نماز کے فضائل

 

نماز کی فضیلت كے بارے ميں قرآن پاک میں اللہ پاک کے فرمان اور رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بے شمار إرشادات آحاديث كي كتابوں ميں ذكر كيے گئے هيں ۔ ظاهر هے إن فضائل كو إس مختصر سے صفحه پر بيان كرنا ناممكن هے ليكن بطور تبرك چند فضائل كا ذكر كيا جائے گا تاكه معلوم هو كه نماز كتني قيمتي چيز هے اور هماري أخروي زندگي كي كاميابي كا دارومدار بهي همارى نماز پر هے
نماز بے حیائی اور برے کاموں سے بچاتی ہے چنانچه ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ 0 (سورۃ العنکبوت)
ترجمہ: "(اے نبي صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) جو کتاب تمہارے پاس وحی کے ذریعے بھیجی گئی ہے، اس کی تلاوت کرو، اور نماز قائم کرو۔ بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے، اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُس سب کو جانتا ہے"
رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے إرشادات:
نماز دین کا ستون هے - نماز مومن کی معراج هے- نمازایمان کی نشانی ھے ۔ نماز مؤمن کی معراج ھے۔ نماز دین کا ستون هے-
نماز شکر گزاری کا بھترین ذریعہ هے- نماز میزان عمل هے- ہر عمل نماز کے تابع هے- يوم قیامت پہلا سوال نماز کے بارے میں هوگا - نمازی کے ساتھ ہر چیز خدا کی عبادت گزارهے- نمازی کا گھر آسمان والوں کے لئے نور هے- نماز گناہوں سے دوری کا ذریعہ هے- نماز گناہوں کی نابودی کا سبب هے - نماز شیطان کو دفع کرنے کا وسیلہ هے - نماز بلاؤں سے دوری كا سبب هے- نماز عذاب قبر سے بچنے كا ذريعه هے- نماز عبادت الہی کا مقررہ طریقہ ہے۔ نماز اسلام کی تعلیمات کے اہم ترین اجزا میں سے ہے۔ نمازی شهنشاہ کے محل کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے، اُس کے لیے دروازہ کھول هي دیا جائے گا۔
رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا کہ اگر تمہارے گھر کے سامنے کوئی نہر بہتی ہو تو تم میں سے کوئی ہر روز پانچ بار اس میں غسل کرے تو کیا اس کے بدن پر کوئی میل کچیل باقی بچے گا‘‘؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: نہیں! اس کے بدن پر کوئی میل نہیں ہو گی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے گناہوں کو مٹا دیتا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری:)۔
رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’جو نمازوں کی حفاظت کرے تو پانچوں نمازیں اور جمعہ کے بعد دوسرا جمعہ پڑھنا گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، بشرطیکہ کبیرہ گناہ نہ کئے جائیں‘‘ (صحیح مسلم:)
رسول اللہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے فرمایا: ’’جو شخص دو ٹھنڈی نمازیں پڑھے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائیں گے (یعنی فجر اور عصر)۔ (صحیح بخاری:)۔
رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’جب تک تم اپنے مصلے پر ہواس وقت تک فرشتے رحمت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں جب تک وہ نمازی بے وضو نہ ہو جائے‘‘۔
(صحیح مسلم:)۔
پیارے نبي کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  فرمایا: ’’فجر کی دو رکعات (سنتیں) دنیا و ما فیہا سے بہتر ہیں‘‘۔ (صحیح مسلم:)۔
پیارے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’جب کوئی شخص مسجد میں نماز پڑھتا ہے تو اس کو گھر کیلئے نماز کا حصہ رکھنا چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے گھر کی نماز کے حصے میں بڑی خیر رکھی ہے (صحیح مسلم:)
یعنی گھر میں نوافل پڑھنے سے گھر والے بھی نمازی بن جائیں گے اس سے بڑھ کر اور کیا خیروبرکت ہو گی۔
فرمانِ رسولِ مقبول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ہے کہ جو شخص ہر روز بارہ رکعات (یعنی مؤكده سنتیں) پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنائے گا‘‘۔ (صحیح مسلم:)۔
رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ کے لئے ایک سجدہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے، ایک گناہ مٹا دیتا ہے اور ایک درجہ بلند فرماتا ہے۔ سو تم کثرت سے سجدے کرو‘‘۔ (ترغیب:)۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالى عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سے پوچھا: کون سا عمل افضل (اجر و ثواب میں زیادہ) ہے؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: "نماز پڑھنا اپنے وقت پر" میں نے کہا پھر کون سا؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: "ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا" میں نے پوچھا کہ پھر کون سا؟ تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: "اللہ کی راہ میں جہاد کرنا"۔ ( مسلم)
فرمان نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ہے:
"پانچ نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک، اگر بڑے گناہوں سے اجتناب کیا جائے تو (یہ تینوں) درمیانی عرصہ کے گناہوں کو ختم کردیتے ہیں"۔ (صحیح مسلم)
اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "تم سجدے بہت کیا کرو اس لیے کہ ہر سجدے پر اللہ تعالیٰ تیرا ایک درجہ بلند کرے گا اور ایک گناہ معاف کرے گا"۔ (صحیح مسلم)
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: میں رات کو رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے پاس رہا کرتا اور آپ کے پاس وضو اور حاجت کا پانی لایا کرتا۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: "مانگ کیا مانگتا ہے؟" میں نے عرض کیا کہ جنت میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی رفاقت چاہتا ہوں۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا "کچھ اور" میں نے عرض کیا بس یہی۔ تو آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا "اچھا تم کثرتِ سجود سے میری مدد کرو"۔ (صحیح مسلم)
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   سے سنا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  فرماتے تھے "جو شخص اچھی طرح وضو کرے پھر نماز پڑھے تو اس کے وہ گناہ بخش دیئے جائیں گے جو اس نماز سے لے کر دوسری نماز تک ہوں گے"۔ (صحیح مسلم)
عمرو بن سعید بن عاص رضي الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا، انہوں نے وضو کا پانی منگوایا۔ پھر کہا "میں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سے سنا آپ نے فرمایا "جو کوئی مسلمان فرض نماز کا وقت پائے پھر اچھی طرح وضو کرے اور دل لگا کر نماز پڑھے، اور اچھی طرح رکوع اور سجدہ کرے تو یہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گی جب تک کبیرہ گناہ نہ کرے اور ہمیشہ ایسا ہی ہوا کرے گا۔" (صحیح مسلم)
ارشادِ نبوی  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ہے: "پانچ نمازوں کی مثال اس میٹھی اور گہری نہر کی سی ہے جو تم میں سے کسی ایک کے دروازے (کے پاس سے گزر رہی ہو) وہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ نہاتا ہو۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ اس کے جسم پر کوئی میل باقی رہے گی؟" صحابۂ کرام رضی عنہم اجمعین نے کہا "نہیں" آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: "پانچ نمازیں بھی گناہوں کو ختم کردیتی ہیں جیسا کہ پانی میل کو ختم کردیتا ہے" (صحیح مسلم)
رسول كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہی کا فرمانِ مبارک ہے: "جس مسلمان کے پاس کسی فرض نماز کا وقت آپہنچتا ہے، وہ اس کیلئے اچھے وضو اور خشوع و ركوع کا اہتمام کرتا ہے تو وہ نماز اس کے پہلے گناہوں کیلئے کفارہ بن جائے گی، جب تک کہ بڑا گناہ نہ کیا جائے اور یہ قانون ساری زندگی جاری رہتا ہے" (صحیح مسلم)
رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا ارشادِ مبارک ہے: "پانچ نمازیں اللہ نے بندوں پر لکھ دی ہیں، جو ان کی پابندی کرتا ہے اور بے قدری کرکے انہیں ضائع نہیں کرتا، اللہ کا اس کیلئے وعدہ ہے کہ وہ اسے بہشت میں داخل کرے گا اور جو پابندی نہیں کرتا، اس کیلئے اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی وعدہ نہیں ہے، چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو بخش دے" (رواہ احمد وغیرہُ )
إيك حديث كا مفهوم هے كه جو شخص پانچ وقت كي نماز كا إهتمام كرے گا الله تعالى أسے مندرجه زيل پانچ طرح سے أنعام وأكرام سے نوازيں گے :
(1) أس كے رزق كي تنگي دور كردي جائے گي
(2) أسے عذاب قبر سے محفوظ كرديا جائے گا
(3) أسے حشر كے ميداں ميں نامه أعمال داهنے هاتهـ ميں ديا جائے گا
(4) أسے پل صراط پر سے بجلي كي كڑك كي طرح گزار ديا جائے گا
(5) أسے بغير حساب كتاب جنت ميں داخل كرديا جائے گا
فائده: پانچ وقت كي نماز كا إهتمام كرنے كا مطلب يه هے كه وضو بهي آچهي طرح سے كرے اور وقت كي پابندي بهي كرے اور نماز بهي دهيان اور خشوع وخضوع سے ادا كرے- رزق كي تنگي دور هونے كا مطلب رزق ميں بركت اور دل كو إطمينان هونا هے- حشر كے ميداں ميں نامه أعمال داهنے هاتهـ ميں ديا جانا كاميابي كي نشاني هوگي يعني يه شخص كامياب هوجائے گا- پل صراط دوزخ كے اوپر إيك پل هوگا جس كي اونچائى - درمياني راسته اور أتروائى بهت زياده مسافت هوگي بجلي كي كڑك كا مطلب كه جس طرح آسماني بجلي چند سيكنڈ ميں كڑكتي هے إسي طرح يه شخص إس پل سے بهت تيزى سے پار هوجائے گا- آخري أنعام جنت ميں داخله هوگا جو كسي حساب وكتاب كي مشفت كے بغير عمل ميں آجائے گا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا بتلاؤ اگر کسی کے دروازے پر ایک نہر ہو اور اس میں وہ ہرروز پانچ بارغسل کیا کرے تو کیا اس کا کچھ میل کچیل باقی رہ سکتا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ کچھ بھی میل نہ رہیگا، تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: پانچوں وقت نمازوں کی یہی حالت ہے اللہ تعالیٰ ان کے سب گناہوں کو مٹادیتا ہے۔ ’ (مسلم، )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: پانچوں نمازیں؛ جمعہ کی نماز پچھلے جمعہ تک اور رمضان کے روزے پچھلے رمضان تک درمیانی اوقات کے تمام گناہوں کے لیے کفارہ ہیں؛ جبکہ ان اعمال کو کرنے والا کبیرہ گناہوں سے بچے۔ (مسلم)
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالى عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سردی کے موسم میں باہرتشریف لائے اور پتے درختوں پر سے گررہے تھے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے ایک درخت کی ٹہنی ہاتھ میں لی اس کے پتے اور بھی گرنے لگے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ‘‘اے ابوذر! مسلمان بندہ جب اخلاص سے اللہ کے لیے نماز پڑھتا ہے تو اس سے اس کے گناہ ایسے ہی گرتے ہیں جیسے یہ پتے درخت سے گررہے ہیں’’۔ (مسنداحمد)
حضرت ابومسلم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوامامہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی خدمت میں حاضر ہوا وہ مسجد میں تشریف فرما تھے میں نے عرض کیا کہ مجھ سے ایک صاحب نے آپ کی طرف سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ آپ نے نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سے یہ ارشاد سنا ہے کہ جو شخص اچھی طرح وضوکرے اور پھر فرض نماز پڑھے تو حق تعالیٰ شانہ اس دن وہ گناہ جو چلنے سے ہوئے ہوں اور وہ گناہ جن کو اس کے ہاتھوں نے کیا ہو اور وہ گناہ جو اس کے کانوں سے صادر ہوئے ہوں اور وہ گناہ جن کو اس نے آنکھوں سے کیا ہو اور وہ گناہ جو اس کے دل میں پیدا ہوئے ہوں سب کو معاف فرمادیتے ہیں، حضرت ابوامامہ رضي الله تعالى عنه نے فرمایا میں نے یہ مضمون نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سے کئی دفعہ سنا ہے۔ ( مسنداحمد)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: جو شخص ان پانچ فرض نمازوں کو پابندی سے پڑھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل رہنے والوں میں شمار نہیں ہوتا۔ (’ صحیح ابن خزیم)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے نماز کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جو شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے تو نماز اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگی اس (کے پورے ایماندار ہونے) کی دلیل ہوگی اور قیامت کے دن عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہوگی، جو شخص نماز کا اہتمام نہیں کرتا اس کے لیے قیامت کے دن نہ نور ہوگا نہ (اس کے پورے ایمان دار ہونے کی) کوئی دلیل ہوگی نہ عذاب سے بچنے کا کوئی ذریعہ ہوگا اور وہ قیامت کے دن فرعون، ہامان اور ابی ابن خلف کے ساتھ ہوگا۔ (صحیح ابن حبان) ًِ
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: جومسلمان فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لیے اچھی طرح وضو کرے؛ پھرپورے خشوع اور اچھی طرح رکوع وسجود کے ساتھ نماز ادا کرے تو وہ نماز اس کے واسطے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جائیگی جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہوا ہو اور نماز کی یہ برکت اس کو ہمیشہ ہمیش حاصل ہوتی رہے گی۔ (مسلم)
"اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کی یہ تاثیر اور برکت ہے کہ وہ سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے اور پچھلے گناہوں کی گندگی کو دھوڈالتی ہے مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ آدمی کبیرہ گناہوں سے آلودہ نہ ہو؛ کیونکہ ان گناہوں کی نحوست اتنی غلیظ اور اس کے ناپاک اثرات اتنے گہرے ہوتے ہیں جن کا ازالہ صرف توبہ ہی سے ہوسکتا ہے، ہاں اللہ تعالیٰ چاہے تو یونہی معاف فرمادے اس کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں"
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالى عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: جو مسلمان بندہ اچھی طرح وضو کرے پھر اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑے ہوکر پوری قلبی توجہ اور یکسوئی کے ساتھ دورکعت نماز پڑھے تو جنت اس کے لیے ضرور واجب ہوجائے گی۔ (مسلم، مسنداحمد)
مذکورہ بالا احادیث مباركه کے علاوہ بےشمار احادیث مباركه ہیں جو نماز کی فضیلت کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں؛ جن كا إحاطه كرنا بهت مشكل هے چونکہ عمل کے لیے اتنی آحاديث مباركه بهي کافی ہیں، اس لیے اسی پر اکتفا کیا گیا ہے۔
نماز کے بارے میں رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے ان تربیتی اور ترغیبی ارشادات کے باوجود امت کی إيك بڑی تعداد آج نماز سے غافل اور بے پرواہ ہے اور اپنے کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے الطاف وعنایات سے محروم اور اپنی دنیا وآخرت کو برباد کررہی ہے چنانچه قرآن كريم ميں ارشاد هے 
‘‘وَمَا ظَلَمَھُمُ اللہ وَلٰکِنْ اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ’’۔ ( آل عمران) ‘
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود ہی اپنے آپ کو ضرر پہنچا رہے تھے

"مغرب کی نماز بیج کے بمنزلہ ہے۔ عشا کی نماز جڑ کی مانند ہے جو تاریکی اور اندھیرے میں نشوونما پاتی ہے۔ صبح کی نماز زندگی کی کونپل کی طرح ہے جو زمین سے سر نکالتا ہے۔ ظہر کی نماز پتّوں اور شاخوں جیسی ہے۔ عصر کی نماز شجرِ عبادت کے ثمر کی مانند ہے۔ اور فرمایا ہے کہ جس کسی نے عصر کی نماز ضائع کی، اُس نے اپنے اہل و عیال اور مال پر ستم کیا۔"
نماز کے قائم کرنے میں اعضاء و جوارح کے اعمال اور زبان و قلب کے اذکار شامل ہیں،
إن اعمال و اذکار میں سے ہر ایک اپنی ظاہری صورت کے علاوہ معنویت اور روحانیت کا حامل ہے، جو نمازی کے معراج اور اُس کے بلند حیاتی مدارج اور ٰالله تعالى کے تقرّب کا سبب بنتا ہے، اور اگر ظاہری حالت معنی کے معارف سے خالی ہو تو زبانی ذکر ایک بےمعنی لفظ، ایک بےمغز خول اور ایک بےجان جسم ہے، جس کی کوئی حقیقی قدر و قیمت نہیں"
اللہ پاک عمل کی توفیق عنایت فرمائے
آمین یا رب العالمین
Share:

نماز كے معنى ومفهوم اور شرعی حُکم



إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا (سورۃ النساء

بیشک  نماز  مسلمانوں  پر فرض  ہے  اپنے مقرر وقتوں پر۔  ( معارف القرآن)


إيمان كے بعد سب سے پہلی چيز جو هر مسلمان كے لئے لازمي هے وه نماز هے - پنجگانہ نماز ھر مسلمان پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض ھے ۔ نماز كے حواله سے سب سے پهلى همارى ذمه دارى يه هے كه هم نماز كے معنى ومفهوم كو سمجهيں تاكه نماز كي إهميت كا هميں إحساس هو جائے-
لغوی معنی:
"صلوٰۃ" (نماز) کے لغوی معنی "دعا" کے ہیں۔ نماز كي هر ركعت ميں سورة فاتحه كي تلاوت كي جاتي هے جو مكمل دعا هے - صلوٰۃ" کے إيك معنی بہترین ذکر کے بهي ہیں جيسا كه قرآن مجيد ميں نماز كو ذكر فرمايا گيا هے
"صلوٰۃ" کے معنی رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی فرشتوں کے درمیان تعریف کے بهي ہیں، جب کہ ملائکہ کی جانب سے "صلوٰۃ" کے معنی دعا کے ہیں"۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے ٓفرمایا: "صلوٰۃ پڑھتے ہیں، یعنی برکت کی دعا دیتے ہیں" یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے صلوٰۃ کے معنی رحمت کے ہیں جبکہ ملائکہ کی جانب سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں۔ "صلوٰۃ" اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے ثناء کے معنی میں ہے جبکہ مخلوق یعنی ملائکہ، انس اور جنات کی جانب سے یہ قیام، رکوع، سجود اور دعاء کے معنی میں ہے۔ پرندوں اور دیگر حیوانوں کی "صلوٰۃ" کے معنی "تسبیح" کے ہیں۔
شرعی معنی:
شریعتِ مطہرہ میں "صلوٰۃ" (نماز) کے معنی بعض مخصوص اور معلوم افعال اور اقوال کے ذریعے سے اللہ کی عبادت کرنا هے جس کی ابتدا تکبیر تحریمہ  سے ہوتی ہے جبکہ اختتام سلام پھیرنے پر ہوتا ہے۔ اور اسے "صلوٰۃ" بمعنی دعا کا نام اس لیے دیا گیا کہ اس میں دعا بھی شامل ہے"

-
نماز ميں دعا کی اقسام:
1- دعائے مسئلہ:
اس کے معنی ہیں ایسی چیز مانگنا جو سائل کے لئے مفید ہو مثلاً دنیوی و اخروی نفع طلب کرنا اور شرور و ضرر کے دور ہونے کی دعا مانگنا، بذریعۂ نماز اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنی حاجت برآری طلب کرنا۔
2- دعائے عبادت:
اس کے معنی اعمال صالحہ یعنی قیام، قعود، رکوع اور سجود کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب طلب کرنے کے ہیں۔ پس جس نے یہ سب عبادات انجام دیں گویا اس نے زبانِ حال سے اپنے رب سے اپنی مغفرت کی دعا کی۔

نماز کا مفہوم 
الله تعالى كے خزانوں سے براه راست حاصل كرنے كا ذريعه نماز ھے ۔ اپني حاجتيں الله تعالى سے مانگنے كے لئے نماز إيك بهترين راسته  هے

شریعت میں نماز کا حکم:
قرآن مجید، احادیثِ نبویہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اور اجماعِ امت سے پنجگانه نماز ہر مسلمان، عاقل و بالغ مرد اور عورت پر فرض ہے۔ کلامِ مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ (سورۃ البقرۃ)
ترجمہ: "تمام نمازوں کا پورا پورا خیال رکھو، اور (خاص طور پر) بیچ کی نماز کا۔ اور اللہ کے سامنے با ادب فرماں بردار بن کر کھڑے ہوا کرو"۔

ایک اور مقام پر فرمانِ الہٰی ہے:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ (سورۃ البینہ)
ترجمہ: اور انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت اس طرح کریں کہ بندگی کو بالکل یکسو ہوکر صرف اُسی کیلئے خالص رکھیں، اور نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں، اور یہی سیدھی (سچی امت ) کا دین ہے۔"

اور ارشادِ نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   ہے:
"اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کا اقرار کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا"۔

ایک اور موقع پر رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے ارشاد فرمایا: "پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے اوپر لکھ دی ہیں (فرض کردی ہیں)" ۔۔
"امت مسلمہ کا دن اور رات میں پانچ نمازوں کے وجوب پر اجماع ہے"

Share:

نماز كے مقاصد


وَاَقِمِ الصَّلٰـوۃَ لِذِکْرِیْ (طٰہٰ:۱۴) 

’’اورنماز کو قائم کرو میری یاد کے لئے


نماز كے مقاصد  سے مراد يه هے كه نماز سے كيا چاها جارها هے يعني إتني عظيم عبادت الله تعالى كي طرف سے جو ھمیں عنايت هوئی ھے یہ کیوں عنایت کی گئی ھے ؟ یعنی اس كے مقاصد كيا هیں ؟ ۔ تو نماز كا بنیادی مقصد يه هے كه همارى نماز كے باهر كي زندگي بھی صفتِ صلاة پر آجائے يعني جس طرح هم نماز ميں الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے طريقوں بر عمل كرتے هيں إسي طرح همارى (24) گهنٹه كي زندگي ميں بهي اللہ تبارک تعالی کے آحکام اور رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے طریقوں پر عمل کرنا همارا معمول بن جائے- يه إيك مسلسل مشق هے تاكه هم اپني تمام زندگي ميں الله تعالى كے آحكام كو رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے طريقوں پر پورا كرنے والے بن جائيں -

عبادتِ ربّ اور اطاعت ِخالق و مالک میں سب سے بڑی رکاوٹ جو انسان کو درپیش ہوتی ہے ‘وہ غفلت‘ نسیان اور بھول ہے. انسان کا اپنے دنیاوی معمولات میں حد درجہ الجھ جانا اور منہمک ہو جانا‘ اور ان میں کولہو کے بیل کی طرح مصروف رہنا دراصل ایک ایسا گھناونا چکر ہے جو انسان کو صرف اپنے اندر گم کر لیتا ہے. بقول علامہ اقبال :-

کافر کی یہ پہچان ھے کہ آفاق میں گم ہے
مؤمن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

تو انسان کی کیفیت عام طور پر یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماحول میں‘ اپنی ضروریات کی فراہمی میں اور اپنی پریشانیوں میں گم ہو کر رہ جاتا ہے. کاروبار کی فکر‘ ملازمت کی فکر‘ کام کی فکر‘ اہل و عیال کی فکر‘ بچوں کے دکھ اور بیماری کی فکر‘ بچوں کی تعلیم و تربیت اور اُن کی شادی بیاہ کی فکر اور نہ جانے کتنے تفکرات کے روگ ہیں جو انسان کو لاحق رہتے ہیں اور جن میں وہ گم ہو کر رہ جاتا ہے. اس گمشدگی کی حالت سے انسان کو نکالنے کے لیے نمازِ پنجگانہ کا نظام  قائم کیا گیا ہے. نماز انسان کو دن میں پانچ مرتبہ ان تمام مصروفیات سے کھینچ کر باہر نکالتی ہے تاکہ وہ اللہ کے ذکر سے غافل نہ ھو جائے  
ایک نماز ہے جو ساری عبادتوں کا مرکز، مشکلات اور سختیوں میں انسان کے تعادل و توازن کی محافظ، مومن کی معراج، انسان کو برائیوں اور منکرات سے روکنے والی نیک ہدایت دینے والی جھوٹ فریب سے بچانے والی اور دوسرے بہترین عموال میں قبولیت کی ضامن ہے ۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ “
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي 
میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔

اس آیت کی روشنی میں نماز کا سب سے اہم فلسفہ یادِ خدا ہے اور یادِ خدا ہی ہے جو مشکلات اور سخت حالات میں انسان کے دل روح  اور ضمیرکو آرام اور اطمینان عطا کرتی ھے چنانچہ ارشادِ ربانی ہے ۔
أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
آگاہ ہو جاؤ کہ یادِ خدا سے دل کو آرام اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔

تو نماز کا فلسفہ یہ ھے کہ دن میں پانچ وقت اللہ کے حضور کھڑے ہو اور ہر رکعت میں اپنے اس عہد و میثاق کو تازہ کرو کہ ؛- 
اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ 
ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں (اور کریں گے)‘ اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں (اور مانگیں گے).‘‘ 
ہر رکعت میں اپنے اس قول و قرار کی ازسرنو تجدید کر کے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کر لو‘ اپنے بندہ ہونے کی حیثیت کو اپنے شعور میں اجاگر کر لو اور اس ہستی کو یاد رکھو جس سے تم نے یہ عہدِوفاداری استوار کیا ہے. نماز کا اصل مقصد ہی یادِ الٰہی ہے اور اسی یادِ الٰہی سے ان حقائق کی تذکیر ہوتی ہے جن کا نام ایمان ہے. پس نماز وہ فریضہ ہے جو انسان کو اس گمشدگی کی حالت سے دن میں پانچ بار اللہ کے ذکر کے لئے نکالتی ہے اور اسے یہ حقیقت یاد دلاتی ہے کہ وہ مادر پدر آزاد نہیں ھے بلکہ وہ کسی عظیم ھستی ( اللہ تعالی ) کا غلام و بندہ ہے‘ کسی سے اس نے عہدِ اطاعت اور عہدِ وفا استوار کر رکھا ہے اور اسے اپنے تمام معمولات میں اس عہد و میثاق اور قول و قرار کی ھر صورت پابندی کرنی ہے. نماز سبب بنتی ہے کہ انسان ہمیشہ خدا کی یاد میں رہے اور اسے بھولے نہیں، نافرمانی اور سرکشی نہ کرے۔ خشوع و خضوع اور رغبت و شوق کے ساتھ اپنے دنیاوی اور اخروی حصہ میں اضافہ کا طلب گار ہو۔ اس کے علاوہ انسان نماز کے ذریعہ ہمیشہ اور ہر وقت خدا کی بارگاہ میں حاضر رہے اور اس کی یاد سے سرشار رہے۔ نماز گناہوں سے روکتی اور مختلف برائیوں سے منع کرتی ہے سجدہ کا فلسفہ غرور و تکبر، خودخواہی اور سرکشی کو خود سے دور کرنا اور خدائے وحدہ لا شریک کی یاد میں رہنا اور گناہوں سے دور رہنا ہے۔

Share:

اچھی نماز بنانے کے لئے محنت کیسے کی جائے

وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَO 

اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔


يه تو هر شخص جانتا هے كه كوئى بهي مقصد حاصل كرنے كيلئے محنت كرنا لازم وملزوم هے پهر يه بهي بات واضح هے كہ كامياب وهي هوتا هے جو محنت صحيح طريقه سے كررها هو اگر كوئى محنت تو كررها هے ليكن اسكا طريقه صحيح نهيں هے تو وه چاهے كتني هي محنت كرتا رهے وه كهبي بهي منزل پر نهيں پہنچ پائے گا إسكي مثال إسی طرح هے كه إيك شخص نے جانا تو إسلام آباد هے ليكن سفر وه كراچي كي طرف كررها هے وه چاهے كتني هي رفتار سے سفر كرتا رهے ليكن وه إسلام آباد كهبي بهي نهيں پہنچ سكے گا كيونكه اس کا رخ صحيح جانب نهيں هے

إسي طرح دين كے كسي بهي جز كي محنت كا فائده تب هوگا اگر وه صحيح نهج پر هوگي اور صحيح نهج وهي هوسكتي هے جو هميں رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اور صحابه كرام رضوان اللہ علیھم سے محنت كا طريقه ملا اگر هم اپني مرضي كے طريقه پر محنت كريں گے تو كهبي بهي كامياب نه هونگے ليكن اگر وهي محنت رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے طريقه پر هوگي تو إن شاء الله هم دونوں جهانوں ميں كامياب هوجائيں گے
جہاں تک نماز كي محنت کا تعلق ھے تو نماز كے فضائل اور فوائد حاصل كرنے كيلئے محنت ضروري چيز هے اور يه محنت رسول كريم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے طريقه پر هونا ضروري هے علمائے کرام نے شریعت کے مطابق ھمیں محنت کے مندرجہ ذیل تين طريقے بتائے ھیں :- 
دعوت دينا۔ مشق كرنا - دعا كرنا

نماز كي دعوت دینا 
نماز کی حقيقت كو پانے كے لئے نمازي كي پہلی محنت نماز كي دعوت دوسرے لوگوں كو دينا هے جتني زياده وه نماز كي دعوت دوسرے لوگوں کو دے گا اتنا هي جلد اور زياده نماز كي حقيقت كو پائے گا يه تو هر كوئى جانتا هے اور إس ميں كوئى شك بهي نهيں كه أمت ميں أعمال كا رواج كسي نه كسي درجه ميں موجود هے ليكن يه بهي إيك حقيقت هے كه أعمال تو هيں ليكن يه أعمال حقيقت سے خالي هيں صرف شكل هے اب هوتا يه هے كه دعوت دينے والا نماز كي دعوت جب بے نمازي كو ديتا هے اور پهر جب دل هي دل مين اپنا موازنه اس سے كرتا هے تو اپنے آپ كو بهتر سمجهتا هے تو چونكه وه بے نمازي كو سامنے ركهـ كر دعوت ديتا هے إس لئے لامحاله اپني نماز ميں وه كوئى كمي محسوس نهيں كرتا إس لئے اس پر محنت كرنا بهي ضروري نهيں سمجهتا ۔ بلاشبهه بے نمازي كو بهي نماز پڑهنے كي دعوت ديني هے ليكن بے نمازي كو سامنے ركهـ كر نهيں بلكه اپني نماز كي حقيقت كو سامنے ركهـ كر جس كو دعوت ديني هے اس سے كهيں زياده دعوت دينے والا نماز كي حقيقت كو پانے كا محتاج هے پهر يه بهي إيك واضح حقيقت هے كه بے نمازي سے بهي كهيں زياده نمازي كو دعوت دينے كي ضرورت هے نماز كي دعوت كا مقصد يهي هے كه همارے اندر نماز كي حقيقت آ جائے- غور كرنے سے يه فرق خود هي عياں هوجاتا هے حديث مباركه ميں هے كه نماز يا تو روشن اور چمكدار هوكر نمازي كے لئے دعا كرتي جاتي هے يا سياه رنگ ميں نمازي كے لئے بددعا كرتي جاتي هے كه إے الله جس طرح إس نمازي نے ميرے حق كو ادا نه كركے مجهے برباد كيا إسي طرح تو اسے بهي برباد كردے پهر يه نماز پرانے كپڑے كي طرح لپيٹ كر نمازي كے منه پر مار دي جاتي هے إسي طرح حديث مباركه ميں يه بهي آتا هے كه قبر ميں نماز نمازي كے سر كي طرف موجود هوگي اور قيامت والے دن جب نمازي الله تعالى كے سامنے كهڑا هوگا تو يه نماز ميزان پر اپنا وزن كروا رهي هوگي رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  معراج شريف سے جهاں نماز ساتهـ لے كر تشريف لائے تو وهاں نماز كي حقيقت بهي ساتهـ لائے تهے إس لئے دعوت دينے والے كے لئے ضروري هے كه جب وه دعوت دے تو بے نمازي كو سامنے ركهـ كر دعوت نه دے بلكه نماز كي حقيقت كو سامنے ركهـ كر دعوت دے نماز كے خشوع وخضوع كو سامنے ركهـ كر دعوت دے نماز كي صفت إحسان كو سامنے ركهـ كر دعوت دے كه الله تعالى اسے ديكهـ رهے هيں يا كم ازكم يه كه وه الله تعالى كو ديكهـ رها هے
چونكه دعوت دينے والے كا مقصد خود اپنے اندر نماز كي حقيقت كو بيدا كرنا هے إس لئے وه نماز كي حقيقت كي دعوت دے رها هے اگر هم بے نمازيوں كو سامنے ركهـ كر نماز كي دعوت ديں گے تو نماز كي حقيقت كو كهبي بهي نه پا سكيں گے نه هي همارى نماز ميں كوئى ترقي هوگي إس لئے نماز كي حقيقت كو سامنے ركهـ كر دعوت ديني هے إس حقيقت كو خوب كهول كهول كر بيان كيا جائے نماز كے فوائد جو دنيا اور آخرت ميں هميں مليں گے أنهيں خوب خوب سمجهايا جائے - حضور أكرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   كي نماز كے بارے ميں آچهي طرح بتايا جائے اور صحابه كرام رضوان الله عليهم كے واقعات بيان كيے جائيں كه أنهوں نے نماز پر كس طرح محنت كي اور نماز كے ذريعه سے هي الله تعالى سے اپنے مسائل حل كروائے تو لوگوں كا ذهن بنايا جائے كه جس طرح صحابه كرام رضوان الله عليهم نے نماز سے اپنا هر هر مسئله حل كروا ليا تو اگر آج هم بهي أسي يقين كيساتهـ نماز پڑهيں گے تو الله تعالى كے وعدے همارے لئے بهي وهي هيں جو صحابه كرام رضوان الله عليهم كے لئے تهے تو نماز كي دعوت ميں خوب خوب سمجهايا جائے جتني زياده آپ دعوت پر محنت كريں گے اتنا هي زياده نماز كا يقين آپ كے دل ميں آئے گا اور نماز كي حقيقت سمجهـ ميں آئے گی ۔ 

نماز كي مشق
نماز کی مشق دو إعتبار سے كرنا ضروري هوتي هے
1-ظاهري مشق 2- باطني مشق

1-ظاهري مشق
ظاهري مشق ميں سب سے پہلے شرائطِ نماز كا إهتمام آتا هے
1- نمازی کے بدن كا پاک هونا:
اس کی دو قسمیں ہیں،
1-حدثِ اکبر یا جنابت یعنی غسل فرض ہونا،
2- حدثِ اصغر یعنی بے وضو ھونا یا بحالتِ مجبوری تیمم ہونا،
2- نمازی کے کپڑوں کا پاک ہونا: ويسے مشق تو يهي هو كه نمازى كے كپڑے هروقت پاك هوں اور جب بهي كوئى ناپاكي كپڑوں كو لگ جائے تو فوراً اسے دهو كر پاك كرليا جائے بهرحال نمازى كا لباس جسے پہن كر وه نماز ادا كرنا چاه رها هے وه پاك هونا نماز كي شرائط ميں شامل هے
3- نمازى کی جگہ کا پاک ہونا: نمازي كو إسبات كا بهي إهتمام كرنا ضرورى هے كه وه پاك جگه پر نماز ادا كرے كيونكه نماز کے صحیح ہونے کے لئے نماز پڑہنے کی جگہ کا پاک ہو نا بهي لازمي شرط ہے
4- نمازی کا ستر كا ڈھانپنا:
ستر کا ڈھانپنا بھی شرائط نماز میں شامل ھے ۔ آزاد بالغ عورت كا بدن اور سر دونوں کا ڈھانپنا ضروری ہے
5- پابندیِ وقت: نماز کی ايك شرط ’’نماز مقررہ اوقات کے اندر ادا کرنا‘‘ ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًاO ’’بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہےo‘‘ 6- قبلے کی طرف منھ کرنا: نمازى كا قبلہ کی طرف منھ کرنا جبکہ اس پر قادر ہو نماز صحیح ہونے کےلئے شرط ہے،

7- نیت كرنا : خالص اللّٰہ تعالٰی کے واسطے نماز پڑھنے کے ارادہ کو نماز کی نیت کہتے ہیں۔ يه بهي نماز كى شرائط ميں سے إيك شرط هے انیت میں دل کا عمل معتبر ہے اس لئے زبان سے کہنا فرض نہیں بلكه مستحب ہے، نیتِ قلبی کے بغیر زبان کی نیت بے کار ہے -
ظاهري مشق ميں نماز كے فرائض - واجبات اور سنن وغيره كا إهتمام هونا يعني تکبیر تحریمہ ، قيام ، قرأءت ، ركوع ، قومه ، سجود ، جلسه اور قعده وغيره بالكل صحيح طریقہ سے اور اطمینان کا ساتھ کرنا ضروری هے

2- باطني مشق
اللہ تعالی كا يقين و دهيان ، الله تعالى كا خوف اور دل ميں نماز سے الله تعالى كي خزانوں سے ملنے كا كامل يقين هونا ۔ نماز كي باطني مشق سے مراد دوران نماز صرف الله تعالى كي طرف هي دهيان هونا ، الله تعالى كا خوف هونا ،نماز ميں الله تعالى كا كامل يقين هونا اور دل ميں نماز سے الله تعالى كي خزانوں سے ملنے كا كامل يقين هونا اور جب بهي كوئى ضرورت پيش آئے تو توجه كا فوراً نماز كي طرف جانا هے
عجزو انکساری اور ادب کے ساتھ دلی توجہ کا دوسرا نام ”خشوع“،ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ مومنین نماز کو ایک بے رُوح ڈھانچہ نہیں سمجھتے بلکہ ان کی پوری توجہ نماز کی باطنی کیفیت اور حقیقت پر ہوتی ہے، اکثر لوگ ایسے ہیں جو نماز میں از حد کوشش کرتے ہیں کہ عالمِ نماز میں خضوع وخشوع اور الله کی طرف دلی توجہ کریں، مگر وہ ایسا نہیں کرپاتے، نماز اور دیگر عبادات کے دوران خضوع، خشوع اور حضور قلب کے لئے مندرجہ ذیل امور میں پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے:
1۔ معلومات کواس حد تک پہنچانے کہ انسان کی نگاہ میں دنیا کی ذلت وپستی اور الله کی رفعت وبلندی اور عظمت وبزرگی واضح ہوجائے تاکہ کوئی بھی دنیاوی امر بارگاہ میں حاضری کے وقت اپنی طرف متوجہ نہ کرسکے ۔
2۔ پریشان خیالی اور ذہنی انتشار جو اس کو ایک طرف مرکوز رکھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، لہٰذا انسان جتنا ان کو کم کرے، دلی توجہ اور یکسوئی میں ممدو معاون ثابت ہوگا ۔
3۔ نماز اور دیگر عبادات کے لئے مقام کا محلّ وقوع بھی خاصہ موٴثر ہے، اسی بناء پر اپنی جگہوں پر نماز ادا کرنا مکروہ ہے، جو انسان کی توجہ کو ہٹانے کا سبب ہوں، مثلاً آئینے کے سامنے نمازپڑھنا، کھلے دروازوں کے سامنے جہاں سے لوگوں کی آمد ورفت ہوتی ہو، نماز پڑھنا اور کسی تصویر یا پُرکشش منظر کے سامنے نماز ادا کرنا وغیرہ اسی وجہ سے مساجد غير ضرورى زیب وزینت اور آرائش سے خالی ہونی چاہئیں تاکہ نمازي كى توجه الله تعالى کی طرف ہی رہے ۔
4۔ گناہ سے پرہیز کرنا، کیونکہ گناہ کے ارتکاب سے انسان الله سے دُور ہوجاتا ہے اور نماز میں حضور قلبی سے محروم رہتا ہے ۔
5۔ نماز میں جو کچھ پڑھا جاتا ہے اس کے معنی اور اس کے افعال واذکار سے واقفیت حاصل کرنا اور نماز کے مخصوص آداب اور مستحبات کو ادا کرنا چاہے ان کا تعلق مقدمات نماز سے ہو یا خود اصل نماز سے ۔
6- مذکورہ بالا تمام امور سے قطع نظر نماز ميں دهيان اور توجه يعني خضوع وخشوع کے حصول کے لئے مسلسل اور پیہم مشق اور پوری توجہ کی ضرورت ہے، کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان شروع شروع میں تھوڑی دیر کے لئے دلی یکسوئی پیدا کرلیتا ہے اور اگر وہ اس کی مسلسل مشق کرے اور ہر نماز میں برابر اس کے اضافے کی کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایسا ملکہ پیدا نہ کرے کہ ہمیشہ حالتِ نماز میں وہ غیر الله سے بالکل بے نیاز ہوجائے ۔
7-ایمان کی تجدید اور نافرمانی سے بچنا بهي نماز ميں توجه حاصل كرنے كے لئے ضروري هے چونکہ ایمان کے بعد نافرمانی غفلت سے ہوتی ہے اور نماز غفلت زائل کرنے کا اہم ذریعہ ہے، اسی سے اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس پر ایمان کا جذبہ تازہ ہوتا ہے۔
8- هر وقت دل ميں اللہ کی محبت وخشیت بهي نماز ميں خشوع وخضوع پيدا كرنے كا إيك سبب هے چونکہ نماز کے دوران اللہ تعالیٰ کی عبادت میں جسم کے تمام اعضاء حصہ لیتے ہیں اس سے محبت الٰہی کا جذبہ پورے جسم میں سرایت کرتا ہے اور پھر طبیعت اتباع شریعت پر آمادہ ہوتی ہے، گویا نماز ظاہری و باطنی طور پر یاد الہی ہے۔ اسی طرح عام زندگی کی تمام حالتیں (کھڑا ہونا، بیٹھنا، جھکنا، لیٹنا، حرکت کرنا، پرسکون ہونا) نماز میں جمع ہیں۔ جب ان تمام حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی یاد رہتی ہے تو باہر کی زندگی میں ان تمام حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہونے کی مشق ہو جاتی ہے۔
9- نماز چونکہ سراسر اللہ تعالیٰ کی یاد ہے، جب یہ یاد کامل طور پر پائی جائیگی تو کبھی بھی اس کے ساتھ گناہ جمع نہیں ہو سکے گا یعنی اس سے اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا ہوگی اور وہ گناہوں سے بچانے کا سبب بنے گی۔ اسی طرح”مالک یوم الدین“ کا تذکرہ آخرت کی بھی یاد دہانی کا باعث بنتا ہے الغرض نماز خود بهي محبت اور خشیت الہی کے جذبات پیدا کرتی ہے إس لئے نمازى كے لئے الله تعالى كي محبت اور خشيت كي مشق هونا بهت ضروري أمور ميں سے هے اور نمازي کے يه لطيف جذبات اتباع شریعت کا اہم جزهيں خلاصہ کلام يه کہ نماز ہی سے اسلامی زندگی کی نشوونما ہوتی ہے بشرطيكه نماز صحيح معنوں ميں نماز هو۔
يقين والي نماز كے لئے الله تعالى سے رو رو کر دُعا كرنا
سب کچھ کرنے كے بعد كاميابي دينے والي ذات صرف اور صرف الله تعالى كي هے إس لئے دعوت اور مشق كا عمل كرنے كے بعد تيسرا اور آخرى كام الله تعالى سے رو رو كر اور گڑگڑا كر دعا مانگني بهت ضرورى هے.
اللہ تعالی کو یہ بات بہت پسند ہے کہ اس سے مانگا جائے، ہر چیز کے لئے امید اسی سے لگائی جائے، بلکہ جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ تعالی اس پر غضبناک ہوتا ہے، اسی لیے اپنے بندوں کو مانگنے کے لئے ترغیب بھی دلاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ[غافر]
ترجمہ: اور تمہارے رب نے کہہ دیا ہے کہ: مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کرونگا۔

اللہ سے دعا مانگنے کا دین میں بہت بلند مقام ہے، حتی کہ رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے یہاں تک فرما دیا: (دعا ہی عبادت ہے) ترمذی - ابو داود - ابن ماجہ






Share:

جسے اللہ ہدایت دے، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا

مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهٗ 

جسے اللہ ہدایت دے، اسے گمراہ کرنے والا کوئی نہ ہو گا


حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا شمار السابقون الاولون میں ہوتا ہے۔ حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ طبابت کے ساتھ جھاڑ پھونک بھی کرتے تھے۔  حضرت عبداللہ ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا تعلق ازدشنوہ قبیلہ سے تھا، یہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ آئے، وہاں انھوں نے ایک مجلس میں روساء قریش سے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی شخصیت اوران کی دعوت کا تذکرہ سنا، امیہ بن خلف نے آپ پر (نعوذ باللہ) دیوانہ ہونے کا اتہام لگا دیا ، حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے نیک نیتی کے ساتھ کہا میں پاگل پن، دیوانگی اورجنات کے اثرات کا جھاڑ پھونک کے ذریعے علاج کرتا ہوں، یہ شخص اب کہا ں ہے؟ شاید اللہ تعالیٰ اس کو میرے ہاتھوں سے شفاء عطاء فرمادے ، دوسرے دن حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو مقام ابراہیم پر نماز پڑھتے ہوئے پایا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نماز سے فارغ ہوئے تو  حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا : اے ابن عبدالمطلب ! آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی قوم آپ کے بارے میں گمان کررہی ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  جنون میں مبتلا ہوگئے ہیں۔  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ان کے دیوتاؤں  میں عیب نکالتے ہیں، انھیں بے وقوف گردانتے ہیں، اگر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  مناسب  سمجھیں تو میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا علاج کرسکتا ہوں، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اپنی بیماری کو گراں نہ سمجھیں کیونکہ میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سے بھی زیادہ شدید بیمار وں کا علاج کرچکا ہوں، یہ سن کر حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے خطبہ مسنونہ کے ابتدائی کلمات تلاوت فرمائے،

رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا” 

اِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَسْتَعِيْنُه وَنَسْتَغْفِرُه وَنَعُوْذُ باللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهٗ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِىَ لَه، وَاَشْهَدُ اَنْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَرَسُوْلُه،

بلاشبہ، تمام تعریفیں اللہ ھی  کے لیے ہیں، ہم اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اسی سے مغفرت کے طلب گار ہیں۔ہم اپنے نفسوں کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے، اسے گمراہ کرنے والا کوئی نہ ہو گا اور جسے وہ گمراہ کردے ،کوئی اسے ہدایت نہیں دے سکتا۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ اکیلے کے سوا کوئی معبود نہیں، کوئی اس کا شریک کار نہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔“

  حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کہنے لگے میں نے تو ایسا کلام پہلے کبھی نہیں سنا، اس میں تو سمندر سے زیادہ گہرائی ہے، از راہ کرم اسے دوبارہ ارشاد فرمائیے ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے یہ کلمات مبارکہ دو ہرا دیے۔ حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے استفسار کیا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا ، ایک اللہ پر ایمان لے آؤ جس کا کوئی شریک نہیں، اورخود کو بتوں کی غلامی سے آزاد کرلو اوراس بات کی گواہی دو کہ میں اللہ کا رسول ہوں، حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے کہا: اگر میں ایسا کر لوں تو مجھے کیا ملے گا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  فرمایا : جنت ! حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا : اپنا دست اقدس بڑھائیے۔ میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے اسلام پر بیعت کرتا ہوں۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے انھیں بیعت کرلیا ،اور پھر ارشاد فرمایا  یہ بیعت تمہاری قوم کے لیے بھی ہے،  حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا : بہت اچھا میری قوم کے لیے بھی۔

ایک عرصے بعد مسلمانوں کے ایک لشکر کا گزر ان کی قوم پر سے ہوا، لشکر کے امیر نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا : کہیں تم نے اس قوم کی کوئی چیز تو نہیں لے لی، ایک لشکر ی نے کہا میں نے ان کا ایک لوٹا اٹھا لیا ہے، امیر نے کہا : اسے فوراً واپس لوٹا دو، کیونکہ یہ  حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی قوم ہے، دوسری روایت میں کہ حضرت علی  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کی قیادت میں ایک لشکر کا بھی وہاں سے گزر ھوا ، لشکریوں کو وہاں بیس اونٹ الگ تھلک ملے تو انھوں نے  ساتھ لے لیے ، حضرت علی  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو خبر ہوئی کہ یہ تو حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی قوم کے ہیں تو انھوں نے  وہ اونٹ واپس فرمادئیے ۔ 

( مسلم ، بیہقی ، نسائی، ابونعیم)

Share:

سال گزر گیا مگر ایک دفعہ بھی قرآن پاک کھول کر نہیں دیکھا اور الزام امام مسجد پر


 افریقہ کے ایک شہر میں، ایک شخص حافظِ قُرآن و عالِمِ شریعت تھا۔ ۔ اسی سبب رمضان المبارک میں لوگ اُسے افطاری کے لئے  اپنے گھر بلاتے تھے ۔ ایک مقتدی نے رمضان المبارک میں ان کو افطار میں اپنے گھر بلایا ۔ عالِم جی نے دعوت قبول کی، اور افطار کے وقت اس مقتدی کے گھر پہنچے،

وہاں ان کا بہت شاندار استقبال کیا گیا، ۔افطار کے بعد عالِمِ دِین نے میزبان کے حق میں دُعا کی اور واپس چلے گئے، مقتدی کی زوجہ نے عالم کے جانے کے بعد, مہمان خانہ کی صفائی ستھرائی کی، تو اسے یاد آیا کہ، اس نے کچھ رقم مہمان خانہ میں رکھی تھی،  لیکن بہت تلاش کے باوجود وہ رقم اس عورت کو نہیں ملی، اور اس نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ،  کیا تم نے وہ رقم لی ہے؟  شوہر نے جواب دیا: نہیں، 

 اور پھر اس نے یہ بات شوہر کو بتائی کہ مہمان کے علاوہ کوئی دوسرا فرد ہمارے گھر نہیں آیا  اور ہمارا بچہ دوسرے کمرے میں تھا، اور جھولے میں رہنے والا اتنا چھوٹا سا بچہ ویسے بھی چوری نہیں کرسکتا۔ بالآخر دونوں میاں بیوی اس نتیجہ پر پہنچے کہ رقم مہمان یعنی امام مسجد نے ھی چوری کی ہے

یہ سوچتے ہوئے میزبان کے غم و غصہ کی انتہا نہ رہی، کہ یہ کیسا عالم ھے کہ ہم نے حافظ صاحب کو اتنے عزت و احترام کے ساتھ اپنے گهر بلایا، اور انہوں نے چوری جیسے جرم کا ارتکاب کیا، حالانکہ اس شخص کو تو قوم کے لئے نمونۂ عمل ہونا چاہیئے تھا، نہ کہ چور ڈکیٹ،

غم و غصہ کے باوجود اس شخص نے شرم کے مارے اس بات کو چهپا لیا،  لیکن درعین حال عالِمِ دِین سے دور دور رہنے لگا  تاکہ سلام دُعا نہ کرنی پڑے، اسی طرح مکمل سال گذر گیا اور پھر رمضان المبارک آگیا، 

اور لوگ پھر اسی خاص محبت اور جوش و خروش کے ساتھ عالم دین کو اپنے گھروں میں دعوت کے لیے بلانے لگے ۔ اس شخص نے اپنی زوجہ سے کہا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیئے ۔ مولانا صاحب کو گهر بلائیں یا نہیں؟ زوجہ نے کہا: ھمیں مولانا صاحب کو ضرور بلانا چاہیئے کیونکہ ممکن ہے مجبوری کے عالم میں انہوں نے وہ رقم اٹھائی ہو،۔ ہم انہیں معاف کر دیتے ہیں تاکہ الله کریم بھی ہمارے گناہ معاف کردے،اور پھر اس شخص نے مولانا صاحب کو اسی عزت و احترام کے ساتھ اپنے گھر افطار پر بلایا۔ 

جب افطار وغیرہ سے فارغ ہو گئے تو میزبان نے معزز مہمان سے کہا جناب آپ متوجہ تو ھوئے ہونگے کہ سال بھر سے آپ کے ساتھ  میرا رویہ کچھ تبدیل ھو گیا ہے؟ عالم نے جواب دیا:  ہاں,  لیکن زیادہ مصروفیت کی وجہ سے میں تم سے اس کی وجہ معلوم نہ کرسکا، 

میزبان نے کہا 

قبلہ! میرا ایک سوال ہے اور مجھے امید ہے آپ اس کا واضح جواب دیں گے، پچھلے سال رمضان المبارک میں میری زوجہ نے مہمان خانہ میں کچھ رقم رکھی تھی، اور پهر وہ رقم اٹھانا بھول گئی تھی ، اور آپ کے جانے کے بعد ڈھونڈنے کے باوجود وہ رقم ہمیں نہیں ملی، کیا وہ رقم آپ نے اُٹھا لی تهی؟

عالم دین نے کہا:

 ۔ جی ھاں وہ رقم میں نے ھی اُٹھائی تهی  میزبان یہ سن کر اور بھی زیادہ حیران پریشان ہو گیا، اور عالِمِ صاحب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سال رمضان  المبارک کے مہینے میں جب میں مہمان خانہ سے جانے لگا تو میں نے دیکها کہ، کاونٹر پر کچھ پیسے رکھے ہوئے ہیں، چونکہ تیز ہوا چل رہی تھی، اور نوٹ ہوا سے ادھر ادھر اڑ رہے تھے، لہذا میں نے وہ نوٹ اٗٹھا کر جمع کئے، اور سوچنے لگا انہیں کہاں رکھوں اور میں وہ رقم فرش کے نیچے یا کہیں اور نہیں رکھ سکا کہ، ایسا نہ ہو تم وہ رقم نہ ڈھونڈ سکو، اور پریشان ہو جاؤ ۔ اس کے بعد عالم نے زور سے اپنا سر ہلایا، اور اُونچی آواز میں  زارو قطار رونا شروع کر دیا، میزبان بہت حیران و ہریشان تھا کہ یہ ماجرہ کیا ھے ؟ اور پھر مولانا صاحب نے میزبان کو مخاطب کرکے کہا: میں اس لئے نہیں رو رہا کہ،تم نے مجھ پہ چوری کا الزام لگایا، اگرچہ یہ بھی بہت  ھی دردناک ہے  لیکن! میں اس لئے  رو رہا ہوں کہ، 365 دن گذر گئے، اور تم میں سے کسی نے بھی قرآنِ کریم کا ایک صفحہ بهی نہیں پڑها،اور اگر تم قرآن پاک کو ایک بار بھی کھول کر دیکھ لیتے تو تمہیں رقم قرآن پاک  میں رکھی ھوئی مل جاتی، کیونکہ میں نے اسی  خیال سے وہ رقم قرآن پاک میں رکھ دی تھی کہ قرآن پاک تو آپ نے ہڑھنا ھی ھو گا اور جب آپ قرآن پاک کھولیں گے تو رقم آپ کو مل جائے گی 

یہ سن کر میزبان بہت تیزی سے اٹھ کر قرآن مجید پر پڑی ھوئی گرد و غبار کو صاف کرتا ھوا اسے اٹها کر لے آیا ، اور عالم صاحب کے سامنے جلدی سے قرآن پاک کو کھولا، تو حیران ھوا کیونکہ اس کی مکمل رقم قرآن مجید میں رکھی ھوئی اُسے مل گئی تھی  ۔ 

مقامِ آفسوس ھے کہ یہ حال ہے آج ہم مسلمانوں کا کہ ، سال بھر میں ایک مرتبہ بھی قرآن پاک نہیں کهولتے، اور پھر بھی اپنے آپ  کو حقیقی اور سچا مسلمان سمجھتے ہیں۔۔۔

Share:

بیٹا یا بیٹی صرف اللہ پاک دیتے ھیں

 


لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-یَخْلُقُ مَا یَشَآءُؕ-یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّكُوْرَ(49)اَوْ یُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًاۚ-وَ یَجْعَلُ مَنْ یَّشَآءُ عَقِیْمًاؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ(50)

اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت ۔ پیدا کرتا ہے جو چاہے ۔ جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملا کر دے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کردے۔  بےشک وہ علم و قدرت والا ہے (سورہ الشوری)

 ان آیات مبارکہ میں یہ بتایا جا رھا ھے کہ ھر قسم کے اختیارات صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ انسان اللہ تعالی کی مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتا یہاں تک انسان اپنی اولاد کی پیدائش کے بارے میں بھی بالکل کوئی اختیار نہیں رکھتا کہ وہ اپنی مرضی سے بیٹا پیدا کر لے یا بیٹی پیدا کر لے ۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمانوں کا مالک اور بادشاہ ہے۔ اس کے اختیارات کا عالم یہ ہے کہ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے صرف بیٹیاں ہی عنایت کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے اسے صرف بیٹے عطا کرتا ہے۔ کسی کو بیٹے اور بیٹیاں دیتا ہے اور کسی کو زندگی بھر کچھ بھی نہیں دیتا ۔ وہ ہر چیز کا کامل اور اکمل علم رکھنے کے ساتھ ہر کسی پر قدرت رکھنے والا ہے۔ مذکورہ بالا آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے حوالے سے انسان کو یہ حقیقت سمجھائی ہے کہ اے انسان! جس رب کے ساتھ تو کفر و شرک کرتا ہے اس کے اختیارات کا عالم یہ ہے کہ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ وہ جسے چاہے بیٹے عطا فرمائے اور جس کو چاہے بیٹیاں دے اور جسے چاہے بیٹے، بیٹیاں دے اور جسے چاہے اسے بے اولاد  رکھے ۔ 

دنیا میں کوئی ایسا ایک بھی جوڑا نہیں جو اپنی مرضی سے بیٹے یا بیٹی کو جنم دے سکے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسی ذات ہے جو کسی کو بیٹے یا بیٹیاں دے سکے اور جسے اللہ تعالی اولاد نہ دینا چاھیے کوئی طاقت ایسی نہیں ھے جو اسے اولاد دے سکتا ہو ۔ سوچنے کی بات ھے کہ جب انسان اپنے رب کے سامنے اتنا بے بس اور بے اختیار ہے تو اسے دل کی رغبت کے ساتھ اپنے رب کا حکم ماننا چاہیے تاکہ دنیا میں اس کا بھلا ہو اور آخرت میں وہ سرخرو ہوسکے۔ اس کے باوجود یہ بیوقوف انسان  کسی کو مشکل کشا ،  کسی کو داتا اور کسی کو اپنا دستگیر بنائے ہوئے ہے۔ حالانکہ جس شخصیت کو یہ داتا  یا پھر داتا گنج بخش کہتا  ہے اس کی بے بسی اور مجبوری کا عالم یہ ھے کہ وہ بیچارہ خود بے اولاد ھی اس دنیا سے رخصت ھوا ۔ 


بیٹیوں کی پیدائش کا سبب بیویاں نہیں ھیں 

 بد قسمتی سے ھمارے معاشرے میں بیٹی کو ناپسند کرنے کی روش پروان چڑھتی جا رہی ہے ۔ بہت سے گھرانوں میں بیٹی پیدا ہونے کی وجہ سے بیوی پر جسمانی اور ذہنی تشدد , طرح طرح کی باتیں , طلاق کی دھمکیاں , گھر سے نکالنا , کوستے رہنا اور اس کی زندگی کو جہنم بنا دینا ایک معمول بن چکا ہے ۔ جن لوگوں کا تقدیر پر ایمان ہے انہیں لڑکیوں کی پیدائش پر رنجیدہ خاطر ہونے کی بجائے خوش ہونا چائیے ۔ ایمان کی کمزوری کے سبب جن بدعقیدہ لوگوں کا یہ تصور بن چکا ہے کہ لڑکیوں کی پیدائش کا سبب ان کی بیویاں ہیں،  یہ سراسر غلط ہے ۔ “گو میڈیکل کے اعتبار سے کسی جوڑے کے ھاں صرف لڑکیوں کا پیدا ھونا بیوی کی وجہ سے نہیں بلکہ شوھر کی اپنی کمزوری کی وجہ سے ھوتا ھے ۔ میڈیکل میں شوھر کی اس کمزوری کا علاج بھی کیا جاتا ھے اور شرعاً علاج  کروانے میں کوئی حرج بھی نہیں ھے ۔”  تاھم اسلام کا نقطۂ نظر یہ ھے کہ اس میں بیویوں کا یا خود شوھر کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ میاں بیوی تو صرف ایک سبب ہیں ،  پیدا کرنے والی ہستی تو صرف اللہ وحدہ لاشریک لہ کی ہے ۔ وہی جس کو چاہتا ہے لڑکا دیتا ہے جس کو چاہتا ہے لڑکی دیتا ہے جس کو چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے۔


بیٹیوں سے بُرا سلوک غیر انسانی فعل ھے 

یہ بات مشاھدہ کی ھے کہ لڑکی پیدا ہونے کی صورت میں کئی مائیں بچی کی طرف توجہ نہیں دیتیں بلکہ بعض مائیں تو دودھ ہی نہیں پلاتیں اور یوں بیٹی کے قتل کا ارتکاب کرتی ہیں ۔ بیٹی کی پیدائش پر اسے ہسپتال ہی چھوڑ آنا یا گاڑی کے اندر ہی چھوڑ جانا یا گلا دبا کر کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دینا وغیرہ معمول کی خبریں بن چکی ہیں ۔  بیٹیوں سے ایسا سلوک بالکل غیر انسانی فعل ھے یہ بیٹیاں تو رب تعالی کی رحمت ہوتی ہیں ۔ یہ بیٹیاں باپ  کےسرکاتاج ہوتی ہیں ۔ یہ بیٹیاں باپ  کاسہارا ہوتی ہیں ۔ باپ اور بھائیوں کےفیصلےکےسامنےاپنی خواہشات کودفن کردیتی ہیں یہ بیٹیاں ماں باپ کےدکھ درد میں ہروقت شریک رہتی ہیں

اے انسان ! ذرا سوچ  تو سہی کہ وہ عورت جو تیری ماں کے روپ میں ہے وہ بھی کسی کی بیٹی ہے ۔ ایک ہی پیٹ سے نکلی تیری بہنیں تیری ماں کی بیٹیاں ہیں , تو نے بھی کسی کی بیٹی سے ہی نکاح کیا ھوا ہے , اگر آج اللہ نے تیرے ہی گھر میں بھی رحمت نازل کی  ہے تو وہ تجھے اب کیوں زحمت لگنے لگی ہے۔ بیٹی کا قتل کبیرہ گناہ ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ [التكوير : 8]

اور جب زندہ دفن کی گئی (لڑکی) سے پوچھا جائے گا۔


بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ [التكوير : 9]

کہ وہ کس گناہ کے بدلے قتل کی گئی؟


دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے

وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا [الإسراء : 31]

اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی انھیں رزق دیتے ہیں اور تمھیں بھی۔ بے شک ان کا قتل ہمیشہ سے بہت بڑا گناہ ہے۔

یہاں اللہ تعالیٰ نے اولاد کے قتل کا سبب موجودہ یا آئندہ فقر کا خوف بیان فرمایا ہے ۔ آج بیٹیوں کے قتل کے پیچھے لوگوں کے ذہنوں میں یہی خوف کارفرما ہے کہ بیٹی بڑی ہو کر بوجھ بنے گی ۔ اسے جہیز دینا پڑے گا ۔ کما کر کھلانا پڑے گا وغیرہ وغیرہ 

حضرت  عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا  کہ میں نے نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سے پوچھا کہ کون سا گناہ اللہ کے یہاں سب سے بڑا ہے؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  فرمایا یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ میں نے کہا یہ تو بہت بڑا گناہ ہے۔ میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  فرمایا یہ کہ تم اپنے بچے کو اس خطرہ کی وجہ سے قتل کر دو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کون؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو


بیٹی کی پیدائش پر منہ چڑھانا کفار کا طریقہ ہے

بیٹی کی پیدائش پر پریشان و غمگین ھونا ھمیشہ سے  کفار کا طریقہ رھا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کی حالت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ [الزخرف : 17]

حالانکہ جب ان میں سے کسی کو اس چیز کی خوش خبری دی جائے جس کی اس نے رحمان کے لیے مثال بیان کی ہے تو اس کا منہ سارا دن سیاہ رہتا ہے اور وہ غم سے بھر ا ہوتا ہے۔

دوسرے مقام پر ارشاد ھے

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ [النحل : 58]

اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کا منہ دن بھر کالا رہتا ہے اور وہ غم سے بھرا ہوتا ہے۔


يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ [النحل : 59]

وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے، اس خوش خبری کی برائی کی وجہ سے جو اسے دی گئی۔ آیا اسے ذلت کے باوجود رکھ لے، یا اسے مٹی میں دبا دے۔ سن لو! برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔


کظیم دے مراد غم سے بھرا ہوا ہے، یعنی لڑکی کی پیدائش کی خبر سن کر سارا دن غم کی وجہ سے اس کا منہ کالا رہتا ہے، مگر وہ غم سے بھرا ہونے کے باوجود اظہار نہیں کرتا۔ ، اس لیے اس خوش خبری کو وہ اتنا برا سمجھتا ہے کہ لوگوں کو بتانے سے بھی گریز کرتا ہے اور اسے سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کرے۔ 

 یہ اللہ پاک کی مرضی ہے بیٹی عطا کرے یا بیٹا یا دونوں یا کوئی بھی نہیں ۔ بیٹی جنم دینے میں بیوی بے قصور ہے بلکہ میاں اور بیوی دونوں ہی بے قصور ہیں کیونکہ یہ فیصلہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے ۔  اس آیت میں یہ حقیقت واشگاف الفاظ میں بیان کر دی گئی ہے کہ زمین و آسمان کی بادشاہی دنیا کے نام نہاد بادشاہوں، جباروں اور سرداروں کے حوالے نہیں کر دی گئی اور نہ ہی اس میں کسی نبی یا ولی، داتا، دستگیر یا دیوی دیوتا کا کوئی حصہ ہے، اس کا مالک اکیلا اللہ تعالیٰ ہے۔ کتنے جابر بادشاہ اور سپہ سالار، کتنے انبیاء و اولیاء اور کتنے ماہر ڈاکٹر اور حکیم اولاد سے محروم رہے، کتنے لڑکے کو ترستے رہے اور کتنے لڑکی کی خواہش دل میں لیے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے دیتا ہے اور جو چاہے دیتا ہے، چنانچہ وہ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، یا لڑکے لڑکیاں دونوں عطا کر دیتا ہے اور جسے چاہے مرد ہو یا عورت عقیم (بانجھ) بنا دیتا ہے، کسی کو اس پر اعتراض یا شکوے کا کوئی حق نہیں۔  اگر مشرکین اس حقیقت کو سمجھ لیں تو کبھی شرک کی حماقت نہ کریں۔


بیٹی اللہ تعالیٰ کا تحفہ ہے

 ’’ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا ‘‘ میں لڑکیوں کو اللہ تعالیٰ کا عطیہ قرار دیا گیا ہے۔ جو لوگ لڑکیوں کو نحوست یا عار کا باعث سمجھتے ہیں انھیں ان الفاظ پر غور کرنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ وہ کسی عام ذات نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ تحفہ پر منہ چڑھانے کی وجہ سے کہیں اس کے غضب کا شکار نہ بن جائیں اور کسی ایسے جوڑے کے احساسات معلوم کرنے چاہییں جنھیں لڑکی بھی عطا نہیں ہوئی۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے پہلے بیٹیوں کا ذکر فرمایا، پھر بیٹوں کے عطا فرمانے کا ذکر کیا۔

بیٹیاں ہی دکھ درد میں والدین کی زیادہ خدمت کرتی ہیں عورت فطری طور پر محبت کی مٹی میں گوندھی ہوتی ہے مامتا اس کا بنیادی وصف ہے وہ بہن کے روپ میں بھی مامتا سے مالا مال ہوتی ہے چھوٹے بہن بھائیوں سے اس کا طرز عمل ماں جیسا ہوتا ہے ۔ ایسے واقعات بہت ہیں کہ بہن مالدار ہوتو بھائیوں کا ضرور خیال رکھتی ہے لیکن ایسا بہت کم ہے کہ بھائی مالدار ہوں اور بہن کا خیال رکھتے ہوں


بیٹیاں دوزخ کی آگ کے سامنے پردہ بن کر حائل ہوجائیں گی

اسلام نے بیٹیوں کے حقوق کما حقہ ادا کرنے والوں کو اس قدر خوشخبریاں دی ہیں کہ اتنی خوشخبریاں دس بیٹے رکھنے والوں کو بھی نہیں دی گئی

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا میں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو فرماتے ہوئے سنا:

’’مَنْ کَانَ لَہُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ، فَصَبَرَ عَلَیْہِنَّ، وَأَطْعَمَھُنَّ، وَسَقَاہُنَّ، وَکَسَاھُنَّ مِنْ جِدَتِہِ کُنَّ لَہُ حِجَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔‘

أحمد والبخاري والألباني:صحيح

[جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں، اور وہ ان پر صبر کرے، انہیں اپنی استطاعت کے مطابق کھلائے، پلائے اور پہنائے، تو وہ اس کے لئے روزِ قیامت پردہ ہوں گی (یعنی دوزخ کی آگ کے درمیان پردہ بن کر حائل ہوجائیں گی۔)]

 امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان فرمایا: ’’میرے پاس ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کے ہمراہ آئی۔ اس نے مجھ سے سوال کیا، لیکن اس نے میرے پاس سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہ پایا۔ میں نے اس کو وہی دے دی۔ اس نے اس کو لے کر ان دونوں میں تقسیم کردیا اور خود اس میں سے کچھ نہ کھایا۔ پھر وہ اٹھی اور اپنی دونوں بیٹیوں کے ہمراہ چلی گئی۔  نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ    میرے ہاں تشریف لائے، تو میں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو یہ واقعہ سنایا۔ نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا:

’’مَنْ ابْتُلِيَ مِنَ الْبَنَاتِ بِشَيْئٍ، فأَحْسَنَ إِلَیْھِنَّ، کُنَّ لَہُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ۔[جس شخص کو ان بیٹیوں میں سے کسی چیز کے ساتھ آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے ان کے ساتھ احسان کیا، تو وہ اس کے لیے [جہنم کی] آگ کے مقابلے میں رکاوٹ ہوں گی۔‘‘]

(متفق علیہ) 


بیٹیاں جنت میں لے جائیں گی

 حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: جس شخص کی دوبیٹیاں جوان ہوجائیں اور وہ ان سے اس وقت تک اچھا سلوک کرتا رہے جب تک وہ اس کے ساتھ رہیں،یا جب تک وہ ان کے ساتھ رہے ، وہ اسے جنت میں ضرور داخل کردیں گی۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا: رسول اللہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا:[’’جس شخص نے دو بیٹیوں کی، بلوغت کو پہنچنے تک، پرورش اور تربیت کی، وہ قیامت کے دن [اس طرح] آئے گاکہ میں اور وہ۔‘‘اور آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ    نے اپنی انگلیوں کو [ایک دوسری سے] ملا دیا۔]

صحیح مسلم، 


’’انبیاء کرام علیہم السلام بیٹیوں کے باپ تھے۔‘‘

امام احمدکے صاحبزادے صالح بیان کرتے ہیں، کہ جب ان کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوتی ، تو وہ فرماتے:’’ 

[’’انبیاء علیہم السلام  بیٹیوں کے باپ تھے۔‘‘]


نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  چار بیٹیوں کے باپ تھے

بیٹی کی پرورش کے حوالے سے یہی بات بہت بڑی ہے کہ ہمارے نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  بھی چار بیٹیوں کے باپ تھے نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اپنی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جایا کرتے۔ عموماً سفر سے واپسی پر ازواج مطہرات کے حجروں میں جانے سے پہلے انہی کے گھر جاتے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اپنی صاحبزادی کے استقبال کے لیے اٹھ کر آگے بڑھتے انہیں خوش آمدید کہتے۔ انہیں بوسہ دیتے۔ ان کا ہاتھ تھام لیتے اور مجلس میں اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھاتے۔ بیٹی کے استقبال میں ان سب باتوں کا اہتمام آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کا عام معمول تھا۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے اپنی بیٹی کو اپنا جگر گوشہ قرار دیتے ہوئے بیٹی کی تکلیف کو اپنی تکلیف قرار دیا   نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے بیٹی کو تھکاوٹ کی پریشانی کا تریاق بتاتے ہوئے نماز کے بعد اور بستر پر آنے کے بعد پڑھنے والے کلمات بھی سکھلائے۔


نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  بیٹیوں پر خصوصی توجہ فرماتے تھے 

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اپنی صاحبزادیوں کی عائلی زندگی کے معاملات کی طرف خصوصی توجہ فرماتے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے ان کی شادیوں کا خود اہتمام فرمایا، رخصتی کے وقت بیٹی کو تحائف دئیے، بیٹی کی عائلی زندگی میں ہونے والے نزاع کی اصلاح فرمائی۔   بیٹی کی وفات پر شدتِ غم کی بنا پر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے، لیکن زبان سے صبر کے منافی ایک لفظ بھی نہ نکالا۔ صاحبزادیوں کی وفات پر شدتِ الم و رنج کے باوجود آنحضرت   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ان کی تجہیز، تکفین اور تدفین کا بندوبست ذاتی نگرانی میں کرواتے۔


اگر بیٹا نعمت ہے تو بیٹی رحمت ہے

 بیٹے نعمتیں ہیں اور بیٹیاں انسان کی نیکیاں ہیں اللہ تعالی نعمتوں کا حساب لے گا اور نیکیوں پر ثواب عطا کرے گا


   اے اللہ ! مجھے ساتویں بیٹی عطا فرما 

ایک شخص کے ہاں صرف بیٹیاں ھی پیدا ھوتی تھیں ہر مرتبہ اس کو امید ہوتی کہ اب تو بیٹا پیدا ہوگا مگر ہر بار بیٹی ہی پیدا ہوتی اس طرح اس کے ہاں یکے بعد دیگرے چھ بیٹیاں پیدا ہوگئیں اس کی بیوی کے ہاں پھر ولادت متوقع تھی وہ ڈر رہا تھا کہ کہیں پھر لڑکی پیدا نہ ہو جائے ۔ شیطان لعین نے اس کو بہکایا چنانچہ اس نے ارداہ کرلیا کہ اگر اس بار بھی لڑکی پیدا ہوئی تو وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے گا۔ اس کی کج فہمی پر غور کریں بھلا اس میں بیوی کا کیا قصور ؟

رات کو سویا تو اس نے ایک عجیب وغریب خواب دیکھا۔  اس نے دیکھا کہ قیامت برپا ہو چکی ہے ۔ اس کے گناہ بہت زیادہ ہیں جن کے سبب اس پر جہنم واجب ہوچکی ہے۔ لہٰذا فرشتوں نے اس کو پکڑا اور جہنم کی طرف لےگئے ۔ پہلے دروازے پر گئے۔ تو دیکھا کہ اس کی ایک بیٹی وہاں کھڑی تھی جس نے اسے جہنم میں جانے سے روک دیا۔ فرشتے اسے لے کر دوسرے دروازے پر چلے گئے وہاں اس کی دوسری بیٹی کھڑی تھی جو اس کے لئے آڑ بن گئی۔ اب وہ تیسرے دروازے پر اسے لے گئے وہاں تیسری لڑکی کھڑی تھی جو رکاو ٹ بن گئی۔ اس طرح فرشتے جس دروازے پر اس کو لے کر جاتے وہاں اس کی ایک بیٹی کھڑی ہوتی جو اس کا دفاع کرتی اور جہنم میں جانے سے روک دیتی۔ غرض یہ کہ فرشتے اسے جہنم کے چھ دروازوں پر لے کر گئے مگر ہر دروازے پر اس کی کوئی نہ کوئی بیٹی رکاوٹ بنتی چلی گئی۔ اب ساتواں دروازہ باقی تھا تو فرشتے اس کو لے کر اس دروازے کی طرف چل دیئے۔ اب اس پر بہت زیادہ گھبراہٹ طاری ہوئی کہ میری تو چھ ھی بیٹیاں تھیں جو رکاوٹ بنتی رھیں اب ساتویں دروازے پر میرے لئے رکاوٹ کون بنے گا کیونکہ ساتویں بیٹی تو ھے نہیں ۔ سو اسے اب معلوم ہوگیا کہ جو نیت اس نے کی تھی وہ بہت ھی غلط تھی وہ شیطان کے بہکاوے میں آگیا تھا۔ انتہائی پریشانی اور خوف ودہشت کے عالم میں اس کی آنکھ کھل گئی اور اس نے رب العزت کے حضور اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور دعا کی۔

اللھم ارزقنا السابعۃ : اے اللہ مجھے ساتویں بیٹی عطا فرما۔

بیٹیوں کی پیدائش پر رنجیدہ نہیں ھونا چاھیے بلکہ خوشی کا آظہار کرنا چاھیے البتہ اُن کے آچھے نصیب کے لئے دعا ضرور کرنی چاھیے۔ اللہ رب العزت تمام بیٹیوں کے نصیب اچھے کرے

 آمین یارب العالمین


Share: