بیٹا یا بیٹی صرف اللہ پاک دیتے ھیں

 


لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-یَخْلُقُ مَا یَشَآءُؕ-یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّكُوْرَ(49)اَوْ یُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًاۚ-وَ یَجْعَلُ مَنْ یَّشَآءُ عَقِیْمًاؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ(50)

اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت ۔ پیدا کرتا ہے جو چاہے ۔ جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملا کر دے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کردے۔  بےشک وہ علم و قدرت والا ہے (سورہ الشوری)

 ان آیات مبارکہ میں یہ بتایا جا رھا ھے کہ ھر قسم کے اختیارات صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ انسان اللہ تعالی کی مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتا یہاں تک انسان اپنی اولاد کی پیدائش کے بارے میں بھی بالکل کوئی اختیار نہیں رکھتا کہ وہ اپنی مرضی سے بیٹا پیدا کر لے یا بیٹی پیدا کر لے ۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمانوں کا مالک اور بادشاہ ہے۔ اس کے اختیارات کا عالم یہ ہے کہ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے صرف بیٹیاں ہی عنایت کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے اسے صرف بیٹے عطا کرتا ہے۔ کسی کو بیٹے اور بیٹیاں دیتا ہے اور کسی کو زندگی بھر کچھ بھی نہیں دیتا ۔ وہ ہر چیز کا کامل اور اکمل علم رکھنے کے ساتھ ہر کسی پر قدرت رکھنے والا ہے۔ مذکورہ بالا آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے حوالے سے انسان کو یہ حقیقت سمجھائی ہے کہ اے انسان! جس رب کے ساتھ تو کفر و شرک کرتا ہے اس کے اختیارات کا عالم یہ ہے کہ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ وہ جسے چاہے بیٹے عطا فرمائے اور جس کو چاہے بیٹیاں دے اور جسے چاہے بیٹے، بیٹیاں دے اور جسے چاہے اسے بے اولاد  رکھے ۔ 

دنیا میں کوئی ایسا ایک بھی جوڑا نہیں جو اپنی مرضی سے بیٹے یا بیٹی کو جنم دے سکے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسی ذات ہے جو کسی کو بیٹے یا بیٹیاں دے سکے اور جسے اللہ تعالی اولاد نہ دینا چاھیے کوئی طاقت ایسی نہیں ھے جو اسے اولاد دے سکتا ہو ۔ سوچنے کی بات ھے کہ جب انسان اپنے رب کے سامنے اتنا بے بس اور بے اختیار ہے تو اسے دل کی رغبت کے ساتھ اپنے رب کا حکم ماننا چاہیے تاکہ دنیا میں اس کا بھلا ہو اور آخرت میں وہ سرخرو ہوسکے۔ اس کے باوجود یہ بیوقوف انسان  کسی کو مشکل کشا ،  کسی کو داتا اور کسی کو اپنا دستگیر بنائے ہوئے ہے۔ حالانکہ جس شخصیت کو یہ داتا  یا پھر داتا گنج بخش کہتا  ہے اس کی بے بسی اور مجبوری کا عالم یہ ھے کہ وہ بیچارہ خود بے اولاد ھی اس دنیا سے رخصت ھوا ۔ 


بیٹیوں کی پیدائش کا سبب بیویاں نہیں ھیں 

 بد قسمتی سے ھمارے معاشرے میں بیٹی کو ناپسند کرنے کی روش پروان چڑھتی جا رہی ہے ۔ بہت سے گھرانوں میں بیٹی پیدا ہونے کی وجہ سے بیوی پر جسمانی اور ذہنی تشدد , طرح طرح کی باتیں , طلاق کی دھمکیاں , گھر سے نکالنا , کوستے رہنا اور اس کی زندگی کو جہنم بنا دینا ایک معمول بن چکا ہے ۔ جن لوگوں کا تقدیر پر ایمان ہے انہیں لڑکیوں کی پیدائش پر رنجیدہ خاطر ہونے کی بجائے خوش ہونا چائیے ۔ ایمان کی کمزوری کے سبب جن بدعقیدہ لوگوں کا یہ تصور بن چکا ہے کہ لڑکیوں کی پیدائش کا سبب ان کی بیویاں ہیں،  یہ سراسر غلط ہے ۔ “گو میڈیکل کے اعتبار سے کسی جوڑے کے ھاں صرف لڑکیوں کا پیدا ھونا بیوی کی وجہ سے نہیں بلکہ شوھر کی اپنی کمزوری کی وجہ سے ھوتا ھے ۔ میڈیکل میں شوھر کی اس کمزوری کا علاج بھی کیا جاتا ھے اور شرعاً علاج  کروانے میں کوئی حرج بھی نہیں ھے ۔”  تاھم اسلام کا نقطۂ نظر یہ ھے کہ اس میں بیویوں کا یا خود شوھر کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ میاں بیوی تو صرف ایک سبب ہیں ،  پیدا کرنے والی ہستی تو صرف اللہ وحدہ لاشریک لہ کی ہے ۔ وہی جس کو چاہتا ہے لڑکا دیتا ہے جس کو چاہتا ہے لڑکی دیتا ہے جس کو چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے۔


