وَلٰـکِنَّ اﷲَ حَبَّبَ اِلَيْکُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَّنَهُ فِيْ قُلُوْبِکُمْ.
(الحجرات)
’’لیکن اللہ نے تمہیں ایمان کی محبت عطا فرمائی اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ فرما دیا‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں دو چیزیں پوری طرح واضح ہورہی ہیں: پہلی یہ کہ اللہ تعالیٰ چاھتے ھیں کہ ایمان ہمارے لیے ھر چیز سے زیادہ محبوب ھو جائے، بڑے سے بڑا خوف یا لالچ ھمیں ایمان سےنہ ھٹا سکے اور دوسری چیز یہ کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں ایمان کی زینت کو دیکھنا چاہتے ھیں یعنی ھمارا دل نورِ ایمان سے پوری طرح منور ھو ۔ گویا ایمان ایک ایسی عظیم حقیقت ہے جس سے ھمیں ھر صورت محبت کرنی چاہیے جتنی ایمان سے ھمیں محبت ھو گی اُتنی ھی حلاوتِ ایمانی نصیب ھو گی
احادیث مبارکہ میں بعض ایسے اعمال کا ذکر کیا گیا ھے ، جن پر عمل پیرا ہونے کی برکت سے اللہ تعالیٰ ایک مسلمان کو اس کے قلب میں حلاوت ِایمانی کی دولت عطا فرماتے ہیں اور حلاوت ِایمان(ایمان کی مٹھاس) ایسی نعمت ہے کہ جس خوش قسمت کو حاصل ہوجانے گویا یہ ایمان پر خاتمہ کی ایک پیشگی خوش خبری ہے اور اس کے زائل ہونے کا احتمال بھی باقی نہیں رہتا؛چنانچہ حضرت ملا علی قاری نوراللہ مرقدہ نے ”مرقات“شرح مشکوٰة میں ذکر فرمایا ہے:
وقد ورد ان حلاوة الایمان اذا دخلت قلبا لا تخرج منہ ابدا“۔
”کہ جب ایک مرتبہ ایمان کی حلاوت دل میں داخل ہوجاتی ہے تو پھر کبھی بھی یہ دل سے نہیں نکلتی ۔
پس اس روایت میں حلاوتِ ایمانی حاصل ھونے پر حسن ِخاتمہ کی بشارت موجود ہے۔ حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ اس حلاوت سے مراد حسی حلاوت بھی ہوسکتی ہے اور معنوی بھی۔ یہ یاد رہے کہ حلاوت کے محسوس ہونے کے لیے ضروری ہے کہ قلب خواہشات نفسانی سے بالکل پاک صاف ہو۔
حلاوت ِایمانی کس طرح حاصل ہوتی ہے؟:
ذیل میں چند احادیث مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں،جن میں ایسے اعمال ِصالحہ کا ذکر کیا گیا ہے ،جن پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں اللہ کے پیارے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے حلاوت ِایمانی کے حاصل ہوجانے کی بشارت دی ہے۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ، أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ".
حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ھے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ اول یہ کہ اللہ اور اس کا رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں، دوسرے یہ کہ وہ کسی انسان سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے۔ تیسرے یہ کہ وہ کفر میں واپس لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔
(صحيح البخاري)
حضرت قتادة رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ھے کہ تین خصلتیں ایسی ہیں جس شخص میں وہ پائی جائیں وہ ان کی وجہ سے ایمان کی حلاوت پالے گا۔
(۱)حق پر ہوتے ہوئے جھگڑے کو چھوڑ دینا۔
(۲)مزاح ومذاق میں جھوٹ چھوڑ دینا۔
(۳)اس بات کا یقین ہوجانا کہ وہ چیز جو اس کی پہنچنی ہے، وہ کبھی اس سے چوک نہیں سکتی تھی اور وہ چیز جو اس سے چوک گئی ہے وہ اس کو کبھی پہنچ نہیں سکتی تھی۔
حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ چار باتیں ایسی ہیں، مسلمان جب تک ان پر ایمان نہ لائے ایمان کا مزہ نہیں چکھ سکتا:
(۱)اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں
۔(۲)اور میں(حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ )بلا شبہ اللہ کا رسول ہوں اور اللہ نے مجھے (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ) حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔
(۳)(مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ھونے پر یقینِ کامل ھو ) یعنی وہ مر جائے گا پھر موت کے بعد دوبارہ زندہ بھی کیا جائے گا۔
(۴)جب تک کہ مکمل طور پر تقدیر پر ایمان نہ لے آئے۔
حضرت عباس بن عبدالمطلب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: کہ اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا ،جو اللہ کے رب ہونے پر راضی ہوگیا،اور اسلام کے دین ہونے پر اضی ہوگیا اور حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے رسول ہونے پر راضی ہوگیا۔
أ -حلاوت ایمانی کے حاصل ہوجانے کی چند علامات بیان کی گئی ہیں: