں فرمایا گیا کہ انہوں نے ہدایت و مغفرت کی جگہ ضلالت و عذاب خرید لیا ۔ یہ نہیں کہ ان کے پاس ہدایت و مغفرت تھی اور پھر انہوں نے اسے بیچ دیا۔ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : دنیا میں سب سے بہترین چیز ہدایت اور علم ہے اور سب سے بری چیز گمراہی اور جہالت ہے تو جب یہودی علماء نے دنیا میں ہدایت اور علم کو چھوڑ دیا اور گمراہی و جہالت پر راضی ہو گئے تو اس بات میں کوئی شک نہ رہاکہ وہ دنیا میں (اپنی جانوں کے ساتھ) انتہائی خیانت کر رہے ہیں۔نیز آخرت میں سب سے بہترین چیز مغفرت ہے اور سب سے زیادہ نقصان دہ چیز عذاب ہے تو جب انہوں نے مغفرت کو چھوڑ دیا اور عذاب پر راضی ہو گئے تو بلا شبہ وہ آخرت میں انتہائی نقصان اٹھانے والے ہیں اور جب ان کاحال یہ ہے تو لامحالہ دنیا و آخرت میں سب سے بڑے خسارے میں یہ لوگ ہیں ۔ اس آیت میں یہودی علماء کے بارے میں فرمایا گیا کہ انہوں نے مغفرت کے بدلے عذاب خریدلیا ، کیونکہ وہ حق بات کو جانتے تھے اور انہیں یہ بھی علم تھا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے اوصاف ظاہر کرنے میں اور ان کے بارے میں شبہات زائل کرنے میں عظیم ثواب ہے اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی عظمت و شان چھپانے میں اور ان سے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات ڈالنے کی صورت میں بڑا عذاب ہے ،اس کے باوجود جب انہوں نے حق کو چھپایا تو لا محالہ انہوں نے مغفرت کے بدلے عذاب خریدلیا ۔ 

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالْہُدٰی ۪ فَمَا رَبِحَتۡ تِّجٰرَتُہُمْ وَمَا کَانُوۡا مُہۡتَدِیۡنَ ۔ (سورہ البقرہ ) 

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی تو ان کا سودا کچھ نفع نہ لایا اور وہ سودے کی راہ جانتے ہی نہ تھے ۔

ظاہر سی بات ہے کہ سچ کڑوا ہوتا ہے ، سچ کا سامنا بہت کم ہی  لوگ کر پاتے ہیں ، جو مخلص ہوتے ہیں وہ سچ کا سامنا کرنے میں نہیں کتراتے اس لیے کہ سچ ان کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ہے ، سچائی کا سر چشمہ تقویٰ وطہارت ہے جب بندہ قول سدید کی ڈگر پر چلنے لگتا ہے تو اس کے دیگر اعمال خود بخود سدھرنے لگتے ہیں وہ خود ہر معاملہ میں دین و شریعت کی پابندی کرنے لگتا ہے اس کے اعمال صالحہ ماضی کے گناہوں کو مٹانے لگتے ہیں ، اعمال صالحہ اس کےلیے بخشش و مغفرت کا سامان بن جاتے ہیں پھر اس کےلیے زندگی پرسکون اور اطمینان کا باعث بن جاتی ہے ، دنیا کا خوف اس کے دل سے نکل جاتا ہے ، اسی لیے تو اللہ والے بےخوف و خطر ہوتے ہیں ، 

اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے رب کریم ہمیں نیک راستے پر اور بزرگان دین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق رفیق عطاء فرمائے آمین یا رب العالمین


Share:

دُعاؤں والی ایک ماں ھونی چاہیے*

 پیرِ طریقت رہبرِ شریعت محبوب العلماء والصلحاء انجینیئر حضرت مولانا حافظ پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کی وفات پر جس طرح دنیا بھر میں غم، محبت، وابستگی اور عقیدت کی لہر اٹھی، وہ  ایک پورے عہد کا وداع ہے ۔ لاکھوں مریدین، غیر معمولی اجتماع، دنیا کے مختلف خطوں میں پھیلا ہوا فکری و روحانی نیٹ ورک، اور خاص طور پر جدید تعلیم یافتہ، سنجیدہ اور متانت والے طبقے کی اصلاح یہ سب کچھ کسی ایک دن کی محنت کا نتیجہ نہیں تھا۔ لیکن اگر ھم  اس عظیم الشان منظر کے پیچھے جھانک کر دیکھیں تو ایک خاموش، گمنام اور بے مثال حقیقت نظر آتی ہے وہ حقیقت ھے   *ایک ماں کی دعا۔* 

حضرت پیر ذوالفقار نقشبندی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرمایا کرتے تھے کہ انہوں نے زندگی میں سب سے زیادہ جس ہستی کو اپنے لئے  روتے ہوئے دیکھا، وہ ان کی ماں تھیں۔آپ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرمایا کرتے تھے کہ میری تقریباً تین سال کی عمر تھی ، تہجد کا وقت ھوتا تھا ، میری ماں کے اللہ کے سامنے رونے، گڑگڑانے، دعائیں کرنے کی آواز سے میں  بھی جاگ کر بیٹھ جاتا تھا ۔ کبھی کبھی ماں دعا میں اپنے بیٹے یعنی میرا  نام بھی لے لیتی تھیں۔ اپنی ماں کے اس طرح آنسو بہانے سے مجھے بھی ان پر بہت ترس آتا تھا ۔ ماں کے وہ آنسو کسی دنیاوی کامیابی کے لیے نہیں ھوتے تھے بلکہ وہ آنسو اللہ سے ایک بندہ مانگنے کے لئے ھوتے تھے۔آج ہم حضرت پیر ذوالفقار رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کے لاکھوں مریدین کو دیکھتے ہیں، مگر اصل میں کہنا یہ چاہیے کہ اس سب کے پیچھے ایک ماں کی گڑگڑا کر مانگی ھوئی دعائیں ھی ھیں  

امام محمد بن اسماعیل بخاری  رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کو دیکھ لیجیے۔ سات سال کی عمر میں  امام رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کی بینائی ختم ہو گئی تھی ۔ ایک ماں تھی جس نے  ہمت نہیں ہاری تھی ، مایوس نہیں ہوئی تھی ، راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ رب العزت کے سامنے  روتی تھی ، دعائیں کرتی تھی ، تڑپتی تھی۔ یہاں تک کہ ایک دن خواب میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی زیارت ھوئی اور حضرت ابراھیم عَلَیْہِ السَّلَام نے خواب میں بشارت دی  کہ تمہاری دعاؤں کی وجہ سے اللہ تعالی  نے تمہارے بیٹے کی بینائی واپس کر دی ھے۔ صرف بینائی ہی واپس نہیں آئی بلکہ ساتھ میں اللہ تعالی کی طرف سے ایسی غیر معمولی ذہانت بھی عطا ہوئی کہ وہ امام بخاری (رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ )بن گئے۔ ہم امام بخاری رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کو دیکھتے ہیں، مگر تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہ سب کچھ ایک ماں کی دعاؤں کا کرشمہ تھا۔* 

حضرت ابوالحسن علی حسنی ندوی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  جنہیں دنیا محبت سے علی میاں رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  اور میاں جی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کہتی ہے۔ ایک عجمی عالم، مگر عرب دنیا میں ایسی علمی قبولیت کہ بڑے بڑے عرب علماء ان کے معترف بن گئے۔ یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔ اس کے پیچھے بھی ایک ماں کی دعا ھی تھی دعاؤں میں گھلی ہوئی، آنسوؤں میں بھیگی ہوئی، ہر لمحہ بیٹے کو اللہ کے حوالے کرنے والی۔ تو آصل بات یہ ھے کہ یہ عظمت خود بخود نہیں آتی بلکہ اس کے پیچھے بھی وہی راز ہے: ایک ماں کی گڑگڑاتے  ہوئی دعائیں ۔ 

دعوت و تبلیغ کے عالمی کام کو دیکھیے۔ حضرت مولانا محمد الیاس رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ایک عالمی دعوتی تحریک قائم فرمائی۔ ظاہر میں یہ ایک جماعت ہے، ایک نظم ہے، ایک تحریک ہے، مگر اس کے پیچھے بھی ایک ماں کا درد، ایک ماں کی قربانی، ایک ماں کی دعائیں شامل ہیں۔ دعوت کی تاریخ بھی ہمیں یہی سبق دیتی ہے: *ایک ماں کی دعا ہونی چاہیے* ۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  بچپن میں ڈاکوؤں کے سامنے بھی جھوٹ نہ بولنا، یہ کوئی وقتی نیکی نہیں تھی، یہ ماں کی گود میں دی گئی تربیت تھی۔ سچ بولنے کا وہ سبق جس نے ایک عبدالقادر (رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ )کو غوثِ اعظم (رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ )بنا دیا۔ یہ کردار یونہی نہیں بنتے، ان کے پیچھے بھی وہی حقیقت ہے: *ایک دُعاؤں والی ماں ہونی چاہیے* ۔

اور ذرا موجودہ دور کی مثال لیجیے۔ حرمِ کعبہ کے امام، شیخ عبدالرحمن السدیس حفظہ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کے متعلق روایت ہے کہ بچپن میں جب وہ شرارت کرتے تو ان کی ماں محبت اور دعا کے انداز میں کہا کرتی تھیں: "جا، تجھے اللہ حرم کا امام بنائے!" وہ جملہ ماں کی زبان سے بار بار ان کے لئے نکلا، اور دعا بن کر آسمانوں تک پہنچ گیا۔ جو ماں  بار بار یہ جملہ بولتی تھیں وہ راتوں میں اُٹھ کر اپنے بیٹے کے لئے کتنی رو رو کر  دُعائیں کرتی ھونگی کہ آج وہی بچہ حرمِ کعبہ کا امام ہے، دنیا میں کروڑوں لوگوں کے دل اس کی آواز سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ بھی کوئی محض اتفاق نہیں تھا، اس کے پیچھے بھی وہی راز ہے یعنی ایک ماں کی دلی دعائیں 

یہ تحریر کسی ایک شخصیت کی تعریف یا کسی ایک  کی وفات کا نوحہ نہیں، بلکہ ایک  پیغام ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں بہتر نسل چاہیے، ہمیں علماء  با عمل چاہیں ، ہمیں داعی الی اللہ چاہیں، ہمیں مصلح  فی الدین چاہیں  تو ھمیں یہ بھی ھر گز نہیں بھولنا چاھیے کہ نسلیں صرف اداروں سے نہیں بنتیں بلکہ اصل نسل ماں کی گود میں بنتی ہے۔

اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ پیر ذوالفقار آحمد نقشبندی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ   جیسے لوگ پیدا ہوں،امام بخاری رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  جیسے محقق آئیں، علی میاں رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  جیسے مفکر پیدا ہوں، مولانا الیاس رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  جیسے داعی اٹھیں، اور شیخ  عبدالرحمن السدیس حفظہ  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  جیسے امام سامنے آئیں تو پھر ہمیں اس حقیقت کو بھی  ماننا ہوگا: * اُن کی ماؤں جیسی  ایک ماں بھی ہونی چاہیے*

Share:

مرنے سے پہلے مرنے کی تیاری کیجئے

وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَسَعٰى لَـهَا سَعْيَـهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِكَ كَانَ سَعْيُـهُـمْ مَّشْكُـوْرًا (19) 

اور جو آخرت چاہتا ہے اور اس کے لیے مناسب کوشش بھی کرتا ہے اور وہ مومن بھی ہے تو ایسے لوگوں کی کوشش مقبول ہوگی

(سورہ اسراء)

 اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کو بہتر بنانے کے لئے جس نے جو عمل کرنا ہے وہ موت آنے سے پہلے پہلے ہی کر سکتا ہے اور جب موت کا وقت آ جائے گا تو اس وقت عمل کرنے کا وقت ختم ہوجائے گا۔اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ھیں 

’وَ اَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنِیْۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍۙ-فَاَصَّدَّقَ وَ اَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۰) وَ لَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَاؕ-وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ‘‘(منافقون)

 اور ہم نے تمہیں  جو رزق دیا اس سے اس وقت سے پہلے پہلے کچھ (ہماری راہ میں ) خرچ کرلو کہ تم میں  کسی کو موت آئے تو کہنے لگے، اے میرے رب! تو  نے مجھے تھوڑی سی مدت تک کیوں  مہلت نہ دی کہ میں  صدقہ دیتا اور صالحین میں  سے ہوجاتا۔ اور ہرگز اللّٰہ کسی جان کومہلت نہ دے گا جب اس کا مقررہ وقت آجائے 

“ گویا “نفاق “ کی بیماری کا بالمثل علاج “انفاق  فی سبیل اللہ ہے۔ سورة الحدید کی آیت 18  میں اسے اور وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ مال کی محبت کو دل سے نکالنے کے لیے دل کی زمین میں ”انفاق“ کا ہل چلانا پڑتا ہے اور جو لوگ یہ ہل چلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اصل کامیابی انہی کے حصے میں آتی ہے چنانچہ ارشادِ خداوندی ھے 

{ اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقٰتِ وَاَقْرَضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَھُمْ وَلَھُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌ۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ صلے وَالشُّھَدَآئُ عِنْدَ رَبِّھِمْ …}”

یقینا صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جو اللہ کو قرض حسنہ دیں ‘ ان کو کئی گنا بڑھا کر دیاجائے گا اور ان کے لیے بڑا باعزت اجر ہوگا۔ اور جو لوگ ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسولوں پر انہی میں سے صدیق اور شہداء ہوں گے اپنے رب کے پاس…“ 

آیت مبارکہ بالا میں نقشہ کھینچا گیا ہے کہ ایک بڑا حسرت کا وقت آئے گا جب انسان کف ِافسوس ملے گا کہ اے کاش ! میں اس مال کو اللہ کی راہ میں صدقہ کرسکتا۔ آج یہ لوگ دونوں ہاتھوں سے مال جمع کر رہے ہیں اور گھروں کی آرائش و زیبائش پر بےتحاشا خرچ کر رہے ہیں ‘ لیکن ایک وقت آئے گا جب اہل و عیال ‘ عزیز و اقارب ‘ مال و دولت اور جائیداد ‘ سب کو چھوڑ کر یہاں سے جانا ہوگا۔ اس وقت انسان حسرت سے کہے گا کہ پروردگار ! کیوں نہ تو نے مجھے ذرا اور مہلت دے دی ! تو اگر ذرا اس وقت کو ٹال دے تو پھر میں یہ سب کچھ تیری راہ میں لٹا دوں ‘ سارا مال صدقہ کر دوں اور میں بالکل سچائی اور نیکوکاری کی راہ اختیار کرلوں۔ لیکن اس وقت اس حسرت کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ اللہ کی یہ سنت ِثابتہ ہے کہ جب کسی کا وقت معین آجائے تو پھر اسے موخر نہیں کیا جاتا


حضرت بہلول دانا  رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ کا نصیحت آموز واقعہ

حضرت بہلول دانا  رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  آمیر المؤمنین خلیفہ ہارون الرشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ کے زمانے میں ایک مجذوب صفت بزرگ تھے۔ ہارون الرشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ ان کی باتوں سے ظرافت کے مزے لیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت بہلول دانا رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  ہارون الرشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ کے پاس پہنچے۔ ہارون الرشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے ایک چھڑی اٹھا کر انہیں دے دی۔ اور مزاحا کہا کہ بہلول(رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ)  یہ چھڑی میں تمہیں دے رہا ہوں۔ جو شخص تمہیں اپنے سے زیادہ بے وقوف نظر آئے یہ اسے دے دینا۔ حضرت بہلول دانا رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ چھڑی لے کر رکھ لی۔ اور واپس چلے آئے۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ شاید ہارون الرشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ بھی اس بات کو بھول گئے ھوں گے کیونکہ انہوں تو یہ صرف مذاق ھی کیا تھا ۔ 

عرصہ کے بعد ہارون الرشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ کو سخت بیماری لاحق ہو گئی۔ بچنے کی کوئی امید نہ تھی۔ اطبا نے جواب دیا۔ حضرت بہلول دانا رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ عیادت کے لئے پہنچے اور سلام کے بعد پوچھا۔ امیر المومنین!  کیا حال ہے؟ امیر المومنین نے کہا کیا حال پوچھتے ہو بہلول؟ بڑا لمبا سفر درپیش ہے۔ حضرت بہلول رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نےپوچھا آمیر المؤمنین کہاں کا سفر ھے ؟ ھارون  رشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے جواب دیا۔ آخرت کا سفر درپیش ھے  حضرت بہلول دانا رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے سادگی سے پوچھا، واپسی کب ہو گی؟ھارون رشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے  جواب دیا بہلول! تم بھی عجیب آدمی ہو۔ بھلا آخرت کے سفر سے بھی کوئی کھبی واپس ہوا ہے۔ حضرت بہلول دانا رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے تعجب سے کہا۔ اچھا آپ واپس نہیں آئیں گے۔ تو آپ نے کتنے حفاظتی دستے آگے روانہ کئے اور ساتھ ساتھ کون جائے گا؟ ھارون رشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ جواب دیا۔ آخرت کے سفر میں کوئی ساتھ نہیں جایا کرتا۔ خالی ہاتھ جا رہا ہوں۔ حضرت بہلول دانا رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ بولے۔ اچھا اتنا لمبا سفر کوئی معین و مددگار نہیں پھر تو لیجئے ہارون الرشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ کی چھڑی بغل سے نکال کر کہا۔ یہ آپ کی امانت  آپ کو ھی واپس کر رھا ھوں کیونکہ میں نے پہت تلاش کیا لیکن مجھے آپ کے سوا کوئی دوسرا انسان اپنے سے زیادہ بے وقوف نہیں مل سکا۔ بہلول دانا رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے آمیر المؤمنین ھارون رشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ کو یاد دلاتے ھوئے کہا آپ جب کبھی چھوٹے سفر پر جاتے تھے۔ تو ہفتوں پہلے اس کی تیاریاں ہوتی تھیں۔ حفاظتی دستے آگے چلتے تھے۔ حشم و خدم کے ساتھ لشکر ہمرکاب ہوتے تھے۔ اور اب جبکہ آپ اتنے لمبے سفر میں جس میں واپسی بھی ناممکن ہے جارھے ھیں اور آپ نے اس سفر کی کوئی تیاری ھی نہیں کی۔ ہارون الرشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے یہ سنا تو رو پڑے اور کہا۔ بہلول !  تم نے سچی بات کہی، ہم تجھے دیوانہ سمجھا کرتے تھے۔ مگر آج پتہ چلا۔ کہ تمہارے جیسا کوئی دانا نہیں۔یہ کہہ کر ہارون رشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  پھر روپڑا اور کہا: ساری عمر ہم تم کو بیوقوف سمجھتے رہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکمت کی بات تم نے ہی کہی، واقعۃً ہم نے اپنی عمر ضائع کردی اور اس آخرت کے سفر کی کوئی تیاری نہیں کی۔


عقلمند کون ھے ؟

درحقیقت حضرت بہلول رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے جو بات کہی وہ حدیثِ مبارکہ  ہی کی بات ہے، حدیث شریف میں حضوراقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا کہ:

اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ وَعَمِلَ لِماَبَعْدَ الْمَوْتِ۔

عقلمند انسان وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو کرے، اور مرنے کے بعد کے لئے تیاری کرے۔ (ترمذی) 

اس حدیثِ مبارکہ میں حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے بتا دیا کہ  عقلمند کون ہوتا ہے؟ آج کی دنیا میں عقلمند اس شخص کو کہا جاتا ہے جو مال کمانا خوب جانتا ہو، دولت کمانا اور پیسے سے پیسے بنانا خوب جانتا ہو، دنیا کو بیوقوف بنانا خوب جانتا ہو، لیکن اس حدیث مبارکہ میں حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا کہ عقلمند انسان وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو کرے، اور نفس کی ہرخواہش کے پیچھے نہ چلے، بلکہ اس نفس کو اللہ کی مرضی کے تابع بنائے اور مرنے کے بعد کے لئے تیاری کرے، ایسا شخص عقلمند ہے، اور اگر یہ  کام نہیں کرتا  یعنی مرنے کے بعد کی تیاری نہیں کرتا تو وہ بیوقوف ہے کہ ساری عمر فضولیات میں گنوادی، جس جگہ ہمیشہ رہنا ہے وہاں کی کچھ تیاری نہ کی۔


ہم سب موت سے غافل ہیں 

جو بات بہلول دانا رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے ہارون رشید رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ کے  لئے کہی، اگر غور کریں  تو یہ بات ہم میں سے ہرشخص پر صادق آتی ہے، اس لئے کہ ہم میں سے ہرشخص کو دنیا میں رہنے کے لئے ہر وقت یہ فکر سوار رہتی ہے کہ مکان کہاں بناؤں ؟ کس طرح کا بناؤں  ؟ اس میں کیا کیا راحت و آرام کی اشیاء جمع کروں ؟ اگر دنیا میں کہیں سفر پر جاتے ہیں تو کئی کئی دن پہلے اس کی تیاری کرتے ھیں ۔ سیٹ کی بکنگ کراتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں سیٹ نہ ملے، گویا کئی دن پہلے سے اس سفر کی تیاری شروع ہوجاتی ہے، جس جگہ پہنچنا مقصود ہے وہاں پر پہلے سے اطلاع دی جاتی ہے، ہوٹل کی بکنگ کرائی جاتی ہے، پہلے سے یہ سب کام کئے جاتے ہیں ، اور سفر صرف چند دن کا ھوتا ہے، اور بشرط زندگی واپسی کی بھی اُمید ھوتی ھے 

 مقامِ آفسوس ھے کہ جس جگہ جا کر ھم نے  ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے، جہاں کی زندگی کی کوئی انتہا نہیں ہے، اس کے لئے ھم یہ فکر کرنے کی ضرورت محسوس ھی نہیں کرتے کہ وہاں کا مکان کیسے بنایا جائے  ؟ وہاں کے لئے کس طرح کی بکنگ کرائی جائے  ؟  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  فرمارہے ہیں کہ عقلمند شخص وہ ہے جو مرنے کے بعد کے لئے تیاری کرے، ورنہ وہ بیوقوف ہے، چاہے وہ کتنا ھی بڑا مالدار اور سرمایہ دار کیوں نہ بن جائے، اور آخرت کی تیاری کا راستہ یہ ہے کہ موت سے پہلے موت کا دھیان کرو کہ ایک دن مجھے اس دنیا سے جانا ہے۔


پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو 

حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا:

«اِغْتَنِمْ خمساً قَبْلَ خمسٍ، شَباَبَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ وَ صِحَتَكَ قَبْلَ سُقمِكَ وَ غِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ وَ فَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ وَ حَیٰوتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ»

''پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت شمار کرو! اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے، اپنی مالداری کو اپنی تنگدستی سے پہلے، اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے ۔''

اللہ پاک ھمیں  موت کے بعد کی ھمیشہ ھمیشہ کی زندگی کی تیاری  کرنے کی توفیق عنایت فرمائے 

آمین یا رب العالمین


Share:

حلاوت ِایمانی اور اس کی علامتیں

وَلٰـکِنَّ اﷲَ حَبَّبَ اِلَيْکُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَّنَهُ فِيْ قُلُوْبِکُمْ.

(الحجرات) 

’’لیکن اللہ نے تمہیں ایمان کی محبت عطا فرمائی اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ فرما دیا‘‘۔

اس آیت مبارکہ میں دو چیزیں پوری طرح واضح ہورہی ہیں:  پہلی یہ کہ اللہ تعالیٰ چاھتے ھیں کہ ایمان ہمارے لیے ھر چیز سے زیادہ محبوب ھو جائے،  بڑے سے بڑا خوف یا لالچ ھمیں ایمان سےنہ ھٹا سکے اور دوسری چیز یہ کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں ایمان کی زینت کو دیکھنا چاہتے ھیں یعنی ھمارا دل نورِ ایمان سے پوری طرح منور ھو  ۔ گویا ایمان ایک ایسی عظیم حقیقت ہے جس سے ھمیں ھر صورت محبت کرنی چاہیے جتنی ایمان سے ھمیں محبت ھو گی اُتنی ھی حلاوتِ  ایمانی نصیب ھو گی      

       احادیث مبارکہ میں بعض ایسے اعمال کا ذکر کیا گیا ھے ، جن پر عمل پیرا ہونے کی برکت سے اللہ تعالیٰ ایک مسلمان کو اس کے قلب میں حلاوت ِایمانی کی دولت عطا فرماتے ہیں اور حلاوت ِایمان(ایمان کی مٹھاس) ایسی نعمت ہے کہ جس  خوش قسمت کو حاصل ہوجانے گویا یہ ایمان پر خاتمہ کی ایک پیشگی خوش خبری ہے اور اس کے زائل ہونے کا احتمال بھی  باقی نہیں رہتا؛چنانچہ حضرت ملا علی قاری  نوراللہ مرقدہ نے ”مرقات“شرح مشکوٰة میں ذکر فرمایا ہے:

وقد ورد ان حلاوة الایمان اذا دخلت قلبا لا تخرج منہ ابدا“۔

          ”کہ جب ایک مرتبہ ایمان کی حلاوت دل میں داخل ہوجاتی ہے تو پھر کبھی  بھی یہ دل سے نہیں نکلتی ۔

پس اس روایت میں حلاوتِ ایمانی حاصل ھونے پر حسن ِخاتمہ کی بشارت موجود ہے۔ حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ اس حلاوت سے مراد حسی حلاوت بھی ہوسکتی ہے اور معنوی بھی۔ یہ یاد رہے کہ حلاوت کے محسوس ہونے کے لیے ضروری ہے کہ قلب خواہشات نفسانی سے بالکل پاک صاف ہو۔


 حلاوت ِایمانی کس طرح حاصل ہوتی ہے؟:

ذیل میں چند احادیث مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں،جن میں ایسے اعمال ِصالحہ کا ذکر کیا گیا ہے ،جن پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں اللہ کے پیارے رسول  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے حلاوت ِایمانی کے حاصل ہوجانے کی بشارت دی ہے۔

 عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ، أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ".

حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ھے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے فرمایا تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ اول یہ کہ اللہ اور اس کا رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں، دوسرے یہ کہ وہ کسی انسان سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے۔ تیسرے یہ کہ وہ کفر میں واپس لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔ 

(صحيح البخاري)

            حضرت قتادة رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ھے کہ تین خصلتیں ایسی ہیں جس شخص میں وہ پائی جائیں وہ ان کی وجہ سے ایمان کی حلاوت پالے گا۔

            (۱)حق پر ہوتے ہوئے جھگڑے کو چھوڑ دینا۔

            (۲)مزاح ومذاق میں جھوٹ چھوڑ دینا۔

            (۳)اس بات کا یقین ہوجانا کہ وہ چیز جو اس کی پہنچنی ہے، وہ کبھی اس سے چوک نہیں سکتی تھی اور وہ چیز جو اس سے چوک گئی ہے وہ اس کو کبھی پہنچ نہیں سکتی تھی۔

            حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا کہ چار باتیں ایسی ہیں، مسلمان  جب تک ان پر ایمان نہ لائے ایمان کا مزہ نہیں چکھ سکتا:

            (۱)اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں

۔(۲)اور میں(حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  )بلا شبہ اللہ کا رسول ہوں اور اللہ نے مجھے (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ)  حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔

(۳)(مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ھونے پر یقینِ کامل ھو ) یعنی  وہ مر جائے گا پھر موت کے بعد دوبارہ زندہ بھی  کیا جائے گا۔

(۴)جب تک کہ مکمل طور پر تقدیر پر ایمان نہ لے آئے۔

            حضرت عباس بن عبدالمطلب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: کہ اس شخص نے ایمان کا مزہ  چکھ لیا ،جو اللہ کے رب ہونے پر راضی ہوگیا،اور اسلام کے دین ہونے پر اضی ہوگیا اور حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے رسول ہونے پر راضی ہوگیا۔


حلاوتِ إيماني كى چند علامتيں

  أ -حلاوت ایمانی کے حاصل ہوجانے کی چند علامات بیان کی گئی ہیں:
 ا- عبادات اور اذکار ميں دل لگنا اور عبادت كرنـے ميں مزه آنا

  ب - ناجائز شهوات اور خواهشات كا الله تعالى كى محبت ميں ترك كردينا
 ج - الله تعالى كى رضا كيلئــے مجاھدوں  كا آسان هو جانا
 د - مصيبتوں پر الله تعالى كى رضا كيلئــے صبر كرنا اور أسكا شكر بجا لانا
  
ه -تمام زندگى هرقسم كــےحالات ميں الله تعالى كى رضا پر راضي  رھنا ۔
   
اللہ پاک ھم سب کو اپنے کرم سے حلاوتِ ایمانی نصیب فرمائے
آمین یا رب العالمین

Share:

لفظ “خاتم النبیین” کا مفہوم اور تفسیر

 

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّـٰهِ وَخَاتَـمَ النَّبِيِّيْنَ ۗ وَكَانَ اللّـٰهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمًا O

محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ) تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سب نبیوں کے خاتمے پر ہیں، اور اللہ ہر بات جانتا ھے

تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  آخری نبی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ھے کہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بعد قیامت تک کسی بھی شخص کو (چاھے وہ کتنے ھی اُونچے درجہ کا حامل کیوں نہ ھو ) منصبِ نبوت پر فائز نہیں کیا جائیگا۔


*خاتم النبیین کی نبوی تفسیر

حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا آخری نبی ہونا جس طرح قرآنی آیات میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے اسی طرح احادیث نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ میں تواتر کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے بار بار تاکید کے ساتھ اپنے خاتم النبیین ہونے کا اعلان فرمایا ہے اور مختلف تمثیلات کے ذریعے اس اصطلاح کے معنی کی وضاحت فرمائی ہے جس کے بعد اس لفظ کے معنی میں کسی قسم کی تاویل و تعبیر کی گنجائش نہیں رہتی۔

چند احادیثِ نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ملاحظہ ھوں ۔ 

حضرت ثوبان  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور آکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا کہ '' 

وإنہ سیکون في أمتي کذابون ثلاثون کُلھم یزعم أنہ نبي، و أنا خاتم النبیین، لا نبي بعدي

میری امت میں تیس کذاب  پیدا ہوں گے، ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) ہوں، میرے بعد کوئی (کسی قسم کا ) نبی نہیں۔''(ابودائود ، ترمذی )

اس حدیث شریف میں رسولِ کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے لفظ ''خاتم النبیین'' کی تفسیر بیان فرمائی ھے آپ  'صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے صاف صاف ارشاد فرما دیا کہ” لا نبی بعدی'' یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں بن سکتا کیونکہ نبوت کا دروازہ ھمیشہ ھمیشہ کے لئے بند ھو گیا ھے ۔ اسی لئے حافظ ابن کثیررحمة اللہ علیہ اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت چند احادیث نقل کرنے کے بعد آٹھ سطر پر مشتمل ایک نہایت ایمان افروز ارشاد فرماتے ہیں۔ چند جملے ملاحظہ فرمائیں 

'' اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے حدیث متواتر کے ذریعہ خبر دی کہ آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تاکہ لوگوں کو معلوم رہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بعد جس نے بھی اس مقام (یعنی نبوت) کا دعویٰ کیا وہ بہت کذاب ، بہت بڑا افترا پرداز' بہت بڑا ہی مکار فریبی ، خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہوگا ۔ اگرچہ وہ خوارقِ عادات اور شعبدہ بازی دکھائے اور مختلف قسم کے جادو اور طلسماتی کرشموں کا مظاہرہ کرے۔'' 

(تفسیر ابن کثیر)

سیدنا سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے (بسندِ عامر بن سعد بن ابی وقاص) روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے (سیدنا) علی بن ابی طالب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا سے فرمایا:

أما ترضی أن تکون مني بمنزلۃ ھارون من موسی إلا أنہ لانبوۃ بعدي

کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہارا میرے ساتھ وہ مقام ہو جو ہارون کا موسیٰ کے ساتھ تھا، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے۔ (صحیح مسلم)


سیدنا جبیر بن مطعم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا :

وآنا العاقب

(اور میں عاقب (آخری نبی) ہوں۔

 (صحیح بخاری - صحیح مسلم


حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی شخص نے گھر تعمیرکیا اور اس کو خوب آراستہ و پیراستہ کیا، لیکن ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ آکر اس مکان کو دیکھنے لگے اورخوش ہونے لگے اور کہنے لگے! یہ اینٹ بھی کیوں نہ رکھ دی گئی (پھر) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: پس میں وہی آخری اینٹ ہوں اور میں ہی خاتم النبیین ہوں۔‘‘

( بخاری - مسلم - نسائی)


*خاتم النبیین کی تفسیر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم سے*


حضرات صحابہ کرام رَضِوان اللہ تَعَالٰی عَنْہُم کا  مسئلہ ختم نبوت سے متعلق مؤقف کیلئے یہاں پر صرف دو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی آراء مبارکہ درج کی جاتی ہیں۔

حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اللہ کے رسول اور خاتم النبیین یعنی آخرالنبیین ہیں۔'' (ابن جریر )

حضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے آیت خاتم النبیین کے بارہ میں یہ تفسیر نقل کی گئی ہے کہ'' اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   پر ختم کردیا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   ان رسولوں میں سے جو اللہ کی طرف سے مبعوث ہوئے آخری ٹھہرے۔'' (درّ منثور )

کیا اس جیسی صراحتوں کے بعد بھی کسی شک یا تاویل کی گنجائش باقی رھتے ہے؟ اور بروزی یا ظلی کی من گھڑت تاویل چل سکتی ہے؟


*خاتم النبیین اور اجماع امت*

1) حجة الاسلام امام غزالی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:''بے شک امت نے بالاجماع اس لفظ (خاتم النبیین) سے یہ سمجھا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ رسول، اور اس پر اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل و تخصیص نہیں اور اس کا منکر یقینااجماع امت کا منکر ہے۔'' (الاقتصاد فی الاعتقاد )

علامہ سید محمود آلوسی تفسیر روح المعانی میں زیر آیت خاتم النبیین لکھتے ہیں:اور آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا خاتم النبیین ہونا ایسی حقیقت ہے جس پر قرآن ناطق ہے، احادیث نبویہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے جس کو واشگاف طور پر بیان فرمایا ہے اور امت نے جس پر اجماع کیا ہے، پس جو شخص اس کے خلاف کا مدعی ہو اس کو کافر قرار دیا جائے گا اور اگر وہ اس پر اصرار کرے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔'' 

(روح المعانی )


3) امام حافظ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ اس آیت کے ذیل میں اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں ''یہ آیت اس مسئلہ میں نص ہے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کے بعد کوئی نبی نہیں اور جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بعد کوئی نبی نہیں تو رسول بدرجہ اولیٰ نہیں ہوسکتا، کیونکہ مقام نبوت مقام رسالت سے عام ہے۔ کیونکہ ہر رسول نبی ہوتا ہے اور ہر نبی رسول نہیں ہوتا او ر اس مسئلہ پر کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں، آنحضرت  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی متواتر احادیث وارد ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی جماعت سے مروی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر )

4) امام قرطبی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ''خاتم النبیین کے یہ الفاظ تمام قدیم و جدید علماء کے امت کے نزدیک کامل عموم پر ہیں۔ جو نص قطعی کے ساتھ تقاضا کرتے ہیں کہ آنحضرت  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بعد کوئی نبی نہیں۔ (تفسیر قرطبی )

پس عقیدۂ ختم نبوت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  جس طرح قرآن کریم کے نصوص قطعیہ سے ثابت ہے اسی طرح آنحضرت  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی احادیث متواترہ سے بھی ثابت ہے اور ہر دور میں امت کا اس پر اجماع و اتفاق چلا آیا ہے۔


*خاتم النبیین اور اصحابِ لغت*

خاتم النبیین ''ت'' کی زبریازیر سے قرآن و حدیث کی تصریحات اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ و تابعین رحمة اللہ علیہ کی تفاسیر اور ائمہ سلف رحمة اللہ علیہ کی شہادتوں سے بھی قطع نظر کرلی جائے اور فیصلہ صرف لغت عرب پر رکھ دیا جائے تب بھی لغت عرب یہ فیصلہ دیتی ہے کہ آیت مذکورہ کی پہلی قرات پر دو معنی ہوسکتے ہیں، آخرالنبیین اور نبیوں کے ختم کرنے والے، اور دوسری قرات پر ایک معنی ہوسکتے ہیں یعنی آخر النبیین۔ لیکن اگر حاصل معنی پر غور کیا جائے تو دونوں کا خلاصہ صرف ایک ہی نکلتا ہے اور بہ لحاظ مراد کہا جاسکتا ہے کہ دونوں قراتوں پر آیت کے معنی لغتاً یہی ہیں کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سب انبیاء علیہم السلام کے آخر ہیں، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بعدکوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا۔

آجکل قادیانی اوپر درج شدہ آیت مبارکہ کی من گھرت تفسیر بیان کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے کی ناپاک کوشش کر رھے ھیں وہ اس آیت مبارکہ کی اپنی مرضی کی تشریح کرکے ملعون  مرزا قادیانی کی نبوت ثابت کرنا چاھتے ھیں یہ سلسلہ نیا تو نہیں ھے بلکہ جب سے ملعون مرزا قادیانی کا فتنہ شروع ھوا ھے اسی وقت سےیہ کوشش بھی  مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے جاری ھے خود ملعون مرزا قادیانی کی اس آیت مبارکہ کے حوالے تشریح مختلف اوقات میں مختلف رھی ھے ذیل میں اس کی اپنی کتابوں سے کچھ حوالے دیے جا رھے ھیں جن سے اس کذاب کی شاطرانہ اور مکروہ چالوں کا پتہ چلتا ھے


*خاتم النبیین کی قادیانی تفسیر*

 ملعون مرزا قادیانی نے آیت مبارکہ “خاتم النبیین “ کی مختلف ادوار میں تین مختلف تفسیریں کی ہیں۔


١۔ *پہلا دور1901ء سے پہلے*

اس دور میں ملعون مرزا قادیانی ختم نبوت کا قائل تھااور آنحضرت  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بعد کسی بھی مدعی نبوت کو کافر ، کاذب اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا تھا۔ملاحظہ فرمایئے آیت مذکورہ کا ترجمہ مرزا قادیانی کے قلم سے

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّـٰهِ وَخَاتَـمَ النَّبِيِّيْنَ ۗ وَكَانَ اللّـٰهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمًا O

" محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں ۔مگر وہ رسول ہے۔اور ختم کرنے والا ہے نبیوں کا"

(ازالہ اوہام صفحہ 614روحانی خزائن جلد 3صفحہ431از مرزا قادیانی)


*دوسرا دور1901ء اور بعد*

1901ء میں مرزا قادیانی نے "ایک غلطی کا ازالہ " کتاب لکھی اور خود نبوت کا دعویٰ کر دیا۔اور آیت خاتم النبیین میں یہ تاویل کی کہ اگرچہ خاتم النبیین کا مطلب تو وہی ہے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ مگر خودآپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا دوبارہ اس دنیا میں آنا اس کے منافی نہیں۔ملاحظہ فرمایئے

''لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبیین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پا لیا ہواور صاف آئینہ کی طرح محمدیۖ چہرہ اس میں انعکاس ہو گیا ہوتو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلائے گا۔ کیونکہ وہ محمد ھے گو ظلی طور پر پس باوجود اس شخص کے دعوےٰ نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمدۖ اور احمدۖ رکھا گیا پھر بھی سیدنا محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  خاتم النبیین ہی رہاکیونکہ یہ محمدۖ ثانی(مرزا قادیانی -ناقل) اسی محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کی تصویر اور اسی کا نام ہے''۔ (ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 5روحانی خزائن جلد 18صفحہ209از مرزا قادیانی)

اس جگہ ملعون مرزا قادیانی خاتم النبیین کے معنی تو وہی لیتا ہے جو سب مسلمان سمجھتے ہیں لیکن اپنا نبی ہونا اس کے منافی نہیں جانتا کیونکہ (معاذ اللہ)مرزا قادیانی اپنے آپکو عین محمد و احمد کہتا ہے جو اسکی شکل میں دوبارہ دنیا میں آئے۔


*تیسرا دور قبل از موت*

ملعون مرزا قادیانی نے اپنی عبرت ناک موت سے ایک سال قبل 1907ء میں"حقیقة الوحی"نامی کتاب لکھی اور آیت خاتم النبیین کا ایک اور نیا اور اچھوتا مفہوم بنایا۔

1)"اللہ جل شانہ نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو صاحب خاتم بنایا۔ یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ٹھرا یعنی  آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشی ہے۔اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے۔" (حقیقة الوحی صفحہ97 روحانی خزائن جلد22صفحہ100از مرزا قادیانی)

یعنی خاتم النبیین کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ نے نبوت کی مہر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو دے دی اور اس مہر سے آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  جسے چاہیں نبی بنا سکتے ہیں۔

2)"اور بجز اسکے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے امتی ہونا لازمی ہے"

(حقیقة الوحی صفحہ 28مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 30از مرزا قادیانی)


 صحابہ کرام رَضِوان اللہ تَعَالٰی عَنْہُم  کے عہدکا جھوٹا مدعی نبوت ملعون مسیلمہ کذاب تھا اور ہمارے عہد کا جھوٹا مدعی نبوت ملعون مرزا قادیانی ہے۔ جتنے خطرناک مسیلمہ کے پیروکار تھے، اس سے کہیں زیادہ خطرناک مرزا قادیانی کے پیروکار ہیں۔مرزا قادیانی اور اس کی شیطانی جماعت کا کفروارتداد مسیلمہ کذاب اور اس کی ابلیسی پارٹی سے زیادہ موذی ہے۔ یہ ابلیسی پارٹی مسلمانوں کے ایمان کی ڈاکو ھے اس لئے مسلمانوں کو ان سے ھوشیار رھنے کی اشد ضرورت ھے 

اللہ پاک تمام امت مسلمہ کو قادیانیوں کی ھر قسم کی مکروہ سازشوں سے محفوظ رکھے

آمین یا رب العالمین

Share:

مرد اور عورت کی برابری کا نظریہ


اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّـٰهُ بَعْضَهُـمْ عَلٰى بَعْضٍ 

مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس لیے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے

جدید دور نظریاتی کشمکش کا دور ھے  اس دور کو اگر نظریاتی جنگ کا دور کہا جائے تو غلط نہ ھو گا ۔ اس دور میں بہت سے باطل نظریات پروان چڑھ رھے ھیں  ان میں ایک نظریہ جو  بہت زیاده عام ہے، وه صنفی مساوات کا نظریہ ھے - اس نظریہ کو دور جدید کی بہت بڑی کامیابی سمجها جاتا ہے- مگر یہ نظریہ ایک غیر فطری نظریہ ہے- فطرت کے قانون کے مطابق، عورت اور مرد کے درمیان فرق پایا جاتا ہے - پیدائشی طور پر عورت  اور مرد ایک دوسرے سے مختلف ھیں ۔ عورت اور مرد کے درمیان یہ فرق ایک گہری حکمت پر مبنی ہے- اس کی وجہ سے یہ ممکن هوتا ہے کہ دونوں اپنے اعتبار سے ایک دوسرے کے مشیر بنیں- حقیقت یہ ہے کہ فطرت کے نظام کے مطابق صنفی حصے داری کا نظریہ زیاده درست نظریہ ہے، نہ کہ صنفی برابری کا نظریہ-

 انسان کی زندگی مسائل کا مجموعہ ہے- یہ مسائل ہمیشہ مختلف نوعیت کے هوتے ہیں- اس لیے بار بار یہ ضرورت هوتی ہے کہ زندگی کے دو ساتهیوں میں دو مختلف صفات هوں تاکہ ہر مسئلہ کو حل کیا جا سکے- ہر ایک اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق مسائل حیات کے حل میں اپنا اپنا حصہ ادا کر سکے- ایک شریک حیات ایک اعتبار سے اپنا حصہ ادا کرے، اور دوسرا شریک حیات دوسرے اعتبار سے-

یہ عام مشاھدے کی بات ھے کہ فطرت کے نظام میں یکسانیت موجود نہیں ھے، اس لیے اگر عورت اور مرد کے تعلق کو یکسانیت کے اصول پر قائم کیا جائے تو ہمیشہ ھی جهگڑا هوتا رہے گا- ہر ایک ذمے داری کو دوسرے فریق کے اوپر ڈالے گا، اور پهر نزاع کبهی ختم نہ هو گا- اس کے برعکس، صنفی حصے داری کے اصول کو اختیار کرنے کی وجہ سے بلا اعلان تقسیم کا طریقہ رائج هو جائے گا- دونوں خود اپنے فطری تقاضے کے تحت اپنے اپنے دائرے میں مصروف کار رہیں گے- ایک دوسرے سے الجهنے کا سلسلہ ختم هو جائے گا- اور ایک دوسرے سے معاونت کا طریقہ رائج هو جائے گا-

مرد اور عورت ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں، اور دونوں مل کر زندگی کے سفر کو جاری رکھتے ہیں۔ اس طرح مرد وعورت میں اصل رشتہ تو مل جل کر زندگی گزارنے کا ہے، تاہم جہاں اجتماعیت ہوتی ہے، خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی ہو، وہاں حقوق اور فرائض کی بحث کا چھڑنا ناگزیر ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان حقوق وفرائض کی بحث زمانہ قدیم سے موجود رہی ہے۔ البتہ اس دور میں اس بحث کا آہنگ بہت بلند ہوگیا ہے۔

مرد وعورت کے سلسلے میں عام طور سے دو طرح کے رویے پائے جاتے ہیں، ایک مطلق مساوات کا نظریہ ہے، جو مرد اور عورت کے درمیان ہر طرح کے فرق کو مٹا دینے کا قائل ہے، تمام تر زور لگانے کے بعد بھی فرق تو نہیں مٹتا، البتہ زندگی کشمکش اور معرکہ آرائی کا شکار ہوجاتی ہے۔اور دوسرا نظریہ مطلق تفریق اور نابرابری کا ہے، جو مرد کی برتری کو اس قدر بڑھادیتا ہے کہ دونوں کے درمیان تعلق ظلم وجبر کی علامت بن جاتا ہے، اور محسوس ہوتا ہے کہ دونوں شوہر اور بیوی نہیں، بلکہ آقا اور غلام ہیں۔ یہ رویہ بھی قطعی درست نہیں ھے ۔ 

قرآن مجید نے اس کی ایک تیسری صورت بتائی ہے، اور وہ یہ ہے کہ حقوق اور فرائض کے معاملے میں مرد اور عورت یکساں ہیں، البتہ دونوں کے درمیان مطلق مساوات نہیں ہے، بلکہ مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ (صرف ایک درجہ) تفوق حاصل ہے۔  چنانچہ ارشاد باری تعالی ھے 

وَلَـهُـنَّ مِثْلُ الَّـذِىْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللّـٰهُ عَزِيْزٌ حَكِـيْمٌ (228) 

عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق اُن پر ہیں البتہ مردوں کو اُن پر ایک درجہ حاصل ہے اور سب پر اللہ غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا موجود ہے۔

اس آیت مبارکہ میں مرد اور عورت کے درمیان مساوات کا ذکر بھی کیا گیا  ہے، اور مرد کی فوقیت کا ذکر بھی ھوا ہے۔ البتہ مطلق فوقیت کی بات نہیں کی گئی بلکہ ایک درجہ فوقیت کی بات کی گئی  ہے۔

مساوات اور تفوق کے اس مرکب میں خاندانی نظام کے لیے بڑی برکتیں پوشیدہ ہیں۔ تفوق آمیز مساوات کے اس اصول کو عملی طور پر برتنے کا طریقہ یہ ہے کہ مرد ہمیشہ مساوات کے پہلو پر نظر رکھے، اور گھر کے ہر معاملے میں عورت کو برابر کا مقام دے۔ دوسری طرف عورت مساوات کے پہلو کا ادراک رکھتے ہوئے بھی ہمیشہ اس ایک درجہ فرق پر نگاہ رکھے، اور جہاں تک ہوسکے اس ایک درجے کا لحاظ کرے۔ چونکہ فرق بہت تھوڑا ہے، اس لیے مرد کے لیے اسے نظر انداز کرنا اور برابری کی سطح پر رہ کر ازدواجی زندگی گزارنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، خاص طور سے اگر عورت کی طرف سے اس کی ایک درجہ فوقیت کو برتنے کی فکر موجود ہو۔ اسی طرح عورت کے لیے برابری سے آگے بڑھ کر اس ایک تھوڑے سے فرق کی رعایت کرلینا بار خاطر نہیں ہوگا، خاص طور سے اگر مرد کی طرف سے اس سلسلے میں رعایت اور نرمی کا معاملہ ہو۔

جس فیملی میں مرد کی نگاہ فرق پر اور عورت کی نگاہ برابری پر ہوتی ہے، وہاں لازمی طور سے کشمکش ہوتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس اگر مرد برابری پر اور عورت فرق پر توجہ دے، تو زندگی بہت سہل اور رواں ہوجاتی ہے۔مرد وعورت کے تعلقات میں ناہمواری اور کشیدگی اس وقت آتی ہے جب مرد اپنی فوقیت کا بہت زیادہ فرق قائم رکھنا چاہتا ہے، جو بسا اوقات عورت کی طاقت اور آمادگی دونوں سے باہر ہوتا ہے۔ جب کہ عورت مکمل برابری قائم رکھنا چاہتی ہے جو بہت سے مردوں پر شاق گزرتی ہے، اور اس طرح حقوق وواجبات کی کشمکش گھر کو تباہ کرڈالتی ہے۔قرآن مجید کی یہ رہنمائی مرد وعورت کو ایک دوسرے سے بہت قریب کردیتی ہے، اور مل جل کر زندگی گزارنے کا سازگار اور عملی ماحول فراہم کرتی ہے۔

جہاں تک عورتوں کے حقوق کی بات ہے اسلام ان کا سب سے بڑا علمبردار ہے لیکن وہ حقوق کے ساتھ ساتھ مرد اور عورت کے معاملات  اور حقوق میں  توازن اور بیلنس کی بات بھی کرتا ہے۔ اللہ رب العزت نے مرد اور عورت کو الگ الگ صلاحیتیں، نفسیات اور استعدادات عطا فرمائی ہیں۔ اسلام نے حقوق اور فرائض کی تقسیم  دونوں میاں اور بیوی  کے فطری تقاضے، ضروریات، اور دونوں کی فطری صلاحیتوں کو سامنے رکھ کر کی ہے، اور وہی متوازن اور فطری تقسیم ہے جو اسلام کرتا ہے۔

جناب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے عورت کو زندگی کا حق دلوایا، وراثت کا حق دلوایا، رائے کا حق دلوایا، علم کا حق دلوایا، معاشرے میں عزت اور احترام عطا کیا، اور عورت کو بطور ماں کے عزت و احترام، بطور بہن اور بیٹی کے شفقت، بطور بیوی کے محبت کے جذبات کی تلقین فرمائی۔ اور خود بھی اپنے عمل کے ساتھ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اپنے گھر اور  اپنے خاندان میں اس کا عملی نمونہ اُمت کے سامنے پیش کیا۔

دورِ جدید میں عورت کے حقوق اور عورت اور مرد کی مساوات کے نام پر جو آواز اٹھائی جا رہی ہے، اور بالخصوص مذہبی اقدار ،  آسمانی تعلیمات ، خصوصاً اسلامی تعلیمات و احکام کو جو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے یہ غیر فطری بات ہے۔ عورت اور مرد کی مساوات مکمل طور پر ممکن ہی نہیں ہے اور فطرت کے بھی خلاف ہے۔ عورت اور مرد کی جسمانی ساخت الگ الگ ہے، ذمہ داریاں  الگ الگ ہیں، بہت سے معاملات ہیں جو مرد میں ہیں عورت میں نہیں ہیں، جو عورت میں ہیں مرد میں نہیں ہیں، عورت کی جسمانی ساخت مرد سے مختلف ہے، اس کی سائیکالوجی مرد سے مختلف ہے، اس کی قوت کار اور استعداد مرد سے مختلف ہے، لازمی بات ہے کہ فرق تو ہو گا۔ اس فرق کو ملحوظ رکھے بغیر کوئی بھی تقسیم کار یا مساوات  غیر فطری بات ہے جس کی طرف دنیا کو بلایا جا رہا ہے۔ اور اس کا خمیازہ خود مغرب خاندانی نظام کی تباہی کی صورت میں اور بکھرنے کی صورت میں  بھگت رہا ہے۔ اور مغرب کے دانشور خاندانی نظام کی بحالی کے لیے چیخ و پکار کر رہے ہیں، لیکن وہ آسمانی تعلیمات کی طرف واپس آئے بغیر ممکن نہیں ہے۔

آج بھی جناب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی سنت مبارکہ، خلفائے راشدینؓ اور اسلامی تعلیمات کو سامنے رکھ کر عورت کے حقوق کی بات کی جائے تو مسلمان اس کے سب سے زیادہ علمبردار ہیں، لیکن عورت اور مرد کی مساوات ،اور عورت اور مرد کے حقوق کے نام پر جو غیر فطری اور غیر متوازن معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس پر نظر رکھنی چاہیے۔ اور بالخصوص پاکستان میں کہ پاکستان کی بنیاد اسلام پر ہے، اور پاکستان کا دستور اسلامی تعلیمات اور اسلامی معاشرے کی ضمانت دیتا ہے، اس لیے پاکستان میں ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جو اسلامی تہذیب ، اسلامی تمدن ،مسلمانوں کی ثقافتی اقدار اور دستور کے تحفظات کو، دستور کی گارنٹیز اور ضمانتوں کو متاثر کرتا ہو۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دُنیا میں عورت کی مظلومیت کی بہت سی صورتیں موجود ہیں جو پاکستان میں بھی رائج ہیں، لیکن ان ساری صورتوں کو نظرانداز کر کے ایک دو باتوں پر فوکس کر کے جو اوپن سوسائٹی اور فری سوسائٹی قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ  اسلامی معاشرے کے لئے قابل قبول نہیں ہے، اور عورتیں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کر سکتی ہیں، عورتوں کے حقوق کے لیے مردوں کو بھی جدوجہد کرنی چاہیے اور عورتوں کو بھی کرنی چاہیے۔ دستور ، جمہوریت ،  قانون ، تہذیبی اقدار ، ثقافتی روایات ، اور اسلامی تعلیمات کے دائرے میں ہر ایسی کوشش کی حمایت کی جانی چاہیے۔ اور ہر اس کوشش کی جو ان دائروں کو متاثر کرتی ہو، اس کی کھلم کھلا مخالفت کرنا بہت ضروری ہے۔ اور پاکستان کی سالمیت ،  اس کی نظریاتی شناخت ، تہذیب و ثقافت جس کی بنیاد پر مسلمانوں اور ہندؤوں کو الگ الگ قوم شمار کیا گیا تھا، اور قائد اعظم مرحوم تک سب مسلم تہذیب کے تحفظ کے نام پر دو قومی نظریے کی بات کرتے آ رہے ہیں اور جس کی بنیاد پر پاکستان تشکیل پایا ہے، اس کی نفی کرنا یہ پاکستان کے مقصد ، نظریے ، دستور اور پاکستانیوں کے جذبات و روایات کے بھی خلاف ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو صحیح رخ پر ملک و قوم کی اور قوم کے تمام طبقات کے حقوق کی حمایت اور حفاظت کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین یا رب العالمین

Share: