تيسرا نمبر : علم وذكر(دوسرا حصه)


دعوت إلى الله اور تبليغى جماعت
(قسط نمبر - 5 )

تيسرا  نمبر : علم وذكر(دوسرا حصه)


ذكر كا بيان


:ذکر کے معنى و مفہوم
ذکر کے لغوی معنی یاد کرنا، بیان كرنا ، چرچا كرنا ، تذکرہ كرنا ، یادآوری، کسی چیز کو محفوظ کر لینا، کسی بات کا دل میں مستحضر کر لینا، حفاظت کرنا۔ وغيره كے هيں . قرآن و حديث ميں جس ذكر كے كثرت سے فضائل بيان كيے گئے هيں اس ذكر سے مراد "ذكر إلهى" هے- ذکر الٰہی کے مفہوم ميں اللہ تعالیٰ كے آوامر ميں الله تعالى كے دهيان كے ساتهـ مشغول رهنا - الله تعالى کو ہر حال میں یاد رکھنا ، اس کا تصور ہر وقت ذہن میں رکھنا اور اس کی مرضی، پسند ناپسند کا خیال رکھنا وغيره شامل ہیں۔
همارے هاں عام طور پر زبان سے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ، تسبیح و تہلیل اور تکبیر کے کلمات کو ادا کرنے کو هي ذکر الٰہی کہا جاتا ہے ۔ اگرچہ زبان پر ان سب کلمات کا جاری رہنا يقيناً ذكر هے اور اپنے اندر بہت افادیت رکھتا ہے ، لیکن ذکر الٰہی كا أصل مفهوم جس سے حقیقی فوائد اور ثمرات حاصل هوں يه هے كه دل کے حضور اور پورے شعور کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے ۔ نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج وغيره ذکر الٰہی کی افضل ترین صورتیں ہیں ۔ غرضیکہ دنیا اور آخرت کی ہر خیر ذکر اللہ میں شامل ہے ۔ ہر وہ کام جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے طریقے کے مطابق انجام دیا جائے ذکر کی تعریف میں آتا ہے ۔ ذکر الٰہی کا اصل مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بنده کا قلبی تعلق پیدا هو جائے کہ بنده کا دل ہر وقت اسی کی طرف متوجہ رہے ۔ دل میں اللہ کی یاد اس درجہ کی ہو اور ہر وقت اس درجہ کی رہے کہ جسے اردو زبان کے محاورے میں ’’ دل میں رچ بس جانا ‘‘ کہتے ہیں ۔ یہ کیفیت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب کہ ہر وقت ، ہر لحظہ ، ہر موڑ، ہر حالت میں اٹھتے بیٹھتے ، کروٹ لیتے، بلکہ کروٹ بدلنے پر اللہ تعالى كے اوامر کو یاد رکھا جائے ۔ اس کی حمد و ثنا کی جائے ، اسی کی تسبیح و تہلیل اور تکبیر کے کلمات ادا کیے جائیں ۔ ہر وقت اس کے گن گائے جائیں ۔ اس کا شکر ادا کیا جائے ۔ رات کی تنہائیوں میں سوتے وقت بھی اور بستر کو چھوڑ کر وضو کر کے دل کی گہرائیوں سے اسے یاد کیا جائے ۔ اس کے آگے قیام کیا جائے ،رکوع و سجود کے بعد دعائیں کی جائیں ، استغفار کیا جائے ، گناہوں پرمعافی مانگی جائے ، بخشش طلب کی جائے اور مناجات کی جائیں ۔
ذكر كا بنيادى مفهوم الله تعالى كا اپنے اندر دهيان پيدا كرنا هے تسبيحات كا پورا كرنا اوراذكار و اوارد كو روزانه مكمل كرنا درآصل ذكر كے أسباب ميں هيں اور إن ميں بهي مطلوب ومقصود الله تعالى كا دهيان هے بلكه تمام أعمال كا مقصد الله تعالى كا دهيان پيدا كرنا هے اگر يه أعمال الله تعالى كے دهيان كے ساتهـ هورهے هيں تو يه ذكر هيں مثلاً تلاوت ذكر هے نماز ذكر هے تسبيح ذكر هے كيونكه إن سب كا مقصد الله تعالى كا دهيان پيدا كرنا هے نماز كو هي لے ليجيے الله تعالى نے قرآن مجيد ميں خود اس كو ذكر كها هے چنانچه ارشاد هے
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي  " 

نماز قائم كرو ميرے ذكر كے لئے "
تو اگر نماز الله تعالى كے دهيان سے هورهي هے تو يه ذكر هے إسي طرح دوسرے تمام أعمال هيں ذكر كا إيك بهت هي آعلى مفهوم يه هے كه مسلمان بنده كي چوبيس گهنٹه كي ذندگي الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقه كے مطابق هو تو يه آعلى ذكر هے حضرت عمر فاروق رضي الله تعالى عنه كے قول كا مفهوم هے كه جو الله تعالى اور رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كي آطاعت كرتا هو وه ذاكر هے تو إنسان چوبيس گهنٹه كي ذندگي ميں هر موڑ پر يه ديكهـے كه إس وقت ميرا الله مجهـ سے كيا چاه رها هے اور إس ميں رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كا طريقه كيا هے - المختصر يه كه الله تعالى كے آوامر كو رسول كريم صلى الله عليه  وآله سلم كے طريقه پر الله تعالى كے دهيان كے ساتهـ پورا كرنا بهترين ذكر هے

:ذكر كے مقاصد
جيسا كه  ذكر كے مفهوم ميں بيان هوچكا كه ذكر كا بنيادى مفهوم ومقصد الله تعالى كا اپنے اندر دهيان پيدا كرنا هے تسبيحات كا پورا كرنا اوراذكار و اوارد كو روزانه مكمل كرنا درآصل ذكر كے أسباب ميں هيں اور إن ميں بهي مطلوب ومقصود الله تعالى كا دهيان هے بلكه تمام أعمال كا مقصد الله تعالى كا دهيان پيدا كرنا هے اگر يه أعمال الله تعالى كے دهيان كے ساتهـ هورهے هيں تو يه ذكر هيں مثلاً تلاوت ذكر هے نماز ذكر هے تسبيح ذكر هے كيونكه إن سب كا مقصد الله تعالى كا دهيان پيدا كرنا هے ذكر إلهى سے يه چاها جا رها هے كه هميں هر وقت الله تعالى ياد رهے كيونكه جب هر وقت الله تعالى ياد رهے گا تو پهر الله تعالى كي نافرماني صادر نهيں هوگي تو اللہ تعالى کے ذکر اور نماز کا بنیادی مقصد اللہ تعالى کو راضی کرنا اور ان کے حکم کی بجا آوری ہے۔ کیفیات کا پیدا ہونا یا نہ ہونا نہ تو مطلوب ہے اور نہ ہی انسان کے اختیار میں ہے۔ اسی طرح رقت کا طاری ہونا خشیت كي ایک اچھی علامت تو ضرور ہے لیکن مقصود و مطلوب نهيں یہ غیر اختیاری امر ہے۔لہٰذا رقت یا کیفیات کو ذكر يا نماز کی قبولیت کا پیمانہ سمجھنا قطعی طور پر غلط ہے۔
اللہ کے ذکر کا مقصد اللہ کو یاد کرکے اسکی رضاجوئی حاصل کرنا اور نافرمانی سے رک جانا ہے۔ جو شخص کیفیات اور لذت کے لئے اللہ کا ذکر کرتا ہے تو وہ ایک طرح سے ذکر کی اصل روح کو چھوڑ بیٹھتا ہے جس سے اجر میں کمی آسکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص ٹرین کے ذریعے کراچی سے لاہور جاتا ہے تو اسکا اصل مقصد لاہور پہنچنا ہے۔ لیکن دوران سفر ارد گرد کے نظاروں سے محظوظ ہوتا اور ہر اسٹیشن پر اتر کر ان مناظر سے لطف اندوز ہوتا ہے جس میں کوئی قباحت نہیں۔لیکن اگر وہ اس لطف میں کھو کر لاہور پہنچنے کا مقصد کو بھول جائے تو ممکن ہے کہ وہ لاہور دیر سے پہنچے یا پہنچ ہی نہ پائے۔ چنانچہ کیفیات کو ذکر کی بائی پراڈکٹ سمجھنا چاہئے ناکہ اصل مقصد۔اسی طرح کشف و کرامات کا تعلق نفس کی مخصوص مشقوں سے ہے اس کا تعلق براہ راست ذکر الٰہی سے نہیں
بندگی کا اظہار بهي ذكر كي مقاصد ميں سے هے ذکر کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ اس ہستی سے کوئی تعلق پایا جاتا ہو۔ زمانه "
أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ" کی یاد انسان کی فطرت میں پیوست ہے جس میں اللہ تعالى نے تمام انسانوں سے اپنے رب ہونے کا اقرار کروایا چنانچہ اسی ربوبیت کو یاد کر تے رہنے کے لئے اور اللہ کی بندگی کا اقرار کرنے کے لئے اللہ کو یاد کرتے رہنا لازمی ہے۔
الله تعالى كي اطاعت بهي ذكر كا إيك مقصد هے ذکر یا یادعام طور پر اس ہستی کا کیا جاتا ہے جو نگاہوں کے سامنے نہ ہو۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا مادی ساتھ ممکن نہیں چنانچہ اللہ تعالى سے تعلق روحانی نوعیت کا ہے۔چنانچہ اس تعلق کے قیام ، بقا اور ارتقا کے لئے اللہ تعالى کو زبان اور افعال دونوں طریقوں سے یاد رکھنا لازم ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ اللہ تعالى کی اطاعت اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی عادت پیدا کرنا ہے۔
دل ميں اللہ تعالى کی عظمت کا إقرار اور زبان سے إسكا اظہار بهي ذكر كا إيك بڑا مقصد هے ذکر کرنے کا ایک اور پہلو تذکره کرنا، چرچا کرنا یا زیادہ سے زیادہ بیان کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور محبت کے اقرار کے طور پر اس کا تذکرہ اور اسکی تسبیح و تحمید اور بڑائی لوگوں میں بیان 
 کرنا ، تنہائیوں میں دہرانا وغیرہ اس میں شامل ہیں۔

:ذكر الٰہی کی اہمیت
قرآن مجيد اور آحاديث مباركه ميں بهت كثرت سے ذكر كي إهميت كو آجاگر کيا گيا هے چنانچه 
قرآن مجید کی سورہ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ ذکر کے بارے میں فرماتا ہے

0يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا * وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا
’’ اے ایمان والو اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو ۔‘

سورہ النساء میں باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلاَةَ فَاذْكُرُواْ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِكُمْ
’’ پس جب تم نماز اد کر چکو تو اللہ کا ذکر کرو ، کھڑے اور بیٹھے اور کروٹوں پر لیٹے ہوئے ۔

 إسي طرح حج كے بارے ميں ارشاد بارى تعالى كا ارشاد هے 
فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا
پھر جب حج کے تمام ارکان پورے کرچکو تو (منیٰ میں) خدا کو یاد کرو۔ جس طرح اپنے باپ دادا کو یاد کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ

إِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ 
  • (جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعر حرام كے پاس ذكر الہى كرو اور اس كا ذكر كرو جيسے كہ اس نے تمہيں ہدايت دى، 
سورہ آلِ عمران میں ایک اور جگہ اللہ تعالى نے مومنین کے بارے میں فرمایا
الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ
’’ وہ لوگ اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے بھی اور بیٹھے بھی اور پہلوئوں پر لیٹے بھی ۔

قرآن شریف میں ذکر کا لفظ عام معنی میں پچاس سے زائد مقامات پر آیا ہے اور ذکر الٰہی کے معنی میں یہ لفظ کئی مقامات پر موجود ہے ۔ اس قدر تکرار سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں ذکر الٰہی کی غیر معمولی اہمیت ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ
وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ
 اللہ کا ذکر سب سے بڑا هے
صحیح ترمذی ؒ شریف میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا :کیا میں تمہارے سب سے بہتر اعمال کے بارے میں نہ بتائوں ؟ وہ اعمال جو تمہارے بادشاہ (اللہ تعالیٰ ) کے ہاں سب سے زیادہ پاکیزہ ہیں اور تمہارے درجات میں سب سے زیادہ بلندی پیدا کرنے والے ہوں اور تمہارے لیے سونے اور چاندی کے خرچ کرنے کے مقابلے میں بہتر ہوں اور اس بات کے مقابلے میں بھی تمہارے لیے بہتر ہوں کہ تمہاری مڈ بھیڑ تمہارے دشمن سے ہو اور تم ان کی گردنوں کو مارو اور وہ تمہاری گردنوں کو ماریں ؟‘‘۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا : ہاں رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم ضرور بتائيے تو آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ وہ اللہ کا ذکر ہے ‘‘۔
ایک اور حدیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ آله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ میں اس کا ہم نشین ہوں جو میرا ذکر کرے ۔‘‘ صحیح مسلم 
حضور اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کا اپنا حال یہ تھا کہ ہر وقت صبح و شام خاص طور پر رات کے آخری نصف کے قریب اللہ تعالیٰ کو نہایت کثرت سے یاد کرتے رہتے تھے ۔ حضور أكرم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ بیوی ، بچوں اور اپنے مالوں کی خبر گیری کرو لیکن ذکر اللہ سے غفلت نہ ہو ، کھیتی باڑی ، تجارت ، لین دین ، شادی بیاہ ، تمام دنیاوی امور کے ساتھ ساتھ زبان پر ذکر ، دل میں اللہ کی یاد اور قیامت کے محاسبہ کا خوف رہے ۔ ‘‘
صحابہ کرام رضوان الله عليهم کی پاکیزہ سیرت پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا حال یہ تھا کہ وہ کھیتی باڑی کرتے تھے ، کھجوروں کے باغوں کی دیکھ بھال کرتے تھے ، انہیں پانی دیتے تھے ، تجارت کرتے تھے ، خدمت خلق کے کئی کام کرتے تھے ، اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی کرتے تھے ، محنت و مشقت کی زندگی گزارتے تھے ، میدان جنگ میں جہا د کرتے تھے ، کفار کے مقابلے میں حق کو غالب کرنے کے لیے لڑتے تھے ، جان کی بازی لگادیتے تھے ، غرضیکہ جو کام بھی کرتے تھے ، ا س میں مشغول رہتے ہوئے بھی ذکر الٰہی سے کبھی غافل نہیں ہوتے تھے ۔
قرآنی آیات ، احادیث نبویہ صلى الله عليه وآله وسلم اور صحابہ کرام رضوان الله عليهم کے حالات و واقعات سے ہمیں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ ذکر الٰہی کے لیے کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہے ، کوئی خاص حالت و كيفيت اور کوئی حد متعین نہیں ہے ۔ ہر وقت،ہر آن اور ہر حالت میں اللہ کا ذکر کرتے رہنا چاہیے ۔ دعوت و تبلیغ کے کام میں مصروف داعیوں کے لیے اور جہاد و قتال فی سبیل اللہ میں حصہ لینے والے مجاہدین کے لیے ذکر الٰہی کی اہمیت و افادیت کسی دوسرے عابد و زاہد اور صوفی سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہے ۔ دعوت اور جہاد کے لیے صبر و ثبات کی صفات اپنانا ضروری ہوتا ہے ۔ ان صفات کو پیدا کرنے کے لیے ذکر الٰہی کا حکم دیا گیا ہے ۔
سورہ الانفال میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
0يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِذَا لَقِيْتُـمْ فِئَةً فَاثْبُـتُـوْا وَاذْكُرُوا اللّـٰهَ كَثِيْـرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
’’ اے لوگو ! جو ایمان لائے ، جب سامنا کرو تم کسی مخالف فوج کا تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو جائو ۔‘‘
حافظ ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں کہ  اسی صبر و ثبات اور ذکر و اطاعت کی وجہ سے صحابہ کرام رضوان الله عليهم کو شجاعت اور دلیری و بہادری میں وہ مقام ملا تھا جو ان سے پہلے کسی کو نصیب نہیں ہوا تھا اور نہ ان کے بعد کسی کو مل سکے گا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت اور ان کی اطاعت کی وجہ سے تھوڑی سی مدت میں لوگوں کے دل بھی فتح کر لیے تھے اور شرق و غرب کے بہت سے ممالک بھی فتح کرلیے تھے حالانکہ ان کی تعداد دشمنوں کی فوجوں سے بہت کم تھی ۔ 
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا ’’ دشمن سے بھڑنے کی آرزو نہ کرو اور اللہ سے خیرو عافیت کا سوال کرو لیکن جب تمہارا مقابلہ اور سامنا دشمن سے ہو جائے تو پھر ثابت قدم رہو ، اللہ کو یاد کرو ، اگر وہ تم پرحملہ آور ہو جائیں اور شور مچائیں تو تم خاموش رہو اور مقابلہ کرو ۔‘‘ایک دوسری حدیث قدسی میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ میرا کامل بندہ وہ ہے جو مجھے اپنے مدمقابل دشمنوں سے لڑتے وقت بھی یاد کرتا ہو ۔‘‘ ان احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ مجاہدین اسلام کو لڑائی کے وقت بھی اللہ کا ذکر کرتے رہنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
صحیح احادیث مباركه میں صبح و شام کے بہت سے اذکار بیان کیے گئے ہیں ان کو حدیث کی کتابوں سے نکال کر بہت مفید مجموعے مرتب کر دیے گئے ہیں ان کو حاصل کر کے مسنون اذکار کو یاد کر لیناچاہیے اور صبح و شام کا معمول بنا لیناچاہیے ۔
خلاصۂ کلام يه كه ذكر كے لئے كوئى خاص وقت يا دن مقرر نهيں هے اور نه هي يه ذكر كا مفهوم و مقصود هے كه هفته ميں إيك دن يا كم و بيش كچهـ دير كے لئے مجلس لگا كر ذكر كا إهتمام كرليا اور بافي هفته كے اوقات ميں چهٹي جيسا كه وطن عزيز ميں جاهل صوفيا اورجاهل پيروں ميں إس كا عام رواج هے بلكه الله كا ذكر هر وقت اورهر آن كرنا چاهيے اور اپنے دنیاوی کاموں مثلاً تجارت ، کھیتی باڑی یا ملازمت کرتے ہوئے بھی اور دعوت دین ، خدمت خلق کے کاموں ، اقامت دین کی جدوجہد اور جہاد فی سبیل اللہ میں مشغولیت کے دوران بھی ذکر الٰہی سے غفلت نہیں برتنی چاہیے بلکہ ہر وقت اور ہر حالت میں صبح و شام اور دن رات ذکر الٰہی کا اہتمام کرتے رہنا چاہیے ۔ ذکر الٰہی کی افادیت، اس کے ثمرات اور اس کی برکات بے انتہا ہیں اور اللہ کا ذکر ہی سب سے بڑا ، ارفع و اعلیٰ ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں اور جدوجہد کے ہر میدان میں آدمی کے لیے مفید ، ممد اور معاون ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر وقت اپنے ذکر کی توفیق بخشے ، اپنے ذکر کے سلسلے میں ہماری مدد کرے ، اپنا شکر اد ا کرنے کے لیے بھی ہماری مدد و رہنمائی فرمائے اور ہماری زبان کو ہمیشہ اپنے ذکر خیر سے تر رکھے ۔ آمین ۔

:ذكر كي فضيلت
ذکر ﷲ كي فضيلت کے متعلق قرآن مجيد ميں بهت مقامات پر الله تعالى كے أرشادات موجود هيں اور ذكر كو سب سے بڑى چيز كها گيا هے چنانچه ارشاد خداوندي هے ( وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ) الله تعالى كا ذكر سب سے بڑا هے يه بات تو أظهر من الشمش هے كه الله تعالى سب سے بڑے هيں تو يقيناً الله تعالى كا ذكر بهي تمام أذكار سے بڑا هونا لازمي هے قرآن مجيد كي جن آيات ميں ذكر كي فضيلت بيان كي گئى هے ان ميں سے چند آيات مباركه كا ذكر كيا جارها هے ٰ 

0فاذْکُرُوْنِیْ أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَ لَاْ تکْفُرُوْنَ
ترجمہ: تم مجھے یاد کرو میں تمھیں یاد کروں گا اور تم میرا شکر کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔

0 يایُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اذْکُرُوْا اللّٰہَ ذِکْراً کَثِیْراً 
ترجمہ: اے ایمان والو! اﷲ تعالیٰ کا بہت زیادہ ذکر کیا کرو۔

0 وَاذْکُرِاسْمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا 
ترجمہ: تو اپنے پرودگار کے نام کا ذکر کرواور ہر طرف سے بے تعلق ہو کر اُسی کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔

 إنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِيْنَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِيْنَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِـرِيْنَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِيْنَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّآئِمِيْنَ وَالصَّآئِمَاتِ وَالْحَافِظِيْنَ فُرُوْجَهُـمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِـرِيْنَ اللّـٰهَ كَثِيْـرًا وَّالذَّاكِـرَاتِ اَعَدَّ اللّـٰهُ لَـهُـمْ مَّغْفِرَةً وَّّاَجْرًا 
0عَظِيْمًا 
بے شک اللہ نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں اور ایمان دار مردوں اور ایماندار عورتوں اور فرمانبردار مردوں اور فرمانبردارعورتوں اور سچے مردوں اور سچی عورتوں اور صبر کرنے والے مردوں اور صبر کرنے والی عورتوں اور عاجزی کرنے والے مردوں اور عاجزی کرنے والی عورتوں اور خیرات کرنے والے مردوں اور خیرات کرنے والی عورتوں اور روزہ دار مردوں اور روزدار عورتوں اور پاک دامن مردوں اور پاک دامن عورتوں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے مردوں اور بہت یاد کرنے والی عورتوں کے لیے بخشش اور بڑا اجر تیار کیا ہے

 اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ اٰيٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰي رَبِّهِمْ 
0يَتَوَكَّلُوْنَ
مومن تو وہ ہیں کہ جب خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب انہیں اسکی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں 

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ ۭ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ 
(یعنی) جو لوگ ایمان لاتے اور جن کے دل یادِ خدا سے آرام پاتے ہیں (انکو) اور سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں۔
ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرنا بہت فضیلت والا عمل ہے۔ ایک انسان کے لیے اس سے بڑھ کر فرحت و انبساط اور فضيلت کا مقام اور کیا ہو گا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ اس کو یاد کریں۔ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم مجھے یاد کرو میں تمھیں یاد کروں گا اور اﷲ تعالیٰ نے ذکرﷲ کو ہی مؤمن کے دلوں کا اطمینان و سکون قرار دیا ہے۔ ذکر کرنے والوں کے لیے اﷲ تعالیٰ نے مغفرت و بخشش اور اجرِ عظیم کا اعلان فرمایا ہے۔
اﷲ تعالیٰ کے نامِ نامی کا مبارک اثر دنیا و ما فیہا پر کیا ہوتا ہے اس کا اندازہ صحيح مسلم كي ایک حدیث مبارکہ سے ہوتا ہے
عن أنس أن رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قال: لَاْ تَقُوْمُ السَّاعۃُ حَتی لَاْ یُقالُ فِی الْأَرْضِ اللّٰہ اللّٰہ۔
ترجمہ: حضرت انس رضی اﷲ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:
" قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک زمین میں ﷲ ﷲ کہا جاتا رہے گا۔"

:ذكر كى فضيلت كے بارے آحاديث مباركه
ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم احکام تو شریعت کے بہت سے ہیں مجھے ایک چیز کوئی ایسی بتا دیجئے جس کو میں اپنا دستور اور اپنا معمول بنالوں حضور صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشادفرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تو ہر وقت 
رطب اللسان رہے۔(رواہ احمد والترمذي

حضوراقدس صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ارشادفرمایاـ:کیا میں تم کو ایسی چیز نہ بتائوں جو تمام اعمال میں بہترین چیز ہے اور تمہارے مالک کے نزدیک سب سے زیاد ہ پاکیزہ اور تمہارے درجوں کو بہت زیادہ بلند کرنے والی اور سونے چاندی کو (اللہ تعالیٰ کے راستے) میں خرچ کرنے سے بھی زیادہ بہتر اور جہاد (جب کہ فرض نہ ہو )تم دشمنوں کو قتل کرو وہ تم کو قتل کریں اس سے بھی بڑھی ہوئی، صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا ضروربتادیں! آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا : وہ اللہ تعالیٰ کا ذکرہے۔(احمد وترمذی)

حضور صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ ذکر کرنے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے کہ ذکرکرنے والا زندہ ہے اور ذکر نہ کرنے والا مردہ ہے- (بخاری ومسلم)
حضور صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر ایک شخص کے پاس بہت سے روپے ہوں اور وہ ان کو تقسیم کررہا ہو اور دوسرا شخص اللہ تعالیٰ کے ذکرمیں مشغول ہو تو ذکر کرنے والا افضل ہے۔ (رواہ الطبرانی)

حضور صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ جنت میں جانے کے بعد اہل جنت کو دنیا کی کسی بھی چیز کا قلق وافسوس نہیں ہوگا، بجز اس گھڑی کے جو دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بغیرگزر گئی ہو۔ (رواہ البیہقی والطبرانی )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ :’’آسمان والے ان گھروں کو جن میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے ایسا چمک دار دیکھتے ہیں جیسا کہ زمین والے ستاروں کو چمک دار دیکھتے ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ جو تم میں سے عاجز ہو راتوں کو محنت کرنے سے اور بخل کی وجہ سے اس سے مال بھی نہ خرچ کیا جاتا ہو (یعنی نفلی صدقات)اور بزدلی کی وجہ سے جہاد میں بھی شرکت نہ کرسکتا ہو اس کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کیا کرے۔(الترغیب والترھیب)

حضوراقدس صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ایسی کثرت سے کیا کرو کہ لوگ تمہیں مجنون کہنے لگیں۔(رواہ احمد)

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ عقلمند لوگ کہاں ہیں؟ لوگ پوچھیں گے کہ عقلمندوں سے کون مراد ہیں ؟ جواب ملے گا وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہوئے (یعنی ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے) اور آسمانوں اور زمینوں کے پیدا ہونے میں غور کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یااللہ!آپ نے یہ سب بے فائدہ تو پیدا کیا نہیں ،ہم آپ کی تسبیح کرتے ہیں ، آپ ہم کو جہنم کے عذاب سے بچا لیجئے! اس کے بعد ان لوگوں کے لئے ایک جھنڈا بنایا جائے گا جس کے پیچھے یہ سب جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (الترغیب والترھیب)
حضوراقدس صلی اللہ علیہ وآله وسلم کاارشاد ہے کہ تمام اذکارمیں افضل لاالہ الا اللہ ہے اور تمام دعاؤں میں افضل الحمدللہ ہے۔(مشکوٰۃ ،ترمذی)

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے نقل کرتے ہیں ’’جو شخص اخلاص کے ساتھ لا الہ الا اللہ (کلمہ طیبہ)کہے وہ جنت میں داخل ہوگا۔ کسی نے پوچھا کہ کلمہ کے اخلاص (کی علامت )کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ کلمہ حرام کاموں سے اس کوروک دے۔ (طبرانی)

حضوراقدس صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا ارشادہے کہ کوئی بندہ ایسا نہیں جو لا الہ الا اللہ کہے اور اس کے لئے آسمانوں کے دروازے نہ کھل جائیں یہاں تک کہ کلمہ سیدھا عرش تک پہنچتا ہے، بشرطیکہ کبیرہ گناہ سے بچتا رہے۔(مشکوٰۃ)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے منبہات مین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے کہ اندھیرے پانچ ہیں اور پانچ ہی ان کے چراغ ہیں
:دنیا کی محبت اندھیرا ہے جس کا چراغ تقوی ہے اور گناہ اندھیرا ہے جس کا چراغ توبہ ہے اور قبر اندھیرا ہے جس کا چراغ لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ ہے اور آخرت اندھیرا ہے جس کا چراغ نیک عمل ہے اور پل صراط اندھیرا ہے جس کا چراغ یقین ہے۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنی گھریلو مشقت اور تکالیف کا ذکر کرکے ایک خادم طلب کیا حضور صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا کہ خادم دینے میں بدرکے یتیم تم سے مقدم ہیں، میں تمہیں خادم سے بھی بہتر چیز بتائوں ؟ ہر نماز کے بعد یہ تینوں کلمے یعنی سبحان اللہ ،الحمدللہ ،اللہ اکبر ،۳۳،۳۳ مرتبہ اور ایک مرتبہ لاالہ الاّاللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمدوھوعلیٰ کل شی ء قدیر پڑھ لیا کرو ،یہ خادم 
سے بہتر ہے۔

:حدیثِ قدسي
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالى عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:
بے شک اﷲ تعالیٰ کے کچھ فرشتے زمین میں ذکر کرنے والوں کو ذکر کی جگہوں پر تلاش کرنے کے لیے سیر و سیاحت کرتے ہیں اور جب وہ کسی قوم کو اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہوئے پاتے ہیں تو ایک دوسرے کو پکارتے ہیں کہ اپنے مقصد اور ضرورت کو پہنچو۔ فرمایا: پھر وہ ان کو اپنے پروں سے آسمان تک گھیر لیتے ہیں۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآله وسلم نے فرمایا:ان کا رب ان (فرشتوں) سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہتر جانتا ہے، میرے بندے کیا کہتے ہیں؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ وہ تیری تسبیح اور تکبیر بیان کرتے ہیں اور تیری حمد و تمجید بیان کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: کیا انھوں نے مجھے دیکھا ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں: نہیں، انھوں نے آپ کو نہیں دیکھا۔ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: اگر وہ مجھے دیکھ لیں تو ان کی کیا حالت ہو گی؟ وہ جواب دیتے ہیں اگر وہ آپ کو دیکھ لیں تو پھر آپ کی بہت زیاده عبادت کریں اور آپ کی بہت زیادہ بزرگی، تعریف اور تسبیح بیان کریں۔
رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: ﷲ تعالیٰ پوچھتے ہیں وہ مجھ سے کس چیز کا سوال کرتے ہیں؟ فرشتے جواب دیتے ہیں: وہ آپ سے جنت کا سوال کرتے ہیں۔ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: کیا انھوں نے جنت دیکھی ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں : نہیں، ﷲ کی قسم! ہمارے رب! انھوں نے جنت نہیں دیکھی۔ فرمایا: اگر وہ جنت دیکھ لیں تو ان کی کیا حالت ہو گی؟ فرشتے کہتے ہیں: اگر وہ جنت دیکھ لیتے تو بہت زیادہ اس کی حرص رکھتے اور اس کی تلاش میں زیادہ کوشش کرتے اور بہت زیادہ رغبت رکھتے۔
الله تعالیٰ پوچھتے ہیں وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں؟ وہ جواب دیتے ہیں: آگ سے پناہ مانگتے ہیں۔ ﷲ تعالیٰ پوچھتے ہیں کیا انھوں نے جہنم کی آگ دیکھی ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: نہیں، ہمارے رب ﷲ کی قسم! انھوں نے اسے نہیں دیکھا۔ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: اگر وہ اسے دیکھ لیں تو ان کی کیا حالت ہو گی؟ وہ کہتے ہیں اگر وہ اسے دیکھ لیں تو اس سے بہت زیادہ راہِ فرار اختیار کریں اور بہت زیادہ ڈریں۔ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ یقیناً میں نے انھیں بخش دیا ہے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: ان فرشتوں میں سے ایک فرشتہ عرض کرتا ہے: فلاں شخص ان میں سے نہیں، وہ تو کسی ضرورت و حاجت کے تحت آیا تھا۔ ﷲ تعالیٰ جواب دیتے ہیں: یہ ایسے جانشین اور اصحاب مجلس ہیں کہ ان کے ساتھ بیٹھنے والا بدبخت و بے نصیب نہیں رہتا۔
(صحیح بخاری، صحیح مسلم - ترمذی)

:فائدہ
اس حدیث مبارکہ میں ﷲ تعالیٰ کے ذکر کی بے مثال فضیلت بیان ہوئی ہے اور معلوم ہوا کہ اہلِ ذکر کی مجلس میں بیٹھنا بھی باعث اجر و ثواب ہے، اُن کے ساتھ نیت کے بغیر بھی بیٹھنے والا بدبخت اور بے نصیب نہیں رہتا۔

اسی طرح فرمانِ نبوی صلى الله عليه وآله وسلم ہے کہ تیری زبان ہمیشہ اﷲ کے ذکر سے تر رہے۔ (ترمذي

رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وآله وسلم نے ذکر کرنے والے اور ذکر نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ انسان کے ساتھ دی ہے: ’’اس شخص کی مثال جو اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے اور جو اپنے رب کا ذکر نہیں کرتا ایسے ہے جیسے زندہ اور مردہ ‘‘۔ (مسلم)

نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کہیں دینی اجتماع اور مجلس ہو تو اس میں ضرور شرکت کرنی چاہیے، کیونکہ ایسی مجالس میں بیٹھنے والوں کو اﷲ تعالیٰ کے مقرب فرشتوں نے گھیر رکھا ہوتا ہے اور اﷲ تعالیٰ مجلس میں شریک لوگوں کو فرشتوں كو گواه بنا كر اپنی مغفرت كا إعلان فرماتے ہیں۔

ذكر كا حلقه مسجد نبوي صلى الله عليه وآله وسلم كے أعمال ميں سے هے الله تعالى كي خاص رحمت (سكينه) إن ذكر كرنيوالون پر نازل هوتي هے اور جهاں پر الله تعالى كا ذكر هورها هو وه مقام آسمان والوں كو إسے چمكتا هوا نظر آتا هے جيسے زمين والوں كو ستارے چمكتے هوئے نظر آتے هيں
یہ بات یاد رہے کہ ذکر سے مراد ﷲ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کی یاد داری و مذاکرے، ان کے اسمِ ذاتی کو پکارنے کے ساتھ قرآن و حدیث میں مذکور وہ تمام مسنون دعائیں و اذکار ہیں جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآله وسلم و اصحابِ رسول علیہم الرضوان اور اہلِ حق نے سکھائے ہیں۔
کچھ کم علم اور کج بحثی کے شوقین ایسے بھی ہیں جو اپنی کوتاہی معلومات کی وجہ سے ذکر ﷲ کو معاذ ﷲ بدعت اور ذاکرین کو بدعتی سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ ﷲ کو یاد کرنے اور راضی کرنے والے اذکار و اعمال ہیں اور ایسی مجالس میں شرکت اوپر مذکور بشارتوں کے حصول کا ذریعہ ہے۔

البته يه بهي إيك تلخ حقيقت اپني جگه پر موجود هے كه بہت سے سادہ لوح مسلماں إيسے بهي هيں جو نام نہاد صوفيا اور پیروں کو اہل ﷲ اور ولی ﷲ سمجھتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ کتاب ﷲ، رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآله وسلم، صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم اور اہلِ حق سے کوسوں دور ہیں۔ ان کے متبعین انھی کے خود ساختہ، گھڑے ہوئے ذکر و اذکار مثلاً پیروں کے نام جپنا، خلاف سنت ذكر كرنا - دھمال ڈالنا، اچھلنا کودنا، تالياں پيٹنا - مختلف آوازين نكالنا - مختلف إيكشن دكهلانا - وغیرہ وغيره کو ذکر اﷲ اور نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ يه جاهل صوفي اور پير خود تو گمراه هے هي هيں ليكن دوسرے ساده لوح مسلمانوں كو بهي گمراهي ميں ڈالنے كا كام زور و شور سے كر رهے هيں درآصل إن كے پيش نظر إن كے كچهـ دنياوى مقاصد هيں جو وه إن ساده لوگوں سے پورے كرتے هں ورنه دين سے إنكا دور كا بهي تعلق نهيں هوتا سو ضرورت إس أمر كي هے كه ایسے ایمان دشمن، جاہل صوفيا اور پیروں، کم علم اور کج بحث لوگوں کے شر سے خود بھی بچیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کو بھی بچائیں۔إن ساده لوح مسلمانون كو بتايا جائے كه يه بهروپيے بزرگ تو كيا شايد مسلمان كهلانے كے بهي حقدار نهيں هيں لهذا إن سے دهوكه نه كهائيں
حکمِ خداوندی بھی یہی ہے کہ:
وَتَعَا وَنُوْا عَلَی الْبَرِّ وَالتَّقْوٰی وَلَا تَعَا وَنُوْا عَلَی الْاِ ثْمِ وَ الْعُدْ وَانِ وَاتَّقُوااللّٰہَ 
اِنَّ اللّٰہَ شَدیْدُ الْعِقَابِ0۔المائدہ
ترجمہ: اور (دیکھو) نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو۔ اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے۔
الله تعالى سے هميشه يه دعا مانگتے رهنا چاهيے كه :
اے ﷲ! ہمیں سیدھے راستے پر چلا اور ہمیں اس جماعت سے وابستہ رکھ جو حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وآله وسلم اور اُن کے اصحاب رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے راستے پر ہو۔ (آمين ثم آمين
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا ارشاد گرامی ہے دل دو چیزوں غفلت اور گناہ سے زنگ پکڑتا ہے اور دو چیزوں سے ہی زنگ دور کیا جا سکتا اور دل کو روشن کیا جا سکتا ہے ۔ استغفار اور ذکر الٰہی ۔

حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالى عنہ کا قول ہے : ” ہر چیز کو چمکانے کیلئے کوئی نہ کوئی چیز ہوتی ہے لیکن دلوں کو ذکر الٰہی سے ہی چمکایا جا سکتا ہے ۔
کہ ذکر مومن کی جنت ہے جنتی محض دنیا کی جنت میں داخل نہیں ہو گا بلکہ اخروی جنت میں بھی داخل ہو گا- حضرت مولانا قاسم نانوتوي رحمة الله عليه ایام اسیری اور قید و بند کے دنوں میں فرمایا کرتے تھے کہ دشمن میرا کیا بگاڑیں گے ؟ میری جنت تو میرے سینے میں ہے جہاں جاؤں ساتھ ہے ۔ قید و بند میری خلوت ہے قتل میرے لیے شہادت ہے اور جلاوطنی میری سیاحت ہے ۔ ایام اسیری میں سجدہ کے اندر کثرت سے یہ دعا فرمایا کرتے تھے ۔
((  اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ))
” الٰہی اپنے ذکر و شکر اور حسن عبادت پر میری مدد فرما ۔ “

محبوس وہ نہیں جسے قید کر دیا جائے ۔ بلکہ محبوس وہ ہے جس کا دل اپنے رب سے رک جائے ۔ اسیر وہ نہیں جو گرفتار ہو جائے بلکہ اسیر وہ ہے جو خواہشات کا اسیر ہو جائے ۔ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے مکہ شریف کی طرف سفر کرتے ہوئے جمدان پہاڑ سے گزرتے ہوئے ارشاد فرمایا ۔
” مغردون سبقت لے گئے آپ سے پوچھا گیا اللہ کے رسول مغردون کون لوگ ہیں ؟ فرمایا کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں ۔ “ ( صحیح مسلم 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا : ” ذکر الٰہی کے لیے کوئی قوم جب اور جہاں بیٹھتی ہے تو ملائکہ ان پر گھیرا ڈال لیتے ہیں اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا اپنی مجلس میں تذکرہ فرماتے ہیں ۔ ( مسلم 


 صحیحین كي ايك روایت  میں ہے جسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے روایت کیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ظن کے مطابق اس سے معاملہ کرتا ہوں جب مجھے یاد کرتا ہے میں علم کے لحاظ سے اس کے پاس ہوتا ہوں اگر مجھے دل میں یاد کرے تو میں دل میں اسے یاد کرتا ہوں مجلس میں یاد کرے تو میں اس سے بہتر مجلس میں یاد کرتا ہوں ۔ میری طرف بالشت آئے تو میں ہاتھ برابر آتا ہوں ۔ ہاتھ بھر آئے تو میں دو ہاتھ برابر قریب آتا ہوں چل کر آئے تو میں دوڑ کر آتا ہوں ۔

ترمذی شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا 
اِذَا مَرَرْتُمْ بِرِیَاضِ الْجَنَّۃِ فَارْتَعُوْا قَالُوْا وَمَا رِیَاضُ الْجَنَّۃِ قَالَ حَلَقُ الذِکْرِ
” جب تم جنت کے باغات سے گزرو تو وہاں سے کچھ کھایا کرو ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے استفسار کیا جنت کے کونسے سے باغات ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا ذکر الٰہی کے حلقے ۔

ذکروں میں وہ ذکر افضل ہے جو صرف تسبیح پر ہی نہ رہے بلکہ مجاہد افضل ہے جو مجاہد ہی نہ بنا پھرے بلکہ ذکر الٰہی کا خاص خیال رکھے ۔
قرآن حکیم میں ارشاد خداوندی ہے 
یاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنوا اِذَا لَقِیتُم فِئَۃً فَاثبُتُوا وَاذکُرُوا اللّٰہَ کَثِیرًا لَّعَلَّکُم تُفلِحُونَ0 (الانفال 
” اے ایمان والو ! جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑ جاؤ تو ثابت قدم رہو اور بکثرت اللہ کو یاد کرو تا کہ تمہیں کامیابی حاصل ہو ۔ “

ذکر کثیر کے متعلق متفرق مقامات پر اللہ کریم نے ذکر فرمایا ہے 
وَاذکُرنَ مَا یُتلٰی فِی بُیُوتِکُنَّ مِن اٰیٰتِ اللّٰہِ وَالحِکمَۃِ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ لَطِیفًا خَبِیرًا 0(الاحزاب
” اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جو احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو یقینا اللہ تعالیٰ لطف کرنے والا خبردار ہے ۔ “
مزید ارشاد فرمایا 
(( وَالذَّاکِرِینَ اللّٰہَ کَثِیرًا وَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُم مَّغفِرَۃً وَّاَجرًا عَظِیمًا 0 ( الاحزاب 
” بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں ان ( سب کے ) لیے اللہ تعالیٰ نے  وسیع مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ۔ 

امام بیہقی رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالى عنہا سے روایت کی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا : ” انسان پر جو گھڑی خالی گزری وہی قیامت کو حسرت کا موجب ہوگی ۔ 

امام بیہقی رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالى عنہما سے مرفوعا حدیث ذکر فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم فرمایا کرتے تھے : ہر شئے کیلئے صیقل ہے دلوں کی صیقل ذکر الٰہی ہے ۔ عذاب الٰہی سے بچانے کیلئے انسان کیلئے ذکر الٰہی سے زیادہ کوئی چیز بہتر نہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا جہاد فی سبیل اللہ سے بھی ؟ فرمایا خواہ تلوار مارتے مارتے خود ہی شہید و پرزہ پرزہ کیوں نہ ہو جائے ۔

ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے پاس جانے کا اتفاق ہوا آپ نے نماز فجر ادا کی پھر وہیں بیٹھ گئے تقریبا دوپہر تک اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہے ذکر سے فارغ ہو کر میری طرف التفاف فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں یہ تو میرا ناشتہ ہے اگر یہ ناشتہ نہ کروں تو یقینا میری قوت سلب ہو جائے ۔ ( ذکر الٰہی حافظ ابن القیم 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا : ” ہیبت و جلال الٰہی سے جو تم اس کی تہلیل و تکبیر اور تحمید کرتے ہو وہ اللہ کے عرش کے گرد ونواح گھومنے لگ جاتا ہے اور شہد کی مکھیوں کی طرح آواز کرتی ہیں اور اپنے فاعل کو یاد کرتی ہیں کیا تمہیں پسند نہیں کہ تمہیں بھی کوئی چیز عرش الٰہی کے پاس یاد کرے اور تمہارا تذکرہ کرے ؟ ( مسند امام احمد 

ذکر الٰہی سے اللہ جل شانہ ذاکر کیلئے جنت میں درخت لگا دیتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالى عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا : ” معراج کی رات ابراہیم علیہ السلام سے میری ملاقات ہوئی تو فرمانے لگے اے محمد میری طرف سے اپنی امت کو سلام دینا اور کہنا جنت کی زمین بھی نہایت اعلیٰ ہے اور اس کا پانی بھی میٹھا ہے اور بے نمکین ہے ۔ مگر وہ صاف چٹیل میدان اور اس کے پودے ہیں 
سُبْحَانَ اللَّهِ ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ، اللَّهُ أَكْبَرُ ( ترمذی 
ذکر الٰہی سے جو انعامات حاصل ہوتے ہیں وہ دیگر اعمال سے نہیں ہوتے چنانچہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا ” جو شخص روزانہ سو مرتبہ ”  لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ، وَھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَيْ ءٍ قَدِیْرٌ۔  “ پڑھے اسے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے ۔ سو نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھ دی جاتی ہیں اور صبح سے شام تک وہ شیطان کے شر سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے اعمال سے بڑھ کر کسی کا عمل افضل نہیں ہوتا الا یہ کہ اس سے بڑھ کر کوئی عمل کرے ۔ اور جو شخص دن میں سو مرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ کہے اس کے تمام گناہ خواہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں معاف ہو جاتے ہیں ۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : افضل ذکر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ہے اور افضل دعا الحمد للہ ہے ۔ ( ابن ماجہ )
کلمہ توحید کا ورد تمام اذکار سے بہتر ہے اور الحمد للہ کا ورد تمام دعاؤ ں سے بہتر ہے اس لیے کہ یہ دونوں کلمے اللہ تعالیٰ کی توحید اور تحمید پر مشتمل ہیں ۔کلمہ سب سے أفضل ذكر هے جيسا كه حديث مباركه ميں هے
٭ افضل الذکر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ٭
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو قوم اللہ کا ذکر کرتی ہے تو فرشتے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر سکونت نازل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ( بطور فخر ) ان کا تذکرہ اپنے فرشتوں سے کرتا ہے جو اس کے پاس ہوتے ہیں ۔ ( مسلم کتاب الذکر والدعاء 

۔ ذکر الٰہی شیطان کو ذلیل و رسوا کر دیتا ہے ، ذکر الٰہی سے اللہ راضی ہو جاتا ہے ، ذکر الٰہی غموں اور پریشانیوں کا علاج ہے ، ذکر الٰہی سے دل میں مسرت اور خوشی پیدا ہوتی ہے ، ذکر الٰہی سے بدن کو تقویت ملتی ہے ، ذکر الٰہی سے انابت ( رجوع الی اللہ ) حاصل ہوتی ہے ، ذکر الٰہی سے تقرب الٰہی حاصل ہوتا ہے ، ذکر الٰہی سے معرفت کے دروازے کھل جاتے ہیں ، ذکر الٰہی سے دل میں اللہ تعالیٰ کی معرفت کے ساتھ ساتھ ہیبت اور عظمت و توقیر و جلال کا سکہ بیٹھتا ہے ، ذکر الٰہی سے اللہ عزوجل آسمانوں میں ذاکر کا تذکرہ کرتے ہیں ، ذکر الٰہی سے دل کو زندگی اور تازگی نصیب ہوتی ہے ، ذکر الٰہی سے دل کا زنگ اتر جاتا ہے ، ذکر الٰہی سے اللہ تعالیٰ کا جن کلمات سے ذکر کرتا ہے وہی اذکار مصائب و آلام اور تکلیف کے وقت اس کا ذکر کرنے لگتے ہیں ۔
ذکر الٰہی سے اللہ تنگدستیاں دور فرما دیتا ہے ، ذکر الٰہی سے دل کو قرار اور اطمینان نصیب ہوتا ہے ، ذکر الٰہی سے انسان لغویات سے محفوظ رہتا ہے ، ذکر الٰہی کی مجالس فرشتوں کی مجلسیں ہوتی ہیں ، ذکر الٰہی سے ذاکر نیک اور سعید ہو جاتا ہے ، ذکر الٰہی کی وجہ سے انسان قیامت کے دن حسرت سے مامون رہے گا ، ذاکر کو ذکر الٰہی کی برکت سے وہ نعمتیں مل جاتی ہیں جو مانگ کر لینے سے بھی نہیں ملتیں ، ذکر الٰہی تمام تر عبادات سے آسان اور افضل ہے ، ذکر الٰہی سے جنت میں درخت لگتے ہیں ، ذکر الٰہی سے دنیا میں بھی نور قبر میں بھی نور ، آخرت میں بھی نور حاصل ہو گا ۔ ذکر الٰہی سے دل بیدار رہتا ہے ، ذکر الٰہی قرب خداوندی اور معیشت الٰہی کا ذریعہ ہے ، ذکر الٰہی صدقہ و جہاد سے افضل ہے ، ذکر راس الشکر ہے ، ذکر الٰہی سے دل کی قساوت نرمی میں تبدیل ہو جاتی ہے ، ذکر الٰہی دل کی دوا اور قلب کی شفا ہے ، ذکر الٰہی محبت الٰہی کا حصول ہے ، ذکر الٰہی ہر قسم کے شکر سے اعلیٰ ترین شکر ہے جو مزید نعمت کا باعث ہے ، ذکر الٰہی اللہ کی رحمتوں اور فرشتوں کی دعاؤ ں کا موجب ہے ، مجالس ذکر جنت کے باغات ہیں ، مجالس ذکر فرشتوں کی مجلسیں ہیں ، اہل ذکر سے اللہ تعالیٰ ملائکہ میں فخر فرماتے ہیں ، ذکر الٰہی پر ہمیشگی کرنے والا مسکراتے ہوئے جنت میں جائے گا ۔ ( قول ابودرداء رضی اللہ عنہ )
تمام اعمال ذکر الٰہی کو دوام اور ہمیشہ باقی رکھنے کیلئے ہیں ، مقابلہ اعمال میں ذکر الٰہی کرنے والے جیت جائیں گے ۔ ذکر انسان اور جہنم کے درمیان دیوار بن جاتا ہے ، فرشتے ذاکر کیلئے دعائے مغفرت کرتے ہیں جیسا کہ تائب کیلئے دعاءمغفرت فرماتے ہیں ۔ کثرت کے ساتھ ذکر کرنے سے نفاق سے نجات نصیب ہو جاتی ہے ، ذکر الٰہی کی لذت تمام لذات سے بہتر لذت ہے ، کثرت ذکر سے گواہوں کی کثرت ہوتی ہے ۔ ذکر الٰہی سے شیطانوں میں گھرے ہوئے آدمی کو نجات مل جاتی ہے ۔
ذکر الٰہی سے بے حد قوت حاصل ہوتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چکی کی مشقت اور دیگر معمولات کی زیادتی و تکالیف کی شکایت کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خادم طلب فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کو خادم دینے کی بجائے رات کو سوتے وقت 33 مرتبہ سبحان اللہ ، 33 بار الحمد للہ اور چونتیس بار اللہ اکبر پڑھنے کا ارشاد فرمایا ۔ اور فرمایا خادم کی بجائے یہ کلمے تمہارے لیے بہتر ہیں ۔
اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے ہمیں ہر ، لمحہ ہر موڑ پر ذکر الٰہی کا ہی درس دیا ہے ۔ گھر سے نکلیں تو دعا بازار جائیں تو دعا ، سواری پر سوار ہوں تو دعا ، شہر میں داخل ہوں تو دعا ، پانی پئیں تو دعا ، کھانا کھانے سے فارغ ہوں تو دعا ، مسجد میں داخل ہوں تو دعا اور نماز تو دعاؤ ں کا مجموعہ ہے ۔ مسجد سے باہر نکلیں تو دعا لباس پہنیں تو دعا ، الغرض جملہ عروسی میں جانے کی دعا ۔ دین اسلام نے انسان کو کسی بھی موڑ پر بے رہبر و نہیں چھوڑا ہر مقام پر ذکر الٰہی کی تلقین کی ہے ۔ لہٰذا ہمیں چاہئیے ہم ہمہ وقت ذکر الٰہی میں مشغول و مصروف رہیں اسی میں کامیابی ہے ۔
قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے :
(( وَالذَّاکِرِینَ اللّٰہَ کَثِیرًا وَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُم مَّغفِرَۃً وَّاَجرًا عَظِیمًا 0 ))
” کثرت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والوں اور یاد کرنے والیوں کیلئے رب کائنات نے بخشش کے ساتھ اجر عظیم تیار کر رکھا ہے ۔ “
اس لئے فارغ اوقات میں ہمیں اللہ سے لو لگانی چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا 
(( فَإِذَا فَرَغْت فَانْصَبْ وَإِلَى رَبّك فَارْغَبْ0 ( النشرح ، 7,8 
” پس جب تو فارغ ہو تو عبادت میں محنت کر اور اپنے پروردگار ہی کی طرف دل لگا ۔ “
اللہ تعالیٰ ہمیں ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

:ذكر الله سے إعراض كرنے والوں كے لئے وعيديں
 هميں يه جاننا بهي ضروري هے كه جهاں ذكر الله كرنے والوں كے لئے بهت سے فضائل وفوائد قرآن وحديث ميں وارد هوئے هيں وهاں ذكر سے غفلت برتنے والوں كے لئے بيشمار وعيديں بهي وارد هوئى هيں گويا ذكر الله سےإعراض كرنے والوں كے لئے دنيا وآخرت كا زبردست خساره هے سو ذکر الٰہی سے انحراف اپنے نفس پر ظلم کرنے کے مترادف ہے ، قرآن حکیم میں الله تعالى كا ارشاد ہے 
وَلَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنسٰہُم اَنفُسَہُم اُولیکَ ھُمُ الفٰسِقُونَ0  ( حشر 
” اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جانا جنہوں نے اللہ ( کے احکام ) کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انہیں اپنی جانوں سے غافل کر دیا ۔ اور ایسے ہی لوگ نافرمان (فاسق) هوتے هيں  

جو لوگ ذکر الٰہی سے اعراض اور انحراف کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی معیشت کو تنگ کر دیتا 
         ہے اور كل قيامت والے دن أنهيں آندها كركے أٹهايا جائے گا جيسا كه ارشاد ربانی ہے 
وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِىْ فَاِنَّ لَـهٝ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُـرُهٝ يَوْمَ الْقِيَامَةِ اَعْمٰى 0 قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِىٓ
اَعْمٰى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْـرًا 0 قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِىٓ اَعْمٰى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْـرًا 0 قَالَ كَذٰلِكَ اَتَـتْكَ اٰيَاتُنَا فَـنَسِيْتَـهَا ۖ وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى 0
 اور ( ہاں ) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا تو هم اس کی زندگی كو تنگ كرديں گے اور ہم اسے روز قیامت اندھا کر کے اٹھائیں گے ۔ وہ کہے گا یا الٰہی مجھے تو نے اندھا بنا کر کیوں اٹھایا حالانکہ میں تو دیکھتا بهالتا تھا ۔ ( جواب ملے گا کہ ) اسی طرح ہونا چاہئیے تھا تو نے میری بيجهی ہوئی آیتوں کو فراموش كرديا تها توآج هم نے بهي تجهے بھلا دیا

ايك دوسري جگه ارشاد ربي هے 
وَمَنْ يُّعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهٖ يَسْلُكْهُ عَذَابًا صَعَدًا0 
اور جس نے اپنے رب کی یاد سے منہ موڑا تو وہ (رب) اسے سخت عذاب میں ڈالے گا

رزق كي تنگي كي بهت سي صورتيں هو سكتي هيں مثلاً إيك تو صورت يه هے كه حقيقتاً فاقه كشي وغيره كي نوبت آجائے دوسرى صورت يه هے كه مال وزر تو بهت هے ليكن پريشانيوں سے زندگي آجيرن بني هوئى هے وغيره وغيره تو يه سب چيزين رزق كي تنگي هي كهلائيں گي - اس تنگی سے بعض مفسرين نے عذاب قبر اور بعض نے دنيا هي ميں قلق و اضطراب ، بے چینی اور بے کلی مراد لی ہے جس میں اللہ کی یاد سے غافل بڑے بڑے دولت مند أكثر مبتلا رہتے ہیں ۔ اس تنگ زندگی کی عذاب برزخ سے بھی تفسیر کی گئی ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ دینوی معیشت کو بھی شامل ہے اور برزخی حالت کو بھی ۔ کیونکہ برزخی حالت میں انسان دنیا و برزخ دونوں جہان کی تکلیف برداشت کرتا ہے اور آخرت میں بھی عذاب میں ڈال کر فراموش کیا جائے گا ۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکرکرتے تھے ۔ (بخاری ، مسلم)
جس نے الله كي ياد سے غفلت برتي تو قرآن مجيد ميں أسكے لئے سخت عذاب كي وعيد سنائى گئ۔
إس عذاب سے مراد بهي عذاب قبر اور دنيا هي ميں قلق و اضطراب ، بے چینی اور بے کلی اور بيقراري مراد ہے- جس میں اللہ کی یاد سے غافل بڑے بڑے دولت مند أكثر مبتلا رہتے ہیں ۔
وه لوگ جو ذکر الٰہی سے اعراض اور انحراف کرتے ہیں أنهيں قرآن مديد ميں إيك اور بهت سخت وعيد سنائى گئى هے وه يه كه أن پر إيك شيطان مسلط هو جاتا هے جو أنهيں سيدهے راسته سے 
بهٹكاتا رهتا هے ۔ جيسا كه ارشاد ربانی ہے 
وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْـمٰنِ نُقَيِّضْ لَـهٝ شَيْطَانًا فَهُوَ لَـهٝ قَرِيْنٌ (36)
اور جو اللہ کی یاد سے غافل ہوتا ہے تو ہم اس پر ایک شیطان متعین کرتے ہیں پھر وہ اس کا ساتھی رہتا ہے۔
وَاِنَّـهُـمْ لَيَصُدُّوْنَـهُـمْ عَنِ السَّبِيْلِ وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّـهُـمْ مُّهْتَدُوْنَ (37)
اور شیاطین آدمیوں کو راستے سے روکتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم راہِ راست پر ہیں۔
حَتّـٰٓى اِذَا جَآءَنَا قَالَ يَا لَيْتَ بَيْنِىْ وَبَيْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ فَبِئْسَ الْقَرِيْنُ (38)
یہاں تک کہ جب وہ ہمارے پاس آئے گا تو کہے گا اے کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق اور مغرب کی دوری ہوتی پس کیسا برا ساتھی ہے۔
وَلَنْ يَّنْفَعَكُمُ الْيَوْمَ اِذْ ظَّلَمْتُـمْ اَنَّكُمْ فِى الْعَذَابِ مُشْتَـرِكُـوْنَ (39)

اور آج تمہیں یہ بات ہرگز نفع نہ دے گی چونکہ تم نے ظلم کیا تھا بے شک تم عذاب میں شریک ہو۔

مذكوره بالا آيات مباركه ميں بهي ذکر الٰہی سے اعراض اور انحراف کرنے والوں كے لئے دنيا اور آخرت كے عذاب كي وعيد سنائى گئ هے

حضرت ابوموسی أشعري رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزديك ذکر کرنے والے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی مثال ہے ۔
گويا إس حديث مباركه ميں ذكر نه كرنيوالے كو مرده سے تشبيه دى گئى هے مطلب يه هے كه ذكر سے غفلت برتنے پر اسكا دل بالكل مرده هوجاتا هے اور اس ميں روحاني طور پر جان نهيں رهتي يعني إيك عضو بيكاركي حيثيت هو جاتي هے

آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا : ” جو لوگ اپنی مجلس میں اللہ کا ذکر نہیں کرتے اور نہ ہی اپنے نبی ( محمد صلی اللہ علیہ وآله وسلم ) پر درود بھیجتے ہیں تو ایسی مجلس باعث حسرت اور نقصان ہوتی ہیں ۔ اللہ اگر چاہے تو انہیں عذاب دے اور اگر چاہے تو معاف کر دے ۔ ( مسند احمد )
إسك علاوه اور بهي بهت سي آحاديث مباركه ميں ذكر سے غفلت برتنے پر تنبيه كي گئ هے لهذا هميں هر وقت هر آن الله تعالى كے ذكر سے اپنے دل اور زبان كو تروتازه ركهنا چاهيے- الله تعالى 
 كهنے والے اور پڑهنے والونكو اپنے فضل سے عمل كي توفيق عطا فرمائے - آمين ثم

:ذكر کي محنت 

يه بات تو واضح هے كه إيك مسلمان كے لئے ذكرالله كي محنت بهي تمام عمر كرنا ضرورى هے اور اگر بالفرض بچپن ميں كسي وجه سے يه محنت كرنے سے محرومي رهى هو تو بعد ميں بهي يه محنت عمر كے هر حصه ميں كي جاسكتي هے رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے جب نبوت كا إعلان فرمايا تو أكثر صحابه كرام رضوان الله عليهم كي عمريں زياده تهيں ليكن تمام صحابه كرام رضوان الله عليهم نے إن عمروں بهي ذكر كي محنت موت تك جارى ركهي إس لئے عمر كے كسى بهي حصه ميں ذكر الله سے كوتاهي نهيں كرني چاهيے يه بهي ضرورى هے كه ذكرالله كرنے كے لئے ذكر مسنون هونا اور إس كا طريقه بهي صحيح هونا ضرورى هے مسنون اذكار كے حصول كے لئے هميں صحيح علماء كرام كي طرف رجوع كرنا چاهيے ورنه إيسا نه هو كه دن رات محنت بهي كي اور حاصل بهي كچهـ نه هو تو ذكر الله بهي محتاج بن كرعلماء كرام كي خدمت ميں حاضر هو كر سيكهنا اشد ضرورى هے تاكه هم صحيح نهج پر ذكر كرنے والے بن جائيں
يه تو هر شخص جانتا هے كه كوئى بهي مقصد حاصل كرنے كيلئے محنت كرنا لازم وملزوم هے پهر يه بهي بات واضح هے كه محنت تو هر شخص كرتا هے ليكن كامياب وهي هوتا هے جو محنت صحيح طريقه سے كررها هو اگر كوئى محنت تو كررها هے ليكن اسكا طريقه صحيح نهيں هے تو وه چاهے كتني هي محنت كرتا رهے وه كهبي بهي منزل پر نهيں پهنچ پائے گا إسكي مثال إسيطرح هے كه إيك شخص نے جانا تو إسلام آباد هے ليكن سفر وه كراچي كي طرف كررها هے وه چاهے كتني هي رفتار سے سفر كرتا رهے ليكن وه إسلام آباد كهبي بهي نهيں پهنچ سكے گا كيونكه اسكي محنت كا رخ صحيح نهيں هے
إسي طرح دين كے كسي بهي جز كي محنت كا فائده تب هوگا اگر وه صحيح نهج پر هوگي اور صحيح نهج وهي هوسكتي هے جو هميں رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم اور صحابه كرام سے محنت كا طريقه ملا اگر هم اپني مرضي كے طريقه پر محنت كريں گے تو كهبي بهي كامياب نه هونگے ليكن اگر وهي محنت رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقه پر هوگي تو إن شاء الله هم دونوں جهانوں ميں كامياب هوجائيں گے
يهي صورت حال ذكر كي محنت كي هے كه ذكر كو صحيح معنوں ميں كرنے كيلئے محنت ضروري چيز هے اور ذكر كے فضائل اور بركات حاصل كرنے كے لئے يه محنت رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقه پر هونا ضروري هے جيسا كه هم گذشته أقساط ميں يه وضاحت كرچكے هيں كه تبليغ كا كام (6) نمبروں ميں ره كر كيا جاتا هے اور هر نمبر كي محنت رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقه پر هي كي جاتى هے - قرآن و سنت كي روشني ميں الله تعالى كے ذكر كي محنت بهي مندرجه زيل تين مسنون طريقوں سے هونا ضروري هے:

  دعوت دينا

 مشق كرنا

 دعا كرنا

تو ذكر كے ثمرات صحيح طرح سے حاصل كرنے كيلئے ضروري هے كه هم إسكي محنت بهي اوپر ذكر كرده تين طريقوں سے كريں تاكه هم ذكر كے فوائد وبركات سے مستفيد هوسكيں 


:ذكرکي دعوت 
 ذكر كي محنت مين ذكر كي دعوت إيك إهم حصه هے إس راسته پر عمل پيرا هوكر إنسان نه صرف خود ذكر الله كے فوائد حاصل كرتا هے بلكه وه دوسروں كو بهي إسكي ترغيب ديتا هے بنيادى طور بر ذكر دو طرح سے هے إيك إجتماعى هے اور دوسرا إنفرادي هے دونوں كي إهميت اپني اپني جگه پر مسلمه هے
چونكه ذكر كي دعوت كا مقصد يه هے كه لوگوں ميں الله كا ذكر كرنے كا جذبه بيدار كيا جائے تاكه وه ذكر الله كي جانب راغب هوں إس لئے إس مقصد كے لئے ذكر كے فضائل كي دعوت دينا هے كيونكه جب إنسان كو ذكر الله كرنے كے فوائد وبركات كا علم و يقين هوگا تو پهر وه ذكر الله كرنے كي كوشش بهي ضرور كرے گا اور صحيح ذكر كے حصول كے لئے جان ومال اور وقت كي قرباني سے بهي دريغ نهيں كرے گا.يه بهي إيك مسلمه حقييقت هے كه ذكر نافع وهي هوتا هے جسكے ساتهـ إخلاص بهي هو اور دعوت كے ذريعه نا صرف إخلاص پيدا هوتا هے بلكه ذكر كرنے كا جذه بهي مضبوط هونا هے
ذكر الله كي دعوت درآصل دين هي كي دعوت هے علم كي دعوت هے نماز كي دعوت وغيره وغيره يه سب چيزيں ذكر الله ميں داخل هيں علم دين كي دعوت بهي ذكر كي إيك بهترين دعوت هے علم كا سيكهنا اور سيكهانا بهي إيك ذكر هے اور إس كي دعوت كے كئى شعبه جات هيں جو اپني اپني جگه پر بهت إهميت كے حامل هيں إس ذكر يعني (علم) كو پاني سے تشبيهـ دي جاتي هے جس طرح پاني پي كر إنسان كي پياس بجهـ جاتي هے إسي طرع علم وذكر كي دعوت سے إنسان كي روحاني پياس بجهتي هے جس طرح پاني كو چار أقسام ميں تقسيم كيا جاتا هے إسي طرح علم وذكر كي دعوت كو بنيادى طور پر چار حصوں ميں تقسيم كيا جاتا هے
پاني اور علم وذكر كي چاروں أقسام كا مختصر سا موازنه درج زيل هے

 :رواں( چلتا هوا ) پاني 
إس پاني سے مراد درياؤں اور نهروں كا پاني هے جو چلتا هے اور چلتا هوا آواز بهي پيدا كرتا هے جو إس پاني كے اندر آجاتا هے وه إس پاني سے فائده أٹها ليتا هے جو دور سے إسے ديكهتا تو هے ليكن اندر آنے كي كوشش نهيں كرتا وه كتنا هي لميا وقت إسے ديكهتا رهے اور إس كي آواز سنتا رهے ليكن أسے إس كا كوئى فائده نهيں هوگا بعين يهي مثال علم وذكر كي دعوت كي هے كه إس سے مراد همارے ديني مدارس هيں جو آواز لگا رهے هيں كه همارے پاس آؤ هم تمهيں دين سے مالا مل كرديں گے سو جو لوگ إن مدارس ميں آجاتے هيں وه الحدلله حافظ - قارى - عالم - مفتي - مفسر - محدث بن جاتے هيں اور جو آواز تو سن رهے هيں ليكن إن ديني مدارس سے إستفاده كرنے كي كوشش نهيں كرتے وه كچهـ حاصل نهيں كر پاتے يه ديني مدارس همارے دين كا إيك إهم شعبه اور هماري نئى نسل كي بهترين علمي اور روحاني تربيت گاهيں هيں هم إس شعبه سے كسي صورت بهي إستغنا أختيار نهيں كرسكتے

ساقط (ركا هوا ) پاني
إس سے مراد وه باني هے جو كنوؤں اور تالابوں وغيره كي شكل ميں موجود هوتا هے إس پاني كو ضرورت كے مطابق حاصل كرنے كے لئے محنت كرنا ضرورى هے يعني اگر كنويں سے پاني نكالنا هوگا تو ڈول وغيره ڈال كر پاني نكال لے گا ليكن اگر محنت نهيں كرے گا تو بيشك كنويں كے پاس بيٹها رهے اسے پاني نهيں مل سكتا بعين يهي مثال همارى دينى كتب كي هے إن كتب ميں علمں وذكر تو موجود هے ليكن أس سے فائده وهي حاصل كرے گا جوإنهيں دهيان كے ساتهـ مطالعه ميں لا كر محنت كرے گا اور يه فائده مدارس كي نسبت بهت هي محدود هوگا يه ديني كتابيں همارا بهت بڑا سرمايه هيں اور إن سے بهي هم مستغني نهيں هوسكتے

تحت الأرض (زمين كے نيچے) كا پاني
إس پاني كو حاصل كرنے كے لئے ضربيں لگا لگا كر كهدائى كركے پاني تك بورنگ كا هونا ضروري هے اگر ضرب لگانے والا شخص پورى طاقت سےإتني زياده ضربيں لگاتا هے كه أس كا بور پاني تك پهنچ جاتا هے تو پهر وه پائپ ڈال كر نلكا لگا كر إس پاني تك رسائى حاصل كرسكتا هے اور ضرورت كے مطابق بوقت ضرورت پاني حاصل كر سكتا هے اور اگر ضربيں كمزور هوں گي اور بورنگ پاني تك نه هوگي تو چاهيے كتنے هي نلكے لگا كا كوشش كرلي جائے ليكن پاني حاصل نهيں هو سكتا إس پاني سے مراد همارا تصوف كا نظام هے جس ميں مشائخ سالكين كو مختلف أذكار اور اوارد بتاتے هيں اور اس كا طريقه بهي بتايا جاتا هے جو إس طريقه پر محنت كرليتے هيں بشرطيكه نيت قلب كے إصلاح كي هو شهرت اور دنياوى فوائد حاصل كرنا مقصود نه هو بلكه نظر صرف اور صرق آخرت پر هو - نسبت صحيح هو يعني تعلق كسي واقعي الله والے سے جڑا هو اور الله والوں كا إحترام دل ميں هو تو وه كامياب سالك بن جاتے هيں اور روحاني منزليں طے كر ليتے هيں ليكن جو مطلوبه أهداف كو پورا نهيں كرتے يعني دل ميں إخلاص نهيں هے بلكه بس دكهلاوه اور اپني مشهورى كے لئے سب كچهـ كيا جا رها هے يا بيچارے محنت تو كررهے هيں ليكن نسبت صحيح نهيں هے يعني تعلق كسي الله والے سے نهيں بلكه بهروپيے سے جڑا هوا هے تو وه تمام زندگي بهي كچهـ حاصل نهيں كرپاتے بلكه الٹا اپني زندگي برباد كرليتے هيں اور آخرت كا نفع تو كيا زبردست خساره كرليتے هيں همارا تصوف كا نظام گو بهت آهستگي اور خاموشي سے چلتا هے ليكن إس ميں دلوں كي صفائى كا عمل بهت عمدگي سے هوتا هے إس نظام سے گو نسبتاً بهت كم تعداد اپني منزل تك پهنچ پاتي هے ليكن جوپهنچ جاتي هے وه هزاروں لاكهوں إنسانوں كي هدايت كا ذريعه بن جاتي هے سو باوجود إس كے إس شعبه ميں بهروپيوں كي بهرمار هے ليكن الحمدلله الله والے بهي موجود هيں گو أن كي تلاش إيك محنت طلب كام هے ليكن پهر بهي هميں صحيح الله والوں كي تلاش جارى ركهنا هوگي كيونكه هم إس مفيد اور مبارك نظام سے بهي كسي صورت ميں مستغني نهيں هوسكتے۔

: أبر رحمت (بارش) كا پاني
يه پاني قدرت كا بهت هي أنمول تحفه هے يه بابركت پاني جب برستا هے تو هر إيك كو سيراب كرتا هے- كهيتوں ميں پاني آتا هے - پهاڑوں تالابوں ميدانوں آباديوں صحراؤں اور كنوؤں غرض هر جگه يه پاني برستا هے أوپر درج شده تينوں پاني بهي إس پاني كے محتاج هوتے هيں مثلاً اگر بارش هوگي تو پهاڑوں سے پاني درياؤں اور نهروں ميں آئے گا اور اگر خدانخواسته بارش نه هوئى ته يه دريا اور نهريں بهي خشك هو جائيں گي إسي طرح بارش اگر هوگي تو تالابوں كنوؤں حتى كه زمين كے اندر بهي پاني موجود هوگا اور اگر يه بارش إيك عرصه تك رك گئى تو نه صرف دريا تالاب - كنويں خشك هوجائيں گے بلكه إيك وقت كے بعد زمين كے نيچے كا پاني بهي بهت نيچے چلا جائے گا جس كے حصول ميں شديد مشكلات كا سامنا كرنا پڑے گا بارش كے إس پاني سے مراد همارے دعوت وتبليغ كا نظام هے جسے أم الأعمال بهي كها جاتا هے اگر دعوت و تبليغ كا كام هورها هوگا تو دين كي خدمت كے لئے قرباني دينے كے لئے تيزي سے أفراد تيار هوں گے اورتيزي سے هي ديني ادارے بهي وجود ميں آئيں گے ديني كتب كے طالبين كي تعداد زياده هوگي تو پهر دينى كتابيں بهي وافر مقدار ميں دستياب هوں گي اور إسي محنت كي بركت سے لوگ أذكار اور اوراد كي طرف متوجه هوں گے تو تصوف ميں محنت كرنے والے أفراد إيك خاصي تعداد ميں موجود هوں گے إس محنت كي بركت سے قرباني كا جذبه پروان چڑهے گا تو جاني قرباني دين والے مجاهدين بهي بهت بڑى تعداد ميں تيار هوتے رهيں گے اور مسلمانوں كا رياستي نظام بهي مضبوط هوگا اور اگر يه محنت رك گئى تو نه صرف يه كه دين كے بافي شعبے برى طرح متأثر هوں گے بلكه مسلمانوں كا رياستي نظام بهي زوال پذير هوجائے گا گويا دعوت وتبليغ كي محنت دوسرے تمام ديني شعبوں كے لئے را ميٹريل فراهم كرنيكا كام كرتي هے إس لئے إسلام كے پودوں كي آبيارى كرنيكے كے لئے إس نظام كا بهت هي مؤثر أنداز ميں موجود هونا بهت ضرورى هے سو علم وذكر كي دعوت كا نظام بهي جس طرح مؤثر طرح إس پليٹ فارم سے چلتا هے كوئى دوسرا پليت فارم إسكا مقابله نهيں كرسكتا سو دعوت وتبليغ كا كام هم سب مسلمانوں كا فرض بهي هے اور همارى شديد ضرورت بهي هے كيونكه همارا ديني كارخانه قدم قدم پر إس كام كا محتاج هے سو دعوت و تبليغ كے إس كام سے هم كسي بهي صورت ميں إستغنا إختيار نهيں كرسكتے تاريخ گواه هے كه جن ادوار ميں إس كام ميں كمي و كمزوري آئى تو مسلمانوں كے دوسرے تمام ادارے بهي ٹوٹ پهوٹ كا شكار هوگے تو هميں اپني ديني اور أخروي ضرورت سمجهـ كر إس نظام كا هر صورت حصه بننا چاهيے الله تعالى هم


ذكر كي مشق
يهاں يه عرض كرنا ضرورى هے كه ذكر سے مراد صرف  ذكر الله هے اور جس ذكر كي مشق كي
بات هورهي هے وه قرآن وسنت سے ثابت شده ذكر هي هے من گهڑت أذكار وأوارد نه همارا   موضوع هيں نه هي أن كے بيان كرنے كا كوئى فائده هے بلكه بعض من گهڑت أذكار ميں تو شركيه الفاظ بهي پائے جاتے هيں جن كي وجه سے شرك كا گناه بهي سر پر آجاتا هے اور بعض بدعتوں سے بهرپور هوتے هيں سو الله تعالى هم سب كو صحيح أذكار كي محنت كرنے والا بنائے اور هم كوشش كركے صحيح أذكار كي مشق كريں تاكه دنيا وآخرت ميں كامياب هوجائيں

:ذكر كي قسميں
جيسا كه عرض كيا جاچكا كه بنيادي طور پر ذكر كي دو قسميں هيں -
 إجتمائى ذكر -  إنفرادي ذكر

:إنفرادي ذكر 
إنفرادي ذكر كي دو قسميں هيں
أ - لفظي يعني لساني ذكر
ب - قلبي ذكر

:أ - لفظي يعني لساني ذكر
پہلا نکتہ ذکر لساني کے سلسلے میں يه ہے جو کسی حد تک عرفانی پہلو کا بھی حامل ہے اس مسئلے سے متعلق ہے کہ بدن کا ہر حصہ الله رب العزت کی بندگی اور اطاعت میں استعمال ہو۔ آنکھ کی عبادت یہ ہے کہ پروردگار عالم کی خلق کردہ نشانیوں اور آیات کو دیکھے اسی بنا پر آیات قرآن کی طرف نگاہ کرنا، مکہ مکرمہ اور خانہ کعبہ کو دیکھنا عبادت ہے کان کی عبادت یہ ہےکہ قرآن کی آیتوں کو سنے لہذا قرآن کی آیتوں کو سننا عبادت کے زمرہ میں شامل ہے۔ دل اور قلب کی عبادت یہ ہے کہ اسے محبت خدا کا ظرف قرار دیا جائے۔ اسی طریقے سے زبان بھی عبادت خدا میں حصہ دار ہے کہ وہ ذکر خدا کرے۔
دوسرا نکتہ ذکر لساني کی حکمت کے بارے میں بیان ہوا ہے جو تربیتی پہلو رکھتاہے اگر ہم الله تعالى کی طرف توجہ کرنا چاہیں تو دھیرے دھیرے اس توجہ کو متمرکز کرنے کی کوشش کریں تو اس کے لیے ہمیں مشق اور پریکٹس کرنا پڑے گی۔ اس مشق اور تمرین کے لیے زبانی اور لفظی ذکر کرنا قلبی ذکر کی نسبت بہت آسان ہے ۔ تمام امور میں جہاں تمرین اور مشق کی ضرورت پڑتی ہے وہاں کام کو ہمیشہ سادہ اور آسان مرحلے سے شروع کیا جاتا ہے۔ اور اس کے بعد آہستہ آہستہ سخت اور دشوار مشقوں کو انجام دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ قاعدہ عرفان اور سیر و سلوک کے سلسلے میں بھی جاری ہے۔ایک عام انسان کے لیے یہ بہت سخت ہے کہ وہ یکدم اپنی توجہ کو دنیا کی تمام چیزوں اور اپنی مادی زندگی سے ہٹا کر خدا کے لیے وقفت کر دے لیکن یہ کام عام انسانوں کے لیے چوبیس گھنٹوں میں چند منٹ یا ایک دو گھنٹہ ممکن ہے۔ درس پڑھنا، مطالعہ کرنا، رزق و روزی کمانا، دوسروں کی مدد کرنا ،مومن بھائیوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا، اور اس طرح کے دوسرے امور میں کہ جو ہم روزانہ انجام دیتے ہیں خدا کی طرف توجہ کرنا ان امور کی انجام دہی کے ساتھ بہت مشکل کام ہے۔ ہم میں سے بہت سارے حتیٰ نمازوں میں جہاں دلی توجہ ضروری ہے بڑی مشکل سے نماز کے شروع میں اللہ اکبر کہتے ہوئے اور بسم اللہ کہتے ہوئے توجہ کر پاتے ہیں۔ اور اسکے بعد ہماری توجہ کہیں اور ہوتی ہے اور ہم نماز کے آخر تک یاد خدا اور نماز سے غافل رہتے ہیں۔ اس اعتبارسے عام انسانوں کے لیے ذکر لفظی ہی آسان اور راحت ہے اگر انسان اپنے آپ کو ذکر لفظی کرنے کا عادی بنالے آہستہ آہستہ یہی چیز سبب بنے گی لفظی ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے معنی کی طرف بھی توجہ کرے گا۔ اور اس اعتبار سے لساني ذکر دلی توجہ کے لیے ایک مناسب راستہ اور وسیلہ بن جائے گا۔ لہذا ذکر لساني ایک مناسب وسیلہ اور ذریعہ ہے دلی توجہ پید اکرنے کے لیے خاص کر کے 
ان افراد کے لیے کہ جنہوں نے اس راستے میں قدم رکھا ہے۔


:ذكر لساني كي مشق
 كلمه طيبه :لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ  
------------------------------------------
تمام أذكار ميں چاهے وه لساني هوں يا قلبي كلمه طيبه كے ذكر كو مركزي حيثيت حاصل هے جيسا كه حديث مباركه ميں هے :
افضل الذکر لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ (ترمذی شریف )
ترجمہ: سب سے افضل ذکر لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ یعنی کلمہ طیبہ کا ہے۔
زبانی مسلمان اقرار زبان سے ہے اور حقیقی مسلمان تب ہوگا جب تصدیق قلب بھی موجود هوگا جيسا كه إيمان كي صفات ميں إسكا ذكر هے
إِقْرَارُ بِاللِّسَانِ وَالتَّصْدِيقُ بِالْقَلْبِ
إس مبارك كلمه كي لساني مشق تمام مسالك كے لوگوں ميں متفقه هے اور تصوف كے تمام سلسلوں كے مشائخ مختلف طريقوں اور مختلف تعداد سے إس كا ورد كرواتے هيں إيك حديث مباركه كا مفهوم هے كه جس شخص نے روزانه سو مرتبه كلمه طيبه پڑها وه جب قيامت والے دن اٹهايا جائے گا تو اسكا چهره چودهويں كے چاند كي طرح چمك رها هوگا اور اسدن اس سے افضل وهي هوگا جس نے إس سے زياده إس كلمه كا ورد كيا هوگا تو گويا إسكي إبتدائى اور پهلى مشق تو يهي هے كه بنده هر روز 100 مرتبه إسكا ورد كرنے كا معمول بنا لے
كلمه طيبه كا تہلیل لسانی يعني ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ کا ذکر زبان سے كئى طريقوں سے کیا جاتا ہے۔جيسا كه اوپر عرض كيا گيا كه رات اور دن میں کم ازکم 100 مرتبه إس كا ورد كيا جائے يه بالكل إبتدائى اور كم سے كم مشق هے
إسكے علاوه مشائخ روزانه تين سو سے ليكرگیارہ سو مرتبہ تك کلمہ طیبہ کا ذکر كرنے كا بتاتے هيں گو تصوف ميں يه تعداد بهي كم سمجهي جاتي هے ۔ اس کی روزانه كے إعتبار سے اعلیٰ درجه كي تعداد پانچ ہزار ہے۔ بعض مشائخ كے هاں 9000 كا نصاب بهي هے بلكه اس سے زیادہ بهي جتنا چاہے کلمہ شریف کا یہ ورد کرے۔ اس سے زیادہ فائدہ حاصل ہوگا۔ إيك روايت مين 70000 مرتبه پڑهـ كر فوت شده كو بخشنا بهي آيا هے ایک ہی وقت میں یہ تعداد مکمل کرنا بھی ضروری نہیں اورنہ ہی باوضو ہونا شرط ہے۔ البتہ باوضو ہونا بہتر ہے۔ رات اور دن میں جب چاہے حضور قلب کے ساتھ معنی کا خیال کرکے ذکر کیا جائے۔ جتنا زياده إس كلمه كا ورد كيا جائے گا أتنا هي رموز وأسرار كهلتے جائيں گے
كلمه طيبه كے ذکر تہلیل لسانی سے حضور قلب حاصل ہوتا ہے اور لطائف کو اپنے موجودہ مقامات سے اوپر کی طرف ترقی حاصل ہوتی ہے اور غیر کے خطرات و خیالات کی نفی ہوتی ہے۔ بعض اوقات واردات کا نزول بھی ہوتا ہے تاهم إيسا هونا لازمي نهيں هے بهرحال كلمه كي مشق هر صورت ميں جارى رهني چاهيے تاكه قلب كي صفائى كا كام متواتر هوتا رهے الله تعالى هم سبكوإسكي توفيق عنايت فرمائے - آمين


 :تلاوت قرآن مجید
قرآن مجید اللہ رب العزت کا کلام ہے انسانیت کے نام ہے.حقیقت میں یہ انسانیت کے لئے مشورہ حیات ہے ، انسانیت کیلئے دستور حیات ہے ، انسانیت کیلئے ضابطہء حیات ہے بلکہ پوری انسانیت کیلئے آب حیات ہے.جسطرح الله تعالى كو تمام مخلوقات پر فوقيت حاصل هے إسيطرح الله تعالى كے كلام كو بهي تمام كلاموں پر فوقيت حاصل هے
"قرآن سے برکت حاصل کرو کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور اس سے صادر ہوا ہے"
چونکہ ہم اللہ رب العزت کی محبت اور تعلق چاہتے ہیں لہذا ہمیں چاہئے کہ اس کے کلام سے اس کے پیغام سے اپنا ناطہ جوڑیں اور روزانہ محبت سے اس کی تلاوت کیا کریں.
تلاوت کرتے وقت باوضو اورقبلہ رو ہوکر بیٹھیں اور تمام ظاہری اور باطنی آداب کا خیال رکهتے ہوئے اس کی تلاوت کریں

:دلائل از قرآن مجید

:پهلي  دليل 


ارشاد باری تعالی ہے
فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰن
"قرآن پاک کی تلاوت کرو جس قدر تم سے ہوسکے"مزمل )
اس آیت کریمہ میں قرآن پاک کو پڑهنے کا حکم دیا گیا ہے.اسی کی تعمیل میں مشائخ حضرات سالکین طریقت کو تلاوت قرآن پاک کی تلقین کرتے ہیں.

:دوسري دليل  

ارشاد باری تعالی ہے
اَلَّـذِيْنَ اٰتَيْنَاهُـمُ الْكِتَابَ يَتْلُوْنَهٝ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ ؕ اُولٰٓئِكَ يُؤْمِنُـوْنَ بِهٖ ۗ
"جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا فرمائی ہے.وہی اس کو ایسا پڑهتے ہیں جیسے اس کی تلاوت کاحق ہے.یہی لوگ ہیں ایمان رکهنے والے"(البقرہ 121)
تو معلوم ہوا کہ جو اہل ایمان ہیں وہ قرآن پاک کی تلاوت سے غافل نہیں ہوتا اور اس کا حق ادا کرتے ہیں.

:احادیث سے دلائل

:پهلي  دليل 
طبرانی نے جامع الصغیر میں روایت نقل کی ہے کہ نبی كريم صلى الله عليه وآله وسلم  نے ایک صحابی کو نصیحت کی
میں تجهے خدا سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں ، کیونکہ یہ تمام امور کی جڑ ہے.اور تلاوت قرآن اور ذکر اللہ کولازم رکھ. کیونکہ یہ آسمان میں تیرے ذکر کا سبب ہیں اور زمین میں تیری ہدایت کا

:دوسري دليل  
ایک حدیث میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے
فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ، تم پر تلاوت قرآن ضروری ہے ، کیونکہ یہ تیرے لئے زمین میں ہدایت کا سبب ہے اور آسمان میں یہ تیرا زخیرہ ہے

:تيسري دليل  
بہیقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے
فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ان دلوں پر زنگ لگ جاتا ہے.جس طرح پانی لگنے سے لوہا زنگ آلود ہوجاتاہے.عرض کیا گیا ، یا رسول اللہ ! ان کو صاف کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا موت کا ذکر کثرت سے کرنا اور قرآن پاک کی تلاوت کرنا.

:چوتهي دليل  
امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے یہ حدیث نقل کی ہے:
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا جس آدمی نے نفلوں میں کهڑے ہوکر دس آیات پڑهیں ، ایسا شخص عبادت گزار لوگوں میں شمار ہوگا اور جس شخص نے ایک ہزار آیات پڑهیں وہ اجر میں خزانوں کو جمع کرنے والا ہو گا

 :پانچويں دليل  
امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث نقل کی ہے
   حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک لمبی روایت ہے اور اس میں حضور صلی اللہ علیہ وآله سلم نے فرمایا کم از کم ایک ماہ میں قرآن کا ختم کرو
مندرجہ بالا احادیث کی تعمیل کے لئے ہمارے مشائخ روزانہ تلاوت کلام پاک کا حکم دیتے ہیں مشائخ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ سالکین کو روزانہ تلاوت قرآن کریم کی ہدایت کرتے ہیں. ایک پارہ ہوتو بہت اچها ہے ، ورنہ کم از کم آدھ پارہ ضرور تلاوت کریں. علماء طلباء جن کو تعلیمی مصروفیات زیادہ ہو وہ اس سے بهی کچھ کم کر لیں لیکن روزانہ تلاوت ضرور کریں. اور اگر کوئی پہلے سے قرآن پاک پڑهنا نہیں جانتا تو اسے چاہئے کہ کسی قاری صاحب سے قرآن پاک پڑهنا شروع کردے.اس میں اس کے لئے دوہرا اجر ہے.تو إس كي مشق يهي هے كه روزانه إس كي تلاوت كا معمول هو إس كے لئے مشائخ ناظره والوں كے لئے هرروز إيك پاره اور حفاظ كے لئے تين پاره يوميه كا معمول بتاتےهيں إس سے زياده جتنا بهي هوسكے تو نوراً على نور هے ۔
قرآن پاك كا إيك نصاب يه بهي هے كه روزانه إيك منزل كي تلاوت كي جائے اور سات دن ميں قرآن پاك ختم كيا جائے أكابرين أمت ميں إس سے بهي كهيں زياده كا معمول كتابوں ميں مذكور هے حضرت عثمان غني رضي الله تعالى عنه سے إيك ركعت ميں مكمل قرآن مجيد پڑهنا بهي منقول هے إسكے علاوه حضرت إمام أبو حنيفه رحمة الله عليه كا رمضان المبارك مين 61 قرآن ختم كا معمول رها هے يعني إيك قرآن مجيد دن ميں اور إيك رات ميں اور إيك قرآن نماز تراويح ميں إسي طرح إمام شافعي رحمة الله عليه كے متعلق بهي منقول هے كه وه غير رمضان ميں روزانه إيك قرآن پاك مكمل تلاوت فرماتے تهے اور رمضان المبارك ميں دو قرآن پاك روزانه كا معمول تها إسي طرح كچهـ أكابريں كا تين قرآن پاك روزانه كا معمول بهي كتابوں ميں ذكر كيا گيا هے تين دن ميں قرآن پاك كا ختم كرنا تو بيشمار اكابرين كا معمول رها هے اور الحمد لله اب بهي هے
المختصر يه كه قرآن پاك كي تلاوت كا معمول روزانه كا هونا ضروري هے حفاظ كرام اگر تين پارے نهيں تو دو اور اگر دو ميں بهي كوئى مشكل هے تو كم ازكم إيك سيپاره تو ضرور هي روزانه تلاوت كيا كريں اور إسي طرح ناظره والے اگرایک پارہ نهيں تو كم از كم آدها پارہ روزانہ ضرورتلاوت كرين المختصر يه كه قرآن پاك كي روزانه تلاوت كا هونا بهت ضرورى هے جس درجه ميں بهي هو إس كے علاوه قرآن پاك كے ترجمه و تفسير كو جاننے كي كوشش كرنا بهي قرآن پاك كي إيك إهم مشق هے

 :مسنون تسبيحات كا إهتمام
قرآن وحديث ميں بهت سے أذكار اور أن كي فضيلتيں وارد هوئى هيں اگر ان تمام كا ذكر كيا جائے تو إس كے لئے إيك ضخيم كتاب كي ضرورت هے سو يه صفحات نه تو إن تمام أذكار كا آحاطه كرسكتے هيں نه هي ايسا كرنا ممكن هے سو مسنون تسبيحات ميں سے صرف تين تسبيحات ( إستغفار - درود شريف - تيسرا كلمه ) كا ذكر يهاں كيا جائے گا -
 يه تسبيحات مسنون أذكار كا حصه هيں اور تقريباً تمام هي خانقاهي
سلسلوں ميں بهي إنكي مشق مسلمه هے

:أ) إستغفار كي مشق

0وَمَا تَوْفِیْقِی اِلَّا بِاللّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیبْ
اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی خیر کا ہر کام ہوتا ہے

0سُبْحَانَکَ لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیمْ
انہوں نے کہا تو پاک ہے، ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں بتایاہے، بے شک تو بڑے علم والا حکمت والا ہے۔

انسان جاہل ہے،بلکہ جہول ہے، اللہ تعالیٰ اسے جو علم سکھائیں ،بس وہی حقیقی علم ہے
علم کے ساتھ اگر اس علم پر یقین…یعنی شرح صدر بھی نصیب ہو جائے تو ایسا علم ’’دعوت‘‘ بن کر صدقہ جاریہ ہو جاتا ہے…شرح صدر بھی اللہ تعالیٰ عطاء فرماتے ہیں اور دعوت کے لئے بان 
و قلم بھی

قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِىْ صَدْرِىْ ()
کہا اے میرے رب میرا سینہ کھول دے۔
وَيَسِّـرْ لِـىٓ اَمْرِىْ ()
اور میرا کام آسان کر۔
وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِىْ ()
اور میری زبان سے گرہ کھول دے۔

يَفْقَهُوْا قَوْلِىْ ()
کہ میری بات سمجھ لیں۔

بارش چلتی رہے تو دریا اور ندی ،نالے آباد رہتے ہیں…بارش رک جائے تو دریا بھی سوکھ جاتے
 ہیں…مرتے دم تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم ملتا رہے تو علم و دعوت کا گلشن آباد رہتا ہے، اور علم میں اضافہ اللہ تعالیٰ ہی عطا فرماتے ہیں
0رَبِّ زِدْنِی عِلْمَا
مقبول دعوت وہی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا خوف بھی ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف امید بھی…اللہ تعالیٰ مغفرت والے بھی ہیں اور عذاب والے بھی …اللہ تعالیٰ خود اپنے بندوں کو اپنی مغفرت کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ان مقبول بندوں نے بھی…لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی طرف بلایا…جن کی دعوت کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے
0وَاَنَا اَدْعُوْکُمْ اِلٰی الْعَزِیْزِ الْغَفَّارْ
مغفرت اور امید کی طرف دعوت کا طریقہ یہ ہے کہ…اللہ تعالیٰ کے بندوں کو توبہ اور استغفار کی طرف بلایا جائے…ان گناہوں سے بھی جن کو معاشرے میں گناہ سمجھا جاتا ہے…اور ان گناہوں سے بھی جو بہت خطرناک ہیں مگر ان کو گناہ نہیں سمجھا جاتا…اور ان پر توبہ نہیں کی جاتی…
دعوت کا یہ ایک مکمل نصاب ہے …اسی نصاب کا ایک حصہ ’’قرآن مجید‘‘ کی وہ دعائیں ہیں …جن میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگی گئی ہے … استغفار کی یہ دعائیں…اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہیں؎…اسی لئے قرآن مجید کا حصہ ہیں…اور جنہوں نے ان دعاؤں کو پڑھا ان کو ماضی میں مغفرت اور کامیابی ملی…ان دعاؤں کی یہ تاثیر اب بھی برقرار ہے…آج اللہ تعالیٰ کی توفیق سے إن شاء الله إستغفار سے متعلق كجهـ دعائیں بیان کرنی ہیں…

 :حضرت سیدنا آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا استغفار
رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ0 (الاعراف
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ فرمائے گا تو ہم ضرور تباہ ہو جائیں گے۔
یہ وہ استغفار ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود حضرت آدم علیہ السلام کو تلقین فرمایا…یہ وہ استغفار ہے جس سے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی …یہ انسان کا پہلا استغفار اور روئے زمین کا ابتدائی استغفار ہے…بہت جامع، بہت مؤثر، بہت پُرکیف اور مقبول استغفار…

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تسبیح اور توبہ
سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ0(الاعراف
یا اللہ ! آپ کی ذات پاک ہے، میں آپ کے حضور توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شوق و محبت سے بے تاب ہو کر درخواست کی…یا اللہ اپنی زیارت کرا دیجئے…فرمایا! وہ (یہاں دنیا میں) ہرگز نہیں ہو سکتی…سامنے والے پہاڑ پر نظر رکھیں ہم اس پر اپنی تجلی ڈالتے ہیں…اگر وہ سہہ گیا تو آپ بھی زیارت کر لینا…پہاڑ پر تجلی آئی تو وہ ریزہ ریزہ ہو گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے …جب ہوش آیا تو زبان پر اللہ تعالیٰ کی تسبیح تھی…اور اس بات پر توبہ کہ ایسی درخواست کیوں پیش کی…حضرات انبیاء علیہم السلام ہر طرح کے صغیرہ کبیرہ گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں…ان کا استغفار اور ان کی توبہ اُن کے بلند مقام کے لحاظ سے ہوتی ہے…کوئی بات یا کام اس مقام سے تھوڑا سا ہٹا تو فوراً استغفار اور توبہ میں لگ گئے…ہم جب ان الفاظ میں استغفار کریں تو ’’اول المومنین ‘‘ کی جگہ ’’من المومنین‘‘ کہہ لیا کریں
سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاَنَا مِنَ الْمُؤْمِنِینْ
ویسے ’’اول‘‘ کا ایک معنی آگے بڑھ کر ایمان لانا ہے… جیسا کہ فرعون کے جادوگروں نے ایمان قبول کرتے وقت کہا تھا…اَنْ کُنَّا اَوَّلَ الْمُوْمِنِینْ

 :شدید ندامت والا استغفار
لَئِنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَیَغْفِرْلَناَ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (الاعراف
ترجمہ: اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ کیا اور ہمیں نہ بخشا تو بے شک ہم تباہ ہو جائیں گے…
حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام تورات لینے گئے …پیچھے قوم نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا کر اپنے ایمان کا جنازہ نکال دیا…جب حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس تشریف لائے اور قوم کو سمجھایا اور انہیں اس نقصان کا اندازہ دلایا جو وہ کر بیٹھے تھے…تب ان کی آنکھیں کھلیں ،باطل کا جوش ٹھنڈا پڑا…اور آگے ہمیشہ ہمیشہ کی آگ نظر آئی…اور یہ کہ کفر و شرک کر کے اپنی پوری زندگی کے عمل برباد کر ڈالے تب تو ان کے جسموں اور ہاتھوں تک کی جان نکلنے لگی…انتہائی شرمندگی،ندامت،بے قراری اور گہرے پانی میں ڈوبنتے انسان کی طرح چلائے…
لَئِنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَیَغْفِرْلَناَ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
یہ اگرچہ دعاء کے الفاظ نہیں …مگر اظہار ندامت اور طلب مغفرت میں دعاء جیسے ہیں … تب رحمت الٰہی متوجہ ہوئی اور توبہ کا حکم نامہ اور طریقہ عطا فرما دیا گیا

:صلہ رحمی والا استغفار
رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِاَخِیْ وَاَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ (الاعراف:۱۵۱
ترجمہ:اے میرے رب! مجھے اور میرے بھائی کو معاف فرما دیجئے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرمائیے اور آپ سب سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے پیچھے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو چھوڑ گئے تھے…واپس آ کر قوم کو شرک میں مبتلا دیکھا تو آپ پر شدید دکھ ، رنج اور غم و غصہ طاری ہو گیا…اسی دینی غصہ میں حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی پکڑ لیا اور جھنجھوڑا کہ …آپ نے جانشینی کا حق ادا نہیں کیا… حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنا عذر بیان فرمایا کہ میں نے قوم کو بہت سمجھایا…مگر انہوں نے میری ایک نہ سنی الٹا مجھے قتل کرنے پر آمادہ ہو گئے…اب آپ مجھ پر سختی کر کے قوم والوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیں اور مجھے ان ظالموں میں شمار نہ کریں… اپنے بھائی کا عذر سن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام … ان سے مطمئن ہوئے اور فوراً اپنے لئے اور ان کے لئے استغفار کرنے لگے…اس میں دو باتیں تھیں … ایک یہ کہ دعا کرنے سے یہ اشارہ دیا کہ میں آپ سے مطمئن ہوں…اور دوسری یہ کہ سخت رویے کی وجہ سے بھائی کو جو تکلیف پہنچی اس کا بھی ازالہ ہو جائے … کسی کے لئے استغفار کرنا یعنی اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی مغفرت مانگنا…بہت بڑا تحفہ، ہدیہ اور احسان ہے …پھر اس میں یہ بھی اشارہ ملا کہ اپنے کسی بھی قریبی عزیز سے کوئی رنجش ہو جائے تو صلح کے بعد اس کے لئے استغفار کیا جائے … قرآن مجید کے الفاظ موجود ہیں … بھائی سے رنجش اور صلح ہو تو یہی الفاظ اور اگر کوئی اور ہو تو ’’اخی‘‘ کی جگہ اس کا نام …مثلاً بیوی سے رنجش پھر صلح ہوئی تو
رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِزَوجَتِیْ وَاَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْن
والدین سے تو رنجش ہونی ہی نہیں چاہیے … ان کے لئے بھی انہی الفاظ میں استغفار کر سکتے ہیں
رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِاَبِیْ…رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِاُمِّیْ…’’یا‘‘… رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَاَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْن

 :اجتماعی مصیبت اور قومی مشکل کے وقت کا استغفار
اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْنَ0(الاعراف
ترجمہ: یا اللہ! تو ہی ہمارا تھامنے والا ہے، پس ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے ستر نمائندہ افراد کو اپنے ساتھ ’’طور ‘‘ پر لے گئے … وہاں ان سب نے اللہ تعالیٰ سے کلام سنا مگر یقین کرنے کی بجائے اَڑ گئے کہ…جب تک ہم خود اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھ لیں ہم یقین نہیں کر سکتے…اس پر سخت زلزلہ آیا،بجلی کڑکی اور وہ سب کانپ کر مر گئے…حضرت موسی علیہ السلام بہت پریشان ہوئے کہ واپس جا کر قوم کو کیا بتائیں گے؟ وہ تو یہ سمجھیں گے کہ ان کے نمائندوں کو میں نے مار دیا تب خوب عاجزی سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوئے دعاء مانگی،استغفار کیا تو وہ سب دوبارہ زندہ کر دئیے گئے…معلوم ہوا کہ اجتماعی مشکلات اور قومی مصیبتوں کا حل بھی ’’ توجہ الی اللہ‘‘ اور ’’استغفار‘‘ ہے…دعا کے شروع میں اَللّٰھُمَّ لگا لیں…
0اَللّٰہُمَّ اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْن

:حضرت نوح عليه السلام كي كشتي پر سوار ہوتے وقت استغفار
بِسْمِ اللّٰہِ مَجْرٖھَا وَمُرْسٰھَا، اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(ہود
ترجمہ: اللہ کے نام سے ہے اس کا چلنا اور ٹھہرنا، بے شک میرا رب ہی بخشنے والا مہربان ہے
جب طوفان آ گیا تو حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے ایمان والے ساتھیوں سے فرمایا! اللہ کے نام سے کشتی پر سوار ہو جاؤ، کچھ غم ،فکر اندیشہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کشتی کا چلنا اور ٹھہرنا سب اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے نام کی برکت سے ہے … اور اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے لئے ’’غفور‘‘ یعنی بخشنے والا اور ’’رحیم‘‘ یعنی مہربان ہے…اللہ تعالیٰ کی شانِ مغفرت اور شانِ رحمت ہی ایمان والوں کو ہر طوفان ،ہر مصیبت اور ہر آزمائش سے پار لگاتی ہے …کشتی یا کسی بھی سواری پر…سوار ہوتے وقت یہ والہانہ دعاء پڑھ لینی چاہیے

 :حضرت نوح علیہ السلام کا مؤثر استغفار
رَبِّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَسْئَلَکَ مَالَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ ، وَاِلَّاتَغْفِرْلِیْ وَتَرْحَمْنِیْٓ اَکُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ0(ہود
ترجمہ: اے میرے رب! میں تیری پناہ لیتا ہوں اس بات سے کہ تجھ سے سوال کر وں اس چیز کا جس کا مجھے علم نہیں…اور اگر تو نے مجھے نہ بخشا اور مجھ پر رحم نہ کیا تو میں تباہ ہو جاؤں گا…
طوفان میں حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا غرق ہو رہا تھا…حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی…اے میرے رب! میرا بیٹا بھی میرے ’’ اہل ‘‘ میں سے ہے…جن کو بچانے کا آپ نے وعدہ فرمایا ہے… حکم آیا کہ …اے نوح! وہ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے…اس کے اعمال خراب ہیں آپ کو اس کے بارے ہم سے سوال نہیں کرنا چاہیے…اس تنبیہ پر حضرت نوح علیہ السلام کانپ اُٹھے اور فوراً توبہ و استغفار میں مشغول ہو گئے…اگر کسی مسلمان سے دعاء میں کوئی غلطی، بے ادبی…یا تجاوز ہو جائے…تو ان الفاظ میں استغفار ان شاء اللہ مفید رہے گا…

:کسی کو معاف کرتے وقت کا استغفار
یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ0(یوسف
ترجمہ: اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے اور وہ سب سے زیادہ مہربان ہے
حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنی غلطی تسلیم کی،ندامت کا سچا اظہار کیا اور حضرت یوسف علیہ السلام سے معافی چاہی…حضرت یوسف علیہ السلام نے معافی دیتے وقت ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے استغفار فرمایا…پس کسی کو معاف کرتے وقت اس کے لئے استغفار کرنا خوبصورت سنت یوسفی ہے…
یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِینْ

اللہ تعالیٰ پر توکل… اور اللہ تعالیٰ ہی سے توبہ
ھُوَ رَبِّیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ مَتَابْ0 (الرعد
ترجمہ: وہی ( اللہ تعالیٰ) میرا رب ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں،اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے…
حکم دیا گیا کہ…آپ کہہ دیجئے…
0ھُوَ رَبِّیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ مَتَابْ

 :اپنے لئے، والدین کیلئے اور سب ایمان والوں کے لئے استغفار
رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ0 (ابراہیم
اے ہمارے رب! مجھے اور میرے والدین کو اور ایمان والوں کو حساب قائم ہونے کے دن بخش دے…
یہ دعاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مانگی …یہ بہت جامع اور نافع استغفار ہے…

 :اسم اعظم والا استغفار
لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْن0(الانبیاء
ترجمہ: آپ کے سوا کوئی معبود نہیں آپ بے عیب ہیں بے شک میں گناہگاروں میں سے تھا…
یہ حضرت یونس علیہ السلام کی تسبیح ہے…اس میں تہلیل بھی ہے یعنی لا الہ الا انت اور تسبیح بھی ہے ’’سبحانک ‘‘ اور استغفار بھی ہے…اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِین…
اس استغفار کے بہت فضائل احادیث و روایات میں آئے ہیں… یہ ہر غم ،مصیبت، مشکل اور پریشانی کا حل ہے…امت مسلمہ نے ہمیشہ اس تسبیح و استغفار سے بڑے بڑے منافع حاصل کئے ہیں…
 :مقبولین کا استغفار
رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَناَ وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْن 0(المؤمنون
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے،تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما، تو بہت بڑا رحم فرمانے والا ہے…
دنیا میں کافر اور منافق خود کو عقلمند سمجھتے ہیں … اور ایمان والوں کا مذاق اڑاتے ہیں کہ یہ (نعوذ باللہ ) بیوقوف لوگ ہیں…ان کو دنیا کی سمجھ ہی نہیں …قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کافروں کے سامنے ان ایمان والوں کی کامیابی کا اعلان فرمائیں گے…اور ساتھ ان کے اِس استغفار کا بھی تذکرہ فرمائیں گے…کہ میرے بندوں میں سے کچھ لوگ کہتے تھے
رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَناَ وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِینْ
تو تم کفار ان کا مذاق اڑاتے تھے…
آج دیکھنا کہ میں ان کو کیسی کامیابی، بدلہ اور مقام دیتا ہوں…

:مغفرت اور رحمت مانگو
رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ 0 (المؤمنون
ترجمہ: اے میرے رب معاف فرما اور رحم کر اور تو سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے…یہ بہت مؤثر اور میٹھا استغفار ہے…اور قرآن مجید میں حکم فرمایا گیا ہے کہ
کہو! رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِینْ
وہ جو کچھ دینا چاہتے ہیں اسی کو مانگنے کا حکم فرماتے ہیں…مغفرت اور رحمت مل جائے تو اور کیا چاہیے…

  :فرشتوں کا تائب ایمان والوں کے لئے استغفار
رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِھِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ ، رَبَّنَا وَاَدْخِلْھُمْ جَنّٰتِ عَدْنِ نِ الَّتِیْ وَعَدْتَّھُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآئِھِمْ وَاَزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ ۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ، وَقِھِمُ السَّیِّاٰتْ ۔ وَمَنْ تَقِ السَّیِّاٰتِ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَہ۔ وَذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(المؤمن
ترجمہ! اے ہمارے رب! تیری رحمت اور تیرا علم سب پر حاوی ہے پس جن لوگوں نے توبہ کی ہے اور تیرے راستے پر چلتے ہیں انہیں بخش دے اور انہیں جہنم کے عذاب سے بچا لے…
اے ہمارے رب! انہیں ہمیشہ کی جنتوں میں داخل فرما جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کو جو ان کے باپ دادوں اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میںسے نیک ہیں۔ بے شک تو غالب حکمت والا ہے اور انہیں برائیوں سے بچا اور جس کو تو اس دن برائیوں سے بچائے گا پس اس پر تو نے رحم کر دیا اور یہ بڑی کامیابی ہے…
یہ بڑی اہم دعا ہے مکمل تفصیل تو یہاں ممکن نہیں چند اشارات لے لیں…
 یہ دعا عرش اٹھانے والے اور عرش کے گرد طواف کرنے والے مقرب فرشتوں کا وظیفہ ہے…اندازہ لگائیں کیسی برکتوں والی دعاء ہو گی…
 اس دعاء میں اللہ تعالیٰ کے تائب بندوں کے لئے استغفار ہے… ہم جب ایسے بندوں کے لئے دعاء اور استغفار کریں گے تو اس سے خود ہمیں بہت نفع ملے گا…
 جب ہم یہ دعاء اللہ تعالیٰ کے تائب بندوں اور ان کے متعلقین کے لئے کریں گے تو حدیث شریف کے وعدے کے مطابق فرشتے یہی دعاء ہمارے لئے کریں گے…

 :مقبول اور سعادتمند بندوں کا استغفار
رَبِّ اَوْ زِعْنِی اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ ۔ اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ 0(الاحقاف 
ترجمہ: اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر انعام کی اور میرے والدین پر اور میں نیک عمل کروں… جسے تو پسند کرے اور میرے لئے میری اولاد میں اصلاح کر بے شک میں تیری طرف توبہ کرتا ہوں اور بے شک میں فرمانبرداروں میں ہوں
یہ سعادتمند اور مقبول انسان بننے کا ایک قرآنی نصاب ہے…
 اللہ تعالیٰ سے شکر کی توفیق مانگنا…ان نعمتوں پر جو اپنے اوپر اور اپنے والدین پر ہوں…
 اللہ تعالیٰ سے نیک اور مقبول اعمال کی توفیق مانگنا
 اپنی اولاد کی اصلاح اور نیکی کی دعاء مانگنا
 اللہ تعالیٰ سے توبہ،استغفار کرنا…
 اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کا اقرار کرنا…
اگلی آیت میں ان افراد کا جو یہ پانچ کام کرتے ہیں،بدلہ مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال قبول فرماتے ہیں …ان کے گناہ معاف فرماتے ہیں …اور انہیں اہل جنت میں شامل فرماتے ہیں…
بعض مفسرین کے نزدیک یہ آیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی …پس یہ بہت قیمتی دعا ہے…توجہ اور یقین سے مانگنی چاہیے…

 :بڑے مقام والا استغفار
رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَؤفٌ رَّحِیْمٌ (الحشر
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہماری اور ہمارے ان بھائیوں کی مغفرت فرما جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لئے کینہ قائم نہ ہونے پائے… اے ہمارے رب! بے شک تو بڑا مہربان،نہایت رحم والا ہے…
یہ بہت نافع،مؤثر اور جامع استغفار ہے… قرآن مجید میں سمجھایا گیا کہ بعد والے مسلمان جو دل کے یقین کے ساتھ یہ دعاء مانگتے ہیں…وہ انعام میں اپنے سے پہلے والوں کے ساتھ ملحق کر دئیے جاتے ہیں…اس دعاء میں اپنے اسلاف کے لئے بھی استغفار ہے…جو بڑا فضیلت والا عمل ہے… وہ افراد جن کے دل میں مسلمانوں کے لئے بغض اور کینہ زیادہ پیدا ہوتا ہو وہ اس دعاء کا بہت اہتمام کریں …بے حد نافع ہے…

 :دشمنوں سے حفاظت والا استغفار
رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا وَاِلَیْکَ اَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ ، رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَاغْفِرْلَنَا رَبَّنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ 0(الممتحنۃ
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم نے تجھ پر بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف ہم رجوع ہوئے اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے اے ہمارے رب ہمیں کفار ( کے ظلم و ستم ) کا تختہ مشق نہ بنا اور اے ہمارے رب! ہماری مغفرت فرما بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے…
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ایمان والے رفقاء نے استغفار پر مشتمل یہ دعاء مانگی … اور کافر حکمرانوں اور کفر کی طاقت سے کھلم کھلا براء ت کا اِعلان فرمایا…

 :اہل ایمان کا آخرت میں استغفار
رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْلَنَا اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ0(التحریم
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہمارے لئے ہمارا نور پورا فرما اور ہمیں بخش دے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے
اہل ایمان یہ دعا آخرت میں مانگیں گے… دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ سے نور اور مغفرت مانگتے رہنا چاہیے…

 :حضرت نوح علیہ السلام کا جامع استغفار
رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتْ (نوح)
ترجمہ: اے میرے رب! مجھے اور میرے والدین کو بخش دے اور جو ایمان والا میرے گھر میں داخل ہو جائے اور ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو (بخش دے)
الحمد للہ! قرآن مجید کے بیان فرمودہ چوبیس استغفار آ گئے… حضرت سلیمان علیہ السلام کا استغفار اور ملکہ بلقیس کا استغفار شامل نہیں کیا گیا …کیونکہ وہ ایسی دعاؤں پر مشتمل ہے جو کسی اور کو مانگنے کی اجازت نہیں…اللہ تعالیٰ ہمیں سچی توبہ اور سچا استغفار اور اپنی مغفرت نصیب فرمائے- آمين

:كم از كم إستغفار كا نصاب
 سو مرتبه صبح اورسو  مرتبه شام كا هر روز إستغفار كرنا كم از كم نصاب هے زياده كي كوئى حد نهيں إسي دنيا ميں إيك لاكهـ تك روزانه إستغفار پڑهنے والے بهي الحمد لله موجود هيں الله تعالى هم سب كو إس كي توفيق عنايت فرمائے - آمين
استغفر الله ربي من كل ذنب واتوب اليه
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ َأشْھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلّا اَنْتَ َأسْتَغْفِرُکَ وََأتُوْبُ اِلَیْکَ

:درود شریف
درود شریف پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے۔ ہر عام و خاص کو اسے پڑھنے کا خوب اہتمام کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے یہ چیزیں عام کردی ہیں۔ اگر آپ درود شریف زیادہ پڑھنا چاہیں تو مختصر درود شریف بھی موجود ہیں جو بہت تفصیل سے ’’فضائلِ درود شریف‘‘ میں لکھےهوئے ہیں۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلویؒ ہر مشکل کے لیے باوضو قبلہ رُخ بیٹھ کر پانچ سو مرتبہ درود شریف پڑھنا بتایا کرتے تھے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ایک درود شریف پڑھنے پر دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں، اگر کسی نے ایک ہزار مرتبہ درود شریف پڑھا تو دس ہزار رحمتیں نازل ہوں گی۔ اس کے پڑھنے کی بڑی برکات ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک سلام بھیجنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دس سلام ہیں۔ ایک درود شریف پڑھنے پر دس نیکیاں نامۂ اعمال میں لکھ دی جاتی ہیں اور دس درجات بھی بلند ہوتے ہیں، دس گناہ معاف ہوتے ہیں، چاہے صرف ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ ہی پڑھے، اس کے بھی یہی فوائد ہیں۔ پھر درود شریف کی ایک خاصیت اور ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں فرشتے بارگاہ الٰہی میں درود شریف تحفے کے طور پر پہنچاتے ہیں۔ علامہ سخاویؒ کے حوالے سے درود شریف کے یہ فضائل ہیں اللہ تعالیٰ کا بندہ پر درود بھیجنا، اُس کے فرشتوں کا درود بھیجنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس پر درود بھیجنا، درود پڑھنے والوں کی خطائوں کا کفارہ ہونا، ان کے اعمال کو پاکیزہ بنادینا، ان کے درجات کا بلند ہونا، گناہوں کا معاف ہونا۔
حضرت مولانا محمد عزیز الرحمن ہزاروی صاحب، شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلویؒ کے خلیفہ ہیں۔ فرماتےُِِِ هیں كه ایک مرتبہ حضرت شیخ الحدیثؒ ساؤتھ افریقہ کے شہر ’’لوساکا‘‘ تشریف لے گئے۔ ہم لوگوں نے ایک چھوٹا چارٹر جہاز کرائے پر لیا۔ اس میں سب حضرتؒ کے احباب ہی تھے۔ ’’لوساکا‘‘ غریب شہر ہے وہاں پر لائٹوں کا انتظام کم ہے۔ جب جہاز وہاں رات کو پہنچا تو لائٹ نہ ہونے کی وجہ سے پائلٹ کو ایرپورٹ ہی نظر نہیں آیا۔ پھر پائلٹ نے اعلان کیا کہ میں مشکل میں پھنس گیا ہوں۔ اس پر حضرت شیخ الحدیثؒ نے ہدایت کی کہ سب لوگ درودِ شريف پڑھیں۔ سب لوگ درود شریف کا ورد کرنے لگے۔ تھوڑی دیر میں پائلٹ نے بتایا کہ ایک روشنی نظر آئی ہے۔ پائلٹ نے جہاز کا رُخ اس طرف کیا تو وہ پتا چلا وہ رَن وے تو نہیں تھا، لیکن اس کے برابر والی کوئی ہموار جگہ تھی۔ تب وہاں جہاز خیر و عافیت سے لینڈ ہوگیا۔ درود شریف کے بے شمار فضائل ہیں۔ ہمارے اکابر کی کتابیں بھی درود شریف کے فضائل سے بھری پڑی ہیں۔۔ سب سے درخواست ہے کہ ان مشکل حالات میں درود شریف پڑھنے کا اہتمام کریں

:درود وسلام کی اہمیت اور أكابيرين أمت كے أقوال

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
(سورہ احزاب۔
 اللہ تعالیٰ نبی پر رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ اور فرشتے نبی کے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی نبی پر درود وسلام بھیجا کرو۔
اس آیت میں نبی اکرم ﷺ کے اس مقام کا بیان ہے جو آسمانوں میں آپ ﷺ کو حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فرشتوں میں آپ ﷺ کا ذکرفرماتا ہے اور آپ ﷺ پر رحمتیں بھیجتا ہے۔ اور فرشتے بھی آپ ﷺ کی بلندی درجات کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کو حکم دیا کہ وہ بھی آپ ﷺ پر درود وسلام بھیجا کریں۔
حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی توصحابۂ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ! سلام کا طریقہ تو ہم جانتے ہیں( یعنی نماز میں اَلسَّلَامُ عَلَيکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ۔۔۔ پڑھنا) ہم درود کس طرح پڑھیں؟ اس پر آپ ﷺ نے درود ابراہیم بیان فرمایا، جو نماز میں التحیات پڑھنے کے بعد پڑھا جاتا ہے۔  صحیح بخاری
صلاۃ کے معنی : اللہ تعالیٰ کا نبی پر درود بھیجنے کا مطلب آپ ﷺ پر رحمتیں نازل کرنا اور فرشتوں میں ان کا ذکرفرمانا ہے۔ فرشتوں یا مسلمانوں کا آپ ﷺ پر درود بھیجنے کا مطلب آپ پر رحمت نازل کرنے اور بلندی درجات کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ہے۔
درود شریف پڑھنے کے فضائل:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا، اللہ تعالیٰ اس پر ۱۰ مرتبہ رحمتیں نازل فرمائے گا۔ مسلم


رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا، اللہ تعالیٰ اس پر ۱۰ مرتبہ رحمتیں نازل فرمائے گا، اس کے ۱۰ گناہ معاف فرمائے گا اور اس کے ۱۰ درجے بلند فرمائے گا۔ (نسائی) درود شریف پڑھنے والے کے خلوص وتقوی کی وجہ سے درود شریف پڑھنے کا ثواب احادیث میں مختلف ذکر کیا گیا ہے۔


رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص مجھ پر بکثرت درود بھیجتا ہے، قیامت کے روز سب سے زیادہ میرے قریب ہوگا۔  ترمذی


رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کثرت سے درود بھیجنا (صغائر) گناہوں کی معافی کا سبب بنے گا۔  ترمذی


رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تک مجھ پر درود نہ بھیجا جائے، دعا قبولیت سے روک دی جاتی ہے۔ طبرانی


رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: رسوا ہو وہ شخص جس کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ درود نہ پڑھے ۔  ترمذی


رسول اللہ ﷺ کا اسم مبارک سن کر درود نہ پڑھنے والے کے لئے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بدعا فرمائی۔ ہلاکت ہو اس شخص کے لئے جس کے سامنے آپ ﷺ کا نام لیا جائے اور وہ درود نہ بھیجے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس پر آمین کہا۔  حاکم
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ درود نہ پڑھے وہ بخیل ہے۔  ترمذی


درودشریف کے مختلف الفاظ احادیث میں وارد ہوئے ہیں، البتہ مذکورہ الفاظ (درود ابراہیم ) سب سے افضل ہے:اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَّعَلَی آلِ مُحَمَّدٍکَمَا صَلَّيتَ عَلٰی اِبْرَاہِيمَ وَعَلَی آلِ اِبْرَاہِيمَ۔ اِنَّکَ حَمِيدٌ مَّّجِيدٌ
اے اللہ! محمد اور آل محمد پر اسی طرح رحمتیں نازل فرما جس طرح تونے ابراہیم اور آل ابراہیم پر نازل فرمائیں۔
آل محمد سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلہ میں علماء کے چند اقوال ہیں۔البتہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ آل محمد سے نبی اکرم ﷺ کی اولاد، ازواج مطہرات، صحابۂ کرام اور دین اسلام کے متبعین مراد ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
درود پڑھنے کے بعض اہم مواقع:نبی اکرم ﷺ کا اسم مبارک سنتے، پڑھتے یا لکھتے وقت درود شریف پڑھنا چاہئے جیسا کہ احادیث میں بیان کیا گیا ہے۔ صرف (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی کہا جا سکتا ہے۔
آخری تشہد میں التحیات پڑھنے کے بعد: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب کوئی نماز پڑھے تو اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا سے آغاز کرے۔۔۔ پھر تشہد میں اللہ تعالیٰ کے نبی پر درود بھیجے، اور اس کے بعد دعا مانگے۔ (ترمذی) نماز کے آخری تشہد میں التحیات پڑھنے کے بعد درود شریف پڑھنا واجب ہے یا سنت مؤکدہ ۔ اس سلسلہ میں علماء کی رائے مختلف ہیں۔البتہ ہمیں ‘ ہر نماز کے آخری تشہد میں خواہ نماز فرض ہو یا نفل درود شریف پڑھنے کا خاص اہتمام کرنا چاہئے۔
:اذان سننے کے بعد دعا مانگنے سے پہلے 
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب مؤذن کی اذان سنو تو وہی کلمات دہراؤ جو مؤذن کہتا ہے۔ پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ مجھ پر درود پڑھنے والے پر اللہ تعالیٰ دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ ۔۔ پھر اذان کے بعد کی دعا (اللّٰہُمَّ رَبَّ ہذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ ......................) پڑھو ۔۔۔۔  مسلم


:جمعہ کے دن کثرت سے درود شریف پڑھیں: 
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے روز مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، جو آدمی جمعہ کے روز مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔  حاکم وبیہقی
کوئی بھی دعا مانگنے سے قبل اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد درود شریف پڑھیں: ایک شخص (مسجد میں ) آیا، نماز پڑھی اور نماز سے فراغت کے بعد دعا کرنے لگا۔ یا اللہ مجھے معاف فرما، مجھ پر رحم فرما۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے شخص ! تونے دعا مانگنے میں جلدی کی۔ جب نماز پڑھو اور دعا کے لئے بیٹھو تو پہلے حمد وثنا پڑھو، پھر مجھ پر درود بھیجو، پھر اپنے لئے دعا کرو ۔  ترمذی
جب بھی موقع ملے درود شریف پڑھیں: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری قبر کو میلہ نہ بناؤ اور نہ ہی اپنے گھر کو قبرستان بناؤ۔ تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر درود بھیجتے رہو۔ تمہارا درود مجھے پہنچا دیا جاتا ہے۔  مسند احمد

٭جو مجھ پر درود پڑھنا بھول گیا وہ جنت کا راستہ بھول گیا۔ (الحديث 
٭ درودشریف گناہوں کو ایسے مٹادیتا ہے جس طرح بھڑکتی ہوئی آگ کو پانی بجھا دیتا ہے۔ (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) ٭

اہل سنت والجماعت کی علامت اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پاک کی کثرت سے بھیجنے سے ہے۔ (حضرت زین العابدین رحمة اللہ علیہ)

٭مجلسوں کی زینت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنا ہے۔ لہٰذا مجالس کو درود شریف سے آراستہ کرو۔ (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ )

٭ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنا جنت کا راستہ ہے۔
(حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ )

٭ درود پاک کا پڑھنا‘ درود پاک پڑھنے والے‘ اس کی اولاد اور اولاد کی اولاد کو رنگ دیتا ہے۔ (حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا) ٭ 

جمعہ کے دن علم کی اشاعت کرو اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود شریف پڑھا کرو۔ (حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ)

٭ ٭ میں اس چیز کو محبوب رکھتا ہوں کہ ہر مسلمان ہر حال میں درود شریف کثرت سے پڑھے۔ (حضرت امام شافعی رحمة اللہ علیہ)

٭رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنا سب عملوں سے افضل ہے۔ (حضرت ابن نعمان رحمة اللہ علیہ)

٭ اللہ تعالیٰ بھی درود شریف پڑھتا ہے اور فرشتے بھی حالانکہ فرشتے شریعت کے پابند نہیں مگر درود شریف پڑھ کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔
(حضرت حلیمی رحمة اللہ علیہ)

٭ اے ایمان والو! تم مسجدوں میں نماز پڑھنا اور اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف کی کثرت کو لازم کرلو۔ (سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ علیہ)

٭رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنا خوشیوں کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور نقصان والی چیز سے بچنے کا راستہ ہے۔
(حضرت علامہ عراقی رحمة اللہ علیہ)

٭حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنا ہر خیر اور انوارو اسرار حاصل کرنے کی چابی ہے۔ (حضرت سیدناابوالعباس رحمة اللہ علیہ)

٭ اس محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے اولیٰ اور اعلیٰ افضل اور اکمل ذکر پاک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنا ہے۔
(حضرت امام قسطلانی رحمة اللہ علیہ)

٭ جس کو کوئی حاجت پیش آئے تو ہزار بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پوری توجہ اور ادب کے ساتھ درود شریف پڑھے اور دعا مانگے انشاءاللہ حاجت پوری ہوگی۔
(سید مکرم علی خواصی رحمة اللہ علیہ)

٭ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جو درود شریف کے راستے سے آئے گا اس کو رد ہونے کا کوئی خوف نہیں۔ (شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ)

٭ یاالٰہی درود شریف بھیج اُس ذاتِ گرامی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر جس پر درود شریف سے اولیائے کرام کے درجے بلند ہوتے ہیں۔ (حضرت شیخ المشائخ سید سلیمان جزولی رحمة اللہ علیہ)

٭ جو شخص حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو گناہوں سے یوں پاک کردیتا ہے جس طرح پانی کپڑے کو پاک کردیتا ہے۔ ( بحوالہ القول البدیع)


٭ اہل محبت کو چاہیے کہ درود شریف پڑھنے پر صبرو استقلال کیساتھ ہمیشگی کریں۔ (حضرت شیخ اکبر ابن عربی رحمة اللہ علیہ)

٭ درودشریف گناہوں کو ایسے مٹادیتا ہے جس طرح بھڑکتی ہوئی آگ کو پانی بجھا دیتا ہے۔ (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ)
٭ اے بھائی اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے راستوں میں سے قریب ترین راستہ اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنا ہے۔ (حضرت امام شعرانی رحمة اللہ علیہ)

٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنا صدقہ نہ ہونے کی صورت میں صدقہ کے قائم مقام ہوجاتا ہے۔ (حضرت حافظ بن حبان رحمة اللہ علیہ)

٭حضرت شیخ عبدالوہاب متقی رحمة اللہ علیہ نے جب اپنے خاص الخاص پیارے مرید شیخ عبدالحق رحمة اللہ علیہ کو مدینہ منورہ کی زیارت کے واسطے رخصت کیا تو فرمایا کہ ”یاد رکھ کہ اس راہ میں بعد از ادائیگی فرض کوئی بھی عبادت اگر فرض کے برابر ہے تو صرف درود شریف پڑھنا ہے تم کو چاہیے کہ تمام وقت اس میں صَرف کرو۔“ ٭شیخ عبدالحق رحمة اللہ علیہ نے عرض کی اس میں کوئی خاص عدد ہو تو فرمائیے تاکہ میں اس قدر پڑھوں۔ حضرت نے فرمایا کوئی عدد نہیں۔ اتنا پڑھو کہ تمہاری زبان اس میں تر ہوجائے اور تو اس رنگ میں رنگین ہوجائے۔
(حضرت عبدالوہاب متقی رحمة اللہ علیہ)

٭ درودشریف پڑھنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ روح انسانی جو ضعیف ہے اللہ تعالیٰ کے انوار کی تجلیات قبول کرنے کی طاقت حاصل کرلے۔
(حضرت امام فخرالدین رازی رحمةاللہ علیہ)

٭ جو ایک کروڑ مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھے وہ حکیم الامت بن سکتا ہے۔ (حضرت علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ)

٭ مشرق و مغرب کے علوم نے مجھے چنداں نفع نہیں پہنچایا‘ مجھے نفع تو صرف پہنچایا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰہ و درود نے۔
(حضرت علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ)

٭ ہر اہل ایمان کو چاہیے کہ درودشریف کثرت سے پڑھے اور کسی حال میں بھی درودشریف سے غافل نہ رہے۔ (حضرت قاضی ابوبکر بن بکیر رحمة اللہ علیہ

٭ حضوراقدس کی ذات انور پر درود و سلام عرض کیے بغیر دعا زمین و آسمان کے درمیان معلق رہتی ہے۔
٭ جو شخص حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجے جس وقت کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک نام کا ذکر کیا جارہا ہو پس وہ پکا بخیل ہے اور اتنا اضافہ کر اس پر کہ وہ بزدل نامرد بھی ہے۔
(حضرت علامہ سخاوی رحمة اللہ علیہ

اگر مجھے ذکر خدا کے بھول جانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں قربِ الله تعالیٰ کو صرف درود مصطفی صلی اللہ علیہوآله وسلم کے ذریعے حاصل کرتا۔
(سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ)

٭ جس کو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک پر درود پڑھتے دیکھوں تو اُس کا احترام کرتا ہوں۔ اسے اپنی طرف متوجہ نہیں کرتا۔ اپنی ضرورت موخر کردیتا ہوں کیونکہ وہ اس مصروفیت میں اللہ تعالیٰ اور حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم نشین ہوتا ہے۔ (امام عبدالوہاب شعرانی رحمة اللہ علیہ) ٭صفاءقلب کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا دنیوی و اُخروی تمام مقاصد کے حصول کا ضامن اور تمام مشکلات کا حل ہے جو شخص اس پر عمل کرے گا وہی اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑھ کربرگزیدہ ہوگا۔

:درود شریف کے فضائل

وَ اَحْسَنُ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَین   *    وَ اَجْمَلُ مِنْکَ لَمْ تَلِدِالنِّسَاء
خُلِقْتَ مُبَرَّ أً مِنْ کُلِّ عَیبٍ        *    کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَآء
کسی آنکھ نے تجھ سے زیادہ خوبصورت شخص نہیں دیکھا
تجھ سے زیادہ صاحبِ جمال کبھی کسی عورت نے نہیں جنا
تو ہر عیب سے اس طرح پاک و صاف ہے
جیسے تو اپنی مرضی اور پسند سے پیدا ہوا ہے
(شاعرِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ)
* اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے
اِنَّ اﷲَ وَ مَلئکتہ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ط یَا یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیمًا
(سورۃ الاحزاب)
ترجمہ:بے شک اﷲ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پردرود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو ! تم (بھی) ان پر درود اور خوب سلام بھیجو ۔
درود شریف کا مطلب :عربی زبان میں (صلوٰۃ) چند معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ مثلاً : مدح و ثنأ ، تعریف ، رحمت ، دُ عا اور استغفار وغیرہ ۔
اس آیتِ مبارکہ میں اﷲ رب العالمین کی طرف صلوٰۃ کی جو نسبت وارد ہوئی ہے، اس سے مراد ﷲ تعالیٰ کا فرشتوں کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ثنأ اور تعریف و توصیف کرنا ہے اور ان پر اپنی رحمتِ مخصوصہ نازل فرمانا ہے۔اور فرشتوں کی طرف سے صلوٰۃ ان کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے دُ عائے رحمت و مغفرت کرنا ہے۔ اور ایمان والوں کی طرف سے صلوٰۃ کا مفہوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ثنأ اور تعریف و توصیف اور رحمت کی دُ عا کرنا ہے۔
( مفسرِ قرآن عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ )

* حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اﷲ تعالیٰ کے ارشاد ( اِنَّ اﷲَ وَ مَلئِکتہ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ط)کی تفسیر میں فرمایا کی اسکا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کرتا ہے اور ان کی مغفرت فرماتا ہے اور فرشتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے دُعائے اِ ستغفار کا حکم دیتا ہے
( یِاَ یُّھَاالَّذِينَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیمًا ) کا مطلب یہ ہے :اے ایمان والو ! تم اپنی نمازوں میں انکی تعریف و توصیف کرو اور اپنی مساجد میں اور ہر جگہ پر اور نکاح کے خطبہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ثنأ کرو، کہیں بھی آپ کو نہ بھولنا چاہئیے ۔ (بحوالہ القول البدیع )
* حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! تم میں سے کوئی شخص جب تک اپنی نمازکی جگہ بیٹھا رہے اور اسکا وضو نہ ٹوٹے تب تک فرشتے اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں اور یوں کہتے ہیں : یاﷲ ! اس کو بخش دے اس پر رحم فرما ۔ (بخاری شریف)

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود شریف پڑھتا ہے ، اﷲ رب العالمین اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ۔ (مسلم ، نسائی ، ترمذی )

 حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود شریف پڑھے گا ،تو اﷲ رب العالمین اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا ۔ اور اس کی دس خطائیں معاف کی جائیں گی ، اور اس کے دس درجے بلند کئے جائیں گے ۔  نسائی ، مسند احمد ، مستدرک حاکم )

 حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود شریف پڑھتا ہے ، اﷲ رب العالمین اس پر ستر رحمتیں نازل فرماتا ہے ۔ اور فرشتے ستر مرتبہ دُ عائے رحمت کرتے ہیں ۔ ( نسائی )
 حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! جو شخص مجھ پر بکثرت درود شریف پڑھتا ہے ، قیامت کے روز وہ سب سے زیادہ میرے قریب ہو گا ۔ (ترمذی)

 حضرت عبد ا ﷲ بن عمرو رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !جس نے مجھ پر درود شریف بھیجا یا میرے لئے اﷲ رب العالمین سے وسیلہ ( جنت میں بلند مقام ) مانگا ، اس کے لئے میں قیامت کے روز ضرور سفارش کروں گا ۔ (اسے اسماعیل قا ضی نے روایت کیا )

 حضرت ابی بن کعب رضی اﷲٰ عنہ کہتے ہیں میں عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میں کثرت سے درود شریف پڑھتا ہوں ، اپنی دُ عا میں سے کتنا وقت درود شریف کیلئے وقف کروں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !جتنا تو چاہے میں عرض کیا : ایک چو تھائی صحیح ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !جتنا تو چاہے ، میں عرض کیا : نصف وقت مقرر کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جتنا تو چاہے ، لیکن اگر اس سے زیادہ کرے تو تیرے لئے اچھا ہے۔ میں عرض کیا : دو تہائی مقرر کروں ؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! جتنا تو چاہے ، لیکن اگر زیادہ کرے تو تیرے ہی لئے بہتر ہے ۔ میں نے عرض کیا ،میں اپنی ساری دُ عا کا وقت درود شریف کیلئے وقف کرتا ہوں ۔ اس پر رسول اﷲ نے فرمایا ! یہ تیرے سارے دکھوں اور غموں کیلئے کافی ہو گا اور تیرے گناہوں کی بخشِش کا باعث ہو گا ۔ (ترمذی)

 حضرت ابو درداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! جس نے دس مرتبہ صبح دس مرتبہ شام کے وقت مجھ پر درود شریف پڑھا ، اسے روزِ قیامت میری سفارش حاصل ہو گی ۔ (طبرانی)

 حضرت عبدالله بن مسعود رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں نماز پڑھ رہا تھا کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابو بکر و عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما تشریف فرما تھے۔ میں (دُ عا کیلئے) بیٹھا تو پہلے اﷲ رب العالمین کی حمد و ثنأ کی پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجا، پھر اپنے لئے دُ عا کی تو امام الانبیاء رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! اﷲ سے مانگو ضرور دئیے جاؤ گے ، اﷲ سے مانگو ضرور دئیے جاؤ گے ۔ (ترمذی )

 رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! جب تک کوئی مسلمان مجھ پر درود شریف بھیجتا رہتا ہے ، اس وقت تک فرشتے اس کے لئے دُعا ئے رحمت کرتے رہتے ہیں ، اب جو چاہے کم پڑھے جو چاہے زیادہ پڑھے ۔ (اسماعیل قاضی)

:د رود شریف  نہ پڑھنے پر وعیديں 
 حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ، رسول اﷲ نے فرمایا ! رسوا ہو وہ آدمی جس کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ درود شریف نہ پڑھے۔ رسوا ہو وہ آدمی جس نے رمضان کا پورا مہینہ پایا اور وہ اپنے گناہ نہ بخشوا سکا ، رسوا ہو وہ آدمی جس کے سامنے اس کے ماں باپ یا دونوں میں سے ایک بڑھاپے کی عمر کو پہنچے اور وہ انکی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہوا ۔ (ترمذی

حضرت کعب بن عجرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ،ایک روز رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم منبر لانے کا حکم دیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا : آمین ! پھر دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا : آمین ! پھر تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا : آمین !خطبہ سے فارغ ہونے کے بعدجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے تو صحابہ اکرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا :آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی بات سنی جو اس سے پہلے نہیں سنی تھی ۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جبریل علیہ السلام تشریف لائے اورکہا ہلاکت ہے اس آدمی کیلئے جس نے رمضان کا پورا مہینہ پایا اور وہ اپنے گناہ نہ بخشوا سکا ۔میں نے جواب میں کہا :آمین ۔پھر جب میں نے دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو جبریل علیہ السلام نے کہا :ہلاکت ہو اس آدمی کیلئے جس کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا جائے اور وہ درود شریف نہ پڑھے۔میں نے جواب میں کہا :آمین ۔پھر جب میں نے تیسری سیڑھی پر قدم رکھا ،تو جبریل علیہ السلام نے کہا :ہلاکت ہو اس آدمی کیلئے جس کے سامنے اس کے ماں باپ یا دونوں میں سے ایک بڑھاپے کی عمر کو پہنچے اور وہ انکی خدمت کرکے جنت حاصل نہ کی ۔میں نے جواب میں کہا :آمین ۔ (حاکم)

حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ درود شریف نہ پڑھے وہ بخیل ہے ۔ (ترمذی)

 حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس مجلس میں لوگ اﷲ کا ذکر نه کریں نہ هي نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھیں ، وہ مجلس قیامت کے دن ان لوگوں کیلئے باعثِ حسرت ہوگی خواہ وہ نیک اعمال کے بدلے جنت میں ہی کیوں نہ چلے جائیں ۔ (احمد ، ابنِ حبان ، حاکم )

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو مجھ پر درود شریف پڑھنا بھول گیا ، اس نے جنت کا راستہ کھودیا ۔ (ابنِ ماجہ )
 حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف نہ پڑھا جائے ، کوئی دُ عا قبول نہیں کی جاتی ۔ (رواہ الدیلمی)

 حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: جب تک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف نہ پڑھا جائے ،آدمی کی دُ عا زمین و آسمان کے درمیان لٹکتی رہتی ہے ۔ (ترمذی)
أحاديث مباركه سے ثابت شدہ درود شریف کے الفاظ
 اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلٰی اِبْرَاھِیمَ وعلی اٰلِ اِبْرَاھیمَ اِنَّکَ حَمِید’‘ مَّجِیْد’‘ ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیمَ اِنَّکَ حَمِید’‘ مَّجِید’‘
ترجمہ: اِلٰہی ! رحم و کرم فرما! محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر اورمحمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی آل پر ،جس طرح آپ نے رحم و کرم فرمایا ، ابراھیم (علیہ السلام) پر اور ابراھیم (علیہ السلام) کی آل پر ، بیشک آپ ہیں تعریف کے لائق اور بزرگی والے۔ اے اﷲ! برکت نازل فرما ، محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی آل پر ،جس طرح آپ نے برکت نازل کی ،ابراھیم (علیہ السلام) پر اور ابراھیم (علیہ السلام) کی آل پر ، بیشک آپ ہیں تعریف کے لائق اور بزرگی والے۔ (بخاری شریف)

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اَزْوَاجِہ وَ ذُرِّ یَّتِہ کَمَاصَلَّیتَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیمَ وَ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلی اَزْوَاجِہ وَ ذُرِّ یَّتِہ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْد’‘ مَّجِیْْد’‘۔
ترجمہ: اِلٰہی ! محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر اوران کی ازواجِ مطہرات اور ان کی اولاد پراس طرح آپ رحم و کرم فرماجس طرح تو نے ابراھیم (علیہ السلام) پر درود بھیجا۔اور اِلٰہی ! محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر اوران کی ازواجِ مطہرات اور ان کی اولاد پراس طرح برکتیں نازل فرما ، جس طرح تو نے برکتیں نازل کی، ابراھیم (علیہ السلام) پر۔ بیشک آپ ہیں تعریف کے لائق اور بزرگی والے۔ (بخاری ، مسلم ابو دوؤد ، نسائی)

 اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ وَ اَزْوَاجِہ اُمَّھَاتِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ ذُرِّ یَّتِہ وَ اَھْلِ بَیتِہ کَمَاصَلَّیتَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیمَ اِنَّکَ حَمِیْد’‘ مَّجِیْْد’‘ ۰
ترجمہ: اِلٰہی ! محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر اوران کی ازواجِ مطہرات امہات المومنین اور ان کی اولاد و اھل بیت پراس طرح آپ رحم و کرم فرماجس طرح تو نے آلِ ابراھیم (علیہ السلام) پر درود بھیجا۔ بیشک آپ ہیں تعریف کے لائق اور بزرگی والے۔( سنن ابو دوؤد )

 اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَ رَسُوْلِکَ کَمَا صَلَّیتَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیمَ وَ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیمَ ۰
ترجمہ: اِلٰہی !اپنے بندے اور اپنے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر اس طرح رحمتیں نازل فرمایا ،جس طرح تو نے ابراھیم (علیہ السلام) پر اور ان کی آل پر نازل فرمائیں،محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر اور آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ،اسی طرح برکتیں نازل فرما، جس طرح تو نے ابراھیم (علیہ السلام) پر نازل فرمائیں
(بخاری شریف،سنن نسائی ، مسند احمد )

 اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الْاُ مِّیْ وَ علیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلٰی اِبْرَاھِیمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِيمَ وَ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الْاُ مِّیْ وَ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیمَ اِنَّکَ حَمِید’‘ مَّجِید’‘ ۔
ترجمہ: اِلٰہی ! رحم و کرم فرما!اُمّی نبی محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر اورمحمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی آل پر ،جس طرح آپ نے رحم و کرم فرمایا ، ابراھیم (علیہ السلام) پر اور ابراھیم (علیہ السلام) کی آل پر ، اے اﷲ! برکت نازل فرما ، اُمّی نبی محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی آل پر ،جس طرح آپ نے برکت نازل کی ،ابراھیم (علیہ السلام) پر اور ابراھیم (علیہ السلام) کی آل پر ، بیشک آپ ہیں تعریف کے لائق اور بزرگی والے۔
(مسند احمد ، سنن دارقطنی ، مستدرک حاکم)

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَ رَسُوْلِکَ وَ صَلِّ عَلَی الْمُؤْ مِنِینَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِینَ وَ الْمُسْلِمَاتِ 
ترجمہ: اِلٰہی !اپنے بندے اور اپنے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر رحمتیں نازل فرمایا ، اور رحم و کرم فرما ،مومنین و مومنات پر اور مسلمین و مسلیمات پر ۔
(صحیح ابن حبان)

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ ۰
ترجمہ: اِلٰہی ! رحم و کرم فرما! محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی آل پر ۔ (نسائی شریف)

جيسا كه أحاديث مباركه ميں گزرا كه دورود شريف زياده سے زياده پڑهنے كي كوشش كي جائے- درود شريف كا كم از كم نصاب روزانه 300 مرتبه بتايا جاتا هے اگر بالفرض يه بهي نه هو تو 100 مرتبه صبح اور 100 مرتبه شام تو ضرور پڑهنے كا معمول بنا لينا چاهيے الله تعالى هم سب كو إس كي توفيق عنايت فرمائے- آمين ثم آمين

:تیسرا کلمہ تمجید 

: فضائل و برکات
سُبْحَانَ اللَّهِ ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ ، وَلا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ ، َََََََََُُِّْ وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ
عصرِ حاضر میں اہلِ اسلام کی پریشانیوں کی عمومی وجوہات دین سے دوری، اسلامی تعلیمات پر عمل نہ کرنا، اللہ تعالٰی کی ناراضگی اور رسول اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی شریعت و سنت کے خلاف ورزی ہیں۔ بقا کو چھوڑ کر فنا ہونے والی دنیا کی پوجا، نفس پرستی، اللہ کی رضا کی بجائے اپنی منشاء و رضا مندی کے حصول کی کوشش، کتاب و سنت کو خود پر نافذ کرنے کی بجائے اسلام کو اپنی مرضی کے زاویے سے دیکھنا، اپنی سہولت کے لئے دین میں نرمی اور آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش اور اصلاح کرنے والے سے یہ امید رکھنا کہ وہ ہماری مرضی کے مطابق دین و شریعت کو بیان کرے، طرزِ معاشرت، آداب زندگی، شرعی قوانین، فقہی مسائل، انبیاء کرام علیہم السلام، اصحاب و اولیاء کرام علیہم الرضوان کی تعلیمات سے فیض یاب ہونے کی بجائے اپنی اصطلاحات کو متعارف کروانا اور پھر اس پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنا۔ یہ وہ تمام مسائل ہیں جنہوں نے اہلِ اسلام کی زندگی میں رکاوٹیں، پریشانیاں اور نفسیاتی مسائل کے پہاڑ کھڑے کر دئیے ہیں۔ اس سلسلہ میں انفرادی طور پر ہم سب بھی إس جرم میں برابر کے شریک ہيں۔
دنیا بھر میں موجود مسلمان بہنوں اور بھائيوں كي اکثریت کا مسئلہ ذہنی پریشانی اور بے سکونی سے ہی شروع ہوتا ہے۔ جب شیطان ذہن پر حاوی ہوجاتا ہے پھر میاں بیوی کے جھگڑے، اولاد کی نافرمانیاں، نماز میں دل نہ لگنا، کاروبار میں بے برکتی، شادی و نکاح میں رکاوٹ، صحت کی خرابی، دماغی کیفیت میں رد و بدل اور بہت کچھ۔ الغرض جب کسی کے دل سے الله تعالى اور اسكے رسول صلى الله عليه وآله وسلم كي محبت اور اطاعت اٹھ جائے، احکامِ الٰہیہ کہ خلاف ورزی شروع ہو جائے تو پھر شیطان اپنے راستے ہموار کر لیتا ہے۔ اس ساری کیفیت کو ہمارے لوگ جادو ٹونه سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ حقیقت میں یہ جادو نہیں ہوتا بلکہ ذكر الله سے دوري كي وجه سے شیطان کا حملہ ہوتا ہے۔ ایسے پريشان حال لوگ جب عاملین سے رابطہ کرتے ہیں تو بہت سارے عامل اس پریشانی میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں۔ کوئی اسے جنّات کا حملہ کہے گا تو کوئی کالا اور سفلی علم اس سے لوگوں کی پریشانی میں شدید اضافہ ہو جاتا ہے۔ لوٹنے والے عامل حضرات علاج كے بهانه سے كافي پیسے مانگتے ہیں اورإس طرح ہزاروں روپے بلا مقصد غرق کر دئیے جاتے ہیں اور پهر يه سلسله چلتا هي رهتا هے ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ان ساری پریشانیوں سے نجات کے لئیے قرآن و سنت کے مطابق اور اولیاء کاملین کے فرامین پر عمل کر کے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ بنیادی طور پر ان مسائل میں مبتلا لوگوں کو اللہ تعالى کے قریب لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اگر سوا لاکھ کلمہ پڑھنے کی ہدایت کر دی جائے اور قرآن کریم کی لمبی لمبی سورتیں پڑھنے کو بتا دی جائیں تو وہ کبھی بھی اس پر عمل نہیں کریں گے۔ جو بندہ نماز کے لئیے وضو کرنے کو تیار نہیں وہ لمبے لمبے وظائف کیسے کرے گا؟ ایسوں کو ابتدائی طور پر توبہ و استغفار کی طرف لایا جائے اور کسی باعمل شخص سے اس کی بھلائی کی دعا کروائی جائے تاکہ اس کے دل کی حالت بدلے اور وہ ہدایت پا جائے۔
تمام بزرگان دين سے ایک سبق ملتا هے وه يه کہ ذہنی، نفسیاتی اور معاشرتی مسائل کے شکار ہر انسان کو اللہ تعالى کے قریب لاؤ۔ توبہ و استغفار کی طرف راغب کرو۔ اس سلسلہ میں استغفار کی کثرت اور تیسرا کلمہ کا ورد اکسیر ثابت ہوا۔ حضرت شيخ الحديث مولانا ذكريا صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے جانشین سمیت تقريباً سبهی بزرگوں کا يه معمول رها هے کہ وہ روحانی علاج استغفار اور تیسرا کلمہ (كلمه تمجيد )سے شروع فرماتے ہیں۔ تیسرا کلمہ کیا ہے؟ اس کی برکات کیا ہیں؟ ضرور ملاحظہ فرمائیے اور اپنی زندگی میں اس کا تجربہ کیجئیے۔

تیسرا کلمہ پانچ اوراد اور وظائف کا مجموعہ ہے۔
سُبْحَانَ اللَّهِ ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ ، وَلا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ ، َََََََََُُِّْ وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ
أول الذكر تینوں وہ کلمات ہیں جن کو تسبیحِ فاطمه بھی کہا جاتا ہے۔ مخدومہ کائنات ہمارے رسول صلى الله عليه وآله وسلم کے جگر کا ٹکڑا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے۔ پھر رسول أكرم صلى الله عليه وآله وسلم نے جب یہ وظیفہ سیدہ فاطمہ رضي الله تعالى عنها کو عطا فرمایا تو اس وقت یہ بھی فرمایا کہ اس کے بدلے میں اللہ تعالٰی سو غلاموں کو آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا۔ سبحان اللہ۔ (ہر نماز کے بعد اور سونے سے پهلے بالترتیب 33-33-34 مرتبہ) ۔
اسی طرح اس میں کلمہ طیبہ کا جز بھی شامل ہے۔ "لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ۔ پھر آخر میں "لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ اللہ کی تسبیح، حمد، کبریائی کے ساتھ ساتھ اس کے معبودِ برحق ہونے اور ہر تقدیر پر قادر ہونے کا اعتراف و اقرار بھی اس میں موجود ہے۔

اسی طرح علماء کرام نے اس کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالى عنہٗ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عرش بنایا اور فرشتوں کو اسے اٹھانے کا حکم دیا تو فرشتوں کو عرش بہت وزنی محسوس ہوا اس وقت فرشتوں کوسُبْحَانَ اللَّهِ پڑھنے کو کہا چنانچہ اس کو پڑھتے ہی عرش اٹھانا آسان ہوگیا فرشتے برابر اس کلمے کو پڑھتے رہے یہاں تک کہ حضرت آدم علیہ السلام وجود میں آئے اور ان کو چھینک آئی تو الْحَمْدُ لِلَّهِ پڑھنے کا حکم دیا اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا یرحمک اللہ۔ فرشتوں نے یہ کلمہ سنا توسُبْحَانَ اللَّهِ کے ساتھ الْحَمْدُ لِلَّهِ بھی پڑھنے لگے، حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ آیا تو بت پرستی کے خلاف اللہ نے حکم دیا کہ قوم کو لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی تلقین کرو۔ فرشتوں نے اس کو بھی ملا کر پڑھنا شروع کردیا حتیٰ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ آیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا حکم ملا۔ تعمیل کرنے لگے تو جنت سے جبرائیل علیہ السلام دنبہ لیکر آئے کہ اسماعیل علیہ السلام کی جگہ اس کو قربان کردو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے خوشی سے نکلا اللَّهُ أَكْبَرُ۔ فرشتوں نے اس کو بھی ملالیا اور یوں پڑھنے لگے یہاں تک کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلى الله عليه وآله وسلم کا زمانہ آیا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے یہ واقعہ آپ صلى الله عليه وآله وسلم کو سنایا تو آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے اظہار تعجب کیلئے فرمایا لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ فرشتوں نے یہ بھی ساتھ ملا لیا اور یوں تیسرا کلمہ مکمل ہوا۔

 رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو احد پہاڑ کے برابر عمل کرلیا کرے؟ عرض کیا کہ وہ کیسے یارسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم؟ آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کہ ہر شخص کرسکتا ہے کیونکہ سُبْحَانَ اللَّهِ پڑھنے کا ثواب احد سے زیادہ ہے۔ ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ کا ثواب احد سے زیادہ ہے۔ "لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ کا ثواب احد سے زیادہ ہےاللَّهُ أَكْبَرُ کا ثواب احد سے زیادہ ہے

ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک دن درخت لگارہے تھے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم ان کے پاس سے گزرے اورفرمایا:'' ابوہریرہ (رضي الله تعالى عنه ) تم کیا لگا رہے ہو؟'' میں نے عرض کیا کہ میں درخت لگا رہا ہوں ، آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: ''کیا میں تمہیں اس سے بہتر درخت نہ بتاؤں ؟'' انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ آپ ضرور بتلائیے اللہ کے رسول صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا:'' تم ''سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ'' کہا کرو، تو ہر ایک کلمہ کے بدلے تمہارے لئے جنت میں ایک درخت لگایا جائے گا 
فائده : اس میں چار کلمے ہیں تو ایک بار کہنے سے جنت میں چار درخت لگائے جائیں گے، اسی طرح دوبار کہنے سے آٹھ درخت ، امید ہے کہ ہر ایک مؤمن نے ان کلموں کو هزاروں بلكه لاکھوں بار پڑھا ہو، اور جنت کے اندر اس کی زمین میں لاکھوں درخت لگائے گئے ہوں۔
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا:'' چار کلمے تمام کلمات سے بہتر ہیں اور جس سے بھی تم شروع کروتمہیں کوئی نقصان نہیں، وہ یہ ہیں ''سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ'' (اللہ کی ذات پاک ہے، ہر قسم کی حمد وثناء اللہ ہی کو سزا وار ہے، اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور اللہ بہت بڑا ہے)

فائده: چا ہے پہلےسُبْحَانَ اللَّهِ کہے، چاہے الْحَمْدُ لِلَّهِ، چاہے اللَّهُ أَكْبَرُ، چاہے:''لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ '' اگر اس کے بعد یہ بھی ملائے ''وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ '' تو اور زیادہ ثواب ہے ۔
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے مجھ سے فرمایا:'' تم '' سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ،وَلا إِلَهَ إِلا اللَّهُ،وَاللَّهُ أَكْبَرُ'' کہنے کو اپنے اوپر لازم کرلو ،کیونکہ یہ کلمے گناہوں کو ایسے جھاڑ دیتے ہیں جیسے درخت اپنے (پرانے) پتے جھاڑ دیتا ہے'' ۔
رسولِ كريم صلى الله عليه وآله وسلم کی زبان مبارک اور پھر اولیاء صالحین و کاملین کے عمل سے ثابت ہوا کہ اس کلمہ میں کوئی انمول خزینہ ضرور چھپا ہوا ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم نے تو اس میں موجود کلمات کو احد جیسے بلند مرتبت پہاڑ سے بھی زیادہ با برکت قرار دیا۔ بزرگانِ دین نے اس کے بہت سے فضائل لکھے۔ جنهون نے يقين كيساتهـ إس كلمه كا ورد كيا الحمدللہ برکتیں نصیب ہوئیں۔ اگر کہیں کمی ہو تو وہ اپنے یقین اور اعتماد میں ہوتی ہے۔
ذہنی سکون، گھریلو پریشانیاں، میاں بیوی کے اختلافات، رزق میں تنگی، کاموں میں رکاوٹ، مقدمات میں پریشانی، عبادات میں دل لگانے کے لئے، روحانی ترقی پانے کے لئے، جادو، شیطانی اثرات اور جنات سے نجات پانے کے لئے الغرض ایک مسلمان کے ہر روحانی مسئلے کے حل کے لئے تیسرا کلمہ ایک عظیم نعمت ہے۔ بعض عاملين ِ جنات کی حاضری تک کے لئے تیسرا کلمہ کی مدد لیتے ہیں اور بھرپور کامیابی و فائدہ ہوتا ہے۔ جس قدر ایمان پختہ اور یقین مضبوط ہو گا اتنی ہی لذت و حلاوت بهي محسوس ہو گی۔
ذہنی، کاروباری اور بد اثرات کے مسائل کے لئے، نمازِ فجر سے پہلے یا بعد میں 100 بار درود شریف، پھر 100 بار تیسرا کلمہ پڑھیں۔ اسی طرح مغرب يا عشاء کے بعد یہ عمل کریں۔
اگر کوئی مشکل کام درپیش ہو، سختی کا وقت ہو یا کوئی مہم در پیش ہو ، حاسدین سے حفاظت کی ضرورت ہو تو بعد نمازِ عشاء 111 بار "یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیْثُ" کے ساتھ ملا کر پڑھیں۔ ان شاء اللہ رحمت إلهي کا نزول ہو گا۔
تمام خواتین و حضرات جو روحانی علاج کے طالب ہیں ، روزانہ سو مرتبه صبح اور سو مرتبه شام تیسرا کلمہ اپنے ورد میں شامل کر لیں۔ ہر نماز کے بعد کم از کم 11 بار یا 3 بار اپنے معمول میں شامل کر لیں۔ اگر اللہ کی تسبیح و تحمید اور استغفار آپ کے معمول میں شامل رہے تو ان شاء اللہ کسی عامل کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ نہ آپ کا وقت اور پیسہ ضائع ہو گا اور نہ ہی آپ کے کسی كام میں رکاوٹ ہو گی۔ ان شاء اللہ۔ - الله تعالى هم سب كو إس كي توفيق عنايت فرمائے (آمين ثم آمين

:تيسرا كام :  ذكر الله كي توفيق كيلئے الله تعالى سے خوب خوب دعا كرنا
جيسا كه عرض كيا جا چكا كه هر نمبر كي محنت كے لئے سب سے پہلے إس کی دعوت ہے ، دوسرا كام إس كي مشق كرنا هے إس سب كے بعد كاميابي دينے والي ذات صرف اور صرف الله تعالى كي هے إس لئے دعوت اور محنت كا عمل كرنے كے بعد تيسرا اور آخرى كام الله تعالى سے رو رو كر اور گڑگڑا كر دعا مانگني بهت ضرورى هے.
اللہ تعالی کو یہ بات بہت پسند ہے کہ اس سے مانگا جائے، ہر چیز کے لئے امید اسی سے لگائی جائے، بلکہ جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ تعالی اس پر غضبناک ہوتا ہے، اسی لیے اپنے بندوں کو مانگنے کیلئے ترغیب بھی دلاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ}
ترجمہ: اور تمہارے رب نے کہہ دیا ہے کہ: مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کرونگا۔
[غافر ]
اللہ سے دعا مانگنے کا دین میں بہت بلند مقام ہے، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے یہاں تک فرما دیا: (دعا ہی عبادت ہے) ترمذی - ابو داود - ابن ماجہ
كلمه طيبه (لا إله إلا الله محمد رسول الله ) - نماز اور علم ميں دعا كے متعلق ذرا تفصيل سے بيان
كرديا هے تاهم يهاں پر روزمرة كي (40) مسنون دعائيں مع ترجمه تحرير كي جائيں گى


چالیس دعائیں ترجمہ کےساتھ

:١.سونے كي دعا
اَللّٰهُمَّ بِاسْمِكَ اَمُوْ تُ وَاَحْيٰي.
اے اﷲ تعاليٰ ميں تيرے نام پر مرتا هوں اور جيتا هوں.

:٢.جاگنے كي دعا
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَحْيَانَا بَعْدَمَآ اَمَاتَنَا وَاِلَيْهِ النُّشُوْرُ.
تمام تعريفيں اﷲ تعاليٰ كے ليے جس نے هميں موت(نيند ) كے بعد حيات (بيداري)عطا فرمائي اور هميں اسي كي طرف لوٹنا هے.

:٣.بيت الخلاء ميں داخل هونے كي دعا
اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَعُوْذُبِكَ مِنَ ا لْخُبُثِ وَالْخَبَائِثْ
اے اﷲ تعاليٰ ميں ناپاك جنّوں (نر و ماده) سے تيري پناه مانگتا هوں

:٤.بيت الخلاء سے باهر آنے كے بعد كي دعا
غُفْرَانَكَ.

:٥.گهر سے نكلنے كي دعا
بِسْمِ اللّٰهِ تَوَكَّلْتُ عَلَي اللّٰهِ لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّةَ اِلَّابِاللّٰهِ.
ميں اﷲ تعاليٰ كے نام كے ساته نكلا. ميں نے اﷲ تعاليٰ پر بهروسه كيا .طاقت و قوت اﷲ تعاليٰ هي كي طرف سے هے

:٦.گهر ميں داخل هونے كي دعا
اَللّٰهُمَّ اِنِّيْٓ اَسْاَلُكَ خَيْرَالْمَوْلَجِ وَخَيْرَالْمَخْرَجِ بِسْمِ اللّٰهِ وَلَجْنَا وَبِسْمِ اللّٰهِ خَرَجْنَا وَعَلَي الِلّٰهِ رَبِِّنَا تَوَكَّلْنَا .
اے اﷲ تعاليٰ ميں تجه سے اندر آنے اور باهر جانے كي بهتري طلب كرتا هوں اﷲ تعاليٰ كے نام سے هم داخل هوئے اور اﷲ تعاليٰ كا نام لے كرهم نكلے اور اﷲ تعاليٰ پر جو همارا رب هے بهروسه كيا هے.

:٧.كسي مسلمان كو هنستا ديكهـ كر پڑهنے كي دعا
اَضْحَكَ اللّٰهُ سِنَّكَ.
اﷲ تعاليٰ تجهے هنستا ركهے

:٨.محسن كا شكريه ادا كرنے كي دعا
جَزَاكَ اللّٰهُ خَيْرًا.
اﷲ تعاليٰ تجهے(احسان كرنے كي)جزائے خير دے.

:٩.غصه آنے كے وقت كي دعا
اَعُوْذُبِاللّٰهِ مِنَ الشَيْطٰنِ الرَّجِيْمِ.
ميں شيطان مردود سے ﷲ ىتعاليٰ كي پناه چاهتا هوں.

:١٠.چهينك آنے پردعا
اَلْحَمْدُلِلّٰهِ.
تمام تعريفيں اﷲ تعاليٰ كے ليے هيں.

:١١.چهينك آنے پرااَلْحَمْدُلِلّٰهِ كهنے والے كے ليے دعا
يَرْحَمُكَ اللّٰهُ.
ﷲ تعاليٰ تجه پر رحم فرمائے.-
اور پهر چهينك والا (يهديكم الله ويصلح بالكم) كهے

:١٢. آئينه ديكهتے وقت كي دعا
اَللّٰهُمَّ اَنْتَ حَسَّنْتَ خَلْقِيْ فَحَسِّنْ خُلُقَيْ
ﷲ تعاليٰ جيسے تو نے ميري صورت اچهي بنائي ميرے اخلاق بهي اچهے كر دے

:١٣.مرغ كي آواز سن كر پڑهنے كى دعا 
اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَسْاَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ
اے اﷲ تعاليٰ ميں تجه سے تيرے فضل كا سوال كرتا هوں.

١٤.بارش طلب كرنے كي دعا 
اَللّٰهُمَّ اسْقِنَااَللّٰهُمَّ اَغِثْنَا
اے اﷲ تعاليٰ هميں پاني دے.اے اﷲ تعاليٰ هميں بارش دے.

:١٥.وضوسے پهلے كي دعا
بِسْمِ اللّٰهِ وَلْحَمْدُلِلّٰهِ
اﷲ تعاليٰ كے نام سے شروع كرتا هوں اور تمام تعريفيں اﷲ تعاليٰ كے ليے هيں

:١٦.مسجد ميں داخل هونے كي دعا
بِسْمِ اللّٰهِ وَالسَّلَا مُ عَلٰي رَسُوْلِ اللّٰهِ.اَللّٰهُمَّ افْتَحْ لِيْ اَبْوَابَ رَحْمَتِكَ
ميں اﷲ تعاليٰ كا نام لے كر داخل هوتا هوں اور اﷲ كے رسول پر سلام هو.اے الله ميرے لئے تو اپني رحمت كے دروازے كهول دے.

:١٧.مسجد ميں نفلي اعتكاف كي دعا
نَوَيْتُ سُنَّةَالْاِعْتِكَافْ
ميں نے سنت اعتكاف كي نيت كي

١٨.مسجد سے نكلتے وقت كي دعا
بِسْمِ اللّٰهِ وَالسَّلَا مُ عَلٰي رَسُوْلِ اللّٰه.اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَسْئَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ.
ميں اﷲتعاليٰ كا نام لے كرنكلتا هوں اور اﷲ كے رسول پر سلام هو.اے اﷲتعاليٰ ميں تجه سے تيرے فضل كا سوال كرتا هوں.

٩.بلندي پر چڑهتے وقت كي دعا
اَللّٰهُ اَكْبَرْ
ﷲ تعاليٰ سب سے بڑا هے

٢٠.بلندي سے اترتے وقت كي دعا
سُبْحَانَ اللّٰهِ
اﷲ تعاليٰ پاك هے.

:٢١. قبرستان ميں داخل هوتے وقت كي دعا
اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَآ اَهْلَ الْقُبُوْرِ يَغْفِرُاللّٰهُ لَنَا وَلَكُمْ اَنْتُمْ سَلْفُنَا وَنَحْنُ بِالاَثْر
اے قبر والوں تم پر سلام هو.اﷲتعاليٰ هماري اور تمهاري مغفرت فرمائے.اور تم هم سے پهلے پهنچ گئے اور هم پيچهے آنے والے هيں

٢٢.شب قدر كي دعا
اَللّٰهُمَّ اِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ.
اﷲتعاليٰ تو بهت معاف فرمانے والاهے.معاف فرمانے كو پسند فرماتا هے پس مجهے معاف فرما دے.

٢٣.سرمه ڈالتے وقت كي دعا
اَللّٰهُمَّ مَتِّعْنِيْ بِالسَّمْعِ وَالْبَصَر
ﷲ تعاليٰ مجهے سننے اور ديكهنے سے بهره مند (فائده اٹهانے والا)كر.

٢٤-نيا لباس پهنتے وقت كي دعا
اَلْحَمْدُلِلّٰهِ الَّذِيْ ْ مَا اُوَارِيْ بِهٖ عَوْرَتِيْ وَ اَتَجَمَّلُ بِهٖ فِيْ حَيَاتِيْ
تمام خوبياں اﷲتعاليٰ كے ليے هيں جس نے مجهے كپڑا پهنايا جس سے ميں اپنا ستر چهپاتا هوں اور زندگي ميں اس سے زينت كرتا هوں.

:٢٥.كهانا كهانے سے پهلے كي دعا
بِسْمِ اللّٰهِ وَعَلٰي بَرَكَةِاللّٰهِ
اﷲ تعاليٰ كے نام سے (كهاتا هوں)اوراﷲتعاليٰ كي بركت پر

:٢٦.كهانا كهانے سے پهلے بسم اﷲ بهول جائے تو يه دعا پڑهے
بِسْمِ اللّٰهِ اَوَّلَهٗ وَاٰ خِرَهٗ
ميں نے اس كے اول اور آخرميں اﷲ تعاليٰ كا نام ليا

:٢٧.كهانا كهانے كے بعد كي دعا
اَلْحَمْدُلِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ.
ﷲ تعاليٰ كا شكر هے جس نے هميں كهلايا اورپلايا اورهميں مسلمان بنايا.

:٢٨.دعوت كهانے كے بعد كي دعا
اَللّٰهُمَّ اَطْعِمْ مَنْ اَطْعَمَنِيْ وَاسْقِ مَنْ سَقٰنِيْ
ياﷲاس كو كهلا جس نے مجهے كهلايا اور اس كو پلا جس نے مجهے پلايا.

٢٩.دوده پينے كے بعد كي دعا
اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهِ وَزِدْنَا مِنْهُ
يااﷲ همارے ليے اس ميں بركت دے اور هميں اس سے زياده عنايت فرما.

:٣٠.آب زمزم پيتے وقت كي دعا
اَللّٰهُمَّ اِنِّيْٓ اَسْئَالُكَ عِلْمًا نَافِعًا وَّرِزْقًا وَاسِعًا وَّشِفَا ٓءً مِّنْ كُلِّ دَآءٍ
يااﷲ ميں تجه سے علم نافع كا اور رزق كي كشادگي كا اور بيماري سے شفايابي كا سوال كرتا هوں

:٣١.علم ميں اضافے كي دعا
رَبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا
اے ميرے اﷲ مجهے علم زياده دے.


٣٢.جب كوئي چيز غمگين كرے اس وقت كي دعا
يَا حَيُّ يَا قَيُّوْمُ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغِيْ

اے حي وقيوم تيري رحمت سے مدد مانگتاهوں.

٣٣.سوالات قبر كي آساني كے ليے دعا
اَللّٰهُمَّ ثَبِّتْ عَلٰي سُوَالٍ مُّنْكَرٍوَّنَكِيْرٍ
الهي تو ثابت ركه منكر نكير كے سوال پر


٣٤-قرآن پڑهتے وقت كي دعا
اَعُوْذُبِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ.
ميں پناه مانگتا هوں اﷲ تعاليٰ كي شيطان مردود سے

٣٥- فقر وفقر سے پناه كي دعا
اَللّٰهُمَّ اِنِّيْٓ اَعُوْذُبِكَ مِنَ الْكُفْرِوَالْفَقْرِ
اﷲ تعاليٰ ميں تيري پناه ليتا هوں كفر اور فقيري سے .


٣٦.ستر بلاؤ ں سے عافيت كي دعا
بِسْمِ اللّٰهِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ
ﷲ تعاليٰ كے نام سے اور طاقت نهيں (گناهوں سے بچنے كي )اور قوت نهيں(نيكياں كرنے كي)مگر الله بزرگ وبرتر عظمت والے كي مدد سے.


 :٣٧- وضو كے بعد كي دعا
اَشْهَدُاَنْ لَّااِلٰهَ اِلَّا اللّٰهَ وَحْدَهٗ لَاشَرِيْكَ لَهٗ وَاَشْهَدُاَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ
ميں گواهي ديتا هوں كه اﷲتعاليٰ كے سوا كوئي معبود نهيں اور ميں گواهي ديتا هوں كه محمد  
اس كے بندے اور رسول هيں.

:  ٣٨- فجر اورمغرب كي نماز كے بعد كي دعا
اَللّٰهُمَّ اََجِرْنِيْ مِنَ النَّارِ- سات بار
اے ﷲ مجه كو دوزخ سے محفوظ ركهيو.


:٣٩- روزه كي نيت كرنيكي دعا
وَبِصَوْمِ غَدٍ نَّوَيْتُ مِنْ شَهْرِ رَمْضَانْ
ميں نے رمضان كے اس روزے كي نيت كي

٤٠. روزه افطار كرنے كي دعا
اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ لَكَ صُمْتُ وَبِكَ اٰ مَنْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَعَلٰي رِزْقِكَ اَفْطَرْتُ
اے ميرے اﷲميں نے روزه ركهااور ايمان لايا تجه پر اوربهروسه كيا تجه پر اور افطار كيا تيرے رزق پر
الله تعالى سے دعا هے كه الله تعالى هميں ذياده سے ذياده دعائيں مانگنے كي توفيق عنايت فرمائے ( آمين ثم آمين )
===

الحمد لله ثم الحمد لله إس نمبر( علم و ذكر )  كا دوسرا حصه "ذكر" كا بيان إختتام كو پهنچا
 الله تعالى كهنے والے اور پڑهنے والوں كو عمل كي توفيق عطا فرمائے - تحرير كرنے والے كي غلطيوں اور كوتاهيوں كو الله تعالى اپنے فضل وكرم سے معاف فرما ئے اور إس كوشش كو اپني رحمت سے قبول فرماكر عمل كي توفيق عطا فرمائے (آمين) قابل إحترام قارئين سے گذارش هے كه وه إسے زياده سے زياده لوگوں تك پهنچانے كي كوشش كريں - إن شاء الله إس كا آجر الله تعالى سے ضرور ملے گا

الله تعالى كا لاكهـ لاكهـ شكر هے كه اس نے إس كي توفيق عطا فرمائي اور إس تمام تر كاوش كا ثواب اپنے مرحوم والدين - مرحوم بهائي جان اور بهت هي بيارے بيٹے شهيد عبدالرحمن نسيم رحمة الله عليهم تمام رشته داروں - دوست أحباب اور تمام مسلمانوں كو إيصال كرتا هوں- الله تعالى أن كي مغفرت فرمائے- ان پر رحم فرمائے - ان كے لئے آخرت كي تمام منزليں آسان فرمائے اور ان كو جنت الفردوس كے آعلى مقامات عنايت فرمائے -   آمين ثم آمين يا رب العلمين ) 

Share: