قرآن كريم اور رمضان المبارك کے درمیان چند مشترک خصوصیات

رمضان المبارک اور قرآن مجید کا تعلق بے حد گہرا ہے ، اسی ماہ مبارک میں تمام انسانوں کی رہنمائی کے لئے قرآن کریم  نازل ہوا ، مفسرین کے بیان کے مطابق  قرآن مجید لوحِ محفوظ سے آسمانِ اول پر بھیجا گیا ، پھر اسی مبارک مہینہ میں رسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  پر قرآن مجید اترنا شروع ہوا،اس طرح رمضان المبارک  کا مکمل مہینہ قرآن مجید کی نعمت  سے منسوب ہوا ، چنانچہ قرآن کریم اور رمضان المبارک میں بہت سی مشترک خصوصات ھیں : 


پہلی مشترک خصوصیت

 “ حصولِ تقوی” 

قرآن کریم اور رمضان المبارک کی پہلی اہم مشترک خصوصیت تقویٰ کا حصول ہے، جیساکہ قرآن کریم میں کئی آیات مبارکہ میں میں اس کا  ذکر کیا گیا۔


دوسری مشترک خصوصیت 

“حصولِ شفاعت “

دوسری مشترک خصوصیت شفاعت ہے۔حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا کہ روزہ اور قرآن کریم دونوں بندہ کے لئے شفاعت کرتے ہیں۔ روزہ عرض کرتا ہے کہ یا اللہ میں نے اس کو دن میں کھانے پینے سے روکے رکھا ، میری شفاعت قبول کرلیجئے، اور قرآن کہتا ہے کہ یا اللہ میں نے رات کو اس کو سونے سے روکا ، میری شفاعت قبول کرلیجئے، پس دونوں کی شفاعت قبول کرلی جائے گی۔ ( احمد والطبرانی والحاکم)


 تیسری مشترک خصوصیت 

“ قربِ الہی  “

تیسری خصوصیت جو رمضان المبارک  اور قرآن کریم  دونوں میں مشترک طور پر پائی جاتی ہے وہ قربِ الہی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت کے وقت اللہ تعالیٰ سے خاص قرب حاصل ہوتا ہے، ایسے ہی روزہ دار کو بھی اللہ تعالیٰ کا خاص قرب حاصل ہوتا ہے کہ روزہ کے متعلق حدیث قدسی میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں

لہذا اس مبارک مہینہ میں زیادہ سے زیادہ اپنا وقت قرآن کریم کی تلاوت میں لگائیں۔ نماز تراویح کے پڑھنے کا اہتمام کریں اور تراویح میں ختم قرآن کا اہتمام کیا جائے کیونکہ حدیث میں وارد ہے کہ ہر سال ماہ رمضان میں رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کے نازل شدہ حصوں کا دور کرتے تھے۔ جس سال  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا انتقال ہوا اس سال آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے دوبار قرآن کریم کا دور فرمایا۔ ماہ رمضان کے بعد بھی تلاوت قرآن کا روزانہ اہتمام کیا جائے ، نیز علماء کرام کی سرپرستی میں قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کی جائے ۔ قرآن کریم میں وارد احکام ومسائل کو سمجھ کر اُن پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہونچانے کی کوشش کی جائے ۔ اگر بالفرض ہم قرآن کریم کے معنی ومفہوم نہیں سمجھ پا رہے ہیں تب بھی ہمیں تلاوت ضرور کرنا چاہئے کیونکہ قرآن کریم  کی تلاوت بھی مطلوب ہے۔ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ایک حرف قرآن کریم کا پڑھے اس کے لئے اس حرف کے عوض ایک نیکی ہے اور ایک نیکی کا اجردس نیکی کے برابر ملتا ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ الٓمٓ ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف،لام ایک حرف اور میم ایک حرف۔ (ترمذی)

اللہ پاک عمل کی توفیق عنایت فرمائے اور اس مقدس ماہ میں قرآن کریم  کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین یا رب العالمین 


۔

Share:

سحری میں نیت کیا کرے؟

حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی  صاحب حفظہ اللہ 


•یااللہ : 

اس روزے کو تو میرے تقوی کا  ذریعہ بنا دے.

•یااللہ :

 روزے سے گناہ معاف ہوتے ہیں. یا اللہ : اس روزے سے میرے گناہ معاف فرما.

•یا اللہ : 

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ہے کہ جنت میں ایک دروازہ ہے جس کا نام “ریان” ھے جس میں سے روزے دار جنت میں داخل ہوں گے. یا اللہ : آپ اس دروازے میں سے مجھے بھی جنت میں داخل فرما دیجیے۔ 

•یااللہ :

 آپ نے فرمایا ہے "روزہ میرے لیے ہے" تو اس میرے روزے کو صرف آپنے لئے ھی کر لیجئے. 

• یا اللہ :  آپ نے کہا "وأنا أجزي به" کہ اس پر آپ خود اجر دیں گے، ایسا اجر جسے لفظوں میں بیاں نہیں کیا جاسکتا، میں اس کا مستحق تو نہیں، مگر آپ اپنے فضل سے مجھے عطا فرما دیجیے ۔ 


یہ چند منٹوں کی نیتوں سے  ان شاء اللہ اللہ کی رضا حاصل ہوگی اور روزے کا اصل مقصد (تقویٰ) حاصل ہوگا....!!

Share:

روزہ دار کے لئے ضروري إحتياطيں اور دو عورتوں کا قصہ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا کہ: “جس شخص نے (روزے کی حالت میں) بیہودہ باتیں (مثلاً: غیبت، بہتان، تہمت، گالی گلوچ، لعن طعن، غلط بیانی وغیرہ) اور گناہ کا کام نہیں چھوڑا، تو اللہ تعالیٰ کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے۔”

(بخاری، مشکوٰة)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا کہ: “کتنے ہی روزہ دار ہیں کہ ان کو اپنے روزے سے سوائے (بھوک) پیاس کے کچھ حاصل نہیں (کیونکہ وہ روزے میں بھی بدگوئی، بدنظری اور بدعملی نہیں چھوڑتے)، اور کتنے ہی (رات کے تہجد میں) قیام کرنے والے ہیں، جن کو اپنے قیام سے ماسوا جاگنے کے کچھ حاصل نہیں۔” (دارمی، مشکوٰة)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا کہ: “روزہ ڈھال ہے (کہ نفس و شیطان کے حملے سے بھی بچاتا ہے، اور گناہوں سے بھی باز رکھتا ہے، اور قیامت میں دوزخ کی آگ سے بھی بچائے گا)، پس جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو نہ تو ناشائستہ بات کرے، نہ شور مچائے، پس اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرے یا لڑائی جھگڑا کرے تو (دِل میں کہے یا زبان سے اس کو) کہہ دے کہ: میں روزے سے ہوں! (اس لئے تجھ کو جواب نہیں دے سکتا کہ روزہ اس سے مانع ہے)۔”

(بخاری و مسلم، مشکوٰة)

حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا کہ: “روزہ ڈھال ہے، جب تک کہ اس کو پھاڑے نہیں۔”

(نسائی، ابنِ خزیمہ، بیہقی، ترغیب)

اور ایک روایت میں ہے کہ: عرض کیا گیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم ! یہ ڈھال کس چیز سے پھٹ جاتی ہے؟ فرمایا: “جھوٹ اور غیبت سے!(طبرانی الاوسط )

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: “جس نے رمضان کا روزہ رکھا، اور اس کی حدود کو پہچانا، اور جن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہئے ان سے پرہیز کیا، تو یہ روزہ اس کے گزشتہ گناہوں کا کفاره ہوگا۔”

(صحیح ابنِ حبان، بیہقی، ترغیب)


دو عورتوں کا قصہ

حضرت عبید رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے آزاد شدہ غلام، کہتے ہیں کہ: ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے عرض کیا کہ: یہاں دو عورتوں نے روزہ رکھا ہوا ہے، اور وہ پیاس کی شدّت سے مرنے کے قریب پہنچ گئی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے سکوت اور اِعراض فرمایا، اس نے دوبارہ عرض کیا (غالباً دوپہر کا وقت تھا) کہ: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم ! بخدا! وہ تو مرچکی ہوں گی یا مرنے کے قریب ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ایک بڑا پیالہ منگوایا، اور ایک سے فرمایا کہ اس میں قے کرے، اس نے خون، پیپ اور تازہ گوشت وغیرہ کی قے کی، جس سے آدھا پیالہ بھر گیا، پھر دُوسری کو قے کرنے کا حکم فرمایا، اس کی قے میں بھی خون، پیپ اور گوشت نکلا، جس سے پیالہ بھر گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا کہ: “انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں سے تو روزہ رکھا، اور حرام کی ہوئی چیز سے روزہ خراب کرلیا کہ ایک دُوسری کے پاس بیٹھ کر لوگوں کا گوشت کھانے لگیں (یعنی غیبت کرنے لگیں)۔” (مسندِ احمد - مجمع الزوائد

Share:

روزے کے درجات

حجّةُ الاسلام  حضرت امام غزالی رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ: روزے کے تین درجے ہیں۔

    أول :    عام لوگوں کا روزہ 

دوئم :    خاص لوگوں کا روزہ

سوئم :  خاص الخاص لوگوں کا روزہ 


عام  لوگوں کا روزہ 

عام لوگوں کا روزہ تو یہی ہے کہ کھانے پینے اور شرم گاہ کے تقاضوں سے مکمل پرہیز کرے، جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے۔


 خاص لوگوں کا روزہ 

خاص لوگوں کا روزہ یہ ہے کہ کان، آنکھ، زبان، ہاتھ، پاوٴں اور دیگر اعضاء کو گناہوں سے بچائے، یہ صالحین کا روزہ ہے، اور اس میں چھ باتوں کا اہتمام لازم ہے:

اوّل:

 آنکھ کی حفاظت، کہ آنکھ کو ہر مذموم و مکروہ اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل کرنے والی چیز سے بچائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ: “نظر، شیطان کے تیروں میں سے ایک زہر میں بجھا ہوا تیر ہے، پس جس نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے نظرِبد کو ترک کردیا، اللہ تعالیٰ اس کو ایسا ایمان نصیب فرمائیں گے کہ اس کی حلاوت (شیرینی) اپنے دِل میں محسوس کرے گا۔”

(الحاکم ، مجمع الزوائد )

دوم:  

زبان کی حفاظت، کہ بیہودہ گوئی، جھوٹ، غیبت، چغلی، جھوٹی قسم اور لڑائی جھگڑے سے اسے محفوظ رکھے، اسے خاموشی کا پابند بنائے اور ذکر و تلاوت میں مشغول رکھے، یہ زبان کا روزہ ہے۔ حضرت سفیان ثوری رحمةُ الله عليه کا قول ہے کہ: غیبت سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، مجاہد کہتے ہیں کہ: غیبت اور جھوٹ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ: “روزہ ڈھال ہے، پس جب تم میں کسی کا روزہ ہو تو نہ کوئی بیہودہ بات کرے، نہ جہالت کا کوئی کام کرے، اور اگر اس سے کوئی شخص لڑے جھگڑے یا اسے گالی دے تو کہہ دے کہ میرا روزہ ہے۔” (صحاح)

سوم

کان کی حفاظت، کہ حرام اور مکروہ چیزوں کے سننے سے پرہیز رکھے، کیونکہ جو بات زبان سے کہنا حرام ہے، اس کا سننا بھی حرام ہے۔

چہارم

بقیہ اعضاء کی حفاظت، کہ ہاتھ پاوٴں اور دیگر اعضاء کو حرام اور مکروہ کاموں سے محفوظ رکھے، اور اِفطار کے وقت پیٹ میں کوئی مشتبہ چیز نہ ڈالے، کیونکہ اس کے کوئی معنی نہیں کہ دن بھر تو حلال سے روزہ رکھا اور شام کو حرام چیز سے روزہ کھولا۔

پنجم

اِفطار کے وقت حلال کھانا بھی اس قدر نہ کھائے کہ ناک تک آجائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ: “پیٹ سے بدتر کوئی برتن نہیں، جس کو آدمی بھرے۔” ( احمد والترمذی وابن ماجہ والحاکم )

يعني جب شام کو دن بھر کی ساری کسر پوری کرلی تو روزہ سے شیطان کو مغلوب کرنے اور نفس کی شہوانی قوّت توڑنے کا مقصد کیونکر حاصل ہوگا؟

ششم

اِفطار کے وقت اس کی حالت خوف و رجا کے درمیان مضطرب رہے کہ نہ معلوم اس کا روزہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوا یا مردُود؟ پہلی صورت میں یہ شخص مقرّبِ بارگاہ بن گیا، اور دُوسری صورت میں مطرود و مردُود ہوا، یہی کیفیت ہر عبادت کے بعد ہونی چاہئے۔


 خاص الخاص لوگوں کا روزہ 

اور خاص الخاص لوگوں کا روزہ یہ ہے کہ دُنیوی افکار سے قلب کا روزہ ہو، اور ماسوا اللہ سے اس کو بالکل ہی روک دیا جائے، البتہ جو دُنیا کہ دین کے لئے مقصود ہو وہ تو دُنیا ہی نہیں، بلکہ توشہٴ آخرت ہے۔ بہرحال ذکرِ الٰہی اور فکرِ آخرت کو چھوڑ کر دیگر اُمور میں قلب کے مشغول ہونے سے یہ روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اربابِ قلوب کا قول ہے کہ دن کے وقت کاروبار کی اس واسطے فکر کرنا کہ شام کو اِفطاری مہیا ہوجائے، یہ بھی ایک درجے کی خطا ہے، گویا اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رزقِ موعود پر اس شخص کو وثوق اور اعتماد نہیں، یہ انبیاء، صدیقین اور مقربین کا روزہ ہے۔ (احیاء العلوم

Share:

رمضان المبارک میں تقوی کے حصول میں معاون آعمال

رمضان المبارک میں صرف روزہ رکھنے اور تراویح پڑھنے کی حد تک بات ختم نہیں ہوتی بلکہ اس ماہ کا اصل مقصد یہ ہے کہ غفلت کے پردوں کو دل سے دور کیا جائے، اصل مقصدِ تخلیق کی طرف رجوع کیاجائے، گزشتہ گیارہ مہینوں میں جو گناہ ہوئے ان کو معاف کراکر آئندہ گیارہ مہینوں میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کے استحضار اور آخرت میں جواب دہی کے احساس کے ساتھ گناہ نہ کرنے کا داعیہ اور جذبہ دل میں پیدا کیا جائے، جس کو ”تقویٰ“ کہا جاتا ہے۔ اس طرح رمضان المبارک کی صحیح روح اوراس کے انوار وبرکات حاصل ہوں گے، ورنہ یہ ہوگا کہ رمضان المبارک آئے گا اور چلا جائے گا اور اس سے صحیح طور پر ہم فائدہ نہیں اٹھا پائیں گے، بلکہ جس طرح ہم پہلے خالی تھے ویسے ہی خالی رہ جائیں گے، چند ایسے أعمال هيں رمضان المبارك مين جن كوأختيار كركے روزے کا مقصد (تقویٰ) اور رمضان المبارک کے انوار وبرکات حاصل ہونے كي قوي أميد هے ، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 عبادت کی مقدار میں اضافہ
رمضان المبارک کی برکتوں کو حاصل کرنے کے لیے اپنی عبادت کی مقدار میں اضافہ کرنا ہے، دوسرے ایام میں جن نوافل کو پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی ان کو اس مبارک ماہ میں پڑھنے کی کوشش کریں، مثلاً: مغرب کے بعد سنتوں سے الگ یا کم از کم سنتوں کے ساتھ چھ (6) رکعت اوّابین پڑھیں۔ (جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ اوّابین افطار کی نذر ہوجاتی ہیں) عشاء کی نماز سے چند منٹ پہلے آکر چار رکعت یا دو رکعت نفل پڑھیں۔ سحری کھانے کے لیے اٹھنا ہی ہے تو چند منٹ پہلے اٹھ کر کم از کم چار رکعت تہجد پڑھ لیں۔ اسی طرح اشراق کی نماز اور اگراشراق کے وقت نیند کا غلبہ ہوتو چاشت کی چند رکعتیں تو پڑھ ہی لیں۔ ظہر کے بعد دو سنتوں کے ساتھ دو رکعت نفل اور عصر سے پہلے چار رکعت نفل پڑھ لیں۔ کیوں کہ نماز کا خاصہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان کا رشتہ جوڑتی ہے اوراس کے ساتھ تعلق قائم کراتی ہے، جس کے نتیجے میں انسان کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه سے مروی حدیث شریف میں ہے:
اَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنْ رَّبِّہ وَہُوَ سَاجِدٌ (مسلم شریف
یعنی بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتاہے، تو گویا نماز کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک عظیم تحفہ عطا کیاہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے، آمین!

 تلاوتِ قرآنِ کریم کی کثرت
دوسرا کام یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی تلاوت کا خاص اہتمام کرنا ہے، کیوں کہ رمضان المبارک کے مہینے کو قرآن کریم کے ساتھ خاص مناسبت اور تعلق ہے، اسی مہینے میں قرآن کریم نازل ہوا، ارشادِ مبارک ہے: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ، (سورئہ بقرہ ) خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی رمضان المبارک میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن مجید کا دور فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری) تمام بزرگانِ دین کی زندگیوں میں یوں تو قرآنِ کریم میں اشتغال بہت زیادہ نظر آتا ہے، لیکن رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی تلاوت کے معمول میں غیرمعمولی اضافہ ہوجاتا ، چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس مبارک مہینے میں ایک قرآنِ کریم دن میں، ایک رات میں اور ایک تراویح میں، اس طرح اکسٹھ (61) قرآن کریم ختم فرماتے تھے۔ ماضی کے ہمارے تمام اکابر (حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمه الله ، مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمه الله ،مولانا رشید احمد گنگوہی رحمه الله، مولانا شاہ عبدالرحیم رائپوریرحمه الله ، شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی رحمه الله، مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمه الله ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمه الله ، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمه الله ، مولانا یحییٰ کاندھلوی رحمه الله ، مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمه الله ، شاہ عبدالقادر رائپوری رحمه الله، شیخ الحدیث مولانا زکریا مہاجر مدنی رحمه الله، فقیہ الامت مولانا مفتی محمودحسن گنگوہی رحمه الله، مولانا قاری سید صدیق احمد باندوی رحمه الله، مولانا شاہ ابرارالحق ہردوئی رحمه الله، فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی رحمه الله وغیرہم) کا رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن کریم کا معمول دیدنی ہوتا تھا۔ لہٰذا ہم کو بھی اس مبارک ماہ میں عام دنوں کے مقابلے میں تلاوت کی مقدار زیادہ کرنی ہے، عام آدمی کو بھی روزانہ کم از کم تین پارے پڑھنے چاہئیں، تاکہ پورے مہینے میں کم از کم تین قرآنِ کریم ختم ہوجائیں۔

 تراویح میں قرآنِ کریم صحیح پڑھنے اور سننے کا اہتمام
اس مبارک مہینے میں ہرموٴمن کو اس بات کی بھی فکر کرنی ضروری ہے کہ تراویح میں قرآنِ مجید صحیح اور صاف صاف پڑھا جائے، جلدی جلدی اور حروف کو کاٹ کاٹ کر پڑھنے سے پرہیز کیا جائے، کیوں کہ اس طرح قرآنِ کریم پڑھنا اللہ کے کلام کی عظمت کے خلاف ہے، نیز پڑھنے والے کو خود قرآنِ کریم بددعا دیتا ہے۔ (احیاء العلوم ) اس طرح قرآن کریم پڑھنے والا اور سننے والے سب گنہگار ہوتے ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ حافظ صاحب نہایت تیزگامی کے ساتھ حروف کو کاٹ کاٹ کر پڑھتے چلے جارہے ہیں، ایک سانس میں سورئہ فاتحہ کو ختم کردیا جاتا ہے ، صحیح طریقے سے رکوع، سجدہ اور تشہد ادا نہیں ہورہا ہے، چالیس پینتالیس منٹ میں پوری نماز ختم، اب گھنٹوں مجلسوں میں بیٹھ کر گپ شپ ہورہا ہے اورحافظ صاحب وسامعین میں سے کسی کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم نے قرآنِ کریم کی توہین میں کتنا حصہ لیا اور رمضان المبارك کی مبارک ساعتوں میں کتنی بے برکتی اور قرآن کریم کی کتنی بددعا لی؟ خدا را اس صورتِ حال سے بچئے اور اس مبارک مہینے میں برکتوں اور رحمتوں کے دروازے کو اپنے اوپر بند نہ کیجیے اور صاف صحیح قرآن کریم پڑھنے اور سننے کا اہتمام کرکے دارین کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کیجیے۔

 استغفار کی کثرت
چوتھا کام یہ کرنا ہے کہ اپنے گناہوں سے توبہ کرنی ہے، حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے مروی مشہور حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے منبر کی پہلی، دوسری اور تیسری سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے ”آمین“ فرمایا، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جبرئیل امین علیہ الصلاة والسلام میرے سامنے آئے تھے اورجب میں نے منبر کے پہلے زینے پر قدم رکھا تو انھوں نے کہا: ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی، میں نے کہا آمین، الیٰ آخر الحدیث (مستدرک حاکم )
ظاہر ہے کہ اس شخص کی ہلاکت میں کیا شبہ ہے جس کے لیے حضرت جبرئیل علیہ السلام بددعا کریں اورحضور اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم آمین کہیں، اس لیے اس مبارک مہینے میں نہایت کثرت کے ساتھ گڑگڑا کر اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کرے۔

 دعا کا اہتمام
رمضان المبارک کی برکات کو حاصل کرنے کے لیے دعاؤں کا اہتمام بھی لازم ہے، بہت سی روایات میں روزے دار کی دعا کے قبول ہونے کی بشارت دی گئی ہے، حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا كه تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی (ضرور قبول ہوتی ہے) ایک روزے دار کی افظار کے وقت، دوسرے عادل بادشاہ کی، تیسرے مظلوم کی بددعاء، اس کو اللہ تعالیٰ بادلوں سے اوپر اٹھالیتے ہیں اورآسمان کے دروازے اس کے لیے کھول دیے جاتے ہیں اورارشاد ہوتا ہے کہ میں تیری ضرور مدد کروں گا گو(کسی مصلحت سے) کچھ دیر ہوجائے۔
بہرحال یہ مانگنے کا مہینہ ہے، اس لیے جتنا ہوسکے دعا کا اہتمام کیا جائے، اپنے لیے، اپنے اعزہ واحباب اور رشتے داروں کے لیے، اپنے متعلقین کے لیے، ملک وملت کے لیے اور عالم اسلام کے لیے خوب دعائیں مانگنی چاہئیں، اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرمائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 صدقات کی کثرت
رمضان المبارک میں نفلی صدقات بھی زیادہ سے زیادہ دینے کی کوشش کرنی چاہیے، حدیث شریف میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی سخاوت کا دریا پورے سال ہی موجزن رہتا تھا، لیکن ماہِ رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی سخاوت ایسی ہوتی تھی جیسے جھونکے مارتی ہوئی ہوائیں چلتی ہیں (بخاری شریف) جو شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا اس کو ضرور نوازتے۔ لہٰذا ہم کو بھی اس بابرکت مہینے میں اس سنت پر عمل کرتے ہوئے صدقات کی کثرت کرنی چاہیے۔

 کھانے کی مقدار میں کمی
ساتویں چیز جس کا لحاظ رمضان المبارک کے مقصد کو حاصل کرنے میں معاون ہے ”کھانے کی مقدار میں کمی کرنا“ ہے، کیوں کہ روزے کا مقصد قوتِ شہوانیہ وبہیمیہ کا کم کرنا اور قوتِ ملکیہ ونورانیہ کا بڑھانا ہے، جب کہ زیادہ کھانے سے یہ غرض فوت ہوجاتی ہے، بقول شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب رحمه الله ہم لوگوں کا حال یہ ہے کہ افظار کے وقت تلافیٴ مافات میں (کہ پورے دن بھوکا رہا)اور سحر کے وقت حفظ ماتقدم میں (کہ پورے دن بھوکا رہنا ہے) اتنی زیادہ مقدار میں کھا لیتے ہیں کہ بغیر رمضان کے بھی اتنی مقدار کھانے کی نوبت نہیں آتی جس کی وجہ سے کھٹی ڈکاریں آنے لگتی ہیں، حقیقتاً ہم لوگ صرف کھانے کے اوقات بدلتے ہیں یعنی افظار میں، تراویح کے بعد اور پھر سحری میں، اس کے علاوہ کچھ بھی کمی نہیں کرتے، بلکہ مختلف قسم کی زیادتی ہی ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے قوتِ شہوانیہ و بہیمیہ کم ہونے کے بجائے اور بڑھ جاتی ہے اورمقصد کے خلاف ہوجاتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا
مَا مَلَأ اٰدَمِیٌّ وِعَاءً شَرَّا مِنْ بَطْنٍ بِحَسْبِ ابْنِ اٰدَمَ اُکُلَاتٌ یُقِمْنَ صُلْبَہ فَاِنْ کَانَ لاَ مَحَالَةَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِہ 
وَثُلُثٌ لِشَرَابِہ وَثُلُثٌ لِنَفسِہ۔ (ترمذی شریف
یعنی اللہ تعالیٰ کو کسی برتن کا بھرنا اتنا ناپسند نہیں جتنا پیٹ کا بھرنا ناپسند ہے،ابن آدم کے لیے چند لقمے کافی ہیں جن سے کمرسیدھی رہے، اگر زیادہ ہی کھانا ہے تو ایک تہائی پیٹ کھانے کے لیے رکھے، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس کے لیے رکھے۔ البتہ اتنا کم نہ کھائے کہ عبادات کے انجام دینے میں اور دوسرے دینی کاموں میں خلل واقع ہو۔

 گناہوں سے پرہیز
رمضان المبارک میں خاص طور پر گناہوں سے پرہیز کرنا نہایت ضروری ہے، ہر موٴمن کو یہ طے کرلینا چاہیے کہ اس برکت ورحمت اورمغفرت کے مہینے میں آنکھ، کان اور زبان غلط استعمال نہیں ہوگی، جھوٹ، غیبت، چغل خوری اور فضول باتوں سے مکمل پرہیز کرے، یہ کیا روزہ ہوا کہ روزہ رکھ کر ٹیلی ویژن کھول کر بیٹھ گئے اور فحش وگندی فلموں سے وقت گزاری ہورہی ہے، کھانا، پینا اورجماع جو حلال تھیں ان سے تو اجتناب کرلیا لیکن مجلسوں میں بیٹھ کر کسی کی غیبت ہورہی ہے، چغل خوری ہورہی ہے، جھوٹے لطیفے بیان ہورہے ہیں، اس طرح روزے کی برکات جاتی رہتی ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَةٌ فِیْ اَن یَّدَعَ طَعَامَہ وَشَرَابَہ
ترجمہ: جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کام اور باطل کلام نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ (صحیح بخاری )۔
یعنی روزے کے مقبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کھانا پینا چھوڑنے کے علاوہ معصیات ومنکرات سے بھی زبان ودہن اور دوسرے اعضاء کی حفاظت کرے، اگر کوئی شخص روزہ رکھے اور گناہ کی باتیں اور گناہ والے اعمال کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے روزے کی کوئی پرواه نہیں۔ (معارف الحدیث)
ایک اور حدیث شریف میں حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:
رُبَّ صَائِمٍ لَیْسَ لَہ مِنْ صِیَامِہ اِلَّا الْجُوْعُ وَرُبَّ قَائِمٍ لَیْسَ لَہ مِنْ قِیَامِہ اِلَّا السَّہْرُ۔
(سنن ابن ماجہ ۔ سنن نسائی )
ترجمہ: بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو روزے کے ثمرات میں سے بھوکا رہنے کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا، اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے (کی مشقت) کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ مطلب یہ ہے کہ آدمی اگر گناہوں (غیبت وریا وغیرہ) سے نہ بچے تو روزہ، تراویح اور تہجد وغیرہ سب بیکار ہے۔
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مَالَمْ یَخْرِقْہَا۔ (نسائی شریف ، مسند احمد 
ترجمہ: روزہ آدمی کے لیے ڈھال ہے جب تک اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔ یعنی روزہ آدمی کے لیے شیطان سے، جہنم سے اور اللہ کے عذاب سے حفاظت کا ذریعہ ہے، جب تک گناہوں (جھوٹ وغیبت وغیرہ) کا ارتکاب کرکے روزے کو خراب نہ کرے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضي الله تعالى عنه سے مروی ایک حدیث شریف میں ہے کہ اگر روزے دار سے کوئی شخص بدکلامی اور جھگڑا وغیرہ کرنے کی کوشش کرے تو روزے دار کہہ دے کہ میرا روزہ ہے۔ یعنی میں ایسی لغویات میں پڑکر روزے کی برکات سے محروم ہونا نہیں چاہتا۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
ان تمام احادیث شریفہ کا مدعا یہ ہے کہ روزے کے مقصد (تقویٰ) اور رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں کے حصول کے لیے معصیات ومنکرات سے پرہیز نہایت ضروری ہے، اس کے بغیر تقوے کی سعادت سے متمتع نہیں ہوا جا سکتا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمت سے ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، رمضان المبارک کی قدردانی کی توفیق بخشے اور اس بابرکت مہینے کے اوقات کو صحیح طور پر خرچ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے،
آمین ثم آمین یا رب العالمین!

Share:

رمضان المبارک کیسے گزاریں ؟


 بیان

محبوب العلماء و الصلحاء حضرت مولانا پیر حافظ ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی حفظہ اللہ


اَلْحَمْدُلِلّٰہِ وَکَفٰی وَ سَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اَمَّا بَعْدُ!


کامیاب انسان 

اللہ جل شانہ نے انسان کو اس دنیا میں اپنی بندگی کے لئے بھیجا ہے ۔ یہ انسان یہاں چند روز کا مہمان ہے ، اپنی مہلت اور مدت مکمل ہونے کے بعد اگلے سفر پر روانہ ہو گا ۔ خوش نصیب ہے وہ انسان جو یاد الٰہی میں اپنا وقت گزارے ، جو اللہ رب العزت کی رضا جوئی کے لئے ہر لمحہ بے قرار رہے ، جس کا ہر عمل سنت نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے مطابق ہو، جس کا ہر کام شریعت مطہرہ کے مطابق ہو، ایسا انسان دنیا میں بھی کامیاب اور آخرت میں بھی کامیاب  فَقَدْ فَازَفَوْزًا عَظِیْمًا اس پر صادق آتا ہے ۔ 


ھماری خوش نصیبی 

ہماری یہ خوش نصیبی ہے کہ رمضان کا با برکت مہینہ ایک دفعہ پھر ہماری زندگیوں میں آیا ہے۔ایسا مہینہ کہ جس کے ایک ایک پل میں اللہ تعالیٰ کی رحمت موسلا دھار بارش کی طرح برستی ہے۔جو انسان بھی اس ماہ مبارک کا دل میں ادب رکھتا ہے۔ اس کے روزے رکھتا ہے،گناہوں سے بچتا ہے اور عبادات کا اہتمام کرتا ہے۔ اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور جنت کے اعلیٰ درجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا۔ 


بزرگی  کا معیار

سلف صالحین کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ جب وہ کسی کی بزرگی کا تذکرہ کرتے تو یوں کہتے کہ فلاں آدمی تو بہت بزرگ آدمی ہے اور دلیل یہ دیتے تھے کہ اس نے تو اپنی زندگی کے اتنے رمضان گزارے ہیں۔ ان کے نزدیک بزرگی کا یہ پیمانہ تھا۔ بزرگی اور ترقی درجات کا اندازہ لگانے کا یہ معیار تھا کہ فلاں انسان زندگی کے اتنے رمضان المبارک گزار چکا اب اس کے درجے کو تو ہم نہیں پہنچ سکتے ۔ اللہ اکبر۔ 


*

 حضور نبی اکرمﷺ کی  ترغیب

ایک مرتبہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  علیہ الصلوٰۃ والسلام نے رمضان المبارک کی آمد پر صحابہ کرام ؓ سے  ارشاد فرمایا،تمہارے اوپر ایک برکتوں والا مہینہ آیا ہے ، اس میں اللہ رب العزت تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں اور تم پر رحمتیں نازل فرماتے ہیں ، تمہاری خطاؤں کو معاف کرتے ہیں ، دعائوں کو قبول فرماتے ہیں۔اور فرمایا کہ

 یَنْظُرُ اللّٰہُ تَعَالیٰ الیٰ تَنَافُسِکُمْ فِیْہِ   (رواہ الطبرانی)

(اللہ تعالیٰ اس میں تمہارے تنافس کو دیکھتے ہیں)

تنافس کہتے ہیں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کو ،کسی بات میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کو۔ تو اس بات کی ترغیب دی گئی کہ رمضان المبارک کے مہینے میں نیک اعمال اور عبادات میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو ۔ اس لئے اس مہینے میں ہر بندہ یہ کوشش کرے کہ میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے والا بن جائو ں ۔ جیسے کلاس میں امتحان ہو تاہے تو ہر بچے کی کوشش ہو تی ہے کہ میں فرسٹ آجائوںاسی طرح رمضان المبارک میں ہماری کوشش یہ ہو کہ ہم زیادہ عبادت کرنے والے بن جائیں ۔ 


رمضان المبارک میں معمولات نبویﷺ

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے تھے کہ جب بھی رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو ہم رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے اعمال میں تین باتوں کا اضافہ محسوس کرتے ۔ 

پہلی بات…آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  عبادت میں بہت زیادہ کوشش اور جستجو فرمایا کرتے تھے، حالانکہ آپ کے عام دنوں کی عبادت بھی ایسی تھی کہ ’’حَتّٰی یَتَوَرَّمَتْ قَدَمَاہُ‘‘ یعنی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے قدم مبارک متورم ہو جایا کرتے تھے۔ تاہم رمضان المبارک میں آپ کی یہ عبادت پہلے سے بھی زیادہ ہو جایا کرتی تھی ۔ 

دوسری بات…آپ اللہ رب العزت کے راستے میں خوب خرچ فرماتے تھے۔ اپنے ہاتھوں کو بہت کھول دیتے تھے ۔ یعنی بہت کھلے دل کے ساتھ صدقہ وخیرات فرمایا کرتے تھے ۔ 

تیسری بات…آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  مناجات میں بہت ہی زیادہ گریہ وزاری فرمایا کرتے تھے۔

 ان تین باتوں میں رمضان المبارک کے اندر تبدیلی معلوم ہوا کرتی تھی۔ عبادت کے اندر جستجو زیادہ کرنا، اللہ رب العزت کے راستے میں زیادہ خرچ کرنا اور دعاؤں کے اندر گریہ وزاری زیادہ کرنا۔


       

ہم رمضان المبارک کیسے گزاریں ؟

اب ہم اگر نیکیوں کے اس سیزن سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں …روٹھے ہوئے رب کو منانا چاہتے ہیں… اپنی بگڑیاں بنانا چاہتے ہیں توہمیں چاہیے کہ ہم رمضان المبارک میں چند چیزوں کا خاص طور پر اہتمام کریں ۔ ان کی وجہ سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کے فیوضات و برکات سے مالامال کر دیں گے۔


*(۱)  روزے کی حفاظت:*

ہمیں چاہیے کہ ہم روزہ رکھیں تو پورے آداب و شرائط کے ساتھ رکھیں ۔ روزے میں کھانے پینے اور جماع کی پابندی توہے ہی ۔ اس بات کی بھی پابندی ہو کہ جسم کے کسی عضو سے کوئی گناہ نہ ہو۔ روزے دار آدمی کی آنکھ بھی روزہ دار ہو، زبان بھی روز دار ہو ،کان بھی روزے دار ہوں ، شرمگاہ بھی روزہ دار ہو، دل ودماغ بھی روزہ دار ہوں ۔اس طرح ہم سر کے بالوں سے لے کر پائوں کے ناخنوں تک روزہ دار بن جائیں ۔اسی لیے حدیث شریف میں آیا: 

اَلصِّیَامُ جُنَّۃٌ مَا لَمْ یَخْرِقْھَا 

[روزہ آدمی کیلئے ڈھال ہے جب تک وہ اسے پھاڑ نہ دے]

ڈھال سے مراد یہ ہے روزہ انسان کیلیے شیطان سے حفاظت کا کام کرتا ہے۔  کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  روزہ کس چیز سے پھٹ جاتا ہے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا جھوٹ سے اور غیبت سے۔ 

اسی طرح ایک حدیث میں ارشاد فرمایا:

رُبَّ صَائِمٍ لَیْسَ لَہٗ مِنْ صَیَامِہٖ اِلَّا الْجُوْعِ وَ الْعَطْشِ

[کتنے لوگ ہیں جن کو روزے سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ نہیں ملتا]

کیوں ؟ …روزہ بھی رکھا اور انڈیا کے گانے بھی سنے ۔ روزہ بھی رکھا اور بازار میں جاتے ہوئے غیر محرم کا نظارہ بھی کیا، روزہ بھی رکھا اور لوگوں پہ بہتان لگائے، جھوٹ بولا ، دھوکا دیا، تو ایسا روزہ اللہ کے ہاں اجر نہیں پاتا۔یہ ظاہر داری کر رہا ہے۔ روزے کی حقیقت حاصل نہیںہے۔اسی لیے حدیث پاک میں آیا ہے کہ

 لَیْسَ الصِّیَامُ مِنَ الْاَکْلِ وَالشُّرْبِ اِنَّمَا الصِّیَامُ مِنَ اللَّغْوِ وَ الرَّفْسِ

[ کہ روزہ کھانے اور پینے سے بچنے کا ہی نام نہیں بلکہ روزہ تو لغو اور فحش کاموں سے بچنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ]

اسی طرح ایک اور جگہ پر روزہ داروں کے متعلق فرمایا:

 مَنْ لَمْ یَزَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلُ بِہٖ فَلَیْسَ لَہٗ حَاجَتٌ فِی اَنْ یَّضَعَ طَعَامِہٗ وَشَرَابَہٗ ۔ 

[جو بندہ جھوٹ اور اپنے عمل کے کھوٹ کو نہیں چھوڑتا، اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا اور پیاسا رہنے کی کوئی پرواہ نہیں ]


کہ ویسے تو روزہ دار ہیں اور کم تول رہے ہیں ، ملاوٹ کر رہے ہیں ، رشوت لے رہے ہیں ، بہتان لگا رہے ہیں، غیبت کر رہے ہیں ، ایسے بندے کے بھوکا پیاسا رہنے کی اللہ کو کیا ضرورت۔ 


*زیادہ روزہ لگنے کی وجوہات:*

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جو آدمی پرہیز گاری کے ساتھ روزہ رکھتا ہے اسے بھوک پیاس بہت کم محسوس ہوتی ہے اور زیادہ بھوک پیاس اسی کو لگتی ہے جو بدپرہیزیاں کرتا ہے ۔ 

حضورِ آکرم   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے دور کی بات ہے،دو عورتوں نے روزہ رکھا اور روزہ ان کو اتنا لگا کہ وہ مرنے کے قریب ہو گئیں۔ یہ بات حضور آکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی خدمت میں عرض کی گئی۔ آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا کہ انہیں کہیں کہ کلی کریں ۔ دونوں کو کہا گیا کہ کلی کریں۔ چنانچہ ان کے منہ سے گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے نکلے۔ وہ حیران کہ ہم نے کچھ نہیں کھایا پیا۔ یہ کیا ہوا؟ حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ    نے بتلایا کہ یہ دراصل روزہ رکھ کر دوسروں کی غیبت کرتی رہیں اور غیبت کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی مردار کا گوشت کھانا۔ یہ واقعات اسلئے پیش آئے کہ ہم جیسوں کیلئے آئندہ مثال بن سکیں ، اللہ تعالیٰ نے عبرت بنا دیا تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے روزے کی حفاظت کریں اورہر چھوٹے بڑے گناہ سے بچنے کی کوشش کریں۔تب ہمیں روزے پر اجر بھی ملے گا اور روزہ کی برکات بھی نصیب ہوں گی۔


*(۲)عبادت کی کثرت*  

ہم رمضان المبارک میں فرض نمازوں کو تکبیر اولیٰ کے ساتھ پابندی سے ادا کرنے کی کوشش کریں۔ دیگر مسنون اعمال ، نفلی عبادات، ذکر اذکار کی کثرت کریں۔ عبادت کے ذریعے اپنے جسم کو تھکائیں۔ ہمارے جسم دنیا کے کام کاج کے لئے روز تھکتے ہیں زندگی میں کوئی ایسا وقت بھی آئے کہ یہ اللہ کی عبادت کے لئے تھک جایا کریں، کوئی ایسا وقت آئے کہ ہماری آنکھیں نیند کو ترس جائیں۔


*عبادت میں رکاوٹ :*

 رمضان المبارک کے مہینہ میں بڑے بڑے شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے ۔ پھر بھی انسان عبادت نہ کرے تو رکاوٹ کونسی چیز بنی؟ انسان کا اپنا نفس بنا۔ شیطان ہمارے نفس کو اتنا بگاڑ دیتا ہے کہ گو خود گرفتار ہو جاتا ہے ۔ اب وہ چھوٹے چھوٹے شطونگڑے رہ جاتے ہیں ۔تو یہ چھوٹے چھوٹے شطونگڑے ہی ہمارے نفس کو سیدھا نہیں ہونے دیتے۔

ہماری تن آسانی کا یہ حال ہے ہمارے لئے ایک قرآن پاک تراویح میں سننا مشکل ہوتا ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں جی فلاں مسجد میں جانا ہے کیوں ؟ جی وہاں ۳۰منٹ میں تراویح ہو جاتی ہیں ، فلاں جگہ ۲۵منٹ میں ہو جاتی ہیں ،ہم مسجدیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ کہاں ہم پانچ منٹ پہلے فارغ ہو سکتے ہیں  ۔ 

موت کے بعد ہے بیدار دلوں کو آرام

 اپنے نفس کو سمجھائیں بہت عرصہ غفلت میں گزار بیٹھے ، اس مہینے کو کمانے کی ضرورت ہے ۔ اہل دل حضرات اس مہینہ میں آرام کو خیرباد کہہ دیا کرتے تھے۔ ہم بھی رمضان المبارک میں آرام کو خیر باد کہہ دیں۔ ہم سوچیں کہ سال کے گیارہ مہینے اگر ہم اپنی مرضی سے سوتے جاگتے ہیں تو ایک مہینہ ایسا بھی ہو جس میں ہم بہت کم سوئیں۔ اچھی بات ہے اگر آنکھیں نیند کو ترستی رہیں، اچھی بات ہے اگر جسم کو تھکا دیں ،ہاں ،  اگر تم آج اللہ کی رضا کے لئے جاگو گے تو قیامت کے دن اللہ رب العزت کا دیدار نصیب ہوگا۔ یہ آنکھیں آج جاگیں گی تو کل قبر کے اندر میٹھی نیند سوئیں گی۔ 

موت کے بعد ہے بیدار دلوں کو آرام

نیند بھر کر وہی سویا جو کہ جاگا ہوگا

تو یہ جاگنے کا مہینہ ہے ۔ ہم اپنے آرام میں کمی کر لیں ۔ یوں سمجھیں کہ یہ مشقت اٹھانے کا مہینہ ہے ۔ 


*(۳)  دعاؤں کی کثرت:*

رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کچھ دینا چاہتے ہیں۔ اس لیے اس میں دعائوںکی کثرت کرنی ۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ

وَ اِنَّ لِکُلِّ مُسْلِمٍ فِی کُلِّ یَوْمٍ وَّ لَیْلَۃٍ دَعْوَۃً مُسْتَجَابَۃٍ

 رمضان المبارک میں ہر مسلمان کی  ہرشب و روزمیں ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔اس لیے اللہ کے آگے رو رو کر دعائیں کرنی چاہئیں نہ معلوم کونسی گھڑی میں دعا  قبول ہو جائے۔تہجد کا وقت قبولیت دعا کا خاص وقت ہے ۔ لہٰذا سحری سے پہلے تہجد کے نوافل پڑھ کر اللہ کے آگے گریہ و زاری کی جائے اوراپنی تمام حاجات  اللہ کے سامنے پیش کی جائیں۔ اللہ کو منایا جائے۔

احا دیث میں افطار کے وقت روزہ دارکی دعائیں قبول ہوتی ہیں فرمایا،

’’تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی ایک روزہ دار کی افطار کے وقت ، دوسرے عادل بادشاہ کی دعا تیسرے مظلوم کی دعا۔‘‘

  اس لیے افطاری کے وقت دعاؤں کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے ۔ایک بات پر غور کیجئے کہ بالفرض اللہ تعالیٰ کا کوئی بہت ہی نیک اور برگزیدہ بندہ ہو اور وہ آدمی آپ کو کسی وقت بتا دے کہ ابھی مجھے خواب کے ذریعے بشارت ملی ہے کہ یہ قبولیت دعا کا وقت ہے ، تم جو کچھ مانگ سکتے ہو ، اللہ رب العزت سے مانگ لو ۔ اگر وہ آپ کو بتائے تو آپ کیسے دعا مانگیں گے؟ بڑی عاجزی وانکساری کے ساتھ رو رو کر اللہ رب العزت سے سب کچھ مانگیں گے کیونکہ دل میں یہ استحضار ہو گا کہ اللہ کے ایک ولی نے ہمیں بتادیا ہے کہ یہ قبولیت دعا کا وقت ہے ۔ جب ایک ولی بتائے کہ یہ قبولیت دعا کا وقت ہے تو ہم اتنے شوق کے ساتھ دعا مانگیں گے اب ذرا سوچئے کہ ولیوں اور نبیوں کے سردار، اللہ تعالیٰ کے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا کہ روزہ دار آدمی کی افطار کے وقت اللہ تعالیٰ دعائیں قبول فرماتے ہیں تو ہمیں افطاری کے وقت کتنے شوق اور لجاجت سے اور پر امید ہو کر اللہ رب العزت سے دعائیں مانگنی چاہئیں ۔ 

مگر ہوتا کیاہے ۔ عصر کا وقت شروع ہوا… بس اس کے بعد سے افطاری شروع ہو گئی… افطاری بنائی جا رہی ہے … مشورے دئیے جا رہے ہیں ۔ اس میں کباب بھی ہونے چاہیں ، سموسے بھی ہونے چاہیں ، پھل بھی ہونے چاہیں، فلاں بھی ہونا چاہیے ۔ دس پندرہ منٹ پہلے دستر خوان پہ لگا کے بس اس کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں ۔ اتنی بھی توفیق نہیں کہ دعا ہی مانگ لیں ۔ یہ لانا وہ لانا … یہ رہ گیا وہ رہ گیا… اور اسی میں افطاری کا قیمتی وقت گزر جاتا ہے ۔ ہونا یہ چاہیے کہ وہ جو افطاری کاآخری آدھا گھنٹہ ہے اس آدھے گھنٹے میں خوب توجہ الی اللہ کے ساتھ بیٹھیں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی حاجات بیان کریں اور اپنی دنیا و آخرت کی اور جان و ایمان کی سلامتی کی دعائیں کریں۔ 

ویسے بھی دستور یہ ہے کہ اگر آپ کسی آدمی کو مزدوری کرنے گھر لائیں اور وہ سارا دن پسینہ بہائے اور شام کے وقت گھر جاتے ہوئے آپ سے مزدوری مانگے تو آپ اس کی مزدوری کبھی نہیں روکیں گے ، حالانکہ ہمارے اندر کتنی خامیاں ہیں ۔ بغض ہے، کینہ ہے، حسد ہے ، بخل ہے ، لیکن جو ہمارے اندر تھوڑی سی شرافت نفس ہے وہ اس بات کو گورا نہیں کرتی کہ جس بندے نے سارا دن محنت کی ہے ہم اس کو شام کے وقت مزدوری دیئے بغیر خالی بھیج دیں ۔ اگر ہمارا دل یہ نہیں چاہتا تو جس بندے نے اللہ کے لئے بھوک اور پیاس برداشت کی اور افطاری کے وقت اس کا مزدوری لینے کا وقت آئے تو کیا اللہ تعالیٰ بغیر مزدوری دیئے اس کو ٹرخا دیں گے۔ ہرگز نہیں ۔ اس لیے صدق یقین کے ساتھ افطاری کے وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کریں اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں گے۔

حدیث شریف میں اس بات کی ترغیب آئی ہے کہ رمضان شریف میں استغفار کی کثرت کریں ،جنت کی طلب کریں اور جہنم سے پناہ مانگیں۔ لہٰذ اپنی دعائوں میں ان تینوں چیزوں کو بار بار مانگیں۔ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ بامراد فرمائیں گے۔ 


*(۴) تلاوت قرآن مجید کی کثرت*

رمضان المبارک کو قرآن پاک سے خاص نسبت ہے کیونکہ قرآن مجید اسی مہینے میں نازل کیا گیا۔ 

 شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنَ  (البقرۃ :  ۱۸۵)

(رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیاگیا)


اس سے پہلے بھی جتنی آسمانی کتابیں اورصحیفے آئے وہ بھی اسی مہینے میں نازل ہوئے۔ معلوم ہوا کہ اس مہینے کو کلامِ الٰہی سے خاص نسبت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک اس مہینے میں کثرت سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اس مہینے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام  کے ساتھ پورے قرآن پاک کا دور کیا کرتے تھے۔ اصحاب رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سے لے کر آج تک یہ روایت چلی آرہی ہے کہ اس ماہ قرآن پاک کی تلاوت کثرت سے کی جاتی ہے۔ ہمارے بہت سے اکابر  اس ماہ میں ایک دن میں ایک قرآن پاک اور بعض دو قرآن پاک بھی پڑھ لیا کرتے تھے۔ لہٰذا ہمیں بھی اپنے اکابر کی اتباع میں کثرت تلاوت کو اپنا شعار بنانا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ وقت قرآن پاک کی تلاوت کرنی چاہیے۔


سلف صالحین کے واقعات

سلف صالحین اس مہینہ کی برکات سے کیسے فائدہ اٹھاتے تھے اس کی چند مثالیں عرض کی جاتی ہیں ۔ تاکہ ہمیں بھی اندازہ ہو جائے کہ ہمارے اسلاف یہ مہینہ کیسے گزارتے تھے ۔ 


*امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کا معمول :*

امام اعظم ابو حنیفہؒ کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ آپ رمضان المبارک میں 63 مرتبہ قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتے تھے ۔ ایک قرآن پاک دن میں پڑھتے تھے ۔ ایک قرآن پاک رات میں پڑھتے تھے اور تین قرآن پاک تراویح میں سنا کرتے تھے …رمضان المبارک میں 63 قرآن پاک …60قرآن پاک دن اور رات میں اور 3 قرآن تراویح کی نماز میں… اللہ اکبر !


*حضرت رائے پوریؒ کا معمول:*

حضرت رائے پوریؒ کے معمولات میں لکھا ہے ۔ جب ۲۹ شعبان کا دن ہوتا تھا تو اپنے مریدین ومتوسلین کو جمع فرما لیتے اور سب کو مل لیتے اور فرماتے کہ بھئی! اگر زندگی رہی تو اب رمضان المبارک کے بعد ملاقات ہوگی اور اپنے ایک خادم کو بلاتے اور اسے ایک بوری دے دیتے اور فرماتے کہ رمضان المبارک میں جتنے خطوط آئیں وہ سب اس بوری میں ڈال دینا، زندگی رہی تو رمضان المبارک کے بعد ان کو کھول کر پڑھیں گے۔ رمضان المبارک میں ڈاک نہیں دیکھا کرتے تھے، فرماتے تھے کہ یہ مہینہ بس میں نے اپنے لئے مخصوص کر لیا ہے ۔ اگر زندگی رہی تو اس کے بعد پھر دوستوں سے ملاقات ہو گی۔ آپ کے ہاں پورا رمضان المبارک اعتکاف کی حالت میں گزارنے کا معمول تھا، ۲۹ شعبان کے دن جو شخص آپ کی مسجد میں بستر لے جاتا اس کو مسجد میں بستر لگانے کی جگہ نہیں ملاکرتی تھی۔ دور دراز سے لوگ رمضان المبارک کا مہینہ وہاں گزارنے کے لئے آتے تھے اور پورا رمضان المبارک عبادت اور یاد الٰہی میں گزار دیا کرتے تھے ۔ 


*حضرت مولانا محمد زکریاؒ کا معمول:

شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمۃ اللہ علیہ اپنے بارے میں فرماتے تھے ’’میں اکابرین ہی کے نقش قدم پر رمضان المبارک یکسوئی کے ساتھ عبادت میں گزار ا کرتا تھا ۔ میرا معمول تھا کہ میں سارا دن قرآن پاک کی تلاوت میں لگا رہتا ۔ کچھ وقت نوافل وغیرہ میں گزرتا ۔ میرا ایک دوست جو کسی دوسرے محلے میں رہتا تھا وہ رمضان المبارک میں ملنے آیا ۔ اسے میرے معمولات کا اندازہ نہیں تھا۔ اس نے سلام کیا ۔ میں نے سلام کا جواب دیا پھر اپنے کمرے میں آکر تلاوت شروع کر دی۔ وہ بھی میرے پیچھے پیچھے کمرے میں آگیا، وہ انتظار میں بیٹھا رہا۔ میں تلاوت کرتا رہا حتیٰ کہ عصر کا وقت ہو گیا ۔ عصر کی اذان ہوئی تو میں پھر نماز کے لئے کھڑا ہوا ۔ ہم دونوں نے آکر نماز پڑھی، نماز کے بعد فارغ ہوتے ہی میں سیدھا اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گیا اور تلاوت شروع کر دی ۔ وہ پھر کمرے میں آیا (وہ دوست تھا بچپن کا ، بڑا بے تکلف دوست تھا )اس نے کمرے میں آکر دیکھا تو میں پھر تلاوت شروع کر بیٹھا تھا وہ تھوڑی دیر انتظار کرتا رہا پھر کہنے لگا ’’بھئی !رمضان المبارک تو ہمارے پاس بھی آوے مگر یوں بخار کی طرح نہیں آوے۔ ‘‘

یعنی اس کا اندازہ تھا کہ ان پر تو رمضان یوں آتا ہے جیسے کسی کو بخار چڑھ جاتا ہے اور فرماتے تھے کہ واقعی مجھے پورا مہینہ جذبہ رہتا تھا ۔ اللہ اکبر ۔ 


*حضرت شیخ الہند  ؒ کا معمول :*

حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ کی نماز تراویح اس وقت ختم ہوتی جب سحری کا وقت ہو جاتا تھا ، چنانچہ تراویح ختم کرتے ہی سحری کھاتے اور ساتھ ہی فجر کی نماز کے لئے تیار ہو جاتے تھے، ساری رات عبادت میں گزار دیتے۔ ایک مرتبہ کئی دن مسلسل مجاہدے میں گزرگئے تو گھر کی مستورات نے محسوس کیا کہ حضرتؒ کی طبیعت میں نقاہت اور کمزوری ہے ایسا نہ ہو کہ طبیعت زیادہ خراب ہو جائے۔ تو انہوں نے منت سماجت کی کہ حضرت! آپ درمیان میں ایک رات وقفہ کر لیں طبیعت کو کچھ آرام مل جائیگا پھر دس پندرہ دن گزر جائیں گے۔ لیکن حضرت فرمانے لگے کہ معلوم نہیں کہ آئندہ رمضان کون دیکھے گا اور کون نہیں دیکھے گا۔ گھر کی مستورات نے کسی بچے کے ذریعے قاری کو پیغام بھجوایا کہ ’’قاری صاحب! آپ کسی رات بہانہ کردیں کہ میں تھکا ہوا ہوں ، آرام کرنے کو جی چاہتا ہے ‘‘ (حضرت ؒ کی عادت شریفہ تھی کہ دوسروں کے عذر بڑی جلدی قبول کر لیا کرتے تھے ) قاری صاحب نے کہا، بہت اچھا ۔ وہ میرے شیخ ومرشد ہیں ،ان پر اس وقت کمزوری اور ضعف غالب ہے تو چلو آج کی رات ذرا آرام میں گزر ے گی۔ قاری صاحب تراویح پڑھانے کے لئے آئے تو کہنے لگے کہ حضرت! آج میری طبیعت بہت تھکی ہوئی ہے اسلئے آج میں زیادہ تلاوت نہیں کر سکوں گا ۔ حضرتؒ نے فرمایا ہاں بہت اچھا ، آپ بالکل تھوڑی سی تلاوت کریں۔ قاری صاحب نے ایک دوپارے سنا کر اپنی تراویح مکمل کر دی تو حضرتؒ نے فرمایا : قاری صاحب! آپ تھکے ہوئے ہیں اب آپ گھر نہ جائیے بلکہ یہیں میرے بستر پر سو جائیں ۔ قاری صاحب کو مجبوراً تعمیل کرنا پڑی ۔ حضرت کے بستر پر لیٹ گئے حضرت نے فرمایا قاری صاحب! آپ بالکل آرام کریں اور سو جائیں ۔ پھر لائٹ بجھا دی اور کواڑ بند کر دئیے، قاری صاحب فرماتے ہیں کہ جب تھوڑی دیر کے بعد میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ کوئی بندہ میرے پائوں دبا رہا ہے مٹھی چاپی کر رہا ہے۔ میں حیران ہو کر اٹھ بیٹھا جب قریب ہو کر دیکھا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ میرے پیرو مرشد حضرت شیخ الہندؒ اندھیرے میں بیٹھے میرے پائوں دبارہے ہیں۔ میں نے کہا ، حضرت! آپ نے یہ کیا کیا ؟ فرمانے لگے کہ قاری صاحب! آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ میں تھکاہوا ہوں تو میں نے سوچا کہ چلو میں آپکے پائوں دبا دیتا ہوں آپ کو کچھ آرام مل جائیگا ۔ قاری صاحب کہنے لگے حضرت! اگر آپ نے رات جاگ کر ہی گزارنی ہے تو چلیں میں قرآن سناتا ہوں آپ قرآن ہی سنتے رہیں رات یوں بسر ہو جائیگی۔ چنانچہ قاری صاحب پھر مصلے پر آگئے انہوں نے قرآن پڑھنا شروع کر دیا۔ حضرت نے قرآن سننا شروع کر دیا … اللہ اکبر !


مستورات  کا قرآن سے لگاؤ

حضورشیخ الہند ؒ کے ہاں مستورات بھی تراویح میں قرآن پاک سنا کرتی تھیں،آپ کے صاحبزادے قرآن پاک سناتے تھے اور پردے کے پیچھے گھر کی مستورات اور بعض دوسری عورتیں جماعت میں شریک ہو جایا کرتی تھیں ۔ ایک دن حضرت کے صاحبزادے بیمار ہوگئے تو حضرت نے کسی اور قاری صاحب کو بھیج دیا۔ قاری صاحب نے تراویح میں چار پارے پڑھے ۔ جب سحری کے وقت حضرت گھر تشریف لے گئے تو گھر کی عورتیں بڑی ناراض ہوئیں ۔ کہنے لگیں ۔ حضرت ! آج آپ نے کس قاری صاحب کو بھیج دیا ۔ اس نے تو بس ہماری تراویح خراب کر دی ۔ پوچھا کیوں کیا ہوا؟ کہنے لگیں پتہ نہیں اس کو کیا جلدی تھی بس اس نے چار پارے پڑھے اور بھاگ گئے، پھر پتہ چلا کہ یہ عورتیں رمضان المبارک میں تروایح کی نماز میں سات قرآن پاک سنا کرتی تھیں۔ جی ہاں ، کئی خانقاہوں پر تین قرآن پاک تراویح میں پڑھنے کا معمول رہا ہے ،کئی خانقاہوں پر پورا رمضان المبار ک اعتکاف کرنے کا معمول رہا ہے، ہمارے سلف صالحین یوں مجاہدہ کیا کرتے تھے یہ رمضان المبارک کمانے کا مہینہ ہے اپنے جسم کو تھکانے کا مہینہ ہے ۔ 


اللہ کو راضی کرنے کا طریقہ:

سلف صالحین اللہ جل شانہ کو راضی کرنے کے لئے یوں عبادت کیا کرتے تھے۔ جیسے کوئی کسی روٹھے ہوئے کو مناتا ہے ۔ سبحان اللہ ! روٹھے ہوئے رب کو مناتے تھے۔ اگر کوئی غلام بھاگ جائے اور پھر پکڑا جائے تو وہ اپنے مالک کے سامنے آتا ہے تو کیا کرتا ہے ؟ وہ اپنے مالک کے سامنے آکر ہاتھ جوڑ دیتا ہے اپنے مالک کے پاؤں پکڑ لیتا ہے اور کہتا ہے میرے مالک آپ در گزر کر دیں آئندہ میں احتیاط کروں گا۔ میرے دوستو! رمضان المبارک میں ہم اللہ رب ا لعزت کے سامنے اسی طرح اپنے ہاتھ جوڑ دیں، سر بسجود ہو جائیں اور عرض کریں کہ اے اللہ ہم نادم ہیں ، شرمندہ ہیں ، جو کوتاہیاں اب تک کر بیٹھے ہیں ان کو تو معاف کر دے ۔ آئندہ زندگی ہم تقویٰ اور پرہیز گاری کے ساتھ گزارنے کی کوشش کریں گے ۔

آمین یا رب العالمین


Share:

نیک لوگوں کے ساتھ محبت اور صحبت کے فوائد

وَاصْبِـرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّـذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّـهُـمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٝ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْۚ تُرِيْدُ زِيْنَـةَ الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٝ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ اَمْرُهٝ فُرُطًا (28) 

تو ان لوگوں کی صحبت میں رہ جو صبح اور شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اسی کی رضامندی چاہتے ہیں، اور تو اپنی آنکھوں کو ان سے نہ ہٹا، کہ دنیا کی زندگی کی زینت تلاش کرنے لگ جائے، اور اس شخص کا کہنا نہ مان جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور اپنی خواہش کے تابع ہو گیا ہے اور اس کا معاملہ حد سے گزرا ہوا ہے۔ (سورہ الکہف)

اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو نیک اور اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے اور ان کی صحبت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ ان کو دھتکارنے سے منع کیا ھے 

نیکو کاروں کی صحبت اختیار کرنے میں بے شمار فوائد ہیں۔ان کے پاس بیٹھنے سے علمی اور اخلاقی فوائد ملتے ہیں۔اور یہ نیک لوگوں کی دوستی کل قیامت کو بھی قائم رہے گی جبکہ باقی سب دوستیاں ختم ہوجائیں گی۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

((اَلْأَخِلَّآئُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلاَّ الْمُتَّقِیْنَ))[الزخرف:۶۷]

’’اس دن گہرے دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پرہیز گاروں کے۔‘‘

دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

((وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلاً٭یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ أَتَّخِذْ فُلَاناً خَلِیْلاً٭لَقَدْ أَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْ جَآئَ نِیْ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلاً))[الفرقان:۲۷-۲۹]

’’اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کی راہ اختیار کی ہوتی۔ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کر دیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو (وقت پر) دغا دینے والا ہے۔‘‘ظالم شخص غم اور افسوس سے اپنی انگلیوں کو کاٹے گا کہ اس نے غلط اور شریر شخص کو اپنا دوست بنا لیا جس نے اسے ہدایت اورصراط مستقیم سے ہٹا کر ضلالت و گمراہی اور بد بختی کے رستے پر لگا دیالیکن اس وقت یہ افسوس کسی کام نہیں آئیگا کیونکہ ہاتھ سے نکلاہوا وقت واپس نہیں آتا ۔

اسی طرح جہنمی جہنم میں ندامت کا اظہار کریں گے کہ کاش ہم اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت نہ کرتے جنہوں نے ہمیں گمراہ کر دیااور صراط مستقیم سے ہٹا دیا، کاش کہ ہم اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا دامن تھام لیتے اور آج اس ذلت آمیز عذاب سے بچ جاتے۔

 ایک دوسری جگہ ارشادِ خداوندی ھے 

یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْھُھُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَا أَطَعْنَا اللّٰہَ وَأَطَعْنَا الرَّسُوْلَا٭وَقَالُوْا رَبَّنَا اِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَآئَ نَافَأَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا))[الأحزاب)

’’اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے۔(حسرت وافسوس سے) کہیں گے کہ کاش ہم اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرتے۔اور کہیں گے اے ہمارے رب!ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی مانی جنہوں نے ہمیں راہ راست سے بھٹکا دیا۔‘‘اس سے معلوم ہوا کہ برے لوگوں کی صحبت نہ صرف علمی واخلاقی فوائد سے محروم کر دیتی ہے بلکہ انسان کو اسفل سافلین تک جا پہنچاتی ہے۔

نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے ان کے ساتھ بیٹھنے اور ان سے محبت کرنے میں کئی آحادیثِ مبارکہ میں بہت ساری فضیلتیں وارد ھوئی  ھیں چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے فرمایا:

لا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا، وَلا يَأْكُلْ طعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ

’’صرف مومن شخص کی صحبت اختیار کر،اور تیرا کھانا صرف متقی شخص کھائے۔‘‘ [ابوداؤد،ترمذی]

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا:

الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ، فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكمْ مَنْ يُخَالِل 

’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے،پس چاہئیے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے دوست کو دیکھے۔‘‘ [ابوداؤد،ترمذی]

حضرت ابوموسی أشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا:

الرَّجُلُ يُحِبُّ القَومَ وَلَمَّا يَلْحَق بِهِمْ، قَالَ: المَرْءُ مع مَن أحبَّ.

جو شخص کسی قوم کے ساتھ محبت کرتا ہے اسے اس قوم کے ساتھ ملحق کیوں کر دیا جاتا ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)

اسی طرح رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا فرمان ہے کہ دین دار عورت سے شادی کی جائے تاکہ وہ تمہارے دین میں تمہاری مدد گار ثابت ہو سکے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا:

تنكح المراة لاربع: لمالها، ولحسبها، وجمالها، ولدينها، فاظفر بذات الدين تربت يداك".

عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہو گی)۔ ( بخاری و مسلم)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی حدیث میں ان سات افراد کا تذکرہ ہے جن کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائیں گے جن میں سے دو افراد وہ بھی ہیں:

رجلان تحابا فی اللہ اجتمعا علیہ وتفرقا علی

’’جو فقط اللہ کے لئے محبت کرتے ہیں اسی محبت پر جمع ہوتے ہیں اور اسی پر ہی علیحدہ ہوتے ہیں

فقہ کے مشہور امام حضرت ابن قیم رحمہ اللّٰہ (جن کی اکثر اھلحدیث حضرات تقلید کرتے ہیں)  تحریر فرماتے ھیں 

صالحین کی صحبت تمھیں چھ طرح کے احوال سے دوسرے 

چھ  طرح کے احوال کی طرف منتقل کر دیتی ہے یعنی

شک سے یقین کی طرف 

ریا سے اخلاص کی طرف 

غفلت سے ذکر الٰہی کی طرف

رغبت دنیا سے رغبت آخرت کی طرف

بدنیتی سے خیر خواہی کی طرف 

اور تکبر سے تواضع کی طرف 

لہذااپنا  بیٹھنا اُٹھنا  صرف نیک اور صالحین کی صحبت میں رکھیں 

اللہ تعالی عمل کی توفیق عنایت فرمائے

آمین یا رب العالمین

Share: