تيسرا نمبر : علم وذكر(پهلا حصه)

دعوت إلى الله اور تبليغى جماعت
(قسط نمبر - 4 )

تيسرا  نمبر : علم وذكر(پہلا حصه)

“علم وذكر “ تبليغي نمبرز كے إعتبار سے تو إيك هي نمبر هے ليكن درآصل يه دو الگ الگ باب هيں علم إيك باب هے اور ذكر دوسرا باب هے محدثين نے إنهيں دو الگ الگ باب ميں هي بيان كيا هے- يهاں پر إن دونوں كو جمع كرنے كا مقصد يه هے كه جو علم حاصل كيا جائے جب دهياں كے ساتهـ اسے عمل ميں بهي لايا جائے تو وه ذكر بنتا هے تو إس طرح علم اور ذكر كا چولي دامن كا ساتهـ هے إس لئے إس نمبر ميں دونوں كو جمع كيا گيا هے- تاهم علم اور ذكر آحاديث كي كتابوں كے مطابق الگ الگ باب هيں۔ ترتيب كے مطابق يهاں پر پهلے علم كے بارے ميں كچهـ ذكر كيا جائے گا اور پهر ذكر كا بيان هوگا ٰ

علم كے معنى ومفهوم:
لغت کے اعتبار سے علم کے معنی "جاننے" كے هيں يعني کسی بھی چیز کے متعلق آپ نے معلومات حاصل کرلی ہوں تو گویا اس چیز کا علم آپ کو حاصل ہو گیا۔ لیکن شرعي اصطلاح میں علم ان امور کے جاننے کوکہا جاتا ہے جن کے ذریعے سے اللہ رب العزت کی معرفت حاصل ہواور اپنی زندگی کو الله تعالى کے مرضیات کے مطابق ڈھالا جا سکے جس کا حاصل کرنا حدیث کی رو سے ہر مسلمان مرد اور عورت پر لازم ہے۔ علم جہالت کی ضد ہے، اور اس سے مراد کسی چیز کی اصل حقیقت کو مکمل طور پر پا لینا ہے۔اصطلاح میں بعض علما کے نزدیک 'علم سے مراد وہ معرفت ہے جو جہالت کی ضد ہے۔ جبکہ دیگر اہل علم کا کہنا ہے کہ 'علم' اس بات سے بالاتر هے کہ اس کی تعریف کی جائے۔ مطلب یہ کہ لفظ 'علم' خود اتنا واضح ہے کہ اس کی تعریف کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ۔

علم کی قسمیں:
عموميت كے إعتبار سے علم کی دو قسمیں بنتی ہیں
(۱) ديني علم (۲) دنیاوی علم

علم دين :
علم دین سے مراد قرآن كريم اور آحاديث مباركه كا علم ہے جس ميں إس كے تمام شعبے(قرآن - فقه -تفسير - تجويد اور حديث وغيره ) شامل هوتے هيں مختصر الفاظ ميں علم دين سے مراد وه علم هے جس سے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کے احکام کے پیروی اور نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کا طریقہ معلوم ہوجائے۔علم دین کے ذریعے انسان اللہ تعالیٰ کی معرفت کو پا سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔علم دین حاصل کرنے والوں پر الله تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں اور دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ ان کو عزت و مرتبہ عطا فرماتا ہے اور آخرت ميں بهي الله تعالى كا أنعام وإكرام كا وعده هے جس علم كو حاصل کرنے والوں کی فضیلت آحادیث مبارکہ مين بار بار بيان هوئى ہے وه علم درآصل علم دین ھي هے باقي دنياوى علوم محض فنون كے درجه ميں هيں- خلاصه كلام يه كه علم دين سے مراد وہ شرعی علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے روشن دلائل اور واضح ہدایت کی صورت میں اپنے حبيب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآله وسلم پرنازل فرمایا ہے۔ لہٰذا وہ علم جو قابل ستائش و تعریف ہے، وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کردہ 'وحی کا علم' ہے اوراللہ کے نبی صلی اللہ علی وآله وسلم کے ارشادات عاليه هيں:
چنانچه ارشاد نبوي صلى الله عليه وآله وسلم هے
مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ
'' جس شخص سے اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے، اسے دین میں سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے۔'
بے شک انبیاء علیہم السلام نے کسی کو درہم و دینار کا وارث نہیں بنایا، بلکہ اُنہوں نے تو علم (نبوت) کی وراثت چھوڑی ہے، تو جس شخص نے بھی اس (علم نبوت) کو لیا تو اُس نے گویا (دنیا و آخرت کا) وافر حصہ پالیا۔'':
ايك اور مقام پر ارشاد نبوي صلى الله عليه وآله وسلم هے
وَإِنَّ الأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا، إِنَّمَا وَرَّثُوا العِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ» [رواه أبو داود ...
بے شک انبیاء علیہم السلام نے کسی کو درہم و دینار کا وارث نہیں بنایا، بلکہ اُنہوں نے تو علم (نبوت) کی وراثت چھوڑی ہے، تو جس شخص نے بھی اس (علم نبوت) کو لیا تو اُس نے گویا (دنیا و آخرت کا) وافر حصہ پالیا۔''
علماء آنبياء كے وارث هيں چنانچه ارشاد نبوي صلى الله عليه وآله وسلم هے
«إِنَّ العُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ
بے شك علماء هي آنبياء كے وارث هيں
اور یہ بات طے شدہ ہے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام نے دوسروں کو اللہ عزوجل کی شریعت ِمطهرہ کے علم کا ہی وارث بنایا ہے نہ کہ کسی اور کا۔ انبیاء علیہم السلام نے لوگوں کو صنعت اور اس سے متعلقہ دیگر فنون کے علم کا ہرگز وارث نہیں ٹھہرایا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ہجرت کے موقع پر جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ نزولِ فرمایا، تو وہاں کے لوگوں کو کھجوروں کی پیوندکاری کرتے ہوئے پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے اہل مدینہ سے، اُن کو مشقت میں دیکھتے ہوئے، اس بارے میں بات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی گفتگو کا ماحصل یہ تھا کہ ایسا کركے مشقت ميں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ تو اُن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے کہنے پر ایسا ہی کیا اور تلقیح کرنے سے رُک گئے، مگر کھجوروں پر پھل نسبتاً کم آیا۔ لوگوں كے عرض كرنے پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:
أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ
''تم اپنی دنیا کے معاملات کو بہتر جانتے ہو۔''
لہٰذا اگر دنیوی معاملات کے بارے میں جاننا، تعریف و توصیف کے لائق ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآله وسلم ان معاملات کو تمام لوگوں سے بڑھ کر جاننے والے ہوتے۔ اس لئے کہ اس دنیا میں علم و عمل کی بابت سب سے زیادہ قابل تعریف اور ثنا کے لائق ہستی اللہ کے رسول حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہی ہیں
علم دنیاوی:
علم دنیاوی وہ علم ہے جو دنیاوی علوم وفنون کے بارے میں رہنمائی کرے جیسے ڈاکٹری - انجینئرنگ كمپيوٹر وغیرہ جو صرف ان کی دنیاوی زندگی تک محدود ہیں آخرت میں ان فنون سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث میں علم کی جو فضیلت اور ضرورت بیان ہوئی ہے اس سے مراد صرف علم دین ہے۔دنیاوی فنون نہیں۔ هان اگر كوئى إن فنون كو إسلام كي أشاعت يا خلق خدا كي خدمت وغيره كي نيت سے سيكهـے گا اور إن فنون كو أشاعت ديں اور خلق خدا كي خدمت كے لئے ذريعه كے طور پر إستعمال كرے گا تو بلاشبهه اس كو الله تعالى كى طرف سے إس كا آجر ضرور ملے گا تاهم يه بات اپني جگه بر مسلم هے كه دنياوى علوم وفنون كے ماهر كو عالم دين كے برابر درجه نهيں مل سكتا
تو واضح ہوا کہ شرعی اور دینی علم ہی قابل تعریف ہے اور اسے حاصل کرنے والا یقینا ستائش و ثنا کا مستحق ہے۔ مگر اس کے باوجود دیگر علوم و فنون کے فوائد سے يكسر انکار نہیں كيا جاسكتا اور اس اعتبارسے منفعت بخش ہوں گے کہ ایک تو وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری اور اس کے دین کی نصرت پرمددگار و معاون ثابت ہوں اور دوسرے یہ کہ اللہ کے بندے اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوں ، اسی لحاظ سے یہ علوم بھلائی، خیرخواہی اور مصلحت کا سرچشمہ ہوں گے۔ حتیٰ کہ بعض حالات میں ان علوم میں مہارت اور آگاہی حاصل کرنا تو واجب ہوجاتا ہے بالخصوص جب وہ اللہ جل شانہ کے اس فرمان کے تحت داخل ہوں :
وَأَعِدُّوالَهُم مَّا ٱسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّ‌بَاطِ ٱلْخَيْلِ...(سورة الانفال)
''اور جہاں تک ممکن ہوسکے، کافروں کے مقابلہ کے لئے قوت اور جنگی گھوڑے تیار رکھو۔''
اور بہت سے علماء نے کہا ہے کہ صنعت و حرفت سے متعلقہ علوم کو جاننا فرضِ کفایہ ہے۔ اور یہ اس لئے کہ کھانے، پینے کے برتن اور دیگر ضرورت کا سامان لوگوں کی ان بنیادی اشیا سے تعلق رکھتا ہے جن پر ان کی زندگی کا انحصار ہے۔ اگر کوئی شخص بھی ان چیزوں کی تیاری کے لئے کارخانہ وغیرہ نہ لگائے، تو ایسی صورت میں ان کا سیکھنا 'فرض عین' بھی ہوجاتا ہے،اگرچہ إس مسئلہ ميں اہل علم کے ما بین إختلاف پايا جاتا ہے۔
المختصر يه کہ قابل ستائش اور افضل ترین علم يقيناً وه 'شرعی علم' ہی هے جو اللہ کی آخرى کتاب (قرآن المجيد) اور اس کے آخرى رسول صلی اللہ علیہ وآله وآله وسلم کی سنت مباركه کو سیکھنا ہے اور اس کے علاوہ جو دیگر علوم هیں وہ یا تو خیروبرکت اور بھلائی کے کاموں کا ذریعہ ہیں اور یا پھر شروفساد کو جنم دینے کا 'وسیلہ' بن جاتے هيں ۔ سو اُن کا حکم اُن اُمور کے مطابق هي ہوگا جس كا یہ ذریعہ بنے هوئے هوتے ہیں اگر خیروبرکت اور بھلائی کے کاموں کا ذریعہ ہیں تو هرطرح سے قابل ستائش هيں اور خدانخواسته اگر برائى اور شروفساد کو جنم دینے کا 'وسیلہ' بن رهے هيں تو سو فيصد قابل مذمت هي هونگے - والله عالم بالثواب
فرضيت كے إعتبار سے علم كي قسمیں:
اوپر علم کی دوقسمیں بيان هوئيں يعني دينى علم اور دنياوي علم اور إس بارے كچهـ عرض بهي كيا گيا فرضيت كے إعتبار سے بهي ديني علم كي دو قسميں هيں :
1- علم فرض كفايه 2- علم فرض عين

علم فرض كفايه :
فرض کفایہ وه علم ہے جس کو اگر چند لوگ بهي حاصل کرلیں تو سب كے لئے کافی هوجاتا ہے ہر ایک کو یہ علم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں رهتي جیسے علم تفسیر ،علم حدیث،علم فقہ وغیرہ.ليكن اگر كوئى بهي إس علم كو نه سيكهے تو پهر سب گناهگار هونگے اور إيسي صورت ميں مسلمانوں كے لئے لازمي هوگا كه وه إيسے لوگ تيار كريں جو يه علم حاصل كريں
علم فرض عين :
علم کی دوسری قسم جو فرض عین ہے يعني إس كا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے ، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے ، اس کے بغیر وہ اسلام پر قائم نہیں رہ سکتا: مثلاً اسلام کے پانچ ارکا ن اور اس کی تفصیل جاننا جو ظاہر ی عبادات ہیں اور ایمان اور اس کے چھ ارکان اس کی تفصیل معلوم کرنا ، جو دین اسلام کے اہم عقائد ہیں ، روز مرہ کے بعض معاملات جو حلا ل ہیں اور وہ معاملات جو حرام ہیں ،انہیں جاننا. یہ علم دین کی کم سے کم مقدار ہے جو ہر مسلمان کو معلوم کرنا فرض ہے .
لوگ نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کے زمانے سے جتنا دور ہوتے جائیں گے اتنا ہی انہیں علم کی سخت ضرورت ہوگی کیونکہ لوگوں میں بگاڑ پیدا ہوگا دنیا پرستی غالب آئے گی بدعات و خرافات ، اور شرکیا ت اور آباء پرستی، کافروں کی مشابہت سے اکثر لوگ اصلی دین کو بھلا دیں گے ، اسی لئے اسلام نے طلب علم کو فرض قرار دیا ارشاد باری تعالی ہے
فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ
سو (اے نبی صلى الله عليه وآله وسلم )آپ جان لیں کہ اللہ کی سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش ما نگا کریں (سورہ محمد )
رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا:
طَلَبُ العِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلَىْ كُلِّ مُسْلِمٍ علم كا حاصل كرنا هر مسلمان (عورت اور مرد) پر فرض هے (سنن ابن ماجہ ).
علم حاصل كرنے سے هماري مراد صحيح علم كا حصول هے - صحیح علم کیا ہے؟ صحيح علم وهي هے جو نبي كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے صحابه كرام كو بتايا اور پهر يه هم تك پهنچا چنانچه نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا :
خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ،، ٫٫
لوگوں میں سب سے بہترین زمانہ میرا ہے، پھر اس کے بعد پھر، اس کے بعد والے
( صحیح بخار ی ).
معلوم یہ ہوا کہ بہترین زمانہ رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کا زمانہ ہے اسكے بعد صحابہ رضوان الله عليهم کا زمانہ اور اس كے بعد تابعین رحمهم الله عليهم کا زمانہ ہے ، اس لئے کہ ان لوگوں کے پاس صحیح دین اور صحیح علم موجود تھا اور اگر بالفرض دین میں كوئى بگاڑ آیا بهي تو وہ اسی وقت ختم کردیا گیا ۔ لہذا صحیح علم قرآن و حدیث میں ہے اور صحابہ رضوان الله عليهم کے طریقہ میں موجود ہے ، اس کو تلاش کرنا ہر مسلمان کا کا م ہے ۔
آج جو کتا ب اور جو عالم صحابہ کرام رضوان الله عليهم کے منہج اور طریقہ پر رہے گا وہی صحیح علم ہے اور وہی صحیح عالم ہے ، اس سے هٹ کر جو بھی چیز ہو گی وہ لوگوں کی اپنی كهي هوئى بات ہے ، وہ انهي کا علم ہے ، جس میں بے شمار غلطیاں ، بدعات ، اور شرکيات جیسی باتیں پائی جاتی ہیں سو يه ملاوٹ شده علم صحيح علم اور صحيح دين نهيں كهلا سكتا
منفعت كے إعتبار سے علم كي قسميں:
منفعت كے إعتبار سے بهي علم كي مندرجه دو قسميں هيں
1- علم نافع ----- 2- علم غير نافع
علم نافع:
علم نافع سے مراد وہ علم ہے جو محض معلومات کا ذخیرہ ہی نہ ہو بلکہ اس علم کے ذریعہ سے قلب نور الٰہی سے منور ہو جائے ایسے علم کو علم نافع کہتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :
جس نے علم سیکھا مگر اس سے اللہ کی رضا حاصل نہ کی نہ هي اسے (دوسرونكو) سکھایا مگر(محض) دنیا سے عزت حاصل کرنے کے لئے(حاصل كيا) تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا۔ (ابی داؤد)
سو صحيح علم كي تلاش كرنا ضروري هے وهي علم نافع هے صحيح علم سے إنسان كي دنياوي زندگي ميں بهي إنقلاب آجاتا هے اور أخروي زندگي ميں بهي بلند درجات مليں گے رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم اپني دعاؤں ميں جب بهي علم كي دعا فرماتے تو علم نافع هي كي دعا فرمايا كرتے تهے-رسول كريم صلى الله عليه كي علم نافع وعمل مقبول اور رزق حلال کی مشهوردعا درج زيل هے
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا
( مسند احمد وابن ماجہ )
اےاللہ میں تجھ سے نفع دینےوالا علم،قبول کیا جانے والاعمل اور رزق حلال مانگتا ہوں
علم غير نافع:
وہ علم جو بندے کو اپنے مالک حقیقی تک نہ پہنچائے جس سے انسان کو معرفت حق حاصل نہ ہو۔ ایسا علم جس سے انسان کو حقیقی فائدہ نہ ہو وہ علم غیر نافع ہے۔ جس سے معلومات کا ذخیرہ تو ہوتا ہے لیکن قلوب کے لئے نفع نہیں ہوتا
علم غير نافع يعني غلط علم سے مراد وہ علم هے جو ایک مسلمان کے لئے نہ دنیاوی اعتبار سے مفید اور کارآمد ہو نہ اخروی اعتبار سے - ایسا علم حاصل کرنا بیکار اور عبث ہے ،بلکہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے اسے اجتناب اور پرہیز ضروری ہے - علم غير نافع سے پناه مانگنے كيلئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی مشہور دعا يه هے ٫٫
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لاَ يَنْفَعُ ،، ٫٫
اے اللہ ! میں تجھ سے غیر نفع بخش علم سے تیری پناہ چاہتا هوں ،، (صحیح مسلم

علم كا مقصد :
جيسا که یہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کی علم کا مفہوم ہی یہ ہے کا الله كى ذات عالى کے خزانوں سے براه راست فائده حاصل کرنے کے لیے الله تعالى کے آوامر کو نبی كريم صلى الله عليه وآله وسلم کے طریقہ پر پورا کرنا - علم كا مقصد بهي يهي هے كه همارے اندر تحقيق كا جذبه پيدا هوجائے اور يه معلوم هو جائے كه ميرا الله إسوقت مجهـ سے كيا چاه رها هے اور جو چاه رها هے اسے نبي كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقه پر مكمل كرنا علم كا مقصد هے- صرف كتاب كو ياد كرلينا علم نهيں كهلاتا بلكه إنسان كے عمل سے علم كا ظاهر هونا علم كے مطابق يقين هونا هي آصل علم هے قرآن مجيد ميں يقين والوں كو هي عالم كها گيا هے يعني وه علم اور يقين جو نبي كريم صلى الله عليه وآله وسلم الله تعالى سے لے كر تشريف لائے تو مختصر الفاظ مين علم كا مقصد اپنے رب كو بهچاننا اور اس كے آحكام كو جاننا اور ان پر عمل كرنا يعني نبي كريم صلى الله عليه وآله وسلم كي نيابت ميں جو ذمه دارى هميں ملى هے اسے پورا كرنا هے- علم حاصل كرنے كے بعد إس كے مقاصد پر محنت كرنا ضرورى هے مثلاً
1- علم كے مطابق اندر كا يقين هونا
2-علم كے مطابق عمل هونا
3-إس علم اور عمل كو پورے عالم ميں ميں پهيلانا
تو علم كا مقصد حاصل كرنے كے لئے ضرورى هے كه اس پر مشق كي جائے اپنا يقين بنانے كي مشق هو عمل كرنے كى محنت هو اور اس يقين ، علم اور عمل كو پورے عالم ميں ميں پهيلانے كى محنت هو الله تعالى هم سب كو عمل كي توفيق عطا فرمائے - آمين

علم کی اہمیت :
جب ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے کعبہ بنایا اور وہاں چند لوگ آباد ہوگئے تو يه دعا فرمائی تھی
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِـيْهِـمْ رَسُوْلًا مِّنْـهُـمْ يَتْلُوْا عَلَيْـهِـمْ اٰيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُـمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّـيْـهِـمْ ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِـيْمُ 0
اے ہمارے رب! اور ان میں ایک رسول انہیں میں سے بھیج جو ان پر تیری آیتیں پڑھے اور انہیں کتاب اور دانائی سکھائے اور انہیں پاک کرے، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔ البقره
نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی بعثت کا مقصد تعلیم ہے ارشاد باری تعالی ہے

هُوَ الَّـذِىْ بَعَثَ فِى الْاُمِّيِّيْنَ رَسُوْلًا مِّنْـهُـمْ يَتْلُوْا عَلَيْـهِـمْ اٰيَاتِهٖ وَيُزَكِّـيْـهِـمْ وَيُعَلِّمُهُـمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَۖ وَاِنْ كَانُـوْا مِنْ قَبْلُ لَفِىْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ 0
وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں ایک رسول انہیں میں سے مبعوث فرمایا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، اور بے شک وہ اس سے پہلے صریح گمراہی میں تھے۔( سورہ جمعة )
اسلام کی سب سے پہلی تعلیم اور قرآن کی سب سے پہلی آیات جو اللہ نے اپنے نبی پر نازل فرمائیں وہ اسی تعلیم سے متعلق تھیں اللہ تعالی فرماتا ہے:
بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّـذِىْ خَلَقَ 0 خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ 0 اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْـرَمُ 0 اَلَّذِىْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ 0 عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ 0
اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے سب کو پیدا کیا۔ انسان کو خون بستہ سے پیدا کیا۔ پڑھیے اور آپ کا رب سب سے بڑھ کر کرم والا ہے۔ جس نے قلم سے سکھایا۔ انسان کو سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔
اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا، اور قرآن کریم میں ایک سورت کا نام ہی ٫٫سورة القلم،،رکھا جس کے شروع میں اللہ نے قلم کی قسم کھائی جو علم کی اہمیت پر دلالت کرتی ہے.

قبر میں مؤمن سے علم کے بارے میں سوال ہوگا:
٫٫ وما یدریک ؟فیقول: قرات کتاب اللہ فآمنت بہ و صدقت
٫٫تمہیں یہ ساری باتیں کیسے معلوم ہوئیں ؟وہ آدمی کہے گا میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی ،،(ابوداود)
اور کافر ، منافق( اورفاسق و فاجر) اپنی بے علمی اور جہالت کا اعتراف کریں گے اور کہیں گے٫٫
لا ادری ، کنت أقول ما یقول الناس ،، ٫٫
مجھے نہیں معلوم جو لوگ کہتے تھے وہی میں بھی کہتا تھا ،،
فرشتے کہیں گے:
٫ لادریت و لا تلیت،، ٫٫
تم نے نہ تو جاننے کی کوشش کی اور نہ پڑھا،، (صحیح بخاری )
قیامت میں ہر انسان سے چار سوالات کئے جائیں گے :جن میں ایک سوال علم کے بارے میں یہ ہوگا٫٫
وَعَنْ عِلْمِہِ فِیمَ فَعَلَ،،، ٫٫
کیا علم سيکھا اور اس پر کتنا عمل کیا؟،،(ترمذی ).
اسلام میں تعلیم و تعلم پر بهت زور ديا گيا هے إس كا مفهوم یہ ہے کہ اس سے خُدا شناسی اور خوفِ خدا پیدا ہو۔ کائنات کے نظام پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات کو ایک مقصد کے تحت پیدا کیا گیا ہے۔ اسلام میں قرآن مجید تمام علوم کا سرچشمہ ہے۔ تعلیم روحانی بالیدگی اور اخلاقی نشوونما پیدا کرتی ہے۔ یہ جہالت کے اندھیرے دُور کرتی ہے۔ اسلام میں حصول علم مرد اور عورت دونوں پر فرض ہے۔
جيسا كه اوپر عرض كيا گيا كه رسول كريم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پر جو پہلی وحی نازل ہوئی اس میں ارشاد رَبِّ جلیل ہے:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّـذِىْ خَلَقَ 0
’’پڑھیے اﷲ کے نام سے، جس نے پیدا کیا۔‘‘ (سورۃ العلق)
گویا اسلام کا آغاز ہی علم سے ہوا۔ اسی آیت میں آگے چل کر فرمایا گیا:’’
اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْـرَمُ 0 اَلَّذِىْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ 0 عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ 0 وہی ﷲ ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ انسان کو وہ سکھایا جسے وہ جانتا نہ تھا۔‘‘
سورۃ البقرہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
’’ﷲ تعالى نے حضرت آدم عليه السلام کو ساری چیزوں کا علم سکھایا۔‘‘ ﷲ تعالیٰ نے انبیاء عليه السلام کو علم و حکمت سے نوازا۔ دراصل علم انسان میں وسعتِ نظر اور بالغ نظری پیدا کرتا ہے۔ علم ہی سے انسان میں یہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے کہ وہ اچھے اور بُرے میں تمیز کرسکے۔ یعنی کون سا عمل اچھا ہے اور کون سا بُرا۔ حق کیا ہے، باطل کیا ہے؟ اس کا فرق علم یا تعلیم سے هي حاصل ہوتا ہے۔ غرض علم یا تعلیم ہی دُنیا میں روشنی پھیلاتی ہے۔
حدیث شریف میں ہے: ’’بے شک مجھے معلّم بناکر بھیجا گیا ہے۔‘‘(مشکوٰۃ) ایک حدیث شریف میں ہے :’’ عالِم کے قلم کی سیاہی شہید کے خون سے زیادہ قابلِ ستائش ہے، ﷲ کی راہ میں جہاد کرنا بہت بڑی بات ہے۔ جو شخص طلبِ علم کے دوران فوت ہوا، وہ شہید ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ) ایک حدیث شریف میں ہے: ’’علم کے لیے کوشاں رہیں تو زندگی عبادت بن جاتی ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ) علم حاصل کرنے کے علاوہ حدیث میں یہ بھی ہے:’’ اپنے علم سے دوسروں کو فائدہ پہنچائو۔ یعنی علم پھیلائو، تعلیم دو اور آسانی پیدا کرو اور مشکل پیدا نہ کرو۔‘‘(مشکوٰۃ)
بخیل صرف وہ نہیں جو روپے پیسے میں کنجوسی کرتا ہے۔ بخیل وہ ہے، جس کے پاس علم ہو اور وہ اپنے علم سے دوسروں کو فائدہ نہ پہنچائے۔ علمِ نافع بہت بڑی چیز ہے۔ اس لیے علم كوعام کرنا چاہیے، تاکہ اس کا نفع دُور دُور تک پہنچے۔ علم کا مقصد انسان کو اخلاقِ حَسنہ سے آراستہ کرنا اور صحیح راستہ دکھانا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث مباركه میں حصولِ علم کی تاکید ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم سے انسان میں علم و بصیرت اور عملی زندگی کی بنیاد فراہم ہوتی ہے۔ قرآن مجید علم اور تعلیم و تعلم کی فضیلت کو اہمیت دیتا ہے، کیوں کہ علم انسان کو متوازن زندگی گزارنے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ علم و عمل کی راہ تعلیم سے روشن ہوتی ہے۔ کسی بھی ملک میں علمی شرح، قومی تعمیر و ترقی کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ علم سے تحقیق کے دروازے کھلتے ہیں۔حدیث شریف میں ہے :’’ علم کے وارث علماء ہیں۔‘‘ ایک اور حدیث میں ہے :’’ میری اُمّت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء ؑ کی طرح ہیں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں ؑکے بعد علماء کا مرتبہ ہے۔
علم اور تعلیم نوعِ انسانی کی تعمیر میں ممدود ومعاون ثابت ہوتی ہے۔ تعلیم کا انحصار معلّم (اُستاد) کے حُسنِ سیرت، دانائی اور ذکاوت پر ہوتا ہے۔ معاشرے کی ترقی، تعلیم پر منحصر ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ قوم کی زندگی کے تحفظ و تکمیل میں سرگرم رہے۔ تعلیم سے معاشرے میں اخلاقیات کو بڑھاوا ملتا ہے۔ تجربہ و مشاہدہ تعلیم کی اَساس ہے۔ تعلیم سے تاریخی، معاشرتی، تہذیبی،دِینی، سیاسی اور اقتصادی راہیں اُستوار ہوتی ہیں۔ جو چیز انسان کو مہذب، شائستہ بناتی ہے، وہ تعلیم ہے۔ تعلیم کا مقصد مختلف ممالک میں مختلف رہا ہے۔ اس کا کوئی عہد نہیں۔ انسان کی پوری زندگی علم حاصل کرنے، سیکھنے اورسکھانے میں گُزر جاتی ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام اور اَخلاقی اقدار میں معلّم کو بنیادی مقام حاصل ہے۔ اس کا مقام و مرتبہ معاشرے میں بہت بلند ہے۔
لائبریریاں اور کتب خانے اشاعتِ علم میں زبردست معاون و مددگار ہوتے ہیں۔ استاد کی زندگی طلباء کے لیے نمونہ ٔ عمل ہوتی ہے۔ اس کے لیے طلباء کو اپنا دل و دماغ پاک و صاف رکھنا اور بُرے اخلاق سے اپنا دامن بچانا ہوتا ہے۔ تعلیم میں اور اخلاقی تربیت میں سماجی اداروں کا بھی کردار ہوتا ہے۔ نصابِ تعلیم کا اصل مقصد، معلومات کی فراہمی اور طلباء میں زندگی کے ہرشعبے میں سوچنے اور غور کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اساتذہ کا کردار، سماجی کردار کی اساس ہے۔ تعلیم کا اصل مقصد طلباء میں نظم وضبط پیدا کرنا ہے تاکہ طلباء میں بے راہ روی کا تدارک ہو۔ ایک اُبھرتے ہوئے معاشرے میں تعلیم و تعلّم کی بنیادی اہمیت ہے۔ اس ضمن میں نظریۂ تعلیم، تعلیمی مقاصد اور تعلیمی اداروں کی تشکیل و تنظیم بھی بہت اہمیت وافادیت رکھتی ہے۔ معلّم (اُستاد) کو اُس بات کا ماہر ہونا چاہیے کہ طلباء اس سے سیکھیں، اُس کا اظہار اس کے کردار، شخصیت اور اَخلاق وعادات سے ہونا چاہیے۔ تعلیم سے طلباء میں خیالات، رجحانات، عادات، معلومات اور علم و ہنر کے تقاضے پُورے ہوتے ہیں۔ اسی سے انسان کے ذہنی قویٰ کی نشوونما ہوتی ہے۔ تعلیم ایک ایسا مثالی معاشرتی عمل ہے، جس کے ذریعے معاشرہ اپنی بقا قائم رکھنے کے لائق ہوتا ہے۔
علم کي فضيلت :
علم إنسان كي ایمان و یقین کی دنیا آباد کرتا ہے، بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے، بروں کو اچھا بناتا ہے، دشمن کو دوست بناتا ہے، بے گانوں کو اپنا بناتا ہے اور دنیا میں امن و امان کی فضا پیدا کرتا ہے۔ علم کی فضیلت و عظمت، ترغیب و تاکید مذہب اسلام میں جس بلیغ و دلآویز انداز میں پائی جاتی ہے اس کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی، تعلیم و تربیت، درس وتدریس تو گویا اس دین برحق کا جزو لاینفک ہے، کلام پاک کے تقریباً اٹھتر ہزار الفاظ میں سب سے پہلا لفظ جو رب العالمين جل شانہ نے رحمة العالمين صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے قلب مبارک پر نازل فرمایا وہ اِقرَاء ہے، یعنی پڑھ، اور قرآن پاک کی چھ ہزار آیتوں میں سب سے پہلے جو پانچ آیتیں نازل فرمائی گئیں ان سے بھی قلم کی اہمیت اور علم کی عظمت ظاہر ہوتی ہے، ارشاد بارى تعالى ہے:
(۱) ترجمہ: پڑھ اور جان کہ تیرا رب کریم ہے، جس نے علم سکھایا قلم کے ذریعے سکھلایا آدمی کو جو وہ نہ جانتا تھا۔(سورة القلم ) گویا وحی الٰہی کے آغاز ہی میں جس چیز کی طرف سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے ذریعے نوعِ بشر کو توجہ دلائی گئی،وہ لکھنا پڑھنا اور تعلیم و تربیت کے جواہر و زیور سے انسانی زندگی کو آراستہ کرنا تھا۔
حضور أكرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کو جب نبوت کے منصب عظیم سے نوازا گیا،اس وقت جزیرة العرب کی کیا حالت تھی؟ قتل و غارت گری، چوری، ڈکیتی،قتل اولاد، زنا،بت پرستی کون سی ایسی برائی تھی جو ان میں پائی نہ جاتی ہو۔ بعضے وقت بڑے فخریہ انداز میں اسے انجام دیا جاتا تھا۔ اللہ تعالى کے رسول(صلى الله عليه وآله وسلم ) نے ان کی تعلیم و تربیت اس انداز سے کی اور زندگی گزارنے کے ایسے اصول بتائے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی حالت یکسر بدل گئی اور تہذیبی قدروں سے آشنا ہو گئے۔ جہاں اور جدھر دیکھیے لوگ تعلیم و تعلم سے جڑ گئے اور قرآن مجيد و حدیث مباركه کی افہام و تفہیم میں مشغول ہو گئے۔
وَاَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَعَلَّمَکَ مَالم تَکُنْ تَعْلَمُ.
یعنی اور اتاری اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت اور آپ کو سکھائیں وہ باتیں جو آپ جانتے نہ تھے۔
علم وحکمت اور دین و دانائی کا درجہ اور علم والوں کا رتبہ اسلام میں کس قدر بلند ہے اس کا اندازہ کلام پاک کی مندرجہ ذیل آیات سے ہوتا ہے:
یُوٴْتِی الْحِکْمَةَ مَنْ یَّشَآءُ وَمَنْ یُّوٴْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا.
یعنی اللہ جسے چاہتا ہے عقل اور دانائی کی باتیں مرحمت فرماتا ہے، اور جسے اللہ عقل اور دانائی کی باتیں بخشتا ہے اسے بہت بڑی نعمت عطا کرتا ہے۔
یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ.
اللہ تم میں سے ان لوگوں کے درجے بلند کردے گا جو ایمان لائے، اور جنھوں نے علم حاصل کیا۔
قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الأَلْبَابِ 0
دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے:”(اے نبی صلی اللہ علیہ وآله وسلم) کہہ دیجیے کیا علم رکھنے والے(عالم) اور علم نہ رکھنے والے (جاہل) برابر ہوسکتے ہیں۔نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔(سورة الزمر)
ایک اور آیت میں تاریکی اور روشنی کی مثال دے کر عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیا ہے،چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتےاهيں:”
قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الأَعْمَی وَالْبَصِیْرُ أَمْ ہَلْ تَسْتَوِیْ الظُّلُمَاتُ وَالنُّور کہہ دیجیے،کیا برابر ہوسکتے ہیں اندھا(جاہل) اور دیکھنے والا(عالم) یا کہیں برابر ہوسکتا ہے اندھیرا اور اجالا؟”۔(سورةالفاطر)

علم ہی لوگوں کیلیے زندگی و روشنی ہے:
أَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِنْهَا.
بھلا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کو روشنی عطا کی جس کی مدد سے وہ لوگوں میں زندگی بسر کر رہا ہے اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہو اور اس کے نکلنے کی کوئی صورت  نہ ہو؟ [الأنعام]
حسن سیرت اور دین کی سمجھ مؤمنین کی خصوصی صفات ہیں، اسی لیے ان کے سینے علم سے منور ہوتے ہیں:
بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ .
بلکہ [قرآن ]تو واضح آیات ہیں  جو ان  لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے[العنكبوت ]
صرف اہل علم کو اللہ تعالی نے قرآن کریم کی امثال سمجھنے اور ان کے معنی و مفہوم کا ادراک رکھنے والا قرار دیا:
وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ0
یہ مثالیں ہم لوگوں کیلیے بیان کرتے ہیں اور انہیں علما کے علاوہ کوئی نہیں سمجھتا۔[العنكبوت ]
اللہ تعالی نے اہل علم کو اپنی الوہیت کیلیے گواہ بھی بنایا اور فرمایا:
شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ .
اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں  اور وہ عدل کو قائم رکھنے والا ہے [آل عمران ]
علم کی وجہ سے اللہ تعالی کا ڈر پیدا ہوتا ہے اور اس کی اطاعت کی جاتی ہے:
إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ0
یقیناً بندوں میں سے اللہ تعالی سے ڈرنے والے علما ہی ہوتے ہیں۔[فاطر]
اس طرح کی بہت ساری آیتیں ہیں جن میں عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیا ہے اور ان کے درجات کے تعین کے ساتھ مسلمانوں کو حصول علم کے لیے ابھارا گیا ہے۔ “۔ علم ایسی چیز ہے جو انسان کو ہمیشہ کام آئے گی، مقصد نیک ہو اور اس کا صحیح استعمال کیا جائے تو اس کی بدولت وہ دین و دنیا کی ساری نعمت اور دولت حاصل کر سکتا ہے”۔ دینی علوم کی عظمت اور فضیلت، اسلامی تعلیمات کی اخلاقی اور تہذیبی قدریں علم کی فضیلت اور اس کو حاصل کرنے کی ترغیب کے حوالے سے کثرت سے احادیث بھی وارد ہوئی ہیں،جن میں اہل علم کی ستائش کی گئی ہے اور انہیں انسانیت کا سب سے اچھا آدمی قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول فرماتے ہیں:
وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعابِدِ ،کَفَضْلِی عَلَی اَدْنَاکُمْ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم: اِنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَہُ وَاھْلَ السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضِیْنَ حَتَّی النَّمْلَةَ فِی جُحْرِھَا وَحَتَّی الْحُوْتَ لَیُصَلُّوْنَ عَلی مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَیْرَ.“
(اورعابد پر عالم کی فضیلت ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ادنی پر۔ یقینا اللہ عزوجل ،اس کے فرشتے اور آسمان وزمین والے حتیٰ کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلی تک لوگوں کے معلم کے لیے بھلائی کی دعاء کرتی ہیں۔)
ایک دوسرے حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں ،وہ بیان کرتے ہیں:
”خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم ذَاتَ یَوْمٍ مِن بَعضِ حُجَرِہِ، فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَاِذَا ھُوَ بِحَلْقَتَیْنِ: اِحْداھُمَا یَقرَوٴُن الُقُرْآنَ وَیَدْعُوْنَ اللّٰہ، وَالْاُخْرَی یَتَعَلَّمُونَ وَیُعَلِّمُونَ. فَقَالَ النَّبِیُ: کُلٌّ عَلی خَیْرٍ، ھٰوٴُلَاءِ یَقُرَوٴُنَ الْقُرْآنَ وَیَدْعُوْنَ اللّٰہ، فَاِنْ شَاءَ اَعْطَاھُمْ وَاِنْ شَاءَ مَنَعَھُمْ، وَھٰوٴلَاءِ یَتَعَلَّمُوْنَ وَیُعَلِّمُوْنَ، وَاِنَّمّا بُعِثْتُ مُعَلِّماً، فَجَلَسَ مَعَھُمْ.“
(ایک دن رسول اللہ اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے اور مسجد (نبوی) میں داخل ہوے،وہاں دوحلقے بیٹھے ہوے تھے،ایک حلقہ قرآن کی تلاوت کررہا تھا اوراللہ سے دعاء کررہا تھا،دوسرا تعلیم وتعلم کا کام سرانجام دے رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: دونوں بھلائی پر ہیں۔ یہ حلقہ قرآن پڑھ رہا ہے اور اللہ سے دعاء کررہاہے ۔ اللہ چاہے تو اس کی دعاء قبول فرمائے ، یا نہ فرمائے۔دوسرا حلقہ تعلیم وتعلم میں مشغول ہے (یہ زیادہ بہتر ہے) اور میں تو معلم بناکر بھیجا گیا ہوں۔ پھر یہیں بیٹھ گئے۔)
اہل علم کاصرف یہی مقام ومرتبہ نہیں ہے کہ اسے دنیا کی تمام چیزوں پر فضیلت دی گئی ہے اور اس کام میں وہ جب تک مصروف ہیں ، اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق اس کے لیے دعاء کرتی رہتی ہے،بلکہ اس کا مقام ومرتبہ یہ بھی ہے کہ اللہ کے رسول نے انہیں انبیاء کا وارث اور جانشین قرار دیا ہے :
مَنْ سَلَکَ طَرِیْقاً یَبْتَغِی فِیْہِ عِلْماً سَلَکَ اللّٰہُ بِہ طَرِیْقاً اَلَی الْجَنَّةِ، وَاِنَّ الْمَلائِکَةَ لَتَضَعُ اَجنِحْتَھَا رَضًی لَطَالِبِ الْعِلْمِ، وَاِنَّ الْعَالِمَ لَیَسْتَغْفِرُ لَہُ مَنْ فِی السَّمَواتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ حَتَّی الْحِیتَانُ فَی الْمَاءِ، وَفَضْلُ الْعَالِم عَلَی الْعَابِدِ، کَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَی سَائِرِ الْکَوَاکِبِ، انَّ الْعُلْمَاءَ وَرَثَةُ الْاَنْبِیَاءِ، اِنَّ الْاَنْبِیَاءَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِیْنَارًا وَلَا دِرْھَماً، اِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ، فَمَنْ اَخَذَ بِہ فَقَدْ اَخَذَ بِحَظّ وَافَرٍ.
(جو کوئی حصول علم کی غرض سے راستہ طے کرے تو خدا اس کے سبب اسے جنت کی ایک راہ چلاتا ہے۔ فرشتے طالب علم کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں اور یقینا عالم کے لیے آسمان اور زمین کی تمام چیزیں مغفرت طلب کرتی ہیں،یہاں تک کہ وہ مچھلیاں بھی جو پانی میں ہیں ۔ عابد پر عالم کو ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی چاند کو تمام تاروں پر۔بلاشبہ علماء ہی پیغمبروں کے وارث ہیں۔پیغمبروں نے ترکہ میں نہ دینار چھوڑا ہے اور نہ درہم ۔ انہوں نے تو صرف علم کو اپنے ترکہ میں چھوڑا۔ پس جس کسی نے علم حاصل کیا اس نے ہی حصہ کامل پایا۔)
رسول كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم أرشاد فرماتے ہیں:
طَلَبُ العِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلَىْ كُلِّ مُسْلِمٍ
طلب کرنا علم کا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔
زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں: " اللہ تعالی کی حصولِ علم جیسی کوئی عبادت ہے ہی نہیں"
حصولِ علم خیر و بھلائی ہے: (اللہ تعالی جس کے بارے میں خیر کا ارادہ فرما لے اسے دین کی سمجھ  عطا فرما دیتا ہے) متفق علیہ
سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہی بہترین لوگ ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (دورِ جاہلیت کے بہترین لوگ  اسلام میں بھی بہترین ہیں بشرطیکہ دین کی سمجھ رکھتے ہوں) متفق علیہ
حضرت انس رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے کہ جو شخص علم کی طلب میں نکلا وہ گویا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے وطن واپس لوٹے۔
ابوامامہ رضى الله تعالى عنه سے مروی ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے کہ ایک عالم کی برتری ایک عبادت گذار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے کسی ادنیٰ شخص پر، اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اوراس کے فرشتے اور زمین وآسمان کی ہر شے حتیٰ کہ بلوں کی چیونٹیاں اور سمندروں کی مچھلیاں بھی علم سکھانے والوں کے لئے دعائے خیر کررہی ہیں۔
(أ) علم والوں کو دسروں کے مقابلے میں ایسی ہی فضیلت حاصل ہے،جیسے میری فضیلت تم میں سے ادنیٰ شخص پر۔ یقیناً اللہ عزوجل،اس کے فرشتے اور آسمان و زمین والے حتیٰ کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلی تک لوگوں کے معلم کے لیے بھلائی کی دعا کرتی ہیں۔
(ب) ایک دوسری حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالى عنہ ہیں،وہ بیان کرتے ہیں: ایک دن رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے اور مسجد نبوی صلى الله عليه وآله وسلم میں داخل ہوے،وہاں دو حلقے بیٹھے ہوے تھے،ایک حلقہ قرآن مجيد کی تلاوت کر رہا تھا اور اللہ سے دعاء کر رہا تھا،دوسرا تعلیم و تعلم کا کام سرانجام دے رہا تھا۔ آپ (صلى الله عليه وآله وسلم )نے فرمایا: دونوں بھلائی پر ہیں۔ یہ حلقہ قرآن مجيد پڑھ رہا ہے اور اللہ سے دعا کر رہا ہے۔ اللہ چاہے تو اس کی دعاء قبول فرمائے، یا نہ فرمائے۔دوسرا حلقہ تعلیم و تعلم میں مشغول ہے (یہ زیادہ بہتر ہے) اور میں تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ پھر یہیں بیٹھ گئے(مشکوٰة شریف)
اہل علم کا صرف یہی مقام و مرتبہ نہیں ہے کہ انہیں دنیا کی تمام چیزوں پر فضیلت دی گئی ہے اور اس کام میں وہ جب تک مصروف ہیں، اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق اس کے لیے دعا کرتی رہتی ہے،بلکہ ان کا مقام و مرتبہ یہ بھی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں انبیاء کا وارث اور جانشین قرار دیا ہے
(ج) جو کوئی حصول علم کی غرض سے راستہ طے کرے،اللہ تعالیٰ اس کے سبب اسے جنت کی ایک راہ چلاتا ہے۔ فرشتے طالب علم کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں اور یقیناً طالب علم کے لیے آسمان اور زمین کی تمام چیزیں مغفرت طلب کرتی ہیں،یہاں تک کہ وہ مچھلیاں بھی جو پانی میں ہیں۔ عابد پر عالم کو ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی چاند کو تمام تاروں پر۔بلاشبہ علماء ہی پیغمبروں کے وارث ہیں۔پیغمبروں نے ترکہ میں نہ دینار چھوڑا ہے اور نہ درہم۔ انہوں نے تو صرف علم کو اپنے ترکہ میں چھوڑا۔ پس جس کسی نے علم حاصل کیا اس نے ہی حصہ کامل پایا۔ (منتخب احادیث)
(د) طلب کرنا علم کا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔(مشکوٰة شریف)
حضرت علی رضي الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ علم کا سیکھنا ہر مؤمن پر فرض ہے اس سے مراد روزہ، نماز، حلال و حرام اور حدود و احکام کی معرفت حاصل کرنا ہے۔حسن بن الربیعؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مبارکؒ سے پوچھا کہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم “علم کا سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے”اس کا مطلب کیا ہے؟تو حضرت عبداللہ بن مبارکؒ نے جواب دیا کہ اس سے وہ دنیوی علوم مراد نہیں جو تم حاصل کرتے ہو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی دینی معاملہ میں مبتلا ہو تو اس کے بارے میں پہلے جانکار لوگوں سے علم حاصل کر لے۔(آداب المتعلمین)
(ه) حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے کہ جو شخص علم کی طلب میں نکلا وہ گویا اللہ تعالى کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے وطن واپس لوٹے۔(ریاض الصالحین،مشکوٰة شریف)
(و) ابوامامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے کہ ایک عالم کی برتری ایک عبادت گذار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے کسی ادنیٰ شخص پر، اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اور زمین وآسمان کی ہر شے حتیٰ کہ بلوں کی چیونٹیاں اور سمندروں کی مچھلیاں بھی علم سکھانے والوں کے لئے دعائے خیر کر رہی ہیں۔(ایضاً)
(ز) رسول كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے کیسے بلیغ انداز میں فرمایا ہے: حکمت کو ایک گم شدہ لال سمجھو جہاں پاؤ اپنا اسے مال سمجھو۔(بخاری،مسلم،ترمذی)
(ح) آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا:بلاشبہ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔
(بحوالہ:الرسول المعلم صلی اللہ علیہ وسلم)
(ط) آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کو زندہ کرے گا اور اس میں علماء کو ممتاز کرے گا اور فرمائے گا اے علم والو : میں نے اپنا علم تمہارے اندر اس لیے نہیں رکھا کہ میں تمہیں عذاب دوں،جاؤ تم سب کی مغفرت کر دی۔
رسول آكرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے جس انداز میں دین اسلام کی تبلیغ فرمائی وہ نہ صرف یہ کہ انتہائی کامیاب و موثر ہے ۔بلکہ اس میں تعلیم و تربیت کے ایسے اوصاف بھی نمایاں ہیں جو متعلمین و مربیین دونوں کے لئے روشن مثال کی حیثیت رکھتے ہیں ۔مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی پہلی درسگاہ اور اصحاب صفہ پر مشتمل طالب علموں کی پہلی جماعت کے عمل نے جلد ہی اتنی وسعت اختیار کر لی جسکی مثال دینے سے دنیا قاصر ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے پہلے خود تعلیم و تربیت دی۔ پھر دوسروں کو تعلیم و تربیت دینے کے لئے کامل افراد کا انتخاب فرما دیا،چنانچہ تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی وفات کے بعد بھی جاری و ساری رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے منتخب کردہ، ان تربیت یافتہ معلمین نے درس و تدریس میں جس مہارت کا ثبوت دیا وہ آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی ہمہ گیر تربیت ہی کا نتیجہ ہوسکتا تھا جس کے اثرات تا دیر محسوس کیے جاتے رہے ۔یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ علم و حکمت اور صنعت و حرفت کے وہ ذخائر جن کے مالک آج اہل یورپ بنے بیٹھے ہیں ان کے حقیقی وارث تو ہم لوگ ہیں، لیکن اپنی غفلت و جہالت اور اضمحلال و تعطل کے سبب ہم اپنی خصوصیات کے ساتھ اپنے تمام حقوق بھی کھو بیٹھے۔ ان تفصیلات سے واضح ہوا کہ دین اسلام نے اپنے ماننے والوں کو علم حاصل کرنے سے نہیں روکا،بلکہ اس کی فضیلتیں بیان کر کے ہمیں اس کو حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے،البتہ اسلام یہ حکم ضرور دیتا ہے کہ اپنے آپ کو ضرر رساں نہیں بلکہ نفع بخش بناؤ۔ایک انسان کے قول و عمل سے دوسرے انسان کو تکلیف نہ پہنچے۔ اچھی اور بھلی باتوں کا تمیز وہی انسان کر سکتا ہے جس کے اندر شعور وفراست ہو گی اور یہ خوبی بغیر علم کے پیدا نہیں ہوسکتی۔عقل و شعور تو جاہل کے پا س بھی ہے۔مگر جو فراست ایک پڑھے لکھے کو حاصل ہو گی وہ جاہل کو ہر گز حاصل نہیں ہوسکتی۔اس کے دن رات کے عمل میں،اس کی گفتگو میں،اس کے معاملات میں، اس کے فیصلہ لینے میں ایسی بات کا صادر ہونا جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچ جائے کوئی بعید نہیں ہے۔ اگر اسے اس کا ادراک ہو جائے تو وہ جاہل ہی کیوں رہے گا۔ اللہ کے رسول (صلى الله عليه وآله وسلم )کی حدیث سے بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: جو علم نفع بخش نہ ہو اس کی مثال اس خزانے جیسی ہے جس میں سے خدا کی راہ میں کچھ خرچ نہ کیا جائے،نیز آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے یہ بھی فرمایا: اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ آدمی وہ ہے جو سب سے زیادہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے والا ہے۔۔(بحوالہ:منبہات)
(ي ) علم نافع اور رزق وسیع کے لیے رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم اللہ تعالى کے حضور یہ دعا بھی کرتے تھے:”اے اللہ! میں تجھ سے علم نافع، عمل مقبول اور پاک رزق کی درخواست کرتا ہوں”۔ علم اور عمل لازم وملزوم هے چناچه حضرت عیسیٰ علیہ السلام عالم بےعمل کے متعلق فرماتے ہیں :عالم بےعمل کی مثال ایسی ہے جیسے اندھے نے چراغ اٹھایا ہو کہ لوگ اس سے روشنی حاصل کرتے ہیں اور وہ خود محروم رہتا ہے۔حضرت عثمان رضي الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ علم بغیر عمل کے نفع دیتا ہے اور عمل بغیر علم کے فائدہ نہیں بخشتا۔حضرت عبد اللہ ابن عباس رضي الله تعالى عنه کا مقولہ ہے کہ اگر اہل علم اپنے علم کی قدر کرتے اور اپنا عمل اس کے مطابق رکھتے تو اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے اور صالحین اُن سے محبت کرتے اور تمام مخلوق پر اُن کا رعب ہوتا ۔ لیکن انہوں نے اپنے علم کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنا لیا ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ بھی اُن سے ناراض ہو گیا اور وہ مخلوق میں بھی بے وقعت ہو گئے۔حضرت عبد اللہ ابن مبارکؒ فرماتے ہیں: علم کے لیے پہلے حسن نیت پھر فہم پھر عمل پھر حفظ اور اس کے بعد اس کی اشاعت اور ترویج کی ضرورت ہے۔شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں:دین کی اصل عقل،عقل کی اصل علم اور علم کی اصل صبر ہے۔(بحوالہ:منبہات)
إسلام ہم کو تعلیم حاصل کرنے سے روکتا نہیں، بلکہ تعلیم کو ہمارے لئے فرض قرار دیتا ہے، وہ تعلیم کے ذریعے ہم کو صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات کے درجہ پر پہنچانا چاہتا ہے، وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کو حقیقی علم ثابت کرتا ہے، اور اس کو بنی نوع انسان کی حقیقی صلاح و فلاح اور کامیابی و بہبودی کا ضامن بتاتا ہے، وہ کہتا ہے کہ قرآن مجيد اور فرمان نبوي صلى الله عليه وآله وسلم حقیقی علم ہے، اور دوسرے تمام علوم و فنون معلومات کے درجہ میں ہیں، ان تمام معلومات کو اپنی اپنی استعداد کے مطابق حاصل کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں علم دين حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمين يا رب العلمين

علم کی فضیلت پر چالیس آحاديث مباركه:
1۔ علم کا طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور بے شک علم کے طلب کرنے والے کے لیے ہر چیز استغفار کرتی ہے حتیٰ کہ مچھلیاں سمندر میں "اس کے لیے استغفار کرتی ہیں۔
2۔ ایک گھڑی علم کی طلب و تلاش کرنا پوری رات قیام کرنے سے بہتر ہے اورایک دن علم کی تلاش و طلب کرنا تین ماہ کے روزوں سے بہتر ہے ۔
3۔ علم، اسلام کی حیات اور دین کا ستون ہے اور جس نے علم سکھایا (تو) اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کا اجر و ثواب پورا کرے گا ۔ اور جو (علم) سیکھ کر (اس پر ) عمل کرے گا
(تو ) اسے (وہ) سکھائے گا جو وہ نہیں جانتا ۔
4۔ فرمان نبوي صلى الله عليه وآله وسلم ہے كه علم میری اور مجھ سے پہلے انبیاء كرام (علیہم السلام )کی میراث ہے ۔
5۔ عالم زمین پر اللہ تعالیٰ کا امین ہے ۔
6۔ عالم ، علم اور عمل جنت میں ہیں پس جب عالم اس پر عمل نہیں کرے گا جسے وہ جانتاہے (تو) علم اور عمل جنت میں ہوں گے اور عالم (جہنم کی ) آگ میں ہوگا ۔
7۔ علماء كرام انبیاء كرام (علیہم السلام)کے جانشین ہیں ۔ آسمان والے ان سے محبت کرتے ہیں اور جب وہ فوت ہوجاتے ہیں تو مچھلیاں سمندر میں ان کے لیے قیامت تک دعاے استغفار کرتی رهتي ہیں
8۔ فرمان نبوي صلى الله عليه وآله وسلم ہے كه جب تم جنت کے باغات سے گذرو تو کچھ چر لیا كرو ۔ کسی نے عرض کی: جنت کہ باغات کیا ہیں ارشاد فرمایا: علم کی مجالس۔
9۔ جوایسا راستہ چلے جس میں وہ علم کی طلب کرے (تو) اللہ تعالیٰ اس کے لیے آسان کردے گا وہ راستہ جو جنت کی طرف ہے۔
10۔ جس نے علم کی طلب و تلاش کی (تو) وہ تلاش گذشتہ گناہوں کے لیے کفارہ ہوگی۔
11۔ جس نے علم کی تلاش کی تو وہ اللہ کے راستے میں ہے یہاں تک کہ وہ واپس لوٹے۔
12۔ جس نے (کسی کو ) علم سکھایا تو اس کے لیے اس کا اجر و ثواب ہے جو اس پر عمل کرے (اور) عمل کرنے والے کے اجر و ثواب سے (بھی) کمی نہیں ہوگی۔
13۔اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے اسے دین میں فقیہ و علم شریعت کا (ماہر) بنا دیتا ہے ۔
14۔ جوصبح و شام جائے اس حال میں (کہ) وہ اپنا دین سکھانے میں (مصروف) ہو تو وہ جنت میں ہے۔
15۔ طالب علم کے لیے فرشتے اپنے پروں کو بچھاتے ہیں اس چیز کی رضا کے لیے جو وہ طلب کرتا ہے ۔
16۔ علم کا متلاشی (تلاش کرنے والا) جاہلوں کے درمیان ایسا ہے جیسا مُردوں کے درمیان زندہ۔
17۔ تُو صبح کراِس حال میں (کہ) عالم ہو یا متعلم یا دھیان سے(دین کی باتیں) سننے والا یا محبت کرنے والا (عالم دین سے علم دین کی وجہ سے ) اور تُو پانچواں نہ ہونا کہ ہلاک ہوجائے گا۔
18۔ بے شک اللہ تعالیٰ رحمتیں نازل فرماتا ہے اور اس کے فرشتے حتیٰ کہ چیونٹی اپنے بِل میں اور مچھلی سمندر میں لوگوں کو بھلائی ( کی باتیں) سکھانے والے کے لیے استغفار کرتی ہیں۔
19۔ جس دل میں حکمت و دانائی سے کچھ نہ ہو وہ ویران گھر کی طرح ہے پس تم سیکھو اور سکھاؤاور (دین میں ) سمجھ حاصل کرو اور جاہلوں کی موت مت مرو کیوں کہ اللہ تعالیٰ لاعلمی کا -عذر قبول نہیں فرماتا۔
20۔ علماء كرام کے ساتھ بیٹھنا عبادت ہے۔
21۔ عالم کی دو رکعت (نماز پڑھنا) غیر عالم کی ستر رکعت (نماز پڑھنے ) سے افضل ہے
22۔مؤمن عالم کو مؤمن عابد پر ستر درجہ فضیلت ہے۔
23۔ تھوڑا عمل (بھی) علم کے ساتھ نفع دیتاہے اورجہالت کے ساتھ زیادہ عمل بهي فائدہ نہیں دیتا۔
24۔ ہر چیز کے لیے ایک راستہ ہے اور جنت کا راستہ علم ہے ۔
25۔ جس نے میری امت کو ایک حدیث پہنچائی تاکہ اس کے ذریعے سنت کو قائم کیا جائے یابدعت کو ختم کیاجائے تو وہ جنت میں ہے ۔
26۔ جوشخص قدم اٹھائے تاکہ وہ علم سیکھے(تو) اس کے قدم اٹھانے سے پہلے اس کے (گناہوں کو) معاف کردیاجاتا ہے ۔
27۔ جو کوئی میری سنت سے چالیس احادیث یاد کرکے میری امت کو پہنچائے (تو) میں اسے قیامت کے دن اپنی شفاعت میں داخل کروں گا۔
28۔ جس نے کتاب اللہ(قرآن) کی ایک آیت یاعلم(دین) کاایک باب سکھایا تواللہ تعالیٰ قیامت تک اس کا اجر و ثواب بڑھائے گا ۔
29۔ فقہ کا طلب کرنا ہر مسلمان پر لازم و واجب ہے۔
30۔ جس نے علم کاایک باب حاصل کیا تاکہ اس کے ذریعے اپنے نفس کی اصلاح کرے یا اپنے بعد والے کی تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ریگستان کی ریت کے برابر اجر لکھتا ہے ۔
31۔ جو علم کی طلب میں ہے (تو ) جنت اس کی طلب میں ہےاور جو معصیت کی طلب میں ہے (تو جہنم کی ) آگ اس کی طلب میں ہے ۔
32۔ جب تو علم کا ایک باب سیکھے گا (تووہ) تیرے لیے ہزاررکعت مقبول نفلی نماز پڑھنے سے بہتر ہےاور جب تو وہ علم لوگوں کوسکھائے گا اس پر عمل کیا جائے یا نہ کیاجائے تووہ تیرے لیے ہزار رکعت مقبول نفلی نماز سے بہتر ہے۔
33 ۔ جس نے دوحدیثیں سیکھیں تو وہ نفع دیتا ہے ان کے ذریعے اپنی جان کو یاوہ اپنے سوا کو دو حدیثیں سکھاتا ہے اور وہ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے تو یہ اس کے لیے ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔
34۔ جس شخص نے ایک کلمہ یا دو تین یا چار یا پانچ کلمے اس چیز سے سیکھے جسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرض کیا پھر ان کا علم رکھا اور انھیں سکھایا تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔
35۔ تم علم سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ اور تم فرائض سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ ۔
36۔ نہیں ہے کوئی شخص مگر اس کے دروازے پر دو فرشتے ہوتے ہیں پس جب وہ نکلتا ہے تو وہ دونوں فرشتے کہتے ہیں صبح کر اس حال میں کہ تو عالم ہو یا متعلم اور تو تیسرا نہ ہونا۔
37۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایا: اے میرے پیارے بیٹے!تو علماکی مجالس کو لازم کر اور حکما کاکلام غور سے سن کیوں کہ اللہ عزوجل مردہ دل کو حمت کے نور سے زندہ کرتا ہے جیسے مردہ زمین کو موسلادھار بارش کے ذریعے زندہ کرتا ہے ۔
38۔ بے شک افضل ہدیہ یا افضل عطیہ کلام حکمت کا کلمہ ہے بندہ اسے سنتا ہے پھر اسے سیکھتا ہے اس کے بعد اسے اپنے بھائی کو سکھاتا ہے تو یہ اس کے لیے ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے ۔
39 ۔ حکمت کی بات جسے آدمی سنتا ہے وہ اس کے لیے ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے اور علمی مذاکرہ کے وقت ایک ساعت بیٹھنا ایک غلام آزاد کرنے سے بہتر ہے ۔
40۔ ہر چیز کے لیے ستون ہے اور اسلام کا ستون دین میں تفقہ (سمجھ) ہے اور ضرور ایک فقیہ ( احکامِ شرعیہ کا تفصیلی علم رکھنے والا) شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے ۔

طالب علم اور علماء کی فضیلت:
سب سے پہلے تو يه گزارش ہے کہ خود دين كے طلباء پہلے ٓاپنی حیثیت پہچانیں کیونکہ جب تک انسان اپنے مرتبہ ومقام کو نہیں پہچانتا وہ کسی اور حقیقت کو بھی نہیں جان سکتا۔ ديني طلباء كو سمجهنا جاهيے كه يه وہ ہیں جب گھرسے اللہ کی خاطر محض حصول علم کے لئے نکلتے ہیں تو فرشتے ان کے پاؤں کے نیچے اپنے مقدس پر بچھاتے،سمندروں کی مچھلیاں استغفار کرتی اورچیونٹیاں اپنے بلوں میں ان کے لئے دعائیں کرتی ہیں ۔کیونکہ يه علم نبوت کے طالب علم ہیں جو نبوت کا ورثہ ہے۔ جیسا کہ سورہ آل عمران میں فرمایا
{شَھِدَ اللٰہُ اَنَّہ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ وَالْمَلَائِکَۃُ وَاُولُواالْعِلْمِ}
’’اللہ ‘ فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے اپنے ساتھ فرشتوں اور پھر اہل علم کاذکرفرمایا۔امام قرطبی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں علم کی فضیلت اورعلماء کی عظمت کاذکرہے ۔ اگر علماء سے زیادہ کوئی معزز ہوتا تواس کانام بھی فرشتوں کے ساتھ لیا جاتا۔
اسی طرح سورہ طٰہ میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآله وسلم کو حکم دیا
{وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْماً}
کہ اپنے رب سے كه ميرے علم میں اضافہ فرما ديجيے -
گویاعلم اتنی فضيلت والی چیز ہے کہ جس میں اضافہ کیلئے مانگنے کا نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم جیسی ہستی کو بهي حکم ہے ۔اگر اس سے زیادہ فضيلت والی کوئی چیز ہوتی تو اس کے مانگنے کا حکم بھی دیا جاتا۔(قرطبی)
سورہ عنکبوت میں فرمایا
{وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُھَا اِلَّا الْعَالِمُوْنَ}
ہم ان مثالوں کو لوگوں کے لیے بیان فرما رہے ہیں انہیں صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں۔
مزید ارشاد ہوا:
{بَلْ ھُوَ اٰیٰتٔ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوْاالْعِلْمَ}
بلکہ یہ قرآن تو روشن آیتیں ہیں جو اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہیں ‘ہماری آیتوں کا منکر بجز ظالموں کے اور کوئی نہیں۔
سورہ فاطر میں فرمایا:
{اِنَّمَا یَخْشَی اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰؤُا}
اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم ركهتے هیں
اہل علم نے کہا یہ آیت علماء کی شان بیان کرتی ہے اور اس امتیاز کو حاصل کرنے کیلئے اللہ سے تقوی اور خشیت ضروری ہے۔ یاد رکھو کہ علم محض جان لینے کا نام نہیں، خشیت و تقویٰ کا نام ہے۔ عالم وہ ہے جو رب سے تنہائی میں ڈرے اور اس میں رغبت رکھے اور اس کی ناراضگی سے بچے ۔ سورہ زمر میں فرمایا: پوچھو بھلا علماء اور جہلاء برابر ہوسکتے ہیں؟ حالانکہ نصیحت تو عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں - حق تعالی نے علم اور علمائے دین کی جا بجا فضیلت بیان فرمائی ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا:
نحن معاشرالانبیاء لا نرث ولا نورث ما ترکنا فھو صدقۃ
هم آنبياء كي جماعت كا كوئى وارث نهيں هوتا جو چهوڑتے هيں وه صدقه هوتا هے

فضیلت علم و علماء کا باب امام بخاری نے کتاب العلم میں قائم کیا ہے۔ باب العلم قبل القول والعمل اس میں حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالى عنہ کی روایت ذکرکی’’ کہ جوکوئی حصول علم کے لئے نکلتا ہے اللہ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے۔ (مسلم)
حضرت صفوان بن عسال رضي الله تعالى عنه سے مرفوعا ًروایت ہے کہ طالب علم کے پاؤں کے نیچے فرشتے پربچھاتے ہیں تاکہ وہ راضی رہے اور حصول علم میں دل لگا کر مشغول رہے۔ (ترمذی)
حضرت کثیر بن قیس کہتے ہیں کہ میں مسجد دمشق میں حضرت ابودرداء رضي الله تعالى عنه کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی مدینہ منورہ سے ایک حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآله وسلم جاننے کیلئے آیا۔ حضرت ابودردا ء رضي الله تعالى عنه نے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے سنا جو علم دین کیلئے نکلتا ہے اللہ اس کیلئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے ۔ بے شک فرشتے طالب دین کے پاؤں کے نیچے پر بچھاتے اور ارض وسماء کی ساری مخلوق حتی کہ سمندروں کی مچھلیاں گہرے پانیوں میں ان کیلئے استغفار کرتی ہیں۔ عابد پر عالم کی فضیلت ایسی ہے جیسے چودھویں کے چاندکی سارے ستاروں پر۔ علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں ۔یادرکھو کہ انبیاء کا ورثہ درہم ودینار نہیں ہوتا بلکہ علم دین ہوتا ہے جو جتنا زیادہ حاصل کرے گا اتنی ہی فضیلت حاصل کرسکے گا۔ (ابوداود )
دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: عالم کی عابد پر فضیلت اتنی ہے جتنی میری فضیلت تم میں سے عام مسلمان پر ہے ۔ بے شک اللہ تعالیٰ‘ اس کے فرشتے اور ارض وسماء کی ساری مخلوق ، حتی کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں معلم خیر کیلئے دعائے رحمت بھیجتی ہیں۔(ترمذی وابوداود)
حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالى عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتے ہیں اور بے شک میں علم بانٹنے والا ہوں اور اللہ مجھے عطا فرمانے والے ہیں۔ یہ امت ہمیشہ خیر پر رہے گی‘ انہیں خوار کرنے والا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا حتیٰ کہ اللہ تعالى کا فیصلہ آجائے۔ (بخاری)
یہ ساری فضیلتیں اس وجہ سے ہیں کہ علماء کی وجہ سے لوگ ہدایت پاتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے یوم خیبرمیں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو جھنڈا دیتے ہوئے وصیت کی تھی کہ جنگ کرنے سے پہلے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دو، اگر ایک آدمی کو بھی راہ ہدایت مل گئی تو یہ سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ قیمتی متاع ہوگی۔
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: جس نے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلایا تو اس پر چلنے والوں کا اجر بھی اسے ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہ کی جائیگی ۔ اللہ اپنے فضل اور اپنے خزانے سے ان سب کو الگ الگ بدلہ دے گا۔ اسی طرح برائی کی طرف بلانے والوں پر اس کے پیروکاروں کے گناہوں کا وزن بھی ڈالا جائیگا، برائی کرنے والوں کے کھاتے سے نہیں بلکہ ان کیلئے الگ کھاتہ ہوگا۔ (مسلم )
اپنے بعد علم نافع چھوڑ نے کی فضیلت:
علم دنیا اور آخرت دونوں میں باعث رحمت و برکت ہے ۔ نبی كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: موت کے ساتھ اعمال کا دفتر لپٹ جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے ۔ علم نافع ، صدقہ جاریہ اور نیک صالح اولاد (مسلم)
جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی اور ضرورت کی ہر چیز مہیا فرمائی گئی یہ اس کا کھلا احسان ہے ۔ جس سے ثابت ہوا کہ علم ہمیشہ قابل صد افتخار سمجھا گیا ہے اور اس نعمت عظمی پر ذات باری تعالیٰ کا شکر ادا کیا گیا ہے۔وہ نعمت تھی علم کی۔ پرندوں کی بولیوں کا علم۔
حضرت احمد صالح مصری فرماتے ہیں : علم کثرت روایات کا نام نہیں بلکہ علم نام ہے اس سے واقفیت حاصل کرنے کا جس کی تابعداری فرض ہے یعنی کتاب و سنت اور صحابہ کرام۔ علماء کی تین قسمیں ہیں عالم باللہ ، عالم بامر اللہ اور عالم باللہ وبامراللہ ۔حقیقی عالم وہ ہے جو اللہ تعالی سے ڈرتا ہو اور حدود وفرائض کو جانتا ہو۔
کوتاہیوں کی نشاندھی:
علمي اور ۔تبلیغی کام کو موثر بنانا ہے ۔تو نفس کومارنا پڑے گا۔ شہرت اور ناموری کی خواہش سانپ کی طرح ہے جو سوائے زہر چھوڑنے کے کوئی فائدہ نہیں دیتی ۔
٭ بعض علماء عوام کو عشق و عقیدت کے نام سے بے وقوف بناتے ہیں ۔ عقیدت رسول صلى الله عليه وآله وسلم کے نام پر ان کا استحصال کرتے ہیں۔
علماء حق سنت رسول صلى اللہ عليه وآله وسلم کا اہتمام کرتے ہیں ۔ عبادات میں ، شادی بیاہ میں اور دنیوی و دینی معاملات میں ۔ان کے بچے نمازی ہوتے ہیں ۔ ۔شادی بیاہ میں بے جا رسومات نہیں ادا کرتے ۔ان کے خطبات میں وہی الفاظ استعمال ہوتے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے ثابت ہیں ۔ ان کی نمازیں سنت سے مزین ہوتی ہیں لیکن پھر بھی ترقی بہت کم ہے کیوں ؟ اس کا مطلب ہے کہ کہیں کوئی خامی ہے۔ دعوت کے انداز میں۔ ان خامیوں کو سمجھو ، مانو اور پھردور کرو ۔
:

طلباء اور علماء كي ذمه دارياں:
مدارس و مساجد زیادہ سے زیادہ بنائے جانے چاهيں- ۔تمام طلباء فارغ ہوکر دين كو اپنا مقصد حيات سمجهيں حتى الإمكان دنياوي معاملات ميں اپنے آپ كو نه الجهائيں اگرضرورت هو تو صرف ضرورت كي حد تك دنيا ميں وقت لگائيں اور دين كو زياده وقت ديں - دين كو پهيلانے كي محنت كو اپنا نصب العين بنائيں اگر دين كا علم سيكهـ اور پڑهـ كر بهي دنيا هي كے كاموں ميں الجهنا هے تو پهر يه تو دوسرے دنيادار بهي كررهے هيں آپ ميں اور أن ميں كيا فرق ره گيا - بلكه آپ نے مدارس كا وقت ليا ان كے وسائل إستعمال كيے اور پهر دين كے كام سے هٹ گئے تو يه تو بڑے نقصان كي بات هوئى . بعض علماء خود تو دنيا ميں مصروف هو جاتے هيں اور اپنے دل كو مطمئن كرنے كے لئے تهورا بهت تدريس/تيليغ وغيره ميں بهي وقت ديديتے هيں تو گو كچهـ نه كرنے سے يه بهي بهتر هے ليكن علماء كا أصل مقصد يه نهيں كه وه دنيا كے لئے تو 12 يا 14 گهنٹے لگائيں اور 24 گهنٹه دنيا كے لئے فكر كريں اور دين كے لئے إيك دو گهنٹه لگا كر مطمئن هو جائيں كه هم دين كي خدمت كررهے هيں - كم از كم درجه يه هے كه جتنا وقت اور علمي اور فكري صلاحيتيں دنيا ميں لگا رهے هين أتنا وقت اور أتني علمي اور فكري صلاحيتيں دين ميں ضرور لگا ديں اور باقي كے لئے الله تعالى سے مانگيں بعض علماء جب دنيا كافي جمع كرليتے هيں تو ان كي أخلاقي‏- معاشرتي اور فكري كيفيات بهي تبديل هوجاتي هيں بلكه بعض اوقات وه دنياداروں سے بهي زياده تبديل هوجاتے هيں تو دوسرے دنيادار لوگ إيسے علماء كو دنيا كے سامنے مثال بنا كر پيش كرتے هيں كه ديكهو وه عالم هوكر بهي إيسے هے تو هم تو پهر دنيادار هيں إس طرح إيسے علماء كو ديكهـ كر دوسرے لوگ دين سے متنفر هونا شروع هو جاتے هين اور يه علماء لوگوں كو دين كے قريب لانے كي بجائے أنهيں دين سے دور كرنے كا سبب بن جاتے هيں بلكه أكثر أوقات إن كي اپني اولاد بهي دين سے دور هو جاتي هے جو إنتهائي خطرناك صورت حال هے إس لئے علماء كرام كو إس كا خاص خيال ركهنا چاهيے اور دنيا كو ضرورت اور دين كو مقصد بنا كر زندگي بسر كرني چاهيے
علماء كرام اختلافی مسائل کبھی پبلک میں بیان نہ کريں ۔ نہ ہی عام لوگوں سے خطاب کے دوران کسی حدیث کو ضعیف یا موضوع کہيں إس سے إنتشار زياده هوگا اور فائده كچهـ بهي نهيں ۔یہ کام جيد مفتيان كرام اور مستند علماء پر چھوڑ ديا جائے ۔
مسائل کی بجائے فضائل زیادہ بیان کيے جائيں مسائل کی ضرورت بے شک ہے لیکن فضائل سے دین میں رغبت ہوتی ہے جس کی اشد ضرورت ہے۔

مدارس کا قیام:
آئیے سب سے پہلے ان مساجد ومدارس، دینی اداروں وخانقاہوں وتربیت گاہوں اور قضاء وفتویٰ کی خدمات کرنے والے اداروں کی بات کرتے ہیں جو اپنی دینی خدمات میں مصروف ہیں اور ملت اسلامیہ کی رہبری ورہنمائی کا فریضہ بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں۔مدارس کے قیام کی ابتداء چوتھی صدی ہجری کے آخر سے منسوب کی جاتی ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں دینی تعلیم کے اہتمام کا سلسلہ عہد نبوی ہی میں شروع ہوچکا تھا۔ دارارقم ، مسجد قبا ، مسجد نبوی اور اصحاب صفہ کے چبوترہ میں تعلیم وتربیت کی مصروفیات اس کے واضح ثبوت ہیں۔ چوتھی وپانچویں صدی ہجری کی معروف دینی درس گاہوں میں مصر کا جامعہ ازہر ، اصفہان کا مدرسہ ابوبکر الاصفہانی ، نیشاپور کا مدرسہ ابو الاسحاق الاسفرائینی اور بغداد کا مدرسہ نظامیہ شامل ہیں۔غرضیکہ مدارس کی تاریخ وتاسیس کی کڑی عہد رسالت سے جاکر ملتی ہے اور مدارس میں پڑھائی جانے والی کتب حدیث کی سند کا سلسلہ حضور اکرم ﷺ تک پہنچتا ہے۔ جنوبی ہند کے ساحلی علاقوں (مالابار) میں عرب تاجروں کی نوآبادیات میں مساجد کا قیام ودینی تعلیم کے اہتمام کا سلسلہ ساتویں صدی عیسوی میں شروع ہوچکا تھا ، لیکن برصغیر میں مدارس کا قیام دوسری صدی ہجری یعنی آٹھویں صدی عیسوی میں ہوا۔ جہاں تک شمالی ہند میں مدارس کے داغ بیل پڑنے کا تعلق ہے تو اس کی ابتدا ترکوں کی فتوحات کے زمانہ میں ہوگئی تھی ، مگر جب دہلی میں مسلم حکومت قائم ہوئی تو دہلی کے علاوہ دوسرے شہروں وقصبوں ودیہاتوں میں کثیر تعداد میں مکاتب ومدارس قائم ہوئے۔

مدارس کے قیام کا مقصد:
مدارس میں علم تجوید ، علم تفسیر ، علم اصول تفسیر، علم حدیث ، علم اصول حدیث ، علم فقہ ، علم اصول فقہ ، علم میراث ، علم عقائد، علم نحو ، علم صرف ، علم منطق ، علم فلسفہ، علم بلاغت، تحفيظ القرآن اور زمانہ کی ضرورت کے مطابق بعض دیگر علوم پڑھائے جاتے ہیں۔ مدارس کے قیام کا بنیادی مقصد کتاب وسنت اور ان سے ماخوذ علوم وفنون کی تعلیم وتعلم ، توضیح وتشریح ، تعمیل واتباع ، تبلیغ ودعوت کے ساتھ ایسے آفراد  پیدا کرنا ہے جو اس تسلسل کو قائم وجاری رکھ سکیں ، نیز انسانوں کی دنیاوی زندگی کی رہنمائی کے ساتھ ایسی کوشش کرنا ہے کہ ہر ہر انسان جہنم سے بچ کر جنت میں جانے والا بن جائے۔

مدارس کے نصاب میں تبدیلی:
وقتاً فوقتاً مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی بات اٹھتی رہتی ہے، مدارس میں نصاب کی تبدیلی کے لیے عموماً تین موقف ہیں:
ایک موقف ان حضرات کا ہے جو اس نصاب کو موجودہ زمانے میں بے کار سمجھتے ہیں ، ایسے لوگوں کا خیال ہے کہ مدارس کے نصاب میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے جس میں عصری علوم اس حد تک شامل کیے جائیں کہ مدارس کے فضلاء کالج اور یونیورسٹیوں کے فارغین کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر دنیاوی زندگی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی تگ ودو میں لگ جائیں ۔ یہ عموماً وہ حضرات ہیں جنہوں نے مدارس میں نہ تو باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے اور نہ ہی مدارس کے نصاب سے بخوبی واقف ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ حضرات ایک یا دو فیصد طلبہ جو مذہبی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کی دنیاوی تعلیم کی تو فکر کر رہے ہیں ، مگر ۹۸ یا ۹۹ فیصد بچے جو عصری تعلیم کے شعبوں میں ہیں ان کی دینی تعلیم وتربیت کی کوئی فکر نہیں کرتے۔
ایک طبقہ وہ ہے جو اس نصاب میں ادنی سی تبدیلی بھی گوارہ نہیں کرنا چاہتا بلکہ جو لوگ تبدیلیوں کا مشورہ دیتے ہیں ان کی رائے پر توجہ بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ دونوں ہی نقطۂ نظر غلط ہیں، پہلا اس لیے کہ مدارس کی تعلیم کا بنیادی مقصد علوم قرآن وسنت کی ترویج، اشاعت اور حفاظت ہے، نیز امت محمدیہ کی دنیاوی زندگی میں رہنمائی کے ساتھ اس بات کی کوشش وفکر کرنا ہے کہ امت محمدیہ کا ہر ہر فرد اخروی زندگی میں کامیابی حاصل کرے۔ اخروی زندگی کو نظر اندار کرکے ڈاکٹر یا انجینئر یا ڈیزائنر بنانا مدارس کے قیام کا مقصد هي نہیں۔ جس طرح دنیاوی تعلیم میں بھی انجینئرنگ کرنے والے طالب علم کو میڈیکل کی تعلیم نہیں دی جاتی، وکالت کی تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم کو نقشہ بنانا نہیں سکھایا جاتا، کیونکہ میدان مختلف ہیں، اسی طرح قرآن وحدیث کی تعلیم میں تخصص کرنے والے طالب علم کو انگریزی وحساب وسائنس وغیرہ کے سبجیکٹ ضمناً ہی پڑھائے جاسکتے ہیں۔ دوسرا طبقہ بھی غلط سوچ رکھتا ہے کیوں کہ مدارس کے بنیادی مقصد (قرآن وحدیث کی تعلیم) پر قائم رہتے ہوئے زمانہ کی ضرورت اور اس کے تقاضوں کے مطابق بعض علوم کا حذف واضافہ کیا جانا چاہئے
ان دونوں نقطۂ نظر کے درمیان ایک معتدل نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ مدارس اسلامیہ کو موجودہ رائج نظام کے تحت ہی چلنا چاہئے، یعنی علوم قرآن وسنت کو ہی بنیادی طور پر پڑھایا جائے اور ظاہر ہے کہ قرآن وحدیث کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا قرآن وحدیث کی وہی کتابیں پڑھائی جائیں جن کے تعلیم وتعلم کا سلسلہ سینکڑوں سالوں سے جاری ہے، مگر تفسیر قرآن، شرح حدیث اور فقہ وغیرہ پر کچھ کتابیں دور حاضر کے اسلوب میں از سر نو مرتب کرکے شامل کی جائیں، نیز نحو وصرف وعربی ادب وبلاغت پر آسان ومختصر کتابیں تحریر کی جائیں، منطق اور فلسفہ جیسے علوم کی بعض کتابوں کو حذف کرکے انگریزی، حساب اور کمپیوٹر جیسے جدید علوم پر مشتمل کچھ کتابیں نصاب میں شامل کی جائیں۔ غرضیکہ علوم کتاب وسنت کی بالادستی کو قائم رکھتے ہوئے تقاضائے وقت کے مناسب بعض علوم وفنون کا اضافہ کرلیا جائے، لیکن مدارس کے نصاب میں اس نوعیت کی تبدیلی نہ کی جائے کہ اصل مقصد ہی فوت ہوجائے جیساکہ شاعر مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:ان مکتبوں کو اسی حال میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچے کو انہی مدارس میں پڑھنے دو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو کچھ ہوگا میں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں، اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اس طرح ہوگاجس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔

مدارس کی چند اہم خدمات:
مدارس اسلامیہ کی درجنوں خدمات ہیں یہاں صرف چند خدمات پیش ہیں:
1) قرآن وحدیث کی خدمت میں مدارس نے جو کردار ادا کیا ہے وہ تاریخ کا ایک ناقابل فراموش حصہ ہے ، برصغیر میں قرآن وحدیث کی مختلف طریقوں سے بالواسطہ یا بلا واسطہ خدمت انجام دینے میں انہیں مدارس اسلامیہ کا رول ہے اور یہ وہ شرف ہے جو کسی اور ادارہ کو نصیب نہیں ہوا، اگر یہ کہا جائے کہ برصغیر میں مدارس اسلامیہ کے وجود کے بغیر علوم قرآن وحدیث کا فروغ ناممکن تھا تو بالکل مبالغہ نہ ہوگا ۔

2) انہی مدارس کے فارغین میں وہ لوگ بھی ہیں ، جنہوں نے اپنی دور اندیشی اور بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے مسلمانوں کی عصری تعلیم کے لیے اسکول ، کالج اور یونیورسٹی کی بنیاد رکھی ، چنانچہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد’’شیخ الہند‘‘ مولانا محمود الحسن ؒ نے ہی رکھی تھی، مولانا محمد علی جوہرؒ نے اس ادارہ کی نشوونما میں اہم رول ادا کیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لئے علامہ شبلی نعمانی ؒ کی عظیم خدمات کو تاریخ نظرانداز نہیں کرسکتی۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے علماء ہیں جنہوں نے نہ صرف مسلمانوں کی دینی تعلیم کی طرف توجہ دی ، بلکہ ان کو عصری تعلیم سے بھی آراستہ کرنے کے لیے غیر سرکاری اسکولوں اور کالجوں کو قائم کیا۔

3) مدارس کا ایک خاص امتیاز یہ ہے کہ اس نے اپنا فیض پہنچانے میں کسی خاص طبقہ یا کسی خاص جماعت کو دوسرے طبقہ یا جماعت پر فوقیت نہیں دی بلکہ اس نے اپنے دروازے امیر اورغریب سب کے لیے یکساں طور پر کھلے رکھے ، اتنا ہی نہیں بلکہ غریبوں میں تعلیم کو عام کرنے میں سب سے بڑا کردار مدارس ہی کا ہے ، چنانچہ اگر سروے کیا جائے تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ آج اسکولوں کی بہ نسبت مدارس میں غریب طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

4) دیہی علاقوں میں تعلیم وتعلم کا نظم جتنا مدارس نے کیا ہے اتنا کسی دوسرے سرکاری یا غیر سرکاری اداروں نے نہیں کیا ، مدارس کے فارغین نے اسلامی تعلیم کو عام کرنے، مسلمانوں سے جہالت کو دور کرنے اور مسلم گھرانوں کو علم کی روشنی سے منور کرنے کے لیے نہ صرف بڑے شہروں یا قصبوں پر توجہ دی ہے بلکہ گاؤں اور دیہاتوں کا بھی رخ کیا ہے، تاکہ کوئی بھی گوشہ علم دین سے خالی نہ رہ جائے۔

5) اردو زبان کی ترویج واشاعت میں مدارس نے بھرپور حصہ لے کر اردو زبان کی خاموش خدمت کی ہے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ مدارس اور مکاتب کی تعداد لاکھوں میں ہے اور ان کا ذریعہ تعلیم اردو ہے۔ اسلامیات کا بڑا سرمایہ اردو زبان میں ہے بلکہ اردو زبان میں سب سے زیادہ کتابیں اسلامیات کی ہی ہیں۔

6) ہندوستان کی آزادی کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس میں بھی مدرسوں کا ایک اہم کردار سامنے آتا ہے ، چنانچہ ہندوستان کو آزاد کرانے میں جن مسلمانوں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے ان میں سے ایک بڑی تعداد مدارس کے فضلاء کی تھی۔

7) بڑے بڑے شہروں اور قصبوں میں مدارس کے زیر انتظام دار القضاء اور دار الافتاء قائم کئے گئے ہیں جہاں مسلمانوں کے عائلی مسائل قرآن وسنت کی روشنی میں حل کئے جاتے ہیں۔ دار الافتاء کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ لاکھوں لوگ عدالتوں اور کورٹ کچہریوں کا چکر لگانے سے بچ گئے۔ اسی کے ساتھ دوسرا اہم فائدہ اصحاب معاملہ کو یہ ہوا کہ کسی معاوضہ کے بغیر دار الافتاء کے ذریعہ ان کے مسائل جلد حل ہوگئے۔

8) ہر قوم کی ایک تہذیب ہوتی ہے اور یہ تہذیب ہی اس قوم کی شناخت اور اس کے وجود کا سبب ہوتی ہے۔ مدارس اسلامیہ نے مسلمانوں کو اسلامی تہذیب وتمدن پر قائم رہنے کی نہ صرف تلقین کی ہے بلکہ عمل کرکے اس کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج عالمی سطح پر دشمنان اسلام کا مقصد ہے کہ اسلامی تہذیب کو ختم کرکے مسلمانوں پر اپنی تہذیب تھوپ دیں۔ مدارس اسلامیہ اور علماء کرام ان کے مقصد کی تکمیل میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، لہٰذا دشمنان اسلام مدارس کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔

9) دنیا کے اطراف واکناف میں مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لیے مختلف ناموں سے چلنے والی جماعتوں اور تنظیموں میں بھی مدارس کا اہم رول ہے۔ آج مسلمانوں کی سیاسی، سماجی اور تعلیمی سطح پر خدمت انجام دینے والی تنظیموں کی سرپرستی زیادہ تر فضلاء مدارس ہی کررہے ہیں۔

10) تعلیم کے ساتھ ساتھ نوجوان طلبہ کی تربیت اور ان کی اصلاح میں مدارس کا رول اہم ہے ، چنانچہ مدارس میں فجر کے وقت جاگنے سے لے کر عشاء کے بعد سونے تک سبھی طلبہ کے کھانے پینے ، پڑھنے لکھنے ، کھیلنے کودنے اور دیگر ضروری امور کی پابندی نہایت منظم طریقہ سے کرائی جاتی ہے۔ شریعت کی تعلیمات کے مطابق ان کی تربیت اور ذہن سازی کی جاتی ہے اور ان کو معاشرت کے اصول وآداب بھی بتائے جاتے ہیں تاکہ مدرسہ سے فارغ ہونے کے بعد گھر اور سماج میں ایک باوقار اور مثالی زندگی گزار سکیں۔

11) مدارس میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ اس قدر جامع ہوتا ہے کہ اس کو مزید سمجھنے کے لئے طلبہ کو الگ سے ٹیوشن کی ضرورت پیش نہیں آتی اور اگر درس کے دوران کوئی مسئلہ سمجھ میں نہیں آتا تو طلبہ بعد میں بھی بغیر کسی معاوضہ کے اساتذہ سے رجوع کرلیتے ہیں۔

12) برصغیر میں قائم مدارس ومکاتب میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ روزگار سے جڑے ہوئے ہیں اور وہ کم تنخواہ کے باوجود قناعت کرتے ہیں۔
غرضیکہ علماء کرام نے مساجد ومدارس ومکاتب کے ذریعہ بچہ کی ولادت کے وقت کان میں اذان دینے سے لے کر نماز جنازہ پڑھانے تک امت مسلمہ کی دینی وتعلیمی وسماجی رہنمائی کے لئے ایسی خدمات پیش کی ہیں کہ ایک مسلمان بھی ایسا نہیں مل سکتا جو ان خدمات سے مستفیض نہ ہوا ہو

عصری درس گاھوں  میں دینی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری:
جیساکہ ذکر کیا گیا کہ اسلام نے عصری علوم کو حاصل کرنے سے منع نہیں کیا ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ آج جو طلبہ عصری درس گاہوں سے پڑھ کر نکلتے ہیں ان میں ایک بڑی تعداد دین سے بے بہرہ لوگوں کی ہوتی ہے اور ایک قابل لحاظ تعداد تو دین سے بیزار لوگوں کی ہوتی ہے۔ اس کی ذمہ داری علماء کرام پر بھی عائد ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج بھی مسلم سماج پر علماء کی جو گرفت ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، مساجد کا نظام علماء کے ہاتھ میں ہے، مدارس کی بہار ان ہی کے دم سے قائم ہے، بہت سی دینی جماعتوں اور تنظیموں میں وہ قبلہ نما کا درجہ رکھتے ہیں، لیکن ماڈرن ایجوکیشن اور ٹیکنیکل تعلیم کی طرف انہوں نے خاطر خواہ توجہ نہیں کی ہے۔ لہٰذا علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود آگے بڑھ کر عصری تعلیم کے ایسے ادارے قائم کریں جن میں بنیادی دینی تعلیم نصاب میں داخل کی جائے اور پوری اہمیت اور توجہ کے ساتھ طلبہ کی دینی تعلیم وتربیت کا نظم کیا جائے تاکہ دین دار ڈاکٹر، دین دار انجینئر، دین دار وکیل بن کر مختلف شعبوں میں اسلامی فکر وعمل کی ترجمانی کریں۔ یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں کے ذمہ داروں كي بهي يه ذمه داري هے كه إن إداروں ميں دینی تعلیم وتربیت کو صرف نام کے لیے نہ رکھا جائے کہ نہ اساتذہ اسے اہمیت دیں اور نہ طلبہ وطالبات، بلکہ شرعی ذمہ داری سمجھ کر ان کی دینی تعلیم وتربیت پر خاص توجہ دی جائے۔ بچوں کے والدین اور سرپرستوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ اسکولوں وکالجوں کا انتخاب ایمان وعقیدے کی حفاظت کی فکر کے ساتھ کریں
طالب علم كي ذمه دارياں:
علم ایک لازوال اور قیمتی دولت ہے وہ خرچ کرنے سے گھٹتی نہیں بڑھتی ہے، اسے كوئي چور چرا نہیں سکتا، پانی بہا نہیں سکتا اور آگ جلا نہیں سکتی، رشتہ دار تقسیم نہیں کر سکتے، یہ تو صاحب علم کو جلا بخشتی ہے، اسلام نے اس کے حصول کو تمام مسلمانوں پر فرض قرار دیا ہے۔ اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: کہ جو حصول علم کے لئے کہیں کا سفر إختيارکرے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان فرمائے گا، اس کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ غار حرا میں آمنہ کے لال حضرت محمد مصطفى صلى الله عليه وآله وسلم پر سب سے پہلے جو پانچ آیتیں نازل ہوئیں وہ تقریباً تمام کی تمام حصول علم کے ذرائع پر ہی مشتمل ہیں، وہ فرشتے جنہوں نے تخلیق آدم عليه السلام پر اعتراض کیا تھا، ان پر حضرت آدم علیہ السلام کو اسی علم کے ذریعے فضیلت و برتری حاصل ہوئی، وہ عزیز مصر جس نے بے گناہ حضرت یوسفؑ عليه السلام کو اپنی بیوی کی الزام تراشی پر نظر زنداں کیا، آخر انہوں نے بھی اسی علم کی بدولت جیل کی لمبی لمبی دیواریں پھاندیں اور مصر کے تخت پر جلوہ افروز ہوئے۔ الغرض تمام انبیاء علیہم اسلام کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک خاص علم کی دولت سے نوازا تھا، جس کی وجہ سے وہ انہیں امت میں ممتاز وفائق رہے۔
دور اول کے مسلمانوں نے علم و فن کی اس اہمیت و فضیلت کو سمجھا اور اس کے حصول کے لئے انتھک کوششیں کیں، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دنیا کے امام اور قائد ثابت ہوئے، عروج و ارتقاء ان کا مقدر ہوا، لیکن رفتہ رفتہ مسلمانوں نے اس میدان میں کوتاہی کرنی شروع کر دی، بالآخر زوال و انحطاط ان کا مقدر ہوگئی اور وہ محکوم و مقہور ہوگئے،اگر آج بھی ہم حصول علم میں سرگرداں اور کوشاں ہو جائیں تو یقیناً پھر سے عروج و اقبال ہمارے نصیب میں آجائے گا اور ہم دوبارہ دنیا کے امام و قائد ثابت ہوں گے۔ حصول علم ایک عبادت ہے، جس کی قبولیت کا دارومدار اخلاص وللٰہیت پر ہے:
’’وَمَآ اُمِرُوٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّـٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَـهُ الدِّيْنَ حُنَفَآءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ 0اور انہیں صرف یہی حکم دیا گیا تھا کہ اللہ کی عبادت کریں ایک رخ ہو کر خالص اسی کی اطاعت کی نیت سے، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، اور یہی محکم دین ہے۔۔ (بینه)
نیت کی درستی کا مسئلہ اتنا آسان نہیں، حضرت سفیان ثوریؒ جیسے مشہور تابعی کا بیان ہے: کہ مجھے سب سے زیادہ پریشانی نیت کے درست کرنے میں ہوئی۔ لیکن اسے ایک مستقل کام ہونے کی حیثیت سے اصلاح کی فکر نہ کرنا، درستی سے لاپرواہ ہونے کی بجائے مسلسل اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے:
امام یوسفؒ فرماتے ہیں کہ علم ایک ایسی چیز ہے کہ جب تم اپنی ساری زندگی اس کے لئے وقف کر دو گے جب جا کر علم تم کو اپنا بعض حصہ دے گا، جب اس کا بعض تم کو مل جائے تو اس پر تکیہ کر کے مت بیٹھ جاؤ، بلکہ مزید حاصل کرنے کی کوشش کرو۔
علم و عمل کے سمندر عبداللہ بن مبارکؒ سے جب حصول علم کی مدت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے کہا کہ علم اس وقت تک حاصل کرتے رہو جب تک جسم میں جان ہو۔ سفیان بن عینیہؒ فرماتے ہیں کہ جب اہل علم کو یہ گمان ہونے لگے کہ اس کا علم مکمل ہو چکا ہے تو سمجھ جاؤ کہ اس کی جہالت کا دور شروع ہو چکا ہے۔
حصول علم کے دوران اسباق کے یاد نہ ہونے یا اسباق کے سمجھ میں نہ آنے کا مسئلہ بسا اوقات ایک سنگین صورت حال اختیار کر لیتا ہے، اس کی وجہ سے طلبہ کبھی کبھی احساس کمتری کا شکار ہو کر حصول علم کے ترک کا فیصلہ کر بیٹھتے ہیں، حالانکہ سلف کی زندگیاں بتاتی ہیں کہ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ اس کی وجہ سے حصول علم کا ارادہ ترک کر دیا جائے، بلکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو مسلسل محنت و سعی سے باآسانی حل ہو سکتا ہے۔
امام عسکریؒ اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ جب مَیں نے حفظ کرنا شروع کیا تو یہ چیز مجھ پر بڑی گراں گزری، لیکن میں مسلسل محنت کرتا رہا، یہاں تک کہ ایک وقت وہ بھی آیا کہ مَیں نے ایک ہی رات میں قصیدۂ روبہ (جو تقریباً دو سو اشعار پر مشتمل ہے) یاد کر لیا، یقیناً یہ قوت حافظہ مجھے مسلسل محنت ہی سے حاصل ہوا۔
مشہور و معروف محدث امام بخاریؒ سے قوت حافظہ کی مضبوطی کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: قوت حافظہ کا علاج مسلسل کتابوں کا مطالعہ کرنا ہے۔
خود امام عسکریؒ بعض ایسے مشائخ سے نقل کرتے ہیں کہ جنہوں نے ایک ایسی بستی کے نوجوان کو فصیح و بلیغ زبان میں تقریر کرتے ہوئے دیکھا کہ جہاں کے لوگوں کی زبان میں لکنت ہوتی تھی، نوجوان سے جب سبب دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا: میری زبان میں صحیح معنوں میں لکنت تھی، لیکن مَیں نے ’’جاحظ‘‘ کی کتاب کے پچاس اوراق روزانہ بلند آواز سے پڑھنے کی مشق کی تو میری زبان سے لکنت ختم ہوگئی اور مَیں فصاحت و بلاغت کے اس معیار پر پہنچ گیا جس کو دیکھ کر آج تم تعجب کر ر ہے ہو۔
حصول علم صبر و تحمل اور ایثار و قربانی چاہتا ہے، لہٰذا علم حاصل کرنے والوں میں محنت و مشق کے برداشت کرنے کا جذبہ اور اس راہ میں آنے والے مصائب و مشکلات پر صبر کرنے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔ حدیث قدسی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے علم محنت و مشقت میں چھپا رکھا ہے اور اسے سیری میں تلاش کرتے ہیں، بھلا وہ اسے کہاں پائیں گے۔
امام دار الھجزۃ مالک بن انسؒ فرماتے ہیں کہ علم اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس راہ میں محنت و مشقت کی لذت نہ چکھی جائے۔
امام ربیعہؒ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے سڑی ہوئی کشمش میں سے اچھی کشمشوں کو چن کر صاف کیا اور اسے کھا کر علم حاصل کیا، لیکن اس پریشانی کی وجہ سے انہوں نے حصول علم کو ترک نہیں کیا۔ حجاج بن یوسفؒ بغدادی جو کہ مشہور محدث ہیں وہ اپنے بارے میں بتاتے ہیں کہ میری والدہ سو روٹیاں پکا دیتیں، مَیں وہ روٹیاں کسی کپڑے میں باندھ لیتا اور امام شبانہؒ کی خدمت میں حاضر ہو جاتا، ہر دن ایک روٹی نکالتا اور دریائے دجلہ کے پانی میں بھگو کر کھا لیتا، جب سو دن ہو جاتے اور روٹیاں ختم ہو جاتیں تو مَیں واپس آجاتا۔ اسی طرح امام طبرانیؒ جو کہ محدث ہیں۔ ان کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے پاس تیس سال تک بستر نہیں تھا، وہ تیس سال تک چٹائی ہی پر سوتے رہے۔
علماء اور حکماء کا کہنا ہے کہ سب سے بڑی اہم اور قیمتی شے وقت ہے، لہٰذا اس کی قدر و قیمت پہچانتے ہوئے اس سے بھرپور استفادہ کرنا چاہئے، کسی نے کہا: کہ وقت تلوار کی مانند ہے اگر تم اسے استعمال کر کے اس سے فائدہ نہیں اٹھاؤ گے تو وہ تم کو نقصان پہنچائے گا۔ علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ اہم ترین ضائع ہونے والی چیزوں میں دو چیزوں کا ضیاع ازحدہے، ایک وقت کا ضیاع، دوسرا دل کا ضیاع، وقت کا ضیاع لمبی لمبی آرزاؤں اور تمناؤں سے ہوتا ہے اور دل کا ضیاع آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے سے۔
علامہ ابن جوزیؒ فرماتے ہیں کہ سب سے اہم اور قیمتی چیز وقت ہے، لہٰذا اسے ضائع ہونے سے بچانا چاہئے ، ہمارا جو بھی وقت استعمال ہو، اللہ کی قربت کے حصول میں ہو،سلف میں شاید کہ ابن جوزیؒ ہی کے بارے میں آتا ہے کہ ان کو کھانے میں جو وقت لگتا ہے اس کو بھی وہ ضیاع میں شمار کرتے ہیں اور ان کو اس پر افسوس ہوتا ہے کہ ہمارا اتنا وقت کھانے میں ضائع ہو جاتا ہے۔
تعلیم و تربیت کے میدان میں نمایاں کامیابیوں سے ہمکنار ہونے کے لئے ضروری ہے کہ طالب علم اپنے وقت کو منظم کرے، اس لئے کہ تنظیم اوقات مقصد کے حصول میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، کسی نے کہا کہ اچھی منصوبہ بندی کام کی آدھی تکمیل ہے، ترقی یافتہ ملکوں کی شاندار کامیابیوں کا راز بھی تنظیم اوقات ہے، وہ صدیوں پر محیط ایک منصوبہ بناتے ہیں، پھر اس منصوبہ کے مطابق محنت و سعی کرتے ہیں۔
تعلیم کا بنیادی مقصد اخلاق و کردار کی تعمیر ہے، مربی اعظمؐ کی ذمہ داریوں کو واضح کرتے ہوئے قرآن مجید نے کہا:
هُوَ الَّـذِىْ بَعَثَ فِى الْاُمِّيِّيْنَ رَسُوْلًا مِّنْـهُـمْ يَتْلُوْا عَلَيْـهِـمْ اٰيَاتِهٖ وَيُزَكِّـيْـهِـمْ وَيُعَلِّمُهُـمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَۖ وَاِنْ كَانُـوْا مِنْ قَبْلُ لَفِىْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ 0
وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں ایک رسول انہیں میں سے مبعوث فرمایا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، اور بے شک وہ اس سے پہلے صریح گمراہی میں تھے۔ (الجمعة)
خود نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے اپنی بعثت کا مقصد بتاتے ہوئے کہا:
إنما بُعِثْتُ لأُتَمِّمَ مكارمَ الأخلاقِ
مَیں مکارم و اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں،
نیز آپؐ نے فرمایا:’’ کہ تم علم حاصل کرو اور اس کے لئے وقار وسنجیدگی پیدا کرو‘‘۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ رضي الله تعلى عنه طلبہ سے فرماتے ہیں: کہ علم کی معرفت چشمہء ہائے رواں اور روشن چراغ ہو جاؤ۔ لیث بن سعدؒ طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے تھے: کہ علم حاصل کرنے سے پہلے بردباری حاصل کرو، جو علم حدیث حاصل کرتا ہے، وہ اعلیٰ علم حاصل کر رہا ہے، لہٰذا اسے تمام لوگوں سے ممتاز اور اعلیٰ ہونا چاہئے
امام غزالیؒ طلبہ کے اخلاق و کردار کے تعلق سے فرماتے ہیں کہ طلبہ کو چاہئے کہ وہ بُرے اخلاق و عادات سے احتراز کریں، تعلقات مختصر رکھیں، گھر سے دور رہیں تاکہ حصول علم کے مواقع زیادہ ملیں، غرور و تکبر سے بچیں، اساتذہ کے ساتھ حاکمانہ برتاؤ نہ کریں، بلکہ اساتذہ کے سامنے اپنے آپ کو اس طرح ڈال دیں، جس طرح کے مریض اپنے آپ کو ڈاکٹر کے حوالہ کر دیتا ہے۔
علم اللہ تعالیٰ کا نور ہے، جو اس کے فرمانبردار بندوں ہی کو ملتا ہے، لہٰذا اس نور سے اپنا سینہ مزین کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ علم کی قدر کرتے ہوئے برائیوں سے اجتناب کریں -امام شافعیؒ نے اپنے استاد وکیع بن جراحؒ سے سوئے حفظ کی شکایت کی تو انہوں نے ترک معصیت کی تاکید کی۔
علم و عمل دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ علم اتنا پختہ اور اس میں اتنی ہی زیادہ خیر و برکت ہوتی ہے جتنا کہ اس پر عمل کیا جائے، صحابہ کرام میں علم کے مطابق عمل کرنے کا بے حد جذبہ پایا جاتا تھا
حضرت عبداللہ بن مسعود رضي الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ ہم لوگ جب قرآن مجید کی دس آیتیں سیکھ لیتے تو جب تک ان کے معنی جان کر ان پر عمل پیرا نہیں ہو جاتے اس وقت تک آگے نہیں بڑھتے تھے۔
حضرت علی رضي الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ علم عمل کو آواز دیتا ہے، اگر علم عمل پاتا ہے تو رکتا ہے ورنہ وہ بھی رخصت ہو جاتا ہے۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے ابی بن کعبؓ سے دریافت کیا کہ طالب علم کون ہے؟ توآپ نے کہا جوا پنے علم کے مطابق عمل کرتا ہے۔
علم کے مطابق عمل کرنے سے علم پختہ ہوتا ہے، جس کی واضح مثال صبح و شام اورنماز وغیرہ کی دعائیں ہیں کہ انسان انہیں بچپن میں یاد کرتا ہے، لیکن جب تک ان کا اہتمام کرتا رہتا ہے تو وہ انہیں بڑھاپے تک بھول نہیں پاتا، علم کے مطابق عمل نہ کرنے سے صرف یہی نہیں کہ علم ضائع ہو جاتا ہے، بلکہ وہ علم اس کے لئے قیامت کے دن وبال بھی بنے گا، نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اس شخص کے لئے ایک مرتبہ ویل ہوگا، جس نے نہ جانا اور عمل نہ کیا اور شخص کے لئے سات مرتبہ ویل ہوگا، جس نے جانا اور عمل نہیں کیا علم کے مطابق عمل نہ کرنے والے طالب علم کے متعلق مجدد الف ثانی سید احمد سرہندیؒ فرماتے ہیں کہ بے عمل طالب علم پارس کے اس پتھر کی طرح ہے جو دوسروں کو تو سونا بناتا ہے، لیکن خود پتھر ہی رہتا ہے۔
حصول علم کے لئے اساتذہ کا ادب و احترام اور عزت و توقیر ناگزیر ہے۔ نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کہ جن سے تم علم حاصل کرتے ہو، ان کے ساتھ تواضع و انکساری کے ساتھ پیش آؤ، حضرت حسین رضي الله تعالى عنه استاذ کو والد پر ترجیح دیتے تھے اور کہتے تھے کہ والد تو گوشت پوست کی شکل کا ذریعہ بنتے ہیں جبکہ اساتذہ اس کو سنوارتے ہیں، امام غزالیؒ اپنی کتاب ’’احیاء العلوم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اساتذہ کا درجہ والدین سے بڑھ کر ہے۔ اس لئے کہ والدین موجودہ وجود اور فانی زندگی کا سبب بنے جبکہ اساتذہ اس کو سنوارنے اور آخرت کے علوم سے بہرہ ور کا باعث بنے، اگر اساتذہ نہ ہوتے تو والدین سے اولاد کو جو حاصل ہوا وہ سب ہلاک و برباد ہو جاتے، یہ اساتذہ ہی ہیں جو جسم انسانی کو علوم اخروی کے ذریعے بنانے اور سنوارنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ حضرت علی رضي الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ جس نے مجھے ایک بھی حرف سکھایا گویا کہ اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا۔
ایک طالب علم کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی اس کی تعمیر و ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے والی اور مقصد کے حصول میں ناکامی کا منہ دکھانے والی چیز سستی و کاہلی ہے، کسی نے کہا: کاہلی و سستی زہر کے اس قطرہ کی طرح ہے جو قابل استعمال چیز کو ناکارہ بنا دیتی ہے ،کاہلی و سستی ایک ذہین اور کامیاب طالب علم کو بهي ناکامی سے ہمکنار کرديتی ہے۔
  علم کي محنت : گذشته أقساط ميں هم علم كي فضيلت كے متعلق بيان كرچكے هيں إس نمبر ميں هم علم كي محنت كے متعلق كچهـ عرض كرنيكى كوشش كريں گے ۔ علم كا باب بهت هي وسيع باب هے چنانچہ سلف صالحین میں سے کسی نے کیا خوب کہا ھے
«اطلُبوا العِلمَ مِنَ المَهدِ إلَى اللَّحْدِ»
ماں كي گود سے ليكر قبر كي لحد تك علم حاصل كرتے رهو
تو گويا حصول علم كي محنت تمام عمر كرنا ضرورى هے اور اگر بالفرض بچپن ميں كسي وجه سے يه محنت كرنے سے محرومي رهى هو تو بعد ميں بهي يه محنت عمر كے كسي بهي حصه ميں كي جاسكتي هے رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے جب نبوت كا إعلان فرمايا تو أكثر صحابه كرام رضوان الله عليهم كي عمريں زياده تهيں ليكن تمام صحابه كرام رضوان الله عليهم نے إن عمروں بهي علم حاصل كرنيكي محنت موت تك جارى ركهي إسلئے عمر كے جس حصه ميں بهي موقعه مل جائے تو علم حاصل كرنے سے كوتاهي نهيں كرني چاهيے يه بهي ضرورى هے كه علم حاصل كرنيكے لئے صحيح علماء كرام كي طرف رجوع كرنا هے ورنه إيسا نه هو كه محنت بهي كي اور حاصل بهي كچهـ نه هو تو حصول علم كے لئے محتاج بن كرعلماء كرام كي خدمت ميں حاضر هونا اشد ضرورى هے
يه تو هر شخص جانتا هے كه كوئى بهي مقصد حاصل كرنے كيلئے محنت كرنا لازم هے پهر يه بهي بات واضح هے كه محنت تو هر شخص كرتا هے ليكن كامياب وهي هوتا هے جو محنت صحيح طريقه سے كررها هو اگر كوئى محنت تو كررها هے ليكن اس كا طريقه صحيح نهيں هے تو وه چاهے كتني هي محنت كرتا رهے وه كبهي بهي منزل پر نهيں پهنچ پائے گا إس كي مثال إسي طرح هے كه إيك شخص نے جانا تو إسلام آباد هے ليكن سفر وه كراچي كي طرف كررها هے وه چاهے كتني هي رفتار سے سفر كرتا رهے ليكن وه إسلام آباد كبهي بهي نهيں پهنچ سكے گا كيونكه اس كي محنت كا رخ صحيح نهيں هے إسي طرح دين كے كسي بهي جز كي محنت كا فائده تب هوگا اگر وه صحيح نهج پر هوگي اور صحيح نهج وهي هوسكتي هے جو هميں رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم اور صحابه كرام رضوان الله عليهم سے محنت كا طريقه ملا اگر هم اپني مرضي كے طريقه پر محنت كريں گے تو كبهي بهي كامياب نه هوں گے ليكن اگر وهي محنت رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقه پر هوگي تو إنشاءالله هم دونوں جهانوں ميں كامياب هوجائيں گے يهي صورت حال علم كي محنت كي هے كه علم كو صحيح معنوں ميں حاصل كرنے كيلئے محنت ضروري چيز هے اور علم كے فضائل اور بركات حاصل كرنے كے لئے يه محنت رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقه پر هونا ضروري هے جيسا كه هم گذشته أقساط ميں يه وضاحت كرچكے هيں كه تبليغ كا كام چهـ نمبروں ميں ره كر كيا جاتا هے اور هر نمبر كي محنت رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقه پر هي كي جاتى هے - قرآن و سنت كي روشني ميں يه محنت بهي مندرجه زيل تين طريقوں سے هونا ضروري هے:
1- دعوت دينا - 2- مشق كرنا - 3- دعا كرنا
تو علم كے ثمرات صحيح طرح سے حاصل كرنے كے لئے ضروري هے كه هم إس كي محنت بهي اوپر ذكر كرده تين طريقوں سے كريں تاكه هم علم كے فوائد وبركات سے مستفيد هوسكيں الله تعالى كي توفيق سے إن شاء الله علم كي محنت كے تين طريقوں كے متعلق كچهـ عرض كرنيكى كوشش كي جائے گي يهاں يه عرض كرنا ضرورى هے كه يهاں علم سے مراد دين إسلام كا علم هے گو دنياوى علوم سيكهنا منع نهيں هے بلكه إسلام أن كي بهي حوصله أفزائى كرتا هے ليكن يهاں جس علم كي محنت كي بات هورهي هے وه قرآن وحديث كا هي علم هے إسى علم كے حصول كے لئے حديث مباركه ميں رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كى جانب سے يه حكم ديا گيا هے
اطلبوا العِلم من المَهد إلى اللَّحد
ماں كي گود سے ليكر قبر كي لحد تك علم حاصل كرتے رهو:-
1- علم كي دعوت: علم كي محنت ميں علم كي دعوت إيك إهم حصه هے إس راسته پر عمل پيرا هوكر إنسان نه صرف خود علم حاصل كرتا هے بلكه وه دوسروں كو بهي إس كي ترغيب ديتا هے علم دو طرح سے هے إيك مسائل كا علم هے اور دوسرا فضائل كا علم هے دونوں كي إهميت اپني اپني جگه پر مسلمه هے ليكن چونكه علم كي دعوت كا مقصد يه هے كه لوگوں ميں علم حاصل كرنے كا جذبه بيدار كيا جائے تاكه وه علم كي جانب راغب هوں إس لئے إس مقصد كے لئے فضائل كے علم كي دعوت دينا هے كيونكه جب إنسان كو علم حاصل كرنے كے فوائد وبركات كا يقين هوگا تو پهر وه علم حاصل كرنے كي كوشش بهي ضرور كرے گا اور علم كے حصول كے لئے جان ومال اور وقت كي قرباني سے بهي دريغ نهيں كرے گا.يه بهي إيك مسلمه حقييقت هے كه علم نافع وهي هوتا هے جس كے ساتهـ عمل بهي هو اور دعوت كے ذريعه نه صرف علم كے حصول كا شوق پيدا هوتا هے بلكه عمل كرنے كا جذه بهي مضبوط هونا هے آمير التبليغ حضرت جي مولانا محمد یوسف رحمۃ اللہ علیہ کی نگاہ میں علم کی بڑی عظمت تھی اور اکثر علم کے حصول کی ترغیب دیتے تهے بلکہ تبلیغی تحریک کی بنیادی اصولوں میں علم کا حاصل کرنا بھی ہے ،لیکن اس علم کو مفید جانتے اور سراہتے تھے جو ایمان اور یقین کو پیدا کرنے والا ہو یا جو ایمان ویقین کے ذریعہ حاصل ہو ۔ وہ تعلیم وتعلم کی ایسی ساخت کے قائل تھے جس کے نتیجہ میں علم کے ساتھ عمل ہو ۔ عمل کے ساتھ تعلیم ہو اور تعلیم کے ساتھ تعلم ،وہ ایک ایسی متحرک اور وسیع عملی درسگاہ کے داعی تھے جس میں ہر ایک اپنے لئے طالب علم ہو اور دوسرے کے لئے معلم ،وہ کتابی نقوش کے بجائے ایسے چلتے پھرتے نقوش دیکھنا چاہتے تھے جن کی صحبت سے ہر ضرورت اور ہر موقع کی عملی تعلیم ملے اور دین کے نظریات اور اصول ہی معلوم نہ ہو بلکہ ان کا سلیقہ اور ملکہ پیدا ہو ، یہی طریقہ عہد اول میں رائج تھا ۔اور صحابہ کرام نے اسی طریقے سے دین كا علم سیکھا تھا اور مولانا اسی پر زور دیتے تھے اور اسی طریقے کے حصول کیلئے عملی جد وجہد اور جانی ومالی قربانی اور محنت ومشقت کی دعوت دیا کرتے تھے ۔ ایک مرتبه إيك مدرسے میں بخاری شریف کا ختم تھا ۔ختم پر آپ نے فر مایا ‘‘بھائیو! آپ نے بخاری ختم کی ،علم حاصل ہوا، اب اسی علم پر تین مقصدوں کے لئے محنت ضروری ہے (1) اس علم کے مطابق اپنے اندر کا یقین ہونا (2) اس علم کے مطابق عمل ہونا (3) اس علم وعمل کو عالَم میں پھیلانا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے لائے ہوئے علم پر ان تینوں پہلوؤں پر ابتداء میں محنت کی گئی تو اس زمانے کے کائناتی نقشے پر چلنے والا باطلِ روم وفارس پاش پاش پو گیا اور اخیر میں دجال اپنی ذات سے اتنی بڑی طاقت کا مظاہرہ کرے گا کہ اس کے مقابلے میں موجودہ طاقتیں کچھ بھی نہیں ۔اس وقت حضرت مہدی زمین اور حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے آئیں گے اور من وعن حضور صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے طریقے کے مطابق اس علم پر محنت کریں گے اس پر اللہ جل جلالہ اس دجالی طاقت کو ہلاک کر دے گا اور جب پہلے یہ ہو چکا اور اخیر میں بھی ہوگا تو پھر یہ وسوسہ کیوں ہو کہ درمیان میں کیسے ہو سکے گا ،آج بھی وہ سب کچھ ہو سکتا ہے‘‘۔ ایک مرتبہ علماء کے تعلیمی حلقے کے ختم پر فرمایا ! ‘‘ہم یہ نہیں چاہتے کہ بخاری پڑھانے والوں کوالتحیات پڑھانے پر لگا دیں مگریہ ضرور چاہتے ہیں کہ بخاری پڑھانے والوں کے نزدیک التحیات یاد کرانے کی بھی انتہائی اہمیت ہو اس لئے کہ یہ بھی حضورأكرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے علوم میں سے ایک علم ہے اسے غیر اہم سمجھنے والا کہیں کا نہ رہے گا اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ تعلیم کا یہ درجہ بھی ماہرین کی نگرانی میں ہو‘‘۔ ایک عالم دین کو خط لکھتے ہوئے حسبَ ذیل الفاظ تحریر فر مائے ۔ ‘‘ حضرت عالی کو اللہ رب العزت نے ہر طرح کی خوبی سے ما ل مال فر مایا ہے،ان نورانی وروحانی علوم کا سر چشمہ بھی بنا یا اس زبردست عظمت والی امانتِ نبوت کا داعی بھی بنایا، اگر حضرت عالی کی توجہات اور دعاؤں سے یہ مبارک ،قابل رشک اور بہترین گروہ علم کی بلندیوں سے اس مبارک عمل کے دوڑ ودھوپ کے میدان میں کود پڑے اور اپنی اس علمی اشتغال والی قربانیوں کے ساتھ تھوڑے دنوں اس گھاٹی عبور کرے تو یہ امانتِ مبارکہ اہلوں کے ہاتھ آکر سر سبز ہو جائے اور نا اہلیت کی بناء پر جو خطرات لاحق ہوتے جارهے ہیں ان سے اس امانتِ عظیمہ کی حفاظت بھی ہو جائے ‘‘۔ مولانا کی نگاہ میں علماء دین کی سب سے زیادہ قدر تھی ،آج جس طرح علماء کی بے قدری ،ان پر بیجا تنقید کا رواج پیدا ہو گیا ہے مولانا اس کو دین کے لئے بڑا مہلک سمجھتے تھے ،اور نا قدری کرنے والوں کی محرومی کا باعث جانتے تھے ۔اپنے ایک رفیق کی تحریر کرتے ہیں ۔ ‘‘دیکھئے خوب سمجھ لیجئےہم اکابر علماء کے ہر وقت محتاج ہیں ان کے بغیر چارہ کار نہیں ،ان کے دامن کے ساتھ وابستگی ہماری سعادت ہے ، یہ حضرات بہت سی خوبیوں اور علوم نبویہ کے انوارات کے حامل ہیں ،ان کی قدر دانی نبوت کی قدر دانی ہے ، جس قدر ہم ان کی خدمت کریں گے اور ان کی خدمت میں حاضری کو بڑی عبادت سمجھ کر ان کے ارشادات ونصائح سے مستفید ہوتےہوئے ان سے علم اور مفید مشورے حاصل کرتے رہیں گے اسی قدر علوم نبویہ کے انوارات سے منور ہوتے رہیں گے ‘‘۔
انسان کی حقیقی کامیابی وکامرانی قرآن کی تعلیمات پر عمل میں مضمر ہے۔ تعلیمات قرآنی پر غور وفکر اورتحقیق سے ہم علم کے بحر ذخار تک پہنچ سکتے ہیں ۔ آج کے انسان نے حرص و ہوس میں پڑکر جس طرح کی برائیوں کو فروغ دیا ہے ان کی بدولت انسانیت انتہائی نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ قرآن ہی وہ نجات دہندہ کتاب ہے جس سے ہم تمام برائیوں پرنجات پا سکتے ہیں ۔ قرآن کتاب ہدایت ہے ، جو خیر کو پھیلانے اور شر کو مٹانے کی دعوت دیتی ہے اور یہی اس کے نزول کا مقصد ہے۔ معاشرے میں بھلائیوں کو فروغ دینے اوربرائیوں کے انسداد كے لئے قرآني علم كي دعوت كو پورے عالم ميں پبنچانا ازحد ضروري هے اس دعوت کے ذریعہ ہم تمام عالم كے برادران إسلام کے ساتھ بھی تعاون و اشتراک کی راہیں ہموار کر سکتے ہیں ۔
علم كي دعوت سے يه چاها جا رها هے كه قرآن وسنت کی روشنی میں ہم اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کریں ۔اسی سے مسلم قوم کی کامیابی ممکن ہے ۔قران الكريم میں غور و فکر اور تدبر بھی اسی لئے ہے کہ اس کے ذریعہ ایمان و یقین کی بنیادیں راسخ ہوں اور عمل کی راہیں کھلیں۔ آئیڈیل معاشرہ وہ ہے جس میں بےغرض خیر خواہی کا جذبہ ہو ۔ہماری یہ ديني ذمہ داری ہے کہ ہم برائیوں کو روکنے اور بھلائیوں کو پھیلانے میں قرآن كريم اور أرشادات رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کی تعلیمات كو دعوت كے ذريعه عام كرٓیں ۔ دائمی زندگی کا تصور قرآنی تعلیمات کے حصول میں ہی ممکن ہے اور ہم اسی کے ذریعہ اپنی زندگی کو خوبصورت اور بہتر بنا سکتے ہیں ۔آج ہم نے قرآن کی تعلیمات کو بھلا دیا ہے ۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ جو کتاب ہماری ہدایت کے لئے آئی تھی بجائے إس كے هم إس كو دوسروں تك پهنچاتے ہم نے خود اس کو پس پشت ڈال دیا ۔ قرآن پاک غلط کاریوں سے بچنے اور ان سے باہر نکلنے کے لئے سچی راہ دکھاتا ہے ۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ هم قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے لئے راہ نکالنے كى كوشش كريں، جو لوگ عربی زبان سے نا واقف ہیں ان کے قرآن کے ترجمہ نہ پڑھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم محض اس کی تلاوت کو كافي سمجھ بیٹھے ۔قرآن مجید کو غور وفکر اور ریسرچ وتحقیق کا موضوع بننا چاہئے ۔ تحقیق کے لئے عصر حاضر کے مسائل وموضوعات کا انتخاب کرنا چاہئے إس مقصد كيلئے وسيع پيمانے پر دعوت كے عمل كا إهتمام هونا لازمي هے
قران شریف تمام انسانیت کو ایک ڈائریکشن دیتا ہے ۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ روزمرہ کی زندگی میں جو غلط طریقے رائج ہوگئے ہیں ان کے انسداد کے لئے آگے آئیں۔ قرآن وسنت کی روشنی میں اپنی زندگی استوار کریں اور ديني علوم کو دوسروں تک بہتر انداز میں پیش کرنے کے لئے کوشش کریں۔علم كي دعوت كا بنيادى مقصد قران اور قرانی علوم سے روشناس کرانا اور خصوصاً برادرران إسلام کے درمیان مطالعہ قران وحديث کا شوق پیدا کرنا ہے ۔ إس كے لئے همارى سب كي ذمه دارى هے كه هم الله تعالى كي عطا كرده إستعداد اور وسائل كو بروئے كار لا كر علم كي دعوت دوسرے لوگوں تك پهنچانے كي مكمل سعي كريں
علم كي محنت كا دوسرا كام علم كي مشق كرنا هے كوئى بهي كام هو جب تك اسكي مشق نه هو وه ضبط ميں نهيں آسكتا جيسا كه كئى بار إس كا إعادة هو چكا هے كه هم إن صفحات بر جس علم كي بات كررهے هيں وه قرآن وسنت كا يعني روحاني علم هے اور يه سارى بحث إسي كے متعلق هے قرآن سنت كے علم كي مشق بهي ذرا دوسرے علوم سے مختلف هے
علم كي مشق: علم كي مشق سے عام طور پر يه مقهوم ليا جاتا هے كه كسي بهي علم كو بار بار دهرانا إس كي مشق هے اور يقيناً يه بهي مشق كه إيك حصه هے ليكن قرآن وسنت كے علم كي مشق كا مفهوم بهت وسيع هے جيسا كه ذيل ميں مختصراً إس كا ذكر كيا جائے گا علم کی حقیقی مشق کے چار بنیادی امور هيں:
1-اخلاص وللہیت 2-مسلسل سعي و محنت 3- بلند ہمتی 4- ادب واحترام جيسا كه هم جانتے هيں كه اللہ تعالى کی صفات میں سے ایک صفت عليم ہے، اللہ تعالى کی ذات ازلی تو اس کی صفت بھی ازلی هيں، اس کا کچھ حصہ اللہ تعالى نے مخلوق کو عطا کیا، اور اس میں انسان کو برتر رکھا، بلکہ بعض حضرات کی تحقیق کے بموجب صفت علم انسان کا خاصہ اور امتیاز ہے لہٰذا علم کو انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا، اور علم سے انسان کو متصف کرنے کی غرض عمدہ صفات، حسن اخلاق ،اور سیرت اور کردار میں خوبی، اور بہتری پیدا کرنا ہے ، اللہ رب العزت کی ذات،تمام صفات حمیدہ کو جامع ہے ، اس لیے کہ اس کا علم ”علم محیط“ ہے، اللہ نے اپنی اس صفت کا پرتو انسان میں اسی لیے رکھا تاکہ "تخلقوا بأخلاق اللّٰہ" والی حدیث پر عمل ہو سکے، اور بندہ اپنے اندر بھی کمال پیدا کرے ،حضرت آدم علیہ السلام کو جو برتری اورخصوصیت دی گئی اس کی وجہ بھی تو علم ہے لہٰذا علم کا تقاضہ یہ ہے کہ جتنا علم ہو انسان اتنا ہی بااخلاق ہو، حضرت انبیاء کرام علیہم الصلوة والسلام کو اللہ نے” علم وحی“ سے نوازا تو ساری انسانیت کے لئے نمونہ ثابت ہوئے۔ حضرات صحابہ كرام رضوان الله عليهم بھی جب علم الٰہی اور علم نبوی صلى الله عليه وآله وسلم سے سرشار ہوئے تو انکی زندگیوں میں عجیب انقلاب برپا ہوگیا، اور وہ بھی رہتی دنیا تک انسانوں کے لیے أسوہ بن گئے،معلوم ہوا علم دین اپنے اندر انقلابی تاثیر رکھتا ہے تو علم كے طالب علم كے لئے يه بات ازحد ضرورى هے كه اس كے اندر إخلاص اور للهيت موجود هو جيسے حاصل كرنے كيلئے بهي إيك مشق كي ضرورت هوتي هے اور يهي علم كے حصول كي پهلي مشق هوتي هے
1-اخلاص وللہیت: ہمیں سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے یہ دنیا دار الاسباب ہے ،اور اللہ کی ذات مسبّب الاسباب ہے ،لهذا هميں علم كے حصول كے اسباب کی طرف توجہ دینی چاہئے کیونکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں: ” إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ0 اللہ اخلاص کے ساتھ محنت کرنے والوں کی محنت ضائع نہیں کرتے اب آپ ذرا غور کیجئے” محسنین “کا لفظ استعمال کیا ، ،آخرایسا کیوں۔اس لیے کہ ” احسان “کا لفظ انتھائی معنی خیز اور جامع ومانع ہے ،کیوں کہ احسان کے لغوی معنی تو خوب اچھا کرنا اور خوب اچھا کرنے کے لیے جہد وجہد، سعی عمل، شغل، سب ضروری ہے، اصطلاح ِ شرع میں” احسان“ کہتے ہے اخلاص اور للہیت کو ،اب محسنین کا معنی ہو ا خوب جدوجہد اور سعی پیہم کے ساتھ محض اللہ کے لیے کرنے والے ۔ اب آیئے ہم اپنے طالب علمانہ کردار پر ایک نظر ڈالیں اور فیصلہ کریں، کہ کیا واقعتا ہم محسنین هیں ؟کیا ہم محنت اور جدوجہد اور سعی پیہم میں لگے ہوئے ہیں؟ کیا ہمارے اندر اخلاص و للہیت ہے؟توجواب نفی میں ہو گا اولاً تو اکثر وبیشتر طلبہ میں محنت اورلگن کا جذبہ نہیں ، اور کچھ میں ہے تو عام طور پر محنت کے ساتھ جو مطلوبہ صفات ہے وہ نہیں، یعنی اخلاص ،تواضع، ادب، حسن ا خلاق، معصیت سے دوری، وغیرہ۔ لہٰذا ضرورت إس أمر كي هے كه طلبہ سستی اور غفلت کو پس پشت ڈال کر خوب لگن اور محنت سے تحصیل علم میں لگ جائیں، تاکہ دنیا اور آخرت کی کامیابی حاصل ہوسکے ، ساتھ تکبر سے حسد سے کذب بیانی سے سوء اخلاق سے بے ادبی سے چاہے کتاب کی ہو ، چاہے استاذ کی ہو، چاہے درس گاہ کی ہو، چاہے ادارہ کی اس سے مکمل اجتناب کریں۔ حاصل یہ کہ سب سے پہلے ضرورت ہے اخلاص اور للہیت کو پیدا کرنے کی جيسا كه حديث مباركه ميں هے إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ
عمل كا دارومدار يقيناً نيتوں پر هے
جب ہم یہ نیت کریں گے کہ اللہ کی رضا کے لیے علم حاصل کرنا ہے،تو محنت کی توفیق کے راستے من جانب اللہ کھل جائیں گے، ہم آغازمیں هي یہ نیت کرلیں کہ ” يااللہ ہمارا مقصد علم کو حاصل کرکے اس پر عمل کرنا اور تیری ذا ت اقدس کو راضی کرنا ہے“۔ يهي أصل مطلوب اور مقصود هے
2- مسلسل سعي و محنت صحابہ كرام رضوان الله عليهم کے حالات پڑھنے اورسننے سے يه بات سامنے آتي هے كه ان پر کوئی نگراں اور ذمہ دار نہیں تها مگر ان میں اخلاص تھا تو ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں حاضر ہو کر علم كے حصول کی انہیں توفیق ہوتی تھی، اصحاب صفہ کے حالات پڑھيے، بھوکے ہوتے کپڑے نہ ہوتے مگر برابر محنت میں لگے رہتے، حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه بھی انہیں میں سے ایک تھے، اللہ نے انہیں کیسا چمکایا،حضرات تابعین کی زندگیوں کا مطالعہ کیجئے اس زمانہ میں نہ کوئی درس گاہ ہوتی تھی نہ کوئی کمرہ نہ کوئی ہاسٹل اور رہائش گاہ نہ لائٹ نہ کھانے پینے کاانتظام ، نہ کوئی زور زبردستی وہ تو اپنا سب کچھ لگا کر اخلاص کے ساتھ تن من دھن کی بازی لگا دیتے تھے، انہیں کے مجاہدات کی برکت سے آج علوم اسلامیہ صفحات کتب کی صورت میں موجود ہے، اگر وہ ہم لوگوں کی طرح راحت پسند اور عیش پرست ہوتے ، یقینا آج ہمارے پاس علمی ذخائر نہ ہوتے نہ کتابیں ہوتیں اور نہ یہ مدارس ہوتے، دنیا کی تاریخ میں علماء اسلام نے جتنا لکھنے پڑھنے کا کام کیا ، یقینا کسی نے نہیں کیا، اللہ تعالى انہیں بہترین بدلہ عطا فرمائے۔آمين ان لوگوں نے اپنا مال اپنا وقت اپنی خواہشات سب کچھ علم دین کے لیے قربان کردیا، تو آج اللہ نے یہ مقام دنیا ہی میں عطا کیا صدیاں گذ ر جانے کے باوجود آج بھی جب ان کا تذکرہ ہوتا ہے تومسلم عقیدت سے رحمة اللہ علیہ کہتا ہے۔ ہمارے متقدمین ومتأخرین علماء نے اتنی جدوجہد اور محنت کی کہ شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کو اپنی بے مثال تالیف ”صَفَحَاتٌ مِنْ صَبْرِ العُلَمَاءِ عَلٰی شَدَائِدِ العِلْمِ وَتَحْصِلِہِ،، کے مقدمہ میں لکھنا پڑا كه ”اگر تم ہمارے علماء کے احوال کا تتبع اور مطالعہ کروگے تو اندازہ ہوگا وہ کیا تھے؟ اوراپنوں نے کیا کیا؟ وہ ایسے لوگ تھے جنہوں نے محض علم کے خاطر لمبے لمبے اسفار کئے بھوک اور پیاس پر صبر کیا راتوں کو سونا چھوڑ دیا اپنے آپ کو خوب مشقت میں ڈالا یہاں تک کہ تاریخ ان کی قربانیوں کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے ان کی قربانیاں اتنی ہے کہ اس کو یکجا کرنا دشوار ہے، علم کے خاطر صبر آزمانی کے ایسے حیرت انگیز واقعات ہين کہ انسان کا ذہن اسے قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہ ہو مگرحقیقت یہ ہے کہ یہ تمام واقعات سو فیصدی صحیح ہين ، کیوں کہ سندوں کے ساتھ معتبر کتابوں میں منقول ہے
طلبِ علم کیے لیے اسلاف کی قربانیاں: اسلام نے انسان کو پہلا درس ہی علم کا دیا ، اللہ نے آدم علیہ السلام کو علم عطا کیا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ ،ئلب وسلم پر بھی پہلی وحی علم سے متعلق نازل کی گئی، اس کا اثر یہ ہواکہ اس امت کے افراد نے اپنے آپ کو علم کے لیے کھپا دیا، ہمارے علماء اسلاف میں اکثر وبیشتر فقر وفاقہ کے شکار تھے ، مگر ان کا فقر تحصیل علم کے لیے کبھی رکاوٹ نہ بنا، اور انہوں نے کبھی کسی کے سامنے اپنی محتاجی کو ظاہر بھی نہیں کیا۔ انہوں نے علم کی خاطر نہایت جاں گسل اور ہولناک مصائب وآلام جھیلے اور ایسے صبر وضبط کا مظاہرہ کیا ہے کہ ان کی طاقت اور برداشت کے سامنے خود ”صبر“ بے چین اور بے قرار ہوگیا۔اسی کے ساتھ وہ اپنی دل کی گہرائیوں کے ساتھ خداکی خوشنودی حاصل کرنے اورحمد وثنا میں مصروف رہتے ، ہر وقت شکر گذاری ا ن کا امتیازی وصف تھا، ان کی قربانیوں نے انہیں دنیا میں بھی سرخ رو کیا ،اور قیامت تک آنے والے طالبان علوم کے لئے بہترین نمونہ بتادیا، سب کچھ انہوں نے صرف اور صرف کتاب وسنت کی خدمت اور اللہ کی رضاء کے لئے کیا ۔ ان کی قربانیوں سے یہ بات عیاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ اسلامی علوم کی تدوین و تالیف پر فضا وشاداب مقامات نہروں کے کناروں اور سایہ دار درختوں کے چھاوٴمیں بیٹھ کر نہیں ہوئی، بلکہ یہ کام خون جگر کی قربانی دیکر ہوا ہے، اس کے لیے سخت گرمیوں میں پیاس کی ناقابل برداشت تکالیف اٹھانی پڑی، اور رات رات بھرٹمٹاتے چراغ کے سامنے جاگنا پڑا، بلکہ طلب علم کی راہ میں جان عزیز کے قربان کوبھی انہوں کوئی بڑا کام تصور نہ کیا - حضرت عبداللہ بن عباس رضي الله تعالى عنه جو ترجمان القرآن کے نام سے جانے جاتے ہیں وہ ایسے ہی قرآن کے عظیم مفسر نہیں بن گئے بلکہ خوب محنت اور جدوجہد کی وہ خود فرماتے ہیں: کہ میں صحابہ کرام سے پوچھنے اور احادیث معلوم کرنے میں لگ گیا، مجھے(کبھی) پتہ لگتا کہ فلاں صحابی کے پاس حدیث موجود ہے تو میں ان کے مکان پر پہنچتا، وہاں آکر معلوم ہوتا کہ وہ آرام کررہے ہیں، تو میں اپنی چادر ان کے دروازہ کے سامنے بجھا کر لیٹ جاتا، دوپہر کی گرمی میں ہوا چلتی تو تمام گردوغبار میرے اوپر آتا۔جب صاحب خانہ باہر آکرمجھے دیکھتے توحیرت زدہ ہو کر استفسار کرتے عم زادہٴ رسول! (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی) کیسے آنا ہوا؟ اور آپ نے یہ زحمت کیوں فرمائی، کسی کو بھیج کر مجھے کیوں نہ بلوالیا؟ میں کہتا: نہیں جناب! مجھے ہی آنا چاہئے تھا، پھر میں ان سے حدیث معلوم کرتا۔ (صبر واستقامت ، ص:۵۰) عبد الرحمن بن قاسم جوامام مالک کے ممتاز شاگرد تھے وہ کیسے اتنے بڑے فقیہ اور محدث ہوئے۔قاضی عیاض نے ”ترتیب المدارک“ میں عبدالرحمن بن قاسم عُتقی (متوفی ۱۹۱ ھ)کے حالات میں لکھا ہے (یا د رہے موصوف کا شمار امام مالک رحمة الله عليه اور لیث رحمة الله عليه وغیرہ کے مایہٴ ناز شاگردوں میں ہوتا ہے)۔”ابن قاسم کہتے تھے: میں امام مالک رحمة الله عليه کے پاس، آخر شب کی تاریکی میں پہنچتا، اور کبھی دو، کبھی تین یا چار مسئلے دریافت کرتا اس وقت امام محترم کی طبیعت میں کافی انشراح محسوس ہوتا، ایک دفعہ ان کی چوکھٹ پر سر رکھے سوگیا، امام مالک رحمة الله عليه نماز کے لئے مسجد تشریف لے گیے، لیکن مجھے نیند کے غلبہ میں کچھ بھی پتہ نہ چل سکا، آنکھ اس وقت کھلی جب ان کی ایک کالی کلوٹی باندی نے میرے ٹھوکر مارکر یہ کہا: تیرے آقا چلے گئے، وہ تیری طرح غافل نہیں رہتے، آ ج ۴۹ سال ہونے کوآئے، انہوں نے فجر کی نماز کبھی کبھار کے علاوہ ہمیشہ عشاء ہی کے وضو سے پڑھی ہے۔(اس کلوٹی نے آپ کو امام صاحب کے پاس اکثر آتے جاتے دیکھ کر ان کا غلام سمجھا)۔ ابن قاسم کہتے ہیں:میں امام مالک کے پاس مسلسل سترہ سال رہا، لیکن اس مدت میں نہ کچھ بیچا اور نہ کچھ خریدا۔ (ذرا ہمارے وہ طلبہ غور کریں جو اکثر وبیشتر بازاروں کے چکر کاٹتے رہتے ہیں، کہ سترہ سال میں کبھی خیرید وفروخت نہیں کیا)۔ محمد بن طاہر مقدسی کے بارے میں آتا ہے کہ طلب حدیث کے خاطر سخت گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں لمبی لمبی مسافت طے کرنے کی وجہ سے بارہا خون کا پیشاب ہو گیا۔(وفیات الاعیان)- حافظ ذہبی ”تذکرة الحفاظ“ میں ابو نصر سنجری کے بارے میں فرماتے ہیں ”عبد اللہ بن سعید بن حاتم، ابونصر سنجری(متوفی ۴۴۴ھ) فن حدیث میں ”حافظ“ کے مرتبہ پر پہونچے ہوئے ہیں، (یہی نہیں بلکہ) آپ اپنے دور میں حدیث پاک کے سب سے بڑے حافظ،امام وقت اور مینارہٴ سنت کی حیثیت رکھتے تھے، موصوف حدیث کی طلب میں زمین کے اس کنارہ سے اس کنارہ تک چکر لگاکر آئے ہیں“۔ بو اسحاق حبال کہتے ہیں: ”میں ایک روز ابونصر سنجری کے پاس بیٹھا ہو اتھا، کسی نے دروازہ کھٹکھٹا یا، میں نے اٹھکر اسے کھول دیا، اب میں نے دیکھا کہ ایک عورت مکان میں داخل ہوئی اور اس نے آکر ایک تھیلی نکالی جس میں ایک ہزار دینار تھے، اور اسے شیخ کے سامنے رکھ کر بولی: “ انہیں جس طرح آپ کا دل چاہے خرچ فرمائیں۔ شیخ نے پوچھا آخر مقصد کیا ہے، اس نے کہا ”میں یہ چاہتی ہوں کہ آپ مجھ سے نکاح کرلیں ،اگرچہ مجھے شادی بیاہ کی کوئی خواہش نہیں،لیکن اس طرح میں آپ کی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔ آپ نے کہا: ”تھیلی اٹھاکر یہاں سے چلی جاوٴ“․․․․․․․․․جب وہ چلی گئی تو انھوں نے مجھ سے کہا: ”میں اپنے ملک سجستان سے صرف حصول علم کی نیت سے نکلا ہوں،اب اگر میں اس سفر میں شادی بیاہ کے جھمیلے میں پڑوں تو پھر میں ”طالب علم“ کہاں رہو گا․․․․؟ اللہ نے طلب علم پر جو اجر وثواب رکھا ہے اس پر میں کسی بھی چیز کو ترجیح نہیں دینا چاہتا۔(صبر واستقامت کے پیکر،ص:۴۴)
باپ اور بیٹے کی ملاقات: وہ کہتے ہیں: ایک روز میں آپ کے پاس بیٹھا تھا، اچانک ایک نقاب پوش نوجوان جو مصر سے حج کرنے کے لیے آیا تھا، مجلس میں پہنچا، اور امام مالک کو سلام کرکے پوچھا، کیا آپ یہاں ابن قاسم موجود ہیں؟ لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا، وہ آیا اور اسنے میری پیشانی کا بوسہ لیا، میں نے اس میں ایک نہایت عمدہ خوشبو محسوس کی،(جس کا بیان لفظوں میں کرنا مشکل ہے) در حقیقت وہ میرا بیٹا تھا، اور یہ خوشبواسی سے آرہی تھی، میں جس وقت گھر سے چلا تو رحم مادر میں تھا، میں اس کی ماں سے جو میری بیوی ہونے کے ساتھ ساتھ چچیری بہن بھی ہوتی تھی، یہ کہکر آیا تھا کہ لمبی مدت کے لیے جارہا ہوں واپسی کا کچھ پتہ نہیں کہ کب ہو، اس لیے تمہیں اختیار ہے چاہے میری ہی نکاح میں رہنا چاہے آزاد ہوکر دوسری جگہ چلی جانا لیکن اس اللہ کی بندی نے آزاد ہونے کے بجائے، میرے ہی نکاح میں رہنے کو اختیار کیا۔ (صبر واستقامت کے پیکر، ص:۵۱ تا ۵۲)
حافظ ابن مندہ رحمة الله عليه اپنے وطن عزیز سے بیس سال کی عمر میں طلب علم کے لیے نکلے اور مسلسل ۴۵/ سال تک سفر کرتے رہے، اور علم حاصل کرتے رہے ،۶۵/ سال کی عمر میں اپنے وطن واپس ہوئے، جب گھر سے نکلے تو چہرہ پر ایک بال نہ تھا، اور جب لوٹے تو داڑھی کے بال سفید ہو چکے تھے، مگر اتنے عرصے میں کتنا علم حاصل کیا ، تو جعفر مستغفری فرماتے ہیں کہ میں نے حافظ ابو عبد محمد بن اسحق ابن مندہ سے، ایک مرتبہ پوچھا کہ آپ نے کتنا علم حاصل کیا ، تو کہا پانچ ہزار من وزن کے برابر، اللہ اکبر۔(تذکرہ الحفاظ)۔ امام شعبی عامر بن شراحیل کوفی ہمدانی بڑے پائے کے محدث گذرے ہیں ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو اتنا علم کیسے حاصل ہوا،تو فرمایا چار باتوں کے التزام کی وجہ سے(۱) کبھی کسی کتاب یا کاپی کے بھروسہ پر نہ رہا یعنی جو سنا سب یاد کرلیا۔ (۲) طلب علم کے لئے دربہ در سفر کرتا رہا۔ (۳) جمادات کی طرح صبر کرتا رہا یعنی جمادات کو پانی دو یا نہ دو کھاد دو یا نہ دو خاموش رہتا ہے، میں بھی بھوک اور پیاس پر صبر کرتا رہا،(۴) کوّے کی مانندصبح سویرے اٹھتا رہا یعنی بہت کم سوتا رہا تب جاکر اتنا علم حاصل ہوا۔(تذکرة الحفاظ) تو المختصر يه كه إن حضرات نے علم كيلئے اپنا تن من دهن سب ّنچهـ قربان كرديا پهر الله تعالى نے انهين دنيا وآخرت ميں كامياب فرماديا دنيا ميں بهي وه ممتاز هوئے اور إن شاء الله آخرت ميں بلند مراتب كے حقدار هونگے تو علم كے حصول كيلئے مسلسل كوشش اور محنت إسكي مشق كا إيك إهم حصه هے إيك طالب علم كو كامياب هونے كيلئے إسپر خاص توجه دينے كي ضرورت هے (جارى هے)
3- بلند ہمتی: علم دین کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد اور محنت اور بلند ہمتی ضروری ہے، علامہ زرنوجی رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ اگر” محنت خوب“ ہو اور ”بلند ہمتی “نہ ہو تو بھی علم زیادہ حاصل نہیں ہوتا، اور” ہمت“ تو ہو مگر”محنت“ نہ ہو تو بھی علم حاصل نہیں ہوتا، آج ہمارے طلبہ میں یہ ہی بیماری کسی میں ”محنت“ کا جذبہ نہیں اور اگر” محنت“ کا جذبہ ہے تو” بلند ہمتی“ نہیں، یعنی کسی بھی کتاب کو جب کچھ محنت کے بعد سمجھ میں نہ آئے تو مشکل سمجھ کر نا امید ہو جاتے ہیں، یہ بہت بڑی غلطی ہے، جیسا کہ گذشته قسط ميں آپ نے ہمارے اسلاف کی محنت اورجدوجہد پرچند حیرت کن حالات پڑھے، ان کی بلند ہمت کے بھی چند نمونے پیش خدمت ہیں۔ إيك فقيه فرماتے ہیں: کہ مجھے تعجب ہے طلبہ پر ا س لیے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ ہر قیمتی چیز کو حاصل کرنے کے لیے بلند ہمتی وجدوجہد در کار ہوتی ہے ،مگر علم کے بارے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ا یسے ہی حاصل ہو جائے، تویہ کیسے ممکن ہے جبکہ علم دین تو دنیا کی چیزوں میں سب سے زیادہ قیمتی ہے، تو ذرا غور کیجئے اس کے لیے کتنی ہمت اور محنت درکار ہوگی، مسلسل محنت مسلسل تکرار راحتوں اور لذتوں کو چھوڑنے سے علم حاصل ہوتا ہے۔ ایک اورفقیہ فرماتے ہیں: میں ایک مدت تک ہریسہ(عربوں کاایک لذیذ کھانا) کھانے کی تمنا کرتا رہا مگر کبھی نہ کھا سکا، اس لیے کہ ہریسہ اس وقت بازار میں فروخت ہوتا تھا، جب درس کا وقت ہوتا تھا، میں نے کبھی بھی درس چھوڑنے کو پسند نہیں کیا۔ ابن کثیر رحمة الله عليه فرماتے ہیں جسم کی راحت کے ساتھ علم حاصل ہوہی نہیں سکتا۔ امام مزنی رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ کسی نے امام شافعی رحمة الله عليه سے دریافت کیا ، آپ کے حصول علم خواہش کیسی ہے؟ تو فرمایا جب میں کوئی نیا علمی نقطہ یا نئی علمی بات سنتا ہوں تو مجھے اتنی خوشی ہوتی اور لذت ہوتی ہے کہ میرے خواہش ہوتی ہے کہ میرے بدن کے ہر عضو کو قوت سماعت ہو اور وہ بھی لذت محسوس کرے۔ پھر کسی نے پوچھا آپ علم پر کتنی حرص رکھتے ہیں تو فرمايا كه جس قدرایک مال و دولت کو جمع کرنے والا مال کوحاصل کرنے کے کی حرص رکھتا ہے۔ پھر پوچھا کہ آپ کے علم کی طلب کی کیفیت کیا ہے تو کہا جیسے اس ماں کی جو اپنے گمشدہ بچے کی تلاش میں ہوتی ہے اور اسے اس کے علاوہ کسی چیز کی پرواہ نہیں ہوتی۔ امام ثعلبہ رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ میں علم کے خاطر ابراہیم حربی رحمة الله عليه کے پاس پچاس سال مسلسل قیام کیے رہا۔ امام النحوخلیل فراہیدی رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ مجھے سب سے زیادہ شاق وہ وقت لگتا ہے جب میں کھا رہا ہوتا ہوں کیوں کہ اس وقت کوئی علمی فائدہ نہیں ہوتا۔ عمار ابن رجا رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ تیس سال تک میں اپنے ہاتھ سے کھانا نہ کھا سکا میں حدیث لکھتا تھا اور میری بہن میرے منہ میں لقمے دیتی تھی۔

بقی ابن مخلد رحمة الله عليه کا حیرت انگیز واقعہ ایک ایسے علم کے شیدائی کا ہے جس نے مغرب بعید سے مشرق تک کئی ہزار میل کا پیدل سفر محض اس لئے طے کیا کہ وہاں کے مسلمانوں کے ایک زبردست امام اور عالم جلیل کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے دامن کو ”علم حدیث“ کی دولت سے بھرے لیکن جب وہ علم کا جویا وہاں پہونچا تو معلوم ہوا کہ جس کی خاطر اس نے یہ طویل وعریض سفر پیدل چل کر کیا ہے، وہ ایک سخت آزمائش میں مبتلاء ہے، اور درس وتدریس اور لوگوں سے ملنے جلنے پر حکومت کی جانب سے کڑی پابندی عائد ہے، مگر وہ بھی علم کا متوالا اور طالب حقیقی تھا، اس نے حصول علم کے لئے ایک ایسی راہ اختیار کی جس کا تصور بھی ہر کس وناکس کے لیے مشکل ۔
بقی بن مخلد کا پیدل سفر بغداد: علمی دنیا کی قابل قدر تصنیف ”منہج احمد فی تراجم اصحاب امام احمد“ میں امام بقی بن مخلد اندلسی رحمة الله عليه کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ”حافظ حدیث ابو عبد الرحمن بقی بن مخلد اندلسی،۲۰۱ ھ میں پیدا ہوئے، آپ نے اندلس سے بغداد تک سفر پیدل چل کر طے کیا ،مقصد امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه کی خدمت میں حاضر ہوکر علم حدیث حاصل کرنا تھا۔ خود موصوف سے یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ انہوں نے فرمایا:”جب میں بغداد کے قریب پہونچا اس آزمائش اور امتحان کی خبر ملی جس سے ان دنوں امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه دو چار تھے، یہ بھی معلوم ہواکہ ان ملنے اور حدیث سننے کی سرکاری طورپر پابندی ہے، یہ سننا تھا کہ رنج وملاں کا پہاڑ میرے اوپر ٹوٹ پڑا، میں وہیں رک گیا، اور سامان ایک سرائے کے کمرے میں رکھ کر بغداد کی عظیم الشان جامع مسجد پہونچا، میں چاہتا تھا کہ لوگوں کے پاس جاکر دیکھوں کہ وہ آپس میں امام موصوف کے بارے میں کیا کیا تبصرے کر رہے ہیں؟ اور ان میں کیا کیا چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں؟؟۔ اتفاق سے وہاں بہت ہی عمدہ اورمہذب حلقہ لگا ہوا تھا، اور ایک شخص راویان حدیث کے حالات بیان کررہا تھا، وہ بعض کو ضعیف اوربعض کو قوی قرار دیتا، میں نے اپنے پاس والے آدمی سے پوچھا: یہ کون صاحب ہیں؟ اس نے کہا: یحی بن معین! مجھے آپ کے قریب تھوڑی سی خالی جگہ نظر آئی، میں وہاں جاکر کھڑا ہو گیا اور عرض کیا: شیخ ابوزکریا! میں ایک پردیسی آدمی ہوں جس کا وطن یہاں سے بہت دور رہے، میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں، آپ میری خستہ حالی کی بنا پر مجھے جواب سے محروم نہ فرمائیں انہوں نے کہا: پوچھو کیا پوچھنا ہے؟ میں نے چند ایسے محدثین کے بارے میں دریافت کیا جن سے میر ی ملاقات ہو چکی تھی، انہوں نے بعض کو صحیح اور بعض کو مجروح بتایا، آخر میں ہشام بن عمار کے متعلق پوچھا موصوف کے پاس میری حاضری بار ہا ہوئی ہے، اور ان سے حدیث کا ایک بڑا حصہ حاصل کیا ہے، آپ نے موصوف کا نام سن کر فرمایا: ابوالولید ہشام بن عمار، دمشق کے رہنے والے، بہت بڑے نمازی، ثقہ بلکہ اس سے بڑھ کر ہیں۔ میرا اتنا پوچھنا تھا کہ حلقہ والے چیخ پڑے ”جناب بس کیجئے دوسروں کو بھی پوچھنا ہے“ میں نے کھڑے کھڑے عرض کیا ”میں آپ سے احمد بن حنبل رحمة الله عليه کے بارے میں پوچھنا چاہتاہوں ”یہ سن کر یحی بن معین نے بڑے حیرت سے مجھے دیکھا اورکہا: ہم جیسے احمد ابن حنبل رحمة الله عليه کے بارے میں تنقید کریں گے؟ وہ مسلمانوں کے امام، ان کے مسلمہ عالم اور صاحب فضل وکمال، نیز ان میں سب سے بہتر شخص ہیں“۔اس کے بعد میں و ہاں سے چلا آیا، اورپوچھتے پوچھتے امام احمد بن حنبل کے مکان پر پہونچ گیا، میں نے دروازہ کی کنڈی کھٹکھٹائی، آپ تشریف لا ئے اور دروازہ کھول دیا، انہوں نے مجھ پر نظر ڈالی ،ظاہر ہے میں ان کیلئے ایک اجنبی تھا، اس لئے میں نے کہا:حضرت والا! میں ایک پردیسی آدمی ہوں، اس شہر میں پہلی باز آنا ہوا ہے طالب حدیث ہوں،اور یہ سفر محض آپ کی خدمت میں حاضری کی وجہ سے ہوا ہے!! انہوں نے فرمایا:”اندر آجاوٴ، کہیں تمہیں کوئی دیکھ نہ لے“۔ جب میں اندر آگیا تو انہوں نے پوچھا : تم کہاں کے رہنے والے ہوں؟ میں نے کہا مغرب بعید!! انہوں نے کہا: افریقہ؟ میں نے کہا: اس سے بھی دور ہمیں اپنے ملک سے افریقہ تک جانے کے لیے سمندر پار کرنا پڑتاہے․․․․․ میں اندلس کا رہنے والا ہوں!! انہوں نے کہا: واقعی تمہارا وطن بہت دور ہے، تمہارے جیسے شخص کے مقصد کو پورا کرنا اور اس پر ہر ممکن تعاون کرنا مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، لیکن کیا کروں، اس وقت آزمائش میں گرفتار ہوں، شاید تمہیں اس کے بارے میں معلوم ہوگیا ہو!! اس نے کہا جی ہاں، مجھے اس واقعہ کی اطلاع راستہ میں شہر کے قریب پہونچنے پر ہوئی۔ میں نے عرض کیا: ابو عبد اللہ! میں پہلی بار اس شہر میں آیا ہوں، مجھے یہاں کو ئی نہیں جانتا، اگر آپ اجازت دیں تو میں روزانہ آپ کے پاس فقیر کے بھیس میں آجایا کروں گا، اور دروازے پر و یسی ہی صدا لگا یا کروں گا جیسی وہ لگاتے ہیں، آپ یہاں تشریف لے آیا کریں، اگر آپ نے روزانہ ایک حدیث بھی سنادی تو وہ میرے لیے کافی ہے، آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ تم لوگوں کے پاس آمد ورفت نہیں رکھو گے، اور نہ محدثین کے حلقوں میں جاوٴگے، میں نے کہا: آپ کی شرط منظور ہے۔ الغرض میں روزانہ اپنے ہاتھ میں ایک لکڑی لیتا ، سر پر بھیکاریوں کا سا کپڑا باندھتا، اور کاغذ دوات، آستین کے ا ندر رکھ کر آپ کے دروازے پر جاکر صدا دیتا ”خدا بہت سادے بابا!!! وہاں مانگنے کے یہی دستور تھا․․․․․ آپ تشریف لاتے اور جب میں اندر ہو جاتا دروازہ بند کرکے کبھی دو،کبھی تین یا اس سے زیادہ حدیثیں بیان فرماتے۔ (صبر و استقامت کے پیکر) ذرا دیکھو تو سہی بقی ابن مخلد رحمة الله عليه کی بلند حوصلگی اورعلو ہمت کو، کہ ہزاروں میل کا پیادہ سفر کیا اور بھیکاری کے بھیس میں ۱۳/سال تک حدیث حاصل کی اسی بلند ہمتی نے انہیں ہمیشہ ہمیشه کے لیے ذکر خیر سے یاد کرنے کے لیے بعد والوں کو مجبور کردیا ہے، يا اللہ تو ہمارے اسلاف کو امت کی جانب سے بہتر بدلہ اور صلہ عطا فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمين

4-ادب وإحترام:
مسلسل محنت کے ساتھ بلند ہمتی اور اس کے ساتھ استاذ، کتاب، اور آلات علم کا ادب، بھی انتھائی ضروری ہے جیسا کہ امام طبرانی رحمة الله عليه نے روایت نقل کی،
”وتواضعو لمن تعلمون منہ“۔
”جس سے علم سيکھو اس کے ساتھ ادب اور تواضع سے پیش آؤ“۔
حضرت مولانا أشرف علي تھانوی رحمة الله عليه فرماتے ہیں جس قدر استاذ سے محبت ہو گی اور جتنا استاذ کا ادب و احترام ہوگا اسی قدر علم میں برکت ہوگی، یہ عادة اللہ ہے کہ استاذ راضی نہ ہو تو علم نہیں آسکتا۔
حضرت تھانوی رحمة الله عليه نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ استاذ کا ادب تقوی میں داخل ہے، جو اس میں کو تاہی کرے گا، وہ متقی نہیں ہو گا، حالاں کہ تقوی کی زیادتی علم میں زیادتی کا سبب ہے۔

اساتذہ کرام کے آداب:
1-طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ اپنے استاذوں کا غایت درجه ادب و احترام کرے، مغیرہ رحمة الله عليه کہتے ہیں کہ ہم استاذ سے ایسا ڈرتے تھے جیسے لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے ہیں، حدیث پاک میں بھی یہ حکم ہے کہ جن سے علم حاصل کرو ان سے تواضع سے پیش آوٴ۔
2- اپنے أستاد کوسب سے فائق سمجھے، حضرت امام ابو یوسف رحمہ اللہ کا مقولہ ہے کہ جو اپنے استاذ کا حق نہیں سمجھتا وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔
3- استاذ کی رضا کا ہر وقت خیال رکھے، اس کی ناراضگی سے پرہیز کرے، اتنی دیر اس کے پاس بیٹھے بھی نہیں، جس سے اس کو گراں ہو۔
4- استاذ سے اپنے مشاغل میں اور جو پڑھنا ہے اس کے بارے میں خاص طور سے مشورہ کرتا رہے۔
5 اس سے نہایت احترازکرنا چاہئے کہ شرم اور کبر کی وجہ سے اپنے ہم عمر یا اپنے سے عمر میں چھوٹے سے علم حاصل کرنے میں پس وپیش کرے، حضرت اصمعی کہتے ہیں کہ جو علم حاصل کرنے کی ذلت نہیں برداشت کرے گا وہ عمر بھر جہل کی ذلت برداشت کرے گا۔
6- یہ بھی ضروری ہے کہ استاذ کی سختی کا تحمل برداشت کرے(یہ نہایت اختصار سے مقدمہ ”اوجز المسالک“ سے چند اصول نقل کیے گیے ہیں)۔
8- یہ تو نہایت مشہور مقولہ اور نہایت مجرب ہے کہ استاذ کی بے حرمتی سے علم کی برکات سے ہمشہ محروم رہتا ہے․․
9- عادت اللہ ہمیشہ یہی رہی ہے کہ اساتذہ کا احترام نہ کرنے والا کبھی بھی علم سے منتفع نہیں ہو سکتا، جہاں کہیں ائمہ فن طالب علم کے اصول لکھتے ہیں اس چیز کو نہایت اہتمام سے ذکر فرماتے ہیں، اور محدثین نے تو مستقل طور پر آداب طالب کا باب ذکر کیا ہے جو ”اوجز المسالک“ کے مقدمہ میں مفصل مذکور ہے اس میں اس چیز کو خاص طور سے ذکر کیا ہے۔امام غزالی رحمہ اللہ نے بھی ”احیاء العلوم“ میں اس پرمفصل بحث فرمائی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ طالب علم کے لئے ضروری ہے کہ استاذ کے ہاتھ میں کلیتہ اپنی باگ دے دیں، اور بالکل اسی طرح انقیاد کرے جیسا کہ بیمار مشفق طبیب کے سامنے ہوتاہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑہادیا میں اس کا غلام ہوں چاہئے وہ مجھے فروخت کردے یا غلام بنادے
10- تجربہ یہاں تک ہے کہ انگریزی طلبہ میں بھی جو لوگ طالب علمی میں اساتذہ کی مار کھاتے ہیں وہ کافی ترقیاں حاصل کرتے ہیں، اونچے اونچے عہدوں پر پہنچتے ہیں، جس کی غرض سے وہ علم حاصل کیا تھا وہ نفع پورے طور پر أنهيں حاصل ہوتا ہے ،اور جو اس زمانہ میں استاذوں کے ساتھ نخوت وتکبر سے رہتے ہیں، وہ بعد میں ڈگریاں لئے ہوئے سفارشیں کراتے ہیں ، کہیں اگر ملازمت مل بھی جاتی ہے تو آئے دن اس پر آفات ہی رہتی ہیں، بہرحال جو بهي علم ہو اس کا کمال اس وقت تک ہوتا ہی نہیں اور اس کا نفع حاصل ہی نہیں ہوتا جب تک کہ اس فن کے اساتذہ کا ادب نہ کرے، چہ جائے کہ ان سے مخالفت کرے۔
11- کتاب ”ادب الدنیا و الدین“ میں لکھا ہے کہ طالب علم کے لیے استاذ کی خوشامد اور اس کے سامنے تذلل(ذلیل بننا)ضروری ہے، اگر ان دونوں چیزوں کو اختیار کرے گا تو نفع کمائے گا اور دونوں کو چھوڑدے گا تو محروم رہے گا۔
12-ارشاد فرمایا: ”قوت حافظہ کے جہاں اور بہت سے اسباب ہیں، ان میں اہم سبب اپنے اساتذہ کے لیے دعا کرنا بھی ہے جتنا بھی اس کا اہتمام کیا جائے گا قوت حافظہ میں اسی قدر اضافہ ہوتا رہے گا۔دارالعلوم کے ایک فاضل مہمان نے زیادہ حافظہ کے وظیفہ کی درخواست کی تو ارشاد فرمایا:
”آپ حضرات کو جو اپنی مادرعلمی اور اساتذہ سے گہرا ربط اور تعلق ہے یہ بھی قوت حافظہ کے اسباب سے ایک ہے، امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو جو تبحر علمی اللہ پاک نے عنایت فرمایا تھا اس کے یقینا بہت سے وجوہ ہوں گے، ان میں ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے تمام زندگی اپنے استاذ کے گھر کی طرف پاوٴں نہیں پھیلائے ،اور نہ ادہر پاوٴں کرکے سوئے، آج جو شیخ مدنی رحمہ اللہ کا جگہ جگہ ذکر خیر ہے اور ان کے علوم و فیوضات کا سلسلہ روز افزوں ہے اور اب جو ایک صاحب نے بتایا ہے کہ گوجرانوالہ میں ”الجمعیة شیخ الاسلام نمبر“ دو بارہ شائع کیا جارہا ہے اس کی وجہ وہی ہے کہ شیخ مدنی رحمہ اللہ نے اپنے استاذ شیخ الہند رحمہ اللہ کی خدمت کی، مالٹا جیل میں گئے اور ساتھ رہے اور کسی ممکن خدمت سے دریغ نہیں کیا۔
13-ارشاد فرمایا: ”جب تحصیل علم کے تین آداب کو ملحوظ رکھا جائے تو تب صلاحیت نکھرتی، استعداد جلا پاتی، اور علمی وروحانی ترقیاں حاصل ہوتی ہیں۔
1- استاذ کا ادب  2- مسجد اور درس گاہ کا ادب  3- کتاب کا ادب“۔
14-ارشاد فرمایا: ادب قلبی کیفیت اور باطنی محبت کا مظہر ہوتا ہے اس لیے تحصل علم کے دوران طالب علم کو چاہئے کہ اپنے استاذ کی محبت کو دل کی اتھاہ گہرائیوں میں جگہ دے، ا ور اس کا دل وجان سے عاشق بن جائے، یا اعمال اور خلوص ومحبت کا ایسا مظاہرہ کرے که استاذ کے دل میں جگہ پالے اور استاذ کا محبوب بن جائے۔
مگر پہلی صورت کہ اپنے استاذ سے عشق ومحبت اور وارفتگی میں دیوانگی وجنون کی حد تک پہنچ جائے، دوسری صورت کی نسبت بے حد نافع اور مفید ہے، ایسے طلبہ علم بھی حاصل کرلیتے ہیں اور ان کا فیض بھی زیادہ پھیلتا ہے۔
15-ارشاد فرمایا کہ: ”والدین کی خدمت سے عمرمیں برکت ہوتی ہے اور اساتذہ کی خدمت سے علم میں برکت ہوتی ہے، مقصد یہ ہے کہ ان خدمات کے یہ خاصیتی اثرات ہیں جوان پر مرتب ہوتے ہیں،چینی کی اپنی لذت ہے،گڑ کا اپنا ذائقہ ہے، مٹھائی کی اپنی چاشنی ہے جو چیز کھائی جائے گی اس کی ذاتی خاصیت کی بناء پر اس کے اثرات وثمرات اور نتائج مرتب ہونگے، تو والدین کی خدمت سے زیادہ عمر اور اساتذہ کی خدمت سے زیادہ علم اور خدمت علم کے اثرات اور نتائج مرتب ہوتے ہیں۔
16-استاذ کی روک ٹوک اگر پڑھنے میں ہوتو اس کو برا نہ سمجھے اور نہ چہرے پر شکن پڑے نہ ملال ظاہر کرے، اس لیے کہ اس سے استاذ کے دل میں انقباض پیدا ہوجائے گا، اور دروازہ نفع کا بند ہوجائے گا، کیونکہ یہ موقوف ہے انشراح دل اور مناسبت پر،اور صورت مذکورہ میں دونوں باتیں نہیں ہیں، بہت بڑا فائدہ اور جلد منفعت کی کنجی یہ ہے کہ جس سے نفع حاصل کرنا ہو خواہ خالق سے یا مخلوق سے، اس کے سامنے اپنے کو مٹادے اور فنا کردے، اپنی رائے وتدبیر کو بالکل دخل نہ دے، پھر دیکھئے کیسا نفع حاصل ہوتا ہے، اور یہ بڑا کمال ہے۔
17-اگر کسی مسئلہ میں استاذ کی تقریر ذہن میں نہ بیٹھے، تو کچھ دیر تک استفادہ کی لہجہ میں خندہ پیشانی کے ساتھ اپنی تقریر کرے ، اگر پھر بھی سمجھ میں نہ آوے تو خاموش ہو جائے، اور دل میں یہ رکھ لے کہ اس کی تحقیق کروں گا،بعد میں کتابوں سے اور علماء سے تحقیق کرے ، اور اگر اپنی رائے صحیح ہو اور استاذ حق پسند ہو تو اس کتاب اوربڑے عالم کی تحقیق کو ان کے سامنے پیش کردے، اگر استاذ کی تقریرصحیح ہو تو معذرت کر دے کہ آپ صحیح فرتے تھے میں غلطی پر تھا ۔
18- استاذ کے مقابلہ میں مکابرہ، مناظرہ، مجادلہ کی صورت ہر گز نہ بنائے، یعنی آنکھیں نہ چڑھیں، گفتگو میں تیزی نہ ہو پیشانی پر بل نہ ہو، بڑوں کے مقابلہ میں یہ بے ادبی ہے۔ كسى نے كيا خوب كها هے
با ادب بانصيب - بے ادب بے نصيب
19- طالب علم سے اگر استاذ کی بے ادبی یا نافرمانی یا ایذاء رسانی ہو جائے تو فوراً نہایت نیاز وعجز سے معافی چاہے اور الفاظ معافی کے ساتھ اعضاء سے بھی عاجزی وانکساری وندامت ٹپکے، یہ نہیں کہ لٹھ ما ر دیا کہ ، اجی معاف کردو۔
اگر دل میں ندامت ہو گی تو اعضاء سے بھی ندامت ٹپکے گی، اگر یہ بھی نہ ہوتو بناوٹ ہی کردے، اصل نہیں تو نقل ہی سھی، مگر تاخیر نہ کرے، کیونکہ اگر استاذ دنیا دار ہوگا تو تاخیر کرنے سے اس کی کدورت بڑھ جائے گی اور تمہارا نقصان ہوگا، اور اگر دیندار ہو گا تو گو وہ کدورت وغیرہ خرافات کو اپنے دل میں جگہ نہ دے گا، مگر رنج طبعی ہوگا اور یہ بھی طالب علم کے لیے مضر ہو گا کیونکہ اس حالت میں انشراح قلب نہ رہے گا اور بغیر اشراح قلب نفع نہ ہوگا ،اور تاخیر کرنے میں یہ بھی خرابی ہے کہ جتنی تاخیر ہوگی اتنا ہی حجاب بڑھتا جائے گا۔
حضرت اقدس مفتی رشید احمد گنگوهي صاحب رحمہ اللہ عليه فرماتے ہیں كه علمی استعداد سات چیزوں پر موقوف ہے:
(1) ذہن
(2) حافظہ
(3) محنت
(4)آلات علم یعنی کتاب، کاغذ، قلم اور تپائی وغیرہ کا ادب
(5) استاذ کا ادب
(6) دعا
(7) ترک منکرات۔
ان میں سب سے زیادہ اہم چیز ترک منکرات ہے ، اس لیے کہ علم دین اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص عنایت اور اس کی بہت بڑی نعمت ہے ، وہ اتنی بڑی دولت صرف اسی کو عطا فرماتے ہیں جو اس کی ہر نا فرمانی کو چھوڑ کر اس سے محبت کا ثبوت پیش کرے ۔ ( جواہر الرشید)

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه کا ادب واحترام:
حضرت والا کو اپنے اساتذہ سے شدید تعلق تھا کہ بس یوں کہا جائے کہ عشق تھا ، چناںچہ فرمایا کرتے ہیں کہ میں نے پڑھنے میں کبھی محنت نہیں کی جو کچھ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا اساتذہ اوربزرگوں کے ساتھ ادب ومحبت کا تعلق رکھنے کی بدولت عطا فرمایا، اور الحمد اللہ! میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنے کسی بزرگ کو ایک منٹ کے لیے بھی ناراض نہیں کیا اور جتنا میرے قلب میں بزرگان دین کا ادب ہے آج شاید ہی کسی کے دل میں اتنا ہو۔

شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب رحمہ اللہ عليه كا ادب:
حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب رحمہ اللہ کے بارے میں متعدد حضرات نے بیان کیا کہ کوئی بات دریافت کرنی ہوتی یا کتاب کا مضمون سمجھنا ہوتا تو اپنے استاذ حضرت علامہ انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ کے مکان کے دروازہ پر جا کر بیٹھ جاتے ،جب حضرت گھر سے باہر نکلتے اس وقت دریافت کرتے اور یہ تقریباً روزانہ ہی کا معمول تھا۔

حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی صاحب رحمہ اللہ عليه كا ادب:
مولانا أحسن گیلانی رحمة الله عليه اپنے اساتذہ کا بڑا احترام فرماتے تھے ،اور سخت سے سخت وقت پر بھی ان کے حکم سے سرتابی کی جرأت نہیں کرتے ،اور نہ بہانے تلاش کرتے تھے بلکہ فوراً تعمیل حکم کے لیے حاضر ہو جاتے۔
14 اگست 1947ء میں ملک آزاد ہوا، اور اس کے صدقہ میں ایک نئی مسلم مملکت وجود میں آئی جو پاکستان کے نام سے موسوم ہوئی، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمدعثمانی رحمہ اللہ عليه نے چاہا کہ یہاں اسلامی دستور نافد ہو، اس اسلامی دستور کو مرتب کر نے کے لیے بہت سے علماء کو مولانا شبیر احمد عثمانی رحمة الله عليه نے کراچی میں جمع کرنے کی سعی فرمائی، ان میں حضرت مولانا گیلانی رحمہ اللہ عليه کا بھی نام تھا، اس وقت حالات ساز گار نہ تھے، مگر استاذ محترم کے حکم کے خلاف کسی بہانہ کی جرأت نہیں فرمائی بلکہ فوراً تشریف لے گئے۔
مولانا نے خوداپنے ایک خط میں جو علامہ سید سلیمان ندوی رحمة الله عليه کے نام ہے لکھتے ہیں:
” آپ کے ارادہ عدم شرکت سے مطلع ہونے کے بعد خاکسار نے بھی قطعی فیصلہ کراچی نہ جانے کا کر لیا تھا، لیکن مولانا عثمانی رحمة الله عليه کی طرف سے تار اور خطوط کے تسلسل نے فسخ عزم کو انسب خیال کیا ان سے تلمذ کی نسبت رکھتے ہوئے دل نے آگے بڑھنے کی اجازت نہ دی ۔ (حیات گیلانی )

شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق صاحب رحمہ اللہ عليه کا واقعہ:
دنیا کا تجربہ اس بات پر شاہد عدل ہے کہ محض کتابوں کے پڑھ لینے سے کسی کو علم کے حقیقی ثمرات اورکمالات حاصل نہیں ہوتے بلکہ اس کے لیے ”پیش مرد کا ملے پامال شو“ پر عمل پیرا ہو نا پڑتا ہے، نیز استاذ کا ادب واحترام ہمہ وقت ملحوظ رکھنا پڑتا ہے ، بے ادبی فیوضات کے حصول کی راہ میں سنگ گراں بن جاتی ہے۔ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ عليه کی دل میں اساتذہ کا ادب واحترام اور خدمت کا جذبہ بدرجہ اتم پایا جاتا تھا ،اور ان کی خدمت باعث صد افتخار سمجھتے تھے، اگر چہ ان کے ہم سبق طلبہ اس سعادت کو بنظر حقارت دیکھتے تھے ، جیسا کہ حضرت الشیخ رحمہ اللہ عليه خود بیان فرماتے ہیں:
”میں خود دیوبند میں تھا تو زمانہ طالب علمی میں حضرت شیخ حسين أحمد مدنی رحمہ اللہ عليه کے ہاں بعض اوقات ان کی خدمت کے لیے جایا کرتا اور پاوٴں دباتا، اور بعض ساتھی ہنستے کہ یہ چاپلوسی کرتا ہے، مگر یہ ان بزرگوں کی توجہ کا نتیجہ ہے کہ مجھ نالائق انسان سے بھی اللہ تعالیٰ نے کچھ نہ کچھ دین کا کام لیا اور مزید توفیق دے رہے ہیں، ان میں سے کئی اور ساتھی ہیں جو اس راستہ کو چھوڑ چکے ہیں تو علم سارا ادب ہی ادب ہے، دین کا ادب، اساتذہ کا ادب اور علم کا ادب ۔“ (ماہنامہ”الحق)

آلات علم، کاغذ، قلم، روشنائی کا ادب اور مجدد الف ثانی رحمة الله عليه کا حال:
حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہ ایک روز بیت الخلاء میں تشریف لے کئے، اندر جاکر نظر پڑی کہ انگوٹھے کے ناخن پر ایک نقطہ روشنائی کا لگا ہو ا ہے جو عموماً لکھتے وقت قلم کی روانی دیکھنے کے لئے لگایا جاتا ہے، فوراً گھبرا کر باہر آگئے اور دھونے کے بعد تشریف لے گئے اور فرمایا کہ ان نقطہ کو علم کے ساتھ ایک تلبس ونسبت ہے۔ اس لئے بے ادبی معلوم ہوئی کہ اس کو بیت الخلاء میں پهنچاوٴں یہ تھا ان حضرات کا ادب جس کی برکت سے حق تعالی نے ان کو درجات عالیہ عطا فرمائے تھے آج کل تو اخبارورسائل کی فراوانی ہے ان میں قرآنی آیات، احادیث اور اسماء الہیہ ہونے کے باوجود گلی کوچوں، غلاظتوں کی جگہوں میں بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔العیاذ باللہ العظیم، معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کی دنیا جن عالمگیر پریشانیوں میں گھری ہوئی ہے اس میں اس بے ادبی کا بھی بڑا دخل ہے۔(مجالس حکیم الامت)

حروف کلمات کا ادب:
ایک چمڑہ کا بیگ تھا، کسی مخلص خادم نے بنوایا تھا اور چمڑہ میں لفظ(محمداشرف علی) کندہ کرادیا تھا، اس کا حضرت (تھانوی) اتنا ادب کرتے تھے کہ حتی الامکان نیچے اور جگہ بے جگہ نہ رکھتے تھے كيونكه إس ميں لفظ "محمد" كنده تها ۔ (حسن العزیز)

کتابوں کا ادب:
آج کل طبیعتوں میں ادب بالکل نہیں رہا، مولانا احمد علی سہارن پوری رحمة الله عليه نے لکھا ہے کہ یہ جو بعض طلبہ بائیں ہاتھ میں دینی کتابیں اوردائیں ہاتھ میں جوتے لے کر چلتے ہیں بہت مذموم ہے کیوں کہ خلاف ادب ہے اور صورةً جوتوں کو 
کتب دینیہ پر فوقیت دینا ہے ۔
 (الافاضات الیومیہ)

روشنائی(سياهي) کاادب:
ایک لفافہ پر روشنائی گرگئی تھی تو اس پر یہ لکھ دیا کہ ”بلا قصد روشنائی گرگئی“ اور وجہ بیان فرمائی کہ یہ اس لیے لکھ دیا کہ قلت اعتناء پر محمول نہ کریں، جس کا سبب قلت احترام ہوتا ہے۔(الفصل للوصل)

اگر آپ علم اور دنیا و آخرت میں عزت اور رضاء الٰہی کے طالب ہیں، تو اپنے اندر یہ اعلى صفات پیدا کیجیے۔
(1) اخلاص
(2)لغو اور بیکار امور سے اجتناب
(3)علم پر عمل
(4)اخلاق حسنہ کو زندگی کا لازمی جز بنائیں
(5) تواضع اور عجز اپنے اندر پیدا کریں۔
(6)وقت کی قدر کریں۔
(7) کھیل کود اور سیروتفریح میں اپنا وقت گذارنے سے اجتناب کریں۔
(8) بلند ہمت کا مظاہرہ کریں ،اور علم و عمل میں درجہ کمال تک پہنچنے کی حتی المقدور کوشش کریں۔
(9)مسلسل رات دن ایک کرکے محنت کریں
(10)مطالعہ کا شوق پیدا کریں اور خوب دینی کتابوں کا مطالعہ کریں ،اور اپنے آپ کو مطالعہ کا عادی بنالیں کہ مطالعہ کے بغیر چین نہ آئے۔
(11) نمازوں کا اہتمام تکبیر اولی کے ساتھ کریں، امام ابویوسف رحمة الله عليه سترہ سال امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه کے درس میں فجر سے پہلے حاضر ہوتے تھے ، کبھی تکبیراولیٰ فوت نہیں ہوئی، امام اعمش رحمة الله عليه کی 70 ستر سال تک تکبیر اولی فوت نہیں ہوئی ، یہ لوگ ہمارے لیے نمونہ ہين۔
(12)غایت درجہ استاذ ، کتاب ،آلات علم ، مدرسه اور مسجد کا ادب واحترام کریں، علم نافع کے آداب میں مسجد کا ادب بھی شامل ہے، مسجد میں باتیں کرنے سے بھی علم سے محرومی ہوتی ہے۔
(13)نظر کی حفاظت کریں نظر بد سے حافظہ اور ذہانت کمزور ہوتے ہیں۔
(14) گناہوں سے مکمل إجتناب كريں - كيونكه علم إيك نور هے اور الله تعالى كي نافرماني ظلم هے كسي دل ميں يه دونوں جيزيں جمع نهيں هوسكتيں لهذا علم نافع كے حصول كيلئے الله تعالى كي نافرماني سے مكمل إجتناب كرنا ضروري هے

حصول علم كے لئے دعا كرنا:
جيسا كه عرض كيا جا چكا كه تبليغ كے هر نمبر كي محنت كے لئے سب سے پہلے إس کی دعوت ہے ، دوسرا كام إس كي مشق كرنا هے إس سب كے بعد كاميابي دينے والي ذات صرف اور صرف الله تعالى كي هي هے إس لئے دعوت اور محنت كا عمل كرنے كے بعد تيسرا اور آخرى كام الله تعالى سے رو رو كر اور گڑگڑا كر دعا مانگنا بهت ضرورى هے.
اللہ تعالی کو یہ بات بہت پسند ہے کہ اس سے مانگا جائے، ہر چیز کیلئے امید اسی سے لگائی جائے، بلکہ جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ تعالی اس پر ناراض ہوتا ہے، اسی لیے اپنے بندوں کو مانگنے کیلئے ترغیب بھی دلاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ}[غافر ]
ترجمہ: اور تمہارے رب نے کہہ دیا ہے کہ: مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔ 

اللہ سے دعا مانگنے کا دین میں بہت بلند مقام ہے، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے یہاں تک فرما دیا: (دعا ہی عبادت ہے) ترمذی - ابو داود - ابن ماجہ
یوں تو اللہ تعالی ہر وقت وہرآن اپنے بندوں کی دعا وفریاد کو سنتا اور ان کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے،لیکن کچھ خاص اوقات ایسے بھی ہیں جن میں دعائیں بہت جلد قبول ہوجاتی اور اپنا اثر خوب دکھاتی ہیں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے۔
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ 0
جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔( البقرة)

قبوليت دعا كے بعض اوقات :

﴿1﴾ آذان اوربارش کے وقت:
حضرت سہل بن سعد رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا دو دعائیں رد نہیں کی جاتیں۔ ایک اذان کے وقت ،دوسرے بارش کے وقت ۔ (أبوداود)

﴿2﴾ آذان اور اقامت کے درمیان:
حضرت انس بن مالک رضي الله تعالى عنه روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا آذان اور اقامت کے درمیان کی جانے والی دعا رد نہیں کی جاتی۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم ! پھر ہم اس وقت کیا دعا کریں؟ آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت کی عافیت مانگا کرو۔ (أبوداود والترمذي)

﴿3﴾جب امام ولاالضالین کہے:
حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا جب امام "آمین"  کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو جائے گی تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔ (صحیح بخاری ومسلم)
جب امام غیر المغضوب علیھم و لا الضالین کہے تو تم آمین کہو اللہ تمہاری دعا قبول کرے گا۔(صحیح مسلم)

﴿4﴾حالت سجدہ:
حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا انسان اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے، اس لئے (سجدے میں ) دعاء کثرت سے کیا کرو۔ ( صحیح مسلم وأبوداود وأحمد)

﴿5﴾ فرض نماز کے بعد:
حضرت ابوامامہ رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم سے پوچھا گیا کہ کونسی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔ آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا رات کے آخری حصے میں اور فرض نمازوں کے بعد مانگی جانے والی دعا۔ (ترمذي صحيح)

﴿6﴾ تلاوت قرآن المجيد کے بعد:
حضرت عمران بن حصین رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا جو شخص قرآن پڑھے اسے چاہئے کہ اللہ سے سوال کرے اس لئے کہ عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن پڑھ کر لوگوں سے سوال کریں گے۔ (ترمذي صحيح)

﴿7﴾ جمعہ کے دن کی ایک خاص گھڑی:
حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے جمعہ کے دن کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ اس دن میں ایک ساعت ایسی ہے کہ کوئی مسلمان بندہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور اس ساعت میں جو چیز بھی اللہ سے مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عطا کرتا ہے، اور اپنے ہاتھوں سے اس ساعت کی کمی کی طرف اشارہ کیا﴿یعنی وہ وقت بہت چھوٹا ہوتا ہے﴾۔ (صحیح بخاری ومسلم)

﴿8﴾ ہر رات کی ایک مخصوص ساعت:
حضرت جابر رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کہ رات میں ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ اس وقت جو مسلمان بندہ بھی اللہ تعالیٰ سے جو بھی بھلائی مانگے گا اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا فرمائیں گے۔ (صحیح مسلم)

﴿9﴾آب زمزم پیتے وقت :
حضرت جابر رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے کہ نبی كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ زمزم کا پانی جس نیت سے پیا جائے وہ پوری ہوتی ہے۔ (ابن ماجه وأحمد)

﴿10﴾مرغ کی بانگ سنتے وقت:
حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کہ جب تم مرغ کی بانگ سنو تو اللہ تعالى سے اس کے رحمت و فضل کی دعا مانگو کیونکہ اس مرغ نے فرشتہ دیکھا ہے اور جب تم گدھے کی آوز سنو تو شیطان سے خدا کی پناہ مانگو یعنی  أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ پڑھو کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے۔ (متفق عليه)

11- لیلۃ القدر كے وقت :
 نبی كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالى عنہا سے اس وقت فرمایا جب انہوں نے کہا: "مجھے بتلائیں کہ اگر مجھے کسی رات کے بارے میں علم ہو جائے کہ وہ لیلۃ القدر کی ہی رات ہے ، تو اس میں میں کیا کہوں؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا تم کہو:
(اَللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ)
[یا اللہ! بیشک تو ہی معاف کرنے والا ہے، اور معافی پسند بھی کرتا ہے، لہذا مجھے معاف کر دے]


12- رات کے آخری حصے میں یعنی سحری کے وقت:
اس وقت اللہ تعالی آسمان دنیا تک نزول فرماتا ہے، یہ اللہ سبحانہ وتعالی کا اپنے بندوں پر فضل و کرم ہےکہ انکی ضروریات اور تکالیف دور کرنے کے لئے نزول فرماتا ہے، اور صدا لگاتا ہے: "کون ہے جو مجھے پکارے تو میں اسکی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اسے عطا کروں؟ کون ہے جو مجھے سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگے، تو اسے بخش دوں" (بخاری)


13-  فرض نمازوں کی اذان اور میدان جهاد میں گھمسان کی جنگ کے وقت:
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالى عنہ سے مروی ہے کہ نبی كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: (دو دعائيں کبھی رد نہیں ہوتیں، یا بہت ہی کم رد ہوتی ہیں، اذان کے وقت، اور میدان کار زار کے وقت جب گھمسان کی جنگ جاری ہو) (صحیح الجامع)


14- زمزم پیتے وقت کی دعا :
حضرت جابر رضی اللہ تعالى عنہ نبی آكرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ: زمزم کا پانی ہر اس مقصد کے لئے ہے جس مقصد سے پیا جائے 
امام احمد نے اسے روایت کیا ہے، اور البانی نے اسے "صحیح الجامع" میں صحیح قرار دیا ہے۔


15- سجدے کی حالت میں دعا:
نبی كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا فرمان ہے: (بندہ اپنے رب کے قریب ترین سجدے کی حالت میں ہوتا ہے، اس لئے کثرت سے سجدے کی حالت میں دعا کرو  ( مسلم)


16- " لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّيْ كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِيْنَ " پڑھتے وقت :
نبی كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: (ذو النون[یونس علیہ السلام ] کی دعا مچھلی کے پیٹ میں یہ تھی:
" لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّيْ كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِيْنَ " اور ان الفاظ کے ذریعے کوئی بھی مسلمان اللہ تعالی سے دعا مانگے تو اللہ تعالی اس کی دعا ضرور قبول فرماتا ہے) ترمذی، البانی رحمہ اللہ سے اسے "صحیح الجامع" میں صحیح قرار دیا ہے۔
قرآن مجید کی جس آیت میں ان الفاظ کا ذکر ہے ان کی تفسیر بیان کرتے ہوئے قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: 

وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَى فِي الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ 0 فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِينَ0
 اور مچھلی والا جب غصے کی حالت میں چل نکلا، اور یہ سمجھا کہ ہم اس پر گرفت نہیں کریں گے، پھر اس نے اندھیروں میں پکارا: بیشک تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، میں ہی ظالموں میں سے ہوں - پھر ہم نے اس کی دعا قبول کی، اور غم سے نجات بخشی، اور اسی طرح ہم ایمان والوں کو نجات دیا کرتے ہیں۔ [الأنبياء] قرطبی فرماتے ہیں ان آیات میں اللہ تعالی نے یہ لازم قرار دیا ہے کہ جو بھی اسے پکارے گا، تو وہ اسکی دعا قبول کرے گا، جیسے یونس علیہ السلام کی دعا قبول کی، اور اسی طرح نجات بھی دے گا جیسے یونس علیہ السلام کو نجات دی، اس کی دلیل آیت کا آخری حصہ ہے: " وَكَذَلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِينَ " [اور ہم اسی طرح مؤمنوں کو نجات دینگے]۔ "الجامع لأحكام القرآن"    قسط نمبر  مكمل هوئي

17- مصیبت كے وقت :
" إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللَّهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي، وَأَخْلِفْ لِي خَيْرَاً مِنْهَا" کے ذریعے دعا کرنا:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالى عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (کوئی بھی مسلمان کسی بھی مصیبت کے پہنچنے پر حکم الہی کے مطابق کہتا ہے:
" إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللَّهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي، وَأَخْلِفْ لِي خَيْرَاً مِنْهَا "
[بیشک ہم اللہ کیلئے ہیں، اور اسی کی طرف لوٹیں گے ، یا اللہ! مجھے میری مصیبت میں اجر عطا فرما، اور مجھے اس سے اچھا بدلہ نصیب فرما]تو اللہ تعالی اسے اِس سے اچھا بدلہ ضرور عطا فرماتا ہے (مسلم)


18- میت کی روح پرواز کر جانے پر لوگوں کا دعا کرنا:
ایک حدیث میں ہے کہ نبی كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، [آپ فوت ہوچکے تھے] اور آپکی آنکھیں پتھرا گئی تھیں، آپ نے انکی آنکھیں بند فرمائیں، اور ارشاد فرمایا: (جس وقت روح قبض کی جاتی ہے، نظر اسکا پیچھا کرتی ہے) یہ سن کر حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ میں سے کسی نے چیخ ماری، تو آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: (اپنے لئے اچھے کلمات ہی بولو؛ کیونکہ تم جو بھی کہو گے فرشتے اس پر آمین کہہ رہے ہیں (مسلم)


19- بیمار آدمی كي عيادت کے وقت :
صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالى عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: (جب تم مریض کے پاس آؤ تو اچھی بات کہو، کیونکہ فرشتے تمہاری ان باتوں پر آمین کہتے ہیں) 


20- مظلوميت كے وقت :
نبی كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: (مظلوم کی بد دعا سے بچنا ، کیونکہ اللہ اور مظلوم کی بد دعا کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا - بخاری- مسلم)
اور آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (مظلوم کی بد دعا قبول ہوتی ہے، چاہے وہ فاجر ہی کیوں نہ ہو، اس کے فاجر ہونے کا نقصان اُسی کو ہوگا) (احمد - صحیح الجامع)


21- ظہر سے پہلے زوال شمس کے وقت دعا:
حضرت عبد اللہ بن سائب رضی اللہ تعالى عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈھلنے کے بعد اور ظہر کے فرائض سے قبل چار رکعت نماز اد اکیا کرتے تھے، اور آپ نے فرمایا: (اس وقت میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور میں چاہتا ہوں کہ اس وقت میرے نیک اعمال اوپر جائیں) ( ترمذی)


22- رات کے وقت کسی بھی لمحے آنکھ کھلنے پران مسنون الفاظ کے بعد دعا کرنا:
آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا فرمان ہے: جو شخص رات کے وقت بیدار ہوا، اور اس نے یہ کہا: "لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، الحَمْدُ لِلَّهِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ"

[اللہ کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں، وہ یکتا و تنہا ہے، اسکا کوئی شریک نہیں، ساری بادشاہی اور تعریفیں اسی کیلئے ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، الحمد للہ، سبحان اللہ، اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، اللہ اکبر، نیکی کرنے کی طاقت، اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر نہیں ہے] پھر اس نے کہا: یا اللہ! مجھے بخش دے، یا کوئی اور دعا مانگی تو اس کی دعا قبول ہوگی، اور اگر وضو کرکے نماز پڑھی تو اس کی نماز بھی قبول ہوگی ( بخاری)

23- رمضان المبارك میں دعا :
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ﴿البقرة﴾
ترجمہ : ” اور (اے نبی ) اگر آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں ، تو آپ کہہ دیجئے کہ میں قریب ہوں ، پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے ،پس انہیں چاہیے کہ میرے حکم کو مانیں اورمجھ پر ایمان لائیں ،تاکہ راہ راست پرآجائیں ۔ “
تشریح: یہ آیت گذشتہ آیت کے مضمون کی تکمیل کرتی ہے ،گذشتہ آیت میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ رمضان کے روزے پورے کرلینے کے بعد تکبیر کہو اور اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے رمضان جیسا بابرکت مہینہ عطا کیا اوراس میں روزے رکھنے کی توفیق بخشی ،اب اس آیت میں اللہ نے خبر دی کہ وہ اللہ جسے وہ یاد کریں گے اورجس کا شکر ادا کریں گے ، اُن سے قریب ہے ،

اللہ تعالی نے دوسری جگہ فرمایاہے
 وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ  : 
کہ ہم انسان سے اس کی شہِ رگ سے زیادہ قریب ہیں ۔ ( سورة ق )
علمائے تفسیر نے یہ بھی کہا ہے کہ روزوں کے احکام کے درمیان دعا کے ذکر سے مقصود اس طرف اشارہ ہے کہ رمضان میں دعا کی بڑی اہمیت ہے ۔ مسند طیالسی میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضي الله تعالى عنه افطار کے وقت اپنے تمام بال بچوں کے ساتھ دعا کیا کرتے تھے


24- روزہ دار کي افطار کے وقت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا ہے کہ روزہ دار کے افطار کے وقت کی دعا قبول ہوتی ہے ۔
ایک اورحدیث ہے کہ تین آدمی کی دعا رد نہیں کی جاتی : امام عادل کی ،روزہ دار کی ، اورمظلوم کی ۔ (مسند احمد، ترمذی ،نسائی ،ابن ماجہ )
ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے روایت کی ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے پاس آیا اورپوچھا کہ اے اللہ کے رسول صلى الله عليه وآله وسلم !کیا ہمارا رب قریب ہے کہ ہم اس سے سرگوشی کریں ،یا دورہے تاکہ اسے پکاریں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم خاموش رہے ، یہاں تک کہ یہ آیت مباركه نازل ہوئی كه اللہ اپنے بندوں سے قریب ہے

الله تعالى هم سب كو مكمل آداب كے ساتهـ دعا مانگنے كى توفيق عطا فرمائے - آمين

الحمد لله إس نمبر كے پهلے حصے "علم كا بيان " إختتام كو پهنچا - الله تعالى كهنے والے اور پڑهنے والوں كو عمل كي توفيق عطا فرمائے - تحرير كرنے والے كي غلطيوں اور كوتاهيوں كو الله تعالى اپنے فضل وكرم سے معاف فرما ئے اور إس كوشش كو اپني رحمت سے قبول فرماكر عمل كي توفيق عطا فرمائے (آمين) قابل إحترام قارئين سے گذارش هے كه وه إسے زياده سے زياده لوگوں تك پهنچانے كي كوشش كريں - إن شاء الله إس كا آجر الله تعالى سے ضرور ملے گا

الله تعالى كا لاكهـ لاكهـ شكر هے كه اس نے إس كي توفيق عطا فرمائي اور إس تمام تر كاوش كا ثواب اپنے مرحوم والدين - مرحوم بهائي جان اور بهت هي بيارے بيٹے شهيد عبدالرحمن نسيم رحمة الله عليهم تمام رشته داروں - دوست أحباب اور تمام مسلمانوں كو إيصال كرتا هوں- الله تعالى أن كي مغفرت فرمائے- ان پر رحم فرمائے - ان كے لئے آخرت كي تمام منزليں آسان فرمائے اور ان كو جنت الفردوس كے آعلى مقامات عنايت فرمائے -  ( آمين ثم آمين يا رب العلمين )
إن شاء الله آئنده قسط سے إسي نمبر كے دوسرے حصے يعني "ذكر" كا بيان شروع هوگا

Share: