دُنیاوی زندگی کی حقیقت


وَمَا هٰذِهِ الْحَيَاةُ الـدُّنْيَآ اِلَّا لَـهْوٌ وَّلَعِبٌ ۚ وَاِنَّ الـدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَـهِىَ الْحَيَوَانُ ۚ لَوْ كَانُـوْا يَعْلَمُوْنَ (64) 

اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے، اور اصل زندگی عالم آخرت کی ہے کاش وہ سمجھتے۔(العنکبوت)

دنیا کی زندگی اصل زندگی نہیں بلکہ اصل زندگی کے لئے ٹرائلز کا مرحلہ ھے ،، جو اس میں کامیاب ھوا وہ اصل زندگی سے نوازا جائے گا چنانچہ ارشاد باری تعالی ھے

اِعْلَمُوٓا اَنَّمَا الْحَيَاةُ الـدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَـهْوٌ وَّزِيْنَةٌ وَّّتَفَاخُـرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُـرٌ فِى الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٝ ثُـمَّ يَهِيْجُ فَتَـرَاهُ مُصْفَرًّا ثُـمَّ يَكُـوْنُ حُطَامًا ۖ وَفِى الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيْدٌۙ وَّمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّـٰهِ وَرِضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الـدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ (20) 

جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زیبائش اور ایک دوسرے پر آپس میں فخر کرنا اور ایک دوسرے پر مال اور اولاد میں زیادتی چاہنا ہے، جیسے بارش کی حالت کہ اس کی سبزی نے کسانوں کو خوش کر دیا پھر وہ خشک ہو جاتی ہے تو تو اسے زرد شدہ دیکھتا ہے پھر وہ چورا چورا ہو جاتی ہے، اور آخرت میں سخت عذاب ہے، اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے، اور دنیا کی زندگی سوائے دھوکے کے اسباب کے اور کیا ہے۔  (سورہ الحدید)


ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی کا ارشاد ھے 

يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّـٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الـدُّنْيَا ۖ وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللّـٰهِ الْغَرُوْرُ (5) 

اے لوگو بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے پھر تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے، اور تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ باز دھوکا نہ دے (سورہ فاطر)


نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا ارشاد ھے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسے ہے جیسے تم سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبوئے تو پھر دیکھو کہ وہ کتنا پانی اپنے ساتھ لا تی ہے ۔”” صحیح مسلم 

دنیا کی زندگی امتحان ھی امتحان ھے ،، یہ امتحان اس بات کا ھے کہ عمل سے ثابت کیا جائے کہ حقیقی زندگی کا حقدار کون ھے ؟ گویا کہ انسان اس دنیا کے ھر مرحلے میں ازمائش میں ھی رھتا ھے جیسا کہ سورہ البقرہ میں ارشاد باری تعالی ھے

وَلَنَـبْلُوَنَّكُمْ بِشَىْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِـرِيْنَ (155) 

اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے ضرور آزمائیں گے، اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔

اَلَّـذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُـمْ مُّصِيْبَةٌ قَالُوْآ اِنَّا لِلّـٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ (156) 

وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔

اُولٰٓئِكَ عَلَيْـهِـمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّهِـمْ وَرَحْـمَةٌ ۖ وَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْمُهْتَدُوْنَ (157) 

یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے مہربانیاں ہیں اور رحمت، اور یہی ہدایت پانے والے ہیں۔

(سورہ البقرہ)


قرآن پاک میں ایک دوسرے مقام  پر اللہ پاک لوگوں کو متنبہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں 

أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (2) وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ (3) العنکبوت

کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ھے کہ انہیں چھوڑ دیا جائے گا صرف یہ کہہ دینے پر کہ ھم ایمان لائے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا ؟ بےشک ھم نے ان سے پہلوں کو بھی آزمایا ھے ،پس اللہ ضرور معلوم کرے گا ان لوگوں کو جو سچے ھیں اور ضرور معلوم کرے گا ان کو جو جھوٹے ھیں ( دعوئ ایمان میں )

دنیا کا مال و متاع اور اس کی تقسیم کا تعلق کبھی بھی مومن اور کافر ، نیک اور بد ، متقی اور فاسق کی بنیاد پر نہیں ھوتا ،، نہ اللہ پاک نے اس قسم کا کوئی وعدہ فرمایا ھے ! دنیا کی تقسیم ، مال و اولاد کی فراوانی کبھی تو دنیا کا نظام چلانے کے سلسلے میں ھوتی ھے ، کبھی امتحان کے طور پہ ھوتی ھے ، غریب کا بھی امتحان اور امیر کا بھی امتحان ،، چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ھے 

وَلَوْ بَسَطَ اللّـٰهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوْا فِى الْاَرْضِ وَلٰكِنْ يُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَآءُ ۚ اِنَّهٝ بِعِبَادِهٖ خَبِيْـرٌ بَصِيْـرٌ (27) 

اور اگر اللہ اپنے بندوں کی روزی کشادہ کر دے تو وہ زمین پر سرکشی کرنے لگیں لیکن وہ ایک اندازے سے اتارتا ہے جتنی چاہتا ہے، بے شک وہ اپنے بندوں سے خوب خبردار دیکھنے والا ہے۔  (سورہ الشوری)

یعنی اگر اللہ تعالی کی طرف سے ھر ایک کی روزی کشادہ ھو جائے تو دنیا میں انارکی پھیل جائے ،، یعنی کوئی کسی کا حکم نہ مانے ، نہ کوئی کسی کے جوتے گانٹھے ، نہ کپڑے دھوئے ، نہ کوئی کپڑے سیئے ، نہ کوئی تندور پہ روٹیاں پکائے اور نہ مستری مزدور دستیاب ھو ، میں بھی رانی تو بھی رانی کون بھرے گا پانی والی کیفیت ھو جائے!

دنیا میں مال و دولت اور کثرتِ اولاد کا ھونا کسی کی کامیابی کی دلیل نہیں ، بلکہ یہ بھی ایمان والوں کا امتحان ھے کہ وہ آخرت کی موعودہ زندگی پر یقین رکھتے ھوئے اس فانی دنیا کو آخرت کے مقابلے میں حقیر سمجھتے ھیں  یا پھر دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ھیں  اور کیا انہیں اللہ سے گِلے شکوے ھوتے ھیں یا نہیں ؟؟ مال عموماً فسق و فجور کی طرف مائل کرتا اور برائی کی طرف راغب کرتا ھے ، شیطان بھی اس پر زیادہ محنت کرتا ھے۔ اللہ پاک فرماتے ھیں کہ اگر مجھے یہ خدشہ نہ ھوتا کہ تمام لوگ ھی کافر ھو جائینگے تو میں کافروں کی چھتیں ،سیڑھیاں دروازے اور بیڈ سونے چاندی کے بنا دیتا تاکہ وہ خوب خوب گناہ کر لیں اور اس دولت میں گم ھو کر رب سے غافل ھو جائیں ۔  اگر یہ سب کچھ کافروں کو دے بھی دیا جائے تو بھی یہ اسی چند روزہ زندگی کا سامان ھے ؟ عاقبت کی کامیابی تو پھر بھی تقوی اختیار کرنے والوں کے لئے ھی ھے !

اللہ تعالی کے نزدیک اس دنیا کی قیمت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ھے اگر اللہ تعالی کے نزدیک اس دنیا کی کوئی قیمت ھوتی تو اللہ پاک کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ دیتے چنانچہ ارشاد باری تعالی ھے 

وَلَوْلَآ اَنْ يَّكُـوْنَ النَّاسُ اُمَّةً وَّّاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ يَّكْـفُرُ بِالرَّحْـمٰنِ لِبُيُوْتِـهِـمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّةٍ وَّّمَعَارِجَ عَلَيْـهَا يَظْهَرُوْنَ (33) 

اور اگر یہ (خدشہ) نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک طریقہ کے ہوجائیں گے (یعنی کافر) تو جو اللہ کے منکر ہیں ھم ان کے گھروں کی چھتیں  اور ان پر چڑھنے کی سیڑھیاں چاندی کی بنا دیتے۔

وَلِبُيُوْتِـهِـمْ اَبْوَابًا وَّسُرُرًا عَلَيْـهَا يَتَّكِئُوْنَ (34) 

اور ان کے گھروں کے دروازے اور تخت بھی چاندی کے کر دیتے جن پر وہ تکیہ لگا کر بیٹھتے 

وَزُخْرُفًا ۚ وَاِنْ كُلُّ ذٰلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا ۚ وَالْاٰخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِيْنَ (35) 

اور سونے کے بھی، اور یہ سب کچھ دنیا کی زندگی کا سامان ہے، اور آخرت آپ کے رب کے ہاں پرہیزگاروں کے لیے ھی ھے ۔ 

(سورہ الزخرف)

مومن پر دُنیا میں مصیبتیں سب سے زیادہ آتی ھیں کیونکہ وہ کمرۂ امتحان میں ھوتا ھے ، تو ظاھر ھے کمرۂ امتحان میں بیٹھے اور باھر گلی میں کھڑے کے درمیان فرق تو ھو گا ، اندر والا متفکر ھو گا ،، غور و فکر میں مشغول ھو گا ،، سورہ الانبیاء میں اللہ پاک نے تمام نبیوں کے مصائب بیان فرمائے ھیں پھر ان کی دعائیں ذکر کی ھیں پھر ان کی مدد کے بارے میں بیان فرمایا ھے ،،

ایک شخص نے جب عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  میں آپ سے بہت محبت کرتا ھوں ! تو رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم یہ ھے کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ھو تو پھر لنگوٹ کس لو ،کیونکہ جو ھم سے محبت کرتے ھیں مصائب ان کی طرف یوں لپکتے ھیں جیسے سیلاب کا پانی اونچی زمین سے نیچی زمین کی طرف لپکتا ھے !!

گویا اگر امتحان کے اصول کو ذھن میں رکھا جائے تو دنیا کے بارے میں کبھی بھی غلط فہمی پیدا نہیں ھوتی ،، دنیا کی زندگی ایک سیمپل ھے اور سیمپل کی کوئی قیمت نہیں ھوتی بلکہ یہ ھمیشہ فری میں ھی دے دیا جاتا ھے ،مگر جب آپ اس سیمپل کو پسند فرما لیتے ھیں تو پھر قیمت وصول کرکے آرڈر سپلائی کیا جاتا ھے ،، اھل و عیال کی محبت کو فری میں چکھ لیا ھے اب اگر تم یہ چاھتے ھو کہ تمہیں یہ ھمیشہ ھمیشہ کے لئے مل جائیں تو اس کے لئے تمہیں بھرپور محنت کرنی ھو گی کچھ اللہ تعالی کا فضل شاملِ حال ھو گا اور بیڑہ پار ھو جائے گا ! اسی دنیا کی زندگی اسے آخرت کی زندگی کمانی ھے ،، اگر یہ تمہارے ھاتھ میں رھی تو ختم ھو جائے گی کیونکہ تم بھی فانی اور تمہارے ھاتھ کی ھر چیز بھی فانی ،، ما عندکم ینفد ،، وما عنداللہ باق ،، اور جو اللہ کے پاس منتقل کر دو گے وہ بچ جائے گا ،، جب اس اصول کے تحت انفاق فی سبیل اللہ کرو گے تو اللہ کے ھاں اس کا بے شمار آجر پاؤ گے ورنہ یہ سب کچھ یہیں پڑا رہ جائے گا ،،

مولانا روم رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ دنیا کی حقیقت کیا ہے؟ تو مولانا روم رحمہ اللہ  نے فرمایا دنیا کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص جنگل میں جا رھا ہے  آچانک اس نے دیکھا کے اس کے پیچھے ایک شیر آرہا ہے ۔ وہ شیر کے خوف سے بھاگتا ھے  مگر شیر بھی اس کے پیچھے پیچھے بھاگتا ھے جب یہ تھک جاتا ھے تو دیکھتا ھے کے سامنے ایک  گڑھا ہے اس نے چاہا کہ گڑھے میں چھلانگ لگاکر جان بچائے لیکن گڑھے میں اسے ایک خوف ناک سانپ نظر آیا ۔ اب آگے سانپ اور پیچھے شیر  کا خوف ھے ۔ اتنے میں اسے ایک درخت کی شاخ نظر آئی وہ درخت پر چڑھ گیا مگر نیچے کیا دیکھتا ھے کہ درخت کی جڑ کو ایک کالا  اور ایک سفید چوہا کاٹ رہے  ہیں وہ ڈر گیا  کہ تھوڑی دیر بعد  درخت کی جڑ کٹے گی پھر  میں گر پڑوں گا  اور شیر کا لقمہ بننے میں دیر نہیں لگے گی ۔ اتفاق سے اسے اوپر ایک شہد کا چھتہ نظر آیا جو اس کی دسترس میں تھا اس نے اس چھتہ سے شھد پینا شروع کر دیا وہ اس شہد شیریں کو پینے میں اتنا مشغول ہوا کہ وہ  سانپ اور  شیر  کو  اور چوھوں  کے درخت کی جڑ کاٹنے کے عمل کو فراموش کر بیٹھا ۔ آخرکار درخت کی جڑ کٹ گئ  اور وہ درخت  کے ساتھ  نیچے گر پڑا ۔ شیر نے اسے چیر پھاڑ کر گڑھے میں گرادیا  جہاں  وہ سانپ کی خوراک بن گیا 

اس مثال میں جنگل سے مراد یہ فانی دنیا ھے اور شیر سے مراد انسان کی موت ھے جو انسان کے ھر وقت پیچھے لگی رہتی ہے ۔ گڑھے سے مراد قبر ہے اور جو آگے اژدھا ھے وہ انسان کے بداعمال ھیں جو قبر میں ڈالے جائیں گے اور کالے اور سفید چوھے دن اور رات ھیں اور درخت انسان کی عمر ہے اور شہد دنیائے فانی سے غافل کر دینے والی لذت ہے 

یہ حضرت انسان اس عارضی زندگی میں دنیا کی لذت میں  اسقدر مشغول و مصروف ھو جاتا ھے کہ موت اور آخرت وغیرہ کو یکسر بھول جاتا ہے اور پھر اچانک اپنے مقررہ وقت پر موت آجاتی ہے اور یہ قبر کی کوٹھری میں پہنچ جاتا ھے جہاں کی وحشت سے صرف اور صرف نیک آعمال ھی انسان کو خلاصی دلا سکتے ھیں

Share: