Pages - Menu

اچھی نماز بنانے کے لئے محنت کیسے کی جائے

وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَO 

اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔


يه تو هر شخص جانتا هے كه كوئى بهي مقصد حاصل كرنے كيلئے محنت كرنا لازم وملزوم هے پهر يه بهي بات واضح هے كہ كامياب وهي هوتا هے جو محنت صحيح طريقه سے كررها هو اگر كوئى محنت تو كررها هے ليكن اسكا طريقه صحيح نهيں هے تو وه چاهے كتني هي محنت كرتا رهے وه كهبي بهي منزل پر نهيں پہنچ پائے گا إسكي مثال إسی طرح هے كه إيك شخص نے جانا تو إسلام آباد هے ليكن سفر وه كراچي كي طرف كررها هے وه چاهے كتني هي رفتار سے سفر كرتا رهے ليكن وه إسلام آباد كهبي بهي نهيں پہنچ سكے گا كيونكه اس کا رخ صحيح جانب نهيں هے

إسي طرح دين كے كسي بهي جز كي محنت كا فائده تب هوگا اگر وه صحيح نهج پر هوگي اور صحيح نهج وهي هوسكتي هے جو هميں رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اور صحابه كرام رضوان اللہ علیھم سے محنت كا طريقه ملا اگر هم اپني مرضي كے طريقه پر محنت كريں گے تو كهبي بهي كامياب نه هونگے ليكن اگر وهي محنت رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے طريقه پر هوگي تو إن شاء الله هم دونوں جهانوں ميں كامياب هوجائيں گے
جہاں تک نماز كي محنت کا تعلق ھے تو نماز كے فضائل اور فوائد حاصل كرنے كيلئے محنت ضروري چيز هے اور يه محنت رسول كريم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے طريقه پر هونا ضروري هے علمائے کرام نے شریعت کے مطابق ھمیں محنت کے مندرجہ ذیل تين طريقے بتائے ھیں :- 
دعوت دينا۔ مشق كرنا - دعا كرنا

نماز كي دعوت دینا 
نماز کی حقيقت كو پانے كے لئے نمازي كي پہلی محنت نماز كي دعوت دوسرے لوگوں كو دينا هے جتني زياده وه نماز كي دعوت دوسرے لوگوں کو دے گا اتنا هي جلد اور زياده نماز كي حقيقت كو پائے گا يه تو هر كوئى جانتا هے اور إس ميں كوئى شك بهي نهيں كه أمت ميں أعمال كا رواج كسي نه كسي درجه ميں موجود هے ليكن يه بهي إيك حقيقت هے كه أعمال تو هيں ليكن يه أعمال حقيقت سے خالي هيں صرف شكل هے اب هوتا يه هے كه دعوت دينے والا نماز كي دعوت جب بے نمازي كو ديتا هے اور پهر جب دل هي دل مين اپنا موازنه اس سے كرتا هے تو اپنے آپ كو بهتر سمجهتا هے تو چونكه وه بے نمازي كو سامنے ركهـ كر دعوت ديتا هے إس لئے لامحاله اپني نماز ميں وه كوئى كمي محسوس نهيں كرتا إس لئے اس پر محنت كرنا بهي ضروري نهيں سمجهتا ۔ بلاشبهه بے نمازي كو بهي نماز پڑهنے كي دعوت ديني هے ليكن بے نمازي كو سامنے ركهـ كر نهيں بلكه اپني نماز كي حقيقت كو سامنے ركهـ كر جس كو دعوت ديني هے اس سے كهيں زياده دعوت دينے والا نماز كي حقيقت كو پانے كا محتاج هے پهر يه بهي إيك واضح حقيقت هے كه بے نمازي سے بهي كهيں زياده نمازي كو دعوت دينے كي ضرورت هے نماز كي دعوت كا مقصد يهي هے كه همارے اندر نماز كي حقيقت آ جائے- غور كرنے سے يه فرق خود هي عياں هوجاتا هے حديث مباركه ميں هے كه نماز يا تو روشن اور چمكدار هوكر نمازي كے لئے دعا كرتي جاتي هے يا سياه رنگ ميں نمازي كے لئے بددعا كرتي جاتي هے كه إے الله جس طرح إس نمازي نے ميرے حق كو ادا نه كركے مجهے برباد كيا إسي طرح تو اسے بهي برباد كردے پهر يه نماز پرانے كپڑے كي طرح لپيٹ كر نمازي كے منه پر مار دي جاتي هے إسي طرح حديث مباركه ميں يه بهي آتا هے كه قبر ميں نماز نمازي كے سر كي طرف موجود هوگي اور قيامت والے دن جب نمازي الله تعالى كے سامنے كهڑا هوگا تو يه نماز ميزان پر اپنا وزن كروا رهي هوگي رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  معراج شريف سے جهاں نماز ساتهـ لے كر تشريف لائے تو وهاں نماز كي حقيقت بهي ساتهـ لائے تهے إس لئے دعوت دينے والے كے لئے ضروري هے كه جب وه دعوت دے تو بے نمازي كو سامنے ركهـ كر دعوت نه دے بلكه نماز كي حقيقت كو سامنے ركهـ كر دعوت دے نماز كے خشوع وخضوع كو سامنے ركهـ كر دعوت دے نماز كي صفت إحسان كو سامنے ركهـ كر دعوت دے كه الله تعالى اسے ديكهـ رهے هيں يا كم ازكم يه كه وه الله تعالى كو ديكهـ رها هے
چونكه دعوت دينے والے كا مقصد خود اپنے اندر نماز كي حقيقت كو بيدا كرنا هے إس لئے وه نماز كي حقيقت كي دعوت دے رها هے اگر هم بے نمازيوں كو سامنے ركهـ كر نماز كي دعوت ديں گے تو نماز كي حقيقت كو كهبي بهي نه پا سكيں گے نه هي همارى نماز ميں كوئى ترقي هوگي إس لئے نماز كي حقيقت كو سامنے ركهـ كر دعوت ديني هے إس حقيقت كو خوب كهول كهول كر بيان كيا جائے نماز كے فوائد جو دنيا اور آخرت ميں هميں مليں گے أنهيں خوب خوب سمجهايا جائے - حضور أكرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   كي نماز كے بارے ميں آچهي طرح بتايا جائے اور صحابه كرام رضوان الله عليهم كے واقعات بيان كيے جائيں كه أنهوں نے نماز پر كس طرح محنت كي اور نماز كے ذريعه سے هي الله تعالى سے اپنے مسائل حل كروائے تو لوگوں كا ذهن بنايا جائے كه جس طرح صحابه كرام رضوان الله عليهم نے نماز سے اپنا هر هر مسئله حل كروا ليا تو اگر آج هم بهي أسي يقين كيساتهـ نماز پڑهيں گے تو الله تعالى كے وعدے همارے لئے بهي وهي هيں جو صحابه كرام رضوان الله عليهم كے لئے تهے تو نماز كي دعوت ميں خوب خوب سمجهايا جائے جتني زياده آپ دعوت پر محنت كريں گے اتنا هي زياده نماز كا يقين آپ كے دل ميں آئے گا اور نماز كي حقيقت سمجهـ ميں آئے گی ۔ 

نماز كي مشق
نماز کی مشق دو إعتبار سے كرنا ضروري هوتي هے
1-ظاهري مشق 2- باطني مشق

1-ظاهري مشق
ظاهري مشق ميں سب سے پہلے شرائطِ نماز كا إهتمام آتا هے
1- نمازی کے بدن كا پاک هونا:
اس کی دو قسمیں ہیں،
1-حدثِ اکبر یا جنابت یعنی غسل فرض ہونا،
2- حدثِ اصغر یعنی بے وضو ھونا یا بحالتِ مجبوری تیمم ہونا،
2- نمازی کے کپڑوں کا پاک ہونا: ويسے مشق تو يهي هو كه نمازى كے كپڑے هروقت پاك هوں اور جب بهي كوئى ناپاكي كپڑوں كو لگ جائے تو فوراً اسے دهو كر پاك كرليا جائے بهرحال نمازى كا لباس جسے پہن كر وه نماز ادا كرنا چاه رها هے وه پاك هونا نماز كي شرائط ميں شامل هے
3- نمازى کی جگہ کا پاک ہونا: نمازي كو إسبات كا بهي إهتمام كرنا ضرورى هے كه وه پاك جگه پر نماز ادا كرے كيونكه نماز کے صحیح ہونے کے لئے نماز پڑہنے کی جگہ کا پاک ہو نا بهي لازمي شرط ہے
4- نمازی کا ستر كا ڈھانپنا:
ستر کا ڈھانپنا بھی شرائط نماز میں شامل ھے ۔ آزاد بالغ عورت كا بدن اور سر دونوں کا ڈھانپنا ضروری ہے
5- پابندیِ وقت: نماز کی ايك شرط ’’نماز مقررہ اوقات کے اندر ادا کرنا‘‘ ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًاO ’’بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہےo‘‘ 6- قبلے کی طرف منھ کرنا: نمازى كا قبلہ کی طرف منھ کرنا جبکہ اس پر قادر ہو نماز صحیح ہونے کےلئے شرط ہے،

7- نیت كرنا : خالص اللّٰہ تعالٰی کے واسطے نماز پڑھنے کے ارادہ کو نماز کی نیت کہتے ہیں۔ يه بهي نماز كى شرائط ميں سے إيك شرط هے انیت میں دل کا عمل معتبر ہے اس لئے زبان سے کہنا فرض نہیں بلكه مستحب ہے، نیتِ قلبی کے بغیر زبان کی نیت بے کار ہے -
ظاهري مشق ميں نماز كے فرائض - واجبات اور سنن وغيره كا إهتمام هونا يعني تکبیر تحریمہ ، قيام ، قرأءت ، ركوع ، قومه ، سجود ، جلسه اور قعده وغيره بالكل صحيح طریقہ سے اور اطمینان کا ساتھ کرنا ضروری هے

2- باطني مشق
اللہ تعالی كا يقين و دهيان ، الله تعالى كا خوف اور دل ميں نماز سے الله تعالى كي خزانوں سے ملنے كا كامل يقين هونا ۔ نماز كي باطني مشق سے مراد دوران نماز صرف الله تعالى كي طرف هي دهيان هونا ، الله تعالى كا خوف هونا ،نماز ميں الله تعالى كا كامل يقين هونا اور دل ميں نماز سے الله تعالى كي خزانوں سے ملنے كا كامل يقين هونا اور جب بهي كوئى ضرورت پيش آئے تو توجه كا فوراً نماز كي طرف جانا هے
عجزو انکساری اور ادب کے ساتھ دلی توجہ کا دوسرا نام ”خشوع“،ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ مومنین نماز کو ایک بے رُوح ڈھانچہ نہیں سمجھتے بلکہ ان کی پوری توجہ نماز کی باطنی کیفیت اور حقیقت پر ہوتی ہے، اکثر لوگ ایسے ہیں جو نماز میں از حد کوشش کرتے ہیں کہ عالمِ نماز میں خضوع وخشوع اور الله کی طرف دلی توجہ کریں، مگر وہ ایسا نہیں کرپاتے، نماز اور دیگر عبادات کے دوران خضوع، خشوع اور حضور قلب کے لئے مندرجہ ذیل امور میں پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے:
1۔ معلومات کواس حد تک پہنچانے کہ انسان کی نگاہ میں دنیا کی ذلت وپستی اور الله کی رفعت وبلندی اور عظمت وبزرگی واضح ہوجائے تاکہ کوئی بھی دنیاوی امر بارگاہ میں حاضری کے وقت اپنی طرف متوجہ نہ کرسکے ۔
2۔ پریشان خیالی اور ذہنی انتشار جو اس کو ایک طرف مرکوز رکھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، لہٰذا انسان جتنا ان کو کم کرے، دلی توجہ اور یکسوئی میں ممدو معاون ثابت ہوگا ۔
3۔ نماز اور دیگر عبادات کے لئے مقام کا محلّ وقوع بھی خاصہ موٴثر ہے، اسی بناء پر اپنی جگہوں پر نماز ادا کرنا مکروہ ہے، جو انسان کی توجہ کو ہٹانے کا سبب ہوں، مثلاً آئینے کے سامنے نمازپڑھنا، کھلے دروازوں کے سامنے جہاں سے لوگوں کی آمد ورفت ہوتی ہو، نماز پڑھنا اور کسی تصویر یا پُرکشش منظر کے سامنے نماز ادا کرنا وغیرہ اسی وجہ سے مساجد غير ضرورى زیب وزینت اور آرائش سے خالی ہونی چاہئیں تاکہ نمازي كى توجه الله تعالى کی طرف ہی رہے ۔
4۔ گناہ سے پرہیز کرنا، کیونکہ گناہ کے ارتکاب سے انسان الله سے دُور ہوجاتا ہے اور نماز میں حضور قلبی سے محروم رہتا ہے ۔
5۔ نماز میں جو کچھ پڑھا جاتا ہے اس کے معنی اور اس کے افعال واذکار سے واقفیت حاصل کرنا اور نماز کے مخصوص آداب اور مستحبات کو ادا کرنا چاہے ان کا تعلق مقدمات نماز سے ہو یا خود اصل نماز سے ۔
6- مذکورہ بالا تمام امور سے قطع نظر نماز ميں دهيان اور توجه يعني خضوع وخشوع کے حصول کے لئے مسلسل اور پیہم مشق اور پوری توجہ کی ضرورت ہے، کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان شروع شروع میں تھوڑی دیر کے لئے دلی یکسوئی پیدا کرلیتا ہے اور اگر وہ اس کی مسلسل مشق کرے اور ہر نماز میں برابر اس کے اضافے کی کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایسا ملکہ پیدا نہ کرے کہ ہمیشہ حالتِ نماز میں وہ غیر الله سے بالکل بے نیاز ہوجائے ۔
7-ایمان کی تجدید اور نافرمانی سے بچنا بهي نماز ميں توجه حاصل كرنے كے لئے ضروري هے چونکہ ایمان کے بعد نافرمانی غفلت سے ہوتی ہے اور نماز غفلت زائل کرنے کا اہم ذریعہ ہے، اسی سے اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس پر ایمان کا جذبہ تازہ ہوتا ہے۔
8- هر وقت دل ميں اللہ کی محبت وخشیت بهي نماز ميں خشوع وخضوع پيدا كرنے كا إيك سبب هے چونکہ نماز کے دوران اللہ تعالیٰ کی عبادت میں جسم کے تمام اعضاء حصہ لیتے ہیں اس سے محبت الٰہی کا جذبہ پورے جسم میں سرایت کرتا ہے اور پھر طبیعت اتباع شریعت پر آمادہ ہوتی ہے، گویا نماز ظاہری و باطنی طور پر یاد الہی ہے۔ اسی طرح عام زندگی کی تمام حالتیں (کھڑا ہونا، بیٹھنا، جھکنا، لیٹنا، حرکت کرنا، پرسکون ہونا) نماز میں جمع ہیں۔ جب ان تمام حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی یاد رہتی ہے تو باہر کی زندگی میں ان تمام حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہونے کی مشق ہو جاتی ہے۔
9- نماز چونکہ سراسر اللہ تعالیٰ کی یاد ہے، جب یہ یاد کامل طور پر پائی جائیگی تو کبھی بھی اس کے ساتھ گناہ جمع نہیں ہو سکے گا یعنی اس سے اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا ہوگی اور وہ گناہوں سے بچانے کا سبب بنے گی۔ اسی طرح”مالک یوم الدین“ کا تذکرہ آخرت کی بھی یاد دہانی کا باعث بنتا ہے الغرض نماز خود بهي محبت اور خشیت الہی کے جذبات پیدا کرتی ہے إس لئے نمازى كے لئے الله تعالى كي محبت اور خشيت كي مشق هونا بهت ضروري أمور ميں سے هے اور نمازي کے يه لطيف جذبات اتباع شریعت کا اہم جزهيں خلاصہ کلام يه کہ نماز ہی سے اسلامی زندگی کی نشوونما ہوتی ہے بشرطيكه نماز صحيح معنوں ميں نماز هو۔
يقين والي نماز كے لئے الله تعالى سے رو رو کر دُعا كرنا
سب کچھ کرنے كے بعد كاميابي دينے والي ذات صرف اور صرف الله تعالى كي هے إس لئے دعوت اور مشق كا عمل كرنے كے بعد تيسرا اور آخرى كام الله تعالى سے رو رو كر اور گڑگڑا كر دعا مانگني بهت ضرورى هے.
اللہ تعالی کو یہ بات بہت پسند ہے کہ اس سے مانگا جائے، ہر چیز کے لئے امید اسی سے لگائی جائے، بلکہ جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ تعالی اس پر غضبناک ہوتا ہے، اسی لیے اپنے بندوں کو مانگنے کے لئے ترغیب بھی دلاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ[غافر]
ترجمہ: اور تمہارے رب نے کہہ دیا ہے کہ: مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کرونگا۔

اللہ سے دعا مانگنے کا دین میں بہت بلند مقام ہے، حتی کہ رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے یہاں تک فرما دیا: (دعا ہی عبادت ہے) ترمذی - ابو داود - ابن ماجہ