بیٹیوں سے بُرا سلوک غیر انسانی فعل ھے 

یہ بات مشاھدہ کی ھے کہ لڑکی پیدا ہونے کی صورت میں کئی مائیں بچی کی طرف توجہ نہیں دیتیں بلکہ بعض مائیں تو دودھ ہی نہیں پلاتیں اور یوں بیٹی کے قتل کا ارتکاب کرتی ہیں ۔ بیٹی کی پیدائش پر اسے ہسپتال ہی چھوڑ آنا یا گاڑی کے اندر ہی چھوڑ جانا یا گلا دبا کر کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دینا وغیرہ معمول کی خبریں بن چکی ہیں ۔  بیٹیوں سے ایسا سلوک بالکل غیر انسانی فعل ھے یہ بیٹیاں تو رب تعالی کی رحمت ہوتی ہیں ۔ یہ بیٹیاں باپ  کےسرکاتاج ہوتی ہیں ۔ یہ بیٹیاں باپ  کاسہارا ہوتی ہیں ۔ باپ اور بھائیوں کےفیصلےکےسامنےاپنی خواہشات کودفن کردیتی ہیں یہ بیٹیاں ماں باپ کےدکھ درد میں ہروقت شریک رہتی ہیں

اے انسان ! ذرا سوچ  تو سہی کہ وہ عورت جو تیری ماں کے روپ میں ہے وہ بھی کسی کی بیٹی ہے ۔ ایک ہی پیٹ سے نکلی تیری بہنیں تیری ماں کی بیٹیاں ہیں , تو نے بھی کسی کی بیٹی سے ہی نکاح کیا ھوا ہے , اگر آج اللہ نے تیرے ہی گھر میں بھی رحمت نازل کی  ہے تو وہ تجھے اب کیوں زحمت لگنے لگی ہے۔ بیٹی کا قتل کبیرہ گناہ ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ [التكوير : 8]

اور جب زندہ دفن کی گئی (لڑکی) سے پوچھا جائے گا۔


بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ [التكوير : 9]

کہ وہ کس گناہ کے بدلے قتل کی گئی؟


دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے

وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا [الإسراء : 31]

اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی انھیں رزق دیتے ہیں اور تمھیں بھی۔ بے شک ان کا قتل ہمیشہ سے بہت بڑا گناہ ہے۔

یہاں اللہ تعالیٰ نے اولاد کے قتل کا سبب موجودہ یا آئندہ فقر کا خوف بیان فرمایا ہے ۔ آج بیٹیوں کے قتل کے پیچھے لوگوں کے ذہنوں میں یہی خوف کارفرما ہے کہ بیٹی بڑی ہو کر بوجھ بنے گی ۔ اسے جہیز دینا پڑے گا ۔ کما کر کھلانا پڑے گا وغیرہ وغیرہ 

حضرت  عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا  کہ میں نے نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سے پوچھا کہ کون سا گناہ اللہ کے یہاں سب سے بڑا ہے؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  فرمایا یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ میں نے کہا یہ تو بہت بڑا گناہ ہے۔ میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  فرمایا یہ کہ تم اپنے بچے کو اس خطرہ کی وجہ سے قتل کر دو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کون؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو


بیٹی کی پیدائش پر منہ چڑھانا کفار کا طریقہ ہے

بیٹی کی پیدائش پر پریشان و غمگین ھونا ھمیشہ سے  کفار کا طریقہ رھا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کی حالت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ [الزخرف : 17]

حالانکہ جب ان میں سے کسی کو اس چیز کی خوش خبری دی جائے جس کی اس نے رحمان کے لیے مثال بیان کی ہے تو اس کا منہ سارا دن سیاہ رہتا ہے اور وہ غم سے بھر ا ہوتا ہے۔

دوسرے مقام پر ارشاد ھے

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ [النحل : 58]

اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کا منہ دن بھر کالا رہتا ہے اور وہ غم سے بھرا ہوتا ہے۔


يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ [النحل : 59]

وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے، اس خوش خبری کی برائی کی وجہ سے جو اسے دی گئی۔ آیا اسے ذلت کے باوجود رکھ لے، یا اسے مٹی میں دبا دے۔ سن لو! برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔


کظیم دے مراد غم سے بھرا ہوا ہے، یعنی لڑکی کی پیدائش کی خبر سن کر سارا دن غم کی وجہ سے اس کا منہ کالا رہتا ہے، مگر وہ غم سے بھرا ہونے کے باوجود اظہار نہیں کرتا۔ ، اس لیے اس خوش خبری کو وہ اتنا برا سمجھتا ہے کہ لوگوں کو بتانے سے بھی گریز کرتا ہے اور اسے سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کرے۔ 

 یہ اللہ پاک کی مرضی ہے بیٹی عطا کرے یا بیٹا یا دونوں یا کوئی بھی نہیں ۔ بیٹی جنم دینے میں بیوی بے قصور ہے بلکہ میاں اور بیوی دونوں ہی بے قصور ہیں کیونکہ یہ فیصلہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے ۔  اس آیت میں یہ حقیقت واشگاف الفاظ میں بیان کر دی گئی ہے کہ زمین و آسمان کی بادشاہی دنیا کے نام نہاد بادشاہوں، جباروں اور سرداروں کے حوالے نہیں کر دی گئی اور نہ ہی اس میں کسی نبی یا ولی، داتا، دستگیر یا دیوی دیوتا کا کوئی حصہ ہے، اس کا مالک اکیلا اللہ تعالیٰ ہے۔ کتنے جابر بادشاہ اور سپہ سالار، کتنے انبیاء و اولیاء اور کتنے ماہر ڈاکٹر اور حکیم اولاد سے محروم رہے، کتنے لڑکے کو ترستے رہے اور کتنے لڑکی کی خواہش دل میں لیے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے دیتا ہے اور جو چاہے دیتا ہے، چنانچہ وہ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، یا لڑکے لڑکیاں دونوں عطا کر دیتا ہے اور جسے چاہے مرد ہو یا عورت عقیم (بانجھ) بنا دیتا ہے، کسی کو اس پر اعتراض یا شکوے کا کوئی حق نہیں۔  اگر مشرکین اس حقیقت کو سمجھ لیں تو کبھی شرک کی حماقت نہ کریں۔


بیٹی اللہ تعالیٰ کا تحفہ ہے

 ’’ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا ‘‘ میں لڑکیوں کو اللہ تعالیٰ کا عطیہ قرار دیا گیا ہے۔ جو لوگ لڑکیوں کو نحوست یا عار کا باعث سمجھتے ہیں انھیں ان الفاظ پر غور کرنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ وہ کسی عام ذات نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ تحفہ پر منہ چڑھانے کی وجہ سے کہیں اس کے غضب کا شکار نہ بن جائیں اور کسی ایسے جوڑے کے احساسات معلوم کرنے چاہییں جنھیں لڑکی بھی عطا نہیں ہوئی۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے پہلے بیٹیوں کا ذکر فرمایا، پھر بیٹوں کے عطا فرمانے کا ذکر کیا۔

بیٹیاں ہی دکھ درد میں والدین کی زیادہ خدمت کرتی ہیں عورت فطری طور پر محبت کی مٹی میں گوندھی ہوتی ہے مامتا اس کا بنیادی وصف ہے وہ بہن کے روپ میں بھی مامتا سے مالا مال ہوتی ہے چھوٹے بہن بھائیوں سے اس کا طرز عمل ماں جیسا ہوتا ہے ۔ ایسے واقعات بہت ہیں کہ بہن مالدار ہوتو بھائیوں کا ضرور خیال رکھتی ہے لیکن ایسا بہت کم ہے کہ بھائی مالدار ہوں اور بہن کا خیال رکھتے ہوں


بیٹیاں دوزخ کی آگ کے سامنے پردہ بن کر حائل ہوجائیں گی

اسلام نے بیٹیوں کے حقوق کما حقہ ادا کرنے والوں کو اس قدر خوشخبریاں دی ہیں کہ اتنی خوشخبریاں دس بیٹے رکھنے والوں کو بھی نہیں دی گئی

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا میں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو فرماتے ہوئے سنا:

’’مَنْ کَانَ لَہُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ، فَصَبَرَ عَلَیْہِنَّ، وَأَطْعَمَھُنَّ، وَسَقَاہُنَّ، وَکَسَاھُنَّ مِنْ جِدَتِہِ کُنَّ لَہُ حِجَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔‘

أحمد والبخاري والألباني:صحيح

[جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں، اور وہ ان پر صبر کرے، انہیں اپنی استطاعت کے مطابق کھلائے، پلائے اور پہنائے، تو وہ اس کے لئے روزِ قیامت پردہ ہوں گی (یعنی دوزخ کی آگ کے درمیان پردہ بن کر حائل ہوجائیں گی۔)]

 امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان فرمایا: ’’میرے پاس ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کے ہمراہ آئی۔ اس نے مجھ سے سوال کیا، لیکن اس نے میرے پاس سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہ پایا۔ میں نے اس کو وہی دے دی۔ اس نے اس کو لے کر ان دونوں میں تقسیم کردیا اور خود اس میں سے کچھ نہ کھایا۔ پھر وہ اٹھی اور اپنی دونوں بیٹیوں کے ہمراہ چلی گئی۔  نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ    میرے ہاں تشریف لائے، تو میں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو یہ واقعہ سنایا۔ نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا:

’’مَنْ ابْتُلِيَ مِنَ الْبَنَاتِ بِشَيْئٍ، فأَحْسَنَ إِلَیْھِنَّ، کُنَّ لَہُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ۔[جس شخص کو ان بیٹیوں میں سے کسی چیز کے ساتھ آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے ان کے ساتھ احسان کیا، تو وہ اس کے لیے [جہنم کی] آگ کے مقابلے میں رکاوٹ ہوں گی۔‘‘]

(متفق علیہ) 


بیٹیاں جنت میں لے جائیں گی

 حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: جس شخص کی دوبیٹیاں جوان ہوجائیں اور وہ ان سے اس وقت تک اچھا سلوک کرتا رہے جب تک وہ اس کے ساتھ رہیں،یا جب تک وہ ان کے ساتھ رہے ، وہ اسے جنت میں ضرور داخل کردیں گی۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا: رسول اللہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا:[’’جس شخص نے دو بیٹیوں کی، بلوغت کو پہنچنے تک، پرورش اور تربیت کی، وہ قیامت کے دن [اس طرح] آئے گاکہ میں اور وہ۔‘‘اور آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ    نے اپنی انگلیوں کو [ایک دوسری سے] ملا دیا۔]

صحیح مسلم، 


’’انبیاء کرام علیہم السلام بیٹیوں کے باپ تھے۔‘‘

امام احمدکے صاحبزادے صالح بیان کرتے ہیں، کہ جب ان کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوتی ، تو وہ فرماتے:’’ 

[’’انبیاء علیہم السلام  بیٹیوں کے باپ تھے۔‘‘]


نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  چار بیٹیوں کے باپ تھے

بیٹی کی پرورش کے حوالے سے یہی بات بہت بڑی ہے کہ ہمارے نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  بھی چار بیٹیوں کے باپ تھے نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اپنی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جایا کرتے۔ عموماً سفر سے واپسی پر ازواج مطہرات کے حجروں میں جانے سے پہلے انہی کے گھر جاتے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اپنی صاحبزادی کے استقبال کے لیے اٹھ کر آگے بڑھتے انہیں خوش آمدید کہتے۔ انہیں بوسہ دیتے۔ ان کا ہاتھ تھام لیتے اور مجلس میں اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھاتے۔ بیٹی کے استقبال میں ان سب باتوں کا اہتمام آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کا عام معمول تھا۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے اپنی بیٹی کو اپنا جگر گوشہ قرار دیتے ہوئے بیٹی کی تکلیف کو اپنی تکلیف قرار دیا   نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے بیٹی کو تھکاوٹ کی پریشانی کا تریاق بتاتے ہوئے نماز کے بعد اور بستر پر آنے کے بعد پڑھنے والے کلمات بھی سکھلائے۔


نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  بیٹیوں پر خصوصی توجہ فرماتے تھے 

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اپنی صاحبزادیوں کی عائلی زندگی کے معاملات کی طرف خصوصی توجہ فرماتے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے ان کی شادیوں کا خود اہتمام فرمایا، رخصتی کے وقت بیٹی کو تحائف دئیے، بیٹی کی عائلی زندگی میں ہونے والے نزاع کی اصلاح فرمائی۔   بیٹی کی وفات پر شدتِ غم کی بنا پر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے، لیکن زبان سے صبر کے منافی ایک لفظ بھی نہ نکالا۔ صاحبزادیوں کی وفات پر شدتِ الم و رنج کے باوجود آنحضرت   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ان کی تجہیز، تکفین اور تدفین کا بندوبست ذاتی نگرانی میں کرواتے۔


اگر بیٹا نعمت ہے تو بیٹی رحمت ہے

 بیٹے نعمتیں ہیں اور بیٹیاں انسان کی نیکیاں ہیں اللہ تعالی نعمتوں کا حساب لے گا اور نیکیوں پر ثواب عطا کرے گا


   اے اللہ ! مجھے ساتویں بیٹی عطا فرما 

ایک شخص کے ہاں صرف بیٹیاں ھی پیدا ھوتی تھیں ہر مرتبہ اس کو امید ہوتی کہ اب تو بیٹا پیدا ہوگا مگر ہر بار بیٹی ہی پیدا ہوتی اس طرح اس کے ہاں یکے بعد دیگرے چھ بیٹیاں پیدا ہوگئیں اس کی بیوی کے ہاں پھر ولادت متوقع تھی وہ ڈر رہا تھا کہ کہیں پھر لڑکی پیدا نہ ہو جائے ۔ شیطان لعین نے اس کو بہکایا چنانچہ اس نے ارداہ کرلیا کہ اگر اس بار بھی لڑکی پیدا ہوئی تو وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے گا۔ اس کی کج فہمی پر غور کریں بھلا اس میں بیوی کا کیا قصور ؟

رات کو سویا تو اس نے ایک عجیب وغریب خواب دیکھا۔  اس نے دیکھا کہ قیامت برپا ہو چکی ہے ۔ اس کے گناہ بہت زیادہ ہیں جن کے سبب اس پر جہنم واجب ہوچکی ہے۔ لہٰذا فرشتوں نے اس کو پکڑا اور جہنم کی طرف لےگئے ۔ پہلے دروازے پر گئے۔ تو دیکھا کہ اس کی ایک بیٹی وہاں کھڑی تھی جس نے اسے جہنم میں جانے سے روک دیا۔ فرشتے اسے لے کر دوسرے دروازے پر چلے گئے وہاں اس کی دوسری بیٹی کھڑی تھی جو اس کے لئے آڑ بن گئی۔ اب وہ تیسرے دروازے پر اسے لے گئے وہاں تیسری لڑکی کھڑی تھی جو رکاو ٹ بن گئی۔ اس طرح فرشتے جس دروازے پر اس کو لے کر جاتے وہاں اس کی ایک بیٹی کھڑی ہوتی جو اس کا دفاع کرتی اور جہنم میں جانے سے روک دیتی۔ غرض یہ کہ فرشتے اسے جہنم کے چھ دروازوں پر لے کر گئے مگر ہر دروازے پر اس کی کوئی نہ کوئی بیٹی رکاوٹ بنتی چلی گئی۔ اب ساتواں دروازہ باقی تھا تو فرشتے اس کو لے کر اس دروازے کی طرف چل دیئے۔ اب اس پر بہت زیادہ گھبراہٹ طاری ہوئی کہ میری تو چھ ھی بیٹیاں تھیں جو رکاوٹ بنتی رھیں اب ساتویں دروازے پر میرے لئے رکاوٹ کون بنے گا کیونکہ ساتویں بیٹی تو ھے نہیں ۔ سو اسے اب معلوم ہوگیا کہ جو نیت اس نے کی تھی وہ بہت ھی غلط تھی وہ شیطان کے بہکاوے میں آگیا تھا۔ انتہائی پریشانی اور خوف ودہشت کے عالم میں اس کی آنکھ کھل گئی اور اس نے رب العزت کے حضور اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور دعا کی۔

اللھم ارزقنا السابعۃ : اے اللہ مجھے ساتویں بیٹی عطا فرما۔

بیٹیوں کی پیدائش پر رنجیدہ نہیں ھونا چاھیے بلکہ خوشی کا آظہار کرنا چاھیے البتہ اُن کے آچھے نصیب کے لئے دعا ضرور کرنی چاھیے۔ اللہ رب العزت تمام بیٹیوں کے نصیب اچھے کرے

 آمین یارب العالمین


Share: