چوتها نمبر : إكرام مسلم

دعوت إلى الله اور تبليغى جماعت

(قسط نمبر - 6 )

چوتها نمبر : إكرام مسلم


گذشته اقساط ميں كلمه طيبه - نماز اور علم وذكر كے متعلق عرض كيا جا چكا هے إن شاء الله تعالى إس قسط ميں " إكرام مسلم " كے متعلق بات هوگي 

إكرام کے معنى و مفہوم:

اکرام لفظ اکرم سے ماخوذ هے جسكا الٹ توہین هے گويا اس کے لفظي معني كسي كي خوبيوں كا اعتراف كرنا -عزت دينا - وقار كو قبول كرنا اور عزت کے لیے اپنے مینڈیٹ کے لوگوں کو خراج عقيدت - مهمان كا اعزاز، عزت، ان کے کھانے اور پینے كا رضاکارانہ طور پر إهتمام كرنا ، بلا كسي معاوضه يا لالچ كے خدمت كرنا وغيره هيں. علماء نے فر مایا كه اکرام کے معنیٰ ومفهوم یہ ہیں کہ حقوق سے زیادہ دے ، تب تو اکرام کہلایا جائے گا . ورنہ حق کی ادائیگی تو واجب کی ادایئگی ہوتی ہے .اور اکرام ما واجب سے آگے کی چیز ہے .اکرام کی مشق ہو تو حقوق کی ادایئگی آسان ہو جاتی ہے ،آج تو ہم لوگوں سے حق کی ادایئگی نہیں ہوتی  پھر بھلا اکرام جو اس سے آگے کی چیز ہے وہ کیسے ہو گا؟
فر مایا: اکرام کا ظاہری پہلو یہ ہے کہ مخلوق پر شفقت اور ترس کھائے. اوردنیاوي تکلیفوں سے اس کو بچا کر اس کو سہولت پہنچائے .اور اکرام کا باطن یہ ہے کہ اس کو آخرت کی مصیبت سے بچانے کی فکر کرے .یہ ساری چلت پھرت ظاہر میں پابندی شریعت ہے اور باطن میں اس کے اتارنے کی فکر کرے ، یعنی ظاہر سے شروع کر کے باطن تک پہنچائے فرمایا: اخلاق کی درستگی سے غیروں کے لئے اسلام کا دروازہ کھلے اور آپس کے سارے اختلافات دور ہوں گے . اس لئے اخلاق کی درستگی اور حقوق کی ادایئگی کی فکر کرو .
فر مایا : اکرام کا مسئلہ بڑا نازک ہے . زرا سی بے اکرامی سے اعمال کا ثواب دوسروں کو مل جاتا ہے . قیامت کے دن ایک آدمی لایا جائے گا . جس کے ساتھ صدقات خیرات ، نماز ، روزہ سب کچھ ہوگا . لیکن کسی کو گالی دی ہو گی . کسی کا حق دبایا ہوگا ، تو وہاں اس کے یہ اعمال ان لوگوں پر تقسیم کر ديےجائیں گے اور یہ نیکیوں والا خالی ہاتھ کھڑا رہ جا ئے گا  اس لئے اپنے اعمال کی حفاظت کے لئے بھی اکرام کی مشق ضروری ہے . کسی ساتھی كي بهي بے توقیری اور بےاکرامی نہ کی جائے بلکہ اکرام کے ساتھ دعوت دی جائے .

اکرام مسلم:
إيك مسلمان كا إحترام وإكرام دوسرے مسلمان بر واجب هے هر مسلمان كے اندر الله تعالى نے إيك إيسا قيمتي كلمه ركها هوا هے كه اگر دنيا اور دنيا ما فيها ميں جو كچهـ هے إيك پلڑے ميں ركهـ ديا جائے اور إس كلمه كا دوسرے پلڑے ميں ركهـ ديا جائے تو يه كلمه والا پلڑا جهك جائے گا تو غور كا مقام هے كه وه قيمتي كلمه الحمد لله هر مسلمان كے دل ميں موجود هے تو پهر يه مسلمان كتنا قيمتي هوگا اور اگر يه مسلمان صاحب علم و عمل بهي هو تو پهر خود هي غور كرليں كه أس كا إكرام كرنا كس قدر ضرورى هوگا ليكن اگر بالفرض مسلماں صاحب علم و عمل بهي نه هو تو پهر بهي وه بهرحال رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كا أمتى هے اور إس قيمتى كلمه والا تو هے جس كى بركت يه هے كه اگر خدانخواسته اپنى بدأعماليوں كي وجه سے جهنم ميں چلا بهي گيا تو آخركار إن شاء الله إيك نه إيك دن جهنم سے آزاد هو كرجنت ميں ضرور جائے گا تو إس كلمه كي مناسبت سے هر هر مسلمان كا إكرام و إحترام كرنا اور اس كے حقوق كا خيال ركهنا از حد ضرورى هے جيسا كه حديث مباركه كا مفهوم هے " كه جو همارے بڑوں كا إحترام نهيں كرتا، همارے چهوٹوں پر شفقت نهيں كرنا اور همارے علماء كي قدر نهيں كرتا وه هم ميں سے نهيں "

إكرام مسلم كے مقاصد:
إكرام مسلم كا بنيادي مقصد يه هے كه الله تعالى كے بندوں كے حقوق سے متعلق جو الله تعالى كے آوامر هيں انهيں رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقه كے مطابق پورا كرنا اور يه كوشش كرنا كه كسي كا ذرا سا بهي حق آپ پر نه رهے اگر آپ كا حق كسي پر ره جائے تو ره جائے ليكن كسي دوسرے كا حق آپ پر نهيں رهنا چاهيے
مال كي طبعي چاهت اور اس سے دلچسپي اور محبت كے باوجود اپنا كمايا هوا مال الله تعالى كي رضا كے لئے الله تعالى كے نبيوں اور كتابوں كي تعليم كے مطابق اپنے ماحول كے ضرورت مندوں پر خرچ كرنا - قرابت داروں , يتيموں اور مسكينوں پر خرچ كرنا غرضيكه اپني كمائياں دوسروں پر خرج كركے انهيں نفع اور آرام پهنچانا هر هر مسلمان كا إكرام كرنا كه وه رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كا أمتي هے اور هر امتي كے اگے بچهـ جانا - كسي بهي مسلمان كو اپنے سے كمتر نه سمجهنا - اپنے سے عمر ميں بڑوں كا إحترام كرنا - چهوٹوں پر شفقت كرنا - علماء كرام كي قدر كرنا - جنازه ميں شريك هونا اورميت كے لواحقين كوهر ممكن حوصله دينا - رشته داروں كے حقوق ادا كرنا اور أن سے تعلق جوڑ كر ركهنا - بيماروں كي عيادت كرنا اور أنكي مدد كرنا - والدين اور بهن بهائيوں كے حقوق كا پورا پورا خيال ركهنا - اپنے پڑوسيوں كي ضروريات كا خيال ركهنا أنكي جان مال اور عزت كي حفاظت كرنا - ديني خدمات سرآنجام دينے والے مسلمانوں كا حد درجه إحترام وإكرام كرنا اور أن كي هر ممكن إعانت كرنا ، انكي حوصله أفزائى كرنا - يتيموں پر إنتهائى شفقت كرنا - مسافروں كي ضروريات پورى كرنے كي كوشش كرنا الغرض هر شخص كا هر قسم كے حقوق كو ادا كرنا اور ابنے حقوق معاف كرنا - اپنے مسلمان بهائيوں كے عيبوں پر پرده ركهنا جو شخص اپنے مسلمان بهائى كے عيوب كو چهپائےگا الله تعالى اسے جنت كے بيچ ميں محل عنايت فرمائيں گے
إكرام مسلم كا إيك بڑا مقصد أمت ميں جوڑ پيدا كرنا كيونكه اگر هر شخص دوسرے مسلمان بهائى كا إكرام كرنے والا بن جائے گا اور اس كے حقوق ادا كرنے والا بن جائے گا تو تمام جهگڑے خود بخود ختم هوجائيں گے كيونكه آج جتنے بهي جهگڑے هيں وه إسي وجه سے هيں كه هر شخص اپنا حق تو حاصل كرنا چاهتا هے ليكن دوسرے كا حق دينے كو تيار نهيں تو إكرام مسلم سے يه چاها جا رها هے كه إيك إيسا مسلم معاشره وجود ميں آئے جس ميں هر شخص كي جان مال عزت اور هر طرح كے حقوق محفوظ هوں هر شخص دوسرے كے حقوق ادا كرنے كا فكرمند هو كسي بهي شخص كو اپنے حقوق كے لئے دوسرے كو كهنا نه پڑے بلكه هر شخص دوسرے مسلم بهائى كا محافظ بن جائے صحابه كرام رضوان الله عليهم كا دور إس معاشره كي روشن مثال هے كه هر شخص كو يهي فكر تهي كه كسي كا حق اس پر نه ره جائے اور اپنے حق كي كسي كو بهي كوئى فكر نه تهي آج بهي اگر هم إييسا هي معاشره قائم كرنا چاهتے هيں تو پهر إكرام مسلم سے هي يه ممكن هوسكتا هے.

إكرام مسلم كي إهميت:
اگر هم رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كي سيرت مباركه كا مطالعه كريں تو هميں يه بات روز روشن كي طرح صاف نظر آئے گى كه رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كي حيات مباركه ميں نه صرف إكرام مسلم بلكه إكرام إنسانيت كي بے پناه إهميت تهي يهي وجه هے كه آپ كا جاني دشمن بهي جب آپ سے ملاقات كرتا تو وه بهي آپ كے حسن إخلاق اور حسن سلوك سے متأثر هوئے بغير نه ره سكتا تها

رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كا طرز معاشرت:
رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم چونكه ملت اسلاميہ كے رہبر اور الله تعالى كا پيغام پہنچانے پر مامور تھے اس لئے رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كو مختلف طبقات كے افراد اور اقوام سے ملنا پڑتا تھا ان كو توحيد كى طرف مائل كرنے كا سب سے بڑا سبب ان كے ساتھ رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كا حسن سلوك اور حسن إخلاق هي تھا
لوگوں كے ساتھ معاشرت اور ملنے جلنے كى كيفيت كے بارے ميں رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم سے بہت سى حديثيں وارد ہوئي ہيں ليكن سب سے زيادہ جو چيز رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كى معنوى عظمت كى طرف انسان كى راہنمائي كرتى ہے وہ لوگوں كے ساتھ ملنے جلنے ميں حسن سلوك ، نيك اخلاق اور رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كى پاكيزہ سيرت ہے . وہ سيرت جس كا سرچشمہ وحى اور رحمت الہى ہے جو كہ حقيقت تلاش كرنے والے افراد كى روح كى گہرائيوں ميں اتر جاتى ہے وہ سيرت جو ''اخلاق كے مسلم اخلاقى اصولوں'' كے ايك سلسلہ سے ابھرتى ہے جو رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كى روح ميں راسخ تھى اور رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كى ساري زندگى ميں منظر عام پر آتى رہي.سوعام لوگوں كے ساتھ رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كے كريمانه سلوك ''
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ" -تمھارے لئے رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كے اندر اسوہ حسنہ موجود ہے'' كے مطابق رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كے كريمانہ اخلاق هي ہمارے لئے نمونہ بنيں گے ۔

صاحبان فضيلت كا اكرام:
بعثت رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كا ايك مقصد انسانى فضائل اور اخلاق كى قدروں كو زندہ كرنا ہے ،رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے اس سلسلہ ميں فرمايا:
''إنما بُعِثْتُ لأُتَمِّمَ مكارمَ  الأخلاقِ " - ميں أخلاق كي تعليم مكمل كرنےكے لئے مبعوث كيا گيا هوں
يعنى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كي بعثت كا مقصد انسانى معاشرہ كو معنوى كمالات اور مكارم اخلاق كى بلندى كى طرف لے جانا ہے اسى وجہ سے رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم صاحبان فضيلت سے اگر چہ وہ مسلمان نہ بھى ہوں ، اچھے اخلاق سے ملتے اور ان كى عزت و احترام كرتے تھے
'يكرم اہل الفضل فى اخلاقہم و يتالف اہل الشرف بالبرلہم"
نيك اخلاق كى بنا پر رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم اہل فضل كى عزت كرتے اور اہل شرف كى نيكى كى وجہ سے ان پر مہربانى فرماتے تھے، رسول اكرم صلى الله عليه وآله وسلم كے سلوك كے ايسے بہت سارے نمونے تاريخ ميں موجود ہيں ان ميں سے بعض كى طرف اشارہ كرتے ہيں ۔

حاتم طائى كى بيٹي:
حضرت على (رضي الله تعالى عنه ) فرماتے ہيں '' جب قبيلہ طئي كے اسيروں كو لايا گيا تو ان اسيروں ميں سے ايك عورت نے رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم سے عرض كيا كہ آپ لوگوں سے كہديں كہ وہ ہم كو پريشان نہ كريں اور ہمارے ساتھ نيك سلوك كريں اس لئے كہ ميں اپنے قبيلے كے سردار كى بيٹى ہوں اور ميرا باپ وہ تها جو عہد و پيمان ميں وفادارى سے كام ليتا تها اسيروں كو آزاد اور بھوكوں كو سير كرتا تها سلام ميں پہل كرتا تها اور كسى ضرورتمند كو اپنے دروازے سے كبھى واپس نہيں كرتا تها '' حاتم طائي'' كى بيٹى ہوں رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے فرمايا: يہ صفات جو تم نے بيان كئے ہيں يہ حقيقى مؤمن كى نشانى ہيں اگر تمہارا باپ مسلمان ہوتا تو ميں اس كے لئے دعائے رحمت كرتا، پھر رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے فرمايا: اس كو چھوڑ ديا جائے اور كوئي اس كو پريشان نہ كرے اس لئے كہ اس كا باپ وہ شخص تھا جو مكارم الاخلاق كا دلدادہ تھا اور الله مكارم الاخلاق كو پسند كرتا ہے
حاتم طائي كى بيٹى كے ساتھ اس سلوك كا يہ اثر ہوا كہ اپنے قبيلے ميں واپس پہنچنے كے بعد اس نے اپنے بھائي '' عدى بن حاتم'' كو تيار كيا كہ وہ رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كى خدمت ميں حاضر ہوكر ايمان لے آئے، عدى اپنى بہن كے سمجھانے پر رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كے پاس پہنچا اور اسلام قبول كرليا

با فضيلت اسير:
امام جعفر صادق (رحمة الله عليه ) نے فرمايا كہ رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كے پاس كچھ اسير لائے گئے رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے ايك كے علاوہ سارے اسيروں كو قتل كرنے كا حكم دے ديا اس شخص نے كہا : كہ ان لوگوں ميں سے صرف مجھ كو آپ نے كيوں آزاد كرديا ؟رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے فرمايا كہ : '' مجھ كو جبرئيل نے خدا كى طرف سے خبردى كہ تيرے اندر پانچ خصلتيں ايسى پائي جاتى ہيں كہ جن كو خدا اور رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم دوست ركھت اہے
1- اپنى بيوى اور محرم عورتوں كے بارے ميں تيرے اندر بہت زيادہ غيرت ہے
2- سخاوت
3 - حسن اخلاق
4- راست گوئي
5- شجاعت '' يہ سنتے ہى وہ شخص مسلمان ہوگيا


نيك اقدار كو زندہ كرنا اور وجود ميں لانا:
اسلام سے پہلے عرب كا معاشرہ قومى تعصب اور جاہلى افكار كا شكار تھا، مادى اقدار جيسے دولت،نسل ، زبان، ، رنگ ، قوميت يہ سارى چيزيں برترى كا معيار شمار كى جاتى رہيں رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كى بعثت كى وجہ سے يہ قدريں بدل گئيں اور معنوى فضائل كے احياء كا زمانہ آگيا ، قرآن كريم نے متعدد آيات مباركه ميں تقوي ، جہاد ، شہادت، ہجرت اور علم كو معيار فضيلت قرار ديا ہے

الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللَّهِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ0  
جو لوگ ايمان لائے، وطن سے ہجرت كى اور راہ خدا ميں جان و مال سے جہاد كيا وہ خدا كے نزديك بلند درجہ ركھتے ہيں اور وہى كامياب ہيں.



إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ 0
تم ميں جو سب سے زيادہ تقوى والا هے وہى خدا كے نزديك سب سے زيادہ معزز ہے بے شك الله تعالى جاننے والے اور خبر ركهنے وال هيں 
جو انسان ساز مكتب كے مبلغ ہيں رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم امت اسلامى كے اسوہ كے عنوان سے ايسے اخلاقى فضائل اور معنوى قدر و قيمت ركھنے والوں كى بہت عزت كرتے تھے اور جو لوگ ايمان ، ہجرت اور جہاد ميں زيادہ سبقت ركھتے تھے رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كے نزديك وہ مخصوص احترام كے قابل تھے

رخصت اور استقبال:
مشركين كى ايذاء رسانى كى بنا پر رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے كچھ مسلمانوں كو حكم ديا كہ وہ مكہ سے ہجرت كر جائيں جب حضرت جعفر بن ابى طالب رضي الله تعالى عنه حبشہ كى طرف روانہ ہوئے تورسول كريم صلى الله عليه وآله سلم تھوڑى دور تك ان كے ساتھ ساتھ گئے اور رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے دعا فرمائي_ اور جب چند سال بعد وہ اس سرزمين سے واپس پلٹے تو رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم ان كے استقبال كے لئے آگے بڑھے آپ كى پيشانى كا بوسہ ليا اور چونكہ ان كى حبشہ سے واپسى فتح خيبر كے بعد ہوئي تھى اس لئے رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے فرمايا: ' ' نہيں معلوم كہ ميں فتح خيبر كے لئے خوشى مناؤں يا جعفر كے واپس آجانے كى خوشى مناؤں ''

انصار كى دلجوئي:
فتح مكہ كے بعد كفار سے مسلمانوں كى ايك جنگ ہوئي جس كا نام'' حنين'' تھا اس جنگ ميں مسلمانوں كو فتح ملى تھى رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے جنگ حنين كے بعد مال غنيمت تقسيم كرتے وقت مہاجر و انصار ميں سے كچھ لوگوں كو كچھ كم حصہ ديا اور مؤلفة القلوب كوكہ جوا بھى نئے مسلمان تھے زيادہ حصہ ديا ، انصار ميں سے بعض نوجوان ناراض ہوگئے اور انہوں نے كہا كہ رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم اپنے چچازاد بھائيوں اور اپنے عزيزوں كو زيادہ چاہتے ہيں اس لئے ان كو زيادہ مال دے رہے ہيں حالانكہ ابھى ہمارى تلواروں سے مشركين كا خون ٹپك رہا ہے اور ہمارے ہاتھوں سے سخت كام آسان ہورہے ہيں _ ايك روايت كے مطابق حضرت سعد بن عبادہ رضي الله تعالى عنه رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كے پاس آئے اور بولے جو بخشش و عنايت آپ صلى الله عليه وآله سلم نے قبائل عرب اور قريش پر كئے ہيں ، انصار كے اوپر وہ عنايت نہيں ہوئي ہے اس لئے انصاراس بات پر ناراض ہيں ، رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے خيمہ لگانے كا حكم ديا ، خيمہ لگايا گيا پھر رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے فرمايا: فقط انصار خيمہ ميں آئيں، رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم تشريف فرما ہوئے، جب انصار جمع ہوگئے تو رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے فرمايا: '' ميں تم لوگوں سے كيا سن رہا ہوں كيا يہ باتيں تمہارے لئے مناسب ہيں ؟ ان لوگوں نے كہا كہ يہ باتيں نا تجربہ كار نوجوانوں نے كہى ہيں انصار كے بزرگوں نے يہ باتيں نہيں كہى ہيں ، پھررسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے ان نعمتوں كو شمار كرايا جو رب العلمين نےرسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كے وجود كے سايہ ميں ان كو عطا كى تھيں اس پر انصار نے رونا شروع كر ديا إتنا روئے كه أنكي داڑهياں أنسوؤوں سے تر هوگئيں اور رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كے مبارك ہاتھوں اور پيروں كو بوسہ دے كر كہا : ہم آپ (رسول كريم) صلى الله عليه وآله سلم كى اطاعت كو دوست ركھتے ہيں مال كو دوست نہيں ركھتے ہم رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كے دنيا سے چلے جانے اوررسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كى جدائي سے ڈرتے ہيں، نہ كہ كم سرمايہ سے،رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے فرمايا: ''زمانہ جاہليت سے ابھى قريش كا فاصلہ كم ہے ، مقتولين كى مصيبت برداشت كئے ہوئے ابھى تھوڑى دن گذرے ہيں ميں نے چاہا كہ ان كى مصيبت ختم كردوں اور ان كے دلوں ميں ايمان بھردوں اے انصار! كيا تم اس بات پر راضى نہيں ہو كہ لوگ اونٹ اور بكرياں لے كر اپنے گھروں كو جائيں اور تم رسول الله صلى الله عليه وآله سلم كے ساتھ اپنے گھر واپس جاؤ بيشك انصار ہمارے راز كے امين ہيں ، اگر تمام لوگ ايك راستے سے جائيں اور انصار دوسرے راستے سے گذريں تو ميں اس راستے سے جاؤں گا جس سے انصار جارہے ہيں اس لئے كہ انصار ہمارے اندرونى اور ہمارے جسم سے لپٹے ہوئے لباس ہيں اور دوسرے افراد ظاہرى لباس كى حيثيت ركھتے ہيں
رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے انصار كى عزت و تكريم كى اور چونكہ انہوں نے اسلام كے لئے گذشتہ زمانہ ميں جدوجہد كى تھى اور اسلام كى نشر و اشاعت كے راستہ ميں فداكارى كا ثبوت ديا تھا اس بنا پر رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے ان كو اپنے سے قريب سمجھا اور اس طرح ان كى دلجوئي كي.


جانبازوں كا بدرقہ اور استقبال:
سنہ 8 ھ ميں واقع ہونے والى جنگ '' موتہ'' ميں لشكر بھيجتے وقت رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم لشكر تيار كرلينے كے بعد لشكر كے ساتھ كچھ لوگوں كو لے كر بدرقہ كے لئے مدينہ سے ايك فرسخ تك تشريف لے گئے رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے نماز ظہر ان مجاهدين كے ساتھ ادا كى اور لشكر كا سپہ سالار معين فرمايا، سپاہيوں كے لئے دعا كى اس كے بعد '' ثنية الوداع'' نامى جگہ تك جو مدينه منوره كے قريب ہے ان كے ساتھ ساتھ تشريف لے گئے اور ان كے لئے جنگى احكام صادر فرمائے. 

حضرت علي رضي الله تعالى عنه كا إستقبال:
سنہ 8 ھ ميں واقع ہونے والے غزوہ '' ذات السلاسل'' كے بعد جب حضرت على رضي الله تعالى عنه جانبازان اسلام كے ساتھ فتح پاكر واپس پلٹے تو اس موقع پر نبي اكرم صلى الله عليه وآله وسلم نے مسلمانوں كو فتح كى خبر دى اور مدينہ والوں كے ساتھ مدينہ سے تين ميل دور جاكر ان كا استقبال كيا ، جب حضرت على رضي الله تعالى عنه نےرسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كو ديكھا تو گھوڑے سے اتر پڑے آنحضرت صلى الله عليه وآله سلم بھى گھوڑے سے اتر پڑے حضرت على رضي الله تعالى عنه كى پيشانى كو بوسہ ديا ان كے چہرہ سے گردوغبار صاف كيا اور فرمايا:
"الحمدللہ يا على!  الذين شد بك ازرى و قوى بك ظہرى "
، اے على! الله كى حمد ہے كہ اس نے تمہارے ذريعہ سے ہمارى كمر مضبوط كى اور تمہارے وسيلہ سے اس نے دشمنوں پر ہميں قوت بخشى اور مدد كي
جب رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كو فتح خيبر كى خبر دى گئي تو رسول كريم  صلى الله عليه وآله سلم بہت خوش ہوئے اور حضرت على كے استقبال كو آگے بڑھے ان كو گلے سے لگايا پيشانى كا بوسہ ديا اور فرمايا'' خدا تم سے راضى ہے تمہارى كوشش اور جد و جہد كى خبريں ہم تك پہنچيں ، ميں بھى تم سے راضى ہوں '' حضرت على رضي الله تعالى عنه كى آنكھيں بھر آئيں رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے فرمايا: '' اے على يہ خوشى كے آنسوں ہيں يا غم كے '' ؟ رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے كہا خوشى كے اور ميں كيوں نہ خوش ہوں كہ آپ مجھ سے راضى ہيں ؟ رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے فرمايا: '' صرف ميں ہى تم سے راضى نہيں ہوں بلكہ الله تعالى ، ملائكہ ،جبرئيل اور ميكائيل سب تم سے راضى ہيں

جہاد ميں پيشقدمى كرنے والوں كا اكرام:
مسلمانوں اور كفار كے درميان جو پہلى جنگ ہوئي وہ " جنگ بدر '' تھى جن لوگوں نے رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كے ساتھ اس جنگ ميں شركت كى تھى وہ '' اہل بدر''كے عنوان سے رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم اور مسلمانوں كے نزديك خصوصيت كے حامل تھے
حضرت رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم جمعہ كے دن '' صفہ'' پر بيٹھے ہوئے تھے اور لوگوں كى كثرت كى وجہ سے جگہ كم تھى ( رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم مہاجرين و انصار ميں سے '' اہل بدر'' كى تكريم كررہے تھے) اسى حال ميں اہل بدر ميں سے كچھ لوگ منجملہ ان كے ثابت ابن قيس بزم ميں وارد ہوئے اوررسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كے روبرو كھڑے ہوكر فرمايا: السلام عليك ايہا النبى و رحمة اللہ و بركاتہ رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے ان كے سلام كا جواب ديا اس كے بعد حضرت ثابت نے مسلمانوں كو سلام كيا مسلمانوں نے بھى جواب سلام ديا وہ اسى طرح كھڑے رہے اوررسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كے پاس جمع ہونے والى بھيڑ كى طرف ديكھتے رہے ليكن ان كو كسى نے جگہ نہيں دى رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم پر يہ بات بہت گراں گذرى رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے اپنے اردگرد بيٹھے ہوئے مہاجرين و انصار ميں سے چند افراد سے كہ جو اہل بدر ميں سے نہيں تھے كہا : فلاں فلاں تم اٹھو پھر اہل بدر ميں سے جتنے لوگ وہاں موجود تھے اتنے ہى دوسرے افراد كو اٹھاكر اہل بدر'' كو بٹھايا يہ بات ان لوگوں كو برى لگى جن كورسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے اٹھايا تھا ان كے چہرے پر ناراضگى كے آثار دكھائي دينے لگے ، منافقين ميں سے كچھ لوگوں نے مسلمانوں سے كہا كہ كيا تم يہ تصور كرتے ہو كہ تمہارا رسول صلى الله عليه وآله سلم عدل سے كام ليتا ہے ، اگر ايسا ہے تو پھر اس جگہ انہوں نے عدل سے كيوں نہيں كام ليا ؟ رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے ان كو اپنى جگہ سے كيوں اٹھا ديا جو پہلے سے بيٹھے ہوئے تھے اور يہ بھى چاہتے تھے كہ ہم رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم سے قريب رہيں ؟ اور ان افراد كو ان كى جگہ پر كيوں بٹھا ديا جو بعد ميں آئے تھے؟ اس وقت آيہ كريمہ نازل ہوئي :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ ۖ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا
اے اہل ايمان جب تم سے كہا جائے كہ اپنى اپنى مجلس ميں ايك دوسرے كيلئے جگہ كشادہ كردو تو خدا كا حكم سنو اور جگہ چھوڑ دو تا كہ خدا تہارے (مكان و منزلت) ميں وسعت دے اور جب يہ كہا جائے كہ اپنى جگہ سے اٹھ جاؤ تب بھى حكم خدا كى اطاعت كرو
رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كا اہل بدر كا احترام كرنا اسلامى معاشرہ ميں بلند معنوى قدروں كى احياء اور راہ خدا ميں جہاد كے سلسلہ ميں پيش قدمى كرنے والوں كے بلند مقام كا پتہ ديتا ہے اسى وجہ سے رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كى سنت كے مطابق مسلمانوں كے درميان '' اہل بدر'' خاص احترام اور امتياز كے حامل تھے

شہداء اور ان كے خاندان كا اكرام:
سنہ 8 ھ ميں جنگ '' موتہ'' ميں لشكر اسلام كى سپہ سالارى كرتے ہوئے ' حضرت جعفر رضي الله تعالى عنه نے گھمسان كى جنگ ميں اپنے دونوں ہاتھ راہ خدا ميں دے ديئے اور زخموں سے چور ہوكر درجہ شہادت پر فائز ہوئے رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے ان كے بلند مرتبہ كى تعريف كرتے ہوئے فرمايا:
''ان اللہ ابدل جعفر ابيديہ جناحين يطير بہما فى الجنة حيث شاء ''
الله تعالى  نے جعفر كو ان كے دونوں بازوں كے بدلے دو پر عنايت كئے ہيں وہ جنت ميں جہاں چاہتے ہيں ان كے سہارے پرواز كرتے چلے جاتے ہيں
اسى جنگ كے بعد جب لشكراسلام مدينہ واپس آيا تورسول كريم صلى الله عليه وآله سلم مسلمانوں كے ساتھ ان كے استقبال كو تشريف لے گئے ، ترانہ پڑھنے والے بچوں كا ايك گروہ بھى آپ رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كے ہمراہ تھا، رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم سوارى پر سوار چلے جارہے تھے آپ رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے فرمايا : بچوں كو بھى سوار كرلو اور جعفر كے بچوں كو مجھے ديدو پھر آپ رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے ' ' عبداللہ بن جعفر '' كو جن كے باپ شہيد ہوچكے تھے اپنى سوارى پر اپنے آگے بٹھايا - عبداللہ كہتے ہيں كہ حضرت رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے مجھ سے فرمايا: اے عبداللہ ميں تم كو تعزيت و مباركباد پيش كرتا ہوں كہ تمہارے والد ملائكہ كے ساتھ آسمان ميں پرواز كررہے ہيں
حضرت جعفر رضي الله تعالى عنه كى شہادت كے بعد رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم ان كے بيٹے اور بيوى '' حضرت اسماء بنت عميس رضي الله تعالى عنها'' كے پاس پہنچے، اسماء بيان فرماتى ہيں كہ جب رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم ہمارے گھر ميں وارد ہوئے تو اسوقت ميں آٹا گوندھ رہى تھى حضرت رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے مجھ سے پوچھا تمہارے بچے كہاں ہيں؟ ميں اپنے تينوں بيٹوں'' عبداللہ'' ، ''محمد'' اور ''عون'' كو لے آئي ، رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم نے ان كو اپنى گود ميں بٹھايا اور سينہ سے لگايا آپ ان كے سروں پر ہاتھ پھيرتے جاتے تھے اور آنكھوں سے آنسوں جارى تھے ميں نے عرض كى : اے اللہ كے رسول صلى الله عليه وآله سلم آپ پر ہمارے ماں باپ فدا ہوجائيں آپ صلى الله عليه وآله سلم ہمارے بچوں كے ساتھ يتيموں كا سا سلوك كيوں كررہے ہيں كيا جعفر شہيد ہوگئے ہيں ؟ ارشاد فرمايا: خدا جعفر پر اپنى رحمت نازل كرے يہ سنتے ہى صدائے نالہ وشيون بلند ہوئي بنت رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم '' فاطمہ (رضي الله تعالى عنها ) '' نے ہمارے رونے كى آواز سنى تو انہوں نے بھى رونا شروع كرديا رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم گھر سے باہر نكلے حالت يہ تھى كہ آپ رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم اپنے آنسووں پر قابو نہيں پارہے تھے
اس كے بعد حضرت  فاطمہ الزہراء  رضي الله تعالى عنها سے آپ صلى الله عليه وآله سلم) نے ارشاد فرمايا: '' جعفر كے اہل و عيال كؤ لئے كھانا تيار كرو - عبداللہ بن جعفر كے قول كے مطابق '' وہ لوگ تين دن تك رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كے گھر مہمان رہے _
ہمارے معاشرہ ميں آج جو رواج ہے وہ سنت رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كے بالكل برعكس ہے ہم آج ديكھتے ہيں كہ مصيبت زدہ كنبہ كے اقرباء اور رشتہ دار چند دنوں تك إهل ميت كے گھر مہمان بنے رہتے ہيں سو ضرورت إس أمر كي هے كه سنت رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كو زندہ كيا جائے .


ايمان يا دولت:
تاريخ ميں ہميشہ يہ ديكھا گيا ہے كہ نبيوں كى آواز پر سب سے پہلے لبيك كہنے والے اور كان دھرنے والے زيادہ تر غريب افراد ہى ہوتے تھے دولت مندوں اور متكبرين نے الله تعالى كے نبيوں سے ہميشہ مقابلہ كيا اور حق كے سامنے سر تسليم خم كرنے سے انكار كرتے رہے اگر انھوں نے اپنے مفادات كے تحفظ كے لئے ظاہراً ايمان قبول كرليا تو اسى برترى كے جذبہ كى بنا پر دوسروں سے زيادہ امتياز كے طلب گار رہے اشراف و قبائل عرب كے رئيسوں كا رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم پر ايك اعتراض يہ بھى تھا كہ رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم ان سے اورفقير اور محروم مومنين سے مساوى سلوك كيا كرتے تھے بلكہ غلاموں اور ستائے ہوئے محروم افراد پر رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم زيادہ توجہ فرماتے تھے اس لئے كہ ان كے پاس خالص ايمان تھا اور راہ اسلام ميں دوسروں سے زيادہ يہ افراد فداكارى كا مظاہرہ كرتے تھے_
ايك دن،حضرت سلمان، حضرت بلال، حضرت عمار رضوان الله عليهم اور غلاموں اور نادار مسلمانوں كى ايك جماعت رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كى خدمت ميں حاضر تھى آكابرين قريش اور نئے مسلمان ہونے والوں ميں سے چند افراد رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كے پاس آئے اور انہوں نے كہا كہ : يا رسول اللہ صلى الله عليه وآله سلم كاش ناداورں اور غلاموں كى اس جماعت كو آپ الگ ہى ركھتے يا ان كو اور ہم لوگوں كو ايك ہى نشست ميں جگہ نہ ديتے آخر اس ميں حرج ہى كيا ہے جب ہم يہاں سے چلے جاتے تب يہ لوگ آتے ، اس لئے كہ دور و نزديك كے اشراف عرب آپ صلى الله عليه وآله سلم كے پاس آتے ہيں ہم يہ نہيں چاہتے كہ وہ ہم كو اور ان لوگوں كو ايك ہى نشست ميں ديكھيں فرشتہ وحى ان كے جواب ميں آيت مباركه لے كر نازل ہوا :
وَلا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ0
جو لوگ صبح و شام خدا كو پكارتے ہيں اور جنكا مقصود خدا ہے ان كو اپنے پاس سے نہ ہٹاؤ اسلئے كہ نہ تو آپ كے ذمہ ان كا حساب اور نہ ان كے ذمہ آپ كا حساب ہے لہذا تم اگر ان خداپرستوں كو اپنے پاس سے بھگادو گے تو ظالمين ميں سے ہوجاؤ گے
اسى آيت كے نازل ہونے كے بعد فقراء مؤمنين پر رسول اللہ صلى الله عليه وآله سلم كى عنايت اور زيادہ ہوگئي


ثروت مند شرفاء يا غريب مؤمن:
حضرت سہل بن سعد سے منقول ہے كہ ايك شخص رسول اللہ صلى الله عليه وآله سلم كے پاس سے گذرا رسول اللہ صلى الله عليه وآله سلم نے اپنے اصحاب سے سوال كيا '' اس شخص كے بارے ميں تمہارا كيا خيال ہے '' لوگوں نے كہا كہ وہ شرفا ميں سے ہے كسى شائستہ انسان كے يہاں يہ پيغام عقد دے تو لوگ اسكو لڑكى دے ديں گے ، اگر كسى كى سفارش كردے تو لوگ اسے قبول كريں گے ، اگر يہ كوئي بات كہے تو لوگ اس كو سنيں گے ، رسول اللہ صلى الله عليه وآله سلم خاموش ہوگئے تھوڑى دير بعد ايك غريب مسلمان كا ادھر سے گذر ہوا رسول اللہ صلى الله عليه وآله سلم نے پوچھا '' اس شخص كے بارے ميں تمہارا كيا خيال ہے '' لوگوں نے كہا كہ اگر يہ لڑكى مانگے تو لوگ اس كو لڑكى نہ ديں ، اگر يہ كسى كى سفارش كرے تو اس كى سفارش نہيں سنى جائے، اگر يہ كوئي بات كہے تو اس پر كان نہيں دھرے جائيں گے رسول اللہ صلى الله عليه وآله سلم نے فرمايا:  يہ شخص اس مالدار شخص اور اسى جيسے لوگوں سے بھرى ہوئي تمام دنيا سے تنہا بہتر ہے


إكرامِ مسلم كي فضيلت:
جيسا كه سطور بالا  ميں يه بيان كيا گيا كه حقوق اور إكرام ميں فرق يه هے كه حقوق تو هرصورت واجب الأدا هيں اور إكرام اس سے اگے كي منزل هے سو ظاهر هے جو شخص حقوق ادا كرے گا وهي إكرام كي سعادت حاصل كرے گا
أحاديث كي كتابوں ميں إكرامِ مسلم كے فضائل بهت كثرت سے ذكر كيے گئے هيں جن ميں سے كچهـ كا ذكر ذيل ميں كيا جائے گا
إكرام (حسن سلوک) میں ماں کا حق باپ سے مقدم رکھا گیا، ماں کے بعد باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کا درجہ بتایا اور باپ کے بعد باقی رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا اور اس میں رشتہ داری کی حیثیت کو معیار بنایا کہ جس سے رشتہ داری جس قدر قریب تر ہو اس کے ساتھ حسنِ سلوک کا اسی قدر اہتمام کیا جائے۔
”حضرت ابو امامہ رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور اقدس صلى الله عليه وآله وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم والدین کا ان کی اولاد پر کیا حق ہے؟ آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کہ دونوں تیری جنت یا جہنم ہیں۔“
ماں باپ کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا برتاﺅ کرتے رہو، زندگی بھر ان کے آرام و راحت کا دھیان رکھو، جان و مال سے ان کی فرمانبرداری میں لگے رہو، تمہارا یہ عمل جنت میں جانے کا سبب بنے گا اور اگر تم نے ان کی نافرمانی کی، ان کو ستایا دکھ دیا تو تمہارے لیے وہ دوزخ کے داخلہ کا سبب بنیں گے۔
”حضرت عبداللہ بن عمر رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضوراقدس صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی رضامندی ماں باپ کی رضامندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں ہے۔“(درمنشور)
ماں باپ کو راضی رکھا تو اللہ پاک بھی راضی ہے اور ماں باپ کو ناراض کیا تو اللہ بھی ناراض ہوگا کیوں کہ اللہ جل شانہ نے ماں باپ کو راضی رکھنے کا حکم فرمایا ہے، جب ماں باپ کو ناراض رکھا تو اللہ کے حکم کی نافرمانی ہوگی، جو اللہ جل شانہ کی ناراضگی کا باعث ہوگی۔
”حضرت ابو الدرداء رضي الله تعالى عنه نے بیان فرمایا کہ میں نے حضور اقدس صلى الله عليه وآله وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ والد جنت کے دروازوں میں سے درمیانہ (یعنی سب سے اچھا) دروازہ ہے، اب تو (اس کی فرمانبرداری کرکے) اس دروازہ کی حفاظت کرے یا (نافرمانی کرکے) اس کو ضائع کردے۔(درمنشور)
”حضرت عباس رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضوراقدس صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا برتاﺅ کرنے والی اولاد جب بھی رحمت کی نظر سے ماں باپ کو دیکھے تو ہر نظر کے عوض اللہ جل شانہ اس کو مقبول حج کا ثواب دیتے ہیں، حضرات صحابہ رضوان الله عليهم نے عرض کیا اگرچہ روزانہ سو مرتبہ نظر کرے؟ (تب بھی یہی بات ہے) آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا ہاں! اللہ بہت بڑا ہے (جو کچھ کسی کو دینا چاہے دے سکتا ہے، اسے کوئی روکنے والا نہیں) اور وہ بہت زیادہ پاک ہے (اس کی طرف نقصان اور کمی کی نسبت کسی طرح درست نہیں)۔“
حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضوراکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تین دعائیں مقبول ہیں، ان (کی قبولیت) میں کوئی شک نہیں، والد کی دعا اولاد کے لیے، مسافر کی دعا، مظلوم کی دعا۔“(ابن ماجہ)
”حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنها سے روایت ہے کہ ایک شخص حضوراقدس صلى الله عليه وآله وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس کے ساتھ ایک بڑے میاں تھے، آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے دریافت فرمایا کہ تیرے ساتھ یہ کون ہیں؟ عرض کیا کہ یہ میرے والد ہیں، فرمایا کہ باپ کے اکرام و احترام کا خیال رکھ۔ ہرگز اس کے آگے مت چلنا، اور اس سے پہلے مت بیٹھنا اور اس کا نام لے کر مت بلانا اور اس کی وجہ سے (کسی کو) گالی مت دینا۔“(درمنشور)
خلاصہ:۔ باپ کے آگے مت چلنا دوسرے یہ فرمایا کہ جب کسی جگہ بیٹھنا ہو تو باپ سے پہلے مت بیٹھنا تیسرے یہ فرمایا کہ باپ کا نام لے کر مت پکارنا، چوتھے یہ کہ باپ کی وجہ سے کسی کو گالی مت دینا، مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے باپ کو کوئی ناگوار بات کہہ دے تو اس کو یا اس کے باپ کو گالی مت دینا کیوں کہ اس کے جواب میں وہ پھر تمہارے باپ کو گالی دے گا اور اس طرح سے تم اپنے باپ کو گالی دلانے کا سبب بن جاﺅ گے۔“
حضرت انس رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضوراکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کو یہ پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر دراز کرے اور اس کا رزق بڑھائے اس کو چاہیے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرے اور (رشتہ داروں) کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ (در منشور)
خلاصہ:۔ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے اور ان کی خدمت میں لگے رہنے سے عمر دراز ہوتی ہے اور رزق بڑھتا ہے بلکہ ماں باپ کے علاوہ دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے سے بھی دراز عمر اور وسیع رزق نصیب ہوتا ہے، نئی نسل کے بہت سے نوخیز نوجوان، دوست احباب بیوی بچوں پر تو بڑھ چڑھ کر خرچ کرتے ہیں اور ماں باپ کے لیے پھوٹی کوڑی خرچ کرنے سے بھی ان کا دل دکھتا ہے، یہ لوگ آخرت کے ثواب سے تو محروم ہوتے ہی ہیں بلکہ دنیا میں بھی نقصان اٹھاتے ہیں، ماں باپ کی فرمانبرداری اور خدمت گزاری اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے سے جو عمر میں درازی اور رزق میں وسعت ہوتی ہے اس سے محروم ہوتے ہیں۔
”حضرت عبداللہ بن عمر رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ ایک شخص حضوراکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جہاد میں شریک ہونے کی اجازت مانگی۔ آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کیا تیرے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے عرض کیا جی ہاں زندہ ہیں۔ آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا ان ہی میں جہاد کر (یعنی ان کی خدمت میں جو محنت اور کوشش اور مال تو خرچ کرے گا یہ بھی ایک طرح کا جہاد ہوگا) اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کہ واپس جا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاﺅ کرتا رہ۔“ (بخاری شریف)
حضرت معاویہ بن جاہمہ رضي الله تعالى عنه نے بیان فرمایا کہ میرے والد حضرت جاہمہ رضي الله تعالى عنه حضور اقدس صلى الله عليه وآله وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں نے جہاد کرنے کا ارادہ کیا اور آپ صلى الله عليه وآله وسلم سے مشورہ کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں، آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کیا تیری ماں زندہ ہے؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں، زندہ ہے، آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا بس تو اسی کی خدمت میں لگا رہ کیوں کہ جنت اس کے پاﺅں کے پاس ہے۔“
”حضرت عبداللہ بن عمرو رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ ایک شخص حضوراکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی خدمت میں ہجرت پر بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں آپ صلى الله عليه وآله وسلم سے ہجرت پر بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں اور میں نے اپنے والدین کو اس حال میں چھوڑا کہ وہ دونوں (میری جدائی کی وجہ سے) رو رہے تھے، آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کہ ان کے پاس واپس جاﺅ اور ان کو ہنسا، جیسا کہ تو نے ان کو رلایا۔“ (حاکم)
حضرت اویس قرنی رحمة الله عليه یمن کے رہنے والے تھے، ان کو حضوراکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے خیرالتابعین فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ ان سے اپنے لیے دعائے مغفرت کرانا، انہوں نے عہدِ نبوت میں اسلام قبول کرلیا تھا لیکن والدہ کی خدمت کی وجہ سے بارگاہ رسالت صلى الله عليه وآله وسلم میں حاضر نہ ہوسکے اور شرف صحابیت سے محروم ہوگئے، آنحضرت صلى الله عليه وآله وسلم نے ان کے اس عمل پر نکیر نہیں فرمائی بلکہ قدر دانی فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ ان سے دعا کرانا، والدین کی خدمت کا کیا مرتبہ ہے حضرت اویس قرنی رحمة الله عليه کے عمل سے ظاہر ہے صحیح مسلم میں ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کہ اویس کی والدہ ہے، اس کے ساتھ انہوں نے حسن سلوک کیا ہے۔ اگر اویس (کسی بات میں)اللہ پر قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کی قسم پوری فرمائے)۔
جيسا كه پهلے عرض كيا جا چكا هے كه إكرامِ مسلم حقوق العباد كے بعد كا درجه هے جسے حسنِ إخلاق بهي كہا جاتا هے سو دوسروں كے ساتهـ حسنِ إخلاق كا مظاهره وهي شخص كرسكتا هے جو بندوں كے حقوق مكمل طور پر ادا كرتا هو
ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چند حقو ق ہیں۔
(1) جب مسلمان بھائی سے ملے تو اُسے سلام کرے
(2) جب وہ دعوت دے تو اُسے قبول کرے
(3) جب وہ خیر خواہی چاہے تو اس سے خیر خواہی کی جائے
(4) جب چھینک آنے پر وہ الحمد اللہ کہے تو جواب میں یرحمک اللہ کہے
(5) جب وہ بيمار هو تو أسكي عيادت كرے
(6) جب وه انتقال کر جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرے۔

حسن خلق يعني إكرام مسلم کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ‘‘سب سے وزنی چیز جو قیامت کے دن مؤمن کی میزان میں رکھی جائے گی وہ اس کا حسن اخلاق ہوگا’’۔ بے شک اللہ تعالى اُس شخص کو ناپسند فرماتا ہے جو زبان سے بے حیائی کی بات نکالتا اور بد زبانی کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مبارک رضی اللہ تعالى عنہ حسن خلق کی تشریح یوں کرتے ہیں :
‘‘ اور جب وہ ملے تو ہنستے ہوئے چہرے سے ملے اور محتاجوں پر مال خرچ کرے اور کسی کو تکلیف نہ دے۔’’
رسول رحمت صلى الله عليه وآله وسلم بندوں کے باہمی تعلقات میں بہتری اور خوشگواری لانے کے لئے اپنے پیروکاروں کو چند ایسی روحانی بیماریوں سے بچنے کی تلقین فرماتے ہیں جن سے اگر ایک انسان بچ جائے تو اس کا وجود باعث رحمت اور اس کی ہستی موجب سکون ہوجائے۔ چنانچه ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہے:
‘‘اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ ۔ دوسروں کے بارے میں معلومات مت حاصل کرتے پھرو،ایک دوسرے سے بغض مت رکھو اور نہ ایک دوسرے کي کاٹ میں لگے رہو۔’’
بندوں کے حقوق کی ادائیگی سے انسان کی محرومیاں دور ہوجاتی ہیں اور باہمی محبت ویگانگت کی فضا پیدا ہوجاتی ہے ۔ اس طرح بغض وعداوت کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہر آدمی صرف اپنے حقوق کی بات نہ کرے بلکہ فرائض کو بھی پہچانے ۔ اس طرح حقوق و فرائض کے درمیان ایک مناسب توازن برقرار رکھے تاکہ کسی کا حق غصب نہ ہو اور کوئی فرد محرومیوں کا شکار ہوکر انتہا پسندی کی جانب مائل نہ ہو۔

إيك حديث كا مفهوم هے كه جو شخص اپنے مسلمان مريض بهائى كي عيادت كرتا هے اگر صبح ميں كرتا هے تو شام تك اور اگر شام ميں كرتا هے تو صبح تك ستر هزار فرشتے اس كے لئے مغفرت كي دعا كرتے هيں
إيك حديث مباركه ميں هے جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ قیامت والے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔

اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ انسانوں میں سب سے بہترین شخص وہ ہے جو دوسروں کے لئے اچھا ہواور دوسروں کو فائدہ پہنچائے۔ٓ سو ارشاد ہے کہ اس دنیا میں عزت اورکامیابی انہی لوگوں کونصیب ہوتی ہے جوخلق خدا کی خدمت اوراس کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔
رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نےارشاد فرمایا :خیرالناس من ینفع الناس ’’ لوگوں میں اچھا وہ ہے جولوگوں کونفع دیتا ہے‘‘ ۔ لوگوں میں اچھا بننے کا بہترین طریقہ بھی یہی ہے کہ ہم مخلوق خدا کی خدمت کریں اوراس کوفائدہ پہنچائیں۔ کیونکہ اسی میں ہماری دنیاوی کامیابی اورآخرت کی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔

حضرت ابن عمر رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے۔رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا ’’کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، نہ اس پرزیادتی کرتا ہے نہ اسے (بےیارومدگارچھوڑکردشمن کے) سپرد کرتا ہے

جو اپنے مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہو اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری فرماتا ہے جوکسی مسلمان کی کوئی پریشانی دور کرتا ہے،اللہ اس کی وجہ سے اس کی قیامت کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دورفرمادے گا اورجس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ قیامت والے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ (مسلم ،بخاری)

ارشاد باری تعالیٰ ہے



وَاِنْ طَـآئِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَـهُمَا ۖ فَاِنْ بَغَتْ اِحْدَاهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِىْ تَبْغِىْ حَتّـٰى تَفِيٓءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللّـٰهِ ۚ فَاِنْ فَـآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَـهُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ۖ اِنَّ اللّـٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ 0
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُـوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُـوْنَ0
’’اوراگرمسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں توان میں صلح کرواؤ پھر اگرایک دوسرے پر زیادتی کرے تواس زیادتی والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے پھراگر پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ ان میں اصلاح کردواورعدل کرو بےشک عدل والے اللہ کے بڑے پیارے ہیں مسلمان مسلمان كے بھائی ہیں تواپنے دو بھائیوں میں صلح کرواؤ اوراللہ پاک سے ڈرو تاکہ تم پر رحمت ہو۔ (سورۃ الحجرات )

يه تو ممكن هے كه يوم القيامة اللہ پاک اپنے حقوق تواپنی رحمت سے معاف کردے ليكن بندوں کے حقوق تب تک معاف نہیں ہوں گے ۔ جب تک وہ بندے معاف نہ کریں۔ دو ناراض مسلمان بھائیوں کے درمیان صلح کرانا بھی حقوق العباد میں شامل ہے إيك مسلمان کا یہ فرض ہے کہ جہاں کہیں بھی دو ناراض مسلمان بھائیوں کو دیکھے توان کے درمیان صلح کرادے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
فَاتَّقُواللّٰہَ وَاَصْلِحُو ْاذَاتَ بَیْنِکُمْ (سورہ الانفال )
ترجمہ’’ اللہ پاک سے ڈرواورآپس میں صلح کرو‘‘


کیونکہ ایک مؤمن دوسرے مؤمن کا آئینہ ہے اورمؤمن دوسرے مؤمن کا بھائی ہے تو بھائی کا یہ کام نہیں کہ بھائیوں کوآپس میں لڑادے بلکہ بھائی کا کام تو يه ہے کہ وه دو ناراض بھائیوں کو آپس میں ملادے مسلمان وہ ہے جس کی زبان اورہاتھ کے ضررسے دوسرا مسلمان محفوظ رہے ۔اورمؤمن وہ ہے جس کی طرف سے لوگوں کواپنی جانوں اورمالوں کے بارے میں کوئی ڈراورخطرہ نہ ہو۔صلح کرانا بھی نماز،روزہ ،صدقہ خیرات وغیرہ کی طرح نیکی كا كام ہے ۔
تاجدار مدينه حضرت محمد صلى الله عليه وأله وسلم ؐکا ارشا د پاک ہے
’’کہ ایک مؤمن دوسرے مؤمن کا آئینہ اورایک مؤمن دوسرے مؤمن کا بھائی ہے ۔ اس کے ضرر کو اس سے دفع کرتا ہے اوراس کے پیچھے سے اس کی پاسبانی اور نگرانی کرتا ہے 

(سنن ابی داؤد)

حضرت اُم کلثوم ؓبنت عقبہ بن ابومعیط بیان کرتی ہیں کہ میں نے آپؐ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ’’ وہ شخص جھوٹا نہیں ہوتا جو لوگوں کے درمیان صلح کروائے اوربھلائی کو پھیلائے اور بھلائی کی بات کرے (متفق علیہ)

حضرت ابوایوب انصاری رضي الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا ’’کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ تک (إس طرح) قطع تعلق رکھے كه دونوں آپس میں ملیں تو ایک کا رخ ایک طرف دوسرے کا رخ دوسری طرف ہو تو ان میں سے بہتر وهي ہو گا جوسلام میں ابتدا کرے گا‘‘۔

حضرت ابوبکرصدیق رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ میں نے رسولؐ الله صلى الله عليه وآله وسلم کو(ایک مرتبہ) منبر پردیکھا۔ جبکہ حضرت حسن رضي الله تعالى عنه آپ صلى الله عليه وآله وسلم کے پہلومیں تھے آپؐ صلى الله عليه وآله وسلم کبھی لوگوں کی طرف اورکبھی اُن کی طرف متوجہ ہوتے تھے اورفرماتے’’میرایہ بیٹا سیّد ہے اورامید ہے کہ اللہ اس کے ذریعے سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرادے گا۔(متفق علیہ)

حضورنبی کریم صلى الله عليه وأله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب کے اعتبارسے زیادہ فضیلت والا شخص وہ ہوگا جو دنیا میں لوگوں کے لئے زیادہ نفع رساں ہو اوراللہ تعالیٰ کے مقربین میں سے وہ ہوگا جو لوگوں کے درمیان صلح جوئی میں کوشاں رہا ہو۔
رسول أكرم صلى الله عليه وآله وسلم نے أرشاد فرمایا
لا تَحاسدُوا، وَلا تناجشُوا، وَلا تَباغَضُوا، وَلا تَدابرُوا، وَلا يبِعْ بعْضُكُمْ عَلَى بيْعِ بعْضٍ، وكُونُوا عِبادَ اللَّه إِخْوانًا
’’لوگوآپس میں حسد نہ کیا کرو اورآپس میں بغض نہ رکھواورنہ ایک دوسرے سے قطع تعلق کرواوراے اللہ کے بندو بھائی بھائی ہوجاؤ۔(صحیح مسلم)

حضرت انس بن مالک رضي الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وأله وسلم نے فرمایا کہ’’ اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے بھی برگزیدہ بندے ہیں جن کے لیے روز قیامت نور کے منبر بچھائے جائیں گے‘‘ ۔ صحابہ کرام رضوان الله عليهم نے عرض کی یا رسولؐ اللہ صلى الله عليه وأله وسلم وہ کون لوگ ہیں؟ نبی کریم صلى الله عليه وأله وسلم نے ارشاد فرمایا’’ یہ وہ لوگ ہیں جو رضائے الہٰی کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہو ں گے‘‘ ۔

حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه بیا ن کرتے ہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه وأله وسلم نے ارشادفرمایا کہ’’ آدمی کے ہرایک جوڑ کی طرف سے صدقہ کرنا لازم ہوتا ہے اورہراس دن میں جس میں سورج طلوع ہوتا ہے اگرتم دو آدمیوں کے درمیان انصاف کرتے ہوتو یہ صدقہ ہے اوراگرتم کسی شخص کواس کے جانور پر سوار ہونے میں مدد دیتے ہو تو یہ صدقہ ہے اگر تم اس کا سامان اس پر رکھوا دیتے ہو تو یہ صدقہ ہے اوراچھی بات کہنا صدقہ ہے اور ہر وہ قدم جس کے ذریعے چل کرتم نماز پڑھنے کے لئے جاتے ہو تو وہ صدقہ ہے اور تم راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹاتے ہو تو وہ صدقہ ہے‘‘ ۔ (متفق علیہ)

حضرت علی رضي الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ ’’مغفرت وبخشش واجب کرنیوالی چیزوں میں سے ایک چیز یہ بھی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کوخوشیوں سے ہمکنار کیا جائے‘‘ ۔ جو ابدال کی فضیلت کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ سینے پر ہاتھ رکھے اور اپنے مسلمان بھائی کے لئے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے ۔

اسلام إيك إيسا معاشره ديكهنا چاهتا هے جس ميں هر إيك شخص كے حقوق مكمل طور پر محفوظ هوں يهي وجه هے كه إسلام مطالبہ حق  کی بجائے ایتائے حق  کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ ہر شخص اپنے اوپر عائد دوسرے افراد کے حقوق کی ادائیگی کے لئے کمربستہ رہے۔ اور یہاں تک کہ وہ صرف حق کی ادائیگی تک ہی محدود نہ رہے بلکہ اس ادائیگی کو حد احسان تک بڑھا كر هر مسلمان كا إكرام كرنے والا بن جائے۔ قرآن المجيد ميں الله تعالى فرماتے ہيں:
إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ (سورة النحل)
”بے شک اللہ (تمہیں) عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔“
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں مذکور عدل اور احسان قرآن حکیم کی دو اصطلاحات ہیں۔ عدل کا مفہوم تو یہ ہے کہ وہ حقوق جو شریعت اور قانون کی رو سے کسی فرد پر لازم ہیں وہ ان کی ادائیگی کرے جبکہ احسان یہ ہے کہ فرض و عائد حقوق سے بڑھ کر بھی وہ دوسرے افراد معاشرہ سے حسن سلوک کرے يهي إكرام مسلم هے۔

حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عطا کردہ تصور احسان انسانی:
حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عطا کردہ تصور احسان انسانی معاشرے کو سراپا امن و آشتی بنانے کی ضمانت فراہم کرتا ہے کیونکہ ایک فرد کا فرض دوسرے کا حق ہے جب ہر فرد اپنے فرائض کو ادا کرے گا یعنی دوسرے کے حقوق پورا کرنے کے لئے کمربستہ رہے گا تو لامحالہ معاشرے میں کسی طرف بھی حقوق کی عدم ادائیگی کی وجہ سے مطالبہ حقوق کی صدا بلند نہ ہوگی، اور پورے معاشرے کے حقوق از خود پورے ہوتے رہیں گے اور اس طرح معاشرہ قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے احترام کا آئینہ دار بن جائے گا۔
إسلام نے مسلمانوں کے لیے ایثار، اخوت، اتحاد واتفاق اور خیر خواہی کو اپنے نظام میں ایک روشن مقام دیا ہے۔ اس پر کار بند ہونے کو نماز اور روزے سے بہتر قرار دیا ہے۔ نبی كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں کے مابین نا اتفاقی کو دور کرنا نماز اور روزے سے بہتر ہے۔ جھوٹ جیسے بڑے گناہ کو مسلمانوں میں صلح اور بھائی چارہ کے لیے جائز قرار دیا گیا ہے۔ اسلام کی زریں تعلیمات سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، اس کی عزت اور اس کے جان و مال کا تحفظ اس کا دینی فریضہ ہے، اس کے دکھ درد میں شریک ہونا اس کے لیے ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔
تاريخ إسبات كي شاهد هے كه مسلمانوں نے ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر عالم انسان کو ایک بہترین اسلامی معاشرے سے آشنا کیا۔ ہمیں آج بھی ان تعلیمات پر پہلے سے کہیں زیادہ عمل کی ضرورت ہے۔ عام مسلمانوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اللہ کے حضور جواب دہی کے وقت حقوق العباد کی باری پہلے آئے گی۔
حقوق العباد کی اہمیت کے متعلق حدیث قدسی کا خلاصہ  ہے کہ یوم محشر اللہ تعالیٰ لوگوں سے یہ بھی سوال کرے گا کہ تو نے مجھے کھلایا نہیں، پلایا نہیں، پہنایا نہیں۔ بندہ پوچھے گا کہ اے رب العالمین تو ان سب ضرورتوں سے مبرا اور بلند تر ہے۔ اللہ فرمائے گا کہ کیا تجھے یاد نہیں کہ میرا فلاں فلاں بندہ ان ضرورتوں کا طلب گار تھا اور تجھے معلوم بھی تھا، تو نے اس کی ان ضرورتوں کو پورا نہیں کیا۔

مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کی فضیلت:
ایک مسلمان کا حق دبانا، یا اس کو کسی قسم کی تکلیف دینے کے بجائے، اس کے ساتھ خیر خواہی اور ہمدردی کا پہلو اختیار کرنا چاہیے، جو کہ ایک بہت بڑے ثواب اور فضیلت کا کام ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی الله تعالى عنہ کی روایت ہے كه رسول كريم  صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا: کہ جس نے کسی مسلمان کی دنیا کی بے چینیوں میں کوئی بے چینی دور کی، تو الله تعالیٰ اس سے قیامت کے دن کی بے چینیوں میں سے کوئی بڑی بے چینی دور فرمائیں گے۔ اور جو شخص دنیا میں کسی تنگ دست پر آسانی کرے گا، الله تعالیٰ اس پر دنیا وآخرت میں آسانی فرمائیں گے۔
اور جو دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا، الله تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے، اور الله تعالیٰ بندے کی مدد میں ہوتے ہیں، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہوتا ہے۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں آپ صلی الله علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:
جو آدمی میری امّت میں سے کسی شخص کی کسی دینی اور دنیاوی حاجت وضرورت کو پورا کرے، اور اس سے اس کا مقصد اس کو خوش کرنا ہو ، تو اس نے مجھے خوش کیا، اور جس نے مجھے خوش کیا، اس نے الله تعالیٰ کو خوش کیا۔
اور جس نے الله تعالیٰ کو خوش کیا، الله تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کرے گا۔

چھ امور جنت کے ضامن ہیں:
حضرت عبادة بن صامت رضي الله تعالى عنه روايت كرتے هيں كه رسول كريم  صلی الله علیہ وآله وسلم نے أرشاد فرمایا: کہ تم لوگ اپنے بارے میں مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دے دو، یعنی چھ باتوں پر عمل کرنے کا عہد کر لو، تو میں تمہارے جنت میں جانے کا ضامن بنتا ہوں۔
1..جب بھی بولو سچ بولو۔
2.. وعدہ کرو تو پورا کرو۔
3.. تمہارے پاس امانت رکھی جائے، تو امانت کو ادا کرو۔
4.. اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرو، یعنی حرام کاری سے بچو۔
5.. اپنی نگاہ کو محفوظ رکھو، یعنی اس چیز کی طرف نظر اٹھانے سے پرہیز کرو جس کو دیکھنا جائز نہیں۔
6.. اپنے ہاتھوں پر قابو رکھو، یعنی اپنے ہاتھوں کو ناحق مارنے، کسی کو تکلیف دینے ،یا حرام چیزوں کے پکڑنے سے باز رکھو۔

لوگوں  کو تکلیف سے بچانے کا اجر:
انسان خود دوسروں کو تکلیف نہ پہنچائے، بلکہ جہاں تک اس سے ہو سکے، اور اس کی طاقت ہو، دوسروں کو تکلیف سے بچانے کی کوشش کرے، یہ اتنا قابل قدر جذبہ ہے کہ الله تعالیٰ کے نزدیک، اس سے الله تعالیٰ کی طرف سے مغفرت کے فیصلے ہو جاتے ہیں، چناںچہ آپ صلی الله علیہ وآله وسلم کا ارشاد ہے
ایک شخص راستہ پر چلا جارہا تھا، اچانک اس نے ایک کانٹے دار ٹہنی راستہ میں پائی، پس اس نے اس کو ہٹا دیا، پس الله تعالیٰ نے اس عمل کا اچھا بدلہ دیا، اور وہ بدلہ یہ کہ الله تعالیٰ نے اس کی مغفرت فرما دی۔

بہترین اور بد ترین لوگ کون ہیں؟
حضرت ابوہریرہ رضی الله تعالى عنہ کی روایت ہے، کہ ایک دن رسول كريم  صلی الله علیہ وآله وسلم نے بیٹھے ہوئے صحابہ كرام رضوان الله عنہم کے سامنے کھڑے ہو کر فرمایا: کیا میں تمہیں یہ بتاؤں کہ تم میں نیک ترین کون شخص ہے ؟ اور تمہارے بہترین آدمیوں کو تمہارے بدترین آدمیوں سے جدا کرکے دکھا دوں، حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں، کہ یہ سن کر لوگ خاموش رہے، جب آپ صلی الله علیہ وآله وسلم نے مذکورہ ارشاد تین مرتبہ فرمایا: تو ایک صحابی نے عرض کیا، ہاں یا رسول الله ! ہمیں بتا دیجیے اور ہمارے نیک آدمیوں کو ہمارے بد آدمیوں سے ممتاز فرما دیجیے، آپ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے، جس سے لوگ بھلائی کی توقع کریں، اور اس کے شر سے مامون ومحفوظ ہوں، اورتم میں سے بد ترین وہ ہے، جس سے لوگ بھلائی کی توقع نہ کریں اور اس کے شر سے مامون ومحفوظ نہ ہوں۔(مشکوٰة المصابیح )
اسی طرح حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی روایت ہے ، کہ ایک آدمی نے رسول كريم صلی الله علیہ وآله وسلم کے پاس آنے کی اجازت چاہی، حضرت عائشہ رضی الله عنہا اس وقت آپ صلی الله علیہ آله وسلم کے پاس تھیں، آپ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا: ”بئس ابن العشیرة یا بئس اخوالعفیرة“ یعنی قبیلے کا برا آدمی ہے، پھر آپ صلی الله علیہ وآله وسلم نے ان کو اندر آنے کی اجازت دی، جب وہ آئے تو آپ صلی الله علیہ وآله وسلم نے نرمی اور پیار سے باتیں کیں، پھر جب وہ چلے گئے، تو حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے اس کی وجہ پوچھی، تو آپ صلی الله علیہ وآله وآله وسلم نے فرمایا: اے عائشہ لوگوں میں بدترین شخص وہ ہے، جس کو لوگ اس کی بد گوئی سے بچنے کے لیے چھوڑ دیں، ۔ (سنن الترمذی)

جو چیز اپنے لیے پسند کرے وہی دوسروں کے لیے پسند کرے:
انسان اگر اس بات کا تہیہ کرے ، کہ میری ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے، تو ہر معاملے میں جس کا تعلق دوسرے لوگوں کے ساتھ ہو، اس میں اس بات کا خیال رکھے، کہ میں جو یہ معاملہ اس کے ساتھ کر رہا ہوں، اگر یہی معاملہ یہ شخص میرے ساتھ کرتا، تو اس وقت میری کیفیت کیا ہوتی، جس چیز اورمعاملے کو اپنے لیے پسند کرے، اس چیز اور معاملے کو دوسروں کے لیے پسند کرے اور جس چیز کو اپنے لیے ناپسندیدہ سمجھتا ہے، تو وہ معاملہ دوسروں کے ساتھ بھی نہ کرے۔
چناںچہ ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:
”لا یؤمن أحدکم حتی یحب لأخیہ ما یحب لنفسہ․“(الجامع الصحیح للبخاري)
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا ، جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے اس چیز کو پسند نہ کرے، جس کو اپنے لیے پسند کرتا ہو۔
اور مطلب یہ کہ کوئی نیکی یا مباح کام یا معاملہ ہو، لیکن اگرکوئی فاسق اپنے لیے کوئی گناہ، رشوت اور حرام وغیرہ پسند کرتا ہے، اس کے لیے یہ نہیں، کہ وہ یہ گناہ دوسروں کے لیے بهي پسند کرے، بلکہ نیکی کے کام، یا مباح امور میں سے جو اپنے لیے پسند کرے وہ دوسروں کے لیے بهي پسند کرے۔ (شرح النووي)

حقوق العباد ادا نه كرنے پر وعيديں:
قرآن وحديث ميں جهاں مسلمان كا إكرام كرنے كے فضائل كثرت سے ذكر هوئے هيں وهاں حقوق العباد كي لا پرواهي پر سخت قبسم كي دنياوى وأخروي وعيديں بهي وارد هوئى هيں إن وعيدوں كے ذكر كا مقصد يه هے كه هميں إحساس هوجائے كه حقوق العباد ميں لاپرواهي كے دنياوي اور أخروي كيا نقصانات هيں اور الله تعالى كي توفيق سے هم إن نقصانات سے بچنے كي كوشش كريں تاكه دنيا ميں خوش وخرم اور پرسكون زندگي گزار سكيں اور آخرت ميں بهي سرخرو هوسكيں
انسان معاشرے کے اندر رہ کر زندگی گزارتا ہے، اس کے شب وروز لوگوں کے ساتھ گزرتے ہیں اور اس کا واسطہ اپنے گھر کے لوگوں سے بھی ہوتا ہے اور باہر کے کئی لوگوں سے بھی مختلف انداز میں واسطہ ہوتا ہے۔ اب انسان معاشرے کے اندر رہتے ہوئے کس طرح زندگی گزارے؟ اس کا لوگوں کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ ہو ؟ ! اس بارے میں شریعت مطہرہ میں راہ نما اصول موجود ہیں کہ اگر انسان ان کو مدنظر رکھ کر اپنی طرز زندگی کو ان کے مطابق ڈھال لے، تو یہ معاشرہ امن وسلامتی کا گہوارہ بن جائے۔

مسلمان کا مقام ومرتبہ:
سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین ہو کہ الله تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان کا بہت بڑا مرتبہ اور مقام ہے، آج اگر ہمیں کسی کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ فلاں آدمی وزیر اعظم یا کسی بھی عہدہ اور منصب رکھنے والے آدمی کا دوست اور قریبی ہے، تو ہمارا اس کے ساتھ کیا برتاؤ اور سلوک ہوتا ہے؟ ایسے آدمی کو تکلیف واذیت دینا تو کجا اس کی خوشی کے حصول کے لیے اس کے ہر جائز اور ناجائز امر کو خندہ پیشانی سے گوارہ کر لیتے ہیں۔
ترمذی شریف کی إيك روایت میں حضرت ابن عمر رضی الله تعالى عنہ کے بارے میں آیا ہے
:”ونظر ابن عمر رضي الله عنہما یوماً إلی البیت ، أو إلی الکعبة فقال: ما أعظمک وأعظم حرمتک، والمؤمن أعظم حرمة عندالله منک․“
یعنی حضرت ابن عمر رضی الله عنہ نے ایک دن کعبہ شریف کی طرف دیکھا اور فرمایا: تیرا مرتبہ کس قدر بڑا ہے اور تیرا احترام کس قدر زیادہ ہے، مگر الله تعالیٰ کے نزدیک إيك مؤمن کا احترام تجھ سے بھی بڑھا ہوا ہے۔
اسی طرح ایک اور روایت میں ہے:
”الخلق عیال الله فأحب الناس إلی الله تعالیٰ من أحسن إلی عیالہ․“ (کنزل العمال)
مخلوق الله تعالیٰ کی عیال ہے پس لوگوں میں الله تعالیٰ کو سب سے پسندیدہ وہ شخص ہے ، جو اس کے عیال کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔

مسلمان کو تکلیف دینا حرام ہے:
ويسے تو شريعت مطهره نے كسي بهي إنسان كو اذيت ااور تکلیف دینے کو ممنوع قرار دیا ہے ليكن مسلمان كي شان بهت آعلى وأرفع هے إس لئے آحاديث مباركه ميں إسے خاص طور سے ذكر فرمايا گيا ۔چناںچہ آپ صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے:
”المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ․“ (البخاري - المسلم )
مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں
 حدیث میں ”المسلمون“ کا ذکر ہے، یہ اس لیے ہے کہ چوں کہ مسلمان کا واسطہ زیادہ تر مسلمانوں ہی سے ہوتا ہے، شب وروز اس کا اختلاط اور ملنا جلنا مسلمانوں کے ساتھ رہتا ہے، اس بناء پر ”المسلمون“ کی قید ذکر کی گئی، وگرنہ غير مسلم کو بھی كسي طرح كي تکلیف دینا جائز نہیں (فتح الباری)

عبادت پر ترکِ اذیت مقدم هے:
شریعت نے تو ایسے موقع پر اور ایسے طریقے سے الله تعالیٰ کی نفل عبادت کو بھی ممنوع قرار دیا ہے، جہاں پر اور جس طریقے سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہو ، مثلاً قرآن کی تلاوت کرنا عبادت اور بہت بڑے ثواب کا کام ہے، لیکن اگر کوئی شخص ایسی جگہ پر جہاں سب لوگ سور ہے ہوں، بلند آواز سے تلاوت کرتا ہے، تو شریعت کی طرف سے اس طرح تلاوت کرنے کی اجازت نہیں ، بلکہ اگر کوئی شخص اس طرح کرے تو یہ شخص گناہ گار ہو گا۔
اسی طرح حجر اسود کو بوسہ دینا سنت اور بهت بڑى سعادت كا كام ہے، لیکن اگر لوگوں کا ہجوم ہے، اور حجر أسود تک جانے میں لوگوں کو تکلیف ہو گی، یعنی دھکے وغیرہ لگیں گے، تو ایسی صورت میں یہ شخص ”حجرأسود“ تک جانے کی کوشش نہ کرے، اس لیے کہ حجرأسود کو بوسہ دینا سنت ہے، اور مسلمان کو تکلیف نه دینا هر مسلمان پر واجب ہے۔ 

(الدرمع الرد، کتاب الحج، رشیدیہ)
تنبیہ… اس سے یہ بات بھی اچھی طرح معلوم ہو گئی، کہ آج کل جو دینی طبقے اور بزرگوں سے محبت کرنے والوں کا طرز عمل ہے، کہ اگر کسی بزرگ کی کہیں تشریف آوری ہوتی ہے ، تو ان سے مصافحہ اوران کے قریب جانے میں دھکم پیل کا جو سماں ہوتا ہے، حالاںکہ انہی بزرگ کی طرف سے بار بار مصافحہ نہ کرنے کی بھی درخواست ہوتی ہے، یہ ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔ لیکن اس کے باوجود اپنی جاہلانہ سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کچھ پرواہ نہیں ہوتی، کہ میرے اس عمل سے کتنے لوگ رنجیدہ خاطر ہوئے، کتنے لوگوں کو میں نے تکلیف پہنچائی ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جن بزرگ سے عقیدت کے اظہار کے لیے میں نے اتنے لوگوں کو روندا، کیا ان کو میرے اس طرح کے اظہار عقیدت سے خوشی ہوئی؟!
اسی طرح لاؤڈ اسپیکر کا بے محابہ استعمال جس سے آس پاس کے لوگوں کو تكليف هوتي هو جائز نهيں ہے اوراس طرح ہم لوگوں کو دین کی طرف راغب کرنے كي بجائے متنفر کرنے كے جرم كے هي مرتكب هونگے

شریعت کا حکم شریعت کے طریقے کے مطابق بجالانا چاہیے:
اسی طرح انسان اپنے رشتہ داروں اور جان پہچان والوں کی خوشی، غمی میں شریک ہوتا ہے، تو یہ شریعت کا حکم ہے ، لیکن ہمارا کسی کے ہاں جانا اور وہاں کے لوگوں کے ساتھ برتاؤ ایسے طریقے پر ہو، کہ جس سے نہ الله تعالیٰ ناراض ہوں، اور نہ جن سے ہم ملنے گئے ہیں ،ان کی تکلیف کا سبب ہو۔
اس کی آسان مثال اس طرح ہے کہ جیسے شریعت میں ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ حق ہے کہ جب وہ بیمار ہو جائے، تو اس کی عیادت کرے۔ اوراحادیث میں اس کی بہت فضیلت بھی آئی ہے۔ چناںچہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”إذا عاد المسلم أخاہ أو زارہ قال الله تعالیٰ طبت وطاب ممشاک وتبوأت من الجنة منزلا․“ (مشکوٰة)
یعنی جب کوئی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے یا اس کی ملاقات کی خاطر اس کے ہا ں جاتا ہے، تو الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیری زندگی خوشی ہوئی، تیرا چلنا مبارک رہا، اور تجھ کو جنت میں ایک بڑی اور عالی مرتبہ جگہ حاصل ہوئی۔
لیکن یہ عیادت کرنا باعث ثواب اس وقت ہو گا، جب اس میں شریعت کے اصولوں کی پاسداری ہو گی، مثلاً مریض کے پاس جاکر بلا وجه زیادہ دیر تک نہ ٹھہرے، وغیرہ اور مقصد مریض کو تکلیف سے بچانا ہے، اگر کسی کو معلوم ہو ، کہ میرا ان کے پاس زیادہ دیر تک رہنا، مریض کی چاہت ہے تو اس صورت میں تو زیادہ دیر ٹھہرنا صحیح ہے، وگرنہ فقہاء نے ایسے انداز میں عیادت کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے، جس سے مریض کو تکلیف ہو ۔

واقعہ… حضرت عبدالله بن مبارک رحمہ الله کا واقعہ ہے، کہ جب آپ مرض وفات میں تھے، لوگ آپ کی عیادت کرنے کے لیے آنے لگے، آپ بستر پر لیٹے ہوئے تھے، ایک صاحب عیادت کے لیے آکر بیٹھ گئے، اور ایسے جم کر بیٹھ گئے کہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے، اور بہت سے لوگ عیادت کے لیے آتے رہے، اور مختصر ملاقات کرکے جاتے رہے، مگر وہ صاحب بیٹھے رہے، نہ اٹھے، اب حضرت عبدالله بن مبارک رحمہ الله اس انتظار میں تھے، کہ یہ صاحب چلے جائیں، تو میں خلوت میں بے تکلفی سے اپنی ضروریات کے کچھ کام کروں، مگر خود سے اس کو چلے جانے کے لیے بھی کہنا مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ جب کافی دیر گزر گئی، اور وہ الله کا بندہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، تو حضرت عبدالله مبارک رحمہ الله نے ان صاحب سے فرمایا: کہ یہ بیماری کی تکلیف تو اپنی جگہ پر ہے ہی ، لیکن عیادت کرنے والوں نے علیحدہ پریشان کر رکھا ہے، کہ عیادت کے لیے آتے ہیں اور پریشان کرتے ہیں ۔آپ کا مقصد یہ تھا، کہ شاید یہ میر ی بات سمجھ کر چلا جائے، مگر وہ الله کا بندہ پھر بھی نہیں سمجھا، اورحضرت عبدالله بن مبارک رحمہ الله سے کہا، کہ حضرت اگر آپ اجازت دیں تو کمرے کا دروازہ بند کر دوں؟ تاکہ کوئی دوسرا شخص عیادت کے لیے نہ آئے، حضرت عبدالله بن مبارک رحمہ الله نے جواب دیا ،کہ ہاں بھائی! بند کردو، مگر اندر سے بند کرنے کے بجائے باہر سے جاکر بند کردو۔

دوسروں کو تکلیف دینے پر وعید:
انسان جیسے اس بات کی فکر کرتا ہے، کہ میری نماز صحیح ہو، میرا روزہ صحیح ہو وغیرہ ،اوراس کے علاوہ اور عبادات میں بہت ذوق وشوق سے لگا ہوا ہوتا ہے، تو یہ الله تعالیٰ کا بہت بڑا فضل اور احسان ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے معاملات پر بھی غور کرے، کہ میرا معاملہ اپنے گھر والوں، رشته داروں پڑوسیوں اور اس کے علاوہ اور لوگوں کے ساتھ کیسا ہے؟ اگرچہ اس چیز کا تصور ہمارے ذہنوں سے بالکل نکل چکا ہے، کہ یہ چیزیں بھی دین کا حصہ ہیں، حالاںکہ یہ چیزیں کتنی اہمیت کی حامل ہیں، اس کا اندازہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی اس حدیث مباركه سے بخوبی ہو جاتا ہے:
”عن أبي ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رجل یا رسول الله! إن فلانة فذکر من کثرة صلاتھا وصدقتھا وصیامھا غیر أنھا تؤذي جیرانھا بلسانھا قال: ھی فی النار، قال: یا رسول الله! فان فلانہ فذکر من قلة صیامھا وصلاتھا وأنھا تصدق بالأثوار من الأقط ولا تؤدی بلسانھا جیرانھا، قال: ھي فی الجنة․“ (مجمع الزوائد)
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں : کہ ایک دن مجلس نبوی صلى الله عليه وآله وسلم میں کسی شخص نے ایک عورت اوراس کی کثرت نماز، صدقات اور روزوں کا ذکر کیا، یعنی بہت نمازیں پڑھتی ہے، اور کثرت سے صدقات کرتی ہے، اور بہت روزے رکھتی ہے لیکن وہ اپنی زبان کے ذریعے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: کہ وہ عورت دوزخ میں جائے گی۔
اس آدمی نے کہا یا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فلاں عورت اوراس کے قلت صیام اور صلوٰة کا ذکر کیا، یعنی نفلي نماز کم پڑھتی ہے اور نفلي روزے کم رکھتی ہے، اور اس کا صدقہ خیرات پنیر کے چند ٹکڑوں سے آگے نہیں بڑھتا، لیکن وہ اپنی زبان کے ذریعہ سے اپنے ہمسائیوں کو تکلیف نہیں پہنچاتی ،آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہ وہ عورت جنت میں جائے گی۔

مفلس کون ہے؟!
دنیا میں ہر انسان کی کوشش ہوتی ہے، کہ اس کے سرمایے میں اضافہ ہو، اگر اضافہ نہ ہو ، تو کم از کم نقصان نہ ہو، اور اگر خدانخواستہ اس کی پوری زندگی کی جمع پونجی چور، ڈاکو اٹھا کر لے جائیں، تو اس کی حسرت وافسوس کا کیا عالَم ہو گا؟
اسی طرح اگر انسان کے پاس اور عبادات کا تو ذخیرہ موجود ہے، لیکن معاملات صحیح نہیں تھے، تو عبادات کا یہ ذخیرہ اور لوگ لے جائیں گے ،اور یہ خالی ہاتھ رہ جائے گا۔ اور دنیا کے نقصان کی تلافی تو ممکن ہے، لیکن آخرت کا نقصان ایسا نقصان ہے، کہ جس کی تلافی کی کوئی صورت نہ ہو گی ۔چناںچہ آپ صلی الله علیہ وآله وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی الله عنہم سے پوچھا:”
أتدرون ما المفلس؟ قالوا: المفلس فینا من لا درھم لہ ولا متاع، فقال: إن المفلس من امتي من یأتي یوم القیٰمة بصلاة وصیام وزکوٰة ویاتي قدشتم ھذا، وقذف ھذا، وأکل مال ھذا، وسفک دم ھذا وضرب ھذا، فیعطي ھذا من حسناتہ وھذا من حسناتہ، فإن فنیت حسناتہ قبل أن یقضیٰ ماعلیہ أخذ من خطایا ھم فطرحت علیہ ثم طرح فی النار․“ (المسلم )
بتلاؤ مفلس کون ہے؟ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا، یا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ! ہم لوگ تو اس شخص کو مفلس سمجھتے ہیں، جس کے پاس مال، پیسہ نہ ہو، آپ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا: حقیقی مفلس وہ نہیں ، بلکہ حقیقی مفلس وہ ہے، جو الله تعالیٰ کے سامنے قیامت کے دن جب حاضر ہو گا، تو اس طرح حاضر ہو گا، کہ اس کے اعمالنامے میں بہت سارے روزے ہوں گے، بہت سی نمازیں اور صدقات، خیرات ہوں گے، لیکن ایسے شخص نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو گا، کسی کو مارا ہو گا وغيره
چناںچہ اب اصحاب حقوق اپنے حق کا مطالبہ کریں گے، تو الله تعالیٰ اس حق کے بدلے اس شخص کی نیکیاں ان کو دیں گے ، پس اگر اس شخص کی نیکیاں ختم ہوگئیں، اور دنیا کے اندر جن کا حق کھایا تھا، یا ان پر زیادتی کی تھی، وہ ابھی تک باقی ہیں، تو اب الله تعالیٰ حکم فرمائیں گے کہ صاحب حق کے اعمال میں جو گناہ ہیں، وہ اس شخص کے نامہ اعمال میں ڈال دیے جائیں، چناںچہ اصحاب حقوق کے گناہ اس شخص پر ڈال دیے جائیں گے، اور یہ شخص جو نیکیوں کا انبارلے کر آیا تھا، خالی ہاتھ رہ جائے گا، اور دوسروں کے گناہ اپنے اوپر لیے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
بهت سي حدیثوں میں رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم نے جس طرح مسلمانوں کو باہم محبت وہمدردی کا برتائو کرنے اور ایک جسم وجان بن کر رہنے کی تاکید فرمائی ہے اسی طرح اس کے خلاف برتائو کرنے، مثلاً ایک دوسرے کے ساتھ بدگمانی رکھنے، بدگوئی کرنے، بے تعلق رہنے، اس کی مصبیت پر خوش ہونے، اس کو ایذا پہنچانے اور حسد یا کینہ رکھنے کی سخت مذمت اور انتہائی تاکیدوں کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے۔ اس سلسلہ کے آپ صلى الله عليه وآله وسلم کے چند ارشادت درج ذيل ہیں:
حضرت ابو ہریرہ رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم دوسروں کے متعلق بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، تم کسی کی کمزوریوں کی ٹوہ میں نہ رہا کرو اور جاسوسوں کی طرح راز درانہ طریقے سے کسی کے عیب معلوم کرنے کی کوشش بھی نہ کیا کرو اور نہ ایک دوسرے پر بڑھنے کی بے جا ہوس کرو، نہ آپس میں حسد کرو، نہ بغض وکینہ رکھو اور نہ ایک دوسرے سے منہ پھیرو، بلکہ اے اللہ کے بندو! اللہ کے حکم کے مطابق بھائی بھائی بن کر رہو۔ (بخاری و مسلم)
حدیث بالا میں جن جن چیزوں سے ممانعت فرمائی گئی ہے، یہ سب وہ ہیں جو دلوں میں بغض وعداوت پیدا کرکے آپس کے تعلقات کو خراب کرتی ہیں۔ سب سے پہلے آپ نے بدگمانی کا ذکر فرمایا۔ یہ ایک قسم کا جھوٹا وہم ہے جو شخص اس بیماری میں مبتلا ہو، اُس کا حال یہ ہوتا ہے کہ جس کسی سے اس کا ذرا سا اختلاف ہو اس کے ہر کام میں اس کو بدنیتی ہی بدنیتی معلوم ہوتی ہے، پھرمحض اس وہم اور بدگمانی کی بنا پر وہ اس کی طرف بہت سی ان ہونی باتیں منسوب کرنے لگتا ہے پھر اس کا اثر قدرتی طور پر ظاہری برتائو پر بھی پڑتا ہے پھر اس دوسرے شخص کی طرف سے بھی اس کا رد عمل ہوتا ہے اور اس طرح دل پھٹ جاتے ہیں اور تعلقات ہمیشہ کے لیے خراب ہوجاتے ہیں۔
رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے اس حدیث میں بدگمانی کو ’’اکذب الحدیث‘‘ فرمایا ہے، یعنی سب سے جھوٹی بات، بظاہر اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے خلاف زبان سے اگر جھوٹی بات کہی جائے تو اس کا سخت گناہ ہونا ہر مسلمان جانتا ہے لیکن کسی کے متعلق بدگمانی کو اتنی بُری بات نہیں سمجھا جاتا رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے متنبہ فرمایا کہ یہ بدگمانی بھی بہت بڑا بلکہ سب سے بڑا جھوٹ ہے اور دل کا یہ گناہ جيسے گناه سمجها هي نهيں جاتا زبان والے جھوٹ كے گناه سے كسي طرح بهي کم نہیں ہے۔
اور جس طرح اس حدیث میں بدگمانی کی شناعت اور قباحت کو ان الفاظ سے ظاہر فرمایا گیا ہے اُسی طرح ایک دوسری حدیٖث میں نیک گمانی کو بہترین عبادت بتایا گیا ہے، ارشاد ہے:
’’حسن الظن من حسن العبادۃ‘‘ ( احمد و ابودائود)
پھر بدگمانی کے بعد اور جن جن بُری عادتوں سے حدیث بالا میں ممانعت فرمائی گئی ہے۔ یعنی کسی کی کمزوریوں کی ٹوہ میں رہنا، دوسروں میں عیبوں کا تجسس کرنا، ایک دوسرے پر رفعت حاصل کرنے اور بڑھنے کی کوشش کرنا، کسی کو اچھے حال میں دیکھ کر اُس پر حسد کرنا اور اُس کی خوش حالی کو ٹھنڈی آنکھ نہ دیکھ سکنا وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کا حال بھی یہی ہے کہ ان سے دلوں میں نفرت و عداوت کا بیج پڑتا ہے اور ایمانی تعلق جس محبت وہمدردی اورجس اخوت ویگانگت کو چاہتا ہے اس کا امکان بھی باقی نہیں رہتا۔ حدیث کے آخر میں جو فرمایا گیا ہے اے اللہ کے بندو! بھائی بھائی ہوکر رہو۔ اس میں اشارہ ہے کہ جب تم اپنے دلوں اور سینوں کو نفرت وعداوت پیدا کرنے والی ان بری عادتوں سے صاف رکھوگے تب ہی تم آپس میں بھائی بھائی بن کر رہ سکو گے۔
حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، اس پر کوئی ظلم وزیادتی نہ کرے (اور جب وہ اس کی مدد واعانت کا محتاج ہو، تو اس کی مدد کرے) اور اُس کو بے مدد کے نہ چھوڑے اور اس کو حقیر نہ جانے اور نہ اُس کے ساتھ حقارت کا برتائو کرے ( کیا خبر کہ اس کے دل میں تقویٰ ہو، جس کی وجہ سے وہ اللہ کے نزدیک مکرم اور محترم ہو) پھر آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے تین بار اپنے سینہ کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تقویٰ یہاں ہوتا ہے( ہوسکتا ہے کہ تم کسی کو اُس کے ظاہری حال سے معمولی آدمی سمجھو اور اپنے دل کے تقوے کی وجہ سے وہ اللہ کے نزدیک محترم ہو، اس لیے کبھی مسلمان کو حقیر نہ سمجھو) آدمی کے برا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے اور اُس کے ساتھ حقارت سے پیش آئے، مسلمان کی ہر چیز دوسرے مسلمان کے لیے قابلِ احترام ہے، اُس کا خون، اس کا مال اور اس کی آبرو (اس لیے ناحق اُس کا خون گرانا، اس کا مال لینا اور اس کی آبرو ریزی کرنا، یہ سب حرام ہیں)۔(صحیح مسلم)

کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا:
طاقت ور دهوكه باز لوگوں کی جانب سے مظلوموں کی زمین اور املاک پر قبضے کی روایت بہت پرانی ہے، زمینوں پر قبضے کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اس حوالے سے کہ کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا اور اُس پر تعمیرات کے حوالے سے شریعتِ محمديهﷺ میں کیا سزا تجویز کی گئی ہے؟ ’نبی كريم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی ایک بالشت کے برابر زمین کو غصب کرے گا تو اللہ رب العزت قیامت کے روز اس جگہ کے نیچے موجود ساتوں زمینوں کے جمع کر کے ایک طوق بنائے گا اور اُسے ہار کی طرح قبضہ کرنے والے کے گلے میں ڈالا جائے گا‘۔
 زمین کی گہرائی کا علم اللہ رب العزت کے علاوہ کسی کو نہیں ہے، اب انسان اندازہ کرسکتا ہے کہ ایک بالشت برابر بھی زمین ہے اور جب اُس کا ہار جب گلے میں ڈالا جائے گا تو اس کے وزن کی وجہ سے انسان دب جائے گا اور روزِ قیامت سب کے سامنے ذلیل و رسوا ہوگا۔چناچه رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
اَيُّمَا رَجُلٍ ظَلَمَ شِبْرًا مِّنَ الْاَرْضِ، كَلَّفَهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ اَنْ يَّحْفِرَهُ حَتّٰى يَبْلُغَ اٰخِرَ سَبْعِ اَرْضِينَ، ثُمَّ يُطَوَّقَهُ اِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ حَتّٰى يُقْضٰى بَيْنَ النَّاسِ
جو شخص ظلمًا بالشت بھر زمین لے لے اللہ تعالٰی اسے اس بات کا پابند کرے گا کہ اسے سات زمینوں کی تہ تک کھودے پھر قیامت کے دن تک اس کا طوق پہنائے گا حتی کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے۔(مسند احمد)
طَوق کب تک گلے میں رہے گا؟: اس حدیثِ پاک کی شرح میں علماء  فرماتے ہیں:یہ شخص خود سات تہ زمین تک بورنگ (Boring) کرے اور خود ہی اپنے گلے میں طوق بنا کر پہنے پھرے، اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ سے مراد قیامت کا آخری حصہ ہے 
یہ طَوق کیسے بنے گا ایک  قول ہے کہ اُس شخص کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا تو غصب کی ہوئی زمین اُس کی گردن میں طَوق(ہار) کی طرح ہوجائے گی۔ دوسرا قول يه كه  اس کی گردن کو بڑا کر دیا جائے گا یہاں تک وہ اُتنی ہوجائے یا یہ کہ اس شخص کو اس بات کا مکلف بنایا جائے گا کہ وہ اس کا طوق بنائے اور وہ اس کی طاقت نہ رکھتا ہوگا تو اس کو اس کے ذریعے عذاب دیا جائے گا
غاصب سزا کا تصورکركے الله تعالى كے غضب سے ڈرے، ذرا مَن دو مَن نہیں بیس پچیس كيلو وزن گلے میں باندھ کر گھڑی دو گھڑی لئے پھرے، اُس وقت قیاس کرے کہ اس ظلم شدید سے باز آنا آسان ہے یا زمین کے ساتوں طبقوں تک کھود کر قیامت کے دن تمام جہان کا حساب پورا ہونے تک گلے میں، مَعَاذَ اللہ یہ کروڑوں مَن کا طوق پڑنا اور ساتویں زمین تک دھنسا دیا جانا، 
اب بھی وقت هے كه سنبھل جائیں:اللہ اکبر!ایک بالشت زمین غصب کرنا اتنا سخت گناہ اور  آخِرت میں اس کی اتنی سَخت سزا ہے، الامان والحفیظ۔ یہاں ان لوگوں کو ضرور سوچنا چاہئے جو پلازے کے پلازے، زمینیں، مکانات اور  فلیٹوں پر ناحق قابض ہوکر خود فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اصل مالِکان کی بددعاؤں کے حقدار بن رہے ہیں، دنیا میں آج کوئی اپنا مقدّمہ ہار بھی جائے اور حق پر ہونے کے باوجود اپنا حق نہ لے سکے اور ناحق قبضہ نہ چھڑا سکے، لیکن آخرت کی عدالت میں ہر ایک کو اس کا حساب دینا ہوگا۔یاد رکھئے نیا مکان بناتے ہوئے دیواروں کی بنیادیں تھوڑی سی سرکا کر ہمسائے کی زمین پر بنا لینا بھی کوئی معمولی گناہ نہیں،  لہٰذا ناحق قبضہ کیا ہوا ہے یا وراثت كي جائیداد میں سے کسی کا حصّہ نہیں دیا، تو دنیا میں ہی اس لین دین کو ختم کروا لیجئے تاکہ آخرت کے عذاب سے چھٹکارے کی صورت ہوجائے۔اللہ کریم ہمیں حقوق العباد کماحَقّہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِين 
غور كا مقام  ہے کہ جن لوگوں نے کئی کئی ہزار رقبے کے پلاٹس اور دکانوں پر قبضے کر رکھے ہیں جس کی وجہ سے حقدار حسرت سے اپنی ہی چیز کو دیکھتا ہے تو قبضہ کرنے والے افراد کے اہل خانہ اس سے حاصل ہونے والے مال پر عیش کررہے ہیں اور حقدار کے چہرے کی بے بسی اُن کے دلوں کو موم نہیں کررہی تو ایسے لوگوں کو حساب دینا پڑے گا۔
آفسوس يه بيمارى آج همارے معاشره ميں إيك وبا كي شكل أختيار كرچكي هے - اپني آخرت كى منزلوں سے بے پرواه هوكر يه ظلم عظيم معاشره ميں عام هے
بعض لوگ إجتماعي حقوق كي تقسيم ميں بهت بے إحتياطي كا مظاهره كرتے هيں كه جس كے هاتهـ جو لگا لوٹ ليا ۔ حالانكه هر قسم كے إجتماعي مال خواه وه وراثت كي شكل ميں هوں يا اور كسي شكل ميں شريعت مطهره نـے تمام حقداروں كے حصے مقرر كرديئے هيں۔ جو أپنے حصه سے زياده لے گا وه دوزخ كي آّگ حاصل كرے گا اور يقيناُ مجرم هوگا اور جو كسي كو أس كـے حق سـے كسي طريقه سے محروم كرے گا يا أس كـے حصه ميں كمي بيشي كرے گا وه بهي مجرم هوگا اور كل قيامت والے دن سب كچهـ نيكيوں كي شكل ميں دينا پڑے گا۔ الله معاف فرمائے آجكل يه بيمارى بهت زياده هـے ۔ إس بيماري ميں نه صرف دنيادار بلكه اپنے آپ كو ديندار كهلانـے والـے لوگ بهي مبتلا هيں۔ يه تو ظاهر سي بات هـے كه جو لوگ الله تعالى كـے عذاب ســے بــے خوف هو كر أسكي مقرر كرده حدود كو صرف مال و دولت كي خاطر ڈهٹائي كيساتهـ كراس كركـے اور الله تعالي كـے بيان كرده واضح حكموں كو توڑ كر اپنے أعمال بلكه دنيا اور آخرت كو تباه كرليتـے هيں وه الله تعالى كي نظر ميں كسي صورت بهي ديندار نهيں هوسكتـے كيونكه الله تعالى نـے قرآن مجيد ميں إيسـے لوگوں كيلئے جو حدود الله كو توڑيں گـے جهنم كي سخت وعيد سنائي هـے فرمان إلهى هـے .
"وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ 0" (سورة النساء)
( اور جو شخص الله تعالى كي اور أسكــے رسول صلى الله عليه وسلم كى نافرماني كرے اور أسكي مقرره حدوں كو عبور كرے تو إســے وه جهنم ميں داخل كردے گا جس ميں وه هميشه رهے گا إيسوں هي كے لئــے رسواكن عذاب هــے )
پهر إيسے لوگ حقداروں كا حق ادا كيے بغير دينى اور رفاهي كاموں ميں خرچ كرتے رهتے هيں اور حج اور عمره كا إهتمام بهي كرتے رهتے هيں۔ حالانكه صدقه وخيرات اور حج و عمره وغيره كے لئے لازمي شرط رزق حلال كا هونا هــے ۔ حديث شريف ميں إيسـے حج اور عمره ادا كرنيوالونكے لئے سخت اور صاف ألفاظ موجود هيں كه أنكى (لبيك اللهم لبيك ............) كو الله تعالى كي جانب ســـے بوجه رزق حرام قبول نهيں كيا جاتا ۔اور رزق حرام كي وجه سے أسكي دعاؤں كو بهي قبول نهيں كيا جاتا سو سمجهدارى كا تقاضا اور آحسن طريقه يهي هـے كه يه سمجهتــے هوئـے كه مجهـے بهرحال مرنا هـے اور پهر إس كا مجهـے هي حساب دينا هـے جو يقيناً مشكل حساب هوگا حق والے كو أسكا حق واپس دے ديا جائـے پهر أس كي مرضي جيسے چاهے وه إستعمال كرے.
توبه ســے تمام گناه معاف هوجاتــے هيں ليكن حقوق العباد بهرحال ادا كرنے هي هوں گے. إسي دنيا ميں ادا كرديے جائيں تو يه بهتر هوگا ورنه دنيا وآخرت كا خساره بالكل ظاهر هـے كه دنيا ميں ذليل اور پريشان رهنا هوگا اور قبر اور حشر ميں الله كا عذاب نازل هوگا. جيسا كه گذشته قسط ميں ذكر هوا كه حديث شريف ميں إيسے شخص كو قيامت كے دن كا مسكين كها گيا هـے كه جو بهت زياده نيك أعمال ساتهـ لے جانـے كے باوجود حقوق العباد غصب كرنے كيوجه سے جهنم رسيد هوجائے گا . المختصر يه كه چوري - هيراپهيرى اور خيانت وغيره جس چيز ميں بهي كي هوگي عالم برزخ و آخرت ميں وهي آله تعذيب بن جائے گي
حضرت أبو هريره رضي الله تعالى عنه سـے روايت هـے كه إيك شخص نـے رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كي خدمت ميں إيك غلام بطور هديه بهيجا. أسكا نام مدعم تها۔ وه غلام رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كا كچهـ أسباب اتار رها تها كه آچانك اس كو إيك تير آكر لگا اور وه وفات پا گيا إس كا مارنے والا بهي معلوم نه هوسكا يه ديكهـ كر وهاں موجود لوگوں نـے كها بهشت أس كو مبارك هو۔ رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نــے فرمايا إيسا بالكل مت كهو۔ قسم هـے أس ذات كي جس كـے قبضه ميں ميري جان هـے۔ كه جو كمبلي أس نـے يوم خيبر ميں تقسيم سـے پهلـے لـے لي تهي وه آگ بن كر أس پر مشتعل هورهي هے۔ جب لوگوں نــے يه مضمون سنا تو إيك شخص جوتــے كا إيك يا دو تسمه واپس كرنـے كو لايا تو آپ نـے فرمايا يه إيك يا دو تسمه آگ كا هــے۔
إجتماعي حقوق كي شريعت كے بتائے هوئے أصولوں كے مطابق تقسيم سـے پهلــے أس ميں ســے كسي طرح بهي كچهـ حاصل كرنے والوں اور تقسيم ميں كسي بهي طريقه ســے كمي بيشي كرنے والوں كو إس واقعه سـے سبق حاصل كرنا چاهيـے كه موت آخر آني هـے اور إن أمور كا حساب بهي هونا هـے. آج چالاكي اور چرب زباني سے - غلط بياني سے، فرضي كهانياں بنا اور سنا كر شايد دهوكه ديا جاسكتا هو ليكن مرنــے كـے بعد قبر ميں هر چيز واضح هوجائے گي سو حقوق العباد كے لئے بهت زياده محتاط رهـنے كي ضرورت هـے تاكه قيامت كـے عذاب سے بچ سكــے ۔

رشوت:
إسي طرح رشوت كا معامله هے عموماً إس کے ذريعہ سے دوسروں كے حقوق غصب كيے جاتے ہیں ، ۔ حدیث شريف میں ہے کہ :
لَعَنَ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ الراشِيَ والمرْتَشِيَ والرَّائِشَ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے لعنت بھیجی ہے رشوت دینے والے پر بھی ، رشوت لینے والے پر بھی اور رشوت کے دال پر بھی ۔
جس ذات اقدس صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے دشمنوں کے حق میں بھی دعائے خیر ہی کی ہو اس ذاتِ اقدس صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا کسی شخص پر لعنت بھیجنا معمولی بات نہیں ۔ اس کا اثر آخرت میں تو ظاہر ہوگا ہی ، لیکن دنیا میں بھی یہ لوگ اس لعنت کے اثر سے بچ نہیں سکتے  چنانچہ جو لوگ معاشرے کو تباہی کے راستے پر ڈال کر حق داروں کا دل دکھا کر غریبوں کا حق چھین کر اور ملت کی کشتی میں سوراخ کرکے رشوت لیتے ہیں ۔ بظاہر ان کی آمدنی میں خواہ کتنا اضافہ ہوجاتا ہو، لیکن خوشحالی اور راحت وآسائش روپے پیسے کے ڈھیر، عالیشان کوٹھیوں ، شاندار کاروں اور اپ ٹو ڈیٹ فرنیچر کا نام نہیں ہے ، بلکہ دل کے اس سکون اور روح کے اس قرار اور ضمیر کے اس اطمینا ن کا نام ہے جسے کسی بازار سے کوئی بڑی سے بڑی قیمت دے کر بھی نہیں خریدا جاسکتا ، یہ صرف اور صرف اللہ کی دین ہوتی ہے ، جب اللہ تعالیٰ کسی کو یہ دولت دیتا ہے تو ٹوٹے چھونپڑے ، کھجور کی چٹائی اور ساگ روٹی میں بھی دے دیتا ہے اور کسی کو نہیں دیتا تو شاندار بنگلوں ، کاروں اور کارخانوں میں بھی نصیب نہیں ہوتی ۔
آج اگر آپ کو رشوت کے ذریعے کچھ زائد آمدنی ہوگئی ہے ، لیکن ساتھ ہی کوئی بچہ بیمار پڑگیا ہے تو کیا یہ زائد آمدنی آپ کو کوئی سکون دے سکے گی؟ آپ کی ماہانہ آمدنی کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہے ،لیکن اگر اسی تناسب سے گھر میں ڈاکٹر اور دوائیں آنے لگی ہیں تو آپ کو کیا ملا؟اور اگر فرض کیجئے کہ کسی نے مرمارکر رشوت کے روپے سے تجوریاں بھر لیں ، لیکن اولاد نے باغی ہوگر زندگی اجیرن بنادی ، داماد نے جینا دوبھر کردیا، یا اسی قسم کی کوئی اور پریشانی کھڑی ہوگئی تو کیا یہ ساری آمدنی اسے کوئی راحت پہنچاسکے گی ؟
حقيقت یہ ہے کہ ایک مسلمان اللہ تعالى اور رسول صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے احکام سے باغی ہوکر روپیہ تو جمع کرسکتا ہے لیکن اس روپے کے ذریعے راحت وسکون حاصل کرنا اس کے بس کی بات نہیں ، عام طور سے ہوتا یہ ہے کہ حرام طریقے سے کمائی ہوئی دولت پریشانیوں اور آفتوں کا ایسا چکر لے کر آتی ہے جو عمر بھر انسان کو گردش میں رکھتا ہے قرآن کریم نے”جولوگ یتیموں کامال ظلماً کھاتے ہیں وہ ایسے مصائب کا شکار کردئے جاتے ہیں جن کی موجودگی میں لذیذ سے لذیذ غذا بھی آگ معلوم ہوتی ہے “۔
لہذا رشوت خوروں کے اونچے مکان اور شاندار اسباب دیکھ کر اس دھوکے میں نہ آنا چاہئے کہ کہ انہوں نے رشوت کے ذریعے خوش حالی حاصل کرلی ، بلکہ ان کی اندرونی زندگی میں جھانک کر دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے بیشتر افراد کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلا ہیں ۔
اس کے برعکس جو لوگ حرام سے اجتناب کرکے اللہ کے دئیے ہوئے حلال رزق پر قناعت کرتے ہیں ، ابتداء میں انہیں کچھ مشکلات پیش آسکتی ہیں ، لیکن آخر کار دنیا میں بھی وہی فائدے میں رہتے ہیں، ان کی تھوڑی سی آمدنی میں بھی زیادہ کام نکلتے ہیں ، ان کے اوقات اور کاموں میں بھی برکت ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ دل کے سکون اور ضمیر کے اطمینان کی دولت سے مالامال ہوتے ہیں ۔
اوپر رشوت کے جو نقصانات بیان کئے گئے وہ تمام تر دنیوی نقصانات تھے، اور اس لعنت کا سب سے بڑا نقصان آخرت کا نقصان ہے ، دنیا میں اور ہزار چیزوں میں اختلاف ہوسکتا ہے ، لیکن اس بارے میں کسی مذہب اور کسی مکتبِ فکر کا اختلاف نہیں کہ ہر انسان کو ایک نہ ایک دن موت ضرور آئے گی اگر بالفرض رشوتیں لے لے کر کسی شخص نے چند روز مزے اڑا بھی لئے تو بالآخر اس کا انجام سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے الفاظ میں یہ ہے کہ :
الراشی والمرتشی کلاهما فی النار (الحديث)
رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنم میں ہوں گے۔
(يهاں يه نقطه بهي ذهن ميں رهے كه اگر كسي حقدار كو اپنا حق بهي رشوت ديے بغير نهيں مل رها تو پهر يه رشوت دينے والا أس وعيد ميں شامل نهيں هوگا كيونكه وه اپنا حق حاصل كرنا چاهتا هے جو بغير رشوت اس كو نهيں مل سكتا)
بهرحال رشوت کا گناہ شراب نوشی اور بدکاری سے بھی زیادہ سنگین ہے کہ شراب نوشی اور بدکاری سے اگر کوئی شخص صدق دل کے ساتھ توبہ کرلے تو وہ اسی لمحے معاف ہوسکتا ہے ، لیکن رشوت کا تعلق چونکہ حقوق العباد سے ہے ، اس لئے جب تک ایک ایک حقدار کو اس کی رقم نہ چکائے یا اس سے معافی نہ مانگے ، اس گناہ کی معافی کا کوئی راستہ نہیں ، عام طورسے جب انسان کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اسے اپنی آخرت کی فکر لاحق ہو ہی جاتی ہے ، اگر اس وقت عارضی دنیوی مفاد کے لالچ میں ہم یہ گناہ کرتے رہے تو یقین کیجئے کہ موت سے پہلے ہی جب آخرت کی منزل سامنے ہوگی تو یہ اعمال دنیا کے ہر آرام وراحت کو مستقل عذاب جان بنا کر رکھ دیں گے اور اس عذاب سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہ ہوگی ۔
بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر تنہا میں نے رشوت ترک کردی تو اس سے پورے معاشرے پر کیا اثر پڑے گا؟ لیکن یہی وہ شیطان کا دھوکہ ہے جومعاشرے سے اس لعنت کے خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ،جب ہر شخص دوسرے کا انتظار کرے گا تو معاشرہ کبھی اس لعنت سے پاک نہیں ہوگا۔ آپ رشوت کو ترک کرکے کم ازکم خود اس کے دنیوی اور آخرت کے نقصانات سے محفوظ ہوسکیں گے اس کے بعد آپ کی زندگی دوسروں کے لئے نمونہ بنے گی کیا بعید ہے کہ آپ کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اس لعنت سے تائب ہوجائیں ، تاریکی میں ایک چراغ جل اٹھے تو پھر چراغ سے چراغ جلنے کا سلسلہ جارى وسارى ہوسکتا ہے کہ اس سے پورا ماحول بقعئہ نور بن جائے پھر جب کوئی شخص اللہ کے لئے اپنے نفس کے کسی تقاضے کو چھوڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال ہوتی ہے ، دور دور سے ایک کام کومشکل سمجھنے کے بجائے اسے کرکے دیکھئے ، اللہ تعالیٰ سے اس کی آسانی کی دعا مانگيے ۔ ان شاء اللہ اس کی مدد ہوگی ضرور ہوگی ، بالضرور ہوگی اور کیا عجب ہے معاشرے کو اس لعنت سے پاک کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ ہی کو منتخب کیا ہو۔

سود:
حقوق غصب كرنے كے طريقوں ميں إيك سود كا لين دين بهي هے يه إيك إيسي لعنت هے جس سے آمير آمير تر اور غريب غريب تر هوتا چلا جاتا هے يه إيك سامراجي نظام هے جس كي إسلام ميں قطعاً كوئي گنجائش نهيں- قرآن و حديث ميں إس كي بهت سخت وعيديں وارد هوئى هيں درآصل اسلام کی نظر میں سود خوری کس قدر گھناوٴنا اخلاقی، معاشی اور معاشرتی جرم ہے، اس کا اندازہ اس حقیقت سے کیا جاسکتا ہے کہ زنا اور قتل جیسے افعالِ پر بھی وہ لرزہ خیز سزا نہیں سنائی گئی جو سود خوری پر سنائی گئی ہے،
قرآنِ کریم میں مسلمانوں کو خطاب کرکے فرمايا گیا ہے:
”یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ مُّوٴْمِنِیْنَ، فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلہ“ (البقرة)
ترجمہ:… ”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سود کا جو بقایا رہتا ہے اسے یک لخت چھوڑ دو، اگر تم مسلمان ہو۔ اور اگر تم ایسا نہیں کرتے تو خدا اور اس کے رسول (صلى الله عليه وآله وسلم) کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو!“
تمام بد سے بدتر کبیرہ گناہوں کی فہرست سامنے رکھو اور دیکھو کہ کیا کسی گنہگار کے خلاف الله تعالى اور رسول (صلى الله عليه وآله وسلم) کی طرف سے اعلانِ جنگ کیا گیا ہے؟ اور پھر یہ سوچو کہ جس بدبخت کے خلاف خدا اور رسول(صلى الله عليه وآله وسلم) میدانِ جنگ میں اُتر آئیں اس کی بد بختی کا کیا ٹهكانه ہوگا؟ اس کو خدائی عذاب کے کوڑے سے کون بچا سکتا ہے؟ اور اس بدترین مجرم کو جو الله تعالى اور رسول (صلى الله عليه وآله وسلم) کے ساتھ جنگ لڑ رہا ہے، کون عقل مند ”اُصولِ رُخصت“ کا پروانہ لاکر دے سکتا ہے․․․؟ یہاں یہ نکتہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ جو شخص انفرادی طور پر سود خوری کے جرم کا مرتکب ہے وہ انفرادی حیثیت سے الله تعالى اور رسول (صلى الله عليه وآله وسلم) کے خلاف میدانِ جنگ میں ہے، اور اگر یہ جرم انفرادی دائرے سے نکل کر اجتماعی جرم بن جائے اور مجموعی طور پر پورا معاشرہ اس سنگین جرم کا ارتکاب کرنے لگے تو الله تعالى كے عذاب کا کوڑا پورے معاشرے پر برسنے لگے گا، اور دُنیا کا کوئی بہادر ایسا نہ ہوگا جو اس جرم کے ارتکاب کے باوجود اس معاشرے کو الله تعالى کے عذاب سے نکال لائے۔
بدقسمتي سے همارا موجوده معاشره الله تعالى اور اس كے رسول (صلى الله عليه وآله وسلم) کے خلاف بڑی ڈھٹائی سے مسلح جنگ لڑ رہا ہے، اس پر چاروں طرف سے الله تعالى كا قہر و غضب کے کوڑے برس رہے ہیں، ”فَصَبَّ عَلَیْھِمْ رَبُّکَ سَوْطَ عَذَاب“ کا منظر آج ہر شخص کو کھلی آنکھوں نظر آرہا ہے۔
آپ إيٹمي پاور پاكستان كي هي مثال لے ليجيے جو الله تعالى اور اس كے رسول (صلى الله عليه وآله وسلم) كے آحكام نافذ كرنے كے ليے هي معرض وجود ميں آيا تها بلكه إس مقصد كے ليے الله تعالى سے مانگ كر ليا تها اپني إبتداء سے اب تك سودي نظام كي پاليسي پر هي گامزن هے - باوجود إس كے يهاں پر بهترين زراعت - طرح طرح كي معدنيات اور إس سے بهي بڑه كر يه كه دنيا كي بهترين أفرادي قوت وافر مقدار ميں موجود هے ليكن پهر بهي ملک برى طرح مقروض ہے، دنيا كي بهترين فوج كے هوتے هوئے بهي نوّے ہزار جوان ذلیل بنیوں کے ہاتھ میں قیدی ره چکے ہيں، دِلوں کا سکون چھن چکا ہے، راتوں کی نیند حرام ہوچکی ہے، سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ”روٹی، روٹی“ کی پکار چاروں طرف سے سنائی دے رہی ہے، لیکن وائے حسرت اور بدبختی کہ اب بھی عبرت نہیں ہوتی، بلکہ ہمارے درباري مولوي پروانہٴ ”رُخصت“ لئے پہنچ جاتے ہیں۔ اور حالات کی دُہائی دے کر سود کو حلال کرنے کے لئے ذہانت طباعی کے جوہر دِکھاتے ہیں۔ قرآنِ کریم، الله تعالى اور رسول (صلى الله عليه وآله وسلم) کے ساتھ ”صلح“ کو سود چھوڑ دینے کے ساتھ مشروط کرتا ہے، اور جو لوگ سود چھوڑ دینے کا اعلان نہ کریں انہیں كوئي رعايت نهيں ديتا لیکن همارے سياسي قائدين فرماتے ہیں کہ سود بھی کھاوٴ اور مسلمان بھی رہو، سود کا لین دین خوب کرو اور میدانِ جنگ میں خدائی عذاب کے ایٹم بم سے حفاظت کے لئے اُصولِ رُخصت کی خانہ ساز ململ سركارى مولويوں سے لیتے جاوٴ․․․!
يه درباري مولوي لوگوں كو بتائیں کہ ”سودخور“ کے خلاف تو قرآنِ کریم اعلانِ جنگ کرچکا ہے، قرآنِ کریم کی وہ کون سی آیت ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ان کی خود ساختہ مجبوری میں ”سود خور“ کی ”صلح“ الله تعالى اور رسول (صلى الله عليه وآله وسلم) سے ہوسکتی ہے اور حالات کا بہانہ بنا کر الله اور رسول (صلى الله عليه وآله وسلم) کو میدانِ جنگ سے واپس کیا جاسکتا ہے؟ انہیں ”الف“، ”ب“، ”ج“ کے خود ساخته غلط حوالے دینے کے بجائے قرآنِ کریم کے حوالے سے بتانا چاہئے کہ اس اعلانِ جنگ سے فلاں فلاں صورتیں مستثنیٰ ہیں۔ معلوم ہونا چاہئے کہ ”سود خور“ بہ نصِ قرآن، الله تعالى اور رسول (صلى الله عليه وآله وسلم) سے جنگ لڑ رہا ہے، خواہ امریکہ کا باشندہ ہو - إنڈيا كا هو یا پاکستان کا، اس کی صلح الله تعالى اور رسول(صلى الله عليه وآله وسلم) سے نہیں ہوسکتی، جب تک وہ اپنے اس بدترین جرم سے باز آنے کا عہد نہیں کرتا۔ نہ آپ کی نام نہاد ”رُخصت“ کا تارِ عنکبوت اسے خدائی گرفت سے بچا سکتا ہے۔
قرآنِ کریم کے بعد حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم کو لیجئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے نہ صرف سود کھانے، کھلانے والوں پر بلکہ اس کے کاتب و شاہد پر بھی لعنت کی بد دُعا کی ہے، اور انہیں راندہٴ بارگاہِ خداوندی ٹھہرایا ہے: چنانچه حديث مباركه هے
”عن علی رضی الله عنہ أنہ سمع رسول الله صلی الله علیہ وسلم لعن آکل الربا أو موکلہ وکاتبہ۔“ (مشکوٰة )
حضرت علي رضي الله تعالى عنه فرماتے هيں كه ميں نے رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم سے سنا كه سود لينے والے - سود دينے والے اور إسكے لكهنے والے پر الله تعالى كي لعنت
ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ:
”عن عبدالله بن حنظلة غسیل الملائکة قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: درھم ربا یأکلہ الرجل وھو یعلم أشد من ستة وثلاثین زنیةً۔“ (مشکوٰة )
ترجمہ:… ”سود کا ایک درہم کھانا 36 بار زنا کرنے سے بدتر ہے۔“
اور ایک حدیث میں ہے کہ:
”عن أبی ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وآله وسلم: الربا سبعون جزءً أیسرھا أن ینکح الرجل أمہ۔“ (مشکوٰة)
ترجمہ:… ”سود کے ستر درجے ہیں، اور سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے سے منه كالا کرے۔“
کیا دُنیا کا کوئی عاقل ”مجبوری“ کے بہانے سے لعنت خریدنے، 36 بار زنا کرنے اور اپنی ماں سے منہ کالا کرنے کی ”رُخصت“ دے سکتا ہے․․․؟
”مجبوری“ کسے کہتے ہیں؟ اور آیا جس مجبوری کی حالت میں مردار کھانے کی ”رُخصت“ دی گئی ہے، وہ مجبوری آج کے کسی ایک فرد کو بھی لاحق ہے․․․؟
دینیات کا معمولی طالب علم بھی جانتا ہے کہ جس ”مجبوری“ میں مردار کھانے کی اجازت دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص کئی دن کے متواتر فاقے کی وجہ سے جاں بلب ہو اور اسے خدا کی زمین پر کوئی پاک چیز ایسی نہ مل سکے جس سے وہ تن بدن کا رشتہ قائم رکھ سکے، تو اس کے لئے سدِ رمق کی بقدر حرام چیز کھا کر اپنی جان بچانے کی اجازت ہے، اور اس میں قرآنِ کریم نے ”غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ“ کی کڑی شرط لگا رکھی ہے۔
موجوده زمانه كے سود خوروں میں کون ایسا ہے جس پر ”تین دن سے زیادہ فاقہ“ گزر رہا ہو اور اسے جان بچانے کے لئے گھاس، ترکاری بھی میسر نہ ہو․․․؟

مضاربت کا کاروبار کرنے والے بینک میں رقم جمع کرانا:
اگر اس رقم کو مضاربت کے صحیح اُصولوں کے مطابق تجارت میں لگایا جاتا ہے تو يقيناً جائز ہے، لیکن اگر محض نام ہی نام ہے، تو نام کے بدلنے سے اَحکام نہیں بدلتے۔ إسي طرح سود کے بغیر بینک میں رکھا ہوا پیسہ حلال ہے-
متعین شرح پر روپیہ دینا سود ہے، یہ کسی طرح بھی حلال نہیں، آپ اپنا سرمایہ کسی ایسے ادارے میں لگائیں جو جائز کاروبار کرتا ہو، اور حاصل شدہ منافع تقسیم کرتا ہو۔

إنعامي بانڈ ، لاٹرى اور سرٹیفکیٹ وغيره:
شرعاً یہ بهي سود هي ہے، بلكه سود كي إيك قبيح ترين شكل هے كيونكه إن ميں تو جوا وغيره كي آميزش بهي شامل هے جس سے باز نہ آنے والوں کے خلاف اللہ تعالیٰ نے اعلانِ جنگ کیا ہے۔ مسلمانوں کو اس سے توبہ کرنی چاہئے اور جن لوگوں نے ایسی كسي قسم میں رقم لگا رکھی ہو، انہیں یہ رقم واپس لے لینی چاہئے۔

زَرِ ضمانت پر سود لینا:
زَرِ ضمانت پر منافع لينا بهي صريحاً سود ہے اور اس کا لینا حرام ہے۔ ہر وہ منافع جو کسی مال پر بلاعوض دیا جائے وہ سود ہے۔ فقہ کا مشہور اُصول ہے: ”ہر وہ قرض جس سے کوئی نفع اُٹھایا جائے، تو وہ نفع سود ہے“ لہٰذا مذکورہ منافع سود ہے اور حرام ہے۔ واضح رہے کہ بینک میں جو رقم جمع کی جاتی ہے، چاہے اپنی مرضی سے یا مجبوراً جمع کرے، بینک کی طرف سے اس پر ایک متعین شرح دی جاتی ہے، چونکہ یہ شرح دینا معروف ہے اور ”المعروف کالمشروط“ کے تحت جو شرح وہ دیتے ہیں، وہ سود ہی ہے، لہٰذا اس کا لینا حرام ہے۔ کسی غریب آدمی کے لئے رقم قرض دے کر سود لینا جائز نہیں، جیسا کہ امیر آدمی کے لئے جائز نہیں ہے۔
الله تعالى سے دعا هے كه الله تعالى هر هر مسلمان كو سود جيسي لعنت سے محفوظ ركهے اور هميں الله اور اسكے رسول (صلى الله عليه وآله وسلم ) كے آحكام كي أطاعت كرنے كي توفيق عنايت فرمائے (آمين)

 ميراث كي تقسيم ميں دوسروں كے حق كو غصب كرنا:  
 ويسے تو هزاروں إيسے طريقے إيجاد كرلئے گئے هيں جن سے دوسروں كے حقوق غصب كيے جاتے هيں انكا بيان إن صفحات پر كرنا ممكن بهي نهيں ليكن حقوق غصب كرنے كے طريقوں ميں إيك اور طريقه جو همارے معاشره ميں موجود هے اور بدقسمتي سے إس لعنت ميں دنياداروں كے ساتهـ ديندار لوگ بهي برى طرح ملوث هيں وه هے تقسيم ميراث كے حواله سے الله تعالى كے حكم كا عملي طور پر إنكار كرنا اور دوسروں كے حق كو غصب كرنا بلكه ديكها يه گيا هے كه دنياداروں كو تو جب قرآن مجيد ميں الله كا حكم بتايا جاتا هے تو وه الله تعالى كے خوف سے سهم جاتے هيں اور أكثر أوقات مان بهي جاتے هيں اور الله تعالى كے حكم كے مطابق إس كو حل كرليتے هيں ليكن دين داري كے دعويويداروں كو جو خود بهي إس خدائى حد سے بخوبي واقف هوتے هيں اور پهر أنهيں كتنا هي الله تعالى كا حكم بتائيں ليكن ان كے اندر خوف خدا نهيں آتا وه الله تعالى كے حكم اور اپني موت كے بعد كي زندگي سے بے پرواه هوكر اپنے هي دلائل پر ڈٹے رهتے هيں
يه بهي ديكها گيا هے كه يه لوگ دوسري قباحتوں مثلاً چوري - رشوت - سود وغيره سے تو اپنے آپ كو بچانے كي كوشش كرتے هيں ليكن تقسيم ميراث ميں هيرا پهيرى كرنا گويا اپنا حق سمجهتـے هيں إن پر وهي مثال صادق آتي هے كه إيك شخص شراب تو نهيں پيتا كه وه حرام هے ليكن بے دهڑك اپنا هي پيشاب بغير كسي ركاوٹ كے پيتا هے إس ميں كوئى قباحت اور كراهت محسوس نهيں كرتا حالانكه شريعت كے مطابق دونوں حرام هيں
قرآن و حديث ميں ميراث كي تقسيم ميں كسي قسم كي هيرا پهيري كرنے والوں كے لئے بهت سخت وعيديں وارد هوئى هيں الله تعالى كے إس حكم كو بجالانے والوں كے لئے جنت كي بشارت اور إس سے كسي بهي طريقه سے روگرداني كرنے والوں كو دوزخ كي وعيد سنائى گئى هے درآصل اسلام کی نظر میں يه کس قدر گھناوٴنا اخلاقی، معاشی اور معاشرتی جرم ہے، اس کا اندازہ اس حقیقت سے کیا جاسکتا ہے کہ قرآن مجيد ميں إسے تفصيل كے ساتهـ بيان كيا گيا هے اور تمام حقداروں كے حصوں كي وضاحت بهي بالتفصيل كردي گئ هے ليكن مقام أفسوس هے كه دنيادار تو كيا ديندار لوگ بهي بهت ڈهٹائى كے ساتهـ الله تعالى كي إس حكم كو (جيسے الله كي حدود كها كيا هے ) توڑتے هوئے نظر آتے هيں اورقرآن مجيد كے إس كهلے حكم كے مقابله ميں اپنے هندؤانه دلائل دينے كي جسارت كرتے هيں مثلاً بيٹيوں كو كيونكه جهيز دے ديا جاتا هے إس لئے ميراث ميں ان كا كوئى حصه نهيں ، همارے خاندان ميں إسے بهت برا سمجها جاتا هے ، پهلے تو بيٹياں اپنا حصه نهيں ليتي تهيں يه إيك نئى ريت كيوں چلائى جا رهي هے - هماري ماں نے تو اپنے بهائيوں سے حصه نهيں ليا تها تو يه كيوں اپنا حصه طلب كررهي هيں وغيره وغيره گويا الله تعالى كے حكم كے مقابله ميں اپني عقل كے گهوڑے دوڑاے جارهے هيں
بعض لوگ تو اور بهي ظلم كرتے هيں كه اپنى زندگي ميں إيسي صورت حال پيدا كرديتے هيں كه بيٹياں اپنے حق سے محروم هوجائيں اور بعض اپني وصيت سے ان كو محروم كرنے كي كوشش كرتے هيں گويا اپنے لئے هميشه هميشه كے لئے آگ كے انگاروں كا إنتظام كرليتے هيں بهرحال يه سب شيطان كا دهوكه هے اور حكم خداوندي توڑنے والونكي بدقسمتي هے كه وه الله تعالى كے حكم كے مقابله پر هيں جسكا جواب بهرحال انهيں قيامت والے دن دينا هوگا

مالِ وِراثت:
کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کا چھوڑا ہوا مال’’ میراث‘‘ کہلاتا ہے اور اسے منتخب اصول و قوانین کے مطابق میت کے رشتہ داروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ میراث کی تقسیم میں دنیا کی مختلف قوموں میں مختلف طریقے رائج رہے ہیں ، جیسے جاہلیت ِعرب کے لوگ عورتوں اور بچوں کو میراث کے مال سے محروم رکھتے تھے، ان میں جو زیادہ طاقت ور اور بااثر ہوتا، وہ کسی تامل کے بغیرساری میراث سمیٹ لیتا اورکمزوروں کا حصہ چھین لیتا جبکہ برصغیر کی قومیں اور دیگر علاقوں کےلوگ عورتوں کو حصہ بالکل نہ دیتے تھے۔ یہ سب طریقے اعتدال سے دور اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھے۔

تقسیمِ میراث اور دین ِاسلام کا اعزاز:
دین ِاسلام کا یہ اعزازہے کہ اس نے جہاں دیگر معاملات میں افراط و تفریط کو ختم کیا وہیں ’’تقسیمِ میراث‘‘ کے معاملے میں بہترین طریقہ عطا فرمایا، محروموں کو حق دیا اور جابروں کو ان کی حدود میں رکھا اور ہر ایک کو اس کے مناسب حصہ عطا فرما دیا جیسے بطورِ خاص عورتوں اور یتیم بچوں کے حوالے سے خصوصی احکامات دئیے، عورتوں اور بچوں کو وراثت سے حصہ نہ دینے کی رسم کو باطل کرتے ہوئے قرآنِ مجید نے مرد وعورت میں سے ہر ایک کو اس کے والدین اور دیگر رشتہ داروں کے مالِ وراثت میں حصہ دار قرار دیا ہے اور خاص طور پر یتیم بچوں کے مال کی حفاظت کرنے، بوقت ِ ضرورت انہیں ان کا مال دے دینے اور ان کے مال میں ہرقسم کی خیانت سے بچنے کا نہایت تاکیدی حکم دیا، اور ان کا مال کھانے کو اپنے پیٹ میں آگ بھرنا قرار دیتے ہوئے جہنم میں جانے کا سبب قرار دیا ہے جبکہ یتیم کے سرپرستوں کو تنبیہ و نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایسے لوگوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ اگر یہ انتقال کرجاتے اور اپنے پیچھے کمزور اولاد چھوڑجاتے تو ان کا کیا ہوتا تو جس طرح اپنی اولاد کے بارے میں فکر مند ہوتے اسی طرح دوسروں کی یتیم اولاد کے بارے میں فکر مند ہوں اور ان کے مال کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے خوف کرتے ہوئے احکامِ دین پر عمل کریں۔

تقسیمِ میراث اور فی زمانہ مسلمانوں کا حال:
خوف ِ خدا اور فکر ِآخرت رکھنے والے مسلمان کے لئے بیان کردہ احکامِ قرآنیہ ہی نصیحت کے لئے کافی ہیں لیکن افسوس کہ مسلمانوں میں کثرت سے دیگر مالی معاملات کی طرح وراثت کی تقسیم کے حکمِ قرآنی میں بھی بڑی کوتاہیاں واقع ہو رہی ہیں ، گویا میراث کی تقسیم میں جو ظلم اور اِفراط و تفریط دین ِاسلام سے پہلے دنیا میں پایا جاتا تھا وہی آج مختلف صورتوں میں مسلمانوں کے اندر بھی پایا جارہا ہے، جیسے لاعلمی کی بنا پر عاق شدہ اولاد یا بیٹیوں کو وراثت نہیں دی جاتی، یونہی بہت جگہ ان بیوہ عورتوں کو شوہر کی وراثت سے محروم کردیا جاتا ہے جو دوسری شادی کر لیں ، جبکہ بہت سی جگہوں پر بطورِ ظلم یتیم بچوں کا مالِ وراثت چچا، تایا وغیرہ کے ظلم و ستم کا شکارہوجاتا ہے۔
اس سنگین صورتِ حال کے پیش ِنظر اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وراثت کے متعلق دئیے ہوئے احکامات پر عمل کی طرف راغب کرنے اور اِن احکام کی خلاف ورزی کرنے پر عذابِ الٰہی سے ڈرانے کے لئے علماء كرام نے بهت سي كتابيں تصنيف فرمائي هيں تاكه ٰ مسلماں إن سے نفع اٹهائيں اور إن کا مطالعہ کر کے انہیں اپنی اصلاح کی کوشش کرنے کی توفیق مل جائے،اٰمین۔

دین ِاسلام اور احکامِ میراث:
میراث کی تقسیم چونکہ ایک اہم معاملہ ہے اور اس میں ظلم و ستم، حق تلفی، مالی بددیانتی اور آپس میں لڑائی فساد کا بہت اندیشہ ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ’’میراث‘‘ کے اکثر اَحکام قرآنِ پاک میں بڑی وضاحت سے بیان فرمائے ہیں اور اِن پر عمل کرنے کو متعدد انداز میں تاکید کے ساتھ بیان فرمایا جیسے شروع میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے اور یہ حکم بیان کرکے میراث کی تقسیم کا طریقہ بیان فرمایا،
یُوۡصِیۡکُمُ اللہُ فِیۡۤ اَوْلٰدِکُمْ ٭ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ۚ فَاِنۡ کُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیۡنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ۚ وَ اِنۡ کَانَتْ وٰحِدَۃً فَلَہَا النِّصْفُ ؕ وَ لِاَبَوَیۡہِ لِکُلِّ وٰحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنۡ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ لَّمْ یَکُنۡ لَّہٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَہٗۤ اَبَوَاہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَہٗۤ اِخْوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنۡۢ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصِیۡ بِہَاۤ اَوْدَیۡنٍ ؕ ()…(النساء)
ترجمۂ : اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے، بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے پھر اگر صرف لڑکیاں ہوں اگرچہ دو سے اوپر تو ان کے لئے ترکے کا دو تہائی حصہ ہوگا اور اگر ایک لڑکی ہو تو اس کے لئے آدھا حصہ ہے اوراگر میت کی اولاد ہوتو میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لئے ترکے سے چھٹا حصہ ہوگا پھر اگرمیت کی اولاد نہ ہو اور ماں باپ چھوڑے تو ماں کے لئے تہا ئی حصہ ہے پھر اگر اس (میت) کے کئی بہن بھا ئی ہو ں تو ماں کا چھٹا حصہ ہوگا، (یہ سب احکام) اس وصیت (کو پورا کرنے) کے بعد (ہوں گے) جو وہ(فوت ہونے والا) کر گیا اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہوں گے۔)

اور الله تعالى ارشاد فرماتا ہے :
وَلَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ اَزْوٰجُکُمْ اِنۡ لَّمْ یَکُنۡ لَّہُنَّ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَہُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ مِنۡۢ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصِیۡنَ بِہَاۤ اَوْدَیۡنٍ ؕ وَلَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنۡ لَّمْ یَکُنۡ لَّکُمْ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوۡصُوۡنَ بِہَاۤ اَوْدَیۡنٍ ؕ وَ اِنۡ کَانَ رَجُلٌ یُّوۡرَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امْرَاَ ۃٌ وَّلَہٗۤ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِکُلِّ وٰحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ ۚ فَاِنۡ کَانُوۡۤا اَکْثَرَ مِنۡ ذٰلِکَ فَہُمْ شُرَکَآءُ فِی الثُّلُثِ مِنۡۢ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصٰی بِہَاۤ اَوْدَیۡنٍ ۙ غَیۡرَ مُضَآرٍّ ۚ وَصِیَّۃً مِّنَ اللہِ ؕ وَاللہُ عَلِیۡمٌ حَلِیۡمٌ ﴿﴾
ترجمۂ: اور تمہاری بیویاں جو (مال) چھوڑ جائیں اگر ان کی اولاد نہ ہو تواس میں سے تمہارے لئے آدھا حصہ ہے، پھر اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے ترکہ میں سے تمہارے لئے چوتھائی حصہ ہے۔ (یہ حصے) اس وصیت کے بعد (ہوں گے) جو انہوں نے کی ہو اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہوں گے) اور اگر تمہارے اولاد نہ ہو توتمہارے ترکہ میں سے عورتوں کے لئے چوتھائی حصہ ہے، پھر اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے (یہ حصے) اس وصیت کے بعد (ہوں گے) جو وصیت تم کر جاؤ اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہوں گے۔) اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کا ترکہ تقسیم کیا جانا ہو جس نے ماں باپ اوراولاد (میں سے) کوئی نہ چھوڑا اور (صرف) ماں کی طرف سے اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہوگاپھر اگر وہ (ماں کی طرف والے) بہن بھائی ایک سے زیادہ ہوں تو سب تہائی میں شریک ہوں گے (یہ دونوں صورتیں بھی) میت کی اس وصیت اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد ہوں گی جس (وصیت) میں اس نے (ورثاء کو) نقصان نہ پہنچایا ہو۔ یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے اور اللہ بڑے علم والا، بڑے حلم والا ہے۔
میراث میں جو حصے مقرر کیے گئے، ان کی مقدار کی مکمل حکمت اور مصلحت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، ہماری عقل و شعور کو اس کی گہرائی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حصے بیان کرنے کے بعد واضح طور پر ارشاد فرما دیا کہ
اٰبَآؤُکُمْ وَاَبۡنَآؤُکُمْ لَا تَدْرُوۡنَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللہِ ؕ اِنَّ اللہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ﴿﴾
ترجمۂ: تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ ان میں کون تمہیں زیادہ نفع دے گا، (یہ) اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصہ ہے۔ بیشک اللہ بڑا علم والا (اور) حکمت والا ہے۔
اللہ تعالیٰ مزید ارشاد فرماتا ہے:
تِلْکَ حُدُوۡدُ اللہِ ؕ وَمَنۡ یُّطِعِ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیۡ مِنۡ تَحْتِہَا الۡاَنْہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیۡمُ 0 وَمَنۡ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خٰلِدًا فِیۡہَا ۪ وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ0
ترجمۂ : یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرے تو اللہ اسے جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ ہمیشہ ان میں رہیں گے، اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی (تمام) حدوں سے گزر جائے تواللہ اسے آگ میں داخل کرے گا جس میں (وہ) ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے۔

تقسیمِ میراث کی اہمیت:
وراثت میں ہر وارث کو اس کا حق دینا کتنا ضروری ہے اس کا اندازہ اِس رکوع میں بیان کردہ چیزوں سے لگائیں :
(1)…شروع میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں وراثت تقسیم کرنے کا حکم دیتا ہے۔
(2)…رکوع کے آخر میں فرمایاکہ وراثت کے احکام اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدیں ہیں جنہیں توڑنے کی اجازت نہیں۔
(3)…جو وراثت کو کَماحَقُّہٗ تقسیم کرکے اطاعت ِالٰہی کرے گا اور حدودِ الٰہی کی پاسداری کرے گا وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جنت کے باغوں میں داخل ہوگا
(4)…جو وراثت میں دوسرے کا حق مارے گا اور حدودِ الٰہی کو توڑے گا وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نافرمان ہے۔
(5 حدودِ الٰہی کو توڑنے والا شخص جہنم کی بھڑکتی آگ میں داخل ہوگا۔
(6)…اور جو شخص وراثت کے ان احکام کو مانتا ہی نہیں اور اس وجہ سے عمل بھی نہیں کرتا وہ تو ہمیشہ کیلئے جہنم میں جائے گا اور اس کیلئے رسوا کن عذاب ہے۔

میراث سے متعلق بزرگانِ دین کی احتیاطیں :
اے کاش کہ مذکورہ بالا وعیدوں کو پڑھ کر ہر مسلمان اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دئیے ہوئے احکامات کے مطابق ہی میراث کو تقسیم کرے اور ان کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی سخت گرفت اور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کے رسوا کن عذاب میں مبتلا ہونے سے ڈرے۔ تقسیمِ میراث کی اسی اہمیت کے پیش ِنظر ہمارے بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن اس معاملے میں کس قدر احتیاط فرماتے تھے یہاں ا س کی کچھ جھلک ملاحظہ ہو

مالِ وراثت کا چراغ بجھادیا:
مروی ہے کہ ایک بزرگ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کسی قریبُ الْمرگ شخص کے پاس موجود تھے رات میں جس وقت وہ فوت ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ چراغ بجھا دو کہ اب اس کے تیل میں ورثاء کا حق شامل ہوگیا ہے۔

مالِ وراثت کی چٹائی استعمال کرنے سے منع کر دیا :
حضرت عبدالرحمن بن مہدی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ جب میرے چچا کا انتقال ہوا تو میرے والد بے ہوش ہوگئے، ہوش آنے پر فرمایا کہ چٹائی کو ورثاء کے ترکہ میں داخل کردو (اور اسے اب استعمال نہ کرو کیونکہ اس میں ورثاء کا حق شامل ہوگیا ہے۔)

مالِ وراثت کی چٹائی استعمال کرنے والے کو تنبیہ:
حضرت ابنِ ابی خالد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : میں حضرت ابو العباس خطاب رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ساتھ تھا، آپ ایک ایسے شخص کی تعزیت کے لئے حاضرہوئے کہ جس کی بیوی کا انتقال ہوگیا تھا،آپ نے گھر میں ایک چٹائی بچھی ہوئی دیکھی تو گھر کے دروازے پر ہی کھڑے ہوگئے اور اس شخص سے فرمایا : کیا تیرے علاوہ بھی کوئی وارث ہے ؟ اس نے جواب دیا : جی ہاں ! آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: تیرا اُس چیز پر بیٹھنا کیسا ہے جس کا تو مالک نہیں۔تو وہ شخص (اس تنبیہ کے بعد) اُس چٹائی سے اُٹھ گیا۔
یہ تو کسی کے انتقال کے بعد ا س کے مال سے متعلق بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن کا حال تھا جبکہ اپنے مال اور اس کے ہونے والے ورثاء کے حوالے سے بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن کس قدر محتاط تھے، اس کی جھلک بھی ملاحظہ ہو

میں نے اپنی اولاد کو دوسروں کا حق نہیں دیا:
چنانچہ مروی ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے وصال کے وقت مسلمہ بن عبدالملک ان کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی:اے امیرالمؤمنین! آپ نے ایسا کام کیا ہے جو آپ سے پہلے کسی نے نہیں کیا،وہ یہ کہ آپ نے اولاد تو چھوڑی ہے لیکن ان کے لئے مال نہیں چھوڑا (کیونکہ آپ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ کے پاس مال تھا ہی نہیں بلکہ وہ تنگدستی کی زندگی گزار رہے تھے)۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا:مجھے بٹھا دو۔ چنانچہ آپ کو بٹھا دیا گیا،پھرآپ نے فرمایا: تم نے جو یہ کہا کہ میں نے اپنی اولاد کے لئے مال نہیں چھوڑا،اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں نے ان کا حق ماردیا ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ میں نے انہیں دوسروں کا حق نہیں دیا اور میری اولاد کی دو میں سے کوئی ایک حالت ہو گی:
(1)…وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں گے۔اس صورت میں اللہ تعالیٰ انہیں کافی ہو گا کیونکہ وہ نیکوں کا والی ہے۔
(2)…وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کریں گے۔اس صورت میں مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا (کیونکہ وہ اپنے اعمال کے خود جواب دہ ہیں۔)

اپنے مال سے متعلق ایک شرعی حکم:
مذکورہ بالا حکایات کو سامنے رکھتے ہوئے ہر شخص اپنے حال پر غور کر سکتا
ہے کہ اسے مالِ وراثت سے متعلق کس قدر احتیاط کرنے کی ضرورت ہے، یہاں اس حکایت کی مناسبت سے ایک شرعی حکم یاد رکھیں کہ اپنا تمام مال راہِ خدا میں خرچ کردینا اور اپنے ورثاء کو محتاج چھوڑنا درست نہیں ، لہٰذا اگر اپنے مال کو نیک کاموں میں خرچ کرنے کی وصیت کرنی بھی ہو تو ایک تہائی سے کم اور زیادہ سے زیادہ ایک تہائی تک وصیت کرنے کی اجازت ہے اوربقیہ دو تہائی مال ورثاء کے لئے چھوڑا جائے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’اِنَّکَ اِنْ تَرَکْتَ وَلَدَکَ اَغْنِیَائَ خَیْرٌ مِّنْ اَنْ تَتْرُکَھُمْ عَالَۃًَ یَّتَکَفَّفُوْنَ النَّاسَ‘‘
تیرا اپنے ورثاء کو غنی چھوڑنا اس سے بہتر ہے کہ تو انہیں محتاج چھوڑے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔

تقسیمِ میراث کے فوائد و برکات:
دین ِاسلام نے مسلمانوں کو جو بھی احکامات اور اصول و قوانین دئیے سبھی دنیا و آخرت کی بے شمار بھلائیوں ، برکتوں ، رحمتوں اور فوائد کے حامل ہیں ، یہاں اسلامی اصول و قوانین کے مطابق میراث تقسیم کرنے کے اُخروی اور دُنْیَوی فوائد و برکات ملاحظہ ہوں :
(1)…شرعی احکام کے مطابق میراث تقسیم کرنے سے اللہ تعالیٰ کی بهت زياده رضا حاصل ہوتی ہے
(2)…میراث کے شرعی احکام پر عمل کرنے والا جنت کا حق دار ہوتا ہے اور جہنم کے رُسوا کن عذاب سے بچ جاتا ہے اور یہ بہت بڑی اُخروی کامیابی ہے۔
(3)…تقسیمِ میراث کے اسلامی احکام پر عمل کرنے سے اگر دوسروں کو ترغیب ملے تو إس كا ثواب بهي إس كو ملتا هے
(4)…شرعی قوانین کے مطابق میراث میں ملنے والا مال حلال ہوتا ہے اور حلال مال سے کی جانے والی مالی عبادتیں قبول ہوتی ہیں اوران کا قبول ہو جانا بہت بڑا اُخروی سرمایہ ہے۔
(5)…شرعی اُصولوں کے مطابق میراث تقسیم کرنے سے دولت کی منصفانہ تقسیم ہوتی ہے ورنہ عموماً لڑائی جھگڑے ہی ہوتے ہیں۔
(6)…کمزور عزیز و اَقارب، عورتوں اور بچوں کو وراثت سے ان کا حصہ دینا ان کی خیرخواہی کرنے کی بھی ایک صورت ہے اور مسلمان کی خیر خواہی دین کا ایک بنیادی مقصد ہے، نیز اس سے ان کی دعائیں ، ہمدردی اور محبت بهي ملتي هے جو إيك بهت بڑا سرمايه هے
(7)…شریعت کے مطابق میراث تقسیم کرنے والا ظالموں اور غاصبوں کی صف میں شامل ہونے، وارثوں کی دشمنی، بغض و حسد اور لوگوں کے طعن و تشنیع سے بچ جاتا ہے۔

اسلامی احکام کے مطابق میراث تقسیم نہ کرنے کے نقصانات:
جس طرح اسلامی احکام کے مطابق میراث کا مال تقسیم کرنے کے کثیر اُخروی اور دُنیوی فوائد وبرکات ہیں ، اسی طرح شریعت کے مطابق میراث تقسیم نہ کر نے کے دنیا و آخرت دونوں میں بہت سے نقصانات بھی ہیں ، یہاں ان میں سے كچهـ نقصانات ملاحظہ ہوں
1)…شریعت کے مطابق میراث تقسیم نہ کرنا اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی اور ا س کی حدوں کو توڑنا ہے اور ایسے شخص کے لئے قرآنِ مجید میں جہنم کے عذاب کی وعید بیان کی گئی ہے۔
(2)…وارث کے مال پر قبضہ جمانے والے سے قیامت کے انتہائی خوفناک دن میں ایک ایک پائی کا حساب لیا جائے گا اور ہر حق دار کو اس کا حق ضرور دلایا جائے گا۔
(3)…اسلامی اصولوں کے مطابق میراث تقسیم نہ کرنا اور وارثوں کو ان کے حق سے كسي طرح محروم کرنا اسلامی طریقے سے ہٹنا اورکفار کے طریقے پر چلنا ہے جو ہرگز مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔
(4)…میراث کے حق داروں کا مال کھانے والا، ظالم اور کئی صورتوں میں غاصب ہے اور ایسا شخص ظلم و غصب کی بنا پرجہنم کا مستحق ہے۔
(5)…دوسرے کی میراث پر قبضے کا مال ’’مالِ حرام ‘‘ہے، اور حرام مال سے کیا گیا صدقہ مردود ہے اور ایسے شخص کی دعا بھی قبول نہیں ہوتی۔
(6)…دوسروں کی میراث کا مال کھانے سے کمزور لوگوں کی بددعائیں ملتی ہیں اور مظلوم کی بد دعا بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہے۔
(7)…میراث کا مال نہ دینے سے دشمنیاں پیدا ہوتی ہیں اورایسا شخص لوگوں کی نظر میں ذلت و رسوائی کا شکار ہوتا ہے۔

مالِ وراثت کے تعلق سے ہونے والے بڑے گناہ:
 الله كرے کہ ہمارا ذہن ایسا ہوجائے کہ ان گناہوں کوجاننے اور ان کی وعیدیں پڑھنے كے بعد ہم پكي توبه كرليں اور آئنده كے لئے إن گناهوں سے اِجتناب برتيں تاكه ہم بھی ان لوگوں کے گروہ میں شامل ہوجائیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
 الَّذِیۡنَ یَسْتَمِعُوۡنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوۡنَ اَحْسَنَہٗ ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ ہَدٰىہُمُ اللہُ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمْ اُولُوا الْاَلْبابِ0
ترجمہ : جو کان لگا کر بات سنتے ہیں پھر اس کی بہتر بات کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی اور یہی عقلمند ہیں۔
مالِ وراثت کے حوالے سے لوگوں میں پائے جانے والے بڑے بڑے گناہ یہ ہیں۔

پہلا گناہ : وصیت کے ذریعے وارثوں کو محروم کرنا:
مرنے والے کے لئے مستحب یہ ہے کہ وہ اپنے مال سے متعلق وصیت کر جائے اور اسلامی حکم کے مطابق اپنے مال کے ایک تہائی حصے تک وصیت کی اجازت ہے، مگر افسوس کہ ہمارے معاشرے میں میراث سے محروم کرنے کی یہ صورت بھی عام ہے کہ دُنْیَوی رنجشوں اور ناراضیوں کی بنا پر بہت سے لوگ یہ وصیت کر کے مرتے ہیں کہ میرے مال میں سے فلاں کو ایک پائی تک نہ دی جائے، حالانکہ شرعی طورپر وہ اس کے مال کا حق دار ہوتا ہے، ایسے افراد کے لئے درج ذیل دو اَحادیث مباركه میں بڑی وعيديں هيں:

پہلی وعید :
وصیت کے ذریعے وارث کو نقصان پہنچانے والا نارِ جہنم کا مستحق ہے:
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تعالى عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:’’مرد و عورت ساٹھ سال (یعنی بہت لمبے عرصے) تک اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے رہیں ، پھر ان کی موت کا وقت قریب آجائے اوروہ وصیّت میں (کسی وارث کو) نقصان پہنچائیں ، تو ان کے لئے جہنم کی آگ واجب ہوجاتی ہے۔()

دوسری وعید:
اپنی وصیت میں خیانت کرنا بُرے خاتمے کا سبب ہے:
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کوئی آدمی ستّر برس تک جنتیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے پھر اپنی وصیت میں خیانت کر بیٹھتا ہے تو اس کا خاتمہ بُرے عمل پر ہوتا ہے اور وہ جہنم میں داخل ہوجاتا ہے اور کوئی شخص ستّر برس تک جہنمیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے پھر اپنی وصیت میں انصاف سے کام لیتا ہے تو اس کا خاتمہ اچھے عمل پر ہوتا ہے اور وہ جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔()

دوسرا گناہ:
 مستحق وارث کو اس کا حصہ نہ دینا:
دوسرا بڑ اگناہ یہ ہے کہ کئی صورتوں میں جہالت کی وجہ سے اورکئی جگہ غفلت کی وجہ سے اور کئی جگہ ظلم کی وجہ سے مستحق وارث کو اس کا حصہ نہیں دیا جاتا جیسے بہت سی صورتوں میں بہنوں یا بھائیوں یا نانی، دادی، دادا کا وراثت میں حصہ بن رہا ہوتا ہے لیکن لاعلمی کی وجہ سے نہیں دیا جاتا اوریونہی ماں کا حصہ بنتا ہے لیکن غفلت کی وجہ سے نہیں دیا جاتا جبکہ ظلما ًنہ دینا تو واضح ہی ہے۔ ان صورتوں کے حوالے سے ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان سب سے مقدم ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارا دین ہمیں کیا حکم دے رہا ہے اور میراث سے محروم کرنے والوں كے لئے کیا وعیدیں هيں :
وارث کو اس کا حصہ دینا اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت ہے جبکہ اسے محروم کر دینا کافروں کا طرزِ عمل، احکامِ الٰہی کی صریح خلاف ورزی اورجہنم میں لے جانے والا عمل ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
 وَ تَاۡکُلُوۡنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا 0 وَّ تُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا 0 
ترجمۂ: اور میراث کا سارا مال جمع کرکے کھا جاتے ہو۔ اور مال سے بہت زیادہ محبت رکھتے ہو۔
اورمیراث کے احکام کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

تِلْکَ حُدُوۡدُ اللہِ ؕ وَمَنۡ یُّطِعِ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیۡ مِنۡ تَحْتِہَا الۡاَنْہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیۡمُ ﴿﴾ وَمَنۡ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خٰلِدًا فِیۡہَا ۪ وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ()
ترجمۂ: یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرے تو اللہ اسے جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ ہمیشہ ان میں رہیں گے، اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی (تمام) حدوں سے گزر جائے تو اللہ اسے آگ میں داخل کرے گا جس میں (وہ) ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔

حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:
’’مَنْ قَطَعَ مِیْرَاثَ وَارِثِہٖ قَطَعَ اللہُ مِیْرَاثَہٗ مِنَ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘‘ 
یعنی جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت سے اس کی میراث کو کاٹ دے گا۔()

تیسرا گناہ : 
دوسروں کی وراثت دبانا مالِ حرام حاصل کرنا ہے:
کسی دوسرے وارث کا مال قبضہ جمانے والے کے لئے مالِ حرام ہے۔ حرام مال حاصل کرنا اور کھانا کبیرہ گناہ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے۔إيسے شخص كي نه تو دعائيں قبول هوتي هيں نه هي عبادتيں نه هي حج ، عمره وغيره
اَحادیث میں مالِ حرام سے متعلق بڑی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں ،
یہاں ان میں سے چار وعیدیں ملاحظہ ہوں :

پہلی وعید
مالِ حرام سے صدقہ مقبول نہیں اور اسے چھوڑ کر مرنا جہنم میں جانے کا سبب ہے:
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی ِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُ س میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ تعالیٰ بُرائی سے بُرائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے بُرائی کو مٹا دیتاہے۔بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا -

دوسری وعید:
حرام غذا سے پلنے والے جسم پر جنت حرام ہے:
حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔

تیسری وعید:
لقمہِ حرام کھانے والے کے 40 دن کے عمل مقبول نہیں :
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ارشاد فرمایا:’’اے سعد ! اپنی غذا پاک کر لو! مُسْتَجَابُ الدَّعْوَات ہو جاؤ گے، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میري محمد ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40 دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہواس کے لئے آگ زیادہ بہترہے۔

چوتھی وعید:
حرام کھانے پینے والے کی دعائيں قبول نہیں ہوتيں:
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے،اس کے بال پراگندہ اوربدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یا رب! یا رب! پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اورغذا حرام ہوپھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی -
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو حرام مال حاصل کرنے سے بچنے اور حلال مال حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

چوتھا گناہ :
وارث کا مال غصب کرنا:
کسی کی وراثت کا حصہ دبا لینا، ناحق مال کھانے میں داخل ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمْوٰلَکُمْ بَیۡنَکُمْ بِالْبٰطِلِ ( )
اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔
جب کوئی وارث مالِ وراثت سے اپنے حصہ پر قبضہ کر لے يا پھر تقسيم سے پهلے هي دوسرا كوئي وارث اس کے حصے کو زبردستي يا دهوكه دهي سے چھین لے تو یہ کسی مسلمان کا مال ناحق غصب کرنا كهلاتا ہے۔
اَحادیث مباركه میں مسلمان کا مال ناحق غصب کرنے پر بڑی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں - ان میں سے تین وعیدیں ملاحظہ ہوں :

پہلی وعید:
غاصب کو بروزِ قیامت سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا:
حضرت سعید بن زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے بالشت کے برابر كسي كي زمین ناحق لی تو قیامت کے دن اُسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔

دوسری وعید:
غاصب کے فرائض و نوافل مقبول نہیں :
حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ جو زمین کے کسی ٹکڑے پرناجائز طریقے سے قابض ہوا تواسے سات زمینوں کا طوق ڈالا جائے گا اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔

تیسری وعید:
غاصب قیامت کے دن کوڑھی ہو کر بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہو گا:
حضرت اشعث بن قیس کندی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ جو شخص دوسرے کے مال پر قبضہ کرے گا وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے کوڑھی ہوکر ملے گا۔
اللہ تعالیٰ اس بُرے اور ظالمانه فعل سے بھی ہماری سب كي حفاظت فرمائے،
(اٰمین يا رب العلمين)


پانچواں گناہ: 
یتیم وارثوں کو ان کے حصے سے محروم کر دینا:
وراثت کے مسئلے میں سنگین ترین صورت حال یتیم وارثوں کو ان کے حصے سے محروم کرنا اور انہیں حصہ نہ دینا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے جو یتیموں کا مال ناحق کھاتے هين درج ذیل آیت اور تين اَحادیث مباركه میں بڑی چار وعیدیں مقام عبرت ہيں

پہلی وعید:
بطورِ ظلم یتیموں کا مال کھانے والے كا بھڑکتی آگ میں جانا:
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ اَمْوٰلَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمْ نَارًا ؕ
ترجمۂ: بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آ گ بھرتے ہیں اورًَِّّٰۡعنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔

دوسری وعید: 
مالِ یتیم ناحق کھانے والوں کے منہ سے آگ كا نکلنا :
حضرت ابو برزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ قیامت کے دن ایک قوم اپنی قبروں سے اس طرح اُٹھائی جائے گی کہ ان کے مونہوں سے آگ نکل رہی ہوگی۔‘‘ عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، وہ کون لوگ ہوں گے؟ارشاد فرمایا: ’’کیا تم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو نہیں دیکھا ،
’’ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ اَمْوٰلَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمْ نَارًا ؕ ‘‘
ترجمۂ: بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آ گ بھرتے ہیں۔‘‘

تیسری وعید:
 یتیموں کا مال ظلما ًکھانے والوں کا دردناک عذاب:
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’میں نے معراج کی رات ایسی قوم دیکھی جن کے ہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں کی طرح تھے اور ان پر ایسے لوگ مقرر تھے جو اِن کے ہونٹوں کو پکڑتے پھر ان کے مونہوں میں آگ کے پتھر ڈالتے جو اِن کےیچھے سے نکل جاتے۔ میں نے پوچھا:اے جبرائیل! (عَلَیْہِ السَّلَام)، یہ کون لوگ ہیں ؟ عرض کی:’’یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال ظلم سے کھاتے تھے۔‘‘

چوتھی وعید: 
یتیم کا مال ناحق کھانے والے كا جنت اوراس کی نعمتوں سے محروم ہونا:
حضرت ابو هریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی ِکریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’چار شخص ایسے ہیں جنہیں جنت میں داخل نہ کرنا اور اس کی نعمتیں نہ چکھانا اللہ تعالیٰ پر حق ہے: (1)شراب کا عادی۔ (2)سود کھانے والا۔ (3)ناحق یتیم کا مال کھانے والا۔ (4)والدین کا نافرمان۔

یتیم کا مال کھانے سے کیا مراد ہے؟
یتیم کا مال ناحق کھانا کبیرہ گناہ اور سخت حرام ہے۔ قرآن پاک میں نہایت شدت کے ساتھ اس کے حرام ہونے کا بیان کیا گیا ہے۔ افسوس کہ لوگ اس میں بھی پرواہ نہیں کرتے۔ عموماً یتیم بچے اپنے تایا، چچا وغیرہ کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں،انہیں اِس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔یہاں ایک اور اَہم مسئلے کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ یتیم کا مال کھانے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی باقاعدہ کسی بُری نیت سے کھائے تو ہی حرام ہے بلکہ کئی صورتیں ایسی ہیں کہ آدمی کو شرعی اَحکام کا علم بھی نہیں ہوتا اور وہ یتیموں کا مال کھانے کے حرام فعل میں مُلَوّث ہوجاتا ہے جیسے جب میت کے ورثاء میں کوئی یتیم ہے تو اس کے مال سے یا اس کے مال سمیت مشترک مال سے دوسرے لوگوں کؤ لئے کھانا حرام ہے کہ اس میں یتیم کا حق شامل ہے، لہٰذا یہ کھانے صرف فقراء کؤ لئے بنائے جائیں اور صرف بالغ ورثاء کے مال سے ان کی اجازت سے تیار کئے جائیں ورنہ جو بھی جانتے ہوئے یتیم کا مال کھائے گا وہ دوزخ کی آگ کھائے گا اور قیامت میں اس کے منہ سے دھواں نکلے گا۔

مالِ وراثت سے متعلق پائی جانے والی عمومی غفلتیں:
میراث کے شرعی احکام سے لا علمی کی بنا پر جبکہ بعض اوقات فکر ِآخرت کی کمی اور اسلامی احکام پر عمل کا جذبہ نہ ہونے کی وجہ سے مالِ وراثت کے بارے میں ہمارے معاشرے میں بہت سی غفلتوں اور کوتاہیوں کا اِرتکاب کیا جاتا ہے، یہاں ان میں سے چند غفلتیں ملاحظہ ہوں تاکہ مسلمان ان کی طرف توجہ کر کے اصلاح کی کوشش کر سکیں۔

پہلی غفلت:
یتیم وارث کے مال سے میت کی فاتحہ،نیاز اور سوئم وغیرہ کے اخراجات کرنا:
کسی شخص کا انتقال ہونے پر ا ُسے ثواب پہنچانے کے لئے ورثاء سوئم، دسواں ،چالیسواں ، فاتحہ اور نذر و نیاز کا اہتمام کرتے ہیں ،بهلي بات يه هے كه یہ اچھے اور باعث ِثواب اعمال نهيں ہیں بلكه بدعات كا مجموعة هيں جو قابل عمل نهيں هيں لیکن اس میں إيك اور بهت برى قباحت يه بهي ہے کہ ان اُمور پر ہونے والے اخراجات میت کے چھوڑے ہوئے مال سے کئے جاتے ہیں اور اس کے وارثوں میں یتیم اور نابالغ بچے بھی ہوتے ہیں اور ان کے حصے سے بھی وہ اخراجات لئے جاتے ہیں ،حالانکہ یتیموں یا دیگر نابالغ ورثاء کے حصے سے یہ کھانے پکا کر لوگوں کو کھلانا ناجائز و حرام ہے بلکہ اگر یتیم یا کوئی نابالغ وارث اجازت بھی دے دے تب بھی ان کا مال ان کاموں میں استعمال کرنا جائز نہیں

دوسری غفلت: 
یتیم اور نابالغ ورثاء کے حصوں سے بے جا اخراجات کرنا:
یتیم بچوں کو وراثت میں جو حصہ ملتا ہے یا اس کے علاوہ ان کی اپنی کسی جائز کمائی یا تحفہ وغیرہ کے ذریعے جو مال انہیں ملتا ہے اسے خرچ کرنے کے حوالے سے عام گھروں میں بہت سی غفلتیں اور کوتاہیاں پائی جاتی ہیں ،جیسے یتیم اور نابالغ وارثوں کا حصہ جدا نہیں کرتے بلکہ سبھی کے ساتھ مشترک رکھتے ہیں اور اسی مشترکہ مال سے صدقہ و خیرات کیا جا رہا ہوتا ہے، رشتہ داروں میں غمی خوشی کے مواقع پر لین دین چل رہا ہوتا ہے، گھر میں آنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی ہو رہی ہوتی ہے،بھائی بہن کی شادی میں اور تعلیم وغیرہ میں وہی مال صرف ہو رہا ہوتا ہے۔ اس مشترکہ مال میں یہ سب تصرفات ناجائز و حرام ہیں کیونکہ اس میں یتیم کا مال بھی شامل ہے جسے ان معاملات میں خرچ کرنا جائز نہیں ،لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ یتیم اور نابالغ وارث کا حصہ جدا کر دیا جائے، اس کے بعد دیگر بالغ ورثاء باہمی رضامندی سے اِن معاملات میں مالِ وراثت خرچ کریں۔ یتیم کا مال گھر کے افراد کیلئے مشترکہ پکائے گئے کھانے اور اس سے ملتی جلتی چیزوں میں ملا لینا جائز ہے لیکن صدقہ و خیرات، مہمان نوازی اور رشتے داریوں کے لین دین میں دینا ہرگز جائز نہیں۔

تیسری غفلت:
بیٹیوں اور بہنوں کو میراث سے حصہ نہ دینا:
ہمارے معاشرے میں بیٹیوں اور بہنوں کو میراث سے ان کاحصہ نہ دینا بھی عام ہے حالانکہ باپ کے مال میں بیٹیوں کا حق قرآنِ مجید کی نصِ قطعی سے ثابت ہے جس طرح بيٹا وراثت ميں حقدار هے إسي طرح بيٹي بهي وراثت ميں حقدار هے جسے کوئی ختم نہیں کرسکتا۔ یاد رہے کہ لڑکیوں کو أن كا حصہ نہ دینا حرامِ قطعی ہے،لہٰذا اگر والدین نے وصیت وغیرہ کے ذریعے بیٹیوں کو ان کے حصے سے محروم کر دیا یا بیٹوں نے بہنوں کو ان کا حصہ دینے کی بجائے سارا مال يا مال كا كچهـ حصه صرف آپس میں تقسیم کر لیا، یا ان کا حصہ کسی غیروارث کو دے دیا تو یہ صريحاً ظلم ہے اور ایسے لوگوں پر توبہ کے ساتھ ساتھ بیٹیوں اور بہنوں کو ان کا حصہ لوٹا دینا لازم ہے اور ان کا یہ عذر کرنا غلط ہے کہ لڑکی کی شادی دھوم دھام سے کردی تھی،اس لئے وہ میراث کی حق دار نہیں ہے۔

چوتھی غفلت:
بیٹیوں اور بہنوں سے وراثت کا حصہ معاف کروالینا:
وراثت ایک ایسا مالی حق ہے جو لازمی طور پر خود بخود وارث کی ملکیت میں آجاتا ہے، وہ اسے بہر صورت لینا ہی ہے،نہ اسے معاف کر سکتا ہے اور نہ ہی اس سے معاف کروایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں بعض اوقات وراثت کی حق دار عورتیں جیسے بیٹیاں اور بہنیں اپنا حصہ لینے کی بجائے معاف کر دیتی ہیں اور بعض اوقات وه اگر معاف نه بهي كرنا چاهيں تو دیگر رشتہ دار بهي انہیں اپنا حصہ معاف کر دینے کا ترغيباً کہتے هيں بهائيوں سے قطع تعلقي كا خوف دلاتے هيں اور بعض أوقات مختلف طريقوں سے اس پر اپنا أثر ورسوخ إستعمال كرتے هوئے معاف كرنے پر زور ديتے هيں ۔یہ دونوں صورتیں غلط ہیں-
يه إيك حقيقت هے كه إس طرح معاف کرنے یا کروانے سے شرعاً ان کا حصہ ختم نہیں ہوگا، مردوں پر لازم ہے کہ وہ حق دار عورتوں کو ان کا حصہ دیں اور عورتوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے حصے کو اپنے قبضے میں لیں ،البتہ اگر اپنے حصۂ وراثت پر قبضہ کرنے کے بعد کسی جبر و اِکراہ اور زور زبردستی کے بغیر محض اپنی خوشی سے کسی دوسرے وارث کو اپنا حصہ دینا چاہیں تو اس کا اختیار انہیں حاصل ہے إس ميں كوئى حرج بهي نهيں
يهاں يه بات بهي زهن ميں رهے كه إيك تو ظالم وه هے جو إن بيچاري مظلوموں كا حق دبا كر اپني آخرت كو تباه كر رها هے ليكن دوسرا يه شخص جو انهيں مختلف حيلے بهانوں سے معاف كرنے كي ترغيب دے رها هے گويا كه ظالم كي مدد اور مظلوم پر زيادتي كررها هے يه بهي إس ظلم ميں برابر كا شريك هے قيامت والے دن جهاں وه ظالم (جو غصب كا مرتكب هورها هے ) كهڑا هوگا وهاں يه شخص جوحيلے بهانوں سے معاف كرنے كي ترغيب دے رها هے بهي ظلم ميں إعانت كي وجه سے مجرم كي حيثيت سے اس كے ساتهـ هوگا إس كا شرعي فرض يه بنتا هے كه وه إن كا پورا پورا حصه أنهيں دلوانے كي لئے اپنا اثر ورسوخ إستعمال كرے جو شخص حقدار كے حق كے لئے اپنا كسي طرح كا اثرو رسوخ إستعمال كرسكتا هے ليكن ظالم /غاصب سے تعلق كي بنا بر نهيں كرتا تو يه شخص بهي يقيناً گناه گار هے

پانچویں غفلت:
بیوہ دوسری شادی کرلے تو اُسے پہلے شوہر کی میراث سے حصہ نہ دینا:
جو عورت شوہر کے انتقال کے وقت اس کے نکاح یا اس کی عدت میں ہو وہ اپنے شوہر کی وارث ہے، پھر اگرچہ وہ عدت پوری ہونے کے بعد دوسری شادی کرلے تب بھی اس کا حقِ وراثت ختم نہیں ہوجاتا بلكه باقی رہتا ہے، ہمارے ہاں دوسری شادی کر لینے کی وجہ سے بیوہ کو اس کا حصہ نہیں دیا جاتا، یہ حکمِ الٰہی کی صریحاً خلاف ورزی اور ناجائز و حرام ہے اور ا س سے بچنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔

چھٹی غفلت:
زندگی میں والدین سے جائیداد تقسیم کرنے کا جبری مطالبہ کرنا:
يه جو ہمارے ہاں اولاد اپنے والدین کو اس بات پر مختلف طریقوں سے مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کر دیں ، ان کا یہ جبری مطالبہ ناجائز ہے کیونکہ یہ والدین کی دل آزاری کا سبب ہے جو کہ ناجائز وگناہ ہے۔
زندگی میں ہرشخص اپنے مال اور اس میں تصرف کرنے کا مالک ہے،وہ جس کو جتنا چاہے دے سکتا ہے کیونکہ یہ دینا بطورِ میراث نہیں بلكه هديه هے كيونكه وراثت تو مرنے کے بعد تقسیم ہوتی ہے،
البتہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اولاد کے درمیان اپنی جائيداد تقسیم کرنا چاہتا ہے يا كچهـ هدية دينا چاهتا هے تو اسے چاهيے كه وه سب بیٹے، بیٹیوں کو برابر برابر تقسيم كرے البته اگر اولاد میں کوئی علمِ دین سیکھنے سيكهانے اور دینی خدمت میں مشغول هونے كي وجه سے دنياوي طور پر كمزور هے يا خدمت دين كے لئے اسكي ضروريات هيں تو اسے دوسروں سے زیادہ دے سکتے ہیں۔

ساتویں غفلت:
والدین کو اولاد کی وراثت سے حصہ نہ دینا:
اولاد کے انتقال کے وقت اگر والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں زندہ ہیں تو وہ بھی اپنی اولاد کے وارث ہیں اوراس کے ترکہ سے حصہ پائیں گے۔ ہمارے ہاں بعض جگہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اولاد تو والدین کے مال میں حصہ دار ہوتی ہے لیکن والدین اولاد کے مال میں حصہ دار نہیں ہوتے، یہ بات واضح طور پر غلط اور قرآن وحدیث کے خلاف ہے۔ ایک دوسری غفلت اسی صورت میں یہ ہے کہ ماں یا باپ کو وارث تو سمجھا جاتا ہے لیکن وراثت انہیں دی نہیں جاتی۔ والدین اگر فوری مطالبہ نہ کریں تو اگرچہ انہیں فوراً دینا ضروری نہیں لیکن عموماً اس طرح کے مقامات پر نہ دینے کا نتیجہ بالآخر کلی طور پر محروم کردینے کی صورت میں ہی نکلتا ہے یعنی والدین کو بالکل ہی وراثت نہیں دی جاتی۔

آٹھویں غفلت:
باپ کی دوسری بیوی کوحصہ نہ دینا:
جب باپ کی وراثت تقسیم کی جائے تو اس میں اس کی ہر بیوی کا حصہ ہوتا ہے اگرچہ وہ اولاد کے لئے سوتیلی ماں هي ہو کیونکہ سوتیلی ماں ہونا تو اولاد کے اعتبار سے ہے،جبکہ شوہر کے اعتبار سے تو وہ اس کی بیوی ہی ہے اور بیوی کا وراثت میں حصہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں میراث تقسیم کرتے وقت بعض اوقات باپ کی دوسری بیویوں یعنی سوتیلی ماؤں کو حقِ وراثت سے محروم کردیا جاتا ہے حالانکہ وہ بھی بیوی کی حیثیت سے دوسری بیوی یعنی بچوں کی حقیقی ماں کی طرح وراثت کی حق دار ہے۔

نويں غفلت:
میراث کی تقسیم میں تاخیر كرنا :
میراث کی تقسیم میں تاخیر کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیچیدگیاں بڑھتی جاتی ہیں ، نسل در نسل ترکہ تقسیم نہ کرنے سے عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ ترکہ کئی کئی پشتوں تک ایسے افراد کے تصرف و استعمال میں رہتا ہے جن کا اس پر کوئی حق نہیں ہوتا مگر اس کے باوجود وہ دوسروں كے حق سے ناجائز نفع اٹھا رہے ہوتے ہیں جبکہ اس مال کے حقیقی مالک بے چارے نہ صرف بہت پریشان حال ہوتے ہیں بلکہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے لوگوں کے سامنے قرض وغیرہ کے لئے دست ِسوال دراز کئے ہوئے ہوتے ہیں اور شاید اسی آس میں رہتے ہیں کہ کب میراث تقسیم ہواور ہمیں اپنا حصہ ملے۔ مگر افسوس! تقسیم کے بعد بھی ان کی امید دھری کی دھری رہ جاتی ہے کیونکہ اگر کبھی تقسیم کی نوبت آتی بھی ہے تو اس دورانیہ میں مزید کئی ورثاء کے انتقال کے باعث مالِ ترکہ صحیح طور پر تقسیم نہیں ہو پاتا جس کے نتیجے میں بہت سے حق دار اپنے حق سے محروم رہ جاتے ہیں اور ان کا مال غیر مستحق افراد کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے۔ لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ اسلام کے دئیے ہوئے احکامات کے مطابق جلد از جلد میراث کا مال بلا تأخير تقسیم کر دیا جائے۔

دسويں غفلت:
 ميراث كي من ماني قيمت ادا كرنے پر إصرار كرنا:
إيك غفلت يه بهي پائي جاتي هے كه عورتوں كي ميراث اونے پونے داموں خريدنے كي كوشش كي جاتي هے اور يهي من ماني قيمت ادا كرنے پر إصرار كيا جاتا هے كه يه مجهـے دؤ دو ميں تمهيں پيسوں كي شكل ميں قيمت دؤ دوں گا اول تو يه بهي صرف اس صورت ميں ممكن هے جب ميراث كے حقدار كو اس كا حق اس كے قبضه ميں دے ديا جائے پهر اس سے خريدنے ميں كوئى حرج نهيں ليكن يه بات بهي ياد ركهني چاهيے كه ميراث كي خريد وفروخت تب هي هوسكتي هے جب ميرات كا حقدار فروخت كرنے كے ليے اپني مرضي سے تيار هو جائے- إس مقصد كے لئے اسے پريشرائز كرنا يا زبردستي كرنا يا كسي بهي طريقه سے اسے مجبور كرنا درست نهيں هے اور ميراث كي قيمت بهي ميراث كے مالك كي مرضي پر هوگي وه جتني قيمت ميں فروخت كرنا چاهے گا وهي اس كي قيمت هوگي حقدار كے علاوه كسي دوسرے كو خواه وه كوئي بهي هو قيمت لگانے كا قطعاً كوئي أختيار نهيں إس طرح قيمت ادا نهيں هوگي

گيارويں غفلت:
 زبردستي يا دهوكه سے دستخط كروا كر  يا جعلي طريقه سے ميراث اپنے نام كروانا:
إيك بهت بڑي مجرمانه غفلت يه بهي پائي جاتي هے كه دهوكه دهي سے جعلي طريقه سے يا زبردستي ڈرا دهمكا كر دستخط كروا كر كاغذات ميں ميراث اپنے نام كروانے كي كوشش كي جاتي هے تو يه سمجهنا چاهيے كه إس طرح جعلسازي كرنے واله قاروني قافله كا يه خدائى مجرم إيك يا دو نهيں بلكه بهت سے كبيره جرائم كا مرتكب هوتا هے - قرآني حدود كو پامال كرتا هے اور عملي طور پر آحاديث مباركه ميں موجود وعيدوں كا إنكار كرتا هے اگر خدانخواسته مرنے سے پهلے اپني زندگي ميں إس نے يه حقوق واپس نه كيے تو پهر قبر اور يوم حشر ميں إس كا كيا حشر هوگا إس كا اندازه كرنا شايد دهوكے كي إس دنيا ميں ممكن نه هو


بارهويں غفلت:
 بهنوں/بيٹيوں كو پوري وراثت كا علم نه هونے دينا:  
بعض أوقات إيسا بهي هوتا هے كه بهنوں/بيٹيوں كو پوري وراثت كا علم هي نهيں هوتا اور مرد ورثاء جن كو إس كا علم هوتا هے إس كو صيغئه راز ميں ركهـ ليتے هيں اور پهر خود تقسيم كرليتے هيں ياد ركهيں جس كو معلوم تها اور پهر بهي اس نے وراثت كے مال كو چهپايا تو وه بهي شرعاً ظالم ومجرم هوگا سو تمام ورثاء (خواه وه مرد هوں يا عورتيں) كے سامنے تمام وراثت كو بالتفصيل لانا إيك شرعي ذمه داري هے - ميت كي چهوڑي هوئي معمولي چيزوں (خواه وه مستعمل هي كيوں نه هوں) سے لے كر بڑى سے بڑي ماليت والي تمام چيزيں وراثت شمار هوں گي
عورتوں كو وراثت سے محروم كرنے كا إيك طريقه يه بهي إستعمال هوتا هے كه ان كو كهـ ديا جاتا هے كه چونكه مرحوم نے اپني زندگي ميں كهـ ديا تها يا يه وصيت كردي تهي كه فلاں جائيداد فلاں بيٹے كو ديدي جائے اور فلاں فلاں كو....... ليكن إس كے لئے إن كے پاس كوئى شرعي گواه يا ثبوت نهيں هوتا بلكه خود هي گواه بن كر يه كام كرتے هيں تو درآصل إس كے لئے شرعي گواه اور ثبوت كا هونا ضروري هے إس كے لئے بعض اوقات علماء كرام كي خدمات بهي حاصل كرلي جاتي هيں تاكه شك نه رهے ليكن إن بيچارے علماء كو صحيح صورت حال كا پته هي نهيں چلنے ديا جاتا إس لئے بس ان كا صرف نام إستعمال هوجاتا هے ميت كي وصيت إيسے شخص كے بارے ميں جوخود بهي ورثاء ميں شامل هو باقي تمام ورثاء كي رضامندي كے بغير شرعاً نافذ هو هي نهيں سكتي إسكي تفصيل كے لئے علماء حق كي طرف رجوع كرنا ضروري هے
مذکورہ بالا کلام کو سامنے رکھتے ہوئے تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ مالِ ترکہ کو قرآن وحدیث کے بیان کردہ حصوں کے مطابق اِن کے مستحقین میں تقسیم کردیں اور ترکہ کی تقسیم میں ہرگز ہرگز تاخیر نہ کریں بلکہ جس قدر جلدی ہوسکے ہر شخص کو اس کا حصہ دے دیں تاکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اسے استعمال کرسکے اور اگر ماضي ميں كوئى إيسي غلطي هو چكي هے تو ابهي بهي موقعه هے كه ان سے معافي بهي مانگي جائے اور أن كا پورا پورا حق بهي ان كو لٹا ديا جائے تاكه قيامت كے دردناك عذاب سے خلاصي هو جائے
اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین ثم آمين يا رب العلمين



میراث سے متعلق شرعی احکامات:
جب کسی مسلمان کا انتقال ہو جائے تواس کے مال و اسباب سے متعلق شریعت نے چار احکام دئیے ہیں ،

حكم ألاول
سب سے پہلے میت کے مال سے سنت کے مطابق اس کی تجہیز و تکفین اور تدفین کی جائے۔

حكم الثانی
پھر جو مال بچ جائے اس سے میّت کا قرضہ ادا کیا جائے،بیوی کا مہر اَدا نہ کیا ہو تو وہ بھی قرض شمار ہوگا۔

حكم الثالث :
پھر اگر میت نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اُسے قرض ادا کرنے کے بعد بچ جانے والے مال کے تیسرے حصے سے پورا کیا جائے گا، ہاں اگر سب ورثا بالغ ہوں اور سب کے سب تیسرے حصے سے زائد مال سے وصیت پوری کرنے کی اجازت دیں تو زائد مال سے وصیت پوری کرنا جائز ہے ورنہ جتنے ورثاء اجازت دیں ان کے حصے کی بقدر وصیت پرعمل ہوسکتا ہے إسي طرح وصيت اگر كسي إيسے شخص كے لئے هو جو خود بهي وراثت كے ورثاء ميں شامل هے تو پهر تمام ورثاء كي آجازت ضروري هوگي ورنه وصيت نافذ نهيں هوگي

حكم الرابع :
وصیت پوری کرنے کے بعد جو مال بچ جائے اسے شرعی حصوں کے مطابق ورثا میں تقسیم کیا جائے۔
میت کے چھوڑے ہوئے مال و اسباب کے ورثاء قرآن و حدیث میں بیان کردئیے گئے ہیں لیکن ان میں مختلف افراد کے حصے مختلف ہیں اور یونہی مختلف افراد دوسروں پر مقدم ہوتے ہیں جیسے بہن اور بیٹی کے حصے مختلف ہیں اور بیٹا پوتے پر مقدم ہے کہ بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتا وراثت کا مستحق نہیں۔ لہٰذا جب وراثت کا مسئلہ پیش آئے تو علمِ میراث کے ماہر صحيح العقيده عالم سے باقاعدہ پوچھ کر عمل کیا جائے۔

میت پر ہاتھ رکھ کر عورت سے زبردستی مہر معاف کروانا:
اگر شوہر نے اپنی زندگی میں بیوی کا حق مہر ادا نہ کیا اورنہ ہی عورت نے اپنی خوشی سے مہر معاف کیا تو اس صورت میں شوہر کے ترکہ سے بیوی کا حق مہر ادا کیا جائے گا اور چونکہ حق مہر قرض ہے لہٰذا کفن دفن کے اخراجات کے بعد جبکہ وصیت پوری کرنے اور ورثاء میں تقسیم سے پہلے ہی بیوی کا حق مہر ادا کیا جائے گا اور اس معاملہ میں ہمارے معاشرہ میں جو یہ طریقہ رائج ہے کہ میت پر ہاتھ رکھ کر عورت سے زبردستی مہر معاف کروایا جاتا ہے یہ بالکل غلط ہے، اس کی نہ تو کوئی شرعی حیثیت اور نہ ہی اس طرح معاف کرانے سے حق مہر معاف ہوتا ہے۔ رہی یہ بات کہ اگر حق مہر ادا کرنے سے پہلے بیوی کا انتقال ہوجائے تو اس صورت میں حق مہر کی رقم بیوی کے تمام ورثاء کے درمیان ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی جس میں شوہر خود بھی حصہ دارہوگا۔

ميت كي وصيت:

وصیت کرنے کا شرعی حکم:
وصیت کرنے کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر مرنے والے کے ذمہ کسی قسم کے ’’حُقُوقُ اللہ‘‘ باقی نہ ہوں تووصیت کرنا مستحب ہے،اور اگراس پر حُقُوقُ اللہ کی ادائیگی باقی ہوجیسے اس کے ذمے کچھ نمازوں کا ادا کرنا باقی ہو، یا حج فرض ہونے کے باوجود ادا نہ کیا ہو، یا کچھ روزے چھوڑے تھے وہ نہ رکھے ہوں ، تو ایسی صورت میں واجب ہے کہ ان چیزوں کا فدیہ دینے کے  لئے وصیّت کرے۔
میت پر مالی حُقُوقُ الْعِبَاد جیسے لوگوں کا قرضہ ہو تو اسے وصیت میں اس لئے ذکر نہیں کیا کہ وراثت کی تقسیم میں وصیت سے پہلے قرضوں کی ادائیگی کا جداگانہ حکم موجود ہے یعنی مال چھوڑ کر مرنے والا قرضوں کی ادائیگی کی وصیت کرے یا نہ کرے بہرصورت قرض ادا کیا ہی جائے گا۔
مستحب یہ ہے کہ انسان اپنے تہائی مال سے کم میں وصیت کرے خواہ ورثاء مالدار ہوں یا فقراء، البتہ جس کے پاس مال تھوڑا ہو اس کے لئے افضل یہ ہے کہ وہ وصیت نہ کرے جبکہ اس کے وارث موجود ہوں اور جس شخص کے پاس کثیر مال ہو وہ بھی تہائی مال سے زیادہ وصیت نہ کرے۔

ورثاء كے لئے وصیت کرنا:
ورثاء کیلئے وصیت کرنا جائز نہیں ، چنانچہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں مگر یہ کہ اگر ورثاء چاہیں۔
البتہ اگر کسی نے اپنے وارث کے لئے وصیت کر دي هو اور دیگر ورثاء سب بالغ ہوں اور وہ اجازت بھی دے دیں تو وارث کے لئے وصیت جائز ونافذ ہوجائے گی اور اگر ورثاء میں بالغ ونابالغ سب شامل ہیں اور بعض ورثاء اجازت دیدیں تو ان اجازت دینے والوں میں سے جوبالغ ہیں صرف انہی کے حصوں میں یہ وصیت جائز ونافذ ہوجائے گی جبکہ یتیم وارث اور نابالغ وارث اور اجازت نہ دینے والے بالغ ورثاء کے حصوں میں یہ وصیت جائز ونافذ نہیں ہوگی۔

غير شرعي وصيت نافذ نهيں هوگي:
ميت كي وهي وصيت نافذ هوگي جو شريعت كے آصولوں كے مطابق هو اگر ميت نے إيسي وصيت چهوڑي هو جو غير شرعي هو وه نافذ نهيں كي جائے گي مثلاً
اپني وصيت ميں كسي وراثت كے حقدار كو اس كے حق سے محروم كرديا هو يا ميت پر كسي كا قرضه تها وه زندگي ميں بهي ادا نه كيا اور كسي غصه كي وجه سے وصيت بهي كردي كه يه ادا نه كيا جائے يا وه زندگي ميں كسي كے حق پر ناجائز قابض تها پهر وصيت بهي كردي كه يه أنهيں نه دي جائے يا زندگي ميں كسي كي زمين/مكان وغيره پر ناجائز قابض رها اور مطالبه كے باوجود وه حقدار كو نه ديا اور پهر يه وصيت بهي كردي كه يه ان كو نه دي جائے وغيره وغيره
گو إس طرح كي وصيت كرنے والا گناه گار هوگا ليكن ورثاء كے لئے إس طرح كي كوئى بهي وصيت شرعاً قابل عمل نهيں هوگي اگر ورثاء نے جانتے بوجهتے هوئے إس غير شرعي وصيت پر عمل كيا تو وه بهي گناه گار هونگے حديث مباركه ميں إس بدقسمت شخص كے لئے دوزخ كي وعيد سنائى گئي هے


وصيت كے متعلق فرمانِ رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم:
جس کی موت وصیّت پر ہو (يعني جو شرعي وصیّت کرنے کے بعد انتقال کرے) وہ عظیم سنّت پر مرا اور اس کی موت تقویٰ اور شہادت پر ہوئی اور اس میں مرا کہ اس کی مغفرت ہو گئی۔ 
(ابن ماجہ)

نافرمان اولاد کو اپنی جائیداد سے عاق کرنے کی وصیت کرنا:
جو شخص کسی شرعی عذر کے بغیر اپنے ماں باپ کا جائزحکم نہ مانے یا مَعَاذ اللہ انہیں اِیذاء پہنچائے وہ در حقیقت عاق اور شدید وعیدوں کا مستحق ہے اگرچہ والدین اسے عاق نہ کریں بلکہ اپنی فرط ِمحبت سے دل میں ناراض بھی نہ ہوں جبکہ جو شخص والدین کی فرمانبرداری میں مصروف رہے لیکن والدین شرعی وجہ کے بغیر ناراض رہیں یا وہ کسی خلافِ شرع بات میں اپنے والدین کا کہا نہ مانے اور اس وجہ سے والدین ناخوش ہوں تو وہ شخص ہرگزعاق نہیں۔ حکمِ شرعی یہ ہے کہ کوئی شخص عاق ہونے کی وجہ سے ماں باپ کے ترکہ سے محروم نہیں ہوسکتا اگرچہ والد لاکھ بار اپنے فرمانبردار، خواہ نافرمان بیٹے کو کہے کہ میں نے تجھے عاق کیا یا اپنے ترکہ سے محروم کردیا،نہ اس کا یہ کہنا کوئی نیا اثر پیدا کرسکتا ہے نہ وہ اس بنا پر کوئی ترکہ سے محروم ہوسکتا ہے۔البتہ اگر اولاد فاسق وفاجر ہے اور گمان یہ ہے کہ انتقال کے بعد وہ اس کے مال کو بدکاری وشراب نوشی وغیرہ بُرائیوں میں خرچ کر ڈالے گی تو اس صورت میں زندگی میں فرمانبردار اولاد کوسارامال دے کر اس پر قبضہ دلادینا یا اس جگہ کو کسی نیک کام کے لئے وقف کردینا جائز ہے کہ یہ حقیقت میں میراث سے محروم کرنا نہیں بلکہ اپنے مال اور اپنی کمائی کو حرام میں خرچ ہونے سے بچانا ہے۔

ساس سسر کے ترکہ میں داماد یا بہو كا حصه:
ساس سسر کی جائیداد میں داماد یا بہو اپنے اس رشتہ کی وجہ سے کسی طرح وارث نہیں ہاں اگر کسی اور رشتہ کے طور پر وارث بنیں تو ممکن ہے مثلا ًداماد بھتیجا ہو اوردیگر مقدم ورثاء نہ ہوں تو اب یہی وارث ہوگا۔ٰ داماد یا خسرہونا اصلاً کوئی حقِ وراثت ثابت نہیں کرسکتا خواہ دیگر ورثاء موجود ہوں یانہ ہوں ہاں اگر اور رشتہ ہے تواس کے ذریعہ سے وراثت ممکن ہے مثلاً داماد بھتیجا ہے يا خسر چچا ہے تواس وجہ سے باہم وراثت ممکن ہے ایک شخص مرے اوردو وارث چھوڑے ایک دختراورایک بھتیجا کہ وہی اس کا داماد ہے تو داماد بوجہ برادرزدگی نصف مال پائے گا اوراگراجنبی ہے توکل مال دختر کو ملے گا داماد کا کچھ نہیں۔
وَاللہُ تَعالٰی اَعْلَم

لے پالک بچہ اپنے پرورش کرنے والے کا وارث ہوتا ہے یا نہیں ؟
اسلامی اعتبار سے لے پالک بچہ اپنے حقیقی والدین کا وارث ہوگا جبکہ پرورش کرنے والے کا وارث نہیں ہوگا۔ متبنّٰی (یعنی کسی کا منہ بولا بیٹا) ہونا شرعاً ترکہ میں کوئی اِستحقاق پیدا نہیں کرتا اس صورت میں زید اپنی حقیقی والدہ یا والد کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں ، تو جواب یہ ہے کہ بے شک پائے گا (کیونکہ) کسی کا اسے اپنا بیٹا بنا لینا اپنےحقیقی والدین کے بیٹے ہونے سے خارج نہیں کرتا۔

کیا منہ بولا بیٹا، بہن، بھائی وغیره بھی وارث ہوتے ہیں ؟
منہ بولابیٹا نہ ایسے شخص کا بیٹا ہوتا ہے اور نہ ہی اپنے باپ سے بے تعلق ہوتا ہے کیونکہ حقیقتوں میں تغیرنہیں ہوتا۔ شرعی طور پر وہ اپنے باپ کا وارث ہے نہ کہ اس دوسرے شخص کا جس نے اس کو منہ بولا بیٹا بنایا ہے۔ اگردوسرا شخص چاہے تو منہ بولے بیٹے کے حق میں وصیت کردے تاکہ اس کا مال اس کے منہ بولے بیٹے کے ہاتھ میں آجائے اوریہ وراثت نہ ہوگی، ليكن خبردار! وارث کے لئے وصیت نہیں ہوتی، اور کسی کا منہ بولا بیٹا بن جانا اس کے لئے باپ کی میراث سے مانع نہیں ہوتا۔

والدین کی زندگی میں جوبیٹا یا بیٹی فوت ہوجائے، اس کا وراثت ميں حصہ ہوگا یا نہیں ؟
شرعی اعتبار سے کسی شخص کے انتقال کے وقت اس کے زندہ ورثاء ہی ترکہ کے وارث قرار پاتے ہیں لہٰذا جو بیٹا یا بیٹی اپنے والدین کی زندگی میں ہی اس دنیائے فانی سے رخصت ہوجائے تواس کا والدین کے مال میں کوئی حصہ نہ ہوگا البتہ اگر اپنے والدین کے انتقال کے بعد اور ترکہ تقسیم ہونے سے پہلے کسی وارث کا انتقال ہوجائے تو اس صورت میں وہ وارث ہوگا اور اس کا حصہ اس کے ورثاء کے مابین تقسیم ہوگا۔

کیا سوتیلے بہن بھائیوں کا بھی وراثت میں حصہ ہوتا ہے؟
اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ ایک طرف سے سوتیلے ہیں جیسے باپ کی طرف سے بہن بھائی ہیں جو دوسری عورت سے پیدا ہوئے جنہیں ’’علاتی‘‘ کہا جاتا ہے یا صرف ماں کی طرف سے بہن بھائی ہیں جو کسی دوسرے شوہر کے ذریعے پیدا ہوئے جنہیں ’’اَخیافی‘‘ کہا جاتا ہے تو یہ اپنی شرائط کے ساتھ ورثاء ہوتے ہیں جبکہ جو دونوں طرف سے سوتیلے ہوں کہ نہ باپ کی طرف سے ہوں اور نہ ماں کی طرف سے تو وہ بہن بھائی کے رشتے کے اعتبار سے ورثاء نہیں ہیں۔

دادا کی جائیداد میں پوتے کا حصہ:
اگر کسی شخص کا انتقال ہوا اور اس کی اولاد زندہ نہیں ، پوتا زندہ ہے تو یہی اپنے دادا کی جائیداد کا وارث ہوگا البتہ اگر میت کا بیٹا اور پوتا دونوں زندہ ہوں تو اب پوتا اپنے دادا کی جائیداد کا وارث نہ ہوگا۔ایسی صورت میں وارث کو چاہئے کہ اپنے حصے سے کچھ مال اسے دیدے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ اُولُوا الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیۡنُ فَارْزُقُوۡہُمۡ مِّنْہُ وَقُوۡلُوۡا لَہُمْ قَوْلًا مَّعْرُوۡفًاترجمہ: اور جب تقسیم کرتے وقت رشتہ دار اور یتیم اور مسکین آجائیں تو اس مال میں سے انہیں بھی کچھ دیدو اور ان سے اچھی بات کہو۔
اس حکم پر عمل کرنے میں مسلمانوں میں بہت سستی پائی جاتی ہے بلکہ اس حکم کا علم ہی نہیں ہوتا البتہ یہ یاد رہے کہ نابالغ اور غیر موجود وارث کے حصہ میں سے دینے کی اجازت نہیں۔

بیوی کی موت کے بعد جہیز کا حقدار کون؟
عرفِ عام کے مطابق جہیز کی مالک عورت ہوتی ہے لہٰذا اس کے انتقال کے بعد جہیز کا سامان اس کے ورثاء میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا جس میں شوہر بھی شامل ہوگا۔

اگر کسی وارث یا غیر وارث کے نام اپنی زندگی میں کوئی جائیداد کرادی لیکن قبضہ نہ دلایا اور انتقال ہوگیا تو اب اس جائیداد کا مالک کون؟

جائیداد کسی کے نام کرنا تحفہ ہے اور شریعت میں تحفہ کے لئے اس پر قبضہ ضروری ہے، لہٰذا بغیر قبضہ کئے تحفہ دینے کا عمل شرعی اعتبار سے مکمل نہیں ہوتا لہٰذا اگر کسی شخص نے اپنی زندگی میں اپنا کوئی مال یا جائیداد زبانی یا تحریری طور پر کسی کے نام کردی، لیکن تحفہ لینے والے نے اس پر قبضہ نہیں کیا تو تحفہ مکمل نہ ہوگا بلکہ وہ چیز تحفہ دینے والے کی ملکیت پر ہی باقی رہے گی اور قبضہ سے پہلے اگر ان میں سے کسی ایک کا بھی انتقال ہوگیا تو یہ تحفہ باطل ہوجائے گااور تحفہ دینے والے کی موت کے بعد اس کے ورثاء میں ہی تقسیم ہوگا۔(يه بات بهي ياد رهے كه اولاد ميں كسي كو تحفه ديتے هوئے برابري كا سلوك كرنا ضروري هے ) قبضہ سے مراد کیا ہے؟ اور کس صورت میں کیسے قبضہ کیا جاتا ہے اِن مسائل میں کافی تفصیل ہے اس لئے اِن مسائل کے لئے کسی مستند دارُالافتاء میں رابطہ ضرور کرلیں۔

والد کے انتقال کے بعد ورثاء میں بعض افراد والد کا کاروبار سنبھالتے ہیں توکیا سب ورثاء اس کاروبار اور اس کے نفع میں حصہ دار ہوں گے یا صرف کاروبار کرنے والے؟
مالِ ترکہ میں تمام ورثاء بطورِ شرکت ِملک شریک ہیں تمام ورثاء کی اجازت سے کاروبار سنبھالنے کی صورت میں ہر وارث اپنے حصہ کے مطابق کاروبار کے نفع ونقصان کا حقدار ہوگا اور اگر بعض ورثاء نے دیگر ورثاء کی اجازت کے بغیر کاروبار سنبھالا اور مزید آگے بڑھایا تو اصل مال جو کہ میت کے انتقال کے وقت کاروبار میں تھا اس میں تو ہر وارث اپنے حصہ کی مقدار کا مالک ہوگا لیکن اس مال سے حاصل ہونے والے نفع کے بارے میں حکمِ شرعی یہ ہے کہ اس نفع میں دیگر ورثاء شریک نہیں ہوں گے بلکہ یہ نفع صرف انہی افراد کا ہے جنہوں نے کاروبار بڑھا کر نفع حاصل کیا البتہ ان کے لئے صرف اپنے حصہ کے مطابق نفع لینا حلال ہے اور دیگر ورثاء کے حصوں کے مطابق حاصل شدہ نفع ان کے حق میں مالِ خبیث ہے انہیں چاہئے کہ اپنے حصوں سے زائد نفع دیگر ورثاء کو انکے حصوں کے مطابق دیں یا خیرات کریں اپنے خرچ میں نہ لائیں ، یہی حکم متروکہ جائیداد وغیرہ کے کرایوں کا بھی ہے۔

 إكرامِ مسلم كي محنت: 
يه بات تو واضح هے كه إيك مسلمان كے لئے دوسرے مسلمان كے حقوق كا خيال ركهنا اور هر هر مسلمان كا كلمه كي نسبت سے إحترام وإكرام كرنا بهت ضروري هے إسي طرح إكرام مسلم كي محنت بهي تمام عمر كرنا ضرورى هے رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے جب نبوت كا إعلان فرمايا تو معاشره بهت سي برائيوں اور قباحتوں كا مجموعة بنا هوا تها جن ميں إيك دوسرے كو نقصان پهنچانا حتى كه قتل كردينا تك شامل تها ليكن الله تعالى كے رسول صلى الله عليه وآله وسلم نے مسلمانوں كو إكرام مسلم كا سبق كچهـ إسطرح پڑهايا كه الله تعالى كے فضل وكرم سے إيك دوسرے كے خون كے پياسے يه لوگ إيك دوسرے كے إس طرح بهائى بهائى بن گئے كه مرتے هوئے خود پاني پينے كي بجائے اپنے مسلمان بهائى كو پاني پينے پر ترجيح دينے لگے
يه تو هر شخص جانتا هے كه كوئى بهي مقصد حاصل كرنے كے لئے محنت كرنا لازم وملزوم هے پهر يه بهي بات واضح هے كه محنت تو هر شخص كرتا هے ليكن كامياب وهي هوتا هے جو محنت صحيح طريقه سے كررها هو اگر كوئى محنت تو كررها هے ليكن اس كا طريقه صحيح نهيں هے تو وه چاهے كتني هي محنت كرتا رهے وه كبهي بهي منزل پر نهيں پهنچ پائے گا إس كي مثال إسي طرح هے كه إيك شخص نے جانا تو إسلام آباد هے ليكن سفر وه كراچي كي طرف كررها هے وه چاهے كتني هي رفتار سے سفر كرتا رهے ليكن وه إسلام آباد كهبي بهي نهيں پهنچ سكے گا كيونكه اس كي محنت كا رخ صحيح نهيں هے
إسي طرح دين كے كسي بهي جز كي محنت كا فائده تب هوگا اگر وه صحيح نهج پر هوگي اور صحيح نهج وهي هوسكتي هے جو هميں رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم اور صحابه كرام رضوان الله عليهم سے محنت كا طريقه ملا اگر هم اپني مرضي كے طريقه پر محنت كريں گے تو كبهي بهي كامياب نه هوں گے ليكن اگر وهي محنت رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقه پر هوگي تو إن شاء الله هم دونوں جهانوں ميں كامياب هوجائيں گے
يهي صورت حال إكرام مسلم كي محنت كي هے كه إكرام مسلم كو صحيح معنوں ميں سمجهنے اور إسے عملي طور پر اپني زندگي ميں لانے كے لئے محنت ضروري چيز هے اور إكرام مسلم كے فضائل اور بركات حاصل كرنے كے لئے يه محنت رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقه پر هونا ضروري هے جيسا كه  يه وضاحت هوچكي هے كه دعوت إلى الله ميں دين كے هر جز كي محنت رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقه پر هي كرنے كي كوشش كي جاتى هے - قرآن و سنت كي روشني ميں إكرام مسلم كي محنت بهي مندرجه زيل تين مسنون طريقوں سے هونا ضروري هے:

1- دعوت دینا

2- مشق كرنا

3- دعا كرنا

تو إكرام مسلم كے ثمرات صحيح طرح سے حاصل كرنے كے لئے ضروري هے كه هم إس كي محنت بهي اوپر ذكر كرده تين مسنون طريقوں سے هي كريں تاكه هم دين ودنيا ميں إكرام مسلم كے فوائد وبركات سے مستفيد هوسكيں


1- إكرامِ مسلم كي دعوت:
إكرام مسلم كي محنت ميں إس كي دعوت إيك إهم حصه هے إس راسته پر عمل پيرا هوكر إنسان نه صرف خود إكرام مسلم كے فضائل و فوائد حاصل كرتا هے بلكه وه دوسروں كو بهي إس كي ترغيب ديتا هے اور إس طرح إيك إيسا معاشره وجود ميں آتا هے جس ميں كسي كو كسي سے كوئى خوف نه هو هر شخص كے دل ميں دوسرے كے لئے همدردي - إحترام وإكرام كے جذبات هوں اور هر شخص كي بنيادى ضروريات اس كے دروازه پر بغير سوال كيے پهنچ رهي هوں جيسا كه قرون أولى ميں مسلمانوں كا مثالى معاشرة تها
إكرام مسلم سے يه مطلوب هے كه دوسروں كو دعوت ديكر إكرام مسلم كا شوق پيدا كرنا هے إيك إيك مسلمان كي قيمت سمجهاني هے هر إيك كو يه بتانا هے كه جب تك إيك بهي مسلمان إس زمين پر موجود هے تب تك يه أسمان - سورج - چاند اور يه نظام موجود رهے گا جب إيك بهي مسلمان نهيں رهے گا تب تمام كائنات كو ختم كرديا جائے گا اور يه سارا نظام توڑ پهوڑ ديا جائے گا مسلمان كتنا إهم هے إس كے متعلق الله تعالى اور رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے أرشادات لوگوں كو كهول كهول كرسنانے هيں رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كي سيرت مباركه اور آپ صلى الله عليه وآله وسلم كے مبارك أفعال اور واقعات بيان كرنے هيں
إسي كے ساتهـ صحابه كرام رضوان الله عليهم كے إكرام وإخلاق اور همدردي و إيثار كے واقعات كثرت سے سنانے هيں صحابيات رضوان الله عليهما كے واقعات بهي سنانے هيں تاكه هماري عورتوں كو بهي ترغيب ملے إس دعوت كے دينے كا مقصد يه هے كه همارے إخلاق اور معاملات درست هوجائيں اور هم معلوم كركر دوسروں كے حقوق ادا كرنے والے بن جائيں همارا يه مزاج بن جائے كه اگر همارا كوئى حق كسي كي طرف ره جائے تو ره جائے ليكن كسي دوسرے كا ذرا سا بهي حق هماري طرف نه رهے هم اپنا حق حاصل كرنے كي بجائے دوسروں كے حقوق ادا كرنے كے لئے مستعد هوجائيں
آج أمت كے حقوق كا مارنا هم اپني ناداني اور الله تعالى كي وعيدوں پر عدم يقين كيوجه سے صحيح سمجهتے هيں باپ بيٹے كا حق - بيٹا باپ كا حق - ماں بيٹے اور بيٹي كا حق - بيٹى او بيٹا ماں كا حق - أستاد شاگرد كا حق - شاگرد أستاد كا حق - بهائى بهن كا حق - بهن بهائى كا حق - پڑوسي دوسرے پڑوسي كا حق - آجر أجير كا حق - آجير آجر كا حق يعني هر إيك دوسرے كا حق مارنے پر تلا هوا هے تو إكرام مسلم كي دعوت سے يه چاها جارها هے كه هم إيك دوسرے كے پورے پورے حقوق ادا كرنے والے بن جائيں جب هم دوسروں كے حقوق ادا كررهے هونگے توپهر حقوق سے اگے إكرام كرنے والے بننا همارے لئے آسان بن جائے گا إس كے نتيجه ميں إيك بهترين اور مثالي معاشره قائم هوگا جسے ديكهـ كر إن شاء الله غير مسلم لوگ بهي جوق در جوق إسلام ميں داخل هونا شروع هو جائيں گے جيسا كه قرون أولى كي مثال همارے سامنے هے


2- إكرامِ مسلم كي مشق:
 إسلام إكرام سے پهلے حقوق كي بات كرتا هے إسكے لئے نه صرف مسلمان بلكه تمام إنسانوں كے حقوق كي بات كرتا هے گويا مذهب إسلام حقوق إنساني سے ليكر جانوروں تك كے حقوق كا علمبردار هے الله تعالى هم سب كو صحيح محنت كرنے والا بنائے اور هم كوشش كركے صحيح مشق كريں تاكه دنيا وآخرت ميں كامياب هوجائيں
إكرام مسلم كي مشق ميں سب سے پهلے حقوق إنساني كي مشق ضرورى هے اگر حقوق إنساني ادا كرنے كي إستعداد آگئي تو پهر حقوق مسلم ادا كرنا آسان هوگا اور پهرإكرام مسلم كي بهي الله تعالى توفيق عطا فرما ديں گے
اِنسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے احترام، وقار اور مساوات پر مبنی ہے۔ قرآن حکیم کی رو سے اللہ رب العزت نے نوعِ انسانی کو دیگر تمام مخلوق پر فضیلت و تکریم عطا کی ہے۔ قرآن حکیم میں شرف انسانیت وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ تخلیق آدم کے وقت ہی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حضرت آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا اور اس طرح نسل آدم کو تمام مخلوق پر فضیلت عطا کی گئی۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاًO (سورة بنی اسرائیل)
”اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا فضیلت دے کر برتر بنا دیاo“

أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ (سورة لقمان،)
”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے سب کو تمہارے ہی کام لگا دیا ہے۔“

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍO (سورة التین)
”ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی ) ساخت پر بنایا ہےo“
انسان کو شرف و تکریم سے نوازا گیا ہے اور اس کو انعامات و نوازشات الٰہیہ کے باعث اعلیٰ مرتبہ کمال تفویض کیا گیا ہے۔ مساوات انسانی کو اسلام نے بے حد اہمیت دی ہے۔ اس حوالے سے کوئی اور مذہب اور نظام اقدار اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ 
قرآن حکیم نے بنی نوع انسان کی مساوات کی اساس بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍوَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًاO(النساء)
”اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی، پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا، پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا، اور ڈرو اس اﷲ سے جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو، اور قرابتوں (میں بھی تقویٰ اختیار کرو)، بے شک اﷲ تم پر نگہبان ہےo“

ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌO(اسورة الحجرات، )
”اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمہارے طبقات اور قبیلے بنا دیئے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو بے شک اللہ کے نزدیک تو تم سب میں عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہو، بے شک اللہ سب کچھ جانتا باخبر ہےo“
حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ حجۃ الوداع میں واضح الفاظ میں اعلان فرمایا:
یا ایھا الناس الا ان ربکم واحد و ان اباکم واحد الا لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لاحمر علی اسود ولا لاسود علی احمر الا بالتقویٰ۔(احمد بن حنبل، المسند)
”اے لوگو! خبردار ہوجاؤ کہ تمہارا رب ایک ہے اور بیشک تمہارا باپ (آدم علیہ السلام) ایک ہے۔ کسی عرب کو غیر عرب پر اور کسی غیر عرب کو عرب پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی سفید فام کو سیاہ فام پر اور نہ سیاہ فام کو سفید فام پر فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ کے۔“
حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزید ارشاد فرمایا:
الناس کلہم بنو آدم و آدم خلق من تراب۔
”تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔“

اسلام نے تمام قسم کے امتیازات اور ذات پات، نسل، رنگ، جنس، زبان، حسب و نسب اور مال و دولت پر مبنی تعصبات کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے ہم پلہ قرار دیا خواہ وہ امیر ہوں یا غریب، سفید ہوں یا سیاہ، مشرق میں ہوں یا مغرب میں، مرد ہوں یا عورت اور چاہے وہ کسی بھی لسانی یا جغرافیائی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں۔ انسانی مساوات کی اس سے بڑی مثال کیا ہوسکتی ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں، نسلوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے ہر سال مکۃ المکرمہ میں ایک ہی لباس میں ملبوس حج ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
احترامِ آدمیت اور نوعِ بشر کی برابری کے نظام کی بنیاد ڈالنے کے بعد اسلام نے اگلے قدم کے طور پر عالم انسانیت کو مذہبی، اخلاقی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی شعبہ ہائے زندگی میں بے شمار حقوق عطا کئے۔ انسانی حقوق اور آزادیوں کے بارے میں اسلام کا تصور آفاقی اور یکساں نوعیت کا ہے جو زماں و مکاں کی تاریخی اور جغرافیائی حدود سے ماورا ہے۔ اسلام میں حقوق انسانی کا منشور اُس اللہ کا عطا کردہ ہے جو تمام کائنات کا خدا ہے اور اس نے یہ تصور اپنے آخری پیغام میں اپنے آخری نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے دیا ہے۔ اسلام کے تفویض کردہ حقوق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام کے طور پر عطا کئے گئے ہیں اور ان کے حصول میں انسانوں کی محنت اور کوشش کا کوئی عمل دخل نہیں۔ دنیا کے قانون سازوں کی طرف سے دیئے گئے حقوق کے برعکس یہ حقوق مستقل بالذات، مقدس اور ناقابل تنسیخ ہیں۔ ان کے پیچھے الٰہی منشا اور ارادہ کار فرما ہے اس لئے انہیں کسی عذر کی بناء پر تبدیل، ترمیم یا معطل نہیں کیا جا سکتا۔ ایک حقیقی اسلامی ریاست میں ان حقوق سے تمام شہری مستفیض ہوسکیں گے اور کوئی ریاست یا فرد واحد ان کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ قرآن و سنت کی طرف سے عطا کردہ بنیادی حقوق کو معطل یا کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
اسلام میں حقوق اور فرائض باہمی طور پر مربوط اور ایک دوسرے پر منحصر تصور کئے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں فرائض، واجبات اور ذمہ داریوں پر بھی حقوق کے ساتھ ساتھ یکساں زور دیا گیا ہے۔ اس ذیل میں متعدد آیات قرآنی اور احادیث نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حوالہ دیا جاسکتا ہے، جن سے یہ بات ثابت ہے کہ اسلامی شریعت کے ان اہم ماخذ و مصادر میں انسانی فرائض و واجبات کو کس قدر اہمیت دی گئی ہے۔
 ارشادِ ربانی ہے:
وَاعْبُدُواْ اللّهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًاO ( النساء)
”اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہوچکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبر کرنے والا (مغرور) فخر کرنیوالا (خودبین) ہوo“
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی درج ذیل حدیث مبارکہ میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کے باہمی تعلق کو بڑی تاکید سے بیان کیا گیا ہے:

عن معاذ بن جبل قال قال رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
" یا معاذ اتدری ما حق اﷲ علی العباد قال اﷲ ورسولہ اعلم! قال ان یعبد اﷲ ولا یشرک بہ شیاء قال اتدری ماحقہم علیہ اذا فعلوا ذلک فقال اﷲ ورسولہ اعلم قال ان لا یعذبہم۔(مسلم الصحیح،)"

”حضرت معاذ (رضی اللہ تعالى عنہ) سے روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: اے معاذ(رضی اللہ تعالى عنہ) کیا تو جانتا ہے کہ اللہ کا بندے پر کیا حق ہے؟ حضرت معاذ (رضی اللہ تعالى عنہ)نے عرض كيا اللہ اور اس کا رسول (صلى الله عليه وآله وسلم ) بہتر جانتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: کیا تو جانتا ہے کہ اللہ پر بندے کا کیا حق ہے؟ حضرت معاذ (رضی اللہ تعالى عنہ)نے عرض كيا اللہ اور اس کا رسول (صلى الله عليه وآله وسلم ) بہتر جانتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ وہ (اپنے ایسے) بندوں کو عذاب نہ دے۔“
اسی طرح حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل ایمان کو تلقین فرمائی ہے کہ وہ ان فرائض کو ادا کریں جو ان پر ان کے والدین، بچوں، عورتوں، ان کے پڑوسیوں، غلاموں اور ذمیوں وغیرہ کی طرف سے عائد ہوتے ہیں۔
یہ امر باعث آفسوس ہے کہ آج مغرب کو انسانی حقوق کا علم بردار قرار دیتے وقت یہ بات نظر انداز کردی جاتی ہے کہ اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے عالم انسانیت کو اس سے کہیں زیادہ حقوق عطا کردیئے تھے جبکہ انسانی حقوق کا تصور اپنی موجودہ شکل میں مغرب میں ابھی چند سو سال قبل ہی متعارف ہوا ہے۔ سولہویں اور سترھویں صدی میں مغربی سیاسی مفکرین اور ماہرین قانون نے شہری آزادیوں اور بنیادی حقوق کا تصور دیا اور عامۃ الناس کو ان حقوق کا شعور دے کر انسانی ضمیر کو بیدار کیا۔

اِنسانی حقوق اور إسلام:
اِسلام جملہ شعبہ ہائے حیات میں اعتدال اور توازن کا درس دیتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زندگی کے ہر پہلو کے حوالے سے ایسی تعلیمات عطا فرمائيں جو زندگی میں حسین توازن پیدا کرنے کی ضمانت دیتی ہیں۔ اسلام کا یہ بنیادی اصول اس کی تمام تعلیمات اور احکام میں کارفرما ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ انسانی حقوق 100% عدل بر مشتمل ہیں۔ دنیا کے دیگر كوئى بهي نظام حق کے احترام و ادائیگی کی اس بلندی و رفعت کی نظیر پیش نہیں کرسکتے جس کا مظاہرہ تعلیمات نبوی صلى الله عليه وآله وسلم میں نظر آتا ہے۔ اسلام کا فلسفہ حقوق دیگر نظام ہائے حیات کے فلسفہ حقوق سے يكسر مختلف و ممتاز ہے:
اسلام مطالبہ حق کی بجائے آدائيگى حق کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ ہر شخص اپنے اوپر عائد دوسرے افراد کے حقوق کی ادائیگی کے لئے کمربستہ رہے۔ اور یہاں تک کہ وہ صرف حق کی ادائیگی تک ہی محدود نہ رہے بلکہ اس ادائیگی کو حد احسان يعني إكرام تک بڑھا دے۔ قرآن فرماتا ہے:
إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ (النحل)
”بے شک اللہ (تمہیں) عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔“
مذکورہ بالا آیۃ مبارکہ میں مذکور عدل اور احسان قرآن حکیم کی دو اصطلاحات ہیں۔ عدل کا مفہوم تو یہ ہے کہ وہ حقوق جو شریعت اور قانون کی رو سے کسی فرد پر لازم ہیں وہ ان کی ادائیگی کرے جبکہ احسان یہ ہے کہ فرض و عائد حقوق سے بڑھ کر بھی وہ معاشره كے دوسرے افراد سے حسن سلوک کرے۔
حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عطا کردہ تصور احسان انسانی معاشرے کو سراپا امن و آشتی بنانے کی ضمانت فراہم کرتا ہے کیونکہ ایک فرد کا فرض دوسرے کا حق ہے جب ہر فرد اپنے فرائض کو ادا کرے گا یعنی دوسرے کے حقوق پورا کرنے کے لئے کمربستہ رہے گا تو لامحالہ معاشرے میں کسی طرف بھی حقوق کی عدم ادائیگی کی وجہ سے مطالبہ حقوق کی صدا بلند نہ ہوگی، اور پورے معاشرے کے حقوق از خود پورے ہوتے رہیں گے اور اس طرح معاشرہ قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے احترام کا آئینہ دار بن جائے گا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانی حقوق کا ایسا نظام عطا کیا ہے جہاں حقوق و فرائض میں باہمی تعلق و تناسب پایا جاتا ہے۔ یعنی کوئی شخص بغیر اپنے فرائض پورے کئے حقوق کا مطالبہ نہ کرے گا۔ چونکہ اساسی زور فرائض کی ادائیگی اور ایتائے حقوق پر ہے، سو کوئی بھی فرد معاشرہ اس وقت تک اپنے حقوق کے لئے آواز بلند نہیں کرسکتا جب تک وہ اپنے فرائض ادا نہ کرچکا ہو۔ اور فرائض کی ادائیگی کی صورت میں حقوق کا حصول ایک قدرتی اور لازمی تقاضے کے طور پر خود بخود ہی تکمیل پذیر ہوجائے گا۔
حضور نبي اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حقوق انسانی کا ایسا جامع تصور عطا کیا جس میں حقوق و فرائض میں باہمی توازن پایا جاتا ہے۔ اس بنیادی تصور کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی کئی مغالطوں نے بھی جنم لیا۔ حقوق و فرائض کے مابین عدم توازن ہی کے سبب سے بعض اوقات ظاہراً حقوق کے مابین عدم مساوات نظر آتی ہے حالانکہ درحقیقت ایسا نہیں۔ مثلاً عورتوں اور مردوں کے حصہ ہائے وراثت میں موجود فرق بھی اس حکمت کی وجہ سے ہے ورنہ مطلق حقوق کے باب میں مرد و عورت میں کوئی تمیز روا نہیں رکھی گئی۔ 
ارشاد ربانی ہے:
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ( البقرہ)
”اور دستور کے مطابق عورتوں کے مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر۔“
جبکہ میراث میں لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ (ا النساء)
(لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے) کے اصول کے تحت جو فرق رکھا گیا وہ مرد و عورت پر عائد دیگر فرائض اور ذمہ داریوں کی وجہ سے ہے۔ چونکہ مرد ہی خاندان کی کفالت اور دیگر امور کا ذمہ دار ہے جبکہ عورت کو اس ذمہ داری سے مبرا قرار دیا گیا لہٰذا وراثت میں مرد کا حصہ بھی دوگنا کر دیا گیا تاکہ وہ اپنی معاشی و کفالتی ذمہ داریوں سے بطور احسن عہدہ برآ ہو سکے۔
اسلام نے بعض امور کو ان کی قانونی و معاشرتی اہمیت کے پیش نظر حق نہیں بلکہ فرض قرار دیا اور ان کی عدم ادائیگی پر سزا کا مستوجب ٹھہرایا ہے مثلاً شہادت (گواہی)۔ اسلام میں گواہی دینا مردوں پر فرض ہے:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَادَةً عِندَهُ مِنَ اللّهِ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَO (االبقرہ)
”اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جس نے اس گواہی کو چھپایا جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے موجود ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیںo“

وَلاَ تَكْتُمُواْ الشَّهَادَةَ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌO ( البقرہ)
”اور تم گواہی کو نہ چھپایا کرو، اور جو شخص گواہی چھپاتا ہے تو یقیناً اس کا دل گنہگار ہے، اور اﷲ تمہارے اعمال کو خوب جاننے والا ہےo“

معاشرے میں قانون کی حکمرانی کے لئے گواہی کا شفاف اور مؤثر نظام لازمی عنصرکی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے اسلام نے مردوں کو ہر حال میں گواہی دینے کا پابند بنایا جبکہ دوسری طرف عورتوں کو ان کی ذمہ داریوں کے فطری فرق کے پیش نظر اس ذمہ داری سے مبرا قرار دیا اور گواہی کو فرض کی بجائے ان کا حق قرار دیا۔اور اسی لئے اس کی شرائط بھی مختلف کر دیں۔ یہاں مرد و عورت کے حقوق میں امتیاز مقصود نہیں بلکہ گواہی کے نظام کو مؤثر بنانا مقصود ہے حالانکہ بعض معاملات میں صرف عورتوں ہی کی گواہی معتبر ہوتی ہے

جيسا كه سطور بالا ميں يه عرض كيا گيا كه إسلام إكرام سے پهلے حقوق كي بات كرتا هے إس كے لئے نه صرف مسلمان بلكه تمام إنسانوں كے حقوق كي بات كرتا هے نه صرف إنسانوں بلكه مذهب إسلام حقوق إنساني سے ليكر جانوروں تك كے حقوق كا علمبردار هے ليكن يهاں پر إن شاء الله صرف إنساني حقوق كا هي إحاطه كرنے كي كوشش كي جائے گي الله تعالى هم سب كو صحيح محنت كرنے والا بنائے اور هم كوشش كركے صحيح مشق كريں تاكه دنيا وآخرت ميں كامياب هوجائيں

حضور أكرم (صلى الله عليه وأله وسلم) کے حقوق:
جب إنساني حقوق كي بات هوتي هے تو أمت پر سب سے زياده حقوق رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے هيں كيونكه حضورأكرم صلى الله عليه وآله وسلم کے احسانات ہم پر بہت زیادہ ہیں اس لیے آپ کا حق بهي ہم پر بہت هي زياده ہے،
چند حقوق یہ ہیں:
(1) رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کی رسالت اور أپ صلى الله عليه وآله وسلم كي ختم نبوت کا پخته اعتقاد رکھے
(2) تمام احکام میں رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کی اطاعت کرے
(3) رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کی عظمت اور محبت کو دل میں جگہ دے
(4) رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم پر روزانه درود پڑھا کرے
(5)ہروقت ہرعمل میں رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کی سنتوں کو اپنانے کی کوشش کرے-
(6) جب رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کا تذکرہ ہو تو آپ پر درود بھیجے
(7) تمام مخلوقات , رشته داروں حتى كه والدين اور أولاد سے بهي زياده محبت رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم سے ركهے
(8) رسم ورواج اور تمام أمور ميں رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے فرمان كو فوقيت دے
(9) رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقوں ميں 100% كاميابي اور غيروں كے طريقوں ميں سراسر ناكامي كا يقين اپنے دل ميں ركهے
(10) رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كي رسالت اور ختم نوبت كے منكرين كے كفر ميں ذرا بهر بهي شك نه ركهے
(11) رسول كريم صلى الله عليه وآله سے مجبت كرنے والوں سے محبت اور آپ صلى الله عليه وآله وسلم سے بغض ركهنے والوں سے بغض ركهے
(12) ناموس رسالت كؤ لئے هر قسم كي قرباني كو اپنے لئے عين سعادت سمجهے يهاں تك آپ(صلى الله عليه وآله وسلم ) كي رسالت اور ختم نبوت كؤ لئے جان بهي ديني پڑ جائے تو إس سے بهي دريغ نه كرے اور اسے اپنے لئے بهت بڑي سعادت سمجهے
(13) مرنے كے بعد عالم برزخ اور عالم آخرت كي كاميابي صرف اور صرف رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كي آطاعت ميں سمجهے
(14) الله تعالى كے بعد تمام مخلوقات حتى كه تمام آنبياء كرام عليه السلام اور ملائكه ميں رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كو هي أفضل وبرتر سمجهے
" بعد از خدا بزرگ توئي قصئه مختصر"
(15) يه إعتقاد ركهے كه الله تعالى نے سب مخلوقات حتى كه تمام آنبياء كرام اور ملائكه ميں سب سے زياده علم رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كو عطا فرمايا هے اور تمام مخلوقات مل كر بهي الله تعالى كے عطا كرده رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے علم كا مقابله نهيں كرسكتے
(إس كے علاوه رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے بيشمار حقوق امت پر هيں جن كي تفصيل علماء كرام كي تصنيف كرده كتابوں ميں ديكهي جا سكتي هے )

نبيوں اور رسولوں کے حقوق:
رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے علاوه بهي الله تعالى كے جتنے نبي اور رسول إس دنيا ميں مبعوث هوئے هم پر ان كے كے بهي حقوق هيں جن ميں سے چند مندرجه زيل هيں :
(1)ان حضرات کی نبوت ورسالت پر إيمان ركهيں
(2)ان حضرات کی عظمت واحترام کا خیال رکھیں
(3)ان حضرات کی قربانیوں کو اپنے لیے نمونہ بنائیں
(4) يه يقين ركهيں كه هر نبي كا مقام إتنا بلند هے كه اگر تمام غير نبي مخلوق إيك طرف هو اور إيك نبي إيك طرف هو تو يه تمام مخلوق ( صحابه كرام -صديقين - شهداء - صالحين ) ملكر بهي إيك نبي كے مقام كو نهيں پهنچ سكتے
(5) إن حضرات پر نازل شده كتابوں كے متعلق يه يقين ركهے كه يه كتابيں سچي تهيں اور اپنے اپنے زمانه ميں قابل عمل بهي تهيں


صحابہ كرام واہلِ بیت رضوان الله عليهم کے حقوق:
حضراتِ صحابہ واہل بیت رضوان اللہ عنہم اجمعین کو چونکہ حضور صلى الله عليه وآله وسلم کے ساتھ دینی اور دنیوی دونوں طرح کا تعلق ہے اس لیے آپ صلى الله عليه وآله وسلم کے حق میں اِن حضرات کے حقوق بھی داخل ہوگئے چند یہ ہیں:
(1)ان حضرات کی اطاعت کرے
(2)ان حضرات سے محبت کرے
(3)ان کے عادل ہونے کا اعتقاد رکھے
(4)ان کے چاہنے والوں سے محبت اور ان سے بغض وعداوت رکھنے والوں سے بغض رکھے
(5) إن حضرات كے آپس كے إختلافات ميں خاموشي إختيار كرے
(6) صحابه كرام كي جماعت مقبول بندوں كي جماعت هے الله تعالى أن سے راضي هيں اور وه الله تعالى سے راضي هيں لهذا ان پر كسي قسم كي بهي تنقيد نه كرے
(7)يه يقين ركهيں كه إيك صحابي كا مقام إتنا بلند هے كه اگر تمام غير صحابه أمت
إيك طرف هو اور إيك صحابي إيك طرف هو تو يه تمام أمت ( تابعين كرام- شهداء-أولياء كرام - صالحين ) مل كر بهي إيك صحابي كے مقام كو نهيں پهنچ سكتے


علماء كرام اور مشائخ كرام کے حقوق:
علماء ظاہر وباطن میں 
تمام آنبياء كرام اور بالخصوص سرورِ دو عالم صلى الله عليه وآله وسلم   کے وارث اور مسند نشین ہیں، اس لیے ان حضرات کے حقوق بھی حضور صلى الله عليه وآله وسلم کے حق میں داخل ہیں چند یہ ہیں:
(1) فقہاء مجتہدین، علمائے محدثین، اساتذہ، مشائخِ طریقت اور مصنفین دینیات کے لیے دعائے خیر کرتا رہے
(2)شرعی ضابطہ کے مطابق ان کا اتباع کرے
(3)جو اِن میں زندہ ہوں ان سے تعظیم ومحبت سے پیش آئے، ان سے بغض، مخالفت نہ کرے
(4)وسعت وضرورت کے بقدر ان حضرات کی مالی خدمات بھی کرتا رہے
(5) علماء كرام كے آپس كے إختلافات كي وجه سے أن سے بدظن نه هو كيونكه علماء كا إختلاف الله تعالى كي رحمت هے
(6) وقتاً فوقتاً أنكي مجلس ميں حاضري ديا كرے اور أن سے دين سيكهنے كي كوشش كرے

والدین کے حقوق:
حضرات علماء ومشائخ تو دینی نعمتوں میں واسطہ هيں اس لیے ان کا حق لازم هے ، بعضے لوگ دنیوی نعمتوں کے لیے ذریعہ ہیں، ان کا حق بھی شرعاً ثابت ہے، مثلاً ماں، باپ کہ ولادت اور پرورش ان کے هي واسطہ سے ہوتی ہے لهذا ان کے حقوق بهي هيں چند مندرجه ذيل ہیں:
(1)ان کو كسي طرح كي بهي تکلیف نہ پہنچائی جائے؛ اگرچہ کہ ان کی طرف سے کوئی زیادتی عي كيوں نه ہو
"وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّاتَعْبُدُوا إِلَّاإِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّايَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْكِلَاهُمَا فَلَاتَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَاتَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا" (الأسراء)
(2)زبان اور دوسرے اعضاء سے ان کی تعظیم وتكريم کرے
"وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرً" (الاسراء)
(3)شرعی کاموں میں ان کی مكمل اطاعت کرے
"عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ أَلَا أُحَدِّثُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ قَالُوا بَلَى يَارَسُولَ اللَّهِ قَالَ الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ" (ترمذی)
"لَاطَاعَةَ فِي مَعْصِيَةٍ إِنَّمَاالطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ" بخاری،
(4) اپنے مال سے بھی ان کی خدمت کرے؛ اگرچہ وہ دونوں بےدين بلكه اگرچہ وہ دونوں کافر هي كيوں نه ہوں
(5)ان سے دلی محبت رکھے أن كي دلجوئى ميں كوئى كسر أٹها نه ركهے
(6) انكي طرف پاؤں پهيلا كر نه بيٹهے
(7) كچهـ أوقات ان كے پاس ادب كے ساتهـ بيٹهنے كا معمول ركهے
(8) ان كي باتوں كو غور سے سنا كرے اوران كو اپني زندگي ميں لانے كي كوشش كرے كيونكه إيك وقت آ ئے گا كه وه نهيں هوں گے تو أن كي يه باتيں اپ كے كام آئيں گي
(9) ان كے هر حكم كو دل سے تسليم كرے البته وه اگر خلاف شريعت كوئى حكم ديں تو إس ميں أن كي تابعداري نه كرے بلكه بهت نرمي سے انهيں سمجها دے
(10) والدين ميں سے كوئى بهي اگر بيماري يا بڑهاپے كي حالت ميں هوں تو ان كي خدمت كو اپنے لئے إيك نعمت سمجهـے اور انكي جسماني اور مالي خدمت ميں كوئي كسر باقي نه ركهے
(11) والدين كو هميشه محبت كي نظر سے ديكهـے- والدين كي طرف إيك محبت كي نگاه ڈالنے والے كو الله تعالى إيك حج كا ثواب عنايت فرماتے هيں
(12) والدين كي طرف غصه بهري نظر ڈالنے سے هميشه إحتراز كرے كيونكه اگر محبت كي نظر ڈالنے سے إيك حج كا ثواب ملے گا تو غصه كي نظر سے كتنا گناه هوگا إس كا اندازه خود كرلے
(13) والدين كيساتهـ هميشه إيسا پيار بهرا سلوك روا ركهے كه وه هميشه اس كو اپني نصيحتوں سے نوازتے رهيں إيسا برتاؤ نه كرے كه والدين نصيحت كرنے سے بهي إحتراز كرنا شروع كرديں اگر إيسا هوا تو إيسے شخص كي بدقسمتي كو اندازه كرنا ممكن نهيں
(14)ان کے متعلقین اور احباب سے حسنِ سلوک کرے أن كي زندكي ميں بهي اور موت كے بعد بهي
(15) أولاد كے لئے والدين كي دعائيں سب سے قيمتي هيں ان سے إيسا سلوك كيا كرے كه وه خوش هوكر دل سے دعائيں ديں
(16) اپنے كاموں ميں ان سے مشوره كيا كرے كيونكه والدين سے زياده مخلص كوئي اور نهيں هوسكتا
(17) اگر خدانخواسته والدين سے كوئي رنجش هو جائے تو إسے برقرار نه ركهے بلكه خود پهل كركے ان سے معافي مانگے اور رنجش كو ختم كرے

والدین میں کس کی اطاعت مقدم هے:
جب کسی جائز امر کو باپ منع کرے اور ماں کرنے کا حکم دے تو چونکہ عورت خود شرعاً شوہر کی محکوم (تابع) ہے اس کا شوہر کے خلاف حکم کرنا معصیت ہے اور معصیت میں اطاعت نہیں ہوتی اس لیے اس صورت میں باپ کا حکم مانا جائیگا۔
"الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ" النساء"
"لَاطَاعَةَ فِي مَعْصِيَةٍ إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ" بخاری،

ماں باپ کے انتقال کے بعد ان کے حقوق:
(1)ان کے لیے دعائے مغفرت ورحمت کرتا رہے، حج - عمره - تلاوت -نوافل وصدقات مالیہ کا ثواب ان کو پہنچاتا رہے
(2)ان کے رشتہ دار اور دوست احباب کے ساتھ خدمت مالی وبدنی کرتا رہے، ان کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئے
(3)ان کے ذمہ قرضہ ہو تو اس کو پوري زمه داري سے ادا کرے
(4) أنكي چهوڑي هوئى وصيت پر پورا پورا عمل كرے بشرطيكه وصيت ميں كوئى بات خلاف شريعت نه هو
(5)کبھی کبھی ان کی قبر کی زیارت كو جايا کرے اور أن كے لئے دعائے مغفرت كرے

اولاد کے حقوق:
جس طرح ماں باپ کے حقوق اولاد پر ہیں؛ اسی طرح ماں باپ پر اولاد کے حقوق ہیں:
(1)ان کی پیدائش ہوتے ہی کان میں اذان دے، اقامت کہے
(2) - اگر مالي وسعت هو تو اس کا عقیقہ کرے، اور ان کا اچھا نام رکھے اور ختنہ کرے
(3) ان کي دینی تعلیم تربيت كا مناسب إنتظام كرے اور إس كا خاص خيال ركهے
(4) بچپن میں محبت کے ساتھ ان کی پرورش کرے کہ اولاد کو پیار کرنے کی بھی فضیلت آئی ہے، خاص کر لڑکیوں سے دل تنگ نہ کرے ، ان کی پرورش کرنے کی بڑی فضیلت آئی ہے-
(5)اگر کسی کا دودھ پلانا پڑے تو دیندار اور اچھے اخلاق والی (انّا) تلاش کرے کیونکہ دودھ کا اثر بچہ کے اخلاق میں ہوتا ہے
(6)ان کو علم دین وآداب سکھلائے دنياوي علم بهي سكهلائے ليكن فوقيت علم دين كو هي دے
(7)جب نکاح کے قابل ہو ان کا نکاح کردے اگر لڑکی کا شوہر مرجائے يا خدانخواسته طلاق هو جائے تو نکاح ثانی ہونے تک اس کو اپنے گھر آرام سے رکھے ، اس کے ضروری اخراجات برداشت کرے
(8) أولاد كے نكاح كے لئے نیک اور ديندار رشته تلاش كرے نکاح کرنے كےلئے لڑكي/ڑكا كي رضامندي كا بهي خيال ركهے
(9)اولاد غیرتندرست ہو جیسے اندھا، اپاہج ہو تو اس کا خرچہ ماں باپ کے ذمہ ہیں؛ اگر ماں باپ نہ ہوں تو رشتہ داروں کے ذمہ ہے، چاہے کتنی ہی عمر ہوجائے
(10)أولاد ميں هرهر بچہ کے ساتھ مساوات وبرابری کرے
(11) أولاد كے لئے رزق حلا ل كا إنتظام كرے حرام رزق سے انهيں دور ركهے


دودھ پلانے والی "انا" کے حقوق:
انا بھی دودھ پلانے کی وجہ سے ماں کی طرح ہے، اس کے حقوق بھی وارد ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں:
(1)اس کے ساتھ ادب واحترام سے پیش آئے
(2)اگر اس کو مالی حاجت ہو اور خود کو وسعت ہو تو اس کی مالی حاجت کو پورا کرے؛ اگر میسر ہو تو ایک غلام یا باندی خرید کر اس کو خدمت کے لیے دے
(۳)اس کا شوہر اس کا مخدوم ہے اور یہ اس کی مخدومہ ہے تو اس کے شوہر کو مخدوم المخدومہ سمجھ کر اس کے ساتھ بھی احسان کرے

سوتیلی ماں کے حقوق:
سوتیلے ماں باپ کے ساتھ اور باپ کے دوستوں کے ساتھ احسان کرنے کا حکم آیا ہے، اس لیے سوتیلی ماں کے بھی کچھ حقوق ہیں:
ماں باپ کے انتقال کے بعد ان کے دوستوں اور اہل تعلق کے تحت جو کچھ ذکر ہوا وہ سب ان کے ساتھ بھی کرے ۔

بھائی بہن کے حقوق:
حدیث میں ہے کہ بڑا بھائی باپ کی طرح ہے اس سے یہ معلوم ہوا کہ چھوٹا بھائی اولاد کی طرح ہے؛ لہٰذا ان میں باہمی حقوق ویسے ہی ہوں گے جیسے والدین اور اولاد کے درمیان ہوتے ہیں؛ اسی پر بڑی بہن اور چھوٹی بہن کو قیاس کرلینا چاہیے۔

رشتہ داروں کے حقوق:
حضورﷺ کا ارشاد ہے: "جو شخص رشتہ داروں سے بدسلوکی کرے وہ جنت میں داخل نہ ہوگا"۔
(1)اپنے رشتہ دار اگر محتاج ہوں اور کھانے کمانے کی قدرت نہ رکھتے ہوں تو بقدرِ کفالت ان کے نان ونفقہ کی خبرگیری کرتا رہے گو أن كا خرچہ واجب تو نہیں لیکن کچھ خدمت کرنا ضروری ہے اور کبھی کبھی ان سے ملتا رہے
(2)ان سے صله رحمي كرے بوقت ضرورت أن كي إعانت كرے
(3) أن سے رشتہ نہ توڑے بلکہ اگر کسی قدر ان سے تکلیف بھی پہنچے تو صبر افضل ہے
(4) أنكي موجوگي اور عدم موجودگي ميں أن كي خير خواهي كرے
(5) أن كو كسي قسم كا كوئي نقصان نه پهنچائے بلكه جهاں تك ممكن هو انهيں فائده پهنچانے كي كوشش كرتا رهے

استاد کے حقوق:
أستاد وه هستي هے جو إنسان كو اندهيروں سے نكال كر روشني كيطرف ليجاتي هے أستاد كا بهت إهم مقام هے حضرت علي رضي الله تعالى فرماتے هيں جسكا مفهوم يه هے كه جس نے هميں إيك لفظ بهي سكها ديا أس نے هميں اپنا غلام بنا ليا - أستاد كے بهت زياده حقوق هيں جن ميں سے كچهـ مندرجه زيل هيں :-
(1)حتى الإمكان كوشش كرے كه ان کے پاس مسواک کرکے اور صاف ستهرے کپڑے پہن کر جائے
(2) أن كے ساتهـ إنتهائى ادب کے ساتھ پیش آئے
(3) أن كو هميشه عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھے
(4) وه جو كچهـ بتلائے اس کو خوب توجہ سے سنے
(5) أنكي بتائي هوئى باتوں كو بهت قيمتي سمجهـے اور أن کو خوب یاد رکھے
(6) اگر أنكي بتائى هوئى كوئى بات جزوي طور پر يا مكمل طور پر سمجھ میں نہ آئے تو إسے اپنا قصور سمجھے اور موقع مناسب ديكهـ كر إنتهائى عاجزي اور شرمندگي كے ساتهـ دوباره پوجهـ لے
(7) أستاد محترم کے روبرو کسی اور کا قول جو أستاد كے مخالف هو هرگز ذکر نہ کرے
(8)اگر کبهي استاذ برا بھلا کہے تو جہاں تک ہوسکے اس سے عذر معذرت کرے ورنہ وہاں سے چلا جائے
(9)جب درسگاہ کے قریب پہنچے توسب حاضرین کو سلام کرے پھر استاذ کو خاص کر سلام کرے لیکن وہ اگر تدريس , تقریر يا تلاوت وغیرہ میں مشغول ہو تو اس وقت سلام نہ کرے
(10)استاذ کے روبرو نہ ہنسے، نہ بہت باتیں کرے، اِدھر اُدھر نہ دیکھے، نہ کسی اور کی طرف متوجہ ہو، بلکه صرف استاد کی طرف توجہ رکھے
(11)استاد کی سختي کو نظر انداز کر دے اور إس وجه سے أس كے إحترام وإكرام ميں كوئي فرق نه آنے دے
(12)أستاد کی سختی سے اس کے پاس جانا نہ چھوڑے، نہ اس کے کمال سے بداعتقاد ہو؛ بلکہ اس کے اقوال اور افعال کی تاویل کرے
(13)جب استاد کسی کام میں لگا ہو یا ملول ومغموم ہو یا بھوکا پیاسا ہو یا اونگھ رہا ہو یا اور کوئی عذر ہو جس سے تعلیم دشوار ہو یا حضور قلب نہ ہو ایسے وقت نہ پڑھے
(14)اس کے دور ہونے پر یا اس کے نہ ہونے پر بھی اس کے حقوق کا خیال رکھے
(15)کبھی کبھی تحفہ تحائف، خط وکتابت سے اس کا دل خوش کرتا رہے
حقوق اور بہت ہیں مگر سمجهدار کے لیے اس قدر کافی ہیں وہ اس سے باقی حقوق بھی سمجھ جائے  گا۔

مرشد (روحانی تربیت کرنے والے) کے حقوق:
مرشد بهي بمنزله أستاد كے هے أستاد إنسان كو علم سے آراسته كرتا هے اور مرشد تربيت كركے عمل كا راسته دكهاتا هے لهذا جو حقوق استاد کے لکھے گئے ہیں وہی مرشد کے بھی حقوق ہیں اور کچھ حقوق جو زائد ہیں وہ یہ ہیں:
(1) اپنے مرشد كي طرف مكمل توجه ركهے اور اگر دوسری طرف توجہ کرے گا تو مرشد کے فیض وبرکات سے محروم رہے گا
(2)ہرطرح مرشد کا مطیع ہو اور جان ومال سے اس کی خدمت کرے؛ کیونکہ مرشد کی محبت کے بغیر کچھ نہیں ہوتا اور محبت کی پہچان یہی ہے
(3)مرشد جو کچھ کہے اس کو فوراً بجا لائے اور بغیر اجازت اس کے فعل کی اقتداء نہ کرے؛ کیونکہ بعض اوقات وہ اپنے حال اور مقام کے مناسب ایک کام کرتا ہے کہ مرید کو اس کا کرنا زہر قاتل هوتا ہے
(4) جو درود / وظیفہ وغيره مرشد تعلیم کرے اسی کو پابندي سے پڑھے اور مرشد كو بتائے بغير اپنی طرف سے كوئي وظيفه پڑھنا شروع نه كرے
(5)مرشد کی موجودگی میں مکمل طور پر اس کی طرف متوجہ رہنا چاہیے؛ یہاں تک کہ سوائے فرض - واجب وسنت کے نفل نماز اور کوئی وظیفہ اس کی اجازت کے بغیر نہ پڑھے
(6))اس کے روبرو کسی اور سے بات نہ کرے بلکہ کسی اور کی طرف متوجہ بھی نہ ہو
(7)جس جگہ مرشد بیٹھا ہو تو أدب كا تقاضا يه هے كه اس طرف پاؤں نہ پھیلائے اور اس کی طرف نہ تھوکے
(8)جو کچھ مرشد کہے یا کرے اس پر اعتراض نہ کرے؛ اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اسے اپنی سمجھ کا قصور سمجھے جب تک کہ شریعت کے بالکل ہی خلاف نہ ہو اور کوئی تاویل نہ ہوسکتی ہو کیونکہ کبیرہ گناہوں میں مبتلا آدمی تو مرشد هو هی نہیں سکتا، اللہ کے ولی صرف متقی ہی ہوتے ہیں لیکن خلافِ شرع قرار دینے میں جلدی نہ کرے، علماء متقین سے معلوم کرے،
( حقیقی مرشد تو اسی طرح کا هي ہوتا ہے، البته آج کل جاهل - بناوٹی - دھوکہ باز اور بے عمل وراثتي مرشدوں كا سيلاب آيا هوا هے جو علم وعمل سے كوسوں دور هيں إنكو مرشد كهنا هي لفظ مرشد كي توهين هے لهذا مرشد كے چناؤ ميں بهت إحتياط كرے اور إن بهروپي مرشدوں سے دور رهے ورنه دين ودنيا دونوں تباه هوكر ره جائيں گي يه ياد ركهيں كه صرف باعمل عالم دين هي حقيقي مرشد هوسكتا هے باقي إيرے غيرے سے حتى الإمكان دور رهے)
(9) اپنے مرشد سے کرامت کی خواہش نہ کرے كيونكه كرامت دكهانے ميں مرشد كا عمل دخل قطعاً نهيں هوتا بلكه يه الله تعالى كي طرف سے هوتي هے جب الله تعالى چاهيں دكها ديں ليكن مرشد جب چاهے كوئى كرامت دكها دے يه ممكن نهيں اگر كوئى إسكا دعويدار هے تو يه سراسر دهوكه هے مرشد كي سب بڑي كرامت أسكا آحكام شريعت پر مضبوطي سے عمل پيرا هونا هے رهي معجزاتي كرامت يه كوئى بزرگي كيلئے لازم وملزوم نهيں هے أصل كسوٹي تو عمل هے حقيقي مرشد كرامت كا دعويدار نهيں هوتا بلكه صرف الله اور رسول كے آحكامات كا پابند هوتا هے
(10)ًخواب میں جو کچھ دیکھے وہ مرشد سے عرض کرے اور اگر اس کی تعبیر ذہن میں آئے تو اسے بھی عرض کردے
(11)مرشد کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرے اور بآواز بلند اس سے بات نہ کرے اور بقدر ضرورت مختصر کلام کرے اور نہایت توجہ سے جواب کا منتظر رہے
(12)مرشد کے کلام کو دوسروں سے اس قدر بیان کرے جس قدر لوگ سمجھ سکیں اور جس بات کو یہ سمجھے کہ لوگ نہ سمجھیں گے تو اسے بیان نہ کرے
(13)جو کچھ اس کا حال ہو، بھلا یا بُرا، اسے مرشد سے عرض کرے کیونکہ مرشد طبیب (ڈاکٹر) قلبی ہے، اطلاع کے بعد هي اس کی اصلاح کر سكیگا ورنه وه بهي علم غيب تو نهيں جانتا كه بغير بتائے حالات پر مطلع هو جائے
(14)جو کچھ فیض باطنی مرشد سے پہنچے اسے مرشد كا كمال نهيں بلكه محض فضل ربي هي سمجھے

شاگرد اور مرید کے حقوق:
چونکہ شاگرد اور مرید اولاد کے درجہ میں ہے، اس لیے شفقت ودلسوزی میں ان کا حق اولاد کے حق کی طرح ہے۔


شوہر کے حقوق:
إيك شوهر كا بيوي كے لئے بهت بڑا مقام هوتا هے آحاديث مباركه ميں بهي بيشتر مقامات پر إسے آجاگر كيا گيا هے حديث مباركه ميں يهاں تك فرما ديا گيا جس كا مفهوم يه هے كه اگر الله كے علاوه كسي اور كے لئے سجده جائز هوتا تو ميں بيوي كو اپنے شوهر كو سجده كرنے كا حكم ديتا
شوهر كے بهت حقوق هيں جن ميں سے چند كا ذكر كيا جاتا هے

(1)اس کی اطاعت ، ادب وخدمت، دلجوئی، رضا جوئی پورے طور پر بجالائے
البتہ ناجائز امور میں عذر کردے كيونكه الله تعالى كي نافرماني ميں كسي كا بهي حكم نهيں مانا جاسكتا
(2)اس سے کسی طرح كي بهي إيسي فرمائش نه كرے جسے پورا كرنے ميں وه عاجز هو يعني گنجائش سے زیادہ اس سے فرمائش نہ کرے
(3)اس کا مال بلااجازت خرچ نہ کرے يهاں تك صدقه بهي اس كے مال سے اس كي آجازت كے بغير نه كرے هاں اگر اس نے آجازت دي هوئى هے تو پهر درست هے
(4)اس کے رشتہ داروں سے إيسا سلوك نہ کرے کہ جس سے شوہر کو تکلیف پہنچے، خاص کر شوہر کے ماں باپ كي خدمت اپنے والدين كي طرح كرے أن كو کو اپنا مخدوم سمجھ کر ادب وتعظیم سے پیش آئے أن كي خدمت كو اپنے لئے إيك سعادت سمجهے وه اگر كچهـ سخت بات بهي كه ديں تو إس كو دل ميں نه ركهے كيونكه والدين هونے كي حيثيت سے انهيں سرزنش كا بهي حق حاصل هے
(5) كسي كو بهي شوہر کی اجازت کے بغیر گھر میں آنے نہ دے اگر شوهر كسي كے گهر انے پر خوش نه هو تو اسے كبهي بهي اپنے گهر آنے كي آجازت نه دے
(6)اس کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے كسي بهي عزيز كے گهر اس كي آجازت كے بغير نه جائے اگر شوهر كسي جگه جانے سے منع كرے تو منع هوجائے
(7)اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے كسي كو بهي کوئی چیز نہ دے چاهے وه كوئي قريبي عزيز هي كيوں نه هو
(8) اس کی اجازت کے بغیر نفل نماز، نفل روزہ وغيره نہ رکھے بيوي كے لئے شوهر كي خواهش هر نفل عمل پر فوقيت ركهتي هے
(9)اگر شوهر بلائے شرعی موانع کے بغیر اس سے انکار نہ کرے، اپنے وسائل اور شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنی زیب وزینت کا دھیان رکھے
(10)اپنے شوہر کو افلاس یا بدصورتی يا كسي اور قدرتي نقص کی وجہ سے قطعاً حقیر نہ سمجھے بلكه اسے دل سے اپنے سر كا تاج سمجهـے
(11) أس ميں اگر کوئی چیز خلافِ شرع دیکھے تو ادب سے منع کرے، اس کا نام لے کر نہ پکارے أسكا أدب هر حالت ميں ملحوظ خاطر ركهے
(12)کسی کے سامنے خاوند کی شکایت نہ کرے خاوند كے تمام رازوں كي حفاظت كرے
(13) شوهر كي خوشي كا هر وقت خيال ركهـے اگر وه كسي وجه سے ناراض هو جائے تو اس منانے ميں تأخير نه كرے

بیوی کے حقوق:
مياں بيوي كا رشته بهت هي إهميت كا حامل هے إس رشته ميں جهاں شوهر كا إيك مقام هے وهاں بيوي بهي إيك منفرد اور خوبصورت مقام ركهتي هے بلكه گهر كو كاميابي سے چلانے كے لئے بيوي كردار شوهر سے بهي كچهـ زياده هي هے بيوى كے بهي بهت سے حقوق حديث مباركه ميں آئے هيں حن ميں سے كچهـ مندرجه زيل هين :-
(1)اپنی وسعت کے موافق اس کے نان ونفقہ (خرچہ وغیرہ) میں کمی نہ کرے، اعتدال (درمیانی حالت) سے خرچ کرے، نہ تنگی کرے اور نہ فضول خرچی کی اجازت دے،
(2) ان کودینی مسائل سکھلاتا رہے اور نیک عمل کی تاکید کرتا رہے، حیض وغیرہ کے مسائل علماء كرام سے سیکھ کر اس کو سکھلائے،
(3) نماز اور دین کے فرائض كي اسے تاکید کرتا رهے،
(4) اسے غلط رسومات ، بدعات اور ممنوعات سے روکے
(5)اس کے خونی رشتہ دار (جن سے نکاح حرام ہے) سے کبھی کبھی ملنے كي آجازت بخوشي دے
(6) اس کی کم فہمیوں پر اکثر صبروسکوت اختیار کرے؛ اگر کبھی ضرورت تادیب (ادب سکھلانے) کی ہو تو اعتدال کا لحاظ رکھے
(7)اچھے اخلاق سے پیش آئے لیکن اس کی خواہش اتنی نہ سنے کہ اس کا مزاج هي بدل جائے اور وه شوهر كو اپنا غلام هي سمجهنا شروع كردے اور اپنا مردانه رعب باقی رکھے ليكن ظلم كا إرتكاب هرگز هرگز نه كرے
(8)اگر إيك سے زياده بیویاں ہوں تو ان کے حقوق ميں شريعت كے مطابق برابرى كا سلوك کرے
(9)ضرورت کے بقدر اس كي جائز خواهشات كو پورا كرتا رهے البته خلاف شرع خواهشات سے معذرت كردے اور نرمي سے اسے سمجها دے
(10) أس كے والدين كے ساتهـ حسن سلوك كرے ان كا أدب وإحترام هميشه ملحوظ خاطر ركهے
(11) حتى الإمكان طلاق دينے سے گريز كرے ليكن اگر كوئى بهي راسته باقي نه رهے تو پهر بهي اسے درميان ميں لٹكا كر اس پر ظلم نه كرے بلكه آحسن طريقه سے طلاق دے كر اسے عليحده كردے
(12) مياں بيوى کے راز ظاہر نہ کرے اگر خدانخواسته عليحدگي كي بهي نوبت آگئ هو پهر بهي اسكے راز كو ظاهر نه كرے
(13) حتى الإمكان مارنے سے باز رهے ليكن اگر ضرورى هو تو پهر بهي حد سے زیادہ نہ مارے بهتر يهي هے كه نصيحت كے دوسرے طريقے إستعمال كرے

سسرالی رشتہ داروں کے حقوق:
قرآن مجید میں الله تعالیٰ نے نسب کے ساتھ علاقہ مصاہرۃ (سسرالی رشتہ) کا بھی ذکر فرمایا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ساس، خسر، سالے، بہنوئی، داماد، بہو اور ربیب (بیوی کی پہلی اولاد) کا بھی حق ہوتا ہے، اس لیے ان تعلقات میں بھی احسان واخلاق کی رعایت کسی قدر خصوصیت کے ساتھ رکھنا چاہیے

حاکم ومحکوم (مالک وخادم) کے حقوق:
حاکم ومحکوم کے حقوق میں حاکم کا مطلب بادشاہ ونائب بادشاہ، آقا وغیرہ اور محکوم سے مراد رعایا، نوکر وغیرہ سب داخل ہیں اور جہاں مالک ومملوک (خادم) ہو وہ بھی داخل ہوجائیں گے۔
حاکم کے حقوق:
(1)حاکم کی خیرخواہی واطاعت کرے؛ البتہ خلافِ شرع امور میں اطاعت نہ کرے
(2)اگرحاکم سے کوئی امرخلافِ طبع پیش آئے تو صبر کرے شکایت وبددعا نہ کرے البتہ اس کے نرم مزاجی کے لیے دعا کرے اور خود اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا اہتمام کرے تاکہ الله تعالى حکام کے دل نرم کردے
(3)اگرحاکم سے آرام پہنچے تو اس کے ساتھ شکرگزاری کریں
(4)اپنی ذات کے واسطے اس سے سرکشی نہ کرے اور جہاں غلام پائے جاتے ہوں، غلاموں کا نان ونفقہ واجب ہے اور غلام کو اس کی خدمت چھوڑ کر بھاگنا حرام ہے باقی غلام کے علاوہ محکومین آزاد ہیں، دائرۂ حکومت میں رہنے تک اس پر حقوق ہوں گے اور خارج ہونے کے بعد ہروقت خود مختار ہے

محکوم کے حقوق:
(1)محکوم پر دشوار احکام جاری نه کرے
(2)اگر باہم محکومین میں کوئی جھگڑا ہوجائے تو عدل وانصاف کی رعایت کرے؛ کسی کی طرف داری نہ ہو
(3)ہرطرح ان کی حفاظت وآرام رسانی کی فکر میں رہے، فرياد خواہوں کو اپنے پاس پہنچنے کے لیے آسان طریقہ مقرر کرے
(4)اگراپنی شان میں اس سے کوئی کوتاہی یاغلطی ہوجائے تو کثرت سے معاف کردیا کرے، ناروا اور ناجائز سختی کرنے سے پرہیز کرے
(5) أنكي جان مال اور عزت كي حفاظت كرے

سن رسیدہ کے حقوق:
اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں انسان کو اشرف بنایا۔اس کو علم،عقل،صلاحیت اور فہم و فراست عطا فرمائی۔انسان ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔اُن میں نیک و بد، عالم وجاہل،مشرک ومومن،اپنے اور پرائے، ہمسایہ واجنبی وغیرہ ہیں۔مرد وعورت میں مختلف رشتہ داریاں اور حقوق وواجبات ہیں۔ان میں بچے،جوان، بوڑھے،محتاج وکمزور،یتیم و بیوہ اور بیمار واپاہج بھی ہیں۔انسانی نسل میں مختلف قبائل وخاندان،رسم ورواج،مذہب ومسلک،رنگ ونسل،ملک ووطن ہیں، لیکن تمام تر تفریقات کے باوجود کچھ قدریں مشترک ہیں اور انسانی آبادی میں ان قدروں پر عمل ہوتا رہا ہے۔ بچوں سے شفقت و محبت اور بوڑھوں کا ادب و احترام تمام قوموں اور مذہبوں میں پایا جاتا ہے اور انسانی سماج میں ہر عمر کے لوگوں کے لیے الگ الگ برتاؤ پایا جاتا ہے، لیکن آج بدلتے حالات کے ساتھ بہت سی پرانی قدریں پامال ہو رہی ہیں۔مغربی ممالک اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے سماج میں بوڑھے مرد اور عورت پر ظلم و زیادتی پائی جارہی ہے۔ان کا ادب و احترام،ان کی خدمت و خبرگیری سے خود اولاد دورہوتی جارہی ہے۔بوڑھے اپنے ہی گھر سے نکلنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور سرکاری رہائش گاہوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔آئے دن ان پر زیادتی کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔
مسلم خاندان و معاشرے میں بھی بتدریج تبدیلیاں آرہی ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ عمر رسیدہ کے حقوق اور ان کے ادب و احترام اور خدمت وخبر گیری کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کو قدرے تفصیل کے ساتھ لکھا جائے اور وعظ ونصیحت اور آپسی ملاقاتوں میں بھی بڑوں کے ادب و خدمت کو بار بار دہرایا جائے اور بچوں پر شفقت و محبت اور بڑوں کے ادب و احترام کا عمومی ماحول پیدا کیا جائے۔
اسلام نے عمر رسیدہ لوگوں کی عزت و احترام اور چھوٹوں پرشفقت و محبت کرنے کا حکم دیا ہے۔اس سلسلے میں احادیث اور اسلاف کے قول وعمل کے نادر نمونے موجود ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضي الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم نے أرشاد فرمایا…
 “مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، ويَعْرِفْ حَقَ كَبِيرِنَا؛ فَليْسَ مِنَّا
جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کے حقوق کونہ پہچانے(يعني ادا نه كرے) وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
اس حدیث شريف میں بڑوں کے ادب واحترام نہ کرنے والوں کے لیے سخت وعید ہے۔ایسے لوگوں کا رشتہ اسلام سے إسقدر کمزور ہے كه نبي كريم صلى الله عليه وآله وسلم باوجوديكه أمت بر إنتهائي شفيق هيں ليكن إس شخص كے لئے جو چھوٹوں پر رحم نهيں کرتا اور بڑوں کے حقوق کو ادا نهيں كرتا فرماتے هيں كه وه هم ميں سے نهيں هے


باجماعت نماز ميں بوڑھوں کا إحترام:
نماز إسلام كا ایک اہم رکن ہے،اس میں بھی بوڑھوں کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔انفرادی نماز میں انسان کو بڑی سورت اور لمبی نماز پڑھنے کی اجازت ہے، لیکن جماعت کی نماز میں بوڑھے ،کمزور اور بیمار شریک ہوتے ہیں اس لیے امام کو حکم دیا گیا کہ وه آسانی اختیار کرے اور نماز زیادہ لمبی نہ کرے۔ جنانچه حديث شريف ميں هے
”عن أبی ھریرة رضي الله تعالى عنه ان النبی صلی الله علیہ وآله وسلم قال: اذا أم أحدکم الناس فلیخفّف، فان فیھم الصغیر والکبیر والضعیف والمریض، فاذا صلی وحدہ فلیصلّ کیف شاء“․
ترجمہ:”حضرت ابو ہریرہ رضي الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا،جب تم میں سے کوئی لوگوں کا امام بن کر نماز پڑھائے تو چاہیے کہ ہلکی نماز پڑھائے(یعنی زیادہ طول نہ دے)،کیوں کہ مقتدیوں میں کمزور،بیمار اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں۔“

باجماعت نماز ميں بوڑھوں کا خيال نه كرنے والے إمام كي گرفت:
ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے اس امام پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا جو بوڑھے،کمزور اور ضرورت مندوں کاخیال نہ رکھتے ہوئے لمبی نماز پڑھاتے تھے۔چناںچہ صحیحین میں ہے:
”عن قیس بن أبی حازم رضي الله تعالى عنه قال أخبرنی أبو مسعود رضي الله تعالى عنه ان رجلاً قال: واللّٰہ یا رسول اللّٰہ صلى الله عليه وآله وسلم ، انی لاتاخر عن صلاة الغداة من أجل فلان مما یطیل بنا، فمارأیت رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وآله وسلم فی موعظة أشد غضباً منہ یومئذ، ثم قال: ان منکم منفرین، فایکم ما صلی بالناس فلیتجوز، فان فیھم الضعیف والکبیر وذاالحاجة“
ترجمہ :”قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ مجھ سے ابو مسعود انصاری رضي الله تعالى عنه نے بیان کیا کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم بخدا میں فلاں شخص کی وجہ سے صبح کی نماز میں شریک نہیں ہوتا، کیوںکہ وہ بہت طویل نماز پڑھاتے ہیں۔حدیث کے راوی ابو مسعود انصاری رضي الله تعالى عنه بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ علیہ وسلم کو کبھی وعظ اور خطبہ کہ حالت میں اس دن سے زیادہ غضبناک نہیں دیکھا،پھر اس خطبہ میں آپ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو ( اپنے غلط طرزِعمل سے اللہ کے بندوں کو)دور بھگانے والے ہیں،جو کوئی تم میں سے لوگوں کا امام بنے اور ان کو نماز پڑھائے تو اس کے لیے لازم ہے کہ نماز مختصر پڑھائے،کیوںکہ ان میں ضعیف بھی ہوتے ہیں اور بوڑھے بھی اور حاجت والے بھی۔“
حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے تاحیات امامت فرمائی۔مرض الموت میں صحابہ کرام کے درمیان سب سے معزز ہستی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالى عنہ نے امامت کے فریضہ کو انجام دیا۔یہاں بھی حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے بوڑھے أشخاص کو فراموش نہیں فرمایا۔

سن رسيده إمامت كا حقدار:
قرآن و حدیث میں مہارت،عمر میں برابری،ہجرت میں سبقت میں سب برابر ہوں تو اس وقت سب سے زیادہ عمر دراز کو امامت کرنی چاہیے۔
”عن ابی مسعود الأنصاری رضي الله تعالى عنه قال:قال رسول للہ صلی الله علیہ وآله وسلم: یوٴم القوم أقروٴھم لکتاب اللہ، فان کانوا فی القرأة سواءً، فاعلمھم بالسنة، فان کانوا فی السنة سواءً فاقدمھم سناً، ولا یوٴمن الرجل الرجل فی سلطانہ، ولا یقعد فی بیتہ علی تکرمتہ، الا باذنہ“ ․
ترجمہ:”حضرت ابو مسعود انصاری رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا ، جماعت کی امامت وہ شخص کرے جو ان میں سب سے زیادہ کتاب اللہ کا پڑھنے والا ہواور اگر اس میں سب یکساں ہوں تو پھر وہ آدمی امامت کرے جو سنت و شریعت کا زیادہ علم رکھتا ہو اور اگر اس میں بھی سب برابر ہوں تو وہ جس نے پہلے ہجرت کی ہو اور اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو پھر وہ شخص امامت کرے،جو سن کے لحاظ سے مقدم ہواور کوئی آدمی دوسرے آدمی کے حلقہ سیادت و حکومت میں ا س کا امام نہ بنے اور اس کے گھر میں اس کے بیٹھنے کی خاص جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھے۔“
امام بخاری رحمة الله عليه نے کتاب الاذان کے تحت ایک روایت کو ذکر کیا ہے جس میں عمر میں سب سے بڑے کو امامت سپرد کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
”عن مالک بن الحویرث: اتیت النبی صلی الله علیہ وسلم فی نفر من قومی، فأقمنا عندہ عشرین لیلة، وکان رحیماً رفیقاً، رأی شوقنا الی أھالینا، قال: ارجعوا وکونوا فیھم، وعلموھم وصلوافاذا حضرت الصلوٰة فلیوٴذن لکم احدکم ولیوٴمکم اکبرکم“․
ترجمہ:”حضرت مالک رضي الله تعالى عنه بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے قبیلہ کے چند افراد کے ہمراہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہم آپ کے پاس بیس راتیں ٹھہرے ،آپ انتہائی مہربان اور نرم مزاج تھے۔
چناںچہ جب آپ صلی الله علیہ وآله وسلم نے دیکھا کہ ہم لوگ اپنے اہل وعیال کی طرف واپس جانے کے مشتاق ہیں تو آپ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا:تم لوگ اب واپس چلے جاوٴاور اپنے قبیلے میں ٹھہر کر انہیں دین کی تعلیم دو اور نماز پڑھاوٴ، جب نماز کا وقت ہو تو تم میں سے ایک شخص اذان دے اور جو عمر میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرائے

إسلام ميں سن رسيده أشخاص كے فضائل:
بیہقی نے کتاب الزہد میں حضرت انس رضي الله تعالى عنه سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا :
جو شخص اسلام میں چالیس سال کی عمر کو پہنچ گیا تو اللہ تعالیٰ اس سے جنون ، جذام اور برص کو رفع کردیتا ہے،
پھر جب پچاس سال کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا حساب نرم فرما دیں گے،
پھر جب ساٹھ سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس كو اپني طرف رجوع كي توفيق عطا فرماتے هيں   پھر جب ستر سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے محبت فرماتے ہیں اور آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں،
پھر جب اسّی سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالى اس کے حسنات کو قبول فرمالیتے ہیں اور اس کی سیئات کو معاف فرمادیتے ہیں،
پھرجب نوّے سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیتے ہیں اور اس کا لقب آمين الله  اور آسير الله في الأرض (يعني الله كا معتمد اور زمين ميں الله كا  قیدی ہو جاتا ہے اور اس کے اہل کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔ (حافظ ابن حجر نے فرمایا کہ اس حدیث کے رجال ثقات ہیں۔)
جب مسلمان انتهائي عمر كو پهنچ جاتا هے تو اس كے تمام وه نيك اعمال برابر نامه اعمال ميں لكهے جاتے هيں جو وه صحت وقوت كے زمانه ميں كيا كرتا تها اور اگر اس سے كوئي گناه هو جاتا هے تو وه لكها نهيں جاتا (إبن كثير)
جو شخص اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے بوڑھا ہو جائے اور اس کے بال سفید ہو جائیں ،اس کو اللہ تعالیٰ قیامت میں ایک نور عطا فرمائے گا۔یہ اس کی عظمت وبڑائی کی علامت ہوگی جس کی وجہ سے وہ عام لوگوں میں ممتاز ہو گا۔
”عن کعب بن مرة قال: سمعت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یقول: من شاب شیبة فی الِاسلام کانت نوراً یوم القیامة“․
ترجمہ:”حضرت کعب بن مرہ رضي الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جو نوجوان اسلام میں بوڑھا ہو گیا اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگا“۔
دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بوڑھے شخص کے لیے ایک سفید بال کے بدلہ ایک نیکی عطا کرے گا اور ایک گناہ مٹائے گا۔(ّٰ ابی داوٴد․)
ایک اور حدیث میں ہے کہ :حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو شرم آتی ہے اس بات سے کہ اپنے بندے اور بندی کو جب کہ وہ اسلام میں بوڑھے ہوں،عذاب دیں۔

سن رسيده أشخاص كے إكرام كرنے كے فضائل:
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا…
”ان من اِجلال اللہ تعالیٰ اِکرامَ ذی الشیبة المسلم، وحامل القرآن غیر الغالی فیہ، والجافی عنہ، واِکرام ذی السلطان المقسط“․
ترجمہ:”اللہ کی عظمت واحترام کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان عمر رسیدہ کا اکرام کیا جائے اور اس قرآن کے حامل وحافظ کا جو اس میں غلو نہ کرنے والا ہو اور نہ اس کو چھوڑنے والا اور عادل بادشاہ کا“۔
جس شخص نے عمر رسیدہ کی عزت کی اس کا بدلہ یہ کہ بڑھاپے میں اس کی بھی عزت کی جائے گی۔
”عن أنس بن مالک رضی اللہ تعالى عنہ قال:قال رسول اللّٰہ علیہ وآله وسلم:
"ما اکرم شابٌ شیخاً لسنہ الا قیض اللہ لہ من یکرمہ عند سنہ“․
ترجمہ:”حضرت انس رضی اللہ تعالى عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا جو نوجوان کسی بوڑھے کی عزت کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایسے شخص کو مامور کرے گا جو اس کے بڑھاپے میں اس کے عزت کرے۔“
حضرت حذیفہ رضي الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ جب ہم رسول اللہ علیہ و آله وسلم کے ساتھ کسی کھانے میں شریک ہوتے تو اس وقت تک برتن میں ہاتھ نہیں ڈالتے جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم اپنا دست مبارک برتن میں نہ ڈالیں۔

سن رسيده أشخاص باعث بركت هيں:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”البرکة من أکابرنا ،فمن لم یرحم صغیرنا، ویجل کبیرنا فلیس منا“ ․
ترجمہ:”برکت اکابر کے ساتھ ہے جو، چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کی عزت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے“۔
حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الخیر مع أکابرنا“ یعنی خیر اکابر کے ساتھ ہے۔
کئی افراد جمع ہوں اور ان کے سامنے کوئی چیز پیش کی جائے تو لازم هے كه بڑوں کی عزت و مرتبہ کا خیا ل رکھا جائے۔مسلم شریف میں ہے۔
”عن ابن عم ررضي الله تعالى عنه ان النبی صلی الله علیہ وسلم قال: أرانی فی المنام أتسوک بسواک وجاء نی رجلان، أحدھما أکبر من الآخر، فناولت السواک للأصغرفقیل لی:کبر، اِلی الکبیر منھما “․
ترجمہ: ”حضرت ابن عمر رضي الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا میں نے خواب میں دیکھا کہ مسواک کررہا ہوں،میرے پاس دو آدمی آئے،ان میں سے ایک دوسرے سے بڑا تھا،تو میں نے چھوٹے کو مسواک پیش کی تو مجھ سے کہا گیا،بڑے کو دیجیے،لہٰذا میں نے وہ مسواک دونوں میں سے جو بڑا تھا اس کے حوالے کردی۔“
اسی طرح ادب یہ ہے کہ کھانے سے فراغت کے بعد عمر دراز کو سب سے پہلے ہاتھ دھونے کا موقع دیا جائے یا ان کا ہاتھ دھلایا جائے۔اسی طرح اپنے ہر اجتماعی کام میں اپنے بڑوں کو شریک کرے ،ان سے مشورہ کرے۔ان کی رائے پر عمل کرنے سے کامیابی ملتی ہے اور کام پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے اور اس کام میں برکت ہوتی ہے

صحابه كرام كا بوڑھوں کا أدب وإحترام:
رسول كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم بچوں سے شفقت و محبت اور رحم وکرم کا معاملہ فرماتے تھے ۔ان کے نقش قدم پر صحابہ کرام بھی بچوں کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرتے تھے۔بچے بھی اپنے بڑوں کا ادب و احترام کرنے میں اپنی سعادت و نیک بختی سمجھتے تھے۔کیوں کہ ان کی تربیت ایسی ہی کی گئی تھی۔ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان الله عليهم کے مجمع میں حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا کہ وہ کون سا درخت ہے جس کی تمام چیزیں کار آمد ہیں؟حضرت عبداللہ بن عمر رضي الله تعالى عنه کو اس کا جواب معلوم تھا، لیکن معمر صحابہ کرام کی موجودگی میں جواب دینا ادب کے خلاف سمجھا۔
”عن عبداللہ بن عمر رضي الله تعالى عنه قال قال: رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم: أخبرونی بشجرة مثَلھا مَثل المسلم، توٴتی اکلَھا کل حین باذن ربھا، لا تحث ورقھا، فوقع فی نفسی النخلة فکرھت ان أتکلم وثم أبوبکروعمر رضی اللہ عنھما فلما لم یتکلما، قال النبی صلی الله علیہ وسلم: ھی النخلة، فلما خرجت مع أبی قلت یا أبت وقع فی نفسی النخلة، قال:مامنعک أن تقولھا؟ لو کنت قلتھا کان احب الی من کذا و کذاَ قال: ما منعنی اِلا لم أرک ولا أبابکر تکلمتما فکرھت“․
ترجمہ: ”حضرت عبداللہ بن عمررضي الله تعالى عنه رو ایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا۔آپ لوگ ایسے درخت کے بارے میں بتایئے جس کی مثال مسلمان کی طرح ہے۔اللہ کے حکم سے ہرموسم اس کا پھل آتا ہے،اس کے پتے نہیں گرتے ۔راوی کہتے ہیں کہ میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے،میں نے جواب دینا ناپسند کیا، اس لیے کہ حضرت ابوبکر رضي الله تعالى عنه اور حضرت عمر رضي الله تعالى عنه نے کوئی جواب نہیں دیا۔تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے۔جب میں اپنے والد کے ساتھ نکلا تو میں نے کہا اے میرے والد!میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔حضرت عمررضي الله تعالى عنه نے فرمایا کس بات نے تم کو جواب دینے سے روک دیا؟اگرتم جواب دیتے تو مجھے بے حد خوشی ہوتی ۔حضرت عبداللہ رضي الله تعالى عنه نے فرمایا میرے لیے کوئی رکاوٹ نہیں تھی بس اتنا کہ آپ رضي الله تعالى عنه اور حضرت ابو بکر رضي الله تعالى عنه نے جواب نہیں دیا تو میں نے جواب دینا نا پسند کیا“۔

اسلام ميں بڑوں کی بے حرمتی کرنے پر وعيد:
اسلام نے بڑوں کی بے حرمتی کرنے،مذاق اُڑانے،برا بھلا کہنے اور ان پر ہنسنے سے منع کیا ہے اور رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے بڑوں کی توہین کرنے والوں کو منافق قرار دیا ہے۔
طبرانی اپنی کتاب معجم کبیر میں حضرت ابو امامہ رضي الله تعالى سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ثلاث لا یستخف بہم الا منافق: الشیبة فی الِاسلام، وذوالعلم، واِمام مقسط.“
ترجمہ: ”تین آدمیوں کی توہین منافق هي کرسکتا ہے،ایک وہ شخص جو حالتِ اسلام میں بڑھاپے کو پہنچا ہو ، عالم اور عادل امام / بادشاہ“۔
رسول كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے صحابہ کرام رضوان الله عليهم کی اس طرح تربیت فرمائی کہ قرآن وحدیث کی مکمل تعلیمات ان کے اعمال و اقوال سے ظاہر ہوتی تھیں،گویا کہ وہ قرآن و حدیث کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے۔حکیم بن قیس بن عاصم فرماتے ہیں کہ ان کے والد نے موت کے وقت اپنے بیٹوں کو یوں نصیحت کی:
”عن قتادة سمعت مطرفا، عن حکیم بن قیس بن عاصم، أن أباہ أوصی عند موتہ بنیہ فقال اتقوا اللہ، وسوّدوا أکبرہم، فان القوم اذا سودوا أکبرہم خلفوا أباہم، واذا سودوا أصغرہم أزری بھم ذلک فی أکفائھم، وعلیکم بالمال واصطناعہ، فانہ منبھة لکریم، ویستغنی بہ عن اللئیم، وایاکم ومسألة الناس،
ترجمہ: ”حضرت قتادہ رضي الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ میں نے مطرف سے سنا، وہ حکیم بن قیس بن عاصم سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد نے اپنی موت کے وقت اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا،اللہ سے ڈرو اور اپنے بڑوں کو سردار بناوٴ۔جب قوم اپنے بڑوں کو سردار بناتی ہے تو اپنے آبا واجداد سے آگے نکل جاتی ہے اور جب اپنے چھوٹے کو سردار بناتی ہے وہ اپنے ہم عصروں میں ذلیل و رسوا ہوتی ہے۔تم پر مال حاصل کرنا اور اس کی حفاظت کرنا لازم ہے۔مال شریعت کے لیے زینت ہے اور وہ اس کے ذریعہ سے کمینہ سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے بچو

بلا تفريق مذهب و قوم سن رسيده كا أدب وإحترام:
ایک بوڑھا شخص ،چاہے اس کا تعلق کسی بھی قوم ووطن سے ہو،کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو، اس کے ادب و احترام کرنے کا اسلام حکم دیتا ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
"اذا أتاکم کبیر قوم فأکرموہ،رواہ الطبرانی"
(یعنی جب تمہارے پاس کسی قوم کا بڑا آدمی آئے تو تم ان کا اکرام کرو)۔
قاضی ابو یوسف نے”کتاب الخراج“میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضي الله تعالى عنه نے دیکھا کہ ایک بوڑھا، جو اندھا بھی تھا، ایک دروازے پر کھڑا بھیک مانگ رہا تھا۔حضرت عمر رضي الله تعالى عنه نے پیچھے سے اس کے بازو پر ہاتھ مارا اور پوچھا تم کو بھیک مانگنے کی ضرورت کیوں پڑی؟اس نے کہا جزیہ ادا کرنے،اپنی ضروريات پوری کرنے اور اپنی عمر کے سبب بھیک مانگ رہا ہوں۔حضرت عمررضي الله تعالى عنه اس کا ہاتھ پکڑ کراپنے گھر لائے اور اپنے گھر سے کچھ دیا،پھر اس کو بیت المال کے خزانچی کے پاس بھیجا اور کہلوایا کہ اس کو اور اس جیسے لوگوں کو دیکھو! خدا کی قسم! ہم انصاف نہیں کریں گے،اگر ہم اس کی جوانی کی کمائی کھائیں اور اس کے بوڑھے ہونے پر اس کو بے سهاره چھوڑ دیں۔قرآن كريم میں صدقہ کی اجازت فقرا اور مساکین کے لیے ہے ۔فقراء تو وہی لوگ ہیں جو مسلمان ہیں اور یہ لوگ مساکین اہل ِکتاب میں ہیں جن سے جزیہ لیا جاتا هے۔


دعوت إسلام اور حالت جنگ ميں عمر رسیدہ کی عزت و تكريم:
اسلام پورے عالم میں امن وآتشی چاہتا ہے۔برائیوں و گمراہیوں کا خاتمہ چاہتا ہے۔شرک و بدعات،اوہام وخرافات،قتل و غارت گری اور زنا وبے حیائی سے عالمِ انسانیت کو محفوظ و پاک رکھنا چاہتا ہے۔اس لیے تمام انسانوں تک اسلام کی ابدی و لازوال دولت پہنچانا امتِ مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔
﴿اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ﴾․
”اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاوٴ اور ان کے ساتھ بحث کرو بہترین طریقے پر “۔
یہ بھی تعلیم ہے کہ”لا اِکراہ فی الدین“دین میں کوئی زبردستی نہیں۔لیکن اس کے باوجود حق وباطل میں معرکہ آرائی روزِاوّل سے جاری ہے۔حق کے سامنے باطل نے سینہ سپر ہونے کی کوشش کی ہے۔اس موقع پر بھی اسلام نے بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرنے اور عورتوں کی طرف نگاہِ بد ڈالنے سے منع کیا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جس خطہ میں تشریف لے گئے،آپ حضرات کے اعلیٰ اخلاق و کردار کی وجہ سے ان کی موجودگی کو باعث خیر وعافیت اور سعادت و نیک بختی خیال کیا گیا۔
الغرض اسلام نے عمر رسیدہ و بزرگ کی عزت و احترام کا حکم دیتے ہوئے ان کی موجودگی کو معاشرہ کے لیے خیر و برکت کا بہترین ذریعہ قراردیا ہے۔ایک بوڑھا شخص، چاہے کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو،اس کا کوئی بھی وطن ہو،اس کا تعلق کسی بھی نسل و برادری سے ہو،اس کی عزت و توقیر اور ادب واحترام کرنے کی اسلام نے تاکید کی ہے ۔ جو کوئی ان کی عزت واحترام کو ناقابل ِاعتناء سمجھتا ہے،اس کا تعلق و وابستگی إسلام سے کمزور ہے۔دنیا میں بوڑھے و عمر دراز ادب و احترام اور عزت ووقعت کے مستحق ہیں اور آخرت میں ان کو ایک نور سے نوازا جائے گا،جو ان کے لیے عزت و تکریم کا باعث ہو گا۔ اللہ ہر سفید بال کے بدلے ان کو ایک نیکی عطا کرے گا اور ایک گناہ کو مٹائے گا۔
عمر رسیدہ و بوڑھوں کی قدر و منزلت اور عزت و احترام اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ اللہ ان کو آخرت میں ایک نور عطا فرمائے گا جس کی وجہ سے وہ اورلوگوں میں ممتاز ہوں گے ، یہ ان کی بڑائی اور عظمت کی نشانی ہوگی۔اللہ ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گا۔دنیاوی معاشرہ میں بھی ان کی موجودگی خیر وبرکت کا بہترین ذریعہ ہے، لہٰذا ان کے ادب و احترام ،سکون واطمینان اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے لیے عمومی تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ امتِ مسلمہ کو انسانی برادری کے سامنے قابلِ تقلید نمونہ پیش کرتے ہوئے قائدانہ رول ادا کرنا چاہیے۔
وما توفیقی الا باللّٰہ وعلیہ توکلت والیہ اُنیب.


عام مسلمانوں کے حقوق:
إسلام ميں رشتہ داروں کے علاوہ عام مسلمانوں کے بھی کچھ حقوق ہیں،
علامہ اصبہانی رحمہ اللہ نے "ترغیب وترہیب" میں بروایت حضرت علی رضی اللہ تعالى عنہ یہ حقوق نقل کئے ہیں:
(1)مسلمان بھائی کی لغزش کو معاف کرے
(2)اس کے رونے پر رحم کرے
(3)اس کے عیب کو ڈھانکے
(4)اس کے عذر کو قبول کرے
(5)اس کے تکلیف کو دور کرے
(6)ہمیشہ اس کی خیرخواہی کرتا رہے
(7)اس کی حفاظت ومحبت کرے
(8)اس کے ذمہ کی رعایت کرے
(9)بیمار ہو تو عیادت کرے
(10)مرجائے تو جنازے میں حاضر ہو
(11)اس کی دعوت قبول کرے
(12)اس کا ہدیہ قبول کرے
(13)اس کے احسان کی مکافات کرے
(14)اس کی نعمت کا شکریہ ادا کرے
(15)وقت پڑنے پر اس کی مدد کرے
(16)اس کے اہل وعیال کی حفاظت کرے
(17)اس کی حاجت پوری کرے
(18)اس کی درخواست کو سنے
(19)اس کی جائز سفارش قبول کرے
(20)اس کی مراد سے ناامید نہ کرے
(21)وہ چھینک کر الحمد للہ کہے تو جواب میں "یَرْحَمُک اللہ" کہے
(22)اس کی گمشدہ چیز کو اس کے پاس پہنچا دے
(23)اس کے سلام کا جواب دے
(24)نرمی وخوش خلقی کے ساتھ اس سے گفتگو کرے
(25)اس کے ساتھ احسان کرے
(26)اگر وہ اس کے بھروسہ پر قسم کھا بیٹھے تو اس کو پورا کردے
(27)اگر اس پر کوئی ظلم کرتا ہو تو اس کی مدد کرے اگر وہ کسی پر کوئی ظلم کرتا ہے تو روک دے
(28)اس کے ساتھ محبت کرے، دشمنی نہ کرے
(29)اس کو رسوا نہ کرے
(30)جو بات اپنے لیے پسند کرے اس کے لیے بھی پسند کرے۔
(الترغیب والترھیب، للأصبھانی،)
دوسری احادیث میں إن تیس حقوق كے علاوه یہ حقوق زیادہ ہیں:
(31)ملاقات کے وقت اس کو سلام کرے اور مصافحہ بھی کرے
(32)اگرباہم اتفاقاً کچھ رنجش ہوجائے تو تین دن سے زیادہ ترک کلام نہ کرے
(33)اس پر بدگمانی نہ کرے
(34)اس پر حسد وبغض نہ کرے
(35)امربالمعروف ونہی عن المنکر ممکنہ حد تک کرے
(36)چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کی عزت کرے
(37)دومسلمانوں میں جھگڑا ہوجائے تو ان کو باہم ملاکر اصلاح کرادے
(38)اس کی غیبت نہ کرے
(39)اس کو کسی طرح کا نقصان نہ پہنچائے، نہ مال میں نہ آبرو میں
(40)اگر سواری پر سوار نہ ہوسکے یااس پر اسباب نہ لاد سکے تو اس کو سہارا لگادے
(41)اس کو اٹھا کر اس کی جگہ نہ بیٹھے
(42)تیسرے کو تنہا چھوڑ کر دوآدمی باتیں نہ کریں
(43)اس کے راستہ میں کوئی نقصان دہ چیز ہو تو ہٹادے
(44)اس کی چغلی نہ کرے
(45)اگر اپنی کسی کے پاس کچھ حیثیت ہو اور کوئی اس کے پاس سفارشی چاہتا ہو تو سفارش کرے
نوٹ: رشته داروں وغيره كے جو خاص حقوق ہیں ان كے ساتهـ وه عام لوگوں کے حقوق میں بهي برابر شریک ہونگے۔

پڑوسیوں کے حقوق:
إسلام پڑوسیوں كے حقوق كي بهي بهت تاكيد كرتا هے رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كي حديث مباركه كه مفهوم هے كه حضرت جبرائيل عليه السلام نے مجهے پڑوسیوں كے حقوق كي إسقدر تاكيد فرمائي كه مجهے خدشه هوا كه شايد پڑوسی كو جائيداد ميں بهي حصه دار بنا ديا جائے گا
پڑوسیوں کے بهت سے حقوق آحاديث مباركه ميں وارد هوئے هيں جن ميں سے چند حقوق یہ ہیں:
(1)اس کے ساتھ احسان وہمدردی سے پیش آئے
(2)اس کے اہل وعیال کی عزت کی حفاظت کرے
(3)وقتاً فوقتاً اس کے گھر ہدیہ وغیرہ بھیجتا رہے؛ خاص کر جب وہ فاقہ سے ہو تو ضرور تھوڑا بہت کھانا اسے بجهوا ديا كرے
(4) چھوٹی چھوٹی باتوں میں اس سے نہ الجھے اك\گر اس سے كوئي تكليف بهي پهنچ جائے تو اسے فراموش كردے
(5) أسكي عدم موجودگي ميں اسكے مال وعزت كي حفاظت كرے
(6)أسے كسي قسم كي كوئى بهي تكليف نه پهنجائے
(7) اسكي موجودگي يا عدم موجودگي ميں اسكي خيرخواهي كرے

پڑوسیوں کي أقسام:
حدیث مباركه میں تین طرح کے پڑوسی کا ذکر ہے اور اسي ترتيب سے ان كے حقوق بهي هيں
(1)مسلمان رشتہ دار پڑوسی - إس كے تين حقوق هيں إيك پڑوسي كا إيك مسلمان هونے كا اور إيك رشته دار هونے كا
(2)مسلمان پڑوسی - إس كے دو حقوق هيں إيك پڑوسي كا اور إيك مسلمان هونے كا
(3)غیرمسلم پڑوسي - إسكا إيك حق هے يعني پڑوسي هونے كا
إسكے علاوه سفر كے پڑوسي يعني همسفر كے بهي حقوق هيں أن كا بهي خيال ركهنا ضروري هے

پڑوس کی تحديد:
گھر کے آگے كي طرف والے چالیس گھر، گھر کے پیچھے كي طرف والے چالیس گھر، گھر کے دائیں حصہ كي طرف والے چالیس گھر اور گھر کے بائیں حصہ كي طرف والے چالیس گھر پڑوس كے حكم میں داخل ہیں۔

یتیموں اور ضعیفو ں کے حقوق:
جو دوسروں کا محتاج ہو جیسے یتیم، بچے، عاجز، ضعیف، مسکین، بیمار، معذور، مسافر اور سائل ان لوگوں کے حقوق دوسرے مسلمانوں سے کچھ زائد ہیں:
(1) ان لوگوں کی مالی خدمت کرنا
(2) ان لوگوں کے کام میں ہاتھ بٹانا
(3) ان لوگوں کی دلجوئی وتسلی کرنا
(4) ان کے حاجات وسوال کو حتى الإمكان رد نہ کرنا
(5) اگرإن كو كچهـ دينے كي إستطاعت نه هو تو پهر بهي بهت نرمي سے معذرت كرنا
(6) إن كے ساتهـ هر طرح سے محبت و پيار بهرا سلوك كرنا

یتیموں کے ساتھ حسن سلوک
قرآن مجید کی میں بهت سي آیات میں یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے ، یتیموں کی پرورش ، نگہداشت ، انکے مال و زر کے متعلق بھی احکامات قرآن وحديث ميں موجود ہیں جند آيات كا ترجمه پيش كيا جاتا هے:-

وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّـٰهَ وَبِالْوَالِـدَيْنِ اِحْسَانًا وَّذِى الْقُرْبٰى وَالْيَتَامٰى وَالْمَسَاكِيْنِ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّاَقِيْمُوا الصَّلَاةَ وَاٰتُوا الزَّكَاةَ ۖ ثُـمَّ تَوَلَّيْتُـمْ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْكُمْ وَاَنْـتُـمْ مُّعْرِضُوْنَ0
اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں سے اچھا سلوک کرنا اور لوگوں سے اچھی بات کہنا اور نماز قائم کرنا اور زکوۃٰ دینا، پھر سوائے چند آدمیوں کے تم میں سے سب منہ موڑ کر پھر گئے۔
لَّيْسَ الْبِـرَّ اَنْ تُـوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِـرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّـٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلَآئِكَـةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّيْنَۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِى الْقُرْبٰى وَالْيَتَامٰى وَالْمَسَاكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَالسَّآئِلِيْنَ وَفِى الرِّقَابِۚ وَاَقَامَ الصَّلَاةَ وَاٰتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِـمْ اِذَا عَاهَدُوْا ۖ وَالصَّابِـرِيْنَ فِى الْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ ۗ اُولٰٓئِكَ الَّـذِيْنَ صَدَقُوْا ۖ وَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْمُتَّقُوْنَ 0
یہی نیکی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیرو بلکہ نیکی تو یہ ہے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور فرشتوں اور کتابوں اور نبیوں پر، اور اس کی محبت میں رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور سوال کرنے والوں کو اور گردنوں کے چھڑانے میں مال دے، اور نماز پڑھے اور زکوٰۃ دے، اور جو اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہیں جب وہ عہد کرلیں، اورتنگدستی میں اور بیماری میں اور لڑائی کے وقت صبر کرنے والے ہیں، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں
يَسْاَلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ ۖ قُلْ مَآ اَنْفَقْتُـمْ مِّنْ خَيْـرٍ فَلِلْوَالِـدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ وَالْيَتَامٰى وَالْمَسَاكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ؕ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْـرٍ فَاِنَّ اللّـٰهَ بِهٖ عَلِيْـمٌ 0
آپ سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں، کہہ دو جو مال بھی تم خرچ کرو وہ ماں باپ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کا حق ہے، اور جو نیکی تم کرتے ہو سو بے شک اللہ خوب جانتا ہے۔
فِى الـدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۗ وَيَسْاَلُوْنَكَ عَنِ الْيَتَامٰى ۖ قُلْ اِصْلَاحٌ لَّـهُـمْ خَيْـرٌ ۖ وَاِنْ تُخَالِطُوْهُـمْ فَاِخْوَانُكُمْ ۚ وَاللّـٰهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ۚ وَلَوْ شَآءَ اللّـٰهُ لَاَعْنَتَكُمْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَزِيْزٌ حَكِـيْمٌ0
دنیا اور آخرت کے بارے میں، اور یتیموں کے متعلق آپ سے پوچھتے ہیں، کہہ دو ان کی اصلاح کرنا بہتر ہے، اور اگر تم انہیں ملا لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں، اور اللہ بگاڑنے والے کو اصلاح کرنے والے سے (الگ) جانتا ہے، اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں تکلیف میں ڈالتا، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (البقره)
وَاٰتُوا الْيَتَامٰٓى اَمْوَالَـهُـمْ ۖ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيْثَ بِالطَّيِّبِ ۖ وَلَا تَاْكُلُـوٓا اَمْوَالَـهُـمْ اِلٰٓى اَمْوَالِكُمْ ۚ اِنَّهٝ كَانَ حُوْبًا كَبِيْـرًا 0 وَاِنْ خِفْتُـمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِى الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَاِنْ خِفْتُـمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۚ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا 0 وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقَاتِـهِنَّ نِحْلَـةً ۚ فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَىْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِيٓئًا مَّرِيٓئًا 0 وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِىْ جَعَلَ اللّـٰهُ لَكُمْ قِيَامًا وَّارْزُقُوْهُـمْ فِيْـهَا وَاكْسُوْهُـمْ وَقُوْلُوْا لَـهُـمْ قَوْلًا مَّعْـرُوْفًا 0 وَابْتَلُوا الْيَتَامٰى حَتّــٰٓى اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَۚ فَاِنْ اٰنَسْتُـمْ مِّنْـهُـمْ رُشْدًا فَادْفَـعُـوٓا اِلَيْـهِـمْ اَمْوَالَـهُـمْ ۖ وَلَا تَاْكُلُوْهَآ اِسْرَافًا وَّبِدَارًا اَنْ يَّكْـبَـرُوْا ۚ وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَنْ كَانَ فَقِيْـرًا فَلْيَاْكُلْ بِالْمَعْـرُوْفِ ۚ فَاِذَا دَفَعْتُـمْ اِلَيْـهِـمْ اَمْوَالَـهُـمْ فَاَشْهِدُوْا عَلَيْـهِـمْ ۚ وَكَفٰى بِاللّـٰهِ حَسِيْبًا 0
اور یتیموں کو ان کے مال دے دو اور پاک اور حلال چیز کے بدلے ناپاک اور حرام چیز نہ لو، اور اپنے مالوں کے ساتھ ان کے مال ملا کر کھا نہ جاؤ، بے شک یہ بہت بڑا گناه ہے. اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کرکے تم انصاف نہ رکھ سکو گے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو، دو دو، تین تین، چار چار سے، لیکن اگر تمہیں برابری نہ کر سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈی یہ زیاده قریب ہے، کہ (ایسا کرنے سے ناانصافی اور) ایک طرف جھک پڑنے سے بچ جاؤ. اور عوتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو، ہاں اگر وه خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھا لو. بے عقل لوگوں کو اپنا مال نہ دے دو جس مال کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری گزران کے قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا ہے، ہاں انہیں اس مال سے کھلاؤ پلاؤ، پہناؤ، اوڑھاؤ اور انہیں معقولیت سے نرم بات کہو. اور یتیموں کو ان کے بالﻎ ہو جانے تک سدھارتے اور آزماتے رہو پھر اگر ان میں تم ہوشیاری اور حسن تدبیر پاؤ تو انہیں ان کے مال سونﭗ دو اور ان کے بڑے ہو جانے کے ڈر سے ان کے مالوں کو جلدی جلدی فضول خرچیوں میں تباه نہ کر دو، مال داروں کو چاہئے کہ (ان کے مال سے) بچتے رہیں، ہاں مسکین محتاج ہو تو دستور کے مطابق واجبی طور سے کھالے، پھر جب انہیں ان کے مال سونپو تو گواه بنا لو، دراصل حساب لینے واﻻ اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے (النساء)
اِنَّ الَّـذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتَامٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِىْ بُطُوْنِـهِـمْ نَارًا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْـرًا (10)
جو لوگ ناحق ﻇلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں، وه اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب وه دوزخ میں جائیں گے(النساء)

وَاعْبُدُوا اللّـٰهَ وَلَا تُشْـرِكُوْا بِهٖ شَيْئًا ۖ وَّبِالْوَالِـدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِى الْقُرْبٰى وَالْيَتَامٰى وَالْمَسَاكِيْنِ وَالْجَارِ ذِى الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا 0
اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک واحسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راه کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں، (غلام کنیز) یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا (النساء)

وَيَسْتَفْتُـوْنَكَ فِى النِّسَآءِ ۖ قُلِ اللّـٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِيْـهِنَّۙ وَمَا يُتْلٰى عَلَيْكُمْ فِى الْكِتَابِ فِىْ يَتَامَى النِّسَآءِ اللَّاتِىْ لَا تُؤْتُوْنَـهُنَّ مَا كُتِبَ لَـهُنَّ وَتَـرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الْوِلْـدَانِۙ وَاَنْ تَقُوْمُوْا لِلْيَتَامٰى بِالْقِسْطِ ۚ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْـرٍ فَاِنَّ اللّـٰهَ كَانَ بِهٖ عَلِيْمًا0
آپ سے عورتوں کے بارے میں حکم دریافت کرتے ہیں، آپ کہہ دیجئے! کہ خود اللہ ان کے بارے میں حکم دے رہا ہے اور قرآن کی وه آیتیں جو تم پر ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں پڑھی جاتی ہیں جنہیں ان کا مقرر حق تم نہیں دیتے اور انہیں اپنے نکاح میں ﻻنے کی رغبت رکھتے ہو اور کمزور بچوں کے بارے میں اور اس بارے میں کہ یتیموں کی کارگزاری انصاف کے ساتھ کرو۔ تم جو نیک کام کرو، بے شبہ اللہ اسے پوری طرح جاننے واﻻ ہے(النساء)

وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْـمِ اِلَّا بِالَّتِىْ هِىَ اَحْسَنُ حَتّـٰى يَبْلُـغَ اَشُدَّهٝ ۖ وَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْـزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَاِذَا قُلْتُـمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى ۖ وَبِعَهْدِ اللّـٰهِ اَوْفُوْا ۚ ذٰلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ0
اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے یہاں تک کہ وه اپنے سن رشد کو پہنچ جائے اور ناپ تول پوری پوری کرو، انصاف کے ساتھ، ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیاده تکلیف نہیں دیتے۔ اور جب تم بات کرو تو انصاف کرو، گو وه شخص قرابت دار ہی ہو اور اللہ تعالیٰ سے جو عہد کیا اس کو پورا کرو، ان کا اللہ تعالیٰ نے تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم یاد رکھو(الإنعام)

وَاعْلَمُوٓا اَنَّمَا غَنِمْتُـمْ مِّنْ شَىْءٍ فَاَنَّ لِلّـٰهِ خُـمُسَهٝ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِـذِى الْقُرْبٰى وَالْيَتَامٰى وَالْمَسَاكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِۙ اِنْ كُنْتُـمْ اٰمَنْتُـمْ بِاللّـٰهِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللّـٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ0
جان لو کہ تم جس قسم کی جو کچھ غنیمت حاصل کرو اس میں سے پانچواں حصہ تو اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت داروں کا اور یتیموں اور مسکینوں کا اور مسافروں کا، اگر تم اللہ پر ایمان ﻻئے ہو اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر اس دن اتارا ہے، جو دن حق وباطل کی جدائی کا تھا جس دن دو فوجیں بھڑ گئی تھیں۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے(الإنفال)

وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْـمِ اِلَّا بِالَّتِىْ هِىَ اَحْسَنُ حَتّـٰى يَبْلُـغَ اَشُدَّهٝ ۚ وَاَوْفُوْا بِالْعَهْدِ ۖ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُوْلًا0
اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ بجز اس طریقہ کے جو بہت ہی بہتر ہو، یہاں تک کہ وه اپنی بلوغت کو پہنچ جائے اور وعدے پورے کرو کیونکہ قول وقرار کی باز پرس ہونے والی ہے(بني إسرائيل)

كَلَّا ۖ بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْيَتِـيْمَ
ایسا ہرگز نہیں بلکہ (بات یہ ہے) کہ تم (ہی) لوگ یتیموں کی عزت نہیں کرتے
(الفجر)

اَوْ اِطْعَامٌ فِىْ يَوْمٍ ذِىْ مَسْغَبَةٍ 0 يَتِيْمًا ذَا مَقْرَبَةٍ0
بھوک والے دن کھانا کھلانا. کسی رشتہ دار یتیم کو (البلد)

فَاَمَّا الْيَتِـيْمَ فَلَا تَقْهَرْ0
پس یتیم پر تو بھی سختی نہ کیا کر( الضحى)

اَرَاَيْتَ الَّـذِىْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ 0 فَذٰلِكَ الَّـذِىْ يَدُعُّ الْيَتِـيْمَ0
کیا تو نے (اسے بھی) دیکھا جو (روز) جزا کو جھٹلاتا ہے؟. یہی وه ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (الماعون)

مہمان کے حقوق:
مہمان کے بهت سے حقوق آحاديث مباركه ميں وارد هوئے هيں جن ميں سے چند یہ ہیں:
(1) مہمان کی آمد کے وقت بشاشت (خوشی) ظاہر کرنا اور اس كا خنده پيشاني سے إستقبال كرنا

(2) اس کی معمولات كا خيال ركهنا اور اس كي ضروریات کا حتى الإمكان إس طرح انتظام کرنا کہ جس سے اس کو راحت پہنچے
(3)عاجزی، تواضع اور اکرام کے ساتھ پیش آنا؛ بلکہ خود سے اس کی خدمت کرنا
(4)کم از کم ایک روز اس کے لیے کھانے میں حسب إستطاعت کسی قدر متوسط (درمیانی) درجہ کا تکلف کرنا؛ مگراتنا ہی کہ جس میں خود کو کوئی دشواری نہ ہو اور نہ ہی إس ميں کوئی حجاب ہو
(5) کم ازکم تین دن تک اس کی میزبانی کرنا، اتنا تو اس کا ضروری حق ہے، اس کے بعد جب تک وہ رہے يه میزبان کی طرف سے احسان ہے؛
(6) جاتے وقت مهمان كو رخصت كرنے كے لئے کم ازکم دروازہ تک ساتھ چلنا
(7) اگر مهمان تين دن سے زياده ٹهرے تو كسي تكلف كے بغير كهانا وغيره دينا تاهم خود مہمان کے لیے مناسب یہ ہے کہ وه ميزبان كو بلاوجه تنگ نہ کرے، نہ زیادہ ٹھہر کر، نہ بے جا فرمائشیں کرکے، نہ اس کے طعام وخدمت وغیرہ میں دخل اندازی کرکے، نہ اس کی مصروفیات میں زیادہ خلل ڈالے بلكه اس کی میزبانی کا شکرگزار ہوتے ہوئے اس کے لیے دعائے خیر کرے

ميزبان كے حقوق:
(1) مہمان ابنے ميزبان كو كسي طرح بهي تنگ نہ کرے،
(2) إتنا زیادہ عرصه نه ٹھہرے كه ميزبان كو دشوارى هو
ميزبان سے بيجا فرمائشیں نه کرے،
(3)ميزبان كے طعام وخدمت وغیرہ میں دخل اندازی نه کرے،
ا(4) ميزبان کی معمولات وضروریات ميں ركاوٹ بيدا نه كرے
(5) حتى الإمكان اس کی مصروفیات میں زیادہ خلل ڈالے
(6) اس كي كسي چيز پر تنقيد نه كرے
(7) اس کی میزبانی کا شکرگزار ہوتے ہوئے اس کے لیے دعائے خیر کرے

دوستوں کے حقوق:
جس سے خصوصیت کے ساتھ دوستی ہو قرآن مجید میں اس کو اقارب ومحارم (خصوصی رشتہ دار) کے ساتھ ذکر فرمایا گيا ہے۔
(1)جس سے دوستی کرنا ہو اول اس کے عقائد، اعمال، معاملات اور اخلاق خوب دیکھ بھال لے؛ اگر سب امور میں اس کو درست وصالح پائے تو اس سے دوستی کرے ورنہ دور رہے، صحبتِ بد (بُری صحبت) سے بچنے کی بہت تاکید آئی ہے اور مشاہدہ سے بھی اس کا ضرر محسوس ہوتا ہے جب کوئی ایسا ہم جنس، ہم مشرب میسر ہو تو اس سے دوستی کا مضائقہ نہیں؛ بلکہ دنیا میں سب سے بڑھ کر راحت کی چیز دوستی ہے
(2)اپنی جان ومال سے کبھی اسے تکلیف نہ دے
(3)کوئی امرخلافِ مزاج اس سے پیش آجائے تو اُسے نظرانداز کردے اگر اتفاقاً کوئی رنجش (آپس میں کچھ تکلیف دہ بات ہوجائے) فوراً صفائی کرلے اس کو طول (لمبا) نہ دے، دوستوں کی شکایت کو لیکر نہ بیٹھ جائے
(4) مصيبت كے وقت اس كي مدد كرے
(5) أس كي خوشي و غمي ميں شريك هو
(6)اس کی خیرخواہی میں کسی طرح کوتاہی نہ کرے
(7) جب كسي أمر ميں وه مشوره طلب كرے تو پورے إخلاص كے ساتهـ مشوره دے اسے نیک مشورہ سے کبھی محروم نہ کرے
(8) اس سے مشوره كيا كرے اور اس کے مشورہ کو نیک نیتی سے سنے اور اگر قابلِ عمل ہو تو قبول کرلے

متبنیٰ(لےپالک) کا حکم:
یادرکھیے! کہ برصغير میں جس طرح متبنٰی (لے پالک) بنانے کی رسم رائج ہے کہ اس کو بالکل تمام احکام میں اولاد کی طرح سمجھتے ہیں يه بالكل غلط هے شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں
لے پالک "منھ بولے" بیٹے کا اثر دوستی کے اثر سے زیادہ نہیں چونکہ اس کے ساتھ جان بوجھ کر خصوصیت پیدا کی گئي ہے اس لیے دوستی کے ضابطہ میں اس کو داخل کرسکتے ہیں اور دوستي والے حقوق اس كو ديے جا سكتے هيں
باقی أولاد كے حقوق يعني میراث وغیرہ اس کو نہیں مل سکتی کیونکہ میراث اضطراری امر ہے، اختیاری نہیں کہ جس کو چاہا میراث سے حصه دلوادیا اور جس کو چاہا محروم کردیا البته اگر وه ورثاء ميں رشته كے إعتبار سے (بهتيجا/بهتيجي وغيره ) شامل هے تو أسي إعتبار سے اس كو حصه ملے گا

غیرمسلموں کے حقوق:
جس طرح اسلام یا رشتہ دار کی وجہ سے بہت سے حقوق ثابت ہوتے ہیں، بعض حقوق صرف معمولی مطابقت کی وجہ سے بھی ثابت ہوجاتے ہیں، یعنی صرف إنسان ہونے کی وجہ سے ان کی رعایت واجب ہوتی ہے گو وه مسلمان نہ بهي ہو
وہ یہ ہیں:
(1)بلاوجہ کسی کو جانی یامالی تکلیف نہ دیں
(2)بلاوجہ شرعی کسی کے ساتھ بدزبانی نہ کرے
(3)اگر کسی کو مصیبت، فاقہ اور مرض میں دیکھے تو اس کی مدد کرے، کھانا پانی دیدے، علاج معالجہ کردے
(4)جس صورت میں شریعت نے سزا کی اجازت دی ہے، اس میں بھی ظلم وزیادتی نہ کرے، اس کو کسی بات میں نہ ترسائے

مسلم میت کے حقوق اوراُن کی ادائیگی:
 إس فاني دنيا سے رخصت هونے والے مسلمانوں كے حقوق اور إكرام كے متعلق بهي شريعت اسلاميه نے هماري رهنمائي كي هے  تاكه هم ان اپنے پياروں كے حقوق سے غفلت نه برتيں جو هم سے جدا هوكر الله تعالى كے دربار ميں حاضر هورهے هيں
روزِ اوّل سے یہ قدرت کا قانون ہے کہ جو اِس دنیا میں آیا ہے اُس نے ایک دن یہاں سے چلے جانا ہے۔اس حوالے سے اسلام کی حقانیت ملاحظہ ہو کہ اسلام میں اس دنیا میں آنے والوں، یعنی زندہ لوگوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ اس دنیا سے جانے والوں، یعنی مردوں کے حقوق بھی متعین کیے گئے ہیں، جن کو ادا کرنا زندہ لوگوں کے ذمه ہے۔ ذیل میں ان حقوق اور ان کی ادائیگی کے متعلق كچهـ عرض كيا جارہا ہے۔

قریب المرگ شخص کو لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی تلقین کرنا:
جس شخص پر موت کے آثار واضح ہونے شروع ہو جائیں اس کے پاس موجود ورثا کو چاہیے کہ وہ اس کے سامنےلآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کا ورد شروع کردیں، تاکہ ان کو دیکھ کر قریب المرگ شخص بھی لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُہ پڑھنا شروع کردے۔نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم نے قریب المرگ لوگوں کو لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی تلقين کرنے کا حکم دیا ہے۔حضرت ابو سعید خدری رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا:
”تم اپنے قریب الموت (بھائیوں)کو لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی تلقین کیا کرو۔“(ترمذی)
لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کا انسان کا آخری کلام ہونا بہت فضیلت کا باعث ہے۔حضرت معاذ بن جبل رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے ‘رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس شخص کا آخری کلام لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ہو گا وہ جنت میں جائے گا۔ “(ابوداوٴد)
تلقین کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ قریب المرگ شخص کو کلمہ طیبہ پڑھنے کا نہیں کہنا چاہیے، ا س لیے کہ اُس وقت وہ اپنے ہوش وحواس میں نہیں ہوتا اور ہوسکتا کہ وہ کلمہ طیبہ پڑھنے سے انکارکر دے یا کوئی ایسی بات کہہ دے جو اس کے ایمان کے حوالے سے نقصان دہ ہو۔البتہ اس کے پاس موجود اشخاص کو خود کلمہ کا ورد کرنا چاہیے، تاکہ اُن کو دیکھ کر وہ بھی کلمہ پڑھنا شروع کردے۔
جان کنی کے وقت سورہٴ یٰسین کی تلاوت کرنا:
قریب المرگ شخص کا دوسرا حق یہ ہے کہ اُس کے پاس سورہٴ یٰسین کی تلاوت کی جا ئے ،تاکہ اگراُس پر”غَمَرَاتُ الْمَوْت“ یعنی موت کی سختیاں ہیں تو وہ کم ہوجائیں اور اس کی روح اس کے بدن سے آسانی سے نکل کر اپنے خالق حقیقی کے پاس چلی جائے۔حضرت معقل بن یسار رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا:
”تم اپنے مرنے والوں پر سورئہ یٰسٓ پڑھا کرو۔“(ابوداوٴد)

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنا اور اس کی فضیلت:
جب کسی کی وفات کا علم ہو تو اس پراِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ. پڑھنا چاہیے۔یہ ایک طرح سے اللہ کی رضا پر راضی ہونے کی علامت ہے اور دوسری طرف اس حقیقت کااعتراف ہے کہ اس شخص کی طرح ہم سب نے بھی اپنے خالق کے پاس چلے جانا ہے۔اس حوالے سے ہمارے ہاں یہ مشہور ہو گیا ہے کہ "اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ" صرف کسی کی موت پر پڑھنا مسنون ہے‘حالاںکہ أمر واقعہ یہ ہے کہ کسی بھی نقصان کی صورت میں اسے پڑھنا مسنون عمل ہے ۔
اس کے علاوہ احادیث مباركه میںاِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کے فضائل بھی موجود ہیں۔مثلاً حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب کسی انسان کا بیٹا فوت ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہتے ہیں:تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کرلی؟فرشتے کہتے ہیں:ہاں۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:کیا اُس کے دل کے میوہ کو بھی قبض کر لیا؟فرشتے کہتے ہیں:ہاں۔اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں :اس پر میرے بندے نے کیا کہا؟فرشتے کہتے ہیں:اُس نے آپ کی حمد بیان کی اوراِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:”میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بناوٴ اور اس کا نام”بیت الحمد “رکھو۔“(ترمذی)
اس کے علاوہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی فضیلت سے اللہ تعالیٰ اس سے بہتر بدل عطا فرما دیتے ہیں۔اس حوالے سے روایات میں حضرت اُم سلمہ رضي الله تعالى عنها کا واقعہ مذکور ہے۔جن کو انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے کی بدولت نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم کا ساتھ نصیب ہوا۔

میت کو غسل دینا:
جب انسان فوت ہوجائے تو سب سے پہلے اُس کی آنکھیں بند کریں‘اس کے ہاتھ سیدھے کریں اور اُس کی ٹانگیں ساتھ جوڑ دیں ۔اس لیے کہ مرنے کے بعد انسان کا جسم ٹھنڈا ہوکر اکڑ جاتا ہے اور پھر وہ جس حالت میں ہو اسی حالت میں رہتا ہے۔اس کے بعد میت کو غسل دینے کا مرحلہ آتا ہے۔

میت کو غسل دینے کا طریقہ:
غسل دینے والے كم از كم دوآدمی ہونے چاہئیں‘ ایک غسل دینے والا اور دوسرا اُس کی مدد کرنے والا اور اُن کو چاہیے کہ اپنے ہاتھوں پر دستانے پہن کر میت کو غسل دیں۔ سب سے پہلے میت کو کسی تختہ‘جو عموماً مساجد میں موجود ہوتا ہے‘پر قبلہ رخ کرکے لٹایا جائے ۔ پھر پانی میں بیری کے پتے ڈال کر گرم کیا جائے۔میت کے کپڑے اتارکر اس کی شرم گاہ پر کسی کپڑے کو رکھ دیا جائے۔پھر میت کے پیٹ کو نرمی سے دبایاجائے ،تا کہ اگر کوئی گندگی پیٹ میں موجود ہے تو وہ نکل جائے۔پھر میت کی شرم گاہ کو اچھی طرح دھو کر صاف کیا جائے۔پھر میت کو وضو کرایا جائے لیکن منہ اور ناک میں پانی نہ ڈالا جائے بلکہ کپڑا یا روئی گیلی کرکے پہلے منہ ‘دانت اور پھر ناک اچھی طرح صاف کی جائے اور پھر باقی وضو کرایا جائے۔اس کے بعد میت کو بائیں پہلو پر کرکے دائیں پہلو پر پانی بہایا جائے، اور پاوٴں تک اچھی طرح دھو دیا جائے،پھر دائیں پہلو پر کرکے بائیں پہلو کو دھویا جائے۔میت کو غسل دیتے وقت صابن کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔میت کے بالوں کو بھی اچھی طرح دھویا جائے۔اس کے بعد میت کو خشک کپڑے سے صاف کیا جائے، تاکہ پانی کے اثرات ختم ہو جائیں اور آخر میں میت کو کافور یا کوئی اور خوشبو لگائی جائے۔
یہ ہے میت کو غسل دینے کا طریقہ ۔نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم کے فرمان کے مطابق میت کو اس طرح تین یا پانچ مرتبہ غسل دینا چاہیے۔حضرت اُم عطیہ رضي الله تعالى عنها سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم کی بیٹی حضرت زینب رضي الله تعالى عنها فوت ہوئیں تو رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا:
”اس کو طاق یعنی تین یا پانچ مرتبہ غسل دینا اور پانچویں مرتبہ کافور یا اور کوئی خوشبو لگا لینا۔“(مسلم)
کافور لگانا مسنون اور مستحب عمل ہے اور اس کے کئی فوائد ہیں: اس کی تاثیر ٹھنڈ ی ہوتی ہے جو میت کے جسم کے لیے مفید ہوتی ہے۔اس کی خوشبو ایسی ہے جس سے کیڑے مکوڑے میت کے جلدی قریب نہیں آتے۔


میت کو غسل دینے کی فضیلت:
میت کو غسل دینے کا طریقہ هر مسلمان كو سیکھنا ایک تو اس لیے ضروری ہے کہ یہ میت کا ورثا کے ذمے حق ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ میت کو غسل دینا فضیلت کا باعث بھی ہے۔احادیث مباركه میں میت کو غسل دینے اور کفن پہنانے والے کو گناہوں سے ایسے پاک قرار دیا گیا ہے جیسے نومولود اپنے پیدائش کے دن گناہوں سے پاک صاف ہوتا ہے۔حضرت علی رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم نے أرشاد فرمایا:
”جس نے میت کو غسل دیا‘ اس کو کفن دیا‘ اس کو خوشبو لگائی‘ اس کو کندھا دیا ‘اس پر نماز(جنازہ)پڑھی اور اس کے راز کو ظاہر نہیں کیا جو اس نے دیکھا تو وہ غلطیوں (اور گناہوں) سے ایسے پاک صاف ہوجائے گا جیسے اُس کی ماں نے اُسے آج ہی جنا ہے ۔“(ابن ماجہ)

میت کو کفن پہنانا:
میت کو غسل دینے کے بعد میت کو کفن پہنایا جائے گا۔کفن کے بارے میں نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم کی ایک نصیحت یہ ہے کہ کفن سفید رنگ کا صاف ستھرا کپڑا ہو۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا :
”تم سفید کپڑے پہنا کرو‘ وہ تمہارے لیے اچھے کپڑے ہیں اور انہی میں اپنے مرنے والوں کو کفن دیا کرو۔“(ابوداوٴد)
کفن کے بارے میں آپ صلی الله علیہ وآله وسلم کی دوسری نصیحت یہ ہے کہ وہ زیادہ قیمتی نہ ہو،اس لیے کفن کے لیے مہنگا نہیں،بلکہ درمیانہ کپڑا ہونا چاہیے۔ آپ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا:
”زیادہ قیمتی کفن استعمال نہ کرو، کیوں کہ وہ جلدی ختم ہو جاتا ہے۔“(ابوداوٴد)
مستحب ہے کہ مردوں کو تین کپڑوں میں کفن دیا جائے :بڑی چادر(لفافہ) چھوٹی چادر اورقمیض جب کہ عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دینا مستحب ہے: بڑی چادر(لفافہ)چھوٹی چادراورقمیض دوپٹہ (اوڑھنی) اورسینہ بند ۔
کفن کے حوالے سے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مجبوری کی حالت میں ایک کپڑے کا کفن بھی ہو سکتا ہے اور پرانے اور سفید رنگ کے علاوہ کسی اور رنگ کے کپڑے کا کفن بھی دیا جا سکتا ہے۔


کفن پر دعائیہ کلمات لکھنا:
بعض اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ کفن پر کلمہٴ طیبہ‘قرآنی آیات، آیت کریمہ اور مختلف دعائیہ کلمات لکھتے ہیں، حالاںکہ ایسا کرنا نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت نہیں ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ کفن پر آیات اوردوسرے مقدس کلمات کو لکھنے سے ان کی بے حرمتی بھی ہوتی ہے، اس لیے کفن پر کچھ نہیں لکھنا چاہیے۔


میت کو لے جانے میں جلدی کرنا:
غسل اور کفن دینے کے بعد میت کو جلد سے جلد نماز جنازہ کے لیے لے جانا بھی میت کا حق ہے ۔ بہت دیر تک رشتہ داروں کو میت کا دیدار کرانے کے لیے انتظار کرنا مناسب نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے‘رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا:
”جنازے کو تیز لے جایا کرو ۔اس لیے کہ اگر وہ نیک ہے تو (قبر اس کے لیے) خیر ہے، جہاں تم اس کو جلدی پہنچا دو گے اور اگر اس کے سوا کوئی اور صورت ہے تو ایک برا (بوجھ تمہارے کندھوں پر) ہے تو (تم تیز چل کر جلدی) اس کو اپنے کندھوں سے اتار دو گے۔“(بخاری)


نمازجنازہ ادا کرنا:
نمازِ جنازہ فرض کفایہ ہے اور چند لوگوں کے ادا کرنے سے یہ سب کی طرف سے کفایت کرجائے گا ‘لیکن اگر کافی تعداد میں لوگ نمازِ جنازہ پڑھیں گے اور اللہ تعالى سے اس میت کی بخشش اور بلندیٴ درجات کی دعا اور سفارش کریں گے تو یہ میت کے حق میں بھی بہتر ہوگا اور پڑھنے والے بھی اجر وثواب کے مستحق ہوں گے۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا :
” جس میت پر مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت نماز پڑھے، جن کی تعداد سو تک پہنچ جائے اور وہ سب اللہ کے حضور اس میت کے لیے سفارش کریں تو ان کی یہ سفارش میت کے حق میں ضرور قبول ہو گی۔ “(مسلم) بعض روايات ميں إس سے كم تعداد بهي مذكور هے


نماز جنازہ پڑھانے کا حق دار کون؟
یہاں یہ بھی نوٹ کرلیں کہ نمازجنازہ پڑھانے کے سب سے زياده حق دار میت کے قریبی ورثا ہیں ‘ بالخصوص والدین کی نمازِ جنازہ پڑھانے کا زیادہ حق دار بیٹا ہے اس حوالے سے یہ نوٹ کریں کہ ہمارے معاشرے میں اکثر لوگوں کو نمازِ جنازہ کا طریقہ اور جنازہ کی دعا یاد نہیں ہے۔ ہمیں چاہیے کہ نمازِ جنازہ اوراس کی دعا کو سیکھیں اور اپنے والدین کی نمازِ جنازہ خود پڑھانے کی سعادت حاصل کریں۔

جنازے کے ساتھ جانا اور جنازے کو کندھا دینا:
نمازِ جنازہ ادا کرنے کے بعد میت کو دفنانے کے لیے قبرستان لے جایا جاتا ہے ۔میت کے ساتھ قبرستان جانا اور جنازے کو کندھا دینا ایک طرف میت کا حق ہے تو دوسری طرف بہت اجر وثواب کا باعث بھی۔ چناچه نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم نے جنازے کے ساتھ جانے‘نمازِ جنازہ پڑھنے اور دفنانے تک میت کے ساتھ رہنے والے کو اُحد پہاڑ جتنے دو قیراط اجر وثواب کا مستحق قرار دیا ہے۔رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا :
”جو آدمی ایمان کی صفت اور ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے اور اُس وقت تک جنازے کے ساتھ رہے جب تک کہ اُس پر نماز پڑھی جائے اور اس کے دفن سے فراغت ہو تو وہ ثواب کے دو قیراط لے کر واپس ہو گا‘ جس میں سے ہر قیراط گویا اُحد پہاڑ کے برابر ہو گا۔ اور جو آدمی صرف نمازِ جنازہ پڑھ کر واپس آجائے تو وہ ثواب کا ایک قیراط لے کر واپس ہو گا۔ “(بخاری)

جنازے کو کندھا دینے کا طریقہ اور فضیلت:
ہر اچھے کام کو دائیں طرف سے شروع کرنا فضیلت کا باعث ہے اس لیے سب سے پہلے میت کی چارپائی کے دائیں پائے کو کندھا دیا جائے اور پھر ساتھ ساتھ پیچھے آتے ہوئے پچھلے پائے کو کندھا دیا جائے۔اس کے بعد چارپائی کے آگے والے بائیں پائے کو کندھا دیا جا ئے اور پھر ساتھ ساتھ پیچھے آتے ہو ئے پچھلے پائے کو کندھا دیاجائے۔ایک دفعہ چاروں طرف کندھا دینا مسنون عمل ہے۔اس حوالے سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضي الله تعالى عنه کا قول ہے ”جو جنازے کے ساتھ چلے اس کو چاہیے کہ چارپائی کے ہر طرف (پائے)کو کندھا دے، اس لیے کہ یہ مسنون ہے۔پھر اگر چاہے تو مزید کندھا دے اور اگر چاہے تو نہ دے۔“(ابن ماجہ)
جنازے کو کندھا ایک طرف میت کا حق ہے تو دوسری طرف یہ انسان کے کبیرہ گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔اس حوالے سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا قول مبارک ملاحظہ ہو:
”جس نے جنازے کے چاروں جانب کندھا دیا تو اللہ تعالیٰ (جنازہ کو کندھا دینے کو)اس کے چالیس کبیرہ گناہوں کا کفارہ بنا دیں گے۔“(مجمع الزوائد)
عورت کی میت کو بھی ہر شخص کندھا دے سکتا ہے اس میں محرم ‘غیر محرم کا کوئی فرق نہیں ہے‘البتہ عورت کی میت کو قبر میں اتارنے کی ذمہ داری محرم ہی پوری کرے۔


جنازے کے احترام میں کھڑا ہونا:
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع زمانہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم جنازہ کے احترام میں کھڑے ہوا کرتے تھے‘ لیکن ایک بار جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہوئے تو پاس موجود ایک یہودی نے کہا کہ ہم بھی ایسا کرتے ہیں۔اُس وقت سے نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم نے یہودیوں کی مخالفت میں جنازہ کے لیے کھڑے ہونے سے منع فرمادیا۔حضرت عبادہ بن صامت رضي الله تعالى عنه فرماتے ہیں:
”رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہوجاتے تھے، یہاں تک کہ میت کو لحد میں اتار دیا جاتا۔ایک مرتبہ ایک یہودی کا گزر ہوا(اور آپ صلی الله علیہ وآله وسلم جنازہ کے احترام میں کھڑے تھے)۔اُس یہودی نے کہا کہ ہم بھی ایسا کرتے ہیں۔پس نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم فوراً بیٹھ گئے اور فرمایا:(جنازہ دیکھ کر)اِن کی مخالفت میں بیٹھے رہو(اور کھڑے نہ ہو)۔“(ابوداوٴو)
آج بھی اگر کوئی جنازہ کو دیکھ کر میت کے احترام کی نیت سے کھڑا ہوجاتا ہے تو ایسا کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے‘لیکن اولیٰ یہی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم کے طرزِعمل کو اپنایا جائے۔

میت کو دفن کرنا اور مٹی ڈالنا:
میت کوتیار کی گئی قبر کے پاس رکھا جائے ۔اگر قبر میں کوئی چٹائی یا کپڑا بچھا لیا جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر کوئی قریبی رشتہ دار احتیاط کے ساتھ میت کو قبر میں اتارے۔ میت کو قبر میں اتارتے وقت نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم کے فرمان کے مطابق ((بِسْمِ اللّٰہِ وَعَلٰی مِلَّةِ رَسُوْلِ اللّٰہِ)) پڑھنا چاہیے اور اگر کسی کو یہ یاد نہ ہوتو بسم اللہ پڑھ لے۔
میت کو قبر میں اتارنے کے بعد اس پر مٹی ڈالی جاتی ہے۔وہاں موجود لوگوں کو چاہیے کہ وہ نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم کے عمل کے مطابق تین بار مٹھی بھر کر سر والی طرف مٹی ڈالیں۔علمائے کرام نے لکھا ہے کہ پہلی دفعہ﴿مِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ﴾‘ دوسری دفعہ ﴿وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ﴾‘اور تیسری دفعہ ﴿وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَةً اُخْرٰی﴾پڑھنا چاہیے۔


دفنانے کے بعد دعا کرنا:
جب میت کو مکمل طور پر دفنا دیا جائے تو پھر وہاں موجود لوگوں کو چاہیے کہ میت کی بخشش اور اس کی استقامت کے لیے دعاگو ہوں، اس لیے کہ اب اُس کے اصل امتحان کا وقت شروع ہو گیا ہے۔حضرت عثمان غنی رضي الله تعالى عنه اس حوالے سے نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم کے معمول کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم جب میت کو دفن کرنے سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ دیر رکتے اور فرماتے:”اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا کرو،اس لیے کہ اِس وقت اُس سے سوال کیا جارہا ہے۔“(ابوداوٴو)
اس کے علاوہ بھی ورثا اور خاص کر اولاد کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کی بخشش کے لیے ہر وقت دعا گو ہوں اور نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، اس لیے کہ اولاد کے نیک اعمال کا ثواب فوت شدہ والدین کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جاتا ہے۔


میت کے لواحقین سے تعزیت کرنا:
تعزیت کا عام فہم معنی یہ ہے کہ میت کے لواحقین اور اس کے اہل خانہ سے ایسے کلمات کہنا جن کو سن کر اُن کا صدمہ کچھ کم ہوجائے ۔تعزیت کرنا بھی زندہ لوگوں کے ذمه ایک فرض ہے، جس کی بہت فضیلت ہے۔نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا:
”جو کوئی اپنے موٴمن بھائی کی مصیبت پر تعزیت کرے گا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ اسے قیامت کے روز عزت کا تاج پہنائے گا۔“(ابن ماجہ)
ہمارے معاشرے میں تعزیت بھی صرف رسماً کی جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ تعزیت کو میت کا حق سمجھ کر کریں، تاکہ مذکورہ اجرکے حق دار بن سکیں۔

میت کے ذمے واجب الادا قرض کو ادا کرنا:
میت کی تدفین اور باقی معاملات سے فراغت کے بعد ورثا کو چاہیے کہ میت کے ذمے اگرکوئی قرض ہے تو اس کی جلد ادائیگی کی فکر کریں۔اس لیے کہ جب تک قرض ادا نہیں ہوجاتا انسان کی روح معلق رہتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے‘رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا:
”موٴمن کی روح اس وقت تک معلق رہتی ہے جب تک اس کا قرض ادا نہ کر دیا جائے۔“(ابن ماجہ)
قرض ادا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر قرض ادا نہ کیا گیا تو قیامت کے دن اس قرض کے بدلے میں اِس میت کی نیکیاں لے لی جائیں گی اوراس طرح مقروض صرف قرض ادا نہ کرنے کی وجہ سے جنت سے محروم کر دیا جائے گا۔اسی وجہ سے نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا:
”جس کی روح اُس کے جسم سے اس حال میں جدا ہوئی کہ وہ تین چیزوں تکبر دھوکہ دہی اورقرضہ سے بچا رہا تو وہ جنت میں داخل ہوگیا۔“(ابن ماجہ)


میت کی طرف سے حج کرنا:
اگر کسی نے حج کرنے کی نذر مانی ‘لیکن وہ حج کرنے سے پہلے ہی وفات پا گیا تواب اس کے ورثا پر لازم ہے کہ وہ اُس کی اِس نذر کو پورا کریں۔اس لیے کہ یہ بھی میت کے ذمے قرض ہے، جسے ادا کرنا ورثا پر لازم ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم کے پاس آئی اور عرض کیا کہ میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی، لیکن وہ حج کرنے سے پہلے ہی وفات پا گئی۔کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”ہاں‘اس کی طرف سے حج کرو۔تیرا کیا خیال ہے کہ اگر تیری ماں پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا نہ کرتی؟(یہ نذر اللہ کا قرض ہے‘لہٰذا) اللہ کا قرض ادا کرو، اس لیے کہ اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔“(بخاری)
اس کے علاوہ اگر نذر نہ بھی مانی ہو تب بھی اولاد اپنے والدین یا قریبی رشتہ دار کی طرف سے حج کرسکتے ہیں ‘اس کا اجر و ثواب ان شاء اللہ تعالیٰ میت کو ضرورپہنچے گا۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے انسان اپنا فرض حج ادا کرے اور بعد میں والدین یا رشتہ دارکی طرف سے حج یا عمرہ کرے۔


میت کی طرف سے صدقہ خیرات کرنا:
فوت شدہ قریبی رشتہ داروں اور خاص کر فوت شدہ والدین کی طرف سے صدقہ وخیرات کرنا فوت شدگان کے لیے بھی باعث ثواب ہے اور صدقہ خیرات کرنے والے کے حق میں بھی باعث برکت ہے۔
” حضرت سعد بن عبادہ رضي الله تعالى عنه كي والدہ کا ان کی عدم موجودگی میں انتقال ہو گیا۔(جب وہ واپس آئے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم کی خدمت میں حاضرہو کر گزارش کی  یارسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم میری والدہ نے میری غیر حاضری میں وفات پائی‘ اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا انہیں کوئی نفع پہنچے گا ؟تو آپ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا :”ہاں‘ پہنچے گا“ ۔ انہوں نے عرض کیا: آپ صلی الله علیہ وآله وسلم گواہ رہیں ‘میں نے اپنا مخراف نامی باغ ان کی طرف سے صدقہ کردیا۔ “ (بخاری)
اسی طرح اور بھی بہت سی روایات ہیں، جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ صدقہ و خیرات کا اجر و ثواب فوت شدگان کو پہنچتا ہے۔


عورت کا عدت گزارنا:
میت کے لیے تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں ہے‘البتہ عورت کے لیے اپنے خاوند کے مرنے پر عدت گزارنا لازم ہے اور یہ میت کا حق بھی ہے۔عدت کے حوالے سے یہ نوٹ کرلیں کہ عورت اگر حاملہ ہے تو اُ س کی عدت وضع حمل یعنی بچے کی پیدائش ہے اور اگر وہ حاملہ نہیں ہے تو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔اس مدت میں وہ گھر میں سادگی اختیار کرتے ہوئے رہے اوربغیر کسی مجبوری اور شرعی عذر کے گھر سے باہر نہ نکلے۔اگر مجبوری کے وقت گھر سے باہر جانا بھی پڑے تو سادگی اور پردہ کا خصوصی لحاظ رکھے۔

پیدائش‘ شادی اور وفات انسانی زندگی کے تین اہم مراحل ہیں اور ان مراحل کے حوالے سے کچھ رسومات اور افعال ایسے ہیں جو دین اسلام سے ثابت ہیں جب کہ کچھ رسومات اور افعال ایسے ہیں جنہیں اسلامی معاشروں نے ہندوانہ تہذیب سے مستعار لیا ہے ۔ان کے بارے میں قاعدہ تو یہی ہے کہ جو افعال اسلامی پہلوسے ثابت ہیں اُن کو اپنایا جائے اور جن کا ثبوت نہیں ملتا اُن سے کنارہ کشی کی جائے۔

اسلامی ہمدردی وغمخواری:
رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم كي مقدس ومتبرك ذات اور آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی نوراني تعلیمات ساری دنیا کے لیے آبِ رحمت ہيں آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے اللہ تعالیٰ کی عام مخلوق اور عام انسانوں کے ساتھ رحم اور حسن سلوک کے بارے میں اپنے ماننے والوں کو جو ہدایات دی ہیں اور جو نصیحتیں فرمائی ہیں، ان میں سے بعض کا ذکر گذشته أقساط ميں کیا جاچکا ہے، لیکن آپ صلى الله عليه وآله وسلم کو اللہ کا نبي اور رسول ماننے والی امت چونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دینی رشتہ کے ذریعہ ایک برادری بنا دی گئی ہے اور اب رہتی دنیا تک اس برادری ہی کو نبوت کی نیابت اور نمائندگی کرنی ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جبکہ امت کے مختلف افراد اور عناصر دینی اخوت ، للہی محبت، مخلصانہ ہمدردی وخیر خواہی اور بے غرضانہ تعاون کے ذریعہ ایک وحدت بنے رہیں اور ان کے دل آپس میں پوری طرح جُڑے رہیں، اس لیے رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے اپنی تعلیم میں اس پر خاص الخاص زور دیا ہے هر هر مسلمان إن تعليمات كو اپني عملي زندگي كا حصه بنا لے يهي إكرام مسلم كا أصل مقصد هے
حضرت نعمان بن بشیر رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایمان والوں کو باہم ایک دوسرے پر رحم کھانے، محبت کرنے اور شفقت ومہربانی کرنے میں تم جسم انسانی کی طرح دیکھو گے کہ جب اُس کے کسی بهي ایک عضو کو بھی تکلیف ہوتی ہے تو جسم کے باقی سارے اعضاء بھی بخار اور بے خوابی میں اس کے ساتهـ شریک ہوجاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم)
مطلب یہ ہے کہ رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم پر ایمان لانے والوں میں باہم ایسی محبت و مؤدت، ایسی ہمدردی اور ایسا دلی تعلق ہونا چاہیے کہ دیکھنے والی ہر آنکھ اُن کو اس حال میں دیکھے کہ اگر ان میں سے کوئی ایک کسی مصبیت میں مبتلا ہو، تو سب اس کو اپنی مصیبت سمجھیں اور سب اس کی فکر اور بے چینی میں شریک ہوں اور اگر ایمان کے دعوے کے باوجود یہ بات نہیں ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ حقیقی اور کامل ایمان نصیب نہیں ہے۔ ایمان والوں کی یہی صفت قرآن مجید میں ’’رحماء بینھم‘‘ کے مختصر الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضي الله تعالى عنه رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے أرشاد فرمایا کہ ایمان والوں کا تعلق دوسرے ایمان والوں سے ایک مضبوط عمارت کے اجزاء کا سا ہونا چاہیے کہ وہ باہم ایک دوسرے کی مضبوطی کا ذریعہ بنتے ہیں (اور اُن کے جڑے رہنے سے عمارت کھڑی رہتی ہے) پھر آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے (ایمان والوں کے اس باہمی تعلق کا نمونہ دکھانے کے لیے) اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال دیں (اور بتایا کہ مسلمانوں کو اس طرح باہم مل کر ایک ایسی مضبوط دیوار بن جانا چاہیے جس کی اینٹیں باہم پیوستہ اور ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہوں اور کہیں ان میں کوئی خلا نہ ہو) (بخاری ومسلم)


بدگمانی وبدگوئي اور حسد وبغض وغيره کی قباحت:
آحاديث مباركه میں رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے جس طرح مسلمانوں کو باہم محبت وہمدردی کا برتائو کرنے اور ایک جسم وجان بن کر رہنے کی تاکید فرمائی ہے اسی طرح اس کے خلاف برتائو کرنے، مثلاً ایک دوسرے کے ساتھ بدگمانی رکھنے، بدگوئی کرنے، بے تعلق رہنے، اس کی مصبیت پر خوش ہونے، اس کو ایذا پہنچانے اور حسد یا کینہ رکھنے کی سخت مذمت اور انتہائی تاکیدوں کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے۔ اس سلسلہ کے آپ صلى الله عليه وآله وسلم کے چند ارشادت ملاحظه هوں:

حضرت ابو ہریرہ رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم دوسروں کے متعلق بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، تم کسی کی کمزوریوں کی ٹوہ میں نہ رہا کرو اور جاسوسوں کی طرح راز درانہ طریقے سے کسی کے عیب معلوم کرنے کی کوشش بھی نہ کیا کرو اور نہ ایک دوسرے پر بڑھنے کی بےجا ہوس کرو، نہ آپس میں حسد کرو، نہ بغض وکینہ رکھو اور نہ ایک دوسرے سے منہ پھیرو، بلکہ اے اللہ کے بندو! اللہ کے حکم کے مطابق بھائی بھائی بن کر رہو۔ (بخاری و مسلم)
اس حدیث میں جن جن چیزوں سے ممانعت فرمائی گئی ہے، یہ سب وہ ہیں جو دلوں میں بغض وعداوت پیدا کرکے آپس کے تعلقات کو خراب کرتی ہیں۔ سب سے پہلے آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے بدگمانی کا ذکر فرمایا۔ یہ ایک قسم کا جھوٹا وہم ہے جو شخص اس بیماری میں مبتلا ہو، اُس کا حال یہ ہوتا ہے کہ جس کسی سے اس کا ذرا سا اختلاف ہو اس کے ہر کام میں اس کو بدنیتی ہی بدنیتی معلوم ہوتی ہے، پھرمحض اس وہم اور بدگمانی کی بنا پر وہ اس کی طرف بہت سی ان ہونی باتیں منسوب کرنے لگتا ہے پھر اس کا اثر قدرتی طور پر ظاہری برتائو پر بھی پڑتا ہے پھر اس دوسرے شخص کی طرف سے بھی اس کا رد عمل ہوتا ہے اور اس طرح دل پھٹ جاتے ہیں اور تعلقات ہمیشہ کے لیے خراب ہوجاتے ہیں۔
رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے اس حدیث میں بدگمانی کو ’’اکذب الحدیث‘‘ فرمایا ہے، یعنی سب سے جھوٹی بات، بظاہر اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے خلاف زبان سے اگر جھوٹی بات کہی جائے تو اس کا سخت گناہ ہونا ہر مسلمان جانتا ہے لیکن کسی کے متعلق بدگمانی کو اتنی بُری بات نہیں سمجھا جاتا رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے متنبہ فرمایا کہ یہ بدگمانی بھی بہت بڑا بلکہ سب سے بڑا جھوٹ ہے اور دل کا یہ گناہ زبان والے جھوٹ سے كسي طور بهي کم نہیں ہے۔پھر بدگمانی کے بعد اور جن جن بُری عادتوں سے اس حدیث مباركه میں ممانعت فرمائی گئی ہے۔ یعنی کسی کی کمزوریوں کی ٹوہ میں رہنا، دوسروں میں عیبوں کا تجسس کرنا، ایک دوسرے پر رفعت حاصل کرنے اور بڑھنے کی کوشش کرنا، کسی کو اچھے حال میں دیکھ کر اُس پر حسد کرنا اور اُس کی خوش حالی کو ٹھنڈی آنکھ نہ دیکھ سکنا وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کا حال بھی یہی ہے کہ ان سے دلوں میں نفرت و عداوت کا بیج پڑتا ہے اور ایمانی تعلق جس محبت وہمدردی اورجس اخوت ویگانگت کو چاہتا ہے اس کا امکان بھی باقی نہیں رہتا۔

نیک گمانی إيك بہترین عبادت
جس طرح أحاديث مباركه میں بدگمانی کی قباحت کو سخت الفاظ سے ظاہر فرمایا گیا ہے اُسی طرح ایک دوسری حدیٖث میں نیک گمانی کوبہترین عبادت بتایا گیا ہے، ارشاد نبوي صلى الله عليه وآله وسلم ہے:
’’حسن الظن من حسن العبادۃ‘‘ (رواہ احمد و ابودائود )
حدیث کے آخر میں جو فرمایا گیا ہے اے اللہ کے بندو! بھائی بھائی ہوکر رہو۔ اس میں اشارہ ہے کہ جب تم اپنے دلوں اور سینوں کو نفرت وعداوت پیدا کرنے والی ان بری عادتوں سے صاف رکھوگے تب ہی تم آپس میں بھائی بھائی بن کر رہ سکو گے۔
حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، اس پر کوئی ظلم وزیادتی نہ کرے (اور جب وہ اس کی مدد واعانت کا محتاج ہو، تو اس کی مدد کرے) اور اُس کو بے مدد کے نہ چھوڑے اور اس کو حقیر نہ جانے اور نہ اُس کے ساتھ حقارت کا برتائو کرے ( کیا خبر کہ اس کے دل میں تقویٰ ہو، جس کی وجہ سے وہ اللہ کے نزدیک مکرم اور محترم ہو) پھر آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے تین بار اپنے سینہ کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تقویٰ یہاں ہوتا ہے ( ہوسکتا ہے کہ تم کسی کو اُس کے ظاہری حال سے معمولی آدمی سمجھو اور اپنے دل کے تقوى کی وجہ سے وہ اللہ کے نزدیک بهت هي محترم ہو، اس لیے کبھی مسلمان کو حقیر نہ سمجھو) آدمی کے برا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے اور اُس کے ساتھ حقارت سے پیش آئے، مسلمان کی ہر چیز دوسرے مسلمان کے لیے قابلِ احترام ہے، اُس کا خون، اس کا مال اور اس کی آبرو (اس لیے ناحق اُس کا خون گرانا، اس کا مال لینا اور اس کی آبرو ریزی کرنا، یہ سب حرام ہیں)۔ (صحیح مسلم)

تيسرا كام : إكرام مسلم کي توفيق كيلئے دعا كرنا :
جيسا كه عرض كيا جا چكا كه هر صفت كي محنت كے لئے سب سے پہلے إس کی دعوت ہے ، دوسرا كام إسكي مشق كرنا هے إس سب كے بعد كاميابي دينے والي ذات صرف اور صرف الله تعالى كي هے إس لئے دعوت اور محنت كا عمل كرنيكے بعد تيسرا اور آخرى كام الله تعالى سے رو رو كر اور گڑگڑا كر دعا مانگني بهت ضرورى هے.
اللہ تعالی کو یہ بات بہت پسند ہے کہ اس سے مانگا جائے، ہر چیز کیلئے امید اسی سے لگائی جائے، بلکہ جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ تعالی اس پر غضبناک ہوتا ہے، اسی لیے اپنے بندوں کو مانگنے کیلئے ترغیب بھی دلاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ}
ترجمہ: اور تمہارے رب نے کہہ دیا ہے کہ: مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کرونگا۔ [غافر ]
اللہ سے دعا مانگنے کا دین میں بہت بلند مقام ہے، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے یہاں تک فرما دیا: (دعا ہی عبادت ہے) ترمذی - ابو داود - ابن ماجہ
كلمه طيبه (لا إله إلا الله محمد رسول الله ) - نماز اور علم وذكر ميں هم نے دعا كے متعلق ذرا تفصيل سے بيان كرديا هے تاهم هم يهان قبولیت دعا کی شرطوں كا ذكر كريں گے تاكه دعا كرنيوالا دعا كي قبوليت كيلئے إنكا خصوصي طور إهتمام كرے
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ0
اور تمہارے رب نے کہا ہے مجھے پکارو، میں تمہاری پکار کو سنتا ہوں۔ بے شک جو لوگ میری عبادت سے تکبر اختیار کرتے ہیں، عنقریب وہ ذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے۔ (المومن)

ایک اور مقام پر ارشاد باری ہے:
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّھُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ0
اور جب میرے بندے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے میرے بارے میں پوچھیں (تو انہیں بتادیں کہ) میں قریب ہوں اور پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارے۔ پس انہیں چاہیے کہ وہ میرے احکام کی پیروی کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔ (البقرۃ)
اور باری تعالیٰ فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ0
"اے لوگو! تم اللہ تعالیٰ کے محتاج ہو اور اللہ غنی اور حمد و ثناء والا ہے" (فاطر)
ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"الدعاء مُخُ العِبادۃ" "دعا عبادت کا مغز ہے" (ترمذی)
جبکہ ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں:
"الدعاء ھو العبادۃ" "دعا خود ایک عبادت ہے" (مسند احمد)
دعا مومن کیلئے اپنے رب سے رابطے کا ایک ایسا مؤثر اور فوری ذریعہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنے رب سے جب چاہے، تعلق قائم کرسکتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا اپنے بندوں سے معاملہ انتہائی احسان اور لطف کا ہے۔ اُس کا بندہ اُس سے جتنا زیادہ طلب کرے، اُتنا ہی اللہ اُس سے راضی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس انسانوں سے مانگا جائے تو انہیں ناگوار گزرتا ہے اور وہ کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ چلیں پہلی بار خندہ پیشانی سے آپ کی مانگ پوری کر بھی دیں تو دوبارہ، سہہ بارہ مانگنے پر بتدریج رویے میں تبدیلی آپ صاف محسوس کرسکیں گے چاہے کتنا ہی قریبی تعلق کیوں نہ ہو۔ دینِ حنیف نے ہمیں اس بات کی تعلیم دی کہ بندوں کے آگے تذلل و عاجزی اختیار کرنے کے بجائے صرف حقیقی مالک سے مانگو، جو ان سب کو بھی دینے والا ہے جس سے تم اُس کے سوا امیدیں وابستہ کرتے ہو۔ کبھی صاحبِ مال سے تو کبھی صاحبِ جاہ و منصب سے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ان اصحاب مال و مناصب کے حال کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ چاہیں تو ایک لمحہ میں تبدیل فرمادیں اور تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ پس رمضان المبارک ہمارے لیے ایک موقع ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم اپنے مُنعمِ حقیقی کے ساتھ تعلق قائم و بحال کرسکتے ہیں۔
ایک بہت بڑی کوتاہی جو ہم سب میں بہت زیادہ بڑھ گئی ہے، یہ کہ ہم صرف مصیبت کے وقت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو پُکارتے اور اُس کی جانب رجوع کرتے ہیں۔ آسانیوں اور نعمتوں میں اُسے بھلائے رہتے ہیں اور یہ بہت بڑی محرومی کی بات ہے۔ ایک عالِم اس کے بارے میں مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں: "مثال کے طور پر آپ مسجد گئے، پڑوسی کو دیکھا، دعا مانگ رہا ہے: "اے اللہ میرے بیٹے کو صحت دے" آپ نے دل میں کہا آمین، بیچارے کا بیٹا بیمار ہے اس کیلئے صحت کی دعا کررہا ہے۔ دوسری طرف رُخ پھیرا تو ایک اور نمازی دعا مانگ رہا ہے: "اے اللہ میری معاشی مشکلات کو دور فرمادے" آپ نے دل میں کہا: آمین، بیچارہ مالی مشکلات سے دوچار ہے، اللہ آسان فرمائے۔ پھر اپنے بارے میں سوچنا شروع کرتے ہوئے آپ نے جائزہ لیا، "میں کیا مانگوں؟ کاروبار بہت اچھا جارہا ہے، بیوی بچے ٹھیک ٹھاک ہیں، مجھے بھی کوئی بیماری نہیں، کوئی پریشانی نہیں سب بہت اچھا ہے۔ تو کیا مانگوں؟" آیئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں وہ ہمیں کیسی دعائیں تعلیم فرماتے ہیں۔ منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ یہ دعا مانگی:

"اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ وَجَمِيعِ سَخَطِكَ"
کہ اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں تیری نعمتوں کے جو مجھ پر ہیں، زائل ہونے سے، اور تیری عافیت کے پِھر جانے سے، اور تیری جانب سے اچانک کسی عقوبت کے نازل ہونے سے اور تیرے تمام تر غصے اور ناراضگی سے"
سو صرف نعمتوں کا وجود ہی کافی نہیں ان کا دوام بھی ہم سب کیلئے ضروری ہے اور اس کیلئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے مانگتے رہنا اور اس کا شکر ادا کرتے رہنا ہم پر لازم ہے
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
"جس کو خواہش ہو کہ اللہ تعالیٰ شدائد و تکالیف میں اُس کی دعا قبول کریں تو اسے چاہیے کہ راحت کے وقت میں کثرت سے دعا کرے" (ترمذی و حاکم)
ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا:
"اللہ کو راحت میں پہچانو، وہ تمہیں شدت (مصائب) میں پہچانے (تمہاری دعا سنے) گا"(صحیح الجامع) اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں دعا کی توفیق عطا فرمائیں اور ہماری دعائیں قبول فرمائیں۔ آمین۔
كلمه طيبه (لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ) - نماز اور علم وذكر ميں دعا كے متعلق ذرا تفصيل سے بيان كرديا گيا هے تاهم يهاں قبولیت دعا کی شرطوں كا ذكر كيا جائے گا تاكه دعا كرنے والا دعا كي قبوليت كے لئے إن كا خصوصي طور پر إهتمام كرے

قبولیت دعا کی شرطیں:
دعائوں کی قبولیت کے لیے کچھ شرطیں ہیں اگر وہ پوری کی جائیں اور دعا کرتے ہوئے وہ شرائط پائی جائیں تو اللہ کی رحمت سے قوی امید ہوتی ہے کہ وہ دعا ضرور قبول کی جائے گی۔ اور اگر ان شرائط میں سے کسی ایک شرط میں سے کسی ایک شرط کا بھی فقدان ہو اور وہ موجود نہ ہو تو پھر دعاؤں کا قبول ہونا ضروری نہیں بلکہ اس کا وہ حال ہوتا ہے جو اکثر ہماری دعاؤں کا ہے کہ سالہا سال سے دعائیں مانگ رہے ہیں لیکن قبولیت نام کی کوئی چیز دور دور تک نظر نہیں آتی کیونکہ دعا میں جن آداب و شرائط اور اصول و قواعد کا ہونا ضروری ہے ان میں سے اکثر ہمارے یہاں موجود نہیں لہٰذا ان چیزوں کا جاننا ہمارے لیے اشد ضروری ہے۔ كوشش كى جائيكي كه ذرا تفصیل سے ان شرائط کا ذکر کیا جائے جن کے ہوتے ہوئے قبولیت دعا کی زیادہ توقع کی جا سکتی ہے۔

اخلاص:
دعا اور کسی بھی عبادت و نیکی کی قبولیت کے لیے سب سے پہلی شرط اخلاص ہے۔ یعنی وہ کام محض اللہ تعالیٰ کے لیے، اس کی خوشنودی اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیا جائے۔ کوئی اور دنیاوی مقصد اس کے ساتھ شامل نہ ہو یا اس کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کیا جائے۔ سورة البینہ آیت نمبر 5 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ
اور انہیں اس بات کا حکم دیا گیا کہ وہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لیے دین کو خالص کر کے۔
اسی طرح قربانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ تم جو جانور ذبح کرتے ہو اس کا گوشت یا خون اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچتا اور نہ اس کو اس کی ضرورت ہے وہ تو صرف تمہارے تقویٰ اور دل کی حالت و کیفیت اور اخلاص کو دیکھتا ہے۔
سورة الحج آیت نمبر37 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَنْ يَّنَالَ اللّـٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُـهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ ۚ
ہرگز ہرگز اللہ کو ان (جانوروں) کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا لیکن تمہارا تقویٰ اس تک پہنچتا ہے۔

صحیح بخاری کی سب سے پہلی اور مشہور و معروف حدیث ہے کہ
عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ أَبِي حَفْصٍ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رضي الله عنه - قَالَ: سَمِعْت رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ: "إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إلَى مَا هَاجَرَ إلَيْهِ".
امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابن الخطاب سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے اور ہر آدمی کو اسی کا (اجر ) ملے گا جو اس نے نیت کی تھی تو جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوئی اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ہی کی طرف ہوئی اور جس کی ہجرت کا مقصد دنیا (کی کسی چیز) کا حصول یا کسی عورت سے شادی کرنا تھا تو اس کی ہجرت (اس کی نیت کے مطابق) اسی کی طرف مانی جائے گی جس کی طرف اس نے ہجرت کی‘‘۔ (بخاری، مسلم)
یہ اتنی مشہور اور اہم حدیث ہے کہ امام بخاریؒ نے اپنی کتاب ’’صحیح بخاری‘‘ کو اسی سے شروع کیا ہے اور اس طرح اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جو (دینی) عمل بھی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کیلئے نہ کیا جائے وہ بے فائدہ ہے اور دنیا و آخرت میں اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ عبدالرحمن بن مہدی کہتے ہیں کہ اگر میں کوئی کتاب چند ابواب پر مشتمل لکھتا تو اس حدیث کو ہر باب کے شروع میں ضرور لکھتا۔ جو بھی کوئی کتاب لکھے اسے اسی حدیث سے شروع کرنا چاہئے۔
اسی طرح امام ابو دائود رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سنن میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ حدیث ذکر کی کہ رسول اللہ رسول اللہ صل الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میت کی نماز جنازہ پڑھو (اور اس کے لیے دعا کرو) تو اس کے لیے اخلاص کے ساتھ دعا کرو۔
معلوم یہ ہوا کہ دعا کی قبولیت کی سب سے پہلی شرط اخلاص ہے اور اخلاص کی ضد شرک اور ریاکاری ہے۔ اگر دعا کرنے والا شرک میں مبتلا ہو یا ریاکاری میں ملوث ہو تو اس کی دعا قبول نہیں ہو گی۔

اکل حلال (رزق حلال)
قبولت دعا کی دوسری اہم شرط اکل حلال يعني رزق حلال كا هونا ہے یعنی دعا کرنے والے کا کھانا،پینا حلال ہو، اگر یہ حلال نہیں بلکہ حرام غذا وہ اپنے پیٹ میں داخل کرتا ہو تو پھر ایسے شخص کی دعا قبول ہونا ضروری نہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ رسول اللہ صل الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! بیشک اللہ تعالیٰ پاک صاف ہے وہ صرف پاک صاف اور حلال چیزیں ہی قبول کرتا ہے اور بیشک اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو وہی حکم دیا جو اس نے رسولوں کو دیا، فرمایا: اے رسولو! پاک صاف اور حلال چیزیں کھائو اور نیک کام کرو، بیشک میں تمہارے کاموں سے واقف ہوں اور فرمایااے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تمہیں حلال اور پاک صاف چیزیں عطا کی ہیں اسے کھائو، راوی کہتے ہیں کہ نبی اکرم رسول اللہ صل الله عليه وآله وسلم نے اس کے بعد اس شخص کا ذکر فرمایا جو طویل سفر کر کے آتا ہے (طوالت کی وجہ سے) اس کے چہرے اور کپڑوں پر مٹی اور گردو غبار ہے اور وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھا کر کہتا ہے اے میرے رب، اے میرے رب! حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے اور اس کا پینا حرام ہے اور اس کا لباس حرام ہے اور حرام ذرائع سے اس کی پرورش ہو رہی ہے تو پھر ایسے شخص کی دعا کیسے قبول کی جائے۔ (مسلم)
غور کیجیے کہ رسول اللہ رسول اللہ صل الله عليه وآله وسلم نے لوگوں کو مخاطب کر کے کتنے پیارے انداز میں پاک صاف اور حلال چیزیں اختیار کرنے کی ترغیب دی فرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاک و صاف چیزوں ہی کو قبول فرماتا ہے۔ اسی بات کا اس نے رسولوں کو بھی حکم دیا ہے اور اہل ایمان کو بھی۔ پھر نبی اکرم رسول اللہ صل الله عليه وآله وسلم نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو کوئی اہم نیکی یا عبادت (جیسے حج و عمرہ وغیرہ) انجام دینے کے لیے دور دراز مقام سے سفر کر کے آتا ہے اس کے چہرے اور کپڑوں پر گرد و غبار، تھکاوٹ اور سفر کے آثار بھی دکھائی دے رہے ہیں اور وہ اپنے ہاتھوں کو پھیلا کر اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس کی پکار کو کیسے سنے؟ جب کہ اس کا کھانا، پینا اور لباس وغیرہ سب حرام مال کا ہے کیونکہ اس کی آمدنی کے ذرائع حرام ہیں۔
اس شخص کے بارے میں اس حدیث میں چار اہم باتیں بیان کی گئی ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو بندے پر یقینا رحم آجاتا ہے اور وہ اپنے بندے کی پکار سنتا ہے اور قبول کرتا ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ یہ شخص مسافر ہے اور مسافر کے بارے میں حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ مسافر کی دعا قبول ہوتی ہے، رد نہیں کی جاتی۔ دوسری بات یہ کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے جسم کو اذیت و تکلیف پہنچائی اور سفر کی طوالت کی وجہ سے اس کا جسم اور کپڑے گرد آلود ہو گئے۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ جس شخص کے جسم پر اللہ کے دین کے حصول والے سفر اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں کیے گئے سفر کی وجہ سے مٹی یا گرد و غبار پڑ جائے تو اس جسم پر جہنم کی آگ حرام ہو جاتی ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کے راستے کی گرد اور جہنم کا دھواں کسی آدمی کے چہرے پر کبھی بھی جمع نہیں ہو سکتے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ جس کے قدم اللہ تعالیٰ کے راستے میں غبار آلود ہو جائیں تو وہ جہنم کی آگ پر حرام ہیں۔ (سنن نسائی)
تیسری چیز یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف پھیلائے ہوئے ہے۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت زیادہ حیا کرنے والے ہیں اس کو اس بات سے حیا آتی ہے کہ اس کا کوئی بندہ اپنے دونوں ہاتھ اس کے سامنے پھیلائے اور وہ پھر ان ہاتھوں کو خالی لوٹا دے۔
چوتھی اہم بات یہ بیان کی گئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کو پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یا رب، یا رب! اور سلف صالحین سے یہ بات منقول ہے کہ جب کوئی بندہ اپنے رب کو پکارتا ہے تو اللہ کی طرف سے ندا آتی ہے کہ لبیک یا عبدی، لبیک یا عبدی۔۔۔۔۔۔۔ (اے میرے بندے میں حاضر ہوں، اے میرے بندے میں حاضر ہوں) تمہیں کیا چاہیے۔
ان چار اہم باتوں کے پائے جانے کے باوجود یہ شخص دعا کی قبولیت سے محروم ہے صرف اس لیے کہ اس کا کھانا، پینا، اس کی غذا، اس کا لباس وغیرہ حرام کا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ دعا کی قبولیت کے لیے اکل حلال، نہایت ہی اہم شرط ہے، یہی وجہ ہے کہ صحابی رسول سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جو کہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں)نے ایک مرتبہ رسول اللہ رسول اللہ صل الله عليه وآله وسلم سے درخواست کی کہ یا رسول اللہ!(ﷺ) میرے لیے دعا کیجیے کہ میری دعائیں قبول ہونے لگیں اور میں مستجاب الدعوات ہو جائوں (یعنی ان لوگوں میں سے بن جائوں جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں رد نہیں کی جاتیں) ان کے جواب میں رسول اللہ رسول اللہ صل الله عليه وآله وسلم نے صرف سعد ہی کو نہیں بلکہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ایسا نسخہ بتا دیا کہ ہر شخص اس پر عمل کر کے مستجاب الدعوات بن سکتا ہے، نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: اے سعد! اپنا کھانا پینا حلال رکھو تو تم مستجاب الدعوات ہو جائو گے۔ (اور تمہاری دعائیں قبول ہونے لگیں گی)
اب جس شخص کا بھی کھانا پینا حلال ہو گا اس کی دعا یقینا قبول ہو گی۔ چنانچہ حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ عليه نے قبولیت دعا کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ دعا کے دو بازو ہیں :
ایک اکل حلال،
دوسرا صدق مقال،
یعنی حلال کمائی اور حلال غذا کھانا اور سچ بولنا، اگر یہ دونوں موجود ہوں تو گویا دعا پرواز کرتے ہوئے اللہ کے سامنے پہنچ جاتی ہے۔
معلوم ہوا کہ کسی بھی عمل، نیکی یا عبادت کی قبولیت کے لیے جو چیزیں ضروری ہیں ان میں ایک اہم اکل حلال ہے۔ وہیب بن الورد رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایک ساتھی سے کہتے ہیں کہ اگر تم عبادت اس طرح کھڑے ہو کر مستقل طور پر کرنے لگو جیسا کہ یہ ستون کھڑا ہے لیکن تمہیں اس کی پرواہ نہ ہو کہ تمہارے پیٹ میں جانے والی غذا حلال ہے یا حرام تو ایسی عبادت کا تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کے بارے میں ابھی گذرا کہ انہوں نے مستجاب الدعوات بننے کے لیے رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم سے دعا کی درخواست کی تھی تو نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے ایک نسخہ بتایا کہ کھانا پینا حلال رکھو تو مستجاب الدعوات بن جائو گے اور تمہاری ہر دعا قبول ہونے لگے گی۔ چنانچہ ان کی دعائیں بہت زیادہ قبول ہوتی تھیں، لوگوں نے سوال کیا کہ دیگر اصحاب رسول کے مقابلے میں تمہاری دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ سیدنا سعدبن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اس بات کی کوشش کرتا ہوں کہ میرے پیٹ میں کوئی حرام لقمہ داخل نہ ہو، لقمہ منہ تک لے جانے سے پہلے اس بات کی تصدیق کر لیتا ہوں کہ یہ کہاں سے آیا اور یہ حلال ہے یا حرام؟
ترمذی شریف کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے یہ دعا بھی کی تھی: اے اللہ! سعد جب دعا کرے تو قبول فرما۔ (ترمذی) وہب بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ یہ کہتے ہیں کہ جو چاہتا ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعائیں قبول کریں تو اسے چاہیے کہ اپنا کھانا پینا پاک و صاف اور حلال رکھے۔ (جامع العلوم والحکم)
سہل بن عبدا للہ رحمۃ اللہ علیہ سے یہ بات مروی ہے کہ جو چالیس دن تک حلال کھانا کھائے اس کی دعائیں قبول ہونا شروع ہو جائیں گی۔ (جامع العلوم والحکم)
یوسف بن اسباط رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ بندے کی دعا آسمانوں تک جانے سے رکی رہتی ہے خراب (یعنی حرام) کھانے کی وجہ سے۔
ان تمام روایات اور اقوال سے یہ بات واضح ہو گئی کہ قبولیت دعا کی ایک اہم شرط اکل حلال ہے یعنی دعا کرنے والے کا کھانا پینا وغیرہ حلال و طیب ہو۔

شرک و بدعت سے اجتناب:
جن شرائط کا دعا کی قبولیت کے لیے ہونا ضروری ہے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ دعا کرنے والا مشرک و بدعتی نہ ہو۔ قبولیت دعا کے لیے شرک و بدعت سے اجتناب ضروری ہے۔ مشرک اور بدعتی کی دعا اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا۔ چنانچه فرمان إلهى هے
لَئِنْ أَشْرَكْت لَيَحْبَطَنَّ عَمَلك , وَلَتَكُونَن مِنْ الْخَاسِرِينَ0 (الزمر)
اگر آپ سے شرک سرزد ہوا تو آپ کا سارا عمل (نیکیاں) ضائع ہو جائے گا۔ اور آپ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
بدعتی کے بارے میں نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور سارے لوگوں کی لعنت ہے اور اس کا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا، نہ فرض عمل اور نہ ہی نفل عمل۔
صحیح بخاری کی ایک طویل حدیث میں رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم کا یہ ارشاد ہے: جو شخص اس میں کوئی نئی بات پیدا کرے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور سارے لوگوں کی لعنت ہے اللہ تعالیٰ اس سے نہ فرض قبول فرماتا ہے اور نہ نفل۔
بدعتی کا کوئی بھی عمل قبول نہیں ہوتا لہٰذا دعا کرنے والا اگر بدعتی ہے یا مشرک ہے تو اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ لهذا قبوليت دعا كے لئے يه ضروري هے كه شرك اور بدعت كا گناه اگر سززد هو چكا هے تو إس سے پكي سچي توبه كي جائے اور آئنده كيلئے اس سے مكمل إجتناب برتا جائے

ترکِ معاصی:
قبولیت دعا کی ایک شرط یہ ہے کہ گناہوں کو ترک کیا جائے اور نیکیوں کی کثرت ہو کیونکہ اطاعت کرنے والے مطیع و فرمانبردار بندوں کی دعائیں كثرت سے قبول ہوتی ہیں۔

حقوق العباد کی ادائیگی:
دعا کا سب سے اہم ادب بلکہ قبولیت دعا کی اساسی شرط یہ ہے کہ دعا کرنے والا اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرے اور اگر لوگوں میں سے کسی کا حق اس کے ذمہ ہے تو اس حق کو ادا کر دے کیونکہ حقوق العباد ادا نہ کرنے والوں کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔

دعا کرتے ہوئے دل حاضر ہو:
قبولیت دعا کی ایک شرط یہ ہے کہ قبولیت کے یقین کے ساتھ دعا کی جائے اور دعا کرتے ہوئے دل و دماغ حاضر ہوں، غافل اور بے پرواہ دل کی دعا اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا، جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے قبولیت کے مکمل یقین کے ساتھ دعا کرو اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ غافل اور بے پرواہ دل کی کوئی دعا قبول نہیں فرماتا۔ (مستدرک حاکم)
بعض لوگ دعا کرتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھتے ہیں ، ان کی نگاہیں بھٹکتی پھرتی ہیں، دل و دماغ حاضر نہیں رہتے، بدن کی حرکتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کچھ سوچ رہے ہیں اس طرح دعا قبول نہیں ہوتی بلکہ نہایت ادب اور حضور قلب کے ساتھ دعا کرنا چاہیے۔
سیدنا ا بوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جامع ارشاد كه آداب و شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے اگر دعا کی جائے تو یقینا دعا قبول ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ (المؤمن)
تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔

جائز دعا مانگی جائے:
قبولیت دعا کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ جو دعا کی جا رہی ہو وہ جائز ہو، ناجائز دعائیں اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا۔ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ آپ نے فرمایا: بندے کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی ہے جب تک کہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہیں مانگتا۔

دعا میں الله تعالى كي حمد:
قبولیت دعا کی ایک اہم شرط یہ ہے کہ دعا میں سب سے پهلے خوب خوب الله تعالى كي حمد و ثناء بيان كي جائے پهر درود شريف كے بعد دعا مانكي جائے

دعا میں نبی اکرمﷺ پر درود و سلام:
الله تعالى كي حمد وثناء كے بعد نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم پر درود پڑھا جائے اور إسيطرح دعا كے إختتام پر بهي نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم پر درود پڑھا جائے ورنہ دعا زمین و آسمان کے درمیان معلق رہتی ہے، جیسا کہ ترمذی کی روایت میں سیدنا عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں: دعا آسمان و زمین کے درمیان رکی رہتی ہے اس میں سے کچھ بھی اوپر نہیں چڑھتی جب تک کہ تم اپنے نبی صلى الله عليه وآله وسلم پر درود نہ پڑھو۔ (ترمذی)

قبولیت عمل/دعا کی پانچ خاص شرائط:-
امام ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ (م 795ھ) حنابلہ کے ائمہ میں سے ایک مشہور امام ہیں۔ انہوں نے ایک کتاب میں پچاس حدیثیں جمع کیں اور پھر جامع العلوم والحکم کے نام سے اس کی نفیس اور عمدہ شرح لکھی۔ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں اس کی شرح کرتے ہوئے بعض سلف صالحین اور تابعین کے قیمتی اقوال بھی نقل کیے ہیں جن میں ایک بزرگ ابو عبد اللہ النباجی الزاہد رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول بھی نقل کیا كه وہ فرماتے ہیں: پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ اگر وہ پائی جائیں تو کوئی بھی عمل مکمل ہوتا ہے (اور قبول ہوتا ہے)
1- اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس پر صحیح ایمان ۔
2-حق کی معرفت (حق و باطل کے درمیان تمیز کرنا کہ یہ حق ہے اور یہ باطل)
3-عمل خالص اللہ کے لیے کرنا۔
4-سنت کے مطابق عمل کرنا۔
5- کھانا پینا حلا ل رکھنا۔
اگر ان میں سے کوئی ایک چیز بھی ناقص پائی گئی تو وہ عمل اللہ کے ہاں نہیں پہنچتا اس کو تم یوں سمجھو کہ اگر تم نے اللہ کو پہچانا لیکن حق کو نہیں پہچانا تو تمہارا عمل فائدہ مند نہ ہو گا۔ اگر تم نے حق کو پہنچانا لیکن اللہ تعالیٰ کو نہیں پہچانا تب بھی فائدہ نہیں اور اگر تم نے اللہ تعالیٰ کو بھی پہچانا حق کو بھی پہچانا لیکن عمل میں اخلاص نہیں تو تمہیں فائدہ نہیں پہنچے گا اور اگر اللہ تعالیٰ کو بھی پہچانا، حق کو بھی پہچانا اور عمل بھی جذبۂ اخلاص کے ساتھ انجام دیا لیکن اس کا طریقہ سنت کے مطابق نہیں تھا تو بھی یہ عمل قبول نہیں۔ اور اگر چاروں باتیں پائی جائیں لیکن کھانا پینا حلال ذریعہ سے نہ ہو تب بھی اس عمل کا كوئي فائده نهيں
ليكن  اگر تمام آداب وشرائط كي رعايت ركهـ كر دعا كي جائے تو الله رب العزت اس دعا كو ضرور قبول فرماتے هيں چنانچه إیک حدیث مباركه میں ہے کہ:
اللہ تعالی رحیم و کریم ہے، جب بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسے حیا آتی ہے کہ اسے خالی ہاتھ لوٹا دے۔ (ترمذی، ابنِ ماجہ)
بہرحال دعا تو ہر شخص کی قبول ہوتی ہے، اور ہر وقت قبول ہوتی ہے بشرطيكه آداب وشرائط كي رعايت كؤ ساتهـ هو البته قبولیت کی نوعیت کچھ بهی ہو سكتي هے
قبوليت دعا کی مختلف شکلیں هو سكتي هيں تو يهاں إسي كے متعلق مختصراً ذكر كيا جائے گا

دعا قبول ہونے کی مختلف شکلیں:
جيسا كه عرض كيا گيا كه کہ بندے کی ہر دعا اللہ تعالی قبول فرماتے ہیں، مگر قبولیت کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں، کبھی بعینہ وہی چیز عطا کردی جاتی ہے جو اس نے مانگی تھی، کبھی اس سے بہتر چیز عطا کردیتے ہیں، کبھی اس کی برکت سے کسی مصیبت کو ٹال دیتے ہیں، اور کبھی بندے کے لئے اس کی دعا کو آخرت کا ذخیرہ بنا دیتے ہیں، اس لئے اگر کسی وقت آدمی کی منہ مانگی مراد پوری نہ ہو تو دِل توڑ کر نہ بیٹھ جائے، بلکہ یہ یقین رکھے کہ اس کی دعا تو ضرور قبول ہوئی ہے، مگر جو چیز وہ مانگ رہا ہے، وہ شاید علمِ الہی میں اس کیلئے موزوں نہیں، یا ﷲ تعالی نے اس سے بہتر چیز عطا کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے، حدیث مباركه میں آتا ہے کہ:
ﷲ تعالی مومن کو قیامت کے دن بلائیں گے، اور اسے اپنی بارگاہ میں باریابی کا اِذن دیں گے، پھر ارشاد ہوگا کہ: میں نے تجھے مانگنے کا حکم دیا تھا اور قبول کرنے کا وعدہ کیا تھا، کیا تم مجھ سے دعا کیا کرتے تھے؟ بندہ عرض کرے گا: یا اﷲ! میں دعا تو کیا کرتا تھا۔ ارشاد ہوگا کہ: تم نے جتنی دعائیں کی تھیں میں نے سب قبول کیں۔ دیکھو، تم نے فلاں وقت فلاں مصیبت میں دعا کی تھی، اور میں نے وہ مصیبت تم سے ٹال دی تھی، بندہ اقرار کرے گا کہ واقعی یہی ہوا تھا۔ ارشاد ہوگا: وہ تو میں نے تم کو دنیا ہی میں دے دی تھی، اور دیکھو! تم نے فلاں وقت، فلاں مصیبت میں مجھے پکارا تھا، لیکن بظاہر وہ مصیبت نہیں ٹلی تھی، بندہ عرض کرے گا کہ جی ہاں! اے رب! یہی ہوا تھا، ارشاد ہوگا: وہ میں نے تیرے لئے جنت میں ذخیرہ بنا رکھی ہے۔ رسول كريم صلی اﷲ علیہ وآله وسلم نے یوں ارشاد فرمایا ہے:
مومن بندہ اللہ تعالی سے جتنی دعائیں کرتا ہے، اللہ تعالی ایک ایک کی وضاحت فرمائیں گے کہ یا تو اس کا بدلہ دنیا ہی میں جلدی عطا کردیا گیا، یا اسے آخرت میں ذخیرہ بنادیا گیا، دعاؤں کے بدلے میں جو کچھ مؤمن کو آخرت میں دیا جائے گا، اسے دیکھ کر وہ تمنا کرے گا کہ کاش دنیا میں اس کی کوئی بھی دعا قبول نہ ہوئی ہوتی۔ (مستدرک)
احادیث صحیحہ ہی سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دعا قبول ہونے کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں۔ یہاں قبولیت دعا کے ضمن میں سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک بہترین قول ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جسے امام نصر بن محمد سمر قندی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب " تنبیہ الغافلین " میں روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ جس شخص کو پانچ چیزیں عطا کی جائیں تو دوسری پانچ چیزوں سے وہ محروم نہیں کیا جاتا۔ یعنی پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ وہ اگر کسی کو نصیب ہوں تو اس کے بدلے دوسری پانچ چیزیں بھی اس کو ضرور ملیں گی۔ اس سلسلہ میں سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن پاک کی آیات سے دلیل بھی بیان کی ہے فرماتے ہیں: جس شخص کو پانچ چیزیں مل گئیں وہ مزید پانچ سے محروم نہیں رکھا جائے گا۔
(1)جس کو الله تعالى كا شکر كرنے کی توفیق مل جائے وہ الله تعالى كي نعمتوں كي زیادتی سے محروم نہیں کیا جاتا (یعنی شکر کرنے والے کے حق میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمتوں میں اضافہ، زیادتی اور برکت ہوتی رہتی ہے) اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔
(2) جس شخص کو مصيبت پر صبر کرنے کی توفیق مل جائے وہ الله تعالى كي طرف سے اجر و ثواب سے محروم نہیں کیا جاتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے صبر کرنے والوں کو بلاشبہ بے حساب اجر دیا جاتا ہے۔
(3) جس کو هر قسم كے گناهوں سے توبہ کی توفیق ملے وہ رب كريم كي قبولیت سے محروم نہیں ہوتا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔
(4) جس کو استغفار كرنے کی توفیق مل جائے اس کو الله تعالى مغفرت سے محروم نہیں فرماتے ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے تم سب اپنے رب سے مغفرت چاہو بے شک وہ بہت زیادہ مغفرت فرمانے والا ہے۔
(5) اور جس کو دعا کی توفیق ملے وہ الله تعالى كي جانب سے قبولیتِ دعا سے محروم نہیں کیا جاتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔
ایک روایت میں چھٹی چیز بھی یہ بیان کی گئی کہ جس کو الله تعالى كي راسته ميں خرچ کرنے کی توفیق مل جائے اس کو اس کے بدلے سے محروم نہیں کیا جاتا کیونکہ ارشاد باری ہے اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ اس کو (اس کا بدلہ) لوٹائے گا۔
يهاں پر إكرام مسلم كا بيان ختم هوا چاهتا هے - الله تعالى كهنے والے اور پڑهنے والوں كو عمل كي توفيق عطا فرمائے - تحرير كرنے والے كي غلطيوں اور كوتاهيوں كو الله تعالى اپنے فضل وكرم سے معاف فرما ئے اور إس كوشش كو اپني رحمت سے قبول فرماكر عمل كي توفيق عطا فرمائے (آمين) قابل إحترام قارئين سے گذارش هے كه وه إسے زياده سے زياده لوگوں تك پهنچانے كي كوشش كريں - إن شاء الله إس كا آجر الله تعالى سے ضرور ملے گا
الله تعالى كا لاكهـ لاكهـ شكر هے كه اس نے إس كي توفيق عطا فرمائي اور إس تمام تر كاوش كا ثواب اپنے مرحوم والدين - مرحوم بهائي جان اور بهت هي بيارے بيٹے شهيد عبدالرحمن نسيم رحمة الله عليهم تمام رشته داروں - دوست أحباب اور تمام مسلمانوں كو إيصال كرتا هوں- الله تعالى أن كي مغفرت فرمائے- ان پر رحم فرمائے - ان كے لئے آخرت كي تمام منزليں آسان فرمائے اور ان كو جنت الفردوس كے آعلى مقامات عنايت فرمائے -   آمين ثم آمين يا رب العلمين ) 


Share: