Pages - Menu

نماز كے مقاصد


وَاَقِمِ الصَّلٰـوۃَ لِذِکْرِیْ (طٰہٰ:۱۴) 

’’اورنماز کو قائم کرو میری یاد کے لئے


نماز كے مقاصد  سے مراد يه هے كه نماز سے كيا چاها جارها هے يعني إتني عظيم عبادت الله تعالى كي طرف سے جو ھمیں عنايت هوئی ھے یہ کیوں عنایت کی گئی ھے ؟ یعنی اس كے مقاصد كيا هیں ؟ ۔ تو نماز كا بنیادی مقصد يه هے كه همارى نماز كے باهر كي زندگي بھی صفتِ صلاة پر آجائے يعني جس طرح هم نماز ميں الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے طريقوں بر عمل كرتے هيں إسي طرح همارى (24) گهنٹه كي زندگي ميں بهي اللہ تبارک تعالی کے آحکام اور رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے طریقوں پر عمل کرنا همارا معمول بن جائے- يه إيك مسلسل مشق هے تاكه هم اپني تمام زندگي ميں الله تعالى كے آحكام كو رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے طريقوں پر پورا كرنے والے بن جائيں -

عبادتِ ربّ اور اطاعت ِخالق و مالک میں سب سے بڑی رکاوٹ جو انسان کو درپیش ہوتی ہے ‘وہ غفلت‘ نسیان اور بھول ہے. انسان کا اپنے دنیاوی معمولات میں حد درجہ الجھ جانا اور منہمک ہو جانا‘ اور ان میں کولہو کے بیل کی طرح مصروف رہنا دراصل ایک ایسا گھناونا چکر ہے جو انسان کو صرف اپنے اندر گم کر لیتا ہے. بقول علامہ اقبال :-

کافر کی یہ پہچان ھے کہ آفاق میں گم ہے
مؤمن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

تو انسان کی کیفیت عام طور پر یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماحول میں‘ اپنی ضروریات کی فراہمی میں اور اپنی پریشانیوں میں گم ہو کر رہ جاتا ہے. کاروبار کی فکر‘ ملازمت کی فکر‘ کام کی فکر‘ اہل و عیال کی فکر‘ بچوں کے دکھ اور بیماری کی فکر‘ بچوں کی تعلیم و تربیت اور اُن کی شادی بیاہ کی فکر اور نہ جانے کتنے تفکرات کے روگ ہیں جو انسان کو لاحق رہتے ہیں اور جن میں وہ گم ہو کر رہ جاتا ہے. اس گمشدگی کی حالت سے انسان کو نکالنے کے لیے نمازِ پنجگانہ کا نظام  قائم کیا گیا ہے. نماز انسان کو دن میں پانچ مرتبہ ان تمام مصروفیات سے کھینچ کر باہر نکالتی ہے تاکہ وہ اللہ کے ذکر سے غافل نہ ھو جائے  
ایک نماز ہے جو ساری عبادتوں کا مرکز، مشکلات اور سختیوں میں انسان کے تعادل و توازن کی محافظ، مومن کی معراج، انسان کو برائیوں اور منکرات سے روکنے والی نیک ہدایت دینے والی جھوٹ فریب سے بچانے والی اور دوسرے بہترین عموال میں قبولیت کی ضامن ہے ۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ “
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي 
میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔

اس آیت کی روشنی میں نماز کا سب سے اہم فلسفہ یادِ خدا ہے اور یادِ خدا ہی ہے جو مشکلات اور سخت حالات میں انسان کے دل روح  اور ضمیرکو آرام اور اطمینان عطا کرتی ھے چنانچہ ارشادِ ربانی ہے ۔
أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
آگاہ ہو جاؤ کہ یادِ خدا سے دل کو آرام اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔

تو نماز کا فلسفہ یہ ھے کہ دن میں پانچ وقت اللہ کے حضور کھڑے ہو اور ہر رکعت میں اپنے اس عہد و میثاق کو تازہ کرو کہ ؛- 
اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ 
ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں (اور کریں گے)‘ اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں (اور مانگیں گے).‘‘ 
ہر رکعت میں اپنے اس قول و قرار کی ازسرنو تجدید کر کے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کر لو‘ اپنے بندہ ہونے کی حیثیت کو اپنے شعور میں اجاگر کر لو اور اس ہستی کو یاد رکھو جس سے تم نے یہ عہدِوفاداری استوار کیا ہے. نماز کا اصل مقصد ہی یادِ الٰہی ہے اور اسی یادِ الٰہی سے ان حقائق کی تذکیر ہوتی ہے جن کا نام ایمان ہے. پس نماز وہ فریضہ ہے جو انسان کو اس گمشدگی کی حالت سے دن میں پانچ بار اللہ کے ذکر کے لئے نکالتی ہے اور اسے یہ حقیقت یاد دلاتی ہے کہ وہ مادر پدر آزاد نہیں ھے بلکہ وہ کسی عظیم ھستی ( اللہ تعالی ) کا غلام و بندہ ہے‘ کسی سے اس نے عہدِ اطاعت اور عہدِ وفا استوار کر رکھا ہے اور اسے اپنے تمام معمولات میں اس عہد و میثاق اور قول و قرار کی ھر صورت پابندی کرنی ہے. نماز سبب بنتی ہے کہ انسان ہمیشہ خدا کی یاد میں رہے اور اسے بھولے نہیں، نافرمانی اور سرکشی نہ کرے۔ خشوع و خضوع اور رغبت و شوق کے ساتھ اپنے دنیاوی اور اخروی حصہ میں اضافہ کا طلب گار ہو۔ اس کے علاوہ انسان نماز کے ذریعہ ہمیشہ اور ہر وقت خدا کی بارگاہ میں حاضر رہے اور اس کی یاد سے سرشار رہے۔ نماز گناہوں سے روکتی اور مختلف برائیوں سے منع کرتی ہے سجدہ کا فلسفہ غرور و تکبر، خودخواہی اور سرکشی کو خود سے دور کرنا اور خدائے وحدہ لا شریک کی یاد میں رہنا اور گناہوں سے دور رہنا ہے۔