دوسرا نمبر : صلوة(نماز)

دعوت إلى الله اور تبليغى جماعت
(قسط نمبر - 3 )

دوسرا  نمبر : صلوة(نماز) 

إيمان كے بعد سب سے پهلى چيز جو هر مسلمان كے لئے لازمي هے وه نماز هے - نماز كے حواله سے سب سے پهلى همارى ذمه دارى يه هے كه هم نماز كے معنى ومفهوم كو سمجهيں تاكه نماز كي إهميت كا هميں إحساس هو جائے-
لغوی معنی:
"صلوٰۃ" (نماز) کے لغوی معنی "دعا" کے ہیں۔ نماز كي هر ركعت ميں سورة فاتحه كي تلاوت كي جاتي هے جو مكمل دعا هے - صلوٰۃ" کے إيك معنی بہترین ذکر کے بهي ہیں جيسا كه قرآن مجيد ميں نماز كو ذكر فرمايا گيا هے
"صلوٰۃ" کے معنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرشتوں کے درمیان تعریف کے بهي ہیں، جب کہ ملائکہ کی جانب سے "صلوٰۃ" کے معنی دعا کے ہیں"۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے ٓفرمایا: "صلوٰۃ پڑھتے ہیں، یعنی برکت کی دعا دیتے ہیں" یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے صلوٰۃ کے معنی رحمت کے ہیں جبکہ ملائکہ کی جانب سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں۔ "صلوٰۃ" اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے ثناء کے معنی میں ہے جبکہ مخلوق یعنی ملائکہ، انس اور جنات کی جانب سے یہ قیام، رکوع، سجود اور دعاء کے معنی میں ہے۔ پرندوں اور دیگر حیوانوں کی "صلوٰۃ" کے معنی "تسبیح" کے ہیں۔
شرعی معنی:
شریعتِ مطہرہ میں "صلوٰۃ" (نماز) کے معنی بعض مخصوص اور معلوم افعال اور اقوال کے ذریعے سے اللہ کی عبادت کرنا هے جس کی ابتدا تکبیر سے ہوتی ہے جبکہ اختتام سلام پھیرنے پر ہوتا ہے۔ اور اسے "صلوٰۃ" بمعنی دعا کا نام اس لیے دیا گیا کہ اس میں دعا بھی شامل ہے"
درآصل "صلوٰۃ" دعا ہی کا ایک نام تھا پھر یہ نماز ک) دعا سے مناسبت کی وجہ سے شرعی نماز کا بھی نام ہوگیا۔ اور یہ دونوں باتیں آپس میں قریب ہیں۔ پس جب بھی شریعت میں "صلوٰۃ" (نماز) کہا جائے تو اس سے نماز کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھا جاتا۔ یعنی شریعت میں لفظ "صلوٰۃ" اس مخصوص عبادت نماز ہی کے لئے خاص ہوگیا -

"صلوٰۃ" (نماز) کا مفہوم :
نماز الله تعالى كے خزانوں سے براه راست حاصل كرنے كا ذريعه هے - اپني حاجتيں الله تعالى سے مانگنے كے لئے نماز إيك بهترين راسته هے-
نماز ميں دعا کی اقسام:
1- دعائے مسئلہ:
اس کے معنی ہیں ایسی چیز مانگنا جو سائل کے لئے مفید ہو مثلاً دنیوی و اخروی نفع طلب کرنا اور شرور و ضرر کے دور ہونے کی دعا مانگنا، بذریعۂ نماز اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنی حاجت برآری طلب کرنا۔
2- دعائے عبادت:
اس کے معنی اعمال صالحہ یعنی قیام، قعود، رکوع اور سجود کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب طلب کرنے کے ہیں۔ پس جس نے یہ سب عبادات انجام دیں گویا اس نے زبانِ حال سے اپنے رب سے اپنی مغفرت کی دعا کی۔

شریعت میں نماز کا حکم:
قرآن مجید، احادیثِ نبویہ صلى الله عليه وآله وسلم اور اجماعِ امت سے پنجگانه نماز ہر مسلمان، عاقل و بالغ مرد اور عورت پر وقت كي پابندي كے ساتهـ فرض ہے۔ کلامِ مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا (سورۃ النساء)
ترجمہ: بے شک نماز مسلمانوں کے ذمے ایک ایسا فریضہ ہے جو وقت کا پابند ہے"

ایک اور مقام پر فرمانِ الہٰی ہے:
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ (سورۃ البقرۃ)
ترجمہ: "تمام نمازوں کا پورا پورا خیال رکھو، اور (خاص طور پر) بیچ کی نماز کا۔ اور اللہ کے سامنے با ادب فرماں بردار بن کر کھڑے ہوا کرو"۔

ایک اور مقام پر فرمانِ الہٰی ہے:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ (سورۃ البینہ)
ترجمہ: اور انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت اس طرح کریں کہ بندگی کو بالکل یکسو ہوکر صرف اُسی کیلئے خالص رکھیں، اور نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں، اور یہی سیدھی (سچی امت ) کا دین ہے۔"

اور ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہے:
"اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کا اقرار کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآله وسلم) اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا"۔

ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا: "پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے اوپر لکھ دی ہیں (فرض کردی ہیں)" ۔۔
"امت مسلمہ کا دن اور رات میں پانچ نمازوں کے وجوب پر اجماع ہے"
نماز كا مقصد:
نماز كے مقصد سے مراد يه هے كه نماز سے كيا چاها جارها هے يعني إتني عظيم عبادت الله تعالى كي طرف سے عنايت هونے كا مقصد كيا هے؟ تو نماز كا مقصد يه هے كه همارى نماز كے باهر كي زندگي صفت صلاة پر آجائے يعني جس طرح هم نماز ميں الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقوں بر عمل كرتے هيں إسي طرح همارى (24) گهنٹه كي زندگي ميں بهي همارا يهي معمول بن جائے- يه إيك مشق هے تاكه هم اپني تمام زندگي ميں الله تعالى كے آحكام كو رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كے طريقوں پر پورا كرنے والے بن جائيں -

نماز کی اَہمیت :
جيسا كه عرض كيا جاچكا هے كه نماز دینِ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کے بعد اہم ترین رکن ہے۔ اس کی فرضیت قرآن و سنت اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ إس كي إهميت كا أنداذه إس بات سے لگايا جا سكتا هے كه الله تعالى نے تمام آحكام بذريعه وحي (بواسطه حضرت جرائيل آمين ) نازل فرمائے ليكن نماز شبِ معراج کے موقع پر فرض کی گئی۔ روايات ميں هے كه جب رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم معراج شريف پر تشريف لے گئے تو الله تعالى نے فرمايا ميرے حبيب(صلى الله عليه وآله وسلم) جب كوئى دوست اپنے دوست كو ملنے جاتا هے تو كوئى تحفه ساتهـ لے كر جاتا هے تو (صلی ﷲ علیہ وآله وسلم) ميرے لئے كيا تحفه لے كر آيا هے تو رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نےعرض كيا يا الله ميں تو صرف عاجزى لے كر پيش هوا هوں تو پهر الله تعالى كي جانب سے رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كو إيك عظيم تحفه يعني دن رات ميں (50) نمازيں عطا فرمائى گئيں
رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآله وسلم وہاں سے واپس ہوئے تو آپ صلی ﷲ علیہ وآله وسلم کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا ’’آپ صلی ﷲ علیہ وآله وسلم کو کیا حکم ملا؟‘‘ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مجھ پر ایک دن میں پچاس نمازیں فرض کی گئی ہیں ’’ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض كيا
’’میں لوگوں کو آپ صلی ﷲ علیہ وآله وسلم سے زیادہ جانتا ہوں ﷲ کی قسم میں نے بنی اسرائیل کا خوب تجربہ کیا ہے اور بے شک آپ (صلی ﷲ علیہ وآله وسلم) کی امت ہر روز پچاس نمازیں پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتی آپ (صلی ﷲ علیہ وآله وسلم) واپس جائیں اور ﷲ تعالیٰ سے تخفیف کی درخواست کریں ‘‘ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے إس طرح رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم  تخفيف كے لئے دربار خداوندي ميں حاضر هوتے رهے اور هر مرتبه دس نمازيں كم هوتي رهيں اور اس طرح ﷲ تعالیٰ نے آخرى مرتبه پانچ کم کر کے پانچ نمازیں مقرر کر دیں واپسی میں پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی انھوں نے پوچھا کیا حکم ملا؟ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے ہر روز پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا آپ (صلی ﷲ علیہ وسلم) کی امت ہر روز پانچ نمازیں پڑھنے کی بھی طاقت نہیں رکھتی میں نے آپ (صلی ﷲ علیہ وسلم) سے پہلے لوگوں کو خوب تجربہ کیا ہے اور بنی اسرائیل کی خوب جانچ کی ہے آپ (صلی ﷲ علیہ وآله وسلم) اپنے رب کے پاس جائیے اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کیجئے تو رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کئی مرتبہ درخواست کر چکا ہوں اب تو مجھے شرم آتی ہے ۔سو جب رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم واپس ہوئے تو ﷲ تبارک و تعالیٰ عزوجل نے آپ صلی ﷲ علیہ وآله وسلم کو پکارا اور کہا
’’میں نے اپنا فریضہ جاری کر دیا اور اپنے بندوں پر تخفیف بھی کر دی میں ایک نیکی کا بدلہ دس دونگا اسی طرح پانچ نمازیں پچاس کے برابر ہوں گی میری بات تبديل نہیں هوا کرتی( بخاری )
اسلامی نظامِ عبادات میں نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بهي بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآنِ حکیم میں سينكڑوں مقامات پر نماز کا ذکر آیا ہے۔ اور متعدد مقامات پر صیغہ امر کے ساتھ (صریحاً) نماز کا حکم وارد ہوا ہے۔ چند آیات ملاحظہ ہوں :

1. وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ وَآتُواْ الزَّكَاةَ وَارْكَعُواْ مَعَ الرَّاكِعِينَO (سورة البقره)
اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ۔

وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِيO (سورہ طٰہٰ)
’’اور میری یاد کی خاطر نماز قائم کیا کرو۔‘‘

3۔ اﷲ عزوجل نے اپنے نہایت برگزیدہ پیغمبر سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمایا :
وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّاO (سورة مريم)
’’اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے حضور مقامِ مرضیّہ پر (فائز) تھے (یعنی ان کا رب ان سے راضی تھا)‘‘

اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے شہادت توحید و رسالت کے بعد جس فریضہ کی بجا آوری کا حکم قرآن و سنت میں بهت زياده تاکید کے ساتھ آیا ہے وہ نماز ہی ہے۔ چند درج ذیل احادیث مباركه کے مطالعہ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام میں نماز کو کیا إهميت حاصل ہے؟
1۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالى عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
بُنِيَ الإِسْلَامُ عَلَی خَمْسٍ. عَلَی أَنْ يُعْبَدَ اﷲُ وَ يُکْفَرَ بِمَا دُوْنَهُ. وَإِقَامِ الصَّلَاةِ. وَإِيْتَاءِ الزَّکَاةِ. وَحَجِّ الْبَيْتِ. وَصَوْمِ رَمَضَانَ.
’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور اس کے سوا سب کی عبادت کا انکار کرنا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اﷲ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘

2۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اﷲُ عزوجل، مَنْ أَحْسَنَ وُضُوئَهُنَّ وَصَلَّاهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُکُوْعَهُنَّ وَخُشُوْعَهُنَّ، کَانَ لَهُ عَلَی اﷲِ عَهْد أَنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَی اﷲِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ، وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ.
’’ﷲ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جس نے ان نمازوں کے لئے بہترین وضو کیا اور ان کے وقت پر ان کو ادا کیا، کاملاً ان کے رکوع کئے اور ان کے اندر خشوع سے کام لیا تو اﷲ عزوجل نے اس کی بخشش کا عہد فرمایا ہے، اور جس نے یہ سب کچھ نہ کیا اس کے لئے اﷲ تعالیٰ کا کوئی ذمہ نہیں، چاہے تو اسے بخش دے، چاہے تو اسے عذاب دے۔‘‘

3۔ نماز کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے وصال کے وقت امت کو جن چیزوں کی وصیت فرمائی ان میں سے سب سے زیادہ تاکید نماز کی فرمائی، بلکہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی حد یثِ صحیح کے مطابق آخری الفاظ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک پر بار بار آتے تھے وہ یہی تھے :
الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ، اتَّقُوا اﷲَ فِيْمَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ.
’’نماز کو لازم پکڑو اور اپنے غلام، لونڈی کے بارے میں اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا۔‘‘
سبحان ﷲ - ﷲ تعالیٰ کے انعام و اکرام و احسان پر ذرا انسان غور کرے کہ ﷲ نے ان پانچ نمازوں کے ثواب کو پچاس نمازوں کے برابر فرما دیا يعني بنده نمازيں تو پانچ ادا كرے گا اور اس كا رب اسے ثواب پچاس كا عطا فرمائے گا مسلمان ایسے انعامات کو ضائع کرے تو اس سے بڑھ کر بدنصیبی اور کیا ہو گی- ﷲ تعالی هم سب مسلمانوں کو پانچ وقت كي نماز ادا کرنے كا إهتمام كرنے کی توفیق عطا فرمائے -آمین

نماز دین کا ستون ہے:
فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہے: "اصل دین اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے اور اس کی عظمت و بلندی (کا نشان) اللہ کے راستہ میں جہاد ہے"۔ (صحیح مسلم)

قیامت والے دن سب سے پہلے نماز کا سوال :
روزِ محشر تمام اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کی بابت استفسار کیا جائے گا۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہے سب سے پہلے بندے سے جس چیز کا حساب لیا جائے گا، وہ نماز ہے۔ پس اگر یہ (حساب) ٹھیک ہوگیا تو اس کا سارا عمل ٹھیک ہوجائے گا اور اگر یہ خراب ہوگیا تو اس کا سارا عمل خراب ہوجائے گا۔ (اخرجہ الطبرانی)
اور ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہے: "قیامت کے دن لوگوں کے اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا۔ (پھر آپ نے) فرمایا "اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرمائیں گے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں (اس کے باوجود پوچھیں گے تاکہ اتمامِ حجت ہوجائے) کہ میرے بندے کی نماز دیکھو اس نے پوری کی ہے یا کم رکھی ہے؟ اگر نماز پوری ہوگی تو اس کے لئے پوری نماز لکھ دی جائے گی۔ اور اگر کم ہوگی تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے "دیکھو آیا میرے بندے کے پاس نفل نمازوں میں سے کچھ ہے؟" پھر اگر نفل میں سے کچھ ہوا تو فرمائیں گے کہ "میرے بندے کے فرائض کو اس کے نوافل میں سے پورا کردو۔" پھر باقی اعمال بھی اسی طرح لیے جائیں گے۔" (سنن ابی داود)

نماز قائم کرنے والوں اور اس کے قیام کا حکم دینے والوں کی تعریف:
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَبِيًّا 0 وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا 0
ترجمہ: "اور اس کتاب میں اسماعیل کا بھی تذکرہ کرو۔ بیشک وہ وعدے کے سچے تھے، اور رسول اور نبی تھے۔ اور وہ اپنے گھر والوں کو بھی نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا کرتے تھے اور اپنے پروردگار کے نزدیک پسندیدہ تھے۔" (سورۃ المریم)

گھر والوں کو نماز کا حکم دينا:
آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم اور آپ کے اتباع كرنے والوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم ديں
-فرمانِ الٰہی ہے:
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى0
ترجمہ: "اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو، اور خود بھی اُس پر ثابت قدم رہو۔ ہم تم سے رزق نہیں چاہتے، رزق تو ہم دیں گے۔ اور بہتر انجام تقویٰ ہی کا ہے۔ (سورۃ طہٰ)

أولاد كو نماز كا حكم دينا:
اور آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "اپنی اولاد کو جب وہ سات سال کے ہوجائیں، نماز کا حکم کرو اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو نماز کے لئے سرزنش کرو اور ان کے سونے کے بستر الگ کردو" (رواہ الترمذی )

نماز کی دیگر عبادات کے مقابلے میں خاصیتیں:

نماز کو ایمان کا نام دیا جانا:
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ0
ترجمہ: "اور اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو ضائع کردے۔ درحقیقت اللہ لوگوں پر بہت شفقت کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔ (البقرۃ)
اس آیت میں ایمان سے مراد وہ نمازیں ہیں جو بیت المقدس کی جانب رُخ کرکے ادا کی گئیں۔ اور یہاں نماز کو "ایمان" کا نام اس لیے دیا گیا کیونکہ یہ ایک مسلمان کے قول اور عمل دونوں کی تصدیق کرتی ہے۔

دیگر عبادات کے مقابلے میں خصوصیت سے نماز کا ذکر:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اُتْلُ مَآ اُوْحِىَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَاَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ اِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ ۗ وَلَـذِكْرُ اللّـٰهِ اَكْبَـرُ ۗ وَاللّـٰهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ 0
جو کتاب تیری طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھا کرو اور نماز کے پابند رہو، بے شک نماز بے حیائی اور بری بات سے روکتی ہے، اور اللہ کی یاد بہت بڑی چیز ہے، اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔(العنکبوت)
کتاب کی تلاوت بمعنی "اس کی اتباع اور اس میں جو اوامر و نواہی ہیں ان پر عمل درآمد کرنا" کے ہے۔ اس میں نماز بھی شامل ہوجاتی ہے مگر اس کے بعد نماز کا دیگر شرعی امور سے علیحدہ طور پر، بطورِ خاص بھی ذکر کیا گیا۔

ایک اور مقام پر فرمایا:
وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ
ترجمہ: "اور ہم نے وحی کے ذریعے انہیں نیکیاں کرنے، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی تاکید کی تھی (الانبیاء)
ایک مرتبہ تو "فعل الخیرات" میں نماز بھی داخل ہوگئی کیونکہ یہ بھی ایک عظیم فعلِ خیر ہے مگر اس کی اہمیت کے پیشِ نظر دوبارہ الگ سے بھی اس کا ذکر کیا گیا۔

قرآن مجید میں بیشتر عبادات کے ہمراہ اولیت کے ساتھ نماز کا تذکرہ:
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ0
ترجمہ: "کہہ دو کہ: "بے شک میری نماز، میری عبادت اور میرا جینا مرنا سب کچھ اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے"۔ (الانعام)

ایک اور مقام پر فرمایا:
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (الکوثر)
ترجمہ: "لہٰذا تم اپنے رب (کی خوشنودی) کیلئے نماز پڑھو، اور قربانی کرو"
ان آیات میں زکوٰۃ اور قربانی کے ساتھ نماز کا ذکر ہے اور ان عبادات کے ذکر پر مقدم بھی ہے۔ ان کے علاوہ بھی دیگر کثیر آیات میں نماز کے ہمراہ دیگر عبادات کا ذکر موجود ہے۔

نماز ہر حال میں فرض ہے:
نماز کی دیگر عبادات کے مقابلے میں ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ ہر حال میں فرض ہے (حالتِ حیض و نفاس کے علاوه) چاہے انسان مریض ہو، سفر میں ہو، حالتِ خوف میں ہو یا اس کے علاوہ کسی حال میں۔ یہ ضرور ہے کہ خصوصی حالات میں اس کی ادائیگی میں سہولت کی خاطر کبھی رکعات میں تخفیف کی گئی ہے اور کبھی بیٹھ کر، لیٹ کر اشارے سے پڑھنے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔

جمیع اعضائے انسانی کی عبادت:
نماز دیگر عبادات سے یوں بھی ممتاز ہے کہ اس میں انسان کے تمام اعضاء استعمال ہوتے ہیں حتیٰ کہ نماز کی ادائیگی کے وقت کسی سوچ کا دل میں لانا بھی ممنوع ہے۔ زبان ذکر میں مشغول ہوتی ہے اور ہاتھ پاؤں قیام، رکوع، سجود و تشہد میں۔

تارکِ نماز قرآن و حدیث کی روشنی میں:
1:تارکِ نماز كا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو سجدہ نه کرسکنا:
يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ 0 خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ وَقَدْ كَانُوا يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سَالِمُونَ 0
ترجمہ: "جس دن ساق کھول دی جائے گی، اور ان کو سجدے کیلئے بلایا جائے گا تو یہ سجدہ نہیں کرسکیں گے۔ ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی، ان پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی۔ اس وقت بھی انہیں سجدے کیلئے بلایا جاتا تھا جب یہ لوگ صحیح سالم تھے، (اس وقت قدرت کے باوجود یہ انکار کرتے تھے)" (سورۃ القلم)
ان آیات سے علمائے کرام نے دلیل لی ہے کہ تارکِ نماز بھی اس وقت میں کفار اور منافقین کی طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو سجدہ نہیں کرسکے گا جیسا کہ مسلمان اس موقع پر کریں گے۔ اگرچہ وہ مسلمانوں میں سے ہو۔ کیونکہ انہیں بھی سجدے (نماز) کا حکم دیا گیا تھا جیسا کہ دیگر مسلمانوں کو دیا گیا تھا۔

2: نماز نہ پڑھنا دوزخ جانے کا ایک بہت بڑا سبب:
كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ 0 إِلَّا أَصْحَابَ الْيَمِينِ 0 فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ 0 عَنِ الْمُجْرِمِينَ 0 مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ 0 قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ 0
ترجمہ: "ہر شخص اپنے کرتوت کی وجہ سے گروی رکھا ہوا ہے، سوائے دائیں ہاتھ والوں کے کہ وہ جنتوں میں ہوں گے۔ وہ پوچھ رہے ہوں گے۔ مجرموں کے بارے میں، کہ "تمہیں کس چیز نے دوزخ میں داخل کردیا؟" وہ کہیں گے کہ : "ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے،" (المدثر)

3: آدمی اور کفر و شرک کے درمیان نماز كا فرق ہے
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی اور کفر و شرک کے درمیان نماز ہے۔ پس جس نے اسے چھوڑا اس نے کفر کیا" (مسلم)

4:تركِ نماز سے كفر واقع هونا:
حضرت عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہمارے اور ان کے درمیان جو عہد ہے وہ نماز ہے، چنانچہ جس نے بھی نماز ترک کی اس نے کفر کیا" (ترمذی، نسائی، ابنِ ماجہ وغيرهما)

نماز کی اَہمیت :
نماز ہمارے دین کا ایک اہم ستون ہے۔ اور اس کی اہمیت تو نبئ کریم صلى الله عليه وآله وسلم کے اس فرمان سے ظاہر ہو جاتی ہے کہ " اسلام اور کفر میں فرق "نماز" كا ہے۔ سطور بالا ميں إس حوالے سے قرآن وحديث كے واضح ارشادات بيان كيے گے یہاں چند اور احادیث مباركه پیش كي جاتي هيں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا
" تحقیق قیامت کے دن لوگوں کے اعمال میں سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہوگا۔ "
(ابو داؤد ، حاکم )
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعلی عنہ فرماتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے سوال کیا کہ اللہ تعالی کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ(صلى الله عليه وآله وسلم ) نے فرمایا" وقت پر نماز پڑھنا-" میں نے کہا کہ پھر کونسا؟ آپ (صلى الله عليه وآله وسلم ) نے فرمایا:" ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا-" میں نے کہا پھر کون سا؟ آپ (صلى الله عليه وآله وسلم )نے فرمایا:" اللہ تعالى کے راستے میں جہاد کرنا ( بخاری و مسلم )
رسول اللہ صلى الله عليه وآله سلم نے فرمایا : نماز کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرو۔ نماز کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرو- نماز کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرو (ابن ماجہ و ابن حبان )
رسول كريم  صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا " آدمی اور شرک و کفر کے درمیان نماز ہی حائل ہے (مسلم )
نماز با جماعت کی اہمیت:
نماز كي إهميت كے ضمن ميں يه بهي جاننا ضروري هے كه مرد كے لئے فرض نماز مسجد ميں جاكر باجماعت ادا كرنے كا حكم هے اور إس كي بهي بهت هي إهميت قرآن وحديث ميں وارد هوئى هے :
الله تعالى نے قرآن مجيد ميں ارشاد فرمايا :
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ 0
 نماز قائم كرو - ذكوة ادا كرو اور ركوع كرنے والوں كے ساتهـ ركوع كرو (البقره)

إس آيت مباركه ميں الله تعالى نے نماز جماعت كے ساتهـ ادا كرنے كا حكم فرمايا هے
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ : جو شخص اللہ تعالی سے قیامت کے دن مسلمان ہو کر ملاقات کرنا چاہتا ہے تو اسے نمازوں کی حفاظت کرنی چاہیۓ اور " بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے ہمیں ہدایت کے طریقے سکھائے۔ ان ہدایت کے طریقوں میں یہ بات بھی شامل ہے که :" اس مسجد میں نماز ادا کی جائے جس میں اذان دی جاتی ہے۔۔ اور اگر تم نماز اپنے اپنے گھروں میں پڑھوگے جیسے (جماعت سے) پیچھے رہنے والا شخص اپنے گھر میں پڑھ لیتا ہے تو تم اپنے نبي کریم صلى الله عليه وآله وسلم کی سنت كو چھوڑ دوگے۔ اور اگر نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کی سنت چھوڑدوگے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔
اور جب کوئى شخص اچھا وضو کرکے مسجد جاۓ تو اللہ تعالی ہر قدم کے بدلے ایک نیکی لکھتا ہے، ایک درجہ بلند کرتا ہے اور ایک برائى مٹا دیتا ہے۔ (مسلم)

رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے زمانه ميں جماعت سے سوائے کھلے منافق کے کوئى پیچھے نہیں رہتا تها يهاں تك كه بیمار بھی دو آدمیوں کے سہارے نماز کے لیۓ آجاتا تھا۔

حضرت عبدالله ابن عمر رضی اللہ تعالی عنه سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" اکیلے شخص کی نمازسے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا 27 درجہ زیادہ (ثواب رکھتا) ہے۔(بخاری ، مسلم )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا:" اس ذات کی قسم جس کے قبضئه قدرت میں میری جان ہے البتہ میں نے ارادہ کیا کہ لکڑی کے جمع کرنے کا حکم دوں۔ پھر اذان کہلواؤں اور کسی شخص کو امامت کے لیۓ کہوں پھر ان لوگوں کے گھر جلا دوں جو نماز (جماعت) میں حاضر نہیں ہوتے- (بخاری ، مسلم )۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک نابینا شخص (حضرت عبداللہ بن مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ) آئے انہوں نے اپنے اندھے ہونے کا عذر پیش کر کے اپنے گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت چاهی کیونکہ انہیں کوئى مسجد میں لے کر آنے والا نہیں تھا۔ تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے پوچھا: اذان سنتے ہو؟ حضرت عبداللہ بن مكتوم رضي الله تعالى عنه نے کہا-جی ہاں! آپ(صلى الله عليه وآله وسلم) نے فرمایا:" تو پھر تم نماز كي جماعت میں حاضر ہو (مسلم )۔
یہ تمام احادیث نماز کے اہمیت اور مردوں کے لیۓ باجماعت نماز ادا کرنے پر دلالت كرتي ہیں۔ اور پھر نبئ کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے اس ارشاد کی جانب نظر کیجیے کہ آپ اپنے گھروں میں نماز پڑھنے والے مردوں پر اتنے غضبناک ہوتے ہیں کے ان کے گھروں کو جلانے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں۔ اور ایک نابینا صحابی کو بھی مسجد میں آکر باجماعت پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔
کـچھ لوگ نماز تو پڑهتے هيں ليكن مسجد جانا كوئى ضرورى نهيں سمجهتے اور سوال كرتے هيں کہ کیا مسجد جانا فرض ہے؟ كيا نماز باجماعت ادا كرنا فرض هے؟ تو عرض يه هےکہ نبئ کریم صلى الله عليه وآله وسلم کی اتنی واضح احادیث کی موجودگی میں کیا اس بحث کی کوئى ضرورت باقي ره جاتي ہے کہ کیا مسجد جانا اور باجماعت نماز ادا كرنا فرض ہے یا سنت یا نفل۔ جب ہمیں نبئ کریم صلى الله عليه وآله وسلم کا واضح حکم مل گیا هے تو همارے لئے عافيت اور كاميابي كا راسته يهي ره جاتا هے كه هميں بهانه بازي سے كام لينے كي بجائے اپنے پيارے رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے فرمان پر سر تسلیم خم کرکے اس پر عمل پیرا ہو جانا چاہیۓ۔ اللہ تعالی ہم سب کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

نماز کی فضيلت َ :
نماز کی فضیلت كے بارے ميں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بے شمار إرشادات آحاديث كي كتابوں ميں ذكر كيے گئے هيں ظاهر هے إن فضائل كو إس مختصر سے صفحه پر بيان كرنا ناممكن هے ليكن بطور تبرك چند فضائل كا ذكر كيا جائے گا تاكه معلوم هو كه نماز كتني قيمتي چيز هے اور هماري أخروي زندگي كي كاميابي كا دارومدار بهي همارى نماز پر هے
نماز بے حیائی اور برے کاموں سے بچاتی ہے چنانچه ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ 0 (سورۃ العنکبوت)
ترجمہ: "(اے نبي صلى الله عليه وآله وسلم) جو کتاب تمہارے پاس وحی کے ذریعے بھیجی گئی ہے، اس کی تلاوت کرو، اور نماز قائم کرو۔ بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے، اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُس سب کو جانتا ہے"
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے إرشادات:
نماز دین کا ستون هے - نماز مومن کی معراج هے- نمازایمان کی نشانی هے-
نماز شکر گزاری کا بھترین ذریعہ هے- نماز میزان عمل هے- ہر عمل نماز کے تابع هے- يوم قیامت پہلا سوال نماز کے بارے میں هوگا - نمازی کے ساتھ ہر چیز خدا کی عبادت گزارهے- نمازی کا گھر آسمان والوں کے لئے نور هے- نماز گناہوں سے دوری کا ذریعہ هے- نماز گناہوں کی نابودی کا سبب هے - نماز شیطان کو دفع کرنے کا وسیلہ هے - نماز بلاؤں سے دوری كا سبب هے- نماز عذاب قبر سے بچنے كا ذريعه هے- نماز عبادت الہی کا مقررہ طریقہ ہے۔ نماز اسلام کی تعلیمات کے اہم ترین اجزا میں سے ہے۔ نمازی شهنشاہ کے محل کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے، اُس کے لیے دروازہ کھول هي دیا جائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’اگر تمہارے گھر کے سامنے کوئی نہر بہتی ہو تو تم میں سے کوئی ہر روز پانچ بار اس میں غسل کرے تو کیا اس کے بدن پر کوئی میل کچیل باقی بچے گا‘‘؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: نہیں! اس کے بدن پر کوئی میل نہیں ہو گی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آله وسلم نے فرمایا: ’’یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے گناہوں کو مٹا دیتا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری:)۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جو نمازوں کی حفاظت کرے تو پانچوں نمازیں اور جمعہ کے بعد دوسرا جمعہ پڑھنا گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، بشرطیکہ کبیرہ گناہ نہ کئے جائیں‘‘ (صحیح مسلم:)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص دو ٹھنڈی نمازیں پڑھے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائیں گے (یعنی فجر اور عصر)۔ (صحیح بخاری:)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جب تک تم اپنے مصلے پر ہواس وقت تک فرشتے رحمت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں جب تک وہ نمازی بے وضو نہ ہو جائے‘‘۔
(صحیح مسلم:)۔
پیارے نبي صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’فجر کی دو رکعات (سنتیں) دنیا و ما فیہا سے بہتر ہیں‘‘۔ (صحیح مسلم:)۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جب کوئی شخص مسجد میں نماز پڑھتا ہے تو اس کو گھر کیلئے نماز کا حصہ رکھنا چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے گھر کی نماز کے حصے میں بڑی خیر رکھی ہے (صحیح مسلم:)
یعنی گھر میں نوافل پڑھنے سے گھر والے بھی نمازی بن جائیں گے اس سے بڑھ کر اور کیا خیروبرکت ہو گی۔
فرمانِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآله و سلم ہے کہ جو شخص ہر روز بارہ رکعات (یعنی مؤكده سنتیں) پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنائے گا‘‘۔ (صحیح مسلم:)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ کے لئے ایک سجدہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے، ایک گناہ مٹا دیتا ہے اور ایک درجہ بلند فرماتا ہے۔ سو تم کثرت سے سجدے کرو‘‘۔ (ترغیب:)۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالى عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے پوچھا: کون سا عمل افضل (اجر و ثواب میں زیادہ) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: "نماز پڑھنا اپنے وقت پر" میں نے کہا پھر کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: "ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا" میں نے پوچھا کہ پھر کون سا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: "اللہ کی راہ میں جہاد کرنا"۔ ( مسلم)
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہے:
"پانچ نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک، اگر بڑے گناہوں سے اجتناب کیا جائے تو (یہ تینوں) درمیانی عرصہ کے گناہوں کو ختم کردیتے ہیں"۔ (صحیح مسلم)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "تم سجدے بہت کیا کرو اس لیے کہ ہر سجدے پر اللہ تعالیٰ تیرا ایک درجہ بلند کرے گا اور ایک گناہ معاف کرے گا"۔ (صحیح مسلم)
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: میں رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے پاس رہا کرتا اور آپ کے پاس وضو اور حاجت کا پانی لایا کرتا۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: "مانگ کیا مانگتا ہے؟" میں نے عرض کیا کہ جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم کی رفاقت چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا "کچھ اور" میں نے عرض کیا بس یہی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا "اچھا تم کثرتِ سجود سے میری مدد کرو"۔ (صحیح مسلم)
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم فرماتے تھے "جو شخص اچھی طرح وضو کرے پھر نماز پڑھے تو اس کے وہ گناہ بخش دیئے جائیں گے جو اس نماز سے لے کر دوسری نماز تک ہوں گے"۔ (صحیح مسلم)
عمرو بن سعید بن عاص رضي الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا، انہوں نے وضو کا پانی منگوایا۔ پھر کہا "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے سنا آپ نے فرمایا "جو کوئی مسلمان فرض نماز کا وقت پائے پھر اچھی طرح وضو کرے اور دل لگا کر نماز پڑھے، اور اچھی طرح رکوع اور سجدہ کرے تو یہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گی جب تک کبیرہ گناہ نہ کرے اور ہمیشہ ایسا ہی ہوا کرے گا۔" (صحیح مسلم)
ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہے: "پانچ نمازوں کی مثال اس میٹھی اور گہری نہر کی سی ہے جو تم میں سے کسی ایک کے دروازے (کے پاس سے گزر رہی ہو) وہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ نہاتا ہو۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ اس کے جسم پر کوئی میل باقی رہے گی؟" صحابۂ کرام رضی عنہم اجمعین نے کہا "نہیں" آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: "پانچ نمازیں بھی گناہوں کو ختم کردیتی ہیں جیسا کہ پانی میل کو ختم کردیتا ہے" (صحیح مسلم)
رسول كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہی کا فرمانِ مبارک ہے: "جس مسلمان کے پاس کسی فرض نماز کا وقت آپہنچتا ہے، وہ اس کیلئے اچھے وضو اور خشوع و ركوع کا اہتمام کرتا ہے تو وہ نماز اس کے پہلے گناہوں کیلئے کفارہ بن جائے گی، جب تک کہ بڑا گناہ نہ کیا جائے اور یہ قانون ساری زندگی جاری رہتا ہے" (صحیح مسلم)
رسول كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا ارشادِ مبارک ہے: "پانچ نمازیں اللہ نے بندوں پر لکھ دی ہیں، جو ان کی پابندی کرتا ہے اور بے قدری کرکے انہیں ضائع نہیں کرتا، اللہ کا اس کیلئے وعدہ ہے کہ وہ اسے بہشت میں داخل کرے گا اور جو پابندی نہیں کرتا، اس کیلئے اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی وعدہ نہیں ہے، چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو بخش دے" (رواہ احمد وغیرہُ )
إيك حديث كا مفهوم هے كه جو شخص پانچ وقت كي نماز كا إهتمام كرے گا الله تعالى أسے مندرجه زيل پانچ طرح سے أنعام وأكرام سے نوازيں گے :
(1) أس كے رزق كي تنگي دور كردي جائے گي
(2) أسے عذاب قبر سے محفوظ كرديا جائے گا
(3) أسے حشر كے ميداں ميں نامه أعمال داهنے هاتهـ ميں ديا جائے گا
(4) أسے پل صراط پر سے بجلي كي كڑك كي طرح گزار ديا جائے گا
(5) أسے بغير حساب كتاب جنت ميں داخل كرديا جائے گا
فائده: پانچ وقت كي نماز كا إهتمام كرنے كا مطلب يه هے كه وضو بهي آچهي طرح سے كرے اور وقت كي پابندي بهي كرے اور نماز بهي دهيان اور خشوع وخضوع سے ادا كرے- رزق كي تنگي دور هونے كا مطلب رزق ميں بركت اور دل كو إطمينان هونا هے- حشر كے ميداں ميں نامه أعمال داهنے هاتهـ ميں ديا جانا كاميابي كي نشاني هوگي يعني يه شخص كامياب هوجائے گا- پل صراط دوزخ كے اوپر إيك پل هوگا جس كي اونچائى - درمياني راسته اور أتروائى بهت زياده مسافت هوگي بجلي كي كڑك كا مطلب كه جس طرح آسماني بجلي چند سيكنڈ ميں كڑكتي هے إسي طرح يه شخص إس پل سے بهت تيزى سے پار هوجائے گا- آخري أنعام جنت ميں داخله هوگا جو كسي حساب وكتاب كي مشفت كے بغير عمل ميں آجائے گا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا بتلاؤ اگر کسی کے دروازے پر ایک نہر ہو اور اس میں وہ ہرروز پانچ بارغسل کیا کرے تو کیا اس کا کچھ میل کچیل باقی رہ سکتا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ کچھ بھی میل نہ رہیگا، تو آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: پانچوں وقت نمازوں کی یہی حالت ہے اللہ تعالیٰ ان کے سب گناہوں کو مٹادیتا ہے۔ ’ (مسلم، )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا: پانچوں نمازیں؛ جمعہ کی نماز پچھلے جمعہ تک اور رمضان کے روزے پچھلے رمضان تک درمیانی اوقات کے تمام گناہوں کے لیے کفارہ ہیں؛ جبکہ ان اعمال کو کرنے والا کبیرہ گناہوں سے بچے۔ (مسلم)
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالى عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم سردی کے موسم میں باہرتشریف لائے اور پتے درختوں پر سے گررہے تھے، آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے ایک درخت کی ٹہنی ہاتھ میں لی اس کے پتے اور بھی گرنے لگے آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: ‘‘اے ابوذر! مسلمان بندہ جب اخلاص سے اللہ کے لیے نماز پڑھتا ہے تو اس سے اس کے گناہ ایسے ہی گرتے ہیں جیسے یہ پتے درخت سے گررہے ہیں’’۔ (مسنداحمد)
حضرت ابومسلم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوامامہ صلى الله عليه وآله وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا وہ مسجد میں تشریف فرما تھے میں نے عرض کیا کہ مجھ سے ایک صاحب نے آپ کی طرف سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ آپ نے نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم سے یہ ارشاد سنا ہے کہ جو شخص اچھی طرح وضوکرے اور پھر فرض نماز پڑھے تو حق تعالیٰ شانہ اس دن وہ گناہ جو چلنے سے ہوئے ہوں اور وہ گناہ جن کو اس کے ہاتھوں نے کیا ہو اور وہ گناہ جو اس کے کانوں سے صادر ہوئے ہوں اور وہ گناہ جن کو اس نے آنکھوں سے کیا ہو اور وہ گناہ جو اس کے دل میں پیدا ہوئے ہوں سب کو معاف فرمادیتے ہیں، حضرت ابوامامہ رضي الله تعالى عنه نے فرمایا میں نے یہ مضمون نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم سے کئی دفعہ سنا ہے۔ ( مسنداحمد)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص ان پانچ فرض نمازوں کو پابندی سے پڑھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل رہنے والوں میں شمار نہیں ہوتا۔ (’ صحیح ابن خزیم)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے نماز کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جو شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے تو نماز اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگی اس (کے پورے ایماندار ہونے) کی دلیل ہوگی اور قیامت کے دن عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہوگی، جو شخص نماز کا اہتمام نہیں کرتا اس کے لیے قیامت کے دن نہ نور ہوگا نہ (اس کے پورے ایمان دار ہونے کی) کوئی دلیل ہوگی نہ عذاب سے بچنے کا کوئی ذریعہ ہوگا اور وہ قیامت کے دن فرعون، ہامان اور ابی ابن خلف کے ساتھ ہوگا۔ (صحیح ابن حبان) ًِ
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: جومسلمان فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لیے اچھی طرح وضو کرے؛ پھرپورے خشوع اور اچھی طرح رکوع وسجود کے ساتھ نماز ادا کرے تو وہ نماز اس کے واسطے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جائیگی جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہوا ہو اور نماز کی یہ برکت اس کو ہمیشہ ہمیش حاصل ہوتی رہے گی۔ (مسلم)
"اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کی یہ تاثیر اور برکت ہے کہ وہ سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے اور پچھلے گناہوں کی گندگی کو دھوڈالتی ہے مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ آدمی کبیرہ گناہوں سے آلودہ نہ ہو؛ کیونکہ ان گناہوں کی نحوست اتنی غلیظ اور اس کے ناپاک اثرات اتنے گہرے ہوتے ہیں جن کا ازالہ صرف توبہ ہی سے ہوسکتا ہے، ہاں اللہ تعالیٰ چاہے تو یونہی معاف فرمادے اس کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں"
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالى عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: جو مسلمان بندہ اچھی طرح وضو کرے پھر اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑے ہوکر پوری قلبی توجہ اور یکسوئی کے ساتھ دورکعت نماز پڑھے تو جنت اس کے لیے ضرور واجب ہوجائیگی۔ (مسلم، مسنداحمد)
مذکورہ بالا احادیث مباركه کے علاوہ بےشمار احادیث مباركه ہیں جو نماز کی فضیلت کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں؛ جن كا إحاطه كرنا بهت مشكل هے چونکہ عمل کے لیے اتنی آحاديث مباركه بهي کافی ہیں، اس لیے اسی پر اکتفا کیا گیا ہے۔
افسوس : کیسی بدبختی ہے كه نماز کے بارے میں رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم کے ان تربیتی اور ترغیبی ارشادات کے باوجود امت کی إيك بڑی تعداد آج نماز سے غافل اور بے پرواہ ہے اور اپنے کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے الطاف وعنایات سے محروم اور اپنی دنیا وآخرت کو برباد کررہی ہے چنانچه قرآن كريم ميں ارشاد هے 
‘‘وَمَا ظَلَمَھُمُ اللہ وَلٰکِنْ اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ’’۔ ( آل عمران) ‘
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود ہی اپنے آپ کو ضرر پہنچا رہے تھے

"مغرب کی نماز بیج کے بمنزلہ ہے۔ عشا کی نماز جڑ کی مانند ہے جو تاریکی اور اندھیرے میں نشوونما پاتی ہے۔ صبح کی نماز زندگی کی کونپل کی طرح ہے جو زمین سے سر نکالتا ہے۔ ظہر کی نماز پتّوں اور شاخوں جیسی ہے۔ عصر کی نماز شجرِ عبادت کے ثمر کی مانند ہے۔ اور فرمایا ہے کہ جس کسی نے عصر کی نماز ضائع کی، اُس نے اپنے اہل و عیال اور مال پر ستم کیا۔"
نماز کے قائم کرنے میں اعضاء و جوارح کے اعمال اور زبان و قلب کے اذکار شامل ہیں،
إن اعمال و اذکار میں سے ہر ایک اپنی ظاہری صورت کے علاوہ معنویت اور روحانیت کا حامل ہے، جو نمازی کے معراج اور اُس کے بلند حیاتی مدارج اور ٰالله تعالى کے تقرّب کا سبب بنتا ہے، اور اگر ظاہری حالت معنی کے معارف سے خالی ہو تو زبانی ذکر ایک بےمعنی لفظ، ایک بےمغز خول اور ایک بےجان جسم ہے، جس کی کوئی حقیقی قدر و قیمت نہیں"

مسجد جانے اور باجماعت نماز کی فضيلت :
 نماز کی فضیلت كے بارے ميں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے إرشادات آحاديث مباركه كي كتابوں سے اوپر ذكر كيے گئے هيں جيسا كه عرض كيا جاچكا كه مردوں كے لئے حكم يه هے كه وه مسجد جاكر باجماعت نماز ادا كرنے كي كوشش كريں - بہت سے حضرات نماز پڑھتے ہیں لیکن جماعت کا اہتمام نہیں کرتے حالانکہ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم سے جس طرح نماز کے متعلق بہت سخت تاکید آئی ہے اسی طرح جماعت کے متعلق بھی بہت سے تاکیدیں وارد ہوئی ہیں
 رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ جماعت کی نماز اکیلے کی نماز سے ستائیس درجہ زیادہ ہو تی ہے۔ (البخاری و مسلم والترمذی )
فائده : جب آدمی نے نماز پڑھني هي ہے اورذياده سے ذياده ثواب کی طلب بهي ہے تو بهتر يهي هے کہ مسجد میں جاکر جماعت سے پڑھ لے تاکہ اتنا بڑا ثواب حاصل ہوجائے آخر دنيا كيلئے بهي تو هم زياده نفع كمانے كي كوشش كرتے هيں اور زياده نفع كيلئے دن رات إيك كرديتے هين ليكن آفسوس دين كے بڑے نفع سے بھی بے توجہی کی جاتی ہے اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ ہم لوگوں کو دین کی پرواہ نہیں اس کا نفع ہم لوگوں کی نگاہ میں نفع نہیں - جماعت کی نماز کے لئے جانے میں كاروبار كا نقصان سمجھا جاتا ہے اور مسجد جانے کی بھی دقت کہی جاتی ہے لیکن جن لوگوں کے یہاں ﷲ جل شانہ کی عظمت ہے اﷲ کے وعدوں پر ان کو اطمینان ويقين ہے اس کے اجرو ثواب کی کوئی قیمت ہے اس کے یہاں إس قسم كے عذر کچھ بھی وقعت نہیں رکھتے ایسے ہی لوگوں کی ﷲ جل شانہ نے قرآن پاک میں تعریف فرمائی ہے
مسجد جانے اور باجماعت نماز كے بيشمار فضائل بهي آحاديث مباركه ميں وارد هوئے هيں إنتهائى إختصار كے ساتهـ چند فضائل كا ذكر كيا جائے گا تاكه هميں باجماعت نماز كي قدرو قيمت كا پته چل جائے چونكه هماري أخروي زندگي كي كاميابي كا دارومدار بهي همارى نماز پر هے إس لئے إسے زياده زياده قيمتي بنانا همارا فرض هے تو مسجد جانے اور باجماعت نماز کی فضيلت كے متعلق آحاديث مباركه ملاحظه فرمائيں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص عشاء کی نماز باجماعت پڑھے تو گویا وہ آدھی رات تک قیام کرتا رہا۔ جو شخص صبح کی نماز باجماعت پڑھتا ہے تو گویا اس نے ساری رات قیام کیا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم:)۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالى عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم صفوں کے درمیان ایک سے دوسرے کونے تک چلتے اور ہمارے کندھوں، سینوں کو ہاتھ لگا کر سیدھا کرتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ تم باہم اختلاف نہ کرو، وگرنہ تمہارے دلوں میں اختلاف ہو جائے گا‘‘۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ اور فرشتے پہلی صف والوں پر رحمتیں بھیجتے ہیں‘‘ (صحیح ابن حبان)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’صفوں کو درست کرو، کندھوں کے درمیان برابری کرو، صفوں میں خلل کو بند کرو، اپنے ساتھیوں کے لئے نرمی پیدا کرو اور شیطان کے لئے خالی جگہ نہ چھوڑو، جو صفوں کو ملاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ملا دیتا ہے، جو توڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو توڑ دیتا ہے‘‘ (صحیح ابن خزیمہ)۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جب کوئی شخص مسجد میں نماز پڑھتا ہے تو اس کو گھر کے لئے نماز کا حصہ رکھنا چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے گھر کی نماز کے حصے میں بڑی خیر رکھی ہے (صحیح مسلم:)
یعنی گھر میں نوافل پڑھنے سے گھر والے بھی نمازی بن جائیں گے اس سے بڑھ کر اور کیا خیروبرکت ہو گی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص مسلسل چالیس روز تک تکبیر اُولیٰ کے ساتھ نماز باجماعت پڑھتا رہا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے دو آزادیاں لکھ دیتا ہے، ایک جہنم سے آزادی اور دوسری منافقت سے آزادی‘‘۔ (ترغیب و ترھیب:)۔
پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص فجر کی نماز باجماعت ہو کر پڑھتا ہے ، پھر بیٹھ کر ذکر الٰہی کرتا ہے حتی کہ سورج طلوع ہو جائے، پھر دو رکعت نفل پڑھتا ہے تو اس کے لئے حج و عمرے کا ثواب مل جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: مکمل مکمل یعنی مکمل اجر و ثواب ملے گا‘‘۔ (ترغیب:)۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "جو اپنے گھر میں طہارت کرے پھر اللہ کے کسی گھر میں جائے کہ اللہ کے فرضوں میں سے کسی فرض کو ادا کرے تو اس کے قدم ایسے ہوں گے کہ ایک (قدم رکھنے سے) اس کے گناہ معاف ہوں گے جبکہ دوسرے سے اس کے درجات بلند ہوں گے"۔ (صحیح مسلم)
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہے:
"پانچ نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک، اگر بڑے گناہوں سے اجتناب کیا جائے تو (یہ تینوں) درمیانی عرصہ کے گناہوں کو ختم کردیتے ہیں"۔ (صحیح مسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "جو شخص صبح کو یا شام کو مسجد میں گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے جنت میں ضیافت (مہمانی) تیار کی ہر صبح اور شام میں"۔ (صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "آدمی کی جماعت سے نماز اس کے گھر اور بازار کی نماز سے بیس پر کئی درجے افضل ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ آدمی نے جب وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا پھر مسجد کو آیا اور نماز کے علاوہ کسی (حاجت) نے نہیں اٹھایا اور نماز کے علاوہ اس کا اور کوئی ارادہ نہیں ہوا تو وہ کوئی قدم نہیں رکھتا مگر اس کے عوض اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کردیتا ہے اور ایک گناہ گھٹا دیتا ہے یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہوجاتا ہے۔ پھر جب وہ مسجد میں داخل ہوجاتا ہے تو جب تک وہ نماز کے انتظار میں رہتا ہے (اس کیلئے ویسا ہی اجر لکھا جاتا ہے گویا) وہ نماز ہی میں ہے اور فرشتے اس كے لئے دعائے خیر کرتے ہیں جب تک وہ اپنے مصلیٰ (نماز پڑھنے کی جگہ) پہ رہتا ہے۔ اور فرشتے کہتے ہیں کہ یا اللہ تو اس پر رحم کر یا اللہ تو اس کو بخش دے، یا اللہ تو اس کی توبہ قبول کر، جب تک کہ وہ ایذا نہیں دیتا یا جب تک وہ حدث نہیں کرتا (وضو نہیں توڑتا)" (متفق علیہ)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "کیا میں تم کو وہ باتیں نہ بتاؤں جن سے گناہ مٹ جائیں اور درجے بلند ہوں؟" لوگوں نے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآله وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "وضو کا پورا کرنا سختی اور تکلیف میں (اچھی طرح وضو کرنا) اور مسجد کی طرف قدموں کا کثرت سے ہونا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا یہی رباط ہے۔"
(رباط کے دو معنی ہوسکتے ہیں ایک نفس کا عبادت کے لئے روکنا اور دوسرا وہ رباط جو جہاد میں ہوتا ہے) (صحیح مسلم)
إيك حديث ميں هے كه نمازي جب نماز کے ارادہ سے چلتا ہے کوئی اور ارادہ اس کے ساتھ شامل نہیں ہوتا تو جو قدم بھی رکھتا ہے اس کی وجہ سے ایک نیکی بڑھ جاتی ہے اور ایک خطا معاف ہو جاتی ہے اور پھرجب نماز پڑھ کر اسی جگہ بیٹھا رہتا ہے تو جب تک وہ با وضو بیٹھا رہے گا فرشتے اس کے لئے مغفرت اور رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور جب تک آدمی نماز کے انتظار میں رہتا ہے وہ نماز کا ثواب پاتا رہتا ہے
اگر هم غور كريں تو معلوم هوگا كه اس امت پر ﷲ تعالی کی طرف سے انعامات کی بے پناه بارش هوئی هے جیسا کہ اور بھی بہت سے جگہ اس کا ظہور ہے اس لئے اول پچیس درجہ تھا بعد میں ستائیس ہو گیا بعص شراح نے ایک عجیب بات سمجھی ہے وہ کہتے ہیں کہ اس پچیس درجه والي حدیث کا ثواب ستائیس درجه والی حدیث سے بہت زیادہ ہے اس لئے کہ اس حدیث میں یہ ارشاد نہیں کہ وہ پچیس درجہ کی زیادتی ہے بلکہ یہ ارشاد ہے کہ پچیس درجہ المضاعت ہو تی ہے جس کا ترجمہ دو چند اور دو گنا ہوگا ہے یعنی یہ کہ پچیس مرتبہ تک دو گنا اجر ہوتا چلا جاتا ہے اس صورت میں جماعت کی ایک نماز کا ثواب تین کروڑ پینتیس لاکھ چون ہزار چار سو بتیس (۳۳۵۵۴۴۳۲) درجہ ہوا حق تعالیٰ شا نُہ‘ کی رحمت سے یہ ثواب کچھ بعید نہیں اس كي رحمت بهت وسيع هے وه جتنا مرضي ثواب اپنے بندے كو عطا فرمادے اسے كوئى روكنے والا نهيں
اور غور كا مقام هے كه جب نماز کے چھوڑنے کا گناہ ایک حقبہ ہے تو اس کے پڑھنے کا ثواب یہ ہونا قرین قیاس بھی ہے حديث مباركه ميں حضورؐ آكرم صلى الله عليه وآله وسلم نے اس طرف بهي اشارہ فرمایا کہ یہ تو خود ہی غور کر لینے کی چیز ہے کہ جماعت کی نماز میں کس قدر اجر و ثواب اور کس کس طرح حسنات کا اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے کہ جو شخص گھرسے وضو کر کے محض نماز هی كي نیت سے مسجد میں جائے تو اس کے ہر ہر قدم پر ایک نیکی کا اضافہ اور ایک خطا کی معافی ہوتی چلی جاتی ہے
بنو سلمہ مدینہ طیبہ میں ایک قبیلہ تھا ان کے مکانات مسجد سے دور تھے انہوں نے ارادہ کیا کہ مسجد کے قریب ہی کہیں منتقل ہو جائیں حضورؐ أكرم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا وہیں رہو تمہارے مسجد تک آنے کا ہر ہر قدم لکھا جاتا ہے ایک اور حدیث میں هے کہ جو شخص گھر سے وضو کر کے نماز کو جائے وہ ایسا ہے جیسا کہ گھر سے احرام باندھ کر حج کو جائے ادس کے بعد حضورصلى الله عليه وآله وسلم ایک اور فضیلت کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ جب نماز پڑھ چکا تو اس کے بعد جب تک مصلے پر رہے فرشتے مغفرت اور رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں فرشتے اﷲ کے مقبول اور معصوم بندے ہیں ان کی دعا کی برکات خود ظاہر ہیں
حضرت سالم حداد رحمة الله عليه ایک بزرگ هوئے هيں تجارت کرتے تھے جب آذان کی آواز سنتے تو رنگ متغیرہو جاتا اور زرد پڑ جاتا بے قرار ہو جاتے دکان کھلی چھوڑ کر عاشقانه شعر پڑهتے هوئے مسجد كي طرف روانه هوحاتے
محمد بن سما ایک بزرگ عالم هوئے ہیں جو امام ابو یوسف رحمة الله عليه اور امام محمد رحمة الله عليه کے شاگرد ہیں ایک سو تین برس کی عمر میں انتقال ہوا اس وقت دو سو رکعات نفل روزانہ پڑھتے تھے کہتے ہیں کہ مسلسل چالیس برس تک میری ایک مرتبہ کے علاوہ تکبیر اولی فوت نہیں ہوئی صرف ایک مرتبہ جس دن میری والدہ کا انتقال ہوا ہے اس کی مشغولی کی وجہ سے تکبیر اولی فوت ہو گئی تھی یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری جماعت کی نماز فوت ہو گئی تھی تو میں نے اس وجہ سے کہ جماعت کی نماز ثواب پچیس درجہ زیادہ ہے اس نماز کو پچیس دفعہ پڑھا تاکہ وہ عدد پورا ہوجائے تو خواب میں دیکھا کہ ایک شخص کہتا ہے کہ محمد پچیس دفعہ نماز تو پڑھ لی مگر ملائکہ کی آمین کا کیا ہو گا ملائکہ کی آمین کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے احادیث میں یہ ارشاد نبوی صلى الله عليه وآله وسلم آیا ہے کہ جب امام سورہ فاتحہ کے بعد آمین کہتا ہے تو ملائکہ بھی آمین کہتے ہیں جس شخص کی آمین ملائکہ کی آمین کے ساتھ ہو جاتی ہے اس کے پچھلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں تو خواب میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے
اس قصے میں اس طرف اشارہ ہے کہ جماعت کا ثواب مجموعی طور سے جو حاصل ہوتا ہے وہ اکیلے میں حاصل ہو ہی نہیں سکتا چاہے ایک ہزار مرتبہ اس نماز کو پڑھ لے اور یہ ظاہر بات ہے کہ ایک آمین کی موافقت ہی صرف نہیں بلکہ مجمع کی شرکت نماز سے فراغت کے بعد ملائکہ کی دعا جس کا اس حدیث میں ذکر ہے ان کے علاوہ اور بہت سے خصوصیات ہیں جو جماعت ہی میں پائی جاتی ہیں ایک ضروری امر یہ بھی قابل غور ہے علماء نے فرمايا هے کہ فرشتوں کی اس دعا کا مستحق جب ہی ہو گا جب نماز صحيح معنوں ميں نماز بھی ہو اور اگر ایسے ہی پڑھی کہ پرانے کپڑے کی طرح لپیٹ کر منہ پر مار دی گئی تو پھر فرشتوں کی دعا کا مستحق نہیں ہوتا۔ الله تعالى هم سب كو نماز باجماعت اور خوب خوب سنوار كر پڑهنے كي توفيق عنايت فرمائے - آمين ثم آمين يا رب العلمين

نفلي نمازوں کی فضيلت :
پانچ وقت کی نمازیں تو ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہیں، ان کے علاوہ نفلی نمازیں ہیں، وہ جتنی چاہے پڑھے، بعض خاص نمازوں کے فضائل بھی رسول كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے بیان فرمائے هيں، مثلاً: تہجد کی نماز، اِشراق، چاشت، اوّابین، نمازِ استخارہ، نمازِ حاجت وغیرہ۔ نفلي نمازين مسجد كي بجائے اپنے گهر ميں ادا كرني ذياده أفضل هيں تاهم اگر گهر ميں إيسا ماجول ميسر نه هو تو مسجد ميں بهي ادا كرنے ميں كوئى حرج نهيں جو شخص جتني نفل نمازوں كا إهتمام كرے گا اس كي فرض نمازوں ميں أتنا هي خشوع اور خضوع ذياده هوگا اور يه ظاهر سي بات هے جو شخص نفلي نمازوں كا إهتمام كرتا رهے گا أس كي فرض نمازوں كي حفاظت الله كريم كي طرف سے هوتي رهے گي اور نفلي نمازوں كا يه ذخيره اسے قيامت والے دن فائده دے گا چنانچه إيك جديث كا مفهوم هے كه قيامت والے دن اگر كسي كي فرض نمازوں ميں كمي هوگئى تو الله تعالى كے حكم سے نوافل ميں سے پورا كرليا جائے گا إس لئے هر مسلمان كو نفل نمازوں كا ذخيره بهي اپنے پاس ركهنا چاهيے جس طرح فرض نمازوں كے فضائل آحاديث كي كتابوں ميں موجود هيں إسي طرح نفل نمازوں كے فضائل بهي آحاديث كي كتابوں ميں كافي زياده وارد هوئے هيں - نوافل مكروه أوقات كے علاوه جب جي چاهے اور جتنے چاهے ادا كيے جاسكتے هيں ليكن كچهـ نفلي نمازوں كے بهي أوقات مقرر هيں اور انكے فضائل بهي آحاديث مباركه ميں موجود هيں:

1. نمازِ تہجد كي فضيلت:
یہ نماز تنہائی میں اللہ تعاليٰ سے مناجات اورملاقات کا دروازہ ہے اور انوار و تجلیات کا خاص وقت ہے۔ احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے فرائض كي بعد يه نماز سب سے أفضل هے
اس کی کم از کم دو (2) رکعتیں ہیں۔ اور زياده س زياده بارہ (12) رکعات کا مشائخ كا معمول ہے۔ بعد نمازِ عشاء سو کر جس وقت بھی اٹھ جائیں پڑھ سکتے ہیں۔بہتر أوقات نصف شب یا آخر شب هيں
حضرت عبداﷲ بن عمرو رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اﷲ تعاليٰ کو تمام (نفل) نمازوں میں سب سے زیادہ محبوب صلاۃ داؤد علیہ السلام ہے، وہ آدھی رات سوتے، (پھر اٹھ کر) ایک تہائی رات عبادت کرتے اور پھر چھٹے حصے میں سو جاتے۔‘‘ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نمازِ تہجد ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، سنن ترمذی، صحیح ابن حبان، مسند احمد)

2. نمازِ اشراق كي فضيلت:
اس کا وقت طلوعِ آفتاب سے 20 منٹ بعد شروع ہوتا ہے۔ أفضل يه هے كه اسے نمازِ فجر اور صبح کے وظائف پڑھ کر اُٹھنے سے پہلے اسی مقام پر ادا کریں۔
اس کی رکعات کم از کم دو (2) اور زیادہ سے زیادہ چھ (6) ہیں۔
اس نماز سے باطن کو نور ملتا ہے اور قلب کو سکون و اطمینان کی دولت نصیب ہوتی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص نمازِ فجر باجماعت ادا کرنے کے بعد طلوع آفتاب تک ذکرِ الٰہی میں مشغول رہا پھر دو رکعت نماز ادا کی تو اسے پورے حج اور عمرے کا ثواب ملے گا۔‘‘(ترمذی)
حضرت ابوذر اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ (حدیث قدسی) روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعاليٰ ارشاد فرماتا ہے: اے ابن آدم! تو میرے لیے شروع دن میں چار رکعتیں پڑھ میں اس دن کے اختتام تک تیری کفایت فرماؤں گا۔‘‘ (ترمذی اور ابوداؤد)

3. نمازِ چاشت(ضحى) كي فضيلت:
اس نماز کا وقت آفتاب کے خوب طلوع ہو جانے پر ہوتا ہے . جب طلوعِ آفتاب اورآغازِ ظہر کے درمیان کل وقت کا آدھا حصہ گزر جائے تو یہ چاشت کے لیے افضل وقت ہے۔
اس کی کم از کم چار (4) اور زیادہ سے زیادہ بارہ (12) رکعات ہیں۔ کم از کم دو (2) اور زیادہ سے زیادہ آٹھ (8) رکعات بھی بیان کی گئی ہیں۔
احادیث نبوی صلى الله عليه وآله سلم میں اس نماز کے بہت فضائل بیان ہوئے ہیں:
حضرت انس رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت کیا ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھیں اللہ تعاليٰ اس کے لیے جنت میں سونے کا محل بنائے گا۔‘‘ (ترمذی اور ابن ماجہ )
حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت کیا ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے چاشت کی دو رکعتیں پڑھیں وہ غافلین میں نہیں لکھا جائے گا، اور جو چار پڑھے عابدین میں لکھا جائے گا، اور جو چھ پڑھے اس دن اس کی کفایت کی جائے گی اور جو آٹھ پڑھے اللہ تعاليٰ اسے قانتین میں لکھے گا اور جو بارہ پڑھے اللہ تعاليٰ اس کے لئے جنت میں ایک محل بنائے گا۔‘‘(طبرانی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جو چاشت کی دو رکعتوں کی پابندی کرے اس کے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ ( مسند احمد و سننِ ترمذی اورسننِ ابن ماجہ )

4. نمازِ اوّابین كي فضيلت:
یہ مغرب اور عشاء کے درمیان کی نماز ہے جو کم از کم دو(2) طویل رکعات یا چھ (6) مختصر رکعات ہے۔
یہ نماز اجر میں بارہ سال کی عبادت کے برابر بیان کی گئی ہے۔ اس کی فضیلت اور انوار و برکات بھی نمازِ تہجد جیسی ہیں۔
اس کا معمول پختگی سے اپنایا جائے خواہ کم سے کم رکعات ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ خاص قبولیت، قرب، تجلیات اور انعامات کا وقت ہے۔ اس کے اسرار بے شمار ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا: ’’جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعات نفل اس طرح (مسلسل) پڑھے کہ ان کے درمیان کوئی بری بات نہ کرے تو اس کے لیے یہ نوافل بارہ برس کی عبادت کے برابر شمار ہوں گے۔‘‘ (ترمذی اورابن ماجہ )
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ (طبرانی)

5. نمازِ توبہ كي فضيلت:
مکروہ اوقات کے علاوہ کسی بھی وقت دو رکعت نفل نمازِ توبہ ادا کی جاسکتی ہے۔ خصوصاً گناہ سرزد ہونے کے بعد اس نماز کے پڑھنے سے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔
امام ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ اور ابن حِبان نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت کی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کسی سے گناہ سرزد ہوجائے تو وہ وضو کر کے نماز پڑھے، پھر استغفار کرے تو اللہ تعاليٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے۔ پھر یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی:
وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ ذَکَرُوا اﷲَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ قف وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اﷲُ ص وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَهُمْ يَعْلَمُوْنَo (آل عمران)
’’اور (یہ) ایسے لوگ ہیں کہ جب کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں، پھر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا گناہوں کی بخشش کون کرتا ہے اور پھر جو گناہ وہ کر بیٹھے تھے ان پر جان بوجھ کر اِصرار بھی نہیں کرتےo ‘‘

6. نمازِ تسبیح (صلاة التسبيح ) كي فضيلت:
اس نماز کی چار رکعات ہیں، مکروہ اوقات کے علاوہ ان کو جب چاہیں ادا کیا جا سکتا ہے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ تکبیرِ تحریمہ کے بعد ثنا پڑھیں۔
سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ، وَتَعَالٰی جَدُّکَ، وَلَا اِلٰهَ غَيْرُکَ.
’’اے اﷲ! ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں، تیری تعریف کرتے ہیں، تیرا نام بہت برکت والا ہے، تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘
ثنا کے بعد پندرہ (15) بار درج ذیل تسبیح پڑھیں:
سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُِﷲِ وَلَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَر.
پھر تعوذ، تسمیہ، سورۃ الفاتحہ اور کوئی سورت پڑھ کر دس (10) بار یہی تسبیح پڑھیں،
پھر رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْمُ. کے بعد دس (10) بار،
پھر رکوع سے اٹھ کر سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کے بعد دس (10) بار،
پھر سجدے میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْاَعْلٰی کے بعد دس (10) بار،
پھر سجدے سے اٹھ کر جلسہ میں دس (10) بار،
پھر دوسرے سجدے میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْاَعْلٰی کے بعددس (10) بار پڑھیں۔
پھر دوسری رکعت میں کھڑے ہو جائیں اور تسمیہ یعنی بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِo سے پہلے پندرہ (15) بار اسی تسبیح کو پڑھیں اور بعد ازاں سورت فاتحہ، پھر اسی طریقے سے چاروں رکعات مکمل کریں۔ ہر رکعت میں پچھتر (75) بار اور چاروں رکعات میں کل ملا کر تین سو (300) بار یہ تسبیح پڑھی جائے گی.
امام ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ اور بیہقی سمیت اہل علم کی ایک جماعت نے اپنی اپنی کتب میں بیان کیا ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’اے چچا جان! کیا میں آپ سے صلہ رحمی نہ کروں؟ کیا میں آپ کو عطیہ نہ دوں؟ کیا میں آپ کو نفع نہ پہنچاؤں؟ کیا آپ کو دس خصلتوں والا نہ بنا دوں؟ کہ جب تک آپ ان پر عمل پیرا رہیں تو اللہ تعاليٰ آپ کے اگلے پچھلے، پرانے، نئے، غلطی سے یا جان بوجھ کر، چھوٹے، بڑے، پوشیدہ اور ظاہر ہونے والے تمام گناہ معاف فرما دے گا۔‘‘ (اس کے بعد حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں نمازِ تسبیح کا طریقہ سکھایا۔) پھر فرمایا:’’ اگر روزانہ ایک مرتبہ پڑھ سکو تو پڑھو، اگر یہ نہ ہو سکے توہر جمعہ کو، اگر اس طرح بھی نہ کر سکو تو مہینہ میں ایک بار، اگر ہر مہینے نہ پڑھ سکو تو سال میں ایک بار اور اگرایسا بھی نہ ہو سکے تو عمر بھر میں ایک بار پڑھ لو۔‘‘

7.نمازِ حاجت كي فضيلت:
جب کسی کو کوئی حاجت پیش آئے تو وہ اللہ کی تائید و نصرت کے لیے کم از کم دو رکعت نفل بطور حاجت پڑھے۔۔ اس نماز کی برکت سے اللہ تعاليٰ حاجت پوری فرما دیتا ہے۔
طریقہ:حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولاتِ مبارکہ میں اس کے دو طریقے ملتے ہیں:
ترمذی، ابن ماجہ، حاکم، بزار اور طبرانی نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص کو اللہ تعاليٰ یا کسی انسان کی طرف کوئی حاجت ہو تو اسے چاہیے کہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نفل پڑھے اور پھر اللہ تعاليٰ کی حمد و ثنا اور بارگاہ رسالت میں تحفۂ درود پیش کر کے یہ دعا مانگے:
لَا اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ الْحَلِيْمُ الْکَرِيْمُ، سُبْحَانَ اﷲِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ، اَلْحَمْدُِﷲِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، أَسْأَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ، وَ عَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ، وَالْغَنِيْمَةَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلَامَةَ مِنْ کُلِّ اِثْمٍ، لَا تَدَعْ لِيْ ذَنْبًا اِلَّا غَفَرْتَهُ، وَلَا هَمًّا اِلَّا فَرَّجْتَهُ، وَلَا حَاجَةً هِيَ لَکَ رِضًا اِلَّا قَضَيْتَهَا يَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ.
ترمذی، ابن ماجہ، احمد بن حنبل، حاکم، ابن خزیمہ، بیہقی اور طبرانی نے بروایت حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کیا ہے: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نے ایک نابینا صحابی کو اس کی حاجت برآری کے لیے دو رکعت نماز کے بعد درج ذیل الفاظ کے ساتھ دُعا کرنے کی تلقین فرمائی جس کی برکت سے اللہ تعاليٰ نے اس کی بینائی لوٹا دی:
اَللّٰهُمَّ اِنِّی اَسَاَلُکَ وَاَتَوَجَّهُ اِلَيْکَ بِنَبِيِکَ مُحَمَّدٍ نَّبِيِ الرَّحْمَةِ، اِنِّی تَوَجَّهْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّی فِی حَاجَتِی هٰذِهِ لِتُقضٰی لِيْ، اَللّٰهُمَّ! فَشَفِّعْهُ فِيَ.

8. نمازِ استخارہ كي فضيلت:
اگر کوئی شخص کسی جائز کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا چاہتا ہو تو دو رکعت نمازِ استخارہ پڑھے۔ پھر درج ذیل دعا پڑھے:
اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَسْتَخِيْرُکَ بِعِلْمِکَ، وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَاَسْاَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِيْمِ، فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ، وَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ. اَللّٰهُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ هٰذَا الْاَمْرَ (يہاں اپنی حاجت کا ذکر کرے) خَيْرٌ لِّيْ فِيْ دِيْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَعَاقِبَةِ اَمْرِيْ، فَاقْدُرْهُ وَيَسِّرْهُ لِيْ، ثُمَّ بَارِکْ لِيْ فِيْهِ، وَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ هذَا الْاَمْرَ(یہاں اپنی حاجت کا ذکر کرے) شَرٌّ لِّيْ فِيْ دِيْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَعَاقِبَةِ اَمْرِيْ فَاصْرِفْهُ عَنِّيْ وَاصْرِفْنِيْ عَنْهُ وَاقْدُرْ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِيْ بهِ.
صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم کو تمام معاملات میں استخارہ کی اس طرح تعلیم فرماتے تھے جیسے قرآن کی سورت تعلیم فرماتے تھے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’جب تو کسی کام کا ارادہ کرے تو اپنے رب سے اس میں سات (7) بار استخارہ کر پھر جس کی طرف تمہارا دل مائل ہو تو اس کام کے کرنے میں تمہارے لیے خیر ہے۔‘‘

9. نمازِ تحیۃ الوضوء كي فضيلت:
وضو کے فوراً بعد دو رکعت نفل پڑھنا مستحب اور باعثِ خیر و برکت ہے۔
صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ اور صحیح ابن خزیمہ میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے اچھی طرح وضو کرنے کے بعد ظاہر و باطن کی کامل توجہ کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی تو اس کے لئے جنت واجب ہو گئی.‘‘
ابوداؤد، بخاری، مسلم اور احمد بن حنبل نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔

10. نمازِ تحیّۃ المسجد كي فضيلت:
یہ مکروہ اوقات کے علاوہ مسجد میں داخل ہونے پر پڑھی جاتی ہے جو دو رکعت پر مشتمل ہے۔ یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ مبارکہ سے ثابت ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں اس نماز کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
بخاری نے کتاب الصلوۃ، کتاب التہجد اور مسلم نے کتاب صلوۃ المسافرین میں حضرت قتادہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہیے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔

11. نمازِ اِستسقاء كي فضيلت:
اﷲ تعاليٰ کی بارگاہ بے کس پناہ سے بارانِ رحمت کے نزول کے لیے ادا کی جانے والی نماز اِستسقاء کہلاتی ہے۔ اگر بارش نہ ہو تو نمازِ اِستسقاء کا بار بار پڑھنا مستحب ہے اور تین دن تک اسے متواتر پڑھا جائے تاکہ اﷲ تعاليٰ اپنا لطف و کرم فرمائے۔ اس کے پڑھنے کا مسنون طریقہ ایسا ہی ہے جیسا کہ دو رکعت نماز ادا کی جاتی ہے مگر بہتر ہے کہ پہلی رکعت میں سورۃ الاعليٰ اور دوسری میں سورۃ الغاشیہ پڑھی جائے۔ نماز کے بعد امام خطبہ پڑھے اور دونوں خطبوں کے درمیان جلسہ کرے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ہی خطبہ پڑھے اور خطبہ میں دُعا اور تسبیح و اِستغفار کرے اور اثنائے خطبہ میں چادر لوٹ دے یعنی اوپر کا کنارہ نیچے اور نیچے کا اوپر کر دے۔ خطبہ سے فارغ ہو کر قبلہ رُخ ہوکر دُعا کرے۔
نماز استسقاء پڑھنے کے لئے کوئی معین وقت نہیں ہے؛ البتہ مکروہ اوقات کے سوا دن کے پہلے حصے میں نمازِ اِستسقاء پڑھنا سنت ہے۔

12-نمازِ کسوف اور خسوف كي فضيلت اور پڑھنے کا طریقہ:
کسوف کا معنی سورج گرہن اور خسوف کا معنی چاند گرہن ہے۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں جس دن (آپ کے صاحبزادے) حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو سورج گرہن لگا۔ لوگوں نے کہا : ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کی وجہ سے سورج گرہن لگا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’بے شک سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کے مرنے جینے سے ان کو گرہن نہیں لگتا پس جب تم ان نشانیوں کو دیکھو تو نماز پڑھو۔‘‘(مسلم)

نماز کسوف کا طریقہ:
جب سورج گرہن ہو تو چاہئے کہ امام کے پیچھے دو رکعتیں پڑھے جن میں بہت لمبی قرات ہو اور رکوع سجدے بھی خوب دیر تک ہوں، دو رکعتیں پڑھ کر قبلہ رُو بیٹھے رہیں اور سورج صاف ہونے تک اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں۔
نمازِ خسوف کا طریقہ:
چاند گرہن کے وقت بھی چاند صاف ہونے تک نماز پڑھتے رہیں، مگر علیحدہ علیحدہ اپنے گھروں میں پڑھیں، اس میں جماعت نہیں۔َََُُْٰ

13- نمازِ جنازه كي فضيلت اور طريقه:
مسلمان میت کی نماز جنازہ زنده مسلمانوں پرفرض کفایہ ہے یعنی اگرچند آدمی بھی پڑھ لیں تو سب کے ذمے سے فرض ساقط ہو جائے گا اگر كسي نے بهي نه پڑهي تو سب گنہگار ہوں گے، اس نماز میں رکوع سجدہ نہیں هوتا بلكه چار تكبيروں كے ساتهـ ادا كي جاتي هے.
يه نماز میت کے لیے اجتماعی دعا کرنے کے لیے مشروع کی گئی ہے؛کیونکہ مومنین کے ایک گروہ کا اکٹھا ہوکر میت کے لیے دعائے مغفرت کرنا، عجیب تاثیر رکھتا ہے، میت پر رحمت الہٰی کے نزول میں دیر نہیں لگتی ،یعنی انفرادی دعا کی بہ نسبت اجتماعی دعا میں قبولیت کی شان زیادہ ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: جو آدمی ایمان کی صفت کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے اور اس وقت تک جنازے کے ساتھ رہے جب تک کہ اس پر نماز پڑھی جائے اوراس کے دفن سے فراغت ہو تو وہ ثواب کے دو قیراط لے کر واپس ہوگا، جن میں سے ہر قیراط گویا احد پہاڑ کے برابر ہوگا اورجو آدمی صرف نماز جنازہ پڑھ کے واپس آجائے(دفن ہونے تک ساتھ نہ رہے) تو وہ ثواب کا ایک قیراط لے کر واپس ہوگا۔(بخاری)
"حدیث کا مقصد جنازے کے ساتھ جانے اس پر نماز پڑھنے اور دفن میں شرکت کرنے کی ترغیب دینا اور اِس کی فضیلت بیان کرنا ہے، اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے یہ بھی واضح فرمادیا کہ اس پر یہ عظیم ثواب تب ہی ملے گا جب کہ یہ عمل ایمان ویقین کی بنیاد پر اور ثواب ہی کی نیت سے کیا گیا ہو ؛یعنی اس عمل کا اصل محرک اللہ اوررسول کی باتوں پر ایمان ویقین اورآخرت کے ثواب کی امید ہو، لہٰذا اگر کوئی شخص صرف تعلق اوررشتہ داری کے خیال سے یا میت کے گھر والوں کا جی خوش کرنے ہی کی نیت سے یا ایسے ہی کسی دوسرے مقصد سے جنازہ کے ساتھ گیا اورنماز جنازہ اوردفن میں شریک ہوا، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے حکم اورآخرت کا ثواب اس کے پیش نظر تھا ہی نہیں تو وہ اس ثواب کا مستحق نہیں ہوگا، حدیث کے الفاظ "ایمانا واحتسابا" کا یہی مطلب ہے "۔

نمازِ جنازہ کی امامت کا مستحق:
نماز جنازہ امیر المومنین پڑھائیں گے یا پھر نائب امیر یا قاضی شہر یا پھر میت کا ولی یا پھر جو امام مسجد میں مقرر کردہ ہیں وہ پڑھائیں گے۔
نمازِ جنازہ کا مسنون طریقہ:
میت کو آگے رکھ کر امام اس کے سینہ کے سامنے اس طرح رہے کہ میت اس کے اور قبلہ کے درمیان ہو جائے اور لوگ اس امام کے پیچھے تین یا پانچ یا سات صف بنائیں پھر نیت کرکے امام بآواز بلند اور مقتدی آہستہ تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اٹھا کر ناف کے نیچے باندھ لیں پھر "سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ" آخرتک آہستہ پڑھیں؛ پھر امام آواز سے اورمقتدی آہستہ بغیر ہاتھ اٹھائے اور بغیر سر اٹھائے دوسری مرتبہ "اللہُ أَکْبَرْ" کہے اس کے بعد درود شریف پڑھیں جو نماز میں پڑھی جاتی ہے، اس کے بعد دوسری تکبیر کی طرح تیسری تکبیر کہیں اس کے بعد منقول دعا پڑھیں ؛پھر چوتھی تکبیر کہہ کر دونوں طرف سلام پھیردیں۔

بالغ مرد و عورت کی دعا:
"اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا،اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِيمَانِ"۔ (ترمذی)

نابالغ لڑکے کی دعا:
"اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا فَرَطًا وَسَلَفًا وَاجَعَلْہُ لَنَا أَجْرًاوَذُخْرًا وَاجْعَلْہُ لَنَا شَافِعًا وَ مُشَفَّعًا"۔
(لسنن الکبری للبیہقی)

نابالغ لڑکی کی دعا:
"اَللَّھُّمَّ اجْعَلْھَا لَنَا فَرْطًا وَاجْعَلْھَالَنَا أَجْرًا وَذُخْرًا وَاجْعَلْھَا لَنَا شَافِعَۃً وَّمُشَفَّعَۃً"۔
(السنن الکبری لبیہقی)

نمازِ جنازہ کے کچھ احکام:
(۱)اگر کئی جنازے ہوں تو امام کے سامنے پہلے مرد کا جنازہ ہو پھر بچے کا پھر عورت کا ہو۔
(۲)نماز جنازہ مسجد میں نہ پڑھی جائے۔
(۳)نماز جنازہ کے بعد متصلا ًکوئی دعا نہیں۔
(۴)جنازہ تیار ہواوروضو نہ ہو تو تیمم کرے۔
(۵)جو تکبیر چھوٹ جائے اس کو کہہ لے۔

جنازہ اٹھانے کا مستحب طریقہ:
جب نماز جنازہ سے فارغ ہوجائیں بلا کسی تاخیر کے تدفین کے لیے میت کو لےجائیں، میت کو اٹھاتے وقت سب سے پہلے میت کی چارپائی کا اگلا داہنا پایہ داہنے کندھے پر رکھ کر چليں مگر جنازے کو تیز قدم لیکر چلیں ؛لیکن اتنی تیز نہ چلیں کہ میت کو حرکت اوراضطراب ہونے لگے اور جو لوگ جنازے کے ساتھ چلنے والے ہوں وہ جنازہ کے پیچھے ذکر جہری کے بغیر پیدل رہیں اور جنازہ کو کندھوں سے نیچے رکھنے سے پہلے نہ بیٹھیں اور قبرستان میں فضول باتیں نہ کریں؛ بلکہ آخرت اورمرنے کے بعد کے حالات کا خیال کریں اور یہ سوچیں کہ ہمیں بھی ایک دن یہاں لایا جائے گا۔

قبر میں میت کو اتارنے کا طریقہ:
جب قبر تیار ہوجائے تو میت کی چار پائی قبلہ کی طرف قبر کے کنارے پر لاکررکھیں اورچارپائی کو زمین پر اچھی طرح جما دیں تاکہ مٹی وغیرہ نہ گرے، ضرورت کے موافق دو تین آدمی قبر میں میت کو اتاریں ،میت اگر عورت ہو تو قبر میں اتارتے وقت قبر کے چاروں طرف پردہ کریں، اتارنے والے قبلہ رو کھڑے ہوکر میت کو قبر میں اٹھاکر رکھدیں اور رکھتے وقت "بِسْمِ اللہِ وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللہِ" پڑھیں اورمیت کو داہنی کروٹ پر لٹا کر قبلہ رو کردیں، اس کے بعد کفن کی بندھی ہوئی ڈوری کھول دیں ،اس کے بعد کچی اینٹ یا بانس وغیرہ سے لحد کو بند کردیں،
جب لحد بند کردی جائے تو قبر کو مٹی سے بند کردیا جائے قبر میں مٹی ڈالتے وقت سرہانے کی طرف سے ابتداء کریں ہر شخص دونوں ہاتھوں میں مٹی بھر کر قبر میں ڈالیں پہلی بار "مِنْھَاخَلَقْنَکُمْ "دوسری بار "وَفِیْھَا نُعِیْدُ کُمْ" اور تیسری بار مٹی ڈالتے وقت "وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً أُخْرَیٰ" پڑھے مٹی ڈالنے کے بعد قبر پر پانی چھڑکے، قبر کو اونٹ کی کوہان کی طرح بنائیں اور ایک بالشت سے اونچی نہ بنائیں اورپختہ نہ بنائیں۔
جب قبر بن جائے توسرہانے سورۂ بقرہ شروع سے "مُفْلِحُوْنَ" تک اورپیر کی جانب سورۂ بقرہ کا آخری رکوع "اٰمَنَ الرَّسُوْلُ" سے آخر تک پڑھا جائے اس کے بعد قبلہ رُو ہو کر دعا کریں۔

قبرستان کے آداب:
قبور کی طرف متوجہ ہوکر "اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَاأَھْلَ الْقُبُوْرِ، یَغْفِرُ اللہُ لَنَا وَلَکُمْ أَنْتُمْ لَنَا سَلَفٌ وَنَحْنُ لَکُمْ خَلَفٌ" کہے
اكر ممكن هو تو جوتا اتار کر اندر داخل ہو
قبر پر نہ بیٹھے نه ٹيك لگائے اور نه هي قبر پر نہ چلے
قبرستان میں استنجا نہ کرے نه اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھے
اس کے احترام میں غلونہ کرے اور قبر پر خیمہ یا سایہ نہ بنائے
قبرپر چراغ نہ جلائے اور قبر پر مسجد کی تعمیر نہ کرے
اہلِ قبور کے لیے کچھ قرآن شریف وغیرہ پڑھ کر ثواب پہنچائے، کچھ سورتیں ہیں "جو عمل مختصر ثواب زیادہ" کے مصداق ہیں:
سورۂ فاتحہ تین بار پڑھنے کا ثواب دو قرآن کے برابر ہے،
آیۃ الکرسی پڑھنےکا ثواب ایک چوتھائی قرآن کے برابرہے،
سورۂ زلزال ایک مرتبہ پڑھنےکا ثواب چوتھائی کے برابرہے،
سورۂ کافرون پڑھنا ایک چوتھائی قرآن کے برابرہے،
سورہ نصر چار مرتبہ کا پڑھنا ایک قرآن کے برابر،
سورۂ اخلاص تین مرتبہ پڑھناایک قرآن کے برابرہے،
سورہ ٔیس کا دس قرآن کے برابرثواب ہے
اہل قبور کے لیے دعائے مغفرت کی جائے اور إيصال ثواب كا إهتمام كيا جائے

ایصالِ ثواب:
کسی کی موت کے بعد اس کی خدمت اوراس کے ساتھ حسن سلوک کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالی سے اس کی لیے مغفرت اوررحمت کی دعا کی جائے اور رحم و کرم کی بھیک مانگی جائے، نماز جنازہ کی خاص غرض و غایت بھی یہی ہے اور زیارت قبور کے سلسلہ میں جو احادیث آئی ہیں ان میں سلام کے ساتھ دعائے مغفرت کا بھی ذکر ہے ،دعائے خیر کے اس طریقہ کے علاوہ اموات کی خدمت اورنفع رسانی کی ایک دوسری صورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے یہ بھی بتائی ہے کہ ان کی طرف سے صدقہ یا اسی طرح کا کوئی دوسرا عمل خیر کر کے اس کا ثواب ان کو ہدیہ کیا جائے "ایصال ثواب" اسی تفصیل کا ایک عنوان ہے ۔
جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ سعد بن عبادہ کی والدہ کا انتقال ایسے وقت ہوا کہ خود سعد موجود نہیں تھے(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں گئے ہوئے تھے، جب واپس آئے ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی خدمت میں انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم میری عدم موجودگی میں میری والدہ کا انتقال ہوگیا تو اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو ان کے لیے نفع مند ہوگا؟(اوران کو اس کا ثواب پہنچے گا) آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: ہاں پہنچے گا، انہوں نے عرض کیا، میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ اپنا باغ (مخراف) میں نے اپنی مرحومہ والدہ کے لیے صدقہ کردیا ۔ (بخاری)
اسی طرح ایک اور حدیث ہے:
حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے دادا عاص بن وائل نے (جن کو اسلام نصیب نہیں ہوا، اپنے بیٹوں کو)وصیت کی تھی کہ ان کی طرف سے سو غلام آزاد کئے جائیں ( اس وصیت کے مطابق ان کے بیٹے) ہشام بن العاص نے اپنے حصے کے پچاس غلام آزاد کردیئے،(دوسرے بیٹے) عمروبن العاص نے بھی ارادہ کیا کہ وہ بھی اپنے حصے کے باقی بچاس غلام آزاد کردیں، لیکن انہوں نے طئے کیا کہ میں رسول اللہﷺ سے دریافت کرکے ایسا کروں گا، چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا: میرے والد نے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تھی اور میرے بھائی ہشام نے بچاس اپنی طرف سے آزاد کردئے اور بچاس باقی ہیں تو کیا میں اپنے والد کی طرف سے وہ بچاس غلام آزاد کردوں؟ آپ نے فرمایا: اگر تمہارے والد اسلام و ایمان کے ساتھ دنیا سے گئے ہوتے تو پھر تم ان کی طرف سے غلام آزاد کرتے یا صدقہ کرتے یا حج کرتے تو ان اعمال کا ثواب ان کو پہنچ جاتا ۔ (ابوداؤد )
مذکورہ دونوں احادیث ایصال ثواب کے بارے میں بالکل واضح ہیں، اس میں صدقہ کے علاوہ حج وعمره سے ایصال ثواب کا بھی ذکر ہے اوراس کے علاوہ دیگر اوراحادیث ہیں جس میں روزے وغیرہ کا ذکربهي آيا هے
تاهم همارے هاں كسي كے مرنے پر جو رسميں مروج هيں مثلاً قل شريف - دسوان شريف - چاليسواں شريف اور برسي وغيره إن كا كوئى فائده نهيں نه هي ميت كو كچهـ پهنجتا هے اور نه هي خرچ كرنيوالونكو كوئى ثواب ملتا هے بلكه الٹا بدعت اور فضول خرجي كا گناه سر پر آتا هے لهذا إن بدعات سے إجتناب كيا جائے اور إيصال ثواب كا جو مسنون طريقه هے اسے هي أختيار كيا جائے تاكه ميت كو بهي فائده هو اور إيصال ثواب كرنيوالے كو بهي ۔ بہرحال ان احادیث مباركه سے یہ بات اصول اور قاعدے کے طور پر معلوم ہوئی کہ ميت کو سب اعمال خیر کا ثواب پہنچایا جاسکتا هے چاهے وه صدقه وغيره كي صورت ميں هوں يا تلاوت - نفلي نماز ،روزه وغيره هوں يا حج ،عمره اور طواف وغيره هوں لیکن ایمان واسلام شرط ہے، اللہ تعالی ہم سب کواس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے،(آمین ثم آمين)۔

14- نماز جمعة کی فضيلت :
اللہ تعالیٰ نے اس دن اپنی بندگی کے لیے جمع ہونے کا حکم دیا: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ{ [الجمعة]
(إے إيمان والو! جب جمعه کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو
اللہ تعالیٰ كے إس أمت كے لئے بهت سے أنعامات میں سے ایک یوم جمعہ کا امت کے لیے خاص کرنا ہے،جب کہ اس دن سے اللہ تعالیٰ نے یہود ونصاری کو محروم رکھا،حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے كه نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمايا
’’ اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلے والوں کو جمعہ کے دن سے محروم رکھا،یہود کے لیے ہفتہ کا دن اور نصاری کے لیے اتوار کا دن تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں أفضل کیا اور جمعہ کے دن کی ہمیں ہدایت فرمائی اور جمعہ ہفتہ اور اتوار بنائے،اسی طرح یہ اقوام روز قیامت تک ہمارے تابع رہے گی،دنیا والوں میں ہم آخری ہیں اور قیامت کے دن اولین میں ہونگے، اورتمام مخلوقات سے قبل اولین کا فیصلہ کیا جائے گا‘‘ (رواه مسلم).

جمعہ کے دن کے فضائل:
1- حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا ’’جس دن میں سورج طلوع ہوتا ہے اس میں سب سے بہترین جمعہ کا دن ہے،اسی دن میں حضرت آدم عليه السلام پیدا ہوئے، اسی دن جنت میں داخل کیئے گئے، اور اسی دن اس سے نکالے گئے اور قیامت قائم نہیں ہوگی مگر جمعہ کے دن‘‘ (مسلم).
---
2-فضائلِ جمعہ میں نمازِ جمعہ کے بھی فضائل شامل ہیں، کیونکہ نماز اسلام کے فرائض اور مسلمانوں کے جمع ہونے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، جس نے نمازکی ادائیگی میں غفلت برتی اللہ تعالیٰ اس کے قلب پر مہر لگا دیتے ہیں جیسا کہ مسلم شریف کی روایت میں مذکور ہے۔
---
3-جمعہ کے دن ایک گھڑی ہوتی ہے اس میں دعا قبول کی جاتی ہے،حضرت ابوہریرہ ؓ رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے: نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا:
(اس میں ایک گھڑی ایسی ہے، جس میں کوئی مسلمان نماز پڑھے، اور اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو عنایت فرمادیتا ہے) ۔[متفق عليه].
قبولیت دعا کی گھڑی میں حدیثِ رسول صلى الله عليه وآله وسلم کی روشنی میں ذیل کے دو قول قابل ترجیح ہیں۔
اول: وہ گھڑی خطبہ شروع ہونے سے لے کر نماز کے ختم ہونے تک کا درمیانی وقت ہے۔ (مسلم).
دوم: جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک، اور یہی قول راجح ہے۔
(زاد المعاد )

4- جمعہ کے دن کا صدقہ دیگر ایام کے صدقوں سے بہتر ہے۔
ابن قیم رحمه الله فرماتے ہیں: (ہفتے کے دیگر دنوں کے مقابلے جمعہ کے دن کے صدقہ کا ویسا ہی مقام ہے جیسا کہ سارے مہینوں میں رمضان کا مقام ومرتبہ ہے۔) حضرت کعب رضي الله تعالى عنه کی حدیث میں ہے: ’’...جمعہ کے دن صدقہ دیگر ایام کے مقابلے (ثواب کے اعتبار سے) عظیم ہے۔

5- یہ وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ اپنے مومنین بندوں کے لیے جنت میں تجلی فرمائیں گے، حضرت انس بن مالک رضي الله تعالى عنه اللہ تعالیٰ کے فرمان " وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ " کے بارے میں فرماتے ہیں: اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا ہر جمعہ تجلی فرمانا ہے۔

6-جمعہ کا دن ہفتہ میں بار بار آنے والی عید ہے، حضرت عباس رضي الله تعالى عنه سے مروی کہ نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا (یہ عید کا دن ہے،جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے طے کیا ہے، لہٰذا جسے جمعہ ملے وہ اس دن غسل کرے)[رواه ابن ماجه ].

7-یہ وہ دن ہے جس میں گناہوں کی معافی ہوتی ہے: حضرت سلمان رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے كه نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:
(جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور خوب اچھی طرح سے پاکی حاصل کرے اور تیل استعمال کرے یا گھر میں جو خوشبو میسر ہو استعمال کرے پھر نماز جمعہ کے لیے نکلے اور مسجد میں پہنچ کر دو آدمیوں کے درمیان نہ گھسے، پھر جتنی ہو سکے نفل نماز پڑھے اور جب امام خطبہ شروع کرے تو خاموش سنتا رہے تو اس کے اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں)۔ [البخاري].

8-جمعہ كي نماز کے لیے چل کرجانے والے کے ہر قدم پر ایک برس کے روزے رکھنے اور قیام کرنے کا ثواب ملتا ہے، حضرت اوس بن اوس سے مروی ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا (جس نے جمعہ کے دن اچھی طرح غسل کیا، اور مسجد اول وقت پہنچ کر خطبہ اولی میں شریک رہا، اور امام سے قریب بیٹھ کر خاموشی سے خطبہ سنا، اس کے لیے ہر قدم پر ایک سال کے روزوں اور قیام کا ثواب ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کے لیے بہت آسان ہے۔) [أحمد].
الله أكبر!! جمعہ کے لیے جانے پر ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزے اور قیام کا ثواب؟! تو ان نعمتوں کو پانے والے کہاں ہے؟! ان عظیم لمحات کو گنوانے والے کہاں ہے؟!
ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ [الحديد].
(یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عطا فرمائے۔اور اللہ بڑے فضل کا مالک ہے)

9- ہفتے کے پورے دنوں میں جہنم کو تپایا جاتا ہے مگر جمعہ کے دن اس عظیم دن کے اکرام وشرف میں یہ عمل بند رہتا ہے ( زاد المعاد)

10-جمعہ کے دن یا رات میں فوت ہونا حُسن خاتمہ کی علامت ہے، کیونکہ جمعہ کے دن مرنے والا قبر کے عذاب اور فرشتوں کے سوالات سے محفوظ رہتا ہے، حضرت ابن عمرو رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:
ما من مسلمٍ يموت يوم الجمعة أو ليلة الجمعة، إلا وقاه الله فتنة القبر» [رواه التّرمذي]
جو مسلمان جمعہ کے دن یا رات میں فوت ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے قبر کی آزمائش سے بچا دیتے ہیں۔ [أحمد والترمذي وصححه الألباني].

جمعه كےأحكام اور آداب:
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ جمعہ کے دن کی تعظیم کرے، اس دن کے فضائل کو غنیمت جانے اور اس دن ہر قسم کی عبادتوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرے، یومِ جمعہ کے کچھ آداب اور احکام ہیں، جن سے آراستہ ہونا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔
نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کا طریقہ کار یہ تھا کہ آپ صلى الله عليه وآله وسلم دیگر ایام کے مقابلے مخصوص عبادتوں کے ذریعے جمعہ کے دن کی تعظیم وتکریم کرتے تھے،
1-مستحب ہے کہ امام جمعہ کی فجر میں مکمل سورہ سجدہ اور سورہ دھر پڑھے،جیسا کہ آپ صلى الله عليه وآله وسلم کا طریقہ تھا، اور کسی ایک سورت پر اکتفاء نہ کرے، جیسا کہ بعض ائمہ کا معمول ہے۔

2-جمعہ کے دن کثرت سے درود شريف پڑھنا مستحب ہے۔ حضرت اوس بن اوس رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے، نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:
(تمہارے دنوں میں افضل ترین دن جمعہ ہے،اسی روز آدم کی تخلیق ہوئی، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی اور اسی دن صور پھونكا جائےگا، اور اسى ميں بے ہوشى طارى ہو گى، لہذا مجھ پر اس دن كثرت سے درود پڑھو، كيونكہ تمہارا درود مجھ پر پيش كيا جاتا ہے) [رواه أبو داود والنّسائي وابن ماجه وصححه الألباني]

3- نماز ِجمعہ ہر آزاد مکلف مقیم مرد پر فرض ہے، لہٰذا کسی مسافر، کسی عورت یا غلام پر جمعہ واجب نہیں ہے، ہاں ان میں سے کوئی اگر جمعہ میں شریک ہوجائے توان کی نماز ِجمعہ درست ہے، بیماری یا خوف وغیرہ جیسے عذر کی وجہ سے نماز جمعہ ساقط ہوجاتی ہے۔ [الشرح الممتع ].

4-جمعہ کے دن غسل کرنا نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کی سنت ہے۔ آپ صلى الله عليه وآله وسلم کا فرمان ہے: ’’إذا جاء أحدكم إلى الجمعة فليغتسل‘‘ (جب تم میں سے کوئی جمعہ کے لیے آئے تو چاہیے کہ غسل کرے) [متفق عليه].

5-خوشبو کا استعمال کرنا، مسواک کرنا اور اچھا لباس زیبِ تن کرنا، جمعہ کے آداب میں شامل ہے، حضرت ابوایوب رضي الله تعالى عنه فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
من اغتسل يوم الجمعة ومس من طيب امرأته إن كان لها ولبس من صالح ثيابه ثم لم يتخط رقاب الناس ولم يلغ عند الموعظة كانت كفارة لما بينهما»
(جس نے جمعہ کے دن غسل کیا،اگر خوشبو ہوتو استعمال کیا، بہترین کپڑے پہنے، پھر اطمینان کے ساتھ مسجد کی جانب نکلا، اگر موقع ملے تو دو رکعت پڑھی، کسی کو تکلیف نہیں دی، پھر امام کے خطبہ ختم کرنے تک خاموش رہا، (اس کا یہ عمل) دوسرے جمعہ تک گناہوں کا کفارہ ہے)۔ [ أبو داود ].

ابوسعید خدری رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے، نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا كه جمعہ کے دن غسل کرنا ہر بالغ پر ضروری ہے، اسی طرح مسواک کرنا اور اگر قدرت ہوتو خوشبو کا استعمال کرنا (أبو داؤد)

6-نماز ِجمعہ کے لیے جلدی جانا مستحب ہے، لیکن آج اس سنت سے بهت زياده غفلت هو رهي هے ، اللہ تعالیٰ اس سنت کو زندہ کرنے والوں کی زندگی میں برکت دے۔ (آمين)
اور آپ صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد گرامی ہے كه جب جمعہ كا دن ہوتا ہے تو مسجد كے ہر دروزاے پر فرشتے كھڑے ہو كر پہلے آنے والے كو پہلے لكھتے ہيں، سب سے پہلے آنے والا شخص اس كى طرح ہے جس نے اونٹ قربان كيا ہو، اوراس كے بعد اس كى طرح جس نے گائے قربان كى اور اس كے بعد جس نے مينڈھا قربان كيا ہے، پھر وہ جس نے مرغى قربان كى ہو پھر وہ جس نے انڈا قربان كيا ہو، اور جب امام نکلے اور منبر پر بيٹھ جائے تو وہ اپنے رجسٹر لپيٹ كر ذكر سننے آجاتے ہيں)[رواه مسلم]

7-جمعہ کے دن مستحب ہے کہ امام کے خطبے کے لیے آنے تک لوگ نفل نمازوں، ذکر اور تلاوت قرآن میں مصروف رہیں۔

8-خطبہ کے دوران خاموش رہنا اور بغور خطبہ سننا واجب ہے، حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے، نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:
(اگر تم نے جمعہ کے دن امام کے خطبہ کے دوران اپنے ساتھی سے کہا: خاموش رہو، تو تم نے غلطی کی)۔ اور احمد کی روایت میں اس طرح ہے: «’’اور جس نے غلطی کی اس( جمعہ کے اجر وثواب) میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے‘‘۔[متفق عليه].
اور ابوداؤد کی روایت میں ہے: «اور جس نے غلطی یا خطا کی؛ تو وہ (جمعہ کے ثواب سے محروم ہوجاتا ہے) ظہر کا اجر پاتا ہے۔ [ابن خزيمة].

9-جمعہ کے دن سورۂ کہف کی تلاوت مستحب ہے، حضرت ابوسعید خدری رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:
(جس نے جمعہ کے دن سورۂ کہف پڑھی تو اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اس کے لیے نور کو روشن کردیا جاتا ہے)۔ [ صحيح الجامع]

10- جمعہ کے دن وقتِ جمعہ کے دُخول کے بعد جس پر جمعہ واجب ہوجائے اس کے لیے جمعہ سے پہلے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ [زاد المعاد ].

11-بطور خاص جمعہ کے دن کو روزہ کے لیے خاص کرنا اور اس کی رات کو قیام کے لیے خاص کرنا مکروہ ہے، حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:
جمعہ کی رات کو قیام کے لیے خاص نہ کرو، اور دنوں میں جمعہ کے دن کو روزے کے لیے خاص نہ کرو، مگر یہ کہ کوئی سلسلہ وار روزے رکھ رہا ہو)۔[رواه مسلم ]

12-جو شخص جمعہ کے دن روزہ رکھنے کا خواہاں ہو اسے چاہیے کہ وہ جمعہ سے پہلے والے دن (جمعرات) یا بعد والے دن(ہفتہ) کو رکھے؛ حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے، نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:
( تم میں سے کوئی جمعہ کے دن ہرگز روزہ نہ رکھے،مگر یہ کہ اس سے پہلے والے ایک دن(بھی) رکھے یا بعد والے دن)۔[رواه البخاري ]

13-جمعہ کے دن مستحب ہے کہ امام نمازِ جمعہ میں سورہ ٔ جمعہ اور سورہ ٔ منافقون، یا سورۂ اعلی اور غاشیہ پڑھے، نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم یہ سورتیں پڑھا کرتے تھے‘‘۔ [مسلم].

جمعہ اور نمازيوں كي غلطیاں:
1-بعض لوگ نمازِ جمعہ کاہلی اور سستی کی وجہ سے چھوڑدیتے ہیں، حالانکہ نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کا فرمان ہے:
(خبردار! لوگ جمعہ چھوڑنے سے رُک جائیں یا پھر اللہ تعالیٰ اُن کے دلوں پر مہر لگادے گا، پھر یہ لوگ غافلین میں سے ہوجائیں گے)۔

2-ّجمعہ کی رات میں دیر تک شب بیداری کرنا، اور نمازِ فجر کے وقت سوتے رہنا، جس کی وجہ سے جمعہ کے دن کا آغاز ہی کبیرہ گناہ سے ہوتا ہے، حالانکہ فرمان نبوی صلى الله عليه وآله وسلم ہے:
(اللہ تعالیٰ کے نزدیک نمازوں میں افضل ترین نماز جمعہ کے دن کی باجماعت فجر کی نماز ہے)۔

3-خطبہ جمعہ میں شریک ہونے میں غفلت اورر سستی سے کام لینا،بعض لوگ خطبہ کے دوران مسجد پہنچتے ہیں اور بعض کا تو یہ حال ہوتا ہے اس وقت مسجد پہنچتے ہیں جب جمعہ کی نماز شروع ہوجاتی ہے۔

4-جمعہ کا غسل چھوڑنا، خوشبو کا استعمال نہ کرنا، مسواک کا اہتمام نہ کرنا اسی طرح جمعہ کے دن اچھے کپڑے زیب تن نہ کرنا۔

5- گردنيں پھلانگنا اور دو کے درمیان تفریق کرنا اور بیٹھے ہوئے لوگوں پر تنگی کرنا۔ ’’ نبى كريم صلى اللہ عليہ وآله وسلم جمعہ كا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے كہ ايك شخص لوگوں كى گردنيں پھلانگتا ہوا آيا، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وآله وسلم نے اس سے فرمايا:بیٹھ جا تونے تکلیف دی اور تاخیر کی۔[ابن ماجه ]

6- باتوں یا تلاوت کے ذریعے آواز بلند نہ کرے، کہ نمازیوں اور دیگر تلاوت کرنے والوں کو دشواری کا سامنا نہ ہو۔

7- -خطبہ کے دوران خطیب کی جانب توجہ نہ دینا غلط هے خطبه كے دوران پوري توجه سے خطبه كو سننے كي كوشش كرني چاهيے

8- دونوں خطبوں کے دوران کے وقفے میں دعا اور استغفار پڑھنا مشروع ہے۔ لیکن نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔

9- نماز کے دوران کثرت سے حرکت کرنا، اور امام کا سلام پھیرتے ہی مسجد سے نکلنا، اور نماز کے بعد کے اذکار چھوڑ کر مسجد کے دروازوں پر بھیڑ کرنا بهي درست نهيں هے

نماز جمعہ كي رکعات :
نماز جمعہ ميں چوده  رکعات پڑھی جاتی ہیں۔
چار ركعات سنت مؤکدہ جمعه كے خطبه سے پهلے
دو ركعات فرض جماعت كيساتهـ
چار ركعات سنت مؤکدہ + دو ركعات سنت مؤکدہ + دو ركعات نفل جمعه كي نماز كے بعد
وصلى الله وسلم وبارك على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم

15- عيدين كي نماز کی فضيلت :

عیدالفطر:
عید الفطر مسلمانوں کے لیے بہت زیادہ خوشی کا دن ہے،اس خوشی کی وجہ یہ ہے کہ اس دن مسلمان اللہ جل شانہ کی توفیق اور اس کے فضل وکرم سے اپنے ذمہ عائد ایک بہت بڑے فریضے کی تکمیل کر چکے ہوتے ہیں،پورا مہینہ دن کو روزہ اور شب میں تراویح کی ادائیگی اور اس میں کلامِ الہی کے پڑھنے اور اس کے سننے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔اس محنت کا بدلہ یا مزدوری اس عید الفطر کے دن دیا جاتا ہے ،اسی لیے اس دن کو آسمانوں میں ”یوم الجائزة“(انعام کا دن) اور اس کی رات کو”لیلة الجائزة“(انعام کی رات) کہہ کر پکارا جاتا ہے، الغرض عید کے دن اور اس کی رات کی اللہ تعالی کے نزدیک بہت بڑی فضیلت اور اہمیت ہے۔
إيك حديث ميں آيا هے كه جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو (آسمانوں میں) اس کا نام” لیلة الجائزة“ (انعام کی رات ) سے لیاجاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ رب العزت فرشتوں کو تمام شہروں کی طرف بھیجتے ہیں، وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں (راستوں )کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایسی آوازسے، جس کوجن و انس کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے، پُکارتے ہیں کہ اے امتِ محمدیہ ! اُس ربِ کریم کی(بارگاہ کی) طرف چلو، جو بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے،پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالی شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں :کیا بدلہ ہے اُس مزدور کا جو اپنا کام پورا کر چکا ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے معبود اور مالک ! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کو اس کی مزدوری پوری پوری ادا کر دی جائے،تو اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں: فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کر دی۔
اس کے بعد اللہ تعالی اپنے بندوں سے خطاب فرما کر ارشاد فرماتے ہیں:”
اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزت کی قسم!میرے جلال کی قسم!آج کے دن اپنے اس اجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کروگے عطا کروں گااوردنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے اس میں تمہاری مصلحت پر غور کروں گا،میری عزت کی قسم!جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں کی ستاری کرتا رہوں گا (اور ان کو چُھپاتا رہوں گا)۔میری عزت کی قسم! میرے جلال کی قسم!میں تمہیں مجرموں(اور کافروں) کے سامنے رُسوا نہیں کروں گا، بس! اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کی طرف لوٹ جاوٴ،تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا،پس فرشتے اس اجرو ثواب کو دیکھ کر، جو اس امت کوافطار کے دن ملتا ہے، خوشیاں مناتے ہیں اورکھِل جاتے ہیں۔(اللھم اجعلنا منھم،آمین)․

عید الاضحٰی:

دوسری عید کو قربانی کی مناسبت سے عید الاضحی (یعنی قربانی کی عید ) کہا جاتا ہے جو کہ ہر سال ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو منائی جاتی ہے۔
کسی حلال جانور کو اﷲ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کرنا قربانی کہلاتا ہے۔ سب سے پہلی قربانی حضرت آدم عليه السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل نے دی۔ قربانی کے قبول ہونے یا نہ ہونے کہ پہچان پہلے انبیاء علیھم السلام کے زمانے میں یہ ہوتی تھی کہ جس قربانی کو اﷲ تعالیٰ قبول فرماتے تو آسمان سے ایک آگ آتی اور اس کو جلا دیتی تھی۔ اس زمانہ میں کفار سے جہاد کے ذریعہ جو مالِ غنیمت ہاتھ آتا تھا اس کو بھی آسمان سے آگ نازل ہو کر کھا جاتی تھی، یہ اس جہاد کے مقبول ہونے کی علامت سمجھی جاتی تھی۔
اُمتِ محمدیہ صلى الله عليه وآله وسلم پر اﷲ تعالیٰ کا یہ خصوصی انعام ہوا کہ قربانی کا گوشت اور مالِ غنیمت ان کے لئے حلال کر دیے گئے۔حدیث شریف میں رسول اﷲ صلى الله عليه وآله وسلم نے اپنے خصوصی فضائل اور انعاماتِ الٰہیہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ( اُحِلَّت لِی الغَنَائِم)میرے لئے مالِ غنیمت حلال کر دیا گی یعنی مالِ غنیمت کو استعمال کی اجازت دے دی گئی۔

قربانی-سنتِ ابراہیمی-حضرت ابراہیم ؑعليه السلام کا خواب:
ایک رات حضرت ابراہیم عليه السلام نے خواب دیکھا کہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑعليه السلام کو ذبح کر رہے ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خواب حضرت ابراہیم عليه السلام کو تین روز متواتردکھایا گیا (قرطبی)۔ اور یہ بات طے شدہ ہے کہ انبیاء علیھم السلام کا خواب وحی ہوتا ہے، اس لیے اس خواب کا مطلب یہ تھا کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حضرت ابراہیم عليه السلام کو حکم ہوا ہے کہ اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کر دیں۔یوں یہ حکم براہِ راست کسی فرشتے وغیرہ کے ذریعے بھی نازل کیا جا سکتا تھا لیکن خواب دکھانے کی حکمت بظاہریہ تھی کہ حضرت ابراہیم ؑعليه السلام کی اطاعت شعاری اپنے کمال کے ساتھ ظاہر ہو، خواب کے ذریعے دیے ہوئے حکم میں انسانی نفس کے لئے تاویلات کی بڑی گنجائش تھی، لیکن حضرت ابراہیم عليه السلام نے تاویلات کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے ﷲ تعالى کے حکم کے آگے سر تسلیمِ خم کر دیا۔ِ
حضرت ابراہیم ؑعليه السلام نے بیٹے حضرت اسماعیل ؑعليه السلام سے اس سلسلے میں ان کی رائے پوچھی۔ حضرت ابراہیم ؑعليه السلام نے یہ بات حضرت اسماعیل ؑعليه السم سے یہ بات اس لئے نہیں پوچھی کہ آپؑ کو حکمِ الٰہی کی تعمیل میں کوئی تردد تھا، بلکہ ایک تو وہ اپنے بیٹے کا امتحان لینا چاہتے تھے کہ وہ اس آزمائش میں کس حد تک پورا اترتے ہیں؟ دوسرے انبیاء علیھم السلام کا طرز ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ احکامِ الٰہی کی اطاعت کیلئے تو ہر وقت تیار رہتے ہیں، لیکن اطاعت کیلئے ہمیشہ راستہ وہ اختیار کرتے ہیں جو حکمت اور حتی المقدور سہولت پر مبنی ہو، آپ نے یہ بات بیٹے سے مشورے کے انداز میں اس لئے ذکر کی کہ بیٹے کو پہلے سے اﷲ تعالیٰ کا حکم معلوم ہو جائے اور وہ ذبح ہونے کی اذیت سہنے کیلئے پہلے سے تیار ہو سکے۔لیکن وہ بیٹا بھی اﷲ کے خلیل کا بیٹا تھا اور اسے خود منصبِ رسالت پر فائز ہونا تھا، انھوں نے جواباً فرمایا:۔
’’ابّا جان! جس بات کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اُسے کر گزرئیے قرآن مجيد ميں اس كا نقشه كچهـ يوں كهينچا گيا هے
رَبِّ ہَبۡ لِیۡ من الصّٰلِحِیۡنَ 0    فَبَشَّرۡنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِیۡمٍ 0    فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعۡیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ اَذۡبَحُکَ فَانۡظُرۡ مَاذَا تَرٰی ؕ قَالَ یٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ ۫ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ 0    فَلَمَّاۤ اَسۡلَمَا وَ تَلَّہٗ لِلۡجَبِیۡنِ 0    وَ نَادَیۡنٰہُ اَنۡ یّٰۤاِبۡرٰہِیۡمُ 0    قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡیَا ۚ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ 0    اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الۡبَلٰٓـؤُا الۡمُبِیۡنُ 0  وَ فَدَیۡنٰہُ بِذِبۡحٍ عَظِیۡمٍ 0 وَ تَرَکۡنَا عَلَیۡہِ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ 0    سَلٰمٌ عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ 0    کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ 0     اِنَّہٗ مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُؤۡمِنِیۡنَ 0  (سورة الصافات) 
’’(ابراہیمؑ نے کہا)اے پروردگار ! مجھے ایک بیٹا عطا کو جو صالحوں میں سے ہو.(اس کی دعا کے جواب میں ) ہم نے اس کو ایک حلیم (بردبار) لڑکے کی بشارت دی. وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو(ایک روز) ابراہیمؑ نے اس کہا:بیٹا! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں،اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے اُس نے کہا: ابّا جان! جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالئے، آپ ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں کے میں سے پائیں گے.آخر کو جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیمؑ نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا. اور ہم نے ندادی کہ اے ابراہیم تو نے اپنا خواب سچ کرد کھایا.ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی جزا دیتے ہیں . یقیناََ یہ ایک کھلی آزمائش تھی. اور ہم نے بڑی عید قربانی فدیئے میں دے کر اس (بچے) کو چھڑالیا اور اس (قربانی) کو (بطور یادگار ہمیشہ کے لئے)بعد کی نسلوں میں چھوڑ دیا. سلام ہے ابراہیم پر. ہم نیکوں کاروں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں. یقیناََ وہ ہمارے مؤمن بندوں میں سے تھاَ‘‘
اس سے حضرت اسماعیل عليه السلام ؑ کے بے مثال جذبہءِ ایثاری کی تو شہادت ملتی ہی ہے، اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کم سِنی ہی میں ﷲ نے انھیں کیسی ذہانت اور کیسا علم عطا فرمایا تھا۔اگرچہ حضرت ابراہیم عليه السلام نے انھیں ﷲ کے کسی حکم کا حوالہ نہیں دیا تھا لیکن وہ سمجھ گئے کہ انبیاء علیھم السلام کا خواب وحی ہوتا ہے، چنانچہ انھوں نے جواب میں خواب کے بجائے حکمِ الٰہی کا تذکرہ فرمایا۔
حضرت اسماعیل عليه السلام نے اپنی طرف سے اپنے والد بزرگوار کو یہ یقین بھی دلایا کہ:۔
’’ ان شاء اﷲ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘
اس جملے میں حضرت اسماعیل عليه السلام کی ادب اور تواضع کو تو دیکھیے، ایک تو
اِن شاء ﷲ کہہ کر معاملہ اﷲ کے سپرد کر دیااور اس وعدے میں دعوے کی جو ظاہری صورت پیدا ہو سکتی تھی اسے ختم فرما دیا۔
چنانچہ ان دونوں باپ بیٹے نے ﷲ کے حکم کی تعمیل کا مصمم ارادہ کر لیا اور اس ارادے سے گھر سے نکل پڑے۔ راستے میں تین مرتبہ شیطان نے حضرت ابراہیم عليه السلام کو مختلف حیلے،بہانوں سے بہکانے کی کوشش کی لیکن ہر بار حضرت ابراہیم ؑعليه السلام نے اسے سات کنکریاں مار کر بھگا دیا۔ (آج تک منٰی کے تین جمرات پر اسی محبوب عمل کی یاد میں کنکریاں ماری جاتی ہیں)بالآخر جب وہ دونوں باپ بیٹا یہ انوکھی عبادت انجام دینے کے لئے قربان گاہ پہنچے تو حضرت اسماعیل عليه السلام نے اپنے والد سے کہا کہ ’’ ابا جان! مجھے خوب اچھی طرح باندھ دیجیے، تاکہ میں زیادہ تڑپ نہ سکوں اور اپنے کپڑے بھی مجھ سے بچائیے، ایسا نہ ہو کہ ان پر میرے خون کی چھینٹیں پڑیں تو میرا ثواب گھٹ جائے، اس کے علاوہ میری والدہ میرا خون دیکھیں گی تو انھیں زیادہ غم ہو گا، اور اپنی چھری تیز کر لیجیے اور اسے میرے حلق پر ذرا جلدی جلدی پھیریے گا تاکہ آسانی سے میرا دم نکل سکے کیونکہ موت بڑی سخت چیز ہے اور جب آپ میری والدہ کے پاس جائیں تو انھیں میرا سلام کہہ دیجیے گا، اور اگر آپ میری قمیص میری والدہ کے پاس لے جانا چاہیں تو لے جاہیں، شاید اس سے انھیں کچھ تسلی ہو‘‘ اکلوتے بیٹے کی زبان سے یہ الفاظ سن کر ایک باپ کے دل پر کیا گزر سکتی ہے اس کا اندازہ لگانا نہایت مشکل ہے۔ مگر حضرت ابراہیم عليه السلام استقامت کا پہاڑ بن کر جواب دیتے ہیں کہ ’’بیٹے! تم اﷲ کے حکم پورا کرنے کے لئے میرے کتنے اچھے مددگار ہو۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے بیٹے کو بوسہ دیا اور پُرنم آنکھوں سے انھیں باندھ دیا۔
حضرت ابراہیم ؑعليه السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل عليه السلام ؑ کو سیدھا زمین پر لٹایا اور گلے پر چھری چلانے لگے لیکن بار بار چھری چلانے کے باوجود گلا نہیں کٹتا تھا کیونکہ اﷲ نے اپنی قدرت سے چهري سے كاٹنے كي صلاحيت ختم فرما دي تهي - اس موقع پر بیٹے نے خود یہ فرمائش کی کہ ابا جان ! مجھے چہرے کے بل کروٹ سے لٹا دیجئے، اس لئے کہ جب آپ کو میرا چہرا نظر آتا ہے تو شفقت پدری جوش مارنے لگتی ہے اور گلا نہیں کٹ پاتا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم عليه السلام ؑ نے انھیں اوندھے منہ زمین پر لٹا دیا اور پھر سے چھری چلانا شروع کر دی۔ لیکن اﷲ تعالى کو تو بس ان کا امتحان لینا مقصود تھا، جس میں وہ پوری طرح کامیاب ہو چکے تھے۔ غیب سے ایک آواز آئی اور ہم نے انھیں آواز دی کہ اے ابراہیم ! تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا یعنی اﷲ کے حکم کی تعمیل میں جو کام تمھارے کرنے کا تھا اس میں تم نے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ اب یہ آزمائش پوری ہو چکی اس لیے اب انھیں چھوڑ دو۔ ’’ہم مخلصین کو ایسا یہ صلہ دیا کرتے ہیں

یعنی جب کوئی بندہ ﷲ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرکے اپنے تمام جذبات کو قربان کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو ہم بالآخر اسے دنیاوی تکلیف سے بھی بچا لیتے ہیں اور آخرت کا اجر و ثواب بھی اس کے نامہءِ اعمال میں لکھ دیتے ہیں۔ حضرت ابراہیم عليه السلام نے یہ آسمانی آواز سن کر اوپر دیکھا تو حضرت جبرئیل عليه السلام ایک مینڈھا لئے کھڑے تھے۔
’’اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض میں دیا‘‘(القرآن)
یہ جنتی مینڈھا الله تعالى كي جانب سے حضرت ابراہیم ؑعليه السلام کو عطا ہوا اور انھوں نے اﷲ کے حکم کے عین مطابق اپنے بیٹے کو چھوڑ کر اس مینڈھے کو قربان کیا۔ اس ذبیحہ کو ’ ’ عظیم ‘‘ اس لئے کہا گیا کہ یہ اﷲ تعالى کی طرف سے آیا تھا اور اس کی قربانی کے مقبول ہونے میں کسی کو کوئی شک نہیں ہو سکتا۔

آج تمام مسلمان حضرت ابراہیم عليه السلام کی اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے عید الاضحی کے دن جانور قربان کرتے ہیں۔اور حجاجِ کرام تین جمرات کو سات سات کنکریاں مارتے ہیں۔ اور حضرتِ ہاجرہ رحمه الله کی سنت پر عمل کرتے ہوئے صفا و مروٰی پر سعی بهي کرتے ہیں۔

مسائلِ قربانی:

قربانی کے جانور:
1۔ اونٹ : عمر کم از کم پانچ (5) سال۔
2۔ گائے ، بھینس : عمر کم از کم دو (2) سال۔
3۔ بھیڑ ، بکری : عمر کم از کم ایک(1) سال۔
نوٹ: بھیڑ کا بچہ اگر ایک سال سے کچھ کم ہو مگر دیکھنے میں ایک سال کا ہی معلوم ہوتا ہو اور اسے اگر ایک سال کی بھیڑوں کے درمیان کھڑا کیا جائے تو وہ ان کے برابر ہی نظر آئے۔ تو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔

جن جانوروں کی قربانی نہیں ہوتی:
1۔ ایسا جانورجس کے جسم کا کوئی بھی عضو پوری طرح یا اس کا کچھ حصہ ضائع ہو چکا ہے یا کٹ چکا ہے۔
2۔ بہت ہی کمزور جانورجو قربان گاہ تک خود چل کے بھی نہ جا سکے۔
3۔ لنگڑا جانور

حصہ داری:
اونٹ، گائے اور بھینس وغیرہ میں زیادہ سے زیادہ سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں، جبکہ بھیڑ، بکری اور دنبہ وغیرہ میں شراکت داری نہیں ہو سکتی۔ بھیڑ ، بکری اور دنبہ وغیرہ کی قربانی صرف ایک ہی بندے کی طرف سے کی جا سکتی ہے۔

نیتِ قربانی:
قربانی کرنے والے تمام افراد کی نیت قربانی کی ہی ہونی چاہیے، اگر گوشت حاصل کرنے کی نیت کی جائے تو قربانی ضائع ہو جاتی ہے۔ قبول نہیں ہوتی۔ اونٹ ، گائے اور بھینس وغیرہ میں شریک تمام افراد کی نیت قربانی کی ہی ہونی چاہیے اگر کسی ایک کی نیت بھی گوشت کی ہوئی تو کسی کی قربانی قبول نہیں ہو گی۔ تمام افراد کی قربانی ضائع ہو جائے گی۔

عید کے دن کے مسنون اور مستحب اعمال :
1-عید کے دن صبح سویرے اٹھنا اور نمازِ فجر اپنے محلے کی مسجد میں پڑھنا۔
2-غسل کرنا۔ جسم کے زائد بال اور ناخن وغیرہ کاٹنا۔
3-مسواک کرنا یه اس مسواک کرنے کے علاوہ ہے جو وضو میں کی جاتی ہے،نیز مسواک کرنا خواتین کے لیے بھی مسنون ہے)۔
4- جو کپڑے پاس ہوں اُن میں سے اچھے عمدہ کپڑے پہننا،نئے ہوں تو نئے پہن لیے جائیں، ورنہ دُھلے ہوئے پہنے جائیں۔
5-خوشبو لگانا(لیکن خواتین تیز خوشبو نہ لگائیں)۔
6- انگوٹھی پہننا(مَرد وں کے لیے زیادہ سے زیادہ ساڑھے چار ماشہ چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے مردون كيلئے سونا چاهے كسي بهي مقدار ميں هو پهننا جائز نهيں هے
7-عيد الفطر والے دن اگر صدقہ فطر ابھی تک ادا نہ کیا ہو تو عید کی نماز سے پہلے پہلے ادا کردينا جاهيےا۔”
8-عید گاہ کی طرف جلدی جانا۔”
9- پیدل چل کر عید گاہ جانا،البتہ اگر کوئی عذر ہو تو سواری پر جانے میں مضائقہ نہیں۔”
10- نمازِعید ،عید گاہ میں ادا کرنا،البتہ اگر کوئی عذر ہو(مثلاً:بارش ہو ،دشمن کا خوف ہو یا عید گاہ میں امام صحیح العقیدہ نہ ہو) تو مسجدِ محلہ میں ہی نمازِ عید ادا کر لی جائے۔
11- عید گاہ کی طرف جاتے ہوئے آہستہ آوازمیں تکبیرات تشریق کہتے ہوئے جانااور عید گاہ پہنچ کر تکبیرات بند کر دینا،تکبیرات تشریق یہ ہیں
”اَللّٰہُ أَکبَر، اَللّٰہُ أکبر،لآإلٰہ إلا اللّٰہُ واللّٰہُ أکبر،اللّٰہُ أکبر ولِلّٰہِ الحمد“۔
12- عید الفطر کی نماز کے لیے جانے سے پہلے کچھ کھا لینا،اگر کوئی میٹھی چیز ہو(کھجور،چھوہارے یا کوئی اور چیز )تو طاق عدد میں کھانا بہتر ہے اور اگر میٹھی چیز نہ ہو تو کوئی بھی چیز کھا لی جائے۔ اور عيدالأضحي كو نماز ادا كركے قرباني كا گوشت كهانا- قرباني كا گوشت اگر ميسر نه هو تو كوئى جيز بهي كهائى جاسكتي هے
13-* نمازِ عید ادا کرنے کے بعد واپسی پر راستہ بدل کر آنا۔
14-ہر کسی سے خوش اخلاقی سے پیش آنا اور بشاشت کا اظہار کرنا اور غیض و غضب سے پرہیز کرنا۔ نرم رويه أختيار كرنا
15- اپنی وسعت کے مطابق مستحقین اور مساکین کی مدد کرنا۔”
16- اپنی حیثیت کے مطابق اپنے گھر والوں پر کھانے وغیرہ کے اعتبار سے کشادگی کرنا۔
17- اگر ممکن ہو تو عید کے دن جبہ پہننا۔
18-ایک دوسرے کو مبارک باد دینا(بشرطیکہ اس کو لازم نہ سمجھا جائے)۔

نمازِ عید کا طریقہ:
عید کی نماز دو رکعت ہے ،اس کا طریقہ عام نمازوں کی ہی طرح ہے ،البتہ اس نماز میں أحناف كے نزديك چھ تکبیریں زائد ہوتی ہیں (تین پہلی رکعت میں قراء ت سے پہلے اور تین دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے)یہ تکبیرات واجب ہیں، اور ان کا ثبوت نبی کریم صلی الله علیہ وآله وسلم ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور کئی تابعین کرام سے ہے۔(مسند احمد)
نوٹ : فقه حنبلي كے مطابق زائد تكبيرين باره هيں إسي لئے سعودي عرب اور ديگر عرب ممالك ميں باره تكبيريں كهي جاتي هيں

نماز کا طریقہ یہ ہے،سب سے پہلے دل میں یا زبان سے نیت کر لے کہ ”دو رکعت عید کی واجب نماز ،چھ واجب تکبیروں کے ساتھ اس امام کے پیچھے پڑھتا ہوں “اس کے بعد تکبیر تحریمہ یعنی”اللّٰہ أکبر“کہہ کر ہاتھ باندھ لے،پھر ثناء ، یعنی:”سبحٰنک اللہم․․․الخ“پڑھ کے تین بار ”اللّٰہ أکبر“ کہے،پہلی اور دوسری بار کانوں تک ہاتھ اُٹھا کر نیچے لٹکا دے ،البتہ تیسری بار ہاتھ نہ لٹکائے،بلکہ باندھ لے،اس کے بعد امام ”أعوذ باللّٰہ“اور ”بسم الله“پڑھ کے قراءت کرے اور حسبِ قاعدہ پہلی رکعت پوری کرے، دوسری رکعت میں قراءت کرنے کے بعد رکوع سے پہلے اسی طرح تین مرتبہ ”اللّٰہ أکبر“کہے جیسے پہلی رکعت میں کیا تھا،البتہ یہاں تینوں مرتبہ ہاتھ اُٹھا کر چھوڑ دے اور چوتھی بار رکوع کی تکبیر”اللّٰہ أکبر“کہہ کر رکوع میں چلا جائے اور حسبِ قاعدہ نماز مکمل کرے۔

اگر کوئی رکعت یا  کچھ تکبیرات چھوٹ جائیں تونمازِعید میں ملنے کا طریقہ:
نماز عید میں مسبوق(یعنی وہ افراد جن کی کوئی رکعت یا تکبیرات رہ گئی ہوں) کی جتنی بھی صورتیں بن سکتی ہوں ان کو زيل ميں بیان کيا جارها هے:-

1-اگرکوئی شخص ایسے وقت نماز میں شریک ہوا جب امام تکبیراتِ زوائد کہہ چکا تھا، تو ایسے شخص کے لیے حکم یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھنے کے بعد فورا تین تکبیراتِ زوائد کہے اور اس کے بعد خامو شی سے امام کی قرات سنے۔(دردالمحتار)

2-اگرکوئی شخص ایسے وقت نماز میں شریک ہوا جب امام رکوع میں چلا گیا تھا، تو یہ شخص اندازہ کرے کہ اگر وہ قیام کی حالت میں ہی تکبیرات کہہ کر امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہو سکتا ہو، تو ایسا ہی کرے اور اگر اس کا گمان یہ ہو کہ اگر میں نے قیام کی حالت میں تکبیرات کہیں تو امام رکوع سے اٹھ جائے گا، تو اس آ نے والے کو چاہیے،کہ وہ رکوع میں چلا جائے اور رکوع میں تسبیحات کے بجائے تکبیرات کہے، لیکن اس وقت تکبیرات کہتے ہوئے ہاتھ نہیں اٹھائے جائیں گے، بلکہ ہاتھ گھٹنے پرہی رکھے رہیں، ہاں!اگر رکوع میں تکبیرات کہنے کے بعد وقت ہو تو رکوع کی تسبیحات بھی کہہ لی جائیں

3- اگر آنے والا رکوع میں چلا گیا اور ابھی رکوع کی حالت میں ایک بار تکبیر کہہ پایا تھا، یا زیادہ، یا کچھ بھی نہیں کہہ پایا تھا کہ امام رکوع سے اٹھ گیا تو یہ بھی رکوع سے اٹھ جائے، بقیہ تکبیریں اس سے ساقط ہیں۔(عالمگیریہ ، رشیدیہ)

4-اگر کوئی ایسے وقت نمازمیں شریک ہوا جب امام پہلی رکعت کے رکوع سے اٹھ گیا تھا، یا دوسری رکعت میں قرا ت شروع کرچکا تھا، تو اب آنے والا امام کی متابعت کرے، یعنی جس طرح امام کر رہا ہے اسی طرح کرتا رہے، پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد رہ جانے والی رکعت اس ترتیب سے ادا کرے گاکہ اول کھڑے ہو کر ثناء پڑھے،پھرسورةالفاتحہ پڑھے، پھرسورت ملائے اور پھر رکوع میں جانے سے پہلے تین تکبیرات ِزوائد کہے، پھر رکوع میں جائے ، یعنی صورت کے اعتبار سے ”امام کے ساتھ پڑھی ہوئی دوسری رکعت اور یہ رکعت جو ادا کی جا رہی ہے “دونوں رکعتیں ایک جیسی ہوں گی، یہ اصح قول ہے ۔(البحر الرائقہ)

مسافر كي نماز: نمازِ قصر: نماز إيك إيسا فريضه هے جو هر هوش وحواس والے بالغ مسلمان پر هر حالت ميں ضروري هے اگر إيك مسلمان بيمار هے اور كهڑا نهيں هوسكتا تو وه بيٹهـ كر نماز ادا كرے اگر بيٹهنے كي بهي سكت نهيں تو ليٹا هوا هي إشاره سے پڑهے ليكن نماز هر صورت ميں پڑهى جاني ضروري هے إسيطرح سفر ميں إنسان كے معمولات بالكل تبديل هوجاتے هيں ليكن نماز كي آدائيگي سفر ميں بهي ضروري هے البته سفر ميں نماز قصر كرنے كا حكم هے شرعی اعتبار سے مسافر وہ شخص ہے جو کم از کم (54) میل (82 کلومیٹر) مسافت کے ارادے سے اپنے علاقے سے باہر سفر پر روانہ ہو چکا ہو۔ اس پر واجب ہے کہ فقط فرض نماز میں قصر کرے یعنی چار رکعت فرض والی نماز میں دو فرض پڑھے۔ دو يا تين ركعت والى فرض نماز پورى هي پڑهني هوگي قصر كي تعريف اور حكم: سفرمیں چار رکعات فرض والی نمازوں (ظہر، عصر، عشاء) کو نصف کرکے پڑھنا قصر کہلاتا ہے۔ قرآنِ حکیم میں حكم إلهي هے: وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ يَفْتِنَکُمُ الَّذِيْنَ کَفَرُوْاط اِنَّ الْکٰفِرِيْنَ کَانُوْا لَکُمْ عَدُوًّا مُّبِيْنًاo (النساء) ’’اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز میں قصر کرو (یعنی چار رکعت فرض کی جگہ دو پڑھو) اگر تمہیں اندیشہ ہے کہ کافر تمہیں تکلیف میں مبتلا کر دیں گے۔ بے شک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیںo‘‘ مسافر اگر ظہر، عصر اور عشاء کی نماز میں قصر نہ کرے اور پوری رکعات پڑھے تو وہ حكم ربي كي خلاف ورزي اور كفران نعمت كا مرتكب هوكر گنہگار ہوگا، یہ ایسے هی هے جیسے کوئی ظہر کی چھ رکعات فرض پڑھے تو بجائے ثواب کے اسے گناہ ہوگا۔ لیکن اگر مسافر لاعلمی میں قصر کرنا بھول گیا اور اُس نے دو کی بجائے چار رکعات پڑھ لیں اور نماز ختم ہونے سے پہلے یاد آیا اور دوسری رکعت کے آخری قعدہ میں التحیات پڑھنے کی مقدار بیٹھ گیا اور سجدہ سہو کر لیا تو اس کی دو رکعات فرض ہو جائیں گی اور دو نفل اور اگر دوسری رکعت میں نہ بیٹھا تو چاروں رکعات نفل ہوںگی، لہٰذا فرض نماز دوبارہ پڑھے گا۔ نمازِ قصر کرنے کا طریقہ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضر اور سفر میں نمازیں پڑھی ہیں۔ انھوں نے آپ کے ساتھ حضر میں ظہر چار رکعت پڑھی، اس کے بعد دو رکعت سنت اور سفر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ظہر دو رکعت پڑھی اور اس کے بعد دو رکعت سنت ادا کی. اور (سفر میں) عصر کی نماز دو رکعت ادا کی اس کے بعد آپ نے کچھ نہ پڑھا۔ مغرب کی نماز سفر اور حضر میں تین رکعتیں ادا کیں اور آپ سفر و حضر میں مغرب کے فرائض تین سے کم ادا نہیں فرماتے تھے اور یہ دن کے وتر ہیں اور اس کے بعد دو رکعت ادا فرماتے۔ (ترمذی) کسی مسافر کی دورانِ سفر اگر نمازیں قضا ہو جائیں تو گھر پہنچ کر تب بھی چار رکعات والی نمازوں کی دو دو رکعات قصر کے ساتھ قضا پڑھے اور اگر سفر سے پہلے ان میں سے کوئی نماز قضا ہوئی تو سفر کی حالت میں چار رکعات قضاء پڑھے (دونوں صورتوں میں عشاء میں تین وتر بھی پڑھے. جبسا كه اوپر عرض كيا گيا كه قصر صرف فرائض ميں هوگي وه بهي چار ركعت والي نماز ميں- دو يا تين ركعت والي فرض نماز اور وتر سنت اور نفل وغيره ميں قصر نهيں هے

قضا نمازوں كي آدائيگى: نماز كا فريضه كسي بهي صورت ميں ساقط نهيں هوتا اگر كسي وجه سے كسي كي كوئى نماز قضا هوجائے تو وه جلد ازجلد ادا كرنے كي فكر كرے ۔ مقررہ اوقات میں پڑھی جانے والی نماز ادا کہلاتی ہے جب کہ وقت گزرنے کے بعد پڑھی جانے والی نماز قضا کہلاتی ہے

قضا نمازوں كي قسميں : قضا نمازوں كي دو قسميں هيں 1- پهلي قسم يه كه اگر كسي كي كسي وجه سے إيك دو يا إس سے زائد نمازيں قضا هوگئيں هوں تو وه اب يه نمازيں قضا پڑهے گا إس ميں صرف فرائض اور وتر ادا كيے جائيں گے
2- ۔ دوسري قسم يه كه اگر کسی شخص کی بہت سی نمازیں قضا هو چکی ہوں جن کے بارے میں اسے علم نہ ہو کہ کس وقت کی نمازیں زیادہ قضا ہوئیں اور کس وقت کی کم يا اگر کسی شخص نے بلوغت کے کافی عرصہ گزر جانے کے بعد نمازپڑھنا شروع کی ہو یا کبھی پڑھتا ہو اور کبھی چھوڑ دیتا ہو يا بالكل نماز پڑهي هي نه هو تو إن سب صورتوں ميں قضا نمازيں پڑهنے كو قضائے عمری كهتے هيں:

قضائے عمري كا طريقه: صحابه كرام رضوان الله عليهم كے زمانه مبں تو نماز قضا كرنے كا تصور هي نهيں تها إس لئے قضائے عمرى جيسے مسائل كي ضرورت هي پيش نهيں آئى يه ضرورت اسوقت پيش آئى جب مسلمانوں ميں نماز كي إهميت نه رهي اور نماز كو ترك كرنا كوئى عار نه سمجها جانے لگا تو إيسي صورت ميں اكر كوئى الله كا بنده توبه كركے پهر راه راست پر آنا چاهے تو اپني قضا هوئى نمازونكو كيسے مكمل كرے اكر كسي شخص كي كئ دن يا كئى ماه يا كئى سال كي نمازيں قضا هوگئي هوں تو وه سب سے پهلے دو ركعت نماز توبه پڑهے اور خوب گڑگڑا كر الله تعالى سے معافي مانگے اور پهر اس پر لازم ہے کہ زندگی سے متعلقہ ضروری کاموں کے علاوہ سب کام چھوڑ کر نمازوں کی قضا شروع کر دے۔ وہ اس وقت تک قضاء نمازیں ادا کرتا رہے جب تک اس کے غالب گمان کے مطابق تمام قضا نمازیں ادا نہ ہو جائیں۔ اگر کوئی شخص ایسا نہ کرسکے تو اس سے کم درجہ یہ ہے کہ ہر نماز کے ساتھ ایک یا جس قدر ممکن ہو، قضا نماز پڑھتا رہے۔ِ اس کے لیے ضروری ہے کہ نوافل کی بجائے صرف فرض اور واجب رکعتیں ادا کرے۔ اسی کو قضاے عمری کہتے ہیں۔ إيك مغالطه: بعض لوگوں میں یہ مغالطہ پایا جاتا ہے کہ رمضان المبارك کے كسي دن يا آخری جمعہ کو ایک دن کی پانچ نمازیں مع وتر قضائے عمري كي نيت سے پڑھ لی جائیں يا خانه كعبه ميں جهاں إيك نماز كا ثواب إيك لاكهـ كے برابر هے إيك دن كي نمازيں قضائے عمري كي نيت كركے پڑهـ لي جائيں تو ساری عمر کی قضا نمازیں ادا ہو جائیں گی. یہ قطعاً باطل خیال ہے۔ حرم مكه ميں نمازوں كي آدائيگي كا ثواب اور رمضان کی خصوصیت، فضیلت اور اجر و ثواب کی زیادتی اپنی جگہ درست هے لیکن ایک دن کی قضا نمازیں پڑھنے سے ایک دن کی ہی نمازیں ادا ہوں گی، ساری عمر کی نہیں۔ قضا نمازوں کی معافی: حالتِ جنون یا مرض كي إيسي كيفيت (جس میں اشارہ سے بھی نماز نہ پڑھی جا سکے) اور يه حالتِ جنون یا مرض مسلسل چھ نمازوں کے وقت میں رہا هو یا جو شخص معاذﷲ مرتد ہو گیا پھر دوباره اسلام قبول كرليا هو تو حالتِ جنون یا مرض اور زمانہ اِرتداد کی نمازوں کی قضا نہیں ہوگی، یہ نمازیں معاف ہیں۔ كچهـ لوگوں كا خيال يه هے كه قضا كي هوئى نمازوں كي ادا كرنے كي ضرورت نهيں بلكه توبه سے هي تمام نمازيں معاف هوجائيں گي اور بس آئنده نماز كا پابند رهے يه لوگ دليل يه ديتے هيں كه رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے يا كسي صحابي نے كسي كو قضائے عمري كے لئے نهيں كها اور نه هي صحابه كرام رضوان الله عليهم ميں سے كسي نے قضائے عمري پڑهي أن كي يه دليل اپني جگه درست هے ليكن جيسا كه اوپر عرض كيا گيا كه قرون أولى كے زمانوں ميں تو نماز كو قضا كرنے كا تصور هي موجود نه تها إس لئے إس كي ضرورت هي پيش نهيں آئى يه ضرورت اس وقت پيش آئي جب امت ميں كثرت سے نماز نه پڑهنے كا ماحول پيدا هوگيا دوسري بات يه هے كه سچي توبه سے گناه تو معاف هوجاتا هے ليكن فرض - قرض يا كسي كا كوئى حق جو لے ليا گيا هو وه تو معاف نهيں هوتا تو نمازوں كا فرض كيسے معاف هوسكتا هے پهر إيك أشكال يه بهي كيا جاتا هے كه بالفرض كسي شخص كي دس سال كي نمازيں قضا هوچكي هيں اور وه شخص اب تائب هوگيا هے اور اس نے قضائے عمري بهي شروع كرلي هے ليكن دو يا چار سال كے بعد جبكه ابهي اس كي قضا نمازيں مكمل نهيں هو پائى تهيں وه شخص فوت هوجاتا هے تو اب بقايا نمازوں كا كيا بنے گا تو إس كا جواب يه هے كه زندگي كسي كے اپنے هاتهـ ميں نهيں كسي كو معلوم نهيں وه كب مرجائے گا ليكن الله تعالى نيتوں كو جانتے هيں الله تعالى كو خوب معلوم هے اس كي نيت كيا تهي؟ اگر نيت تمام قضا نمازيں ادا كرنے كي اس كي تهي اور عملي طور پر جب تك وه زنده رها قضا نمازيں ادا كرنے كا إهتمام بهي كرتا رها تو پهر موت كي صورت ميں الله تعلى كي رحيم وكريم ذات سے پوري أميد هے كه الله تعالى اس كي باقي نمازوں كو معاف فرما ديں گے كيونكه زندگي تو اس كے هاتهـ ميں نهيں تهي الله تعالى هميں پابندي سے پنجگانه نمازوں كا إهتمام كرنے كي كي توفيق عنايت فرمائے اور اگر خدانخواسته بلوغت كے بعد كهبي بهي اور كسي بهي طرح كچهـ نمازيں قضا هوگئي هوں , كم هوں يا زياده تو جلد از جلد أن قضا نمازوں كو ادا كرنے كي توفيق عنايت فرمائے ( آمين ثم آمين)
نماز کی قضاء کا حکم: علماء امت کا اتفاق ہے کہ فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اسلام میں زنا کرنے، چوری کرنے اور شراب پینے سے بھی بڑا گناہ نماز کا ترک کرنا ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ہر نماز وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کرے اور اگر کبھی کوئی نماز وقت پر ادا نہ کرسکے تو اسے پہلی فرصت میں قضا نماز پڑھنی چاہیے۔ ہماری اور ہمارے علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اس بات کی کوشش وفکر کریں کہ امتِ مسلمہ کا ہر ہر فرد وقت پرخشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے والا بن جائے کیونکہ اسی میں ہماری اور تمام انسانوں کی اخروی کامیابی مضمر ہے؛ جیسا کہ رب العزت نے سورة الموٴمنون كى إبتدائى آیات میں إسكو بیان فرمایا ہے۔ نماز بالکل هي نہ پڑھنے والوں یا صرف جمعہ وعیدین یا کبھی کبھی پڑھنے والوں کا قرآن وحدیث کی روشنی میں شرعی حکم کیا ہے؟ علماء كرام نے هر دور ميں إس كے جواب ديئے هيں چنانچه سعودی عرب کے مشہور عالم دین اور سعودي عرب كي مركزي دارالآفتاء كميٹي كے إيك بهت هي إهم ركن الشیخ محمد بن صالح العثیمین نے عربي زبان ميں إيك کتاب "حکم تارک الصلاة" تصنيف كي هے إس كتاب میں شيخ موصوف نے أمت كے فقہاء وعلماء کی مختلف آراء تحریر کی ہیں ذيل ميں كتاب كے كچهـ إقتصابات تحرير كيے جاتے هيں :- 1- حضرت امام احمد ابن حنبل رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ ایسا شخص (يعني تارك نماز) کافر ہے ۔ اس کی سزا یہ ہے کہ اگر توبہ کرکے نماز کی پابندی نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے۔
2-حضرت امام مالک رحمة الله عليه اور حضرت امام شافعی رحمة الله عليه کہتے ہیں کہ نماز کو چھوڑنے والا کافر تو نہیں؛ البتہ اس کو قتل کیا جائے گا۔
3-حضرت امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ اس کو قتل نہیں کیا جائے گا؛ البتہ حاکم وقت اس کو جیل میں ڈال دے گا اور وہ جیل ہی میں رہے گا، یہاں تک کہ توبہ کرکے نماز شروع کردے یا پھر وہیں مرجائے۔ قرآن وحدیث میں نماز کی وقت پر ادائیگی کی خصوصی تاکید کے باوجود بعض مرتبہ نماز فوت ہوجاتی ہے، کبھی بھول سے، کبھی کوئی عذر لاحق ہونے کی بنا پر اور کبھی محض لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں جمہور فقہاء وعلماء ومحدثین ومفسرین کا اتفاق ہے کہ تمام فوت شدہ نمازوں کی (چاهے ان كي تعداد كتني هي كيوں نه هو ) قضا کرنی چاہیے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے متعدد مرتبہ ارشاد فرمایا کہ اگر نماز وقت پر ادا نہ کرسکیں تو بعد میں اس کو پڑھیں، حضرت انس رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص نماز کو بھول جائے تو جب اس کو یاد آئے فوراً پڑھ لے، اس کا سوائے اس کے کوئی کفارہ نہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے نماز قائم کرو میری یاد کے واسطے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) بعض روایات میں اس حدیث کے الفاظ اس طرح وارد ہوئے ہیں: جو شخص نماز کو بھول جائے یا اس کو چھوڑ کر سوجائے ، اس کا کفارہ یہ ہے کہ جب یاد آئے اسے پڑھے۔ حدیث کی مشہور کتاب ترمذی میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جو بھی نماز کو بھول جائے یا اس سے سو جائے تو وہ جب بھی یاد آئے اس کو پڑھ لے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ تاخیر سے سونے کی عادت بنا کر فجر کی نماز کے وقت سوتے رہنا گناہ کبیرہ ہے۔ دیگر احادیث کی روشنی میں اس حدیث میں سوتے رہنے سے مراد یہ ہے کہ نماز وقت پر پڑھنے کے اسباب اختیار کیے؛ مگر کسی دن اتفاق سے آنکھ نہ کھل سکی۔ بعض مواقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم اور صحابہٴ کرام رضوان الله عليهم نے بعض نمازیں وقت کے نکلنے کے بعد ادا فرمائی ہیں۔ چنانچه حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنه فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم صحابہٴ کرام رضوان الله عليهم کے ساتھ غزوہٴ خیبر سے واپس ہورہے تھے، رات میں چلتے چلتے جب نیند کا غلبہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے رات کے اخیر حصہ میں ایک جگہ قیام فرمایا اور حضرت بلال رضی اللہ تعالى عنه کو نگہبانی کے لیے متعین فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم لیٹ گئے اور صحابہ بھی سو گئے۔ جب صبح قریب ہوئی تو حضرت بلال رضی اللہ تعالى عنہ (تھکان کی وجہ سے) اپنی سواری سے ٹیک لگاکر بیٹھ گئے ، پس آپ پر نیند غالب ہوئی اور وہ بھی سو گئے اور سب حضرات ایسے سوئے کہ طلوعِ آفتاب تک نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی آنکھ کھلی اور نہ حضرت بلال رضی اللہ تعالى عنہ کی، نہ کسی اور صحابی کی۔جب سورج طلوع ہوا اور اس کی شعاعیں ان حضرات پر پڑیں تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم بیدار ہوئے اور گھبرا کر حضرت بلال رضی اللہ تعالى عنہ کو اٹھایا۔ پھر صحابہٴ کرام رضوان الله عليهم کو آگے چلنے کا حکم دیا، صحابہٴ کرام رضوان الله عليهم اپنی سواریاں لے کر آگے بڑھے اور ایک جگہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے وضو کیا اور حضرت بلال رضی اللہ تعالى عنہ کو اقامت کہنے کا حکم دیا۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالى عنہ نے اقامت کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے نماز پڑھائی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: جو نماز کو بھول جائے اس کو چاہیے کہ وہ یاد آنے پر اس کو پڑھ لے۔ (صحیح مسلم) حضرت جابر رضی اللہ تعالى عنه فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالى عنه غزوہٴ خندق کے دن آئے اور کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم میں اب تک عصر نہ پڑھ سکا حتی کہ سورج غروب ہونے کو ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا کہ میں نے بھی عصر نہیں پڑھی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے وضوکیا، ہم نے بھی وضو فرمایا اور پھر غروب آفتاب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے پہلے عصر پڑھی پھر اس کے بعد مغرب ادا فرمائی۔ (صحیح بخاری) بعض احادیث میں يه بهي مذکور ہے کہ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی ایک سے زیادہ نمازیں فوت ہوئی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے انھیں وقت نکلنے کے بعد پڑھا۔ مذکورہ بالا احادیث سے واضح هوا کہ اگر ایک یا ایک سے زیادہ نماز فوت ہوجائے تو فوت شدہ نمازوں کا پڑھنا لازم وضروری ہے- امام نووی رحمة الله عليه نے (شرح مسلم ) اور ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه نے (فتح الباری ) ميں لكها هے كه بھول یا عذر کی وجہ سے وقت پر نماز ادا نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا ان شاء اللہ۔ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر نماز کو ترک کردے تو یہ بڑا گناہ ہے، اس کے لیے توبة النصوح ضروری ہے - جمہور علماء کی رائے ہے کہ اس کو توبہ کے ساتھ نماز کی قضا بھی کرنی ہوگی۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه حضرت امام مالک رحمة الله عليه حضرت امام شافعی رحمة الله عليه اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی رائے ہے کہ قصداً وعمداً نماز چھوڑنے پر بھی نماز کی قضاء کرنی ہوگی۔ بهرحال جمہور علماء اس پر متفق ہیں کہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے شخص پر قضاء واجب ہے، اگرچہ وہ گناہ گار بھی ہے۔ ۔ غرضیکہ اگر کسی شخص کی ایک یا متعدد نمازیں قصداً چھوٹ جائیں تو اللہ تعالیٰ سے معافی کے ساتھ فوت شدہ نمازوں کی قضاء کرنی ضروری ہے؛ کیونکہ جمہور علماء حتی کہ چاروں ائمہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی کہا ہے، صرف زمانہٴ قدیم میں داوٴد ظاہری اور موجودہ زمانہ میں اہلِ حدیث حضرات نے اختلاف کیا ہے۔ اور جن بعض علماء نے نماز کے جان بوجھ کر ترک کرنے پر نماز کی قضاء کے واجب نہ ہونے کا جو فیصلہ فرمایا ہے وہ اصل میں اس بنیاد پر ہے کہ ان کے نقطئہ نظر میں جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والا شخص کافر ہوجاتا ہے۔ اب جب کافر ہوگیا تو نماز کی قضاء کا معاملہ ہی نہیں رہا؛ لیکن جمہور علماء کی رائے ہے کہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والا شخص کافر نہیں؛ بلکہ فاسق یعنی گناہ گار ہے اور یہی قول زیادہ صحیح ہے ورنہ عصر حاضر میں امت مسلمہ کی ایک بڑی تعداد دائره اسلام سے خارج ہوجائے گی۔ صحیح مسلم کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے اور ریاض الصالحین کے مصنف امام نووی رحمة الله عليه نے شرح مسلم میں تحریر کیا ہے کہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص نماز کو عمداً ترک کردے اس پر قضاء لازم ہے۔ مگر بعض علماء کی یہ مخالف رائے اجماع کے خلاف ہونے کے ساتھ دلیل کے لحاظ سے بھی باطل ہے۔ نیز انھوں نے تحریر کیا ہے کہ بعض اہل ظاہر سب سے الگ ہوگئے اور کہا کہ بلا عذر چھوٹی ہوئی نماز کی قضاء واجب نہیں، اور انہوں نے یہ خیال وگمان کیا کہ نماز کا چھوڑنا اس سے بڑا گناہ ہے کہ قضاء کرنے کی وجہ سے اس کے وبال سے نکل جائے؛ مگر یہ قول کے قائل کی غلطی وجہالت ہے۔ (شرح مسلم ) علامہ عبد الحئی حنفی لکھنوی رحمة الله عليه نے بهي يهي لكها هے كه جو شخص نماز کو عمداً ترک کردے اس پر قضاء لازم ہے۔ غور فرمائیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے بھولنے والے یا سونے والے پر بھی فوت شدہ نماز کی قضاء کو لازم کیا ہے؛ حالانکہ یہ دونوں گناہ گار نہیں ہیں تو جان بوجھ کر قضاء کرنے والے پر بدرجہٴ اولیٰ نماز قضاء ہونی چاہیے۔ یہ ایسا ہی ہے، جیسے قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ (اپنے والدین کو اف نہ کہو) تو اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب والدین کو (اف) کہنا بھی جائز نہیں تو ان کو مارنا پیٹنا یا گالی دینا اور بھی برا اور سخت گناہ ہوگا۔ اسی طرح جب بھولنے اور سوجانے پر قضاء لازم کی گئی تو عمداً ترک نماز پر قضاء اور بھی زیادہ ضروری ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ ایک شخص نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میری ماں کا انتقال ہوگیا اور اس پر ایک ماہ کے روزے رہ گئے ہیں تو کیا میں ان کی قضاء کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تیری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تو اس کو ادا کرتا؟ اس نے کہا کہ ہاں میں ادا کرتا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کا قرض زیادہ مستحق ہے کہ اس کی ادائیگی کی جائے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا یہ ارشاد روزوں کی قضاء کے بارے میں ہے۔ اور ظاہر ہے کہ روزہ اور نماز میں فرض ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں؛ بلکہ قرآن وحدیث میں نماز پڑھنے کی تاکید سب سے زیادہ وارد ہوئی ہے۔ لہٰذا جب روزے کی قضاء ہے تو نماز کی بھی قضاء ہونی چاہیے۔ نیز پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر رمضان کا روزہ ترک کردے تو اس کی قضاء ضروری ہے، اسی طرح اگر کسی شخص نے استطاعت کے باوجود حج ادا نہیں کیا تو اس کے مرنے پر اس کے وارثین پر لازم ہے کہ وراثت کی تقسیم سے قبل اس کے ترکہ میں سے حج بدل کا انتظام کرے۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے قصداً متعدد سالوں سے زکوٰة ادا نہیں کی اور اب اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ہے تو اسے گزشتہ سالوں کی زکوٰة ادا کرنی ہوگی۔ خلاصہٴ کلام یہ کہ 1400 سال سے جمہور فقہاء وعلماء ومحدثین ومفسرین کی یہی رائے ہے کہ نماز کے فوت ہونے پر اس کی قضاء کرنی ضروری ہے خواہ بھول جانے یا سوجانے کی وجہ سے نماز فوت ہوئی ہو، یا جان بوجھ کر نماز چھوڑی گئی ہو، ایک نماز فوت ہوئی ہو یا ایک سے زیادہ۔ مشہور ومعروف چاروں ائمہ کی بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی رائے ہے۔بھول جانے یا سوجانے کی صورت میں گناہ گار نہیں ہوگا؛ مگر قضاء کرنی ہوگی اور قصداً نماز ترک کرنے پر نماز کی قضاء کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی ہوگی۔ وہ حضرات جو جمہور علماء کے قول کے مطابق تارک صلاة پر کافر ہونے کا فتویٰ تو صادر نہیں فرماتے؛ مگر قصداً نماز ترک کرنے پر نماز کی قضاء کے ضروری نہ ہونے کا فیصلہ فرماتے ہیں تو ان کی یہ رائے جمہور علماء کے قول کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ غیر منطقی اور دلائل کے اعتبار سے باطل بھی ہے، جیسا کہ مشہور ومعروف محدث امام نووی نے تحریر کیا ہے۔ نیز احتیاط کا تقاضی بھی یہی ہے کہ فرض نماز کی قضاء کو واجب قرار دیا جائے؛ تاکہ کل آخرت میں کسی طرح کی کوئی ذلت اٹھانی نہ پڑے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا، اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا۔ (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداوٴد، مسند احمد) جب ہم نے یہ تسلیم کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے نماز فرض کی ہے اور قصداً نماز چھوڑنے والا کافر نہیں؛ بلکہ فاسق وفاجر ہے تو قصداً نماز چھوڑنے پر قضاء کے واجب نہ قرار دینے کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ مثلاً اگر کسی شخص نے زنا کیا یا چوری کی تو اسے اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگنی ہوگی اور اگر اس کا جرم شرعی عدالت میں ثابت ہوجاتا ہے تو اس پر حد بھی جاری ہوگی۔ یعنی اسے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ دنیاوی سزا بھی بھگتنی ہوگی۔ اسی طرح قصداً نماز چھوڑنے والے کو اللہ تبارک وتعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ نماز کی قضاء بھی کرنی ہوگی۔ غرضیکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ ہر نماز کو وقت پر ادا کرنا چاہیے، ہاں خدا نخواستہ اگر کوئی نماز چھوٹ جائے تو پہلی فرصت میں اس کی قضاء کرنی چاہیے خواہ بھول کی وجہ سے یا سونے کی وجہ سے یا کسی عذر کی وجہ سے نماز فوت ہوئی ہو یا محض لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے نماز ترک ہوئی ہو، ایک نماز فوت ہوئی ہو یا ایک سے زیادہ یا چند سالوں کی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم اور صحابہٴ کرام رضوان الله عليهم کے زمانہ میں یہ تصور بھی نہیں تھا کہ کوئی مسلمان جان بوجھ کر کئی دنوں تک نماز نہ پڑھے ۔ خیرالقرون میں ایک واقعہ بھی قصداً چند ایام نماز ترک کرنے کا پیش نہیں آیا؛بلکہ اس زمانہ میں تو منافقین کو بھی نماز چھوڑنے کی ہمت نہیں تھی۔ سو لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے جتني بهي نمازیں ترک ہوئی ہیں تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے اور توبہ واستغفار کا سلسلہ موت تک جاری رکھ کر فوت شدہ نمازوں کی قضاء (خواه وه سالوں پر محيط كيوں نه هو )کرنی چاہیے خواہ وہ فوت شدہ نمازوں کو ایک وقت میں ادا کرے یا اپنی سہولت کے اعتبار سے ہر نماز کے ساتھ قضاء کرتا رہے۔ علماء کرام نے تحریر کیا ہے کہ ایسے شخص کے لیے بہتر ہے کہ وہ نوافل کا اہتمام نہ کرکے فوت شدہ نمازوں کی قضاء کرے۔ جمہور فقہاء وعلماء ومحدثین ومفسرین اور عصر حاضر میں مشرق سے مغرب تک اکثر وبیشتر علماء کرام کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی رائے ہے اور یہی قول احتیاط پر مبنی ہے کہ نمازوں کو چھوڑنے کا سخت گناہ ہے حتی کہ علماء کرام نے فرمایا ہے کہ زنا کرنے، چوری کرنے اور شراب پینے سے بھی بڑا گناہ نماز کا ترک کرنا ہے۔ لہٰذا فوت شدہ نمازوں پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ ان کی قضاء بھی کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں نمازوں کو ان کے اوقات میں پڑھنے والا بنائے اور ایک وقت کی نماز بھی ہماری فوت نہ ہو - آمين ثم آمين

نماز کے چھوڑنے پر وعیديں اور عتاب : آحاديث مباركه ميں جهاں نماز كے فضائل بيان هوئے هيں وهاں نماز ترك كرنے پر عتاب اور وعيديں بهي وارد هوئى هيں كيونكه فطرتي طور إنسان حريص واقع هوا هے مثلاً اگر کسی شخص سے کوئی معتبر آدمی یہ کہہ دے اور اسے یقین بهي آ جائے کہ فلاں راستہ لٹتا ہے اور جو رات کو اس راستہ سے جاتا ہے تو ڈاکو اس کو قتل کر دیتے ہیں اور مال چھیں لیتے ہیں تو کون بہادر ہے کہ اس راستہ سے رات کو چلے رات کو تو درکنار دن کو بھی مشکل سے اس راستہ کو چلے گا اور اگر اسے يه بتا ديا جائے كه فلان راسته لمبا تو هے ليكن راسته ميں إيك جگه إيك آدميي بيٹها هے جو هر آنے والے كو حكومت كي طرف سے هزار روپيه بطورهديه ديتا هے تو راسته لميا هونے كے باوجود وه شخص اس راسته كي طرف هي چلے گا - حدیث کی کتابوں میں نماز نہ پڑھنے پر بہت سخت سخت عذاب ذکر کئے گئے ہیں- چند حدیثیں ذکر کی جاتی ہیں حضور اقدس صلى الله عليه وآله وسلم كي شفقت کے قربان کہ آپ نے کئی کئی طرح سے اور بار بار اس چیز کی طرف متوجہ فرمایا کہ ان کے نام لیوا ان کی امت کہیں اس میں کوتاہی نہ کرنے لگے پھر افسوس ہے ہمارے حال پر کہ ہم حضورصلى الله عليه وآله وسلم کے اس اہتمام کے باوجود نماز کا اہتمام نہیں کرتے اور بے غیرتی اور بے حیائی سے اپنے کو امتی اور متبع رسول صلى الله عليه وآله وسلم اور اسلام کا دھنی بھی سمجھتے ہیں ایک حدیث مباركه میں آیا ہے کہ جو شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے حق تعالیٰ شانہٗ پانچ طرح سے اس کا اکرام و اعزاز فرماتے ہیں اور جوشخص نمار میں سستی کرتا ہے اس کو پندرہ طریقہ سے عذاب ہوتا ہے پانچ طرح دنیا میں اور تین طرح موت کے وقت اور تین طرح قبر میں اور تین طرح قبر سے نکلنے کے بعد۔
دنیا کے پانچ عذاب : 1- یہ کہ اس کی زندگی میں برکت نہیں ہوتی 2- یہ کہ صلحاء کا نور اس کے چہرہ سے ہٹادیا جاتا ہے 3- یہ کہ اس کے نیک کاموں کا اجر ہٹا دیاجاتا ہے 4- يه كه اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں 5- یہ کہ نیک بندوں کی دعائوں میں اس کا استحقاق نہیں رہتا .
موت کے وقت کے تین عذاب : 1- يه کہ ذلت سے مرتا ہے 2- يه كه بھوکا مرتا ہے 3- يه كه پیاس کی شدت میں موت آتی ہے، اگر سمندر بھی پی لے تو پیاس نہیں بجھتی۔

قبرکے تین عذاب : 1- اس پر قبر اتنی تنگ ہو جاتی ہے کہ پسلیاں ایک دوسری میں گھس جاتی ہیں 2- قبر میں آگ جلادی جاتی ہے 3- قبر میں ایک سانپ اس پر ایسی شکل کا مسلط ہوتا ہے جس کی آنکھیں آگ کی ہوتی ہیں اور ناخن لوہے کے اتنے لانبے کہ ایک دن پورا چل کر اس کے ختم تک نه پہنچا جائے اس کی آواز بجلی کی کڑک کی طرح ہوتی ہے وہ یہ کہتا ہے کہ مجھے میرے رب نے تجھ پرمسلط کیا ہے کہ تجھے صبح کی نمازضائع کرنیکی و جہ سے آفتاب کے نکلنے تک مارے جاؤں اور ظہر کی نماز ضائع کرنے کی وجہ سے عصر تک مارے جاؤں اور پھر عصر کی نماز ضائع کرنے کی و جہ سے غروب آفتاب تک مغرب کی نماز کی و جہ سے عشاء تک اور عشاء کی نماز کی وجہ سے صبح تک مارے جاؤں جب وہ ایک دفعہ اس مرده کو مارتا ہے تو اس کی و جہ سے وہ مردہ ستر ہاتھ زمین میں دھنس جاتا ہے اسی طرح قیامت تک اس کو عذاب ہوتا رہے گا
قبر سے نکلنے کے بعد کے تین عذاب : 1-إسكا حساب سختی سے لیا جائے گا 2-ٰ الله تعالى شانه کا اس پرغصہ ہو گا 3- أسے جہنم میں داخل کر دیا جائے گا یہ کل میزان چودہ ہوئی ممکن ہے کہ پندرھواں بھول سے رہ گیا ہو اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اس کے چہرہ پر تین سطریں لکھی ہوئی ہوتی ہیں پہلی سطر او اﷲ کے حق کو ضائع کرنے والے دوسری سطر او اﷲ کے غصے کیساتھ مخصوص تیسری سطر جیسا کہ تو نے دنیا میں اﷲ کے حق کوضائع کیا آج تو اﷲ کی رحمت سے مایوس ہے۔ حضور اقدس صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ نماز چھوڑنا آدمی کو کفر سے ملا دیتا ہے ایک جگہ ارشاد ہے کہ بندہ کو اور کفر کو ملانے والی چیز صرف نماز چھوڑنا ہے ایک جگہ ارشاد ہے کہ ایمان اور کفر کے درمیان نماز چھوڑنے کا فرق ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ابر کے دن نماز جلدی پڑھا کرو کیونکہ نماز چھوڑنے سے آدمی کافر ہو جاتا ہے یعنی کہیں ایسا نہ ہو کہ ابر کی وجہ سے وقت کا پتہ نہ چلے اور نماز قضا ہو جائے اس کو بھی نماز کا چھوڑنا ارشاد فرمایا کتنی سخت بات ہے کہ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نماز کے چھوڑنے والے پر کفر کا حکم لگانے هیں گو علماء نے اس حدیث کوانکار کے ساتھ مقید فرمایا ہے مگر حضور صلى الله عليه وآله وسلم کے ارشاد کی فکر اتنی سخت چیز ہے کہ جس کے دل میں ذرا بھی حضور اقدس صلى الله عليه وآله وسلم کی وقعت اور حضور صلى الله عليه وآله وسلم کے ارشاد کی اہمیت ہو گی اس کے لئے یہ ارشادات نہایت سخت ہیں اس کے علاوہ بڑے بڑے صحابہ كرام جیسا کہ حضرت عمرؓ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ حضرت عبداﷲ بن عباس رضي الله تعالى عنهم وغیرہ حضرات کا یہی مذہب ہے کہ بلا عذر جان کر نماز چھوڑنے والا کافر ہے ائمہ میں سے حضرت امام احمد بن حنبل اسحق بن راہویہ ابن مبارک کا بھی یہی مذہب نقل کیا جاتا ہے اللہم احفظنا منہ۔ حضرت عبادہؓ رضي الله تعالى عنه کہتے ہیں کہ مجھے میرے محبوب حضور أكرم صلى الله عليه وآله وسلم نے سات نصیحتیں کی ہیں جن میں سے چار یہ ہیں:
اول یہ کہ اﷲ کا شریک کسی کو نہ بناؤ چاہے تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جاویں یا تم جلا دئے جاؤ یا تم سولی چڑھا دئے جاؤ
دوسری یہ کہ جان کر نماز نہ چھوڑو جو جان بوجھ کر نماز چھوڑ دے وہ مذہت سے نکل جاتا ہے تیسری یہ کہ اﷲ تعالی کی نافرمانی نہ کرو کہ اس سے حق تعالی ناراض ہو جاتے ہیں
چوتھی یہ کہ شراب نہ پیو کہ وہ ساری خطاؤں کی جڑ ہے۔ حضرت ابو الدردا ؓ رضي الله تعالى عنه بھی اسی قسم کا مضمون نقل فرماتے ہیں کہ مجھے میرے محبوب حضور أكرم صلى الله عليه وآله وسلم نے وصیت فرمائی کہ اﷲ کا شریک کسی کو نہ کرنا خواہ تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جاویں یا آگ میں جلا دیا جائے دوسری نماز جان بوجھ کر نہ چھوڑنا جو شخص جان بوجھ کر نماز چھوڑتا ہے اس سے اﷲ تعالی شانہ بری الذمہ ہیں تیسری شراب نہ پینا کہ ہر برائی کی کنجی ہے۔ حضرت معاذ رضي الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ مجھے حضور اقدسؐ صلى الله عليه وآله وسلم نے دس باتوں کی وصیت فرمائی 1- یہ کہ ﷲ کیساتھ کسی کو شریک نہ کرنا گو تو قتل کر دیا جائے یا جلا دیا جائے 2- والدین کی نافرمانی نہ کرنا گو وہ تجھے اس کا حکم کریں کہ بیوی کو چھوڑ دے یا سارا مال خرچ کر دے 3- فرض نماز جان بوجهـ کر نہ چھوڑنا جو شخص فرض نماز جان بوجهـ کر چھوڑ دیتا ہے اﷲ کا ذمہ اس سے بری ہے 4-شراب نہ پینا کہ یہ ہر برائی اور فحش کی جڑ ہے 5- ﷲ کی نافرمانی نہ کرنا کہ اس سے اﷲ تعالیٰ کا غضب اور قہر نازل ہوتا ہے 6- جهاد میں سے نہ بھاگنا چاہے سب ساتھی مر جائیں 7- اگر کسی جگہ وبا پھیل جاوے (جیسے طاعون وغیرہ) تو وہاں سے نہ بھاگنا 8- اپنے گھر والوں پر اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرنا 9- تنبیہ کے واسطے ان پر سے لکڑی نہ ہٹانا 10- اﷲ تعالیٰ سے انکو ڈراتے رہنا۔ (احمد والطبرنی ) بہت سی أحاديث مباركه میں حضور صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ بچہ کو سات برس کی عمر میں نماز کا حکم کرو اور دس برس کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر مارو حضرت عبداﷲ بن مسعود رضي الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ بچوں کی نماز کی نگرانی کیا کرو اور اچھی باتوں کی ان کو عادت ڈالو حضور اقدس صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ جس شخص کی ایک نماز بھی فوت ہو گئی وہ ایسا ہے کہ گویا اس کے گھر کے لوگ اور مال و دولت سب چھین لیا گیا ہو۔ (النسائی و احمد ) ۔ نبی اکر م صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص دو نمازوں کو بلا کسی عذر کے ایک وقت میں پڑھے وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازہ پر پہنچ گیا۔ (رواہ الحا کم ) ایک مرتبہ حضور اقدس صلى الله عليه وآله وسلم نے نماز کا ذکر فرمایا اور یہ ارشاد فرمایا کہ وہ شخص نماز کا اہتمام کرے تو نماز اس کے لئے قیامت کے دن نور ہو گی اور حساب پیش ہونے کے وقت حجت ہو گی اور نجات کا سبب ہو گی اور جو شخص نماز کا اہتمام نہ کرے اس کے لئے قیامت کے دن نہ نور ہو گا اور نہ اس کے پاس کوئی حجت ہو گی اور نہ نجات کا کوئی ذریعہ اس کا حشر فرعون ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہو گا۔ حضور اقدس صلى الله عليه وآله وسلم سے نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص نماز کو قضا کر دے گو وہ بعد میں پڑھ بھی لے پھر بھی اپنے وقت پر نہ پڑھنے کی وجہ سے ایک حقب جہنم میں جلے گا اور حقب کی مقدار اسی برس کی ہوتی ہے اور ایک برس تین سو ساٹھ دن کا اور قیامت کا ایک دن ایک ہزار برس کے برابر ہو گا ( اس حساب سے ایک حقب کی مقدار دو کروڑ اٹھاسی لاکھ برس ہوئی) حضور اقدس صلى الله عليه وآله وسلم كا ارشاد ہے کہ اسلام میں کوئی بھی حصہ نہیں اس شخص کا جو نماز نہ پڑھتا ہو اور بے وضو کی نماز نہیں ہوتی دوسری حدیث میں ہے کہ دین بغیر نماز کے نہیں ہے نماز دین کے لیے ایسی ہے جیسا آدمی کے بدن کے لئے سر ہوتا ہے۔ ( البزار ، الحاکم ) حضور اقدس صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے جو شخص ایک فرض نماز بھی جان بوجھ کر چھوڑ دے اس کا نام جہنم کے دروازہ پر لکھ دیا جاتا ہے اور اس کو اس میں جانا ضروری هے اور حضرت ابن عباس رضي الله تعالى عنه نے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضوراقدس صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا یہ کہو کہ اے اﷲ ہم میں کسی کو شقی محروم نہ کر پھر فرمایا جانتے ہو شقی محروم کون ہے صحابہ کے استفسار پر ارشاد فرمایاکہ شقی محروم نماز کا چھوڑنے والا ہے اس کا کوئی حصہ اسلام میں نہیں ایک حدیث میں ہے کہ دیدہ دانستہ بلا عذر نماز چھوڑنے والے کا کوئی حصہ اسلام میں نہیں ایک حدیث میں ہے کہ دیده دانستہ بلا عذر نماز چھوڑنے والے کی طرف حق تعالی قیامت میں التفات ہی نہ فرمائیں گے اور عذاب الیم (دکھ دینے والا عذاب ) اس کو دیا جائے گا ایک حدیث سے نقل کیا گيا ہے کہ دس آدمیوں کو خاص طور سے عذاب ہو گا منجملہ ان کے نماز کا چھوڑنے والا بھی ہے کہ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں گے اور فرشتے منہ اور پشت پر ضرب لگا رہے ہوں گے جنت کہے گی کہ میرا تیرا کوئی تعلق نہیں نہ میں تیرے لئے نہ تو میرے لئے دوزخ کہے گی کہ آ جا میرے پاس آ جا تو میرے لئے ہے میں تیرے لئے یہ بھی نقل کیا ہے کہ جہنم کی ایک وادی (جنگل) ہے جس کا نام لم لم هے اس میں سانپ ہیں جو اونٹ کی گردن کے برابر موٹے ہیں اور ان کی لمبائی ایک مہینہ کی مسافت کے برابر ہے اس میں نماز چھوڑنے والوں کو غذاب دیا جائے گا ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک میدان ہے جس کا نام جب الحزن ہے وہ بچھوؤں کا گھر ہے اور ہر بچھو خچر کے برابر بڑا ہے وہ بھی نماز چھوڑنے والوں کو ڈسنے کے لئے ہیں ہاں مولائے کریم معاف کر دے تو کون پوچھنے والا ہے ابن حجر نے زواجر میں لکھا ہے کہ ایک عورت کا انتقال ہو گیا تھا اس کا بھائی دفن میں شریک تھا اتفاق سے دفن کرتے ہوئے ایک تھیلی قبر میں گر گئی اس وقت خیال نہیں آیا بعد میں یاد آئی تو بہت رنج ہوا چپکے سے قبر کھول کر نکالنے کا ارادہ کیا قبر کو کھولا تو وہ آگ کے شعلوں سے بھر رہی تھی روتا ہوا ماں کے پاس آیا اور حال بیان کیا اور پوچھا کہ یہ بات کیا ہے ماں نے بتایا کہ وہ نماز میں سستی کرتی تھی اوركهبي كهبي قضا کر دیتی تھی اعاذنا اﷲ منہا۔ الله تعالى هم سبكو محفوظ ركهے اور نماز كو وقت كي پابندي كے ساتهـ ادا كرنے كي توفيق عطا فرمائے آمين ثم آمين يا رب العلمين

نماز کي جماعت چھوڑنے پر وعیديں اور عتاب : جيسا كه ذكر هوچكا كه مردوں كو نماز باجماعت ادا كرنے كا حكم هے اور نماز كي جماعت ترك كرنے پر بهي آحاديث مباركه ميں بهت عتاب اور وعيديں وارد هوئى هيں -إن شاء الله أن ميں سے چند كا ذكر إس قسط ميں كيا جائے گا اٗلله تعالى نے اپنے احکام کی پابندی كا حكم صادر فرمايا اور جو بهي إن أحكام پر عمل كرے گے أن كے لئے بهت هي إنعام وأكرام کا وعدہ بهي فرمایا ہے ليكن جو لوگ الله تعالى كے آحكامات پر عمل كرنے سے روگرداني كريں گے ان پر ناراضگي اور عتاب بھی فرمایا ہے یہ اﷲ کا فضل ہے کہ تعمیل میں بے گراں انعامات کا وعدہ ہے ورنہ بندگی کا مقتضا صرف عتاب ہی ہونا چاہئے تھا کہ بندگی کا فرص ہے تعمیل ارشاد پھر اس پر انعام کے کیا معنی اور نافرمانی کی صورت میں جتنا بھی عتاب و عذاب ہو وہ بر محل هے کہ آقا کی نافرمانی سے بڑھ کر اور بڑا کیا جرم ہو سکتا ہے پهر رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے ہم پر شفقت فرمائی کہ نافرماني کے نقصانات بتائے مختلف زاويوں سے سمجھایا تاكه هم كامياب هوجائيیں ۔ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص اذان کی آوز سنے اور بلا کسی عذر کے نماز کو نہ جائے( وہیں پڑھ لے ) تو وہ نماز قبول نہیں ہوتی صحابہ كرام رضوان الله عليهم نے عرض کیا کہ عذر سے کیا مراد ہے ارشاد ہوا کہ مرض ہو یا کوئی خوف ہو ۔ (ابوود وابن ماجۃ ) حضرت ابن عباس رضي الله تعاللى عنه کا یہ بھی ارشاد ہے کہ جو شخص اذان کی آواز سنے اور جماعت سے نماز نہ پڑھے نہ اس نے بھلائی کا ارادہ کیا نہ اس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کیا گیا حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالى عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اذان کی آواز سنے اور جماعت میں حاضر نہ ہو اس کے کان پگھلے ہوئے سیسے سے بھر دیئے جاویں یہ بہتر ہے نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ سرا سر ظلم ہے اور کفر ہے اور نفاق ہے اس شخص کا فعل جو ﷲ کے منادی( یعنی مؤذن) کی آواز سنے اور نماز کو نہ جائے (رواہ احمد والطبرانی ) حضور اقدس صلى الله عليه وآله وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ چند جوانوں سے کہوں کہ بہت سا ایندھن اکٹھا کر کے لائیں پھر میں ان لوگوں کے پاس جاؤں جو بلا عذر گھروں میں نماز پڑھ لیتے ہیں اور جا کر ان کے گھروں کو جلا دوں ۔(مسلم ابوداود وابن ماجۃ والترمذی) حضور اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ جس گاؤں یا جنگل میں تین آدمی ہوں اور وہاں با جماعت نماز نہ ہوتی ہو تو ان پر شیطان مسلط ہو جاتا ہے اس لئے جماعت کو ضروری سمجھو بھیڑیا اکیلی بکری کو کھا جاتا ہے اور آدمیوں کا بھیڑیا شیطان ہے ۔ حضرت سلیمان بن ابی حثمہ رضي الله تعالى عنه جلیل القدر لوگوں میں تھے حضور أكرم صلى الله عليه وآله وسلم كے زمانہ میں پیدا ہوئے مگر حضور كريم صلى الله عليه وآله وسلم سے روایت سننے کی نوبت کم عمری کی وجہ سے نہیں آئی حضرت عمر رضي الله تعالى عنه نے ان کو بازار کا نگران بنا رکھا تھا ایک دن اتفاق سے صبح کی نماز میں موجود نہ تھے حضرت عمر ؓرضي الله تعالى عنه اس طرف تشریف لے گئے تو ان کی والدہ سے پوچھا کہ سلیمان آج صبح کی نماز میں نہیں تھے والدہ نے کہا کہ رات بھر نفلوں میں مشغول رہا نیند کے غلبہ سے آنکھ لگ گئی حضرت عمر ؓ رضي الله تعالى عنه نے فرمایا میں صبح کی جماعت میں شریک ہوں یہ مجھے اس سے زياده پسندیدہ ہے کہ رات بھر نفلیں پڑھوں ۔ الله تعالى هميں نماز باجماعت پابندي كيساتهـ ادا كرنيكي توفيق عنايت فرمائے - ( آمين )

نماز ميں خشوع وخضوع كي إهميت : يه بات تو واضح هے كه نماز كا ادا كرنا هر مسلمان كے لئے لازمي هے إهتمام كرنے والے كے لئے أنعام وأكرام كا وعده اور ترك كرنے والے كے لئے عذاب كي وعيديں قرآن وحديث ميں موجود هيں جن ميں كچهـ كا ذكركيا جاچكا هے . نماز كو زياده سے زياده قيمتي بنانے كے لئے ضروري هے كه نماز إنتهائى دهيان سے ادا كى جائے نماز پڑهنے والا اپنے آپ كو أحكم احاكمين كي دربار ميں حاضر سمجهـے اور يوں گمان كرے كه وه الله تعالى كو ديكهـ رها هے اگر يه ممكن نه هوسكے تو كم ازكم يه خيال تو ضرور جمائے كه الله تعالى مجهـے ديكهـ رهے هيں إس دهيان كے ساتهـ نماز ادا كرنے كو خشوع وخضوع كها جاتا هے جو نماز ميں عين مطلوب هے جتنا خشوع وخضوع زياده هوگا اتنا هي نماز بهي الله كے دربار ميں زياده قيمتي هوگي بہت سے لوگ ایسے ہیں جو نماز تو پڑھتے ہیں اور ان میں بہت سے جماعت کا بھی اہتمام فرماتے ہیں لیکن اس کے باوجود نماز ایسی بری طرح پڑھتے ہیں کہ وہ نماز بجائے ثواب و اجر کے، ناقص ہونے کی وجہ سے منہ پر مار دی جاتی ہے گو نہ پڑھنے سے یہ بھی بہتر ہے کیونکہ نہ پڑھنے کی صورت میں جو عذاب ہے وہ بہت زیادہ سخت ہے اور اس صورت میں وہ قابل قبول نہ ہوئی اور منہ پر پھینک کر مار دی گئی اس پر کوئی ثواب نہیں ہوا بس فرض سر سے أترگيا سوچنے كي بات ہے کہ جب آدمی وقت خرچ کرے کاروبار چھوڑے اور مشقت بهي اٹھائے تو کوشش کرنا چاہئے کہ نماز زیادہ سے زیادہ وزنی اور قیمتی پڑھ لے اس میں کوتاہی نہ هو حضرت عبداﷲ بن عباس رضي الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ نماز قائم کرنے سے یہ مراد ہے کہ اس کے رکوع و سجود کو اچھی طرح ادا کرے ہمہ تن متوجہ رہے اور خشوع کے ساتھ پڑھے حضرت قتادہ رضي الله تعالى عنه سے بھی یہی نقل کیا گیا کہ نماز کا قائم کرنا اس کے اوقات کی حفاظت رکھنا - وضو کا آچهي طرح كرنا اور رکوع سجدے کا اچھی طرح ادا کرنا ہے - الله تعالى كے هاں تو إخلاص كي قيمت هے سو نماز ميں جس درجہ کا اخلاص ہو گا اسی درجہ کی مقبولیت ہو گی ایک حدیث میں حضور أكرم صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ اﷲ تعالی ضعیف لوگوں کی برکت سے اس امت کی مدد فرماتے ہیں نیز ان کی دعا سے , ان کی نماز سے ان کے اخلاص سے نماز کے بارے میں اﷲ جل شانه کا ارشاد ہے
فَوَیْلٌ لِلْمُصَلِّینَ 0 الَّذینَ هُمْ عَنْ صَلاتِهِمْ ساهُونَ 0 الَّذینَ هُمْ یُراءوُنَ0 بڑی خرابی ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں جو ایسے ہیں کہ دکھلاوا کرتے ہیں
دوسری جگہ منافقین کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے
وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا.0
اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بہت کاہلی سے کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھلاتے ہیں اور اﷲ تعالی کا ذکر نہیں کرتے مگر بہت تھوڑا سا
چند انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا ذکر فرمانے کے بعد ارشاد ہے فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا 0 پس ان نبیوں کے بعد بعضے ایسے نا خلف پیدا ہوئے جنہوں نے نماز کو برباد کر دیا اور خواہشات نفسانیہ کے پیچھے پڑ گئے سو عنقریب آخرت میں خرابی دیکھیں گے
ایک جگہ ارشاد ربي ہے
وَمَا مَنَعَهُـمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْـهُـمْ نَفَقَاتُـهُـمْ اِلَّآ اَنَّـهُـمْ كَفَرُوْا بِاللّـٰهِ وَبِرَسُوْلِـهٖ وَلَا يَاْتُوْنَ الصَّلَاةَ اِلَّا وَهُـمْ كُسَالٰى وَلَا يُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَهُـمْ كَارِهُوْنَ 0
اور ان کے خرچ کے قبول ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا اور نماز میں سست ہو کر آتے ہیں اور ناخوش ہو کر خرچ کرتے ہیں۔
اچھی طرح سے نماز پڑھنے والوں کے بارے میں ارشاد خداوندي ہے ۔
بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُـوْنَ (1)اَلَّـذِيْنَ هُـمْ فِىْ صَلَاتِـهِـمْ خَاشِعُوْنَ (2)وَالَّـذِيْنَ هُـمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ (3) وَالَّـذِيْنَ هُـمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُوْنَ (4)وَالَّـذِيْنَ هُـمْ لِفُرُوْجِهِـمْ حَافِظُوْنَ (5) اِلَّا عَلٰٓى اَزْوَاجِهِـمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُـهُـمْ فَاِنَّـهُـمْ غَيْـرُ مَلُوْمِيْنَ (6)فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْعَادُوْنَ (7) وَالَّـذِيْنَ هُـمْ لِاَمَانَاتِـهِـمْ وَعَهْدِهِـمْ رَاعُوْنَ (8) وَالَّـذِيْنَ هُـمْ عَلٰى صَلَوَاتِـهِـمْ يُحَافِظُوْنَ (9)اُولٰٓئِكَ هُـمُ الْوَارِثُوْنَ (10) اَلَّـذِيْنَ يَرِثُـوْنَ الْفِرْدَوْسَۖ هُـمْ فِيْـهَا خَالِـدُوْنَ (11) (المؤمنون)
بے شک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔ جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔ اور جو بے ہودہ باتو ں سے منہ موڑنے والے ہیں۔ اور جو زکوٰۃ دینے والے ہیں۔ اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ مگر اپنی بیویوں یا لونڈیوں پر اس لیے کہ ان میں کوئی الزام نہیں۔ پس جو شخص اس کے علاوہ طلب گار ہو تو وہی حد سے نکلنے والے ہیں۔ اور جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدہ کا لحاظ رکھنے والے ہیں۔ اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ وہی وارث ہیں۔ جو جنت الفردوس کے وارث ہوں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے

ايك دوسري جگه ارشاد خداوندي هے
وَاسْتَعِيْنُـوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَاِنَّـهَا لَكَبِيْـرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخَاشِعِيْنَ (45)اَلَّـذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّـهُـمْ مُّلَاقُوْا رَبِّـهِـمْ وَاَنَّـهُـمْ اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ (46) (البقرة)
اور صبر کرنے اور نماز پڑھنے سے مدد لیا کرو، اور بے شک وہ (نماز) مشکل ہے مگر (سوائے) ان پر جو عاجزی کرنے والے ہیں۔جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں ضرور اپنے رب سے ملنا ہے اور ہمیں اس کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔

بے شک کامیابی اور فلاح کو پہنچ گئے وہ مومن جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں اور وہ لوگ جو لغویات سے اعراض کرنے والے ہیں اور جو زکوۃ ادا کرنے والے ہیں اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں بجز اپنی بیبیوں اور باندیوں کے کہ ان میں کوئی حرج نہین البتہ جو ان کے علاوہ اور جگہ شہوت پوری کرنا چاہیں وہ لوگ حد سے گزرنے والے ہیں اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہدو پیمان کی رعایت کرنے والے ہیں اور جو اپنی نمازوں کا اہتمام کرنے والے ہیں یہی لوگ جنت کے وارث ہیں جو فردوس کے وارث بنیں گے اور ہمیشہ ہمیشہ کو اس میں رہیں گے
ایسے ہی لوگوں کی تعریف میں ایک جگہ ارشاد خداوندی ہے: فِیْ بُیُوتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ رِجَالُ لَا تُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃُ وَّلَا بَیْعُ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَاءِ الزَّکوٰۃِ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیِہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ لِیَجْزِیَہُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَیَزِیْدَہُمْ مِنْ فَضْلِہٖ وَاللّٰہُ یَرْزُق منُ یشاُ بِغَیْرِ حِسَاب ایسے گھروں میں جن کے متعلق اﷲ جل شانہ نے حکم فرما دیا ہے کہ ان کا ادب کیا جائے ان کو بلند کیا جائے ان میں صبح شام ﷲ کی تسبیح کرتے ہیں ایسے لوگ جن کو ﷲ کی یاد سے اور نماز کے قائم کرنے سے اور زکوۃ کے دینے سے نہ تو تجارت غافل کرتی ہے نہ خرید و فروخت غفلت میں ڈالتی ہے وہ لوگ ایسے دن کی سختی سے ڈرتے ہیں جس دن دل اور آنکھیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی ( یعنی قیامت کا دن اور وہ لوگ یہ سب کچھ اس لئے کرتے ہیں کہ اﷲ جل شانہ ان کے نیک اعمال کا بدلہ ان کو عطا فرماویں اور بدلہ سے بھی بہت زیادہ انعامات اپنے فصل سے عطا فرماویں اور اﷲ جل شانہ، تو جس کو چاہتے ہیں بے شمار عطا فرما دیتے ہیں ۔
دوسری جگہ ارشاد خداوندي هے : وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُوْنَ قَالُوْ سَلَامَاً وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامَاً اور رحمن کے خاص بندے وہ ہیں جو چلتے ہیں زمین پر عاجزی سے اکڑ کر نہیں چلتے اور جب ان سے جاہل لوگ ( جہالت کی) بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ سلام اور یہ وہ لوگ ہیں جو رات بھر گزار دیتے ہیں اپنے رب کے لئے سجدے کرنے میں اور نماز میں کھڑے رہنے میں آگے ارشاد ہے اُولٰئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا وَیُلَقَّوْنَ فِیْہَا تَحِیَّۃَ وَّ سَلَامَاً خَالِدِیْنَ فِیْہَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرَّا وَّمُقَامَاً یہی لوگ ہیں جن کو جنت کے بالا خانے بدلہ میں دئے جائیں گے اس لئے کہ انہوں نے صبر کیا اور جنت میں فرشتوں کی طرف سے دعا و سلام سے استقبال کیا جاوے گا اور اس جنت میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے کیا ہی اچھا ٹھکانہ اور رہنے کی جگہ ہے
دوسری جگہ ارشاد ہے وَالْمَلٰئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْہِمْ مِنْ کُلِّ بَابٍ سَلَامُٗ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ اور فرشتے ہر دروازہ سے داخل ہوں گے اور کہیں گے کہ تم پر سلام ( اور سلامتی) ہو اس وجہ سے کہ تم نے صبر کیا( یا دین پر مضبوط اور ثابت قدم رہے) پس کیا ہی اچھا انجام کار ٹھکانہ ہے
انہیں لوگوں کی تعریف دوسری جگہ ان الفاظ سے فرمائی گئی ہے تَتَجَافَی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفَاً وَطَمَعَاً وَ مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنْفِقُوْنَ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسُٗ مَّا اُخْفِیَ لَہُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَائً بِمَا کَانُوْ یَعْمَلُوْنَ وہ لوگ ایسے ہیں کہ رات کو ان کے پہلو ان کی خواب گاہوں اور بستروں سے علیحدہ رہتے ہیں ( کہ نماز پڑھتے رہتے ہیں اور) اپنے رب کو عذاب کے ڈر سے اور ثواب کی امید میں پکارتے رہتے ہیں اور ہماری عطا کی ہوئی چیزوں سے خرچ کرتے ہیں سوکوئی بھی نہیں جانتا کہ ایسے لوگوں کے لئے کیا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان پردہ غیب میں موجود ہے جو بدلہ ہے ان کے نیک اعمال کا
انہیں لوگوں کی شان میں ہے اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَعُیُوْنٍ اٰخِذِیْنَ مَآ اٰتَاہُمْ رَبَّہُمْ اِنَّہُمْ کَانُوْ قَبْلَ ذَلِکَ مُحْسِنِیْنَ کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ وَبِالْاَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ بے شک متقی لوگ جنتوں اور پانی کے چشموں کے درمیان میں ہوں گے اور ان کو ان کے رب اور مالک نے جو کچھ ثواب عطا فرمایا اس کو خوشی خوشی لے رہے ہوں گے اور کیوں نہ ہو کہ وہ لوگ اس سے پہلے اچھے کام کرنے والے تھے وہ لوگ رات کو بہت کم سوتے تھے اور اخیر شب میں استغفار کرنے والے تھے
ایک اور جگہ ارشاد خداوندی ہے اَمَّنْ ُهوَ قَانِتُ اٰنَآئَ اللَّیْلِ سَاجِدًا وَ قَائِمَاً یَّحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَ یَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہٖ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُو الْاَلْبَاب کیا برابر ہو سکتا ہے بے دین اور وہ شخص جو عبادت کرنے والا ہو رات کے اوقات میں کبھی سجدہ کرنے والا ہو اور کبھی نیت باندھ کر کھڑا ہونے والا ہو آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کا امیدوار ہو ( اچھا آپ ان سے یہ پوچھیں ) کہیں عالم اور جاہل برابر ہو سکتا ہے ( اور یہ ظاہر ہے کہ عالم اپنے رب کی عبادت کرے ہی گا اور جو ایسے کریم مولا کی عبادت نہ کرے وہ جاہل بلکہ اجہل ہے ہی) نصیحت وہی لوگ مانتے ہیں جو اہل عقل ہیں
ایک اور جگہ ارشاد خداوندی ہے اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوعَاً اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعَاً وَ اِذَامَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعَا اِلَّا الْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ہُمْ عَلَی صَلٰوتِہِمْ دَائِمُوْنَ اس میں شک نہیں کہ انسان غیر مستقل مزاج پیدا ہوا ہے کہ جب کوئی تکلیف اس کو پہنچتی ہے تو بہت زیادہ گھبرا جاتا ہے اور جب کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے کہ دوسرے کو یہ بھلائی نہ پہنچے مگر(ہاں ) وہ نمازی جو اپنی نماز کے ہمیشہ پابند رہتے ہیں اور سکون و وقار سے پڑھنے والے ہیں
ایک اور جگہ ارشاد خداوندی ہے وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلَی صَلوٰتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ اُولٰئِکَ فِیْ جَنّٰتٍ مُکْرَمُون اور وہ لوگ نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کا جنتوں میں اکرام کیا جائے گا ان کے علاوہ اور بھی بہت سے آیات مباركه ہیں جن میں نماز کا حکم اور نمازیوں کے فضائل ان کے اعزاز و اکرام ذکر فرمائے گئے ہیں اور حقیقت میں نماز ایسی ہی دولت ہے اسی وجہ سے دو جہاں کے سردار فخر رسل حضور صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے اسی وجہ سے حضرت ابراہیم عليه السلام دعا فرماتے ہیں
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ 0 (اے رب مجھ کو نماز کا خاص اہتمام کرنے والا بنا دے اور میری اولاد میں سے بھی ایسے لوگ پیدا فرما جو اہتمام کرنے والے ہوں اے ہمارے رب میری یہ دعا قبول فرمالے خود حق سبحانہ و تقدس اپنے محبوب سید المرسلین حضرت محمد صلى الله عليه وآله وسلم کو حکم فرماتے ہیں
 وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَّحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى0
( ترجمہ )اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کرتے رہئے اور خود بھی اس کا اہتمام کیجئے ہم آپ سے روزی (کموانا) نہیں چاہتے روزی تو آپ کو ہم دیں گے اور بہترین انجام تو پرہیز گاری کا ہے
نماز ميں خشوع وخضوع كے متعلق رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كے كچهـ ارشادات ملاحظه فرمائيں : 1۔ رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كا راشاد ہے کہ آدمی نماز سے فارغ ہوتا ہے اور اس کے لئے ثواب کا دسواں حصہ لکھا جاتا ہے اسی طرح بعض کیلئے نواں حصہ بعض کیلئے آٹھواں ساتواں چھٹا پانچواں چوتھائی تہائی آدھا حصہ لکھا جاتا ہے۔ (رواہ ابوداؤد ٔوالنسائی وابن حبان ٔ) ف- احادیث میں آیا ہے کہ لوگوں میں سے سب سے پہلے خشوع اٹھایا جائے گا کہ پوری جماعت میں ایک شخص بھی خشوع سے پڑھنے والا نہ ملے گا ۔ 2۔ رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص نمازوں کو اپنے وقت پر پڑھے وضو بھی اچھی طرح کرے خشوع و خضوع سے بھی پڑھے کھڑا بھی پورے وقار سے ہو پھر اسی طرح رکوع سجدہ بھی اچھی طرح سے اطمینان سے کرے غرض ہر چیز کو اچھی طرح ادا کرے تو وہ نماز نہایت روشن جمکدار بن کر جاتی ہے اور نمازی کودعا دیتی ہے کہ اﷲ تعالی شانہ تیری بھی ایسی ہی حفاظت کرے جیسی تو نے میری حفاظت کی اور جو شخص نمازکو بری طرح پڑھے وقت کو بھی ٹال دے وضو بھی آچھی طرح نہ کرے رکوع سجدہ بھی اچھی طرح نہ کرے تو وہ نماز بری صورت سے سیاہ رنگ میں بد دعا دیتی ہوئی جاتی ہے کہ اﷲ تعالی تجھے بھی ایسا ہی برباد کرے جیسا تو نے مجھے ضائع کیا اس کے بعد وہ نماز پرانے کپڑے کی طرح سے لپیٹ کر نمازی کے منہ پر مار دی جاتی ہے۔ (رواہ الطبرانی) ف: ۔ حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنها فرماتی ہیں میں نے رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم سے سنا کہ جو قیامت کے دن پانچوں نمازیں ایسی لے کر حاضر ہو کہ ان کے اوقات کی بھی حفاظت کرتا رہا ہو اور وضو کا بھی اہتمام کرتا رہا ہو اور ان نمازوں کو خشوع خضوع سے پڑھتا رہا ہو تو حق تعالیٰ جل شانہ نے عہد فر ما لیا ہے کہ اس کو عذاب نہیں کیا جائے گا اور جو ایسی نمازیں نہ لے کر حاضر ہوا اس کے لئے کو ئی وعدہ نہیں ہے چاہے اپنی رحمت سے معاف فرمادیں چاہے عذاب دیں ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور اقدس صلى الله عليه وآله وسلم صحابہ كرام رضوان الله عليهم سے ارشاد فرماياا کہ حق تعالیٰ جل شانہ اپنی عزت اور اپنی بڑائی کی قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ جو شخص ان نمازوں کو اوقات کی پابندی کے ساتھ پڑھتا رہے گا میں اس کو جنت میں داخل کروں گا اور جو پابندی نہ کرے گا تو میرا دل چاہے گا رحمت سے بخش دوں گا ورنہ عذاب دوں گا ۔ 3۔ رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ قیامت میں آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرص نماز کا حساب کیا جائے گا اگر نماز اچھی نکل آئی تو وہ شخص کامیاب ہو گا اور بامراد اور اگر نماز بیکار ثابت ہوئی تو وہ نامراد خسارہ میں ہو گا اور اگر کجھ نماز میں کمی پائی گئی تو ارشاد خداوندی ہو گا کہ دیکھو اس بندہ کے پاس کچھ نفلیں بھی ہیں جن سے فرضوں کو پورا کر دیا جائے اگر نکل آئیں تو ان سے فرضوں کی تکمیل کر دی جائے گی اس کے بعد پھراسی طرح باقی اعمال روزہ زکوۃ وغیرہ کا حساب ہو گا ۔ (رواہ الترمذی وابن ماجہ والحاکم) ف : ایک دوسری حدیث میں بهي یہ مضمون آیا ہے ارشاد ہے کہ اﷲ تعالی نے عبادات میں سب سے پہلے نماز کو فرص فرمایا ہے اور سب سے پہلے اعمال میں سے نماز ہی پیش کی جاتی ہے اور سب سے پہلے قیامت میں نماز ہی کا حساب ہو گا اگر فرض نمازوں میں کچھ کمی رہ گئی تو نفلوں سے اس کو پورا کیا جائے گا اور پھر اس کے بعد اسی طرح روزوں کا حساب کیا جائے گا اور فرص روزوں میں جو کمی ہو گی وہ نفل روزوں سے پوری کر دی جائے گی اور پھر زکوۃ کا حساب اسی طریقہ سے ہو گا ان سب چیزروں میں نوافل کو ملا کر بھی اگر نیکیوں کا پلہ بھاری ہو گیا تو وہ شخص خوشی خوشی جنت میں داخل ہو جائے گا ورنہ جہنم میں پھینک دیا جائے گا خود نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کا معمول یہی تھا کہ جو شخص مسلمان ہوتا سب سے اول اس کو نماز سکھائی جاتی ۔ 4- رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ قیامت میں سب سے پہلے نماز کا حساب کیا جائے گا اگر وہ اچھی اور پوری نکل آئی تو باقی اعمال بھی پورے اتریں گے اور اگر وہ خراب ہو گئی تو باقی اعمال بھی خراب نکلیں گے۔ حضرت عمر رضي الله تعالى عنه نے اپنے زمانہ خلافت میں ایک اعلان سب جگہ کے حکام کے پاس بھیجا تھا کہ سب سے زیادہ مہتمم بالشان چیز میرے نزدیک نماز ہے جو شخص اس کی حفاظت اور اس کا اہتمام کرے گا وہ دین کے اور اجزاء کا بھی اہتمام کر سکتا ہے اور جو اس کو ضائع کر دے گا وہ دین کے اور اجزاء کو زیادہ برباد کر دے گا ۔ (رواہ الطبرانی) ف: رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کے اس پاک ارشاد اور حضرت عمر رضي الله تعالى عنه کے اس اعلان کا منشاء بظاہر یہ ہے جو دوسری حدیث میں آیا ہے کہ شیطان مسلمان سے اس وقت تک ڈرتا رہتا ہے جب تک وہ نماز کا پابند اور اس کو اچھی طرح ادا کرتا رہتا ہے کیونکہ خوف کی وجہ سے اس کو زیادہ جرأت نہیں ہوتی لیکن جب وہ نماز کو ضائع کر دیتا ہے تو اس کی جرