نماز اور تلاوتِ قرآن مجید میں دل لگانے کا طریقہ

بعض حضرات نیک اعمال خصوصاً نماز میں دل نہ لگنے کا شکوہ کرتے ھیں اور پھر اس کے لئے وظیفوں کی تلاش میں رھتے ھیں حالانکہ اعمال پر ثابت قدمی کے لیے سب سے بنیادی اور اہم چیز انسان کی ہمت اور پختہ عزم  کا ھونا ضروی ھوتا ہے اور اس مقصد کو پانے کے لئے بد دین لوگوں سے کنارہ کش ھو کر  نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنا ایک تریاق کی حیثیت رکھتا ہے ، اس لیے عبادات اور اعمال کی ترقی  کے لیے کسی وظیفے کی ضرورت نہیں ھوتی بلکہ ہمت ، پختہ عزم اور پھر جہدِ مسلسل کی ضرورت ھوتی ہے اور اصلاحی مواعظ سننا اور پڑھنا اس میں ممد ومعاون ہوتا ھے ۔ 

 یہ بات ھمیشہ یاد رکھنی چاھیے کہ نماز پڑھنے میں دل لگے یا نہ لگے ، تلاوت میں لذت محسوس ہو یا نہ ھو ، ہم ھر صورت ان اعمال کے کرنے کے پابند ہیں کیونکہ مسلمان نیک اعمال صرف  رب کریم کی رضا کے لیے ھی کرتاہے، خواہ اسے اس میں لذت آئے یا نہ آئے، دل لگے یا نہ لگے ۔ یہ روحانی دواء ہے ، دواء میں مزہ آئے یا نہ آئے ھر صورت لینا ضروری ھوتا ہے تاکہ صحت خراب نہ ہو ،اسی طرح تمام عبادات ، بالخصوص  نماز اور تلاوتِ قران پاک روحانی غذائیں ھیں ان پر عمل کرنا اور روزانہ تلاوتِ قران پاک کی عادت بنانا بے حد ضروری ہے ورنہ روحانی کمزوری کے خدشہ کے ساتھ ساتھ جنت سے محرومی کا خطرہ بھی ہے ۔

فرض نمازیں مرد مسجد میں جا کر تکبیرہ اولی کے ساتھ جماعت کے ساتھ صفِ اول میں پڑھنے کی کوشش کریں اور عورتیں اول وقت میں گھر پر نماز کا اھتمام کریں ، فرائض، سنن اور نوافل کو تمام آداب کے ساتھ ادا کریں، نماز کے دوران اللہ تعالی کے سامنے کھڑے ہونے کا احساس کریں، دل و دماغ سے نماز میں حاضر رہیں، اپنے جسم کی حرکات و سکنات کو قابو میں رکھیں، قیام کے دوران اپنی نگاہ کو سجدے کی جگہ پراور رکوع میں پیروں کی جانب مرکوز رکھیں ، سجدے کی حالت میں نگاہ ناک  اور قعدے میں اپنی گود کی جانب رکھیں، پہلے سلام کے وقت دائیں کندھے اور دوسرے سلام کے وقت بائیں کندھے کو دیکھیں، اگر اس کے باوجود بھی وسوسے آئیں تو انہیں اہمیت نہ دیں، نمازیں اسی طریقے کے مطابق پڑھتے رہیں ، ان شاء اللہ آھستہ آھستہ وسوسے خود بخود ختم ہوجائیں گے اور نمازوں میں دل لگنا شروع ھو جائے گا۔ 

یہ بات بھی ذھن میں رھنی چاھیے کہ نمازی وہ ھوتا ھے جو پانچ وقت پابندی کے ساتھ نمازوں کی آدائیگی کا اھتمام کرے یعنی پانچ نمازیں لازمی پڑھے ۔ جو شخص روزانہ پانچ سے کم یعنی چار یا اس سے کم  نمازیں ادا کرتا ھے وہ نمازی نہیں ھوتا نہ ھی وہ نمازیوں کی فہرست میں شمار ھوتا ھے۔

ویسے تو ھر ایک نماز اپنی اپنی جگہ پر خصوصیت کی حامل ھے لیکن فجر کی نماز مسلمانوں کے لیے بہت ھی اہمیت کی حامل ہے حدیث مبارکہ میں ہے کہ فجر کی نماز منافقین پر بہت بھاری ہوتی ہے ۔ عام طور سے مسلمان نیند کے غلبے اور سستی سے اس نماز کوچھوڑ دیتے ہیں ۔ فجر کی نماز میں کوتاہی عموما رات کوزیادہ دیر تک جاگنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔اس لیے عشاء کی نماز کے بعد جلدی سونے کی  عادت بنائے ، بلاضرورت عشاء کے بعد زیادہ دیر تک نہ جاگے اس کے علاوہ انسان رات کو سونے سے پہلے دل میں تہجد یا کم از کم فجر کی نماز پڑھنے کا پکا ارادہ کرلے اور اگر ھو سکے تو دو رکعت صلاۃ الحاجۃ پڑھ کر اللہ پاک سے دعا بھی کرے ،نیز صبح جاگنے کے لیے حتی الوسع الارم وغیرہ بھی لگالے تو صدق نیت اور پختہ عزم کے ذریعہ فجر میں اٹھا جاسکتا ہے  اور جب فجر کے وقت آنکھ   کھلےتو  فوراً اٹھ جائے ، مزید نہ سوئے تو فجر کے لیے اٹھنا آسان ہوجائے گا ، جیسے رمضان المبارک میں سحری کے لیے صدق نیت اور پختہ عزم کی وجہ سے  اٹھنا ممکن ہوجاتا ہے۔

اسی طرح قرآنِ کریم کی تلاوت انتہائی  ادب کے ساتھ کرنی چاہیے، علماء نے اس کی تلاوت کے کچھ آداب بیان فرمائے ہیں، آداب میں  سے ایک ادب یہ ہے کہ مسواک اور وضو  کرنے کے بعد کسی جگہ یک سوئی کے ساتھ  نہایت ادب، سکون و تواضع کے ساتھ اگر ممکن ھو تو قبلہ رخ بیٹھے، کوشش کی جائے کہ چارزانو ہو کر اور ٹیک لگا کر نہ بیٹھے، قرآن کی عظمت دل میں  رکھے اور یہ تصور کرے کہ یہ اس ذات کا کلام ہے جو تمام بادشاہوں  کا بادشاہ ہے، پھر نہایت خشو ع و خضوع کے ساتھ تلاوت کر ے ، اگر معنی سمجھتا ہے تو تدبرو تفکر کے ساتھ آیاتِ رحمت و مغفرت پر رحمت اور مغفرت کی دعا مانگے اور عذاب اور وعیدوں  کی آیات پر اللہ  کے عذاب سے پناہ مانگے، اور آیاتِ تقدیس و تنزیہ پر سبحان اللہ  کہے  اور بوقتِ تلاوت رونے کی سعی و کوشش کرے، اگر رونا نہ آئے تو  بہ تکلف روئے اور رونے والوں  جیسی صورت بنائے۔

اللہ تعالی ھم سب کو ان اعمال کے کرنے کی توفیق عننایت فرمائے 

آمین یا رب العالمین 

Share:

حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنه کی عدالت اور ایک سچے قاتل کا سچا واقعہ ۔


دو نوجوان حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنه کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں “یا  آمیر المؤمنین ( رضی الله تعالی عنه ) یہ ہے وہ شخص”

 حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنه ان سے پوچھتے ہیں ” کیا کیا ہے اس شخص نے ؟

“یا امیر المؤمنین (رضی الله تعالی عنه )اس شخص نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه پوچھتے ہیں “کیا کہہ رہے ہو ۔ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے ؟”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں ” کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے ؟”

وہ شخص کہتا ہے “ہاں امیر المؤمنین (رضی الله تعالی عنه) مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه پوچھتے ہیں ” کس طرح قتل ہوا ہے ؟”

وہ شخص کہتا ہے “یا آمیر المؤمنین (رضی الله تعالی عنه ) انکا باپ اپنے اُونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا ۔ میں نے منع کیا لیکن وہ  باز نہ آیا تو میں نے ایک پتھر اسے  دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا ”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه اس شخص سے کہتے ہیں ” پھر تو اب اپ کو قصاص دینا پڑے گا ۔ موت ہے اسکی سزا ”

یہ تھا عدلِ فاروقی کہ نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت اور نہ ھی  انتظار  کی اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں ۔ نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے ؟ ان سب باتوں سے بھلا حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه کو مطلب ہی کیا تھا ۔ کیونکہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه  پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر  حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه کو روک سکتا ہے۔ حتٰی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو ۔ قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔

وہ شخص کہتا ہے ”ا ے امیر المؤمنین ( رضی الله تعالی عنه )اُس کے نام پر جس کے حُکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ۔ میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه اس شخص سے کہتے ہیں ”کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر پھر واپس بھی آ جائے گا؟”

مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے ۔ خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے ۔ کون ضمانت دے اسکی ؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے ؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔ اور کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔

محفل میں موجود صحابہ کرام پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے۔ اس صورتحال سے خود حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه بھی متأثر ہیں۔ کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں ؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا،

خود حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه بھی سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں ”معاف کر دو اس شخص کو ”

نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں ”نہیں امیر المؤمنین : رضی الله تعالی عنه جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں ۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ”

 حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ”اے لوگو ۔ ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟”

حضرت ابو ذر غفاری رضی الله تعالی عنه اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں ”میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی”

 حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه کہتے ہیں “ابوذر (رضی الله تعالی عنه )اس نے قتل کیا ہے”

حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں “چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو

حضرت عمرِ فاروق (رضی الله تعالی عنه):  جانتے ہو اسے ؟”

ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ :  نہیں جانتا ”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه : تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو ؟”

حضرت ابوذر (رضی اللہ تعالی عنہ) : میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا ۔ انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا ”

حضرت عمرِ فاروق (رضی الله تعالی عنه ) : ابوذر (رضی الله تعالی عنه ) دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا ”

حضرت ابوذر (رضی اللہ تعالی عنہ ) : اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں ” امیر المؤمنین (رضی الله تعالی عنه )پھر اللہ مالک ہے”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه سے تین  دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے ۔ کچھ ضروری تیاریوں کیلئے ۔ بیوی بچوں کو الوداع کہنے ۔ اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے اور پھر اس کے بعد قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔

اور پھر تین دن گزر گئے حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے ۔ انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا۔ عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے ۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے ۔حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر  حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ شخص ابھی تک نہیں پہنچا 

 حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه حضرت ابوزر رضی الله تعالی عنه سے سوال کرتے ہیں ” کدھر ہے وہ آدمی ؟”

ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ مختصر جواب دیتے ہیں “مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین (رضی الله تعالی عنه)

ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ محفل میں ہُو کا عالم ہے ۔ھر شخص پریشان ھے کہ  حضرت ابوزر  رضی الله تعالی عنه  کی جان قصاص میں چلی جائے گی کیونکہ حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه کو تو ھر صورت انصاف کرنا ھے ۔  اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے ؟

یہ سچ ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه کے دل میں بستے ہیں، اگر وہ حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه سے ان کے جسم کا ٹکڑا بھی مانگیں تو حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه اس میں دیر نہ کریں کاٹ کر حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی  عنہ کے حوالے کر دیں ۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے ۔ اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے ۔ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا ۔ نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے ۔ حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن ھر صورت جاتی نظر آ رہی ہے۔

مغرب سے چند لمہات  پہلے دور سے کسی شخص کے آنے کے آثار نظر آتے ھیں۔  نزدیک انے ہر پتہ چلتا ھے کہ یہ وہی شخص  ھے ۔ بے ساختہ حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے۔ ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ” اے شخص ۔ اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا۔ نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا ”

وہ بولا ” امیر المؤمنین (رضی الله تعالی عنه) اللہ کی قسم ۔ بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ۔ دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں ۔ اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر ۔ جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان ۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں ۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه  حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا ” ابوذر رضی الله تعالی عنه تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی ؟”

حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا ” اے آمیر المؤمنین رضی الله تعالی عنه )مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟

نوجوانوں نے جن کا باپ اس شخص کے ھاتھ سے مرا تھا روتے ہوئے کہا ” اے امیر المؤمنین (رضی الله تعالی عنه) ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں ۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گرنے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمايا ۔۔۔

” اے نوجوانو ۔ تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے”

” اے ابو ذر (رضی الله تعالی عنه)  اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے”

” اور اے شخص ۔ اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے”

” اور اے امیر المؤمنین  (رضی الله تعالی عنه )اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے”

Share:

کبھی ہمارے حکمران ایسے بھی ہوا کرتے تھے


حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ اپنے زمانے کے ممتاز صوفی بزرگ اور عالم باعمل تھے جب اُن کی وفات ہوئی تو پورے شہر میں کہرام مچ گیا۔ جنازہ تیار ہوا تو ایک بڑے میدان میں جنازہ پڑھنے کے لئے لایا گیا. مخلوق بڑی تعداد میں جنازہ پڑھنے کے لیے نکل پڑی تھی۔ انسانوں کا ایک سمندر تھا جو حدِ نگاہ تک نظر آتا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ایک بِپھرے ہوئے دریا کی مانند یہ مجمع ہے۔ جب جنازہ پڑھانے کا وقت آیا ایک آدمی آگے بڑھا. اور مجمعے سے مخاطب ھو کر کہنے لگا کہ میں حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ کا وصی ہوں. مجھے حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ نے اپنے جنازہ کے متعلق وصیت کی تھی ۔ میں اس مجمع تک اُن کی وہ وصیت پہنچانا چاہتا ہوں، مجمع خاموش ہوگیا۔ وصیت کیا تھی؟ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ  نے یہ اپنی   زندگی میں یہ وصیت فرمائی تھی کہ میرے مرنے کے بعد میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے جس کے اندر چار خوبیاں موجود ہوں۔

(1)  پہلی خوبی یہ ہے کہ زندگی میں اس کی کھبی بھی تکبیر اولیٰ قضا نہ ہوئی ہو 

(2) دوسری خوبی یہ کہ اس کی تہجد کی نماز کبھی بھی قضا نہ ہوئی ہو

(3) تیسری خوبی  یہ ہے کہ اس نے غیر محرم پر کبھی بھی بری نظر نہ ڈالی ہو، 

(4) چوتھی خوبی  یہ ہے کہ اتنا عبادت گزار ہو حتیٰ کہ اس نے عصر کی سنتیں بھی کبھی نہ چھوڑی ہوں. 

جس شخص میں یہ چار خوبیاں ہوں صرف وہ میرا جنازہ پڑھائے،

 جب یہ بات مجمع کے سامنے کی گئی تو مجمع کو تو گویا سانپ سونگھ گیا۔ اتنے بڑے مجمعے میں سناٹا چھا گیا ۔ لوگوں کے سر جھک گئے۔ کون ہے جو قدم آگے بڑھائے، لوگ پریشان تھے اور چہ میگوئیاں کر رھے تھے کہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ کا جنازہ آخر کون پڑھائے گا ؟ کافی وقت گزر گیا لیکن کوئی شخص بھی جنازہ پڑھانے کے لئے اگے نہ بڑھا ۔ آخرکار ایک شخص روتا ہوا آگے بڑھا۔ وہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ کے جنازے کے قریب آیا. جنازے سے چادر ہٹائی اور کہا حضرت :  آپ خود تو چلے گئے لیکن مجھے رُسوا کردیا اور میرا راز کھول دیا 

اس کے بعد بھرے مجمع کے سامنے اَللّٰه تعالی کو حاضر و ناظر جان کر قسم اٹھائی کہ میرے اندر الحمدُ للہ یہ چاروں خوبیاں موجود ہیں لوگوں نے دیکھا یہ وقت کا بادشاہ " سلطان شمس الدین التمش  رحمة اللہ علیہ "  تھا ۔ 

کبھی ہمارے مسلمان حکمران ایسے بھی ہوا کرتے تھے اور اگر آج کے مسلمان حکمرانوں کے کردار کا بھی ذرا جائزہ لیں تو سر شرم سے جھک جاتے ھیں اور ان کی دین سے رغبت کا حال یہ ھے کہ ھمارے یہ لیڈر سورہ اخلاص تک بھی نہیں پڑھ سکتے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر لفظ “خاتم النبیین “ تک ادا نہیں کر سکتے یہ  نہایت افسوس کا مقام  ھے ۔ اس سے بھی زیادہ آفسوس اُن لوگوں پر ھے جن کی اکثریت دیندار اُمیدواروں کو چھوڑ کر ان چوروں اور لٹیروں کو اپنے ووٹ سے نہ صرف منتخب کرتی ھے بلکہ انہیں ھر طرح سے سپورٹ بھی فراھم کرتی ھے ۔ 

Share:

مانسہرہ کا اجتماع اور مولانا طارق جمیل حفظہ اللہ کا بیان

 اپنی ایک اور دنیا

گذشتہ دنوں مانسہرہ اجتماع میں مولانا طارق جمیل صاحب  حفظہ اللہ کے حوالے سے جو ناخوشگوار واقعہ پیش آیا  اس سے دعوت و تبلیغ سے محبت کرنے والے ھر شخص کو بہت تکلیف پہنچی ھے ۔ حضرت مولانا طارق جمیل صاحب  حفظہ اللہ ایک بلند مرتبہ عالم دین ھیں اور ھمارے سروں کے تاج ھیں ۔ واقعہ کچھ یوں ھوا کہ حضرت مولانا طارق جمیل صاحب دامت برکاتم اجتماع میں بیان کرنا چاھتے تھے لیکن ذمہ دار حضرات نے اس کی  آجازت نہیں دی ۔ جس کے بعد ھونا تو یہ چاھیے تھا کہ مولانا صاحب  خاموشی سے واپس آجاتے اور رائیونڈ جا کر اپنی شکایات اکابرین کے سامنے رکھتے لیکن اس کے برعکس مولانا طارق جمیل حفظہ اللہ نے سوشل میڈیا پر آکر دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اکابرین تبلیغ کے بارے ایسے الفاظ ادا کیےجو یقیناً اُن کی شان کی سراسر خلاف تھے اور مولانا صاحب کو اس طرح کے الفاظ ھرگز زیب نہیں دیتے تھے پھر سوشل میڈیا کے لونڈے  لپاڑوں نے بھی اسے مرچ مسالا لگا کر خوب خوب آچھالا

سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ آخر مولانا موصوف اجتماع میں بیان کیوں کرنا چاھتے تھے؟  اور ذمہ دار حضرات نے ایسا کیوں نہ کرنے دیا ؟  ۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ھے کہ ھمیشہ سے طریقہ کار یہ رھا ھے کہ جماعت کی طرف سے طے شدہ آصولوں کے مطابق اجتماع میں بیان کے لئے شوری حضرات کا مشورہ ھوتا ھے اس مشورہ میں بیان کرنے والوں کے نام طے کر لیے جاتے ھیں اور پھر طے ھونے والے بزرگ ھی بیان کرتے ھیں لیکن  باھر کے کسی بھی عالم یا واعظ کو بیان نہیں دیا جاتا۔ یہ جماعت کا طے شدہ آصول ھے اور مولانا صآحب  اس سے بخوبی واقف ھیں ۔ مولانا صآحب چونکہ جماعت کے آصول و ضوابط  کی خلاف ورزی (مثلاً میڈیا کا استعمال ، سیاست میں دلچسپی وغیرہ وغیرہ ) کی بنا پر اب جماعت کی شوری کے رکن نہیں ھیں اس لئے ان کی طرف سے اجتماع میں بیان کرنے کے لئے اصرار کرنا ھی سراسر غلط تھا  ۔ دعوت و تبلیغ کا کام خالصتاً اللہ تعالی کی رضا کے لئے کیا جاتا ھے اس لئے اس کام میں شخصیتیں اھم نہیں ھوتیں بلکہ آصولوں پر عمل پیرا ھو کر دعوت و تبلیغ کے کام میں محنت کرنا اھم ھوتا ھے ۔ کچھ لوگوں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ مولانا صاحب کی وجہ سے تبلیغ کا کام سات براعظموں میں متعارف ھوا ھے  جبکہ حقیقت یہ ھے کہ لاکھوں اللہ کے بندے اس محنت کو کر رھے ھیں اور دعوت و تبلیغ کا کام مولانا  کی وجہ سے نہیں بلکہ مولانا صاحب تبلیغ کے کام کی برکت سے دنیا بھر میں متعارف  ھوئےھیں  ورنہ اُن کے بھائی بھی تو ھیں انہیں کوئی جانتا بھی نہیں 

مولانا طارق جمیل صاحب حفظہ اللہ ایک بلند پایہ عالمِ دین ، صاحبِ طرز واعظ  ، عالمی مبلغِ اسلام اور باعمل  داعیٔ دین ہیں۔ یقیناً ان کےسیاسی اور فکری ناقدین بھی ہوں گے،مگر ان کو پسند کرنے والوں کا بھی ایک بہت بڑا حلقہ ہے۔ تبلیغی بزرگوں کی ہدایات اور تحفظات کو بار بار وہ یہ کہہ کر نظر انداز کرتے رھے کہ “میری ایک اور دنیا بھی ہے"  ظاھر ھے یہ دنیا میڈیا کی دنیا ہے، شوبز اور سپورٹس وغیرہ کی دنیا ہے۔ مقتدر لوگوں کی دنیا ھے  ان کو متاثر کرنے پر قدرت رکھنےکا مولانا کوبڑا زعم اور اس پر ناز بھی ہے ۔ یقیناً “ البیان لسحر" کی خوبی بدرجۂ اتم اُن میں موجود بھی ھے لہذا اس طرح کے  لوگوں کے لئے  ان کابیان جادو اثر ہوسکتا ھے ۔

 یہاں سوال تو یہ ھے  کہ اگر حضرت والا کو جماعت کے آصول و ضوابط کی خلاف ورزی کی بنا پر اجتماع  میں بیان کاموقع نہیں دیا جارہا تو اس میں   حرج کی کیا بات  ہے؟ ۔ مولانا صاحب اپنی اس دوسری دنیا کوٹائم دیں۔دعوت و تبلیغ کے کام کو الحمدُ للہ مخلص بندوں کی کوئی کمی نہیں یہاں تو بہت اللہ کے بندے موجود ہیں جو ان کی جگہ کام کرنےکےلئے تیار ھیں بلکہ کر بھی رھے ھیں ۔ مستقبل میں بھی انشاء اللہ کبھی بھی کوئی افرادی کمی محسوس نہیں ہوگی۔ جبکہ اس دوسری دنیا میں تو چند گنے چنے افراد ھی موجود ھیں وہ بھی شاید مولانا صاحب کے مقابلےکی ھمت نہ رکھتے ھوں  ، مولانا صاحب عالمی  مبلغ اسلام ھیں لہذا وہیں اپنے مزاج کے مطابق بلا روک ٹوک کھل کر دعوتِ دین کا کام کریں، لوگوں میں محبت بانٹ کر ان کی اصلاح کریں۔ اور کافی حدتک وہ کر بھی رھے ھیں ۔مولانا صاحب کومیڈیا کی ضرورت واہمیت کابہت احساس وادراک ہے

اور مولانا طارق جمیل صاحب کے فالورز بھی 6 ملین (60 لاکھ) تک ہیں تو تبلیغی جماعت سمیت کسی بھی ادارے کی مولانا صاحب کو شاید اب ضرورت نہیں ھے ۔ مولانا صاحب سے چار  گنا زیادہ یعنی 24 ملین فالورز رکھنے والے ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب بھی تو اپنا کام شخصی بنیادوں پر ھی کررہے ہیں ۔اس طرح اور کئی مشہور مبلغین کااپنا اپنا حلقہ ہے اور اپنا  اپنا مشن ۔ مولانا صاحب کو بڑے خاندان اور دولت کی فراوانی پر بھی فخر ہے جس کا اظہار وہ وقتاً فوقتاً کرتے بھی رھتے ھیں ۔  یقیناً مولانا صاحب کو الحمدُ للہ وسائل کی کوئی کمی نہیں، ان کے پاس افرادی قوت  بھی ھے پھر وہ دعوتِ دین   میں اپنی  متاثر کن شخصیت کی بنا پر ذاکر نائیک کی طرح اپنی صلاحیتوں کا لوھا منوا سکتے ھیں ۔ 

اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں کہ مولانا صاحب  حفظہ اللہ کا ایک بڑا مقام ھے دعوت و تبلیغ کے اعتبار سے بھی اور علمی قابلیت کے اعتبار سے بھی،  لیکن یہ بھی ایک کھلی ھوئی حقیقت ھے کہ اس وقت تبلیغی جماعت کا کوئی نعم البدل دنیا میں موجود نہیں ھے  لہذاحقیقت یہی ھے کہ دعوت و تبلیغ  کے کام  کو بندوں کی نہیں بلکہ بندوں کو خود دعوت و تبلیغ کے کام کی ضرورت ھے لہذا جو علماء کرام دعوت و تبلیغ کا یہ خصوصی پلیٹ فارم استعمال کرنا چاھیں گے یا کر رھے ھیں تو انہیں آصول و ضوابط کی بہرحال لازمی پابندی کرنا ھو گی بصورت دیگر عام لوگوں کی طرح تبلیغ کا کام کرنے پر تو مولانا سمیت کسی کے لئے بھی کوئی روک ٹوک نہیں ، بےشک ساری زندگی کرتے رھیں اور اس صورت میں تبلیغ سے باھر ان کی  زاتی زندگی میں کوئی پابندیاں بھی نہیں ھوں گی ۔ 

مولانا صاحب اگر دوبارہ اپنے ماضی کی طرف لوٹنا چاھتے ھیں   تو اُن کے لئے واپسی کا راستہ آج بھی کھلا ھے کہ مولانا صاحب اپنی کوتاھیوں غلطیوں اور آصول و ضوابط  کی خلاف ورزیوں پر کھلے دل  سے اکابرینِ تبلیغ  سے معذرت کر لیں اور ائندہ شکایت کا موقعہ نہ دینے کی اُنہیں یقین دھانی کروائیں  اور میڈیا اور سیاست وغیرہ کے آلائشوں سے اپنے اپ کو پاک کرکے دوبارہ شوری میں واپس آجائیں اور  ائندہ شوری کے آصول و ضوابط کی پابندی کریں اور باقی ماندہ  زندگی اسی کام میں وھیں گزار دیں ۔ ان شاء اللہ اکابرینِ تبلیغ مولانا کا خیر مقدم کریں گے یہی مولانا صاحب کے لئے سب سے بہتر راستہ ھے اور اگر بالفرض  وہ ایسا نہیں کرنا چاھتے تو پھر انہیں چاھیے کہ وہ تبلیغی مراکز کے کاموں میں  مداخلت نہ کریں اور مراکز یا اجتماعات میں بیان کرنے  کی اپنی خواھش کو خوش اسلوبی سے رضاکارانہ طور پر ترک کر دیں اور کوئی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائیں اور تبلیغ کے اکابرین پر تنقید نہ کریں نہ ھی تبلیغ  کے کام میں کوئی رکاوٹ ڈالنے کی کوئی کوشش کریں بلکہ وہ اس میدان میں اپنی توانائیاں صرف کریں جس سے ان کو زیادہ دلچسپی بھی ہے اور اس کی وہ اچھی خاصی سمجھ بوجھ بھی رکھتے ھیں ۔ 

 عام لوگوں کی علمائے کرام پر تنقید کی اوقات  نہیں  لیکن  عوام الناس  جو مولانا طارق جمیل صاحب کی حمایت کر رہی ہیں وہ تبلیغی بزرگوں پر تنقید کر رہے ہیں اور جو تبلیغی بزرگوں کی حمایت کر رہے ہیں وہ مولانا طارق جمیل صاحب پر تنقید کر رہے ہیں۔ یہ بھی بالکل غلط رویہ ھے ۔  مولانا طارق جمیل صاحب ایک با عمل اور بڑے عالم دین ہیں ہمارے دل میں ان کے لیے عزت ہے اور ہمیشہ رہے گی ان کے ذریعے ہمارے جیسے بہت سے گناہگاروں کو ہدایت ملی ہے  لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تبلیغی جماعت والے  کسی سیاسی جماعت یا کسی سیاسی رہنما کی نہ تو سپورٹ کرتے ہیں اور نہ ہی مخالفت۔ وہ جب بھی بات کرتے ہیں نظام کی بات کرتے ہیں اور کسی کو براہ راست سپورٹ یا براہ راست نشانہ نہیں بناتے لیکن چونکہ  مولانا صاحب نے کھل کر سیاسی شخصیات اور ان کی پارٹی کو سپورٹ کیا ہے اور جس پر مذہبی طبقے میں اسے شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا اور یہی وجہ ہے کہ  یہ شوری  کا فیصلہ تھا اور تبلیغی جماعت کو کسی  سیاسی پارٹی کا حمایتی  بننے کے الزام سے بچانے کے لیے مولانا کو شوری سے  دور رکھا گیا اور یہ سلسلہ گزشتہ کئی سالوں سے چل رہا ہے ۔  یہ بھی ماننا پڑے گا کہ مولانا صاحب نے جو گلے شکوے کیے ہیں ان کا  طریقہ کار بھی درست نہیں تھا  جب آپ  اللہ کی رضا کے لیے تبلیغ کر رہے ہیں تو اللہ کی رضا سمجھ کر جو سہولت مل رھی ھے اسی پر اکتفا کریں اور دین کی خدمت جاری رکھیں اللہ تعالیٰ مولانا طارق جمیل صاحب کو استقامت آپس میں محبت اور صحت و عافیت والی زندگی عطا فرمائے 

آمین ثم آمین۔


حضرت مولانا طارق جمیل صاحب حفظہ اللہ سے دردمندانہ آپیل  ھے کہ وہ  ان  جھمیلوں اور باہمی تنازعات سے اپنے آپ کو الگ کر لیں اور اور اپنے آصل مشن کے لئے تبلیغی جماعت کی طرف واپس لوٹ جائیں  اور حسبِ سابق جماعت کی ترتیب پر دعوت و تبلیغ کے کام میں لگ جائیں ۔ 

وفقک اللہ لمایحب ویرضی۔

Share:

فحاشی اور بے حیائی پھیلانے والوں کا بھیانک آنجام

 فحاشی، عریانی، جنسی اشتعال انگیزی جیسے جرائم کا ارتکاب کرنا نہ صرف کھلی ھوئی برائی ہے بلکہ بہت ساری برائیوں اور بیماریوں کا سبب بھی ھے جس سے اللہ تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ فحاشی کو فروغ دینے والوں کو اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب کی وعید سنائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت اُمت مسلمہ اور بالخصوص مسلمانان پاکستان جس طرح کے مسائل سے دوچار ہیں وہ پوری دنیا جانتی ہے۔ وطن عزیز میں قتل و غارت گری، لوٹ مار، کرپشن، مہنگائی، سیلاب، طوفان، بے پردگی، بے حیائی جیسی  بہت سی  پریشانیاں موجود ھیں ۔  حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ھے کہ اگر کوئی قوم بے حیائی میں مبتلا ہو کر کھلم کھلا اس کا ارتکاب کرنے لگے تو اس قوم میں طاعون اور وہ بیماریاں پھیل جاتی ہیں جن کا نام ماضی میں نہ سُنا گیا ہو‘‘ (سنن ابن ماجہ)۔

اللہ تعالی نے قرآن پاک میں  فحاشی و عریانی پھیلانے والے لوگوں کے لئے دردناک عذاب کی جو وعید سنائی ھے یہ دردناک عذاب ان لوگوں کو  دنیا میں بھی مختلف طریقوں سے ملتا رھے  گا اور آخرت  کا عذاب تو بہرکیف بہت ھی سخت ھو گا لہذا ارشادِ باری تعالی ھے 

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(19)

جولوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزومندرہتے ہیں ان کے لیے دنیا اورآخرت میں دردناک عذاب ہیں ۔اللہ سب کچھ جانتا ہے اورتم کچھ بھی نہیں جانتے(سورة النور 19)

مسلم معاشرے میں ہمیشہ نیک عادات کا چلن ہوناچاہیے تاکہ معاشرہ پاکیزہ رجحانات کا حامل بن سکے ،جھوٹی خبر کی اشاعت، بے حیائی کی طرف دعوت اور معاشرے میں بُرے رجحانات کی تبلیغ اس قدر مذموم حرکات ھیں  کہ اللہ رب العالمین نے ایسے لوگوں کو دنیا  اورآخرت میں دردناک عذاب کی دھمکی دی ہے۔ ظاہر ہے کہ معاشرے میں جب برے رجحانات عام ہوں گے تو معاشرہ انارکی کا شکارہوگا ، برائیاں سر چڑھ کر بولیں گی ، بے حیائی اور بدکاری کا دور دورہ ہوگا اور اس طرح پورا معاشرہ ھی بُری طرح ہلاکت کا شکار ہوجائے گا ۔

آیت مبارکہ کے ظاہری الفاظ فحاشی پھیلانے کی تمام صورتوں پر محیط ہیں ۔ جو لوگ پاک دامن مردوں اور عورتوں کی عفت داغدارکرنے کے لیے ان پر تہمت لگاتے ہیں ، جولوگ جنسی انارکی کو ہوا دینے کے لیے بدکاریوں اور گانے بجانے کے اڈے قائم کرتے ہیں ، جولوگ شہوات کو بھڑکانے والے قصے ،کہانیوں ، گانوں اور کھیل تماشوں پر مشتمل پروگرام تیار کرتے ،اس قبیل کے رسالے اور لٹریچر شائع کرتے ہیں

جولوگ کلبوں اورہوٹلوں میں رقص وسرود کی محفلیں سجاتے ھیں اور مخلوط تفریحات کا انتظام کرتے ہیں جولوگ اخبارات ، ریڈیو، ٹی وی اورفلمی ڈراموں وغیرہ کے ذریعہ بے حیائی پھیلارہے ہیں اورگھر گھر اسے پہنچارہے ہیں جو لوگ اپنے گھروں میں آلاتِ موسیقی اور  ٹی وی وغیرہ لاکر رکھے ہوئے ہیں اور ان کے اہل خانہ اس سے بے حیائی کی تعلیم حاصل کررہے ہیں جو لوگ اپنی دکانوں میں فحش لٹریچر، فحاشی کا سبب بننے والے آلات  مثلاً  ٹی وی یا اس قبیل کی دوسری چیزیں  ، مخرب اخلاق رسالے ،سی ڈیز ،ویڈیوز ، اورنشہ آوراشیاء  وغیرہ فروخت  کرتے ہیں ۔

قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق یہ سارے لوگ بہت بڑے مجرم ہیں اوریہ سب اس جرم میں برابر کے شریک ہیں جن کو آخرت میں ہی نہیں دنیا میں بھی سزا ملتی ھے کہ ان کی بے حیائی خود ان تک محدودنہیں بلکہ یہ مسلم معاشرے میں بھی بدکاری اوربداخلاقی کوفروغ دینے کا موجب بن رہی ہے۔

پھر اس طرح کی حرکات کے اثرات معاشرے میں کہاں کہاں پہنچتے ہیں ، انفرادی اوراجتماعی زندگی میں کتنے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں ،کتنے گھروں میں بداخلاقی کا چلن ہوتا ہے ،کتنے گھر بربادہوتے ہیں اس کا صحیح اندازہ کرنا تو مشکل ھے کیونکہ اس کا علم صرف اللہ تعالٰی ہی کو ہے ۔ اس لیے ھماری ذمہ داری ھے کہ ھم اللہ تعالٰی کے احکام پر یقین کریں اور جن برائیوں کی وہ نشاندہی کر رھے ھیں ان سے خود بھی  بچیں اور مسلم معاشرے کو بچانے کی بھی  پوری کوشش کریں۔  یہ ظاہر میں تو معمولی برائی لگتی ہے لیکن اس کے اثرات دنیا و آخرت میں  انتہائی خطرناک ہیں ۔

اللہ تبارک  تعالٰی ہماری کمی کوتاہیوں اور لغرزشوں کو معاف فرمائے۔   ( آمین) ۔ کتاب اللہ (قران مجید ) کی مذکورہ بالا آیت کریمہ اپنے اندر جس قدر وسیع مضمون رکھتی ھے اگر اس آیت پہ تدبر کیا جائے تو آج بدقسمتی سے ہمارے معاشرے اور طبقے کا شاید ہی کوئی ایسا شخص ھو جو کسی نہ کسی درجے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ اس آیت مبارکہ کی زد میں نہ آتا ھو۔ لہذا اولاً تو ہم سب کو اپنا اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور ایسی تمام باتوں اور حرکات و سکنات سے خود کو بچانا چاہیے کہ جو فواحش کے پھیلانے کے زمرے میں آتی ھیں اور پھر اسکی روک تھام کے لئے اپنی اپنی جگہ ہر ہر فرد  کو اپنا اپنا مثبت کردار اور ذمہ داری  بھی بھرپور اور احسن انداز سے ادا کرتے رہنا چاہیے

Share:

امامِ آعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کا صبر اور اس کا نتیجہ

 *امامِ آعظم حضرت ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ امام صاحب رحمة اللہ علیہ سنت کے مطابق تین دن تک تعزیت کے لیے آنیوالوں کےلیے اپنے گھر میں ٹھرے رہے ۔ تین دن گزرنے کے بعد آپ رحمة اللہ علیہ گھر سے باہر نکل کر باھر  آگئے ۔

‏ایک شخص آپ رحمة اللہ علیہ کا سخت مخالف تھا وہ آپ رحمة اللہ علیہ سے بہت زیادہ حسد کیا  کرتا  تھا اور آپ رحمة اللہ علیہ کو پریشان کرنے کا کوئی موقعہ ھاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا  اور یہ بات  تمام اھل علاقہ بھی جانتے  تھے  جب آپ رحمة اللہ علیہ گھر سے باہر نکلے تو چوک میں بہت سارے لوگ جمع ھو گئےتھے،  وہ مکار شخص بھی سامنے سے تیزی کے ساتھ آیا اور  “السلام علیکم “ کہنے کے بعد بولا ابو حنیفہ (رحمة اللہ علیہ)! سنا ہے آپ کے والد صاحب انتقال کر گئے ہیں؟" امام صاحب رحمة اللہ علیہ نے ‏فرمایا " ہاں"  ۔کہنے لگا پھر آپ اپنی ماں کا نکاح میرے ساتھ کر دو”الله اکبر” ایسا سخت جملہ کہ وہ انسان کے دل میں سوراخ کر دے ،  انسان اس تکلیف سے سو بھی نہیں پاتا.‏ لیکن امام صاحب رحمة اللہ علیہ صبر و تحمل کے ساتھ کھڑے رہے، جملہ یقیناً بہت  سخت تھا لیکن چونکہ بات تو بہرحال شرعی تھی، غیر شرعی تو نہیں تھی۔  آس وقت امام صاحب رحمة اللہ علیہ کے ساتھ جو شاگرد اور عقیدت مند تھے وہ سخت غصے میں تھے بعض نے تو اپنی تلواریں بھی نیام سے نکال لی تھیں ۔ 

*‏امام صاحب رحمة اللہ علیہ نے فرمایا " رک جاؤ، میرے ساتھ میرا اللہ ہے، میں کوئی لاوارث تو نہیں ہوں۔

*‏حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ساری ہمت سمیٹی، آنکھوں میں آنسو جو چمکے تھے ان کو بھی صبر و تحمل سے اپنے دامن میں سمیٹ لیا،  اور پوری ھمت جمع کر کے اُس شخص کو کہنے لگے 

"*‏میاں تم نے کہا ہے "میں اپنی ماں کا نکاح تیرے ساتھ کر دوں تو سنو میری ماں عاقلہ بالغہ ھے  اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ھے تو عدت گزر لینے دے میں تیرا نام لے کے اپنی ماں  سے بات کروں گا اگر وہ تیرے ساتھ نکاح کرنے کے لئے راضی ھو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ھوگا ۔ یہ کہہ کے امام صاحب رحمة اللہ علیہ اپنے  عقیدتمندوں کے بازو تھامے اگے تشریف لے گئے۔ آپ رحمة اللہ علیہ کے وھاں سے جانے کے بعد وہ بندہ آچانک دھڑام سے زمین پہ گرا اور فوراً اُس کی روح پرواز کر گئی ۔

‏لوگوں نے آکر امام صاحب رحمة اللہ علیہ کو بتایا اور پوچھا "حضور! اسے کیا ہوا ھے  امام صاحب رحمة اللہ علیہ فرمانے لگے "اس نے سمجھا تھا کہ میں لاوارث ہوں، ‏اسے اور کچھ نہیں ہوا، درآصل ابو حنیفہ کے صبر نے اس کی جان لے لی ہے۔ کئی دفعہ لوگ دوسروں کو بہت سخت جملے کہہ دیتے ہے جن سے مخاطب شخص کو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ حسد  بہت بری چیز ہے،  اس کے شر سے اللہ تعالی ہم سب کو محفوظ فرمائے، آمین

*بحوالہ، کتاب : "امام اعظم ابو حنیفہؒ کی سیرت و تاریخ"۔ صفحہ نمبر ۱۲۵۔۔۔*

اگر امام ابوحنیفہ رحمة اللّٰہ علیہ کا صبر ان کے دشمن کی جان لے سکتا ہے تو  ان شاء اللہ میرے فلسطین کے بھائیوں اور بہنوں کا صبر بھی ایک نہ ایک دن ضرور اسرائیل کے ناپاک وجود کو صفحۂ ہستی سے مٹا دے گا ۔ 

آمین یا رب العالمین

Share:

موت کے بعد انسان کی آرزوئیں

 انسان کا اس دنیا میں قیام بالکل عارضی ھے اور یہاں سے اسے ھر صورت عالم آخرت کی طرف جانا ھے  جو اس کی ھمیشہ ھمیشہ رھنے کی جگہ ھے ۔ اگر یہ آخرت کی تیاری کرکے جائےگا تو وھاں خوش و خرم رھے گا اور اگر تیاری کے بغیر  جائے گا تو وھاں جا کر پشیمان ھو گا اور پھر مختلف آرزوئیں کرے گا جن کا ذکر قرآن پاک میں درج زیل مختلف  مقامات ہر کیا گیا ھے 

*1۔ يَا لَيْتَنِي كُنْتُ تُرَابًا

 *ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻣﭩﯽ ﮨﻮﺗﺎ ‏(ﺳﻮﺭة النبأ‏  40#)


 2- يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي* 

*ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ‏( ﺍﺧﺮﯼ ‏) ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ( ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺠﺮ #24


*3- يَا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَهْ

*ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺎﻣﮧ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﺤﺎﻗﺔ #25)


*4۔ يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا

ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻓﻼﮞ ﮐﻮ ﺩﻭﺳﺖ ﻧﮧ ﺑﻨﺎﺗﺎ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺮﻗﺎﻥ #28 )


*5۔ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا

ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍلله ﺍﻭﺭ اس کے ﺭﺳﻮﻝ ﮐﯽ ﻓﺮﻣﺎﻧﺒﺮﺩﺍﺭﯼ ﮐﯽ ﮨﻮﺗﯽ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻷﺣﺰﺍﺏ #66


*6۔ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا

ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﯿﺘﺎ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺮﻗﺎﻥ #27)


*7۔ يَالَيْتَنِي كُنتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا

ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ #73‏


*8۔ يَالَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا

ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺷﺮﯾﮏ ﻧﮧ ٹھہرﺍﯾﺎ ﮨﻮﺗﺎ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻜﻬﻒ #42)


يَالَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِين

ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﻮ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺑﮭﯿﺠﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺟﮭﭩﻼﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﮞ۔ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻷﻧﻌﺎﻡ #27)

حقیقت یہ ھے کہ انسان کو اس دنیا میں آخرت کی تیاری کے لئے موقعہ دیا گیا ھے اگر وہ اس دنیاوی زندگی کو اللہ تعالی  اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ھوئے طریقوں ہر گزار کر عالم آخرت میں جائے گا تو اُسے وھاں کوئی پشیمانی یا پچھتاوہ نہیں ھو گا لیکن اگر اُس نے زندگی اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ھوئے طریقوں کے خلاف گزاری ھو گی تو اُسے وھاں پچھتاوے کے علاوہ اور کچھ حاصل نہ ھو گا  اور پھر یہ  وھاں مختلف ﺁﺭﺯﻭﺋﯿﮟ  کرے گا جن کا ذکر قرآن پاک کی آیات بالا میں کیا گیا ھے لیکن ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ان آرزوؤں کا ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﻧﺎ ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ھو گا ۔ 

رب کریم ہماری آخرت کی  منزلوں کو آسان فرمائے اور اللہ ﺗﻌﺎﻟﯽ ہمیں اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ھوئے طریقوں کو ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﺍﻭﺭ ان پر ﻋﻤﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎﺀ ﻓﺮﻣﺎئے۔

*آﻣِﻴﻦ ﻳَﺎ ﺭَﺏَّ ﺍﻟْﻌَﺎﻟَﻤِﻴْﻦ*

Share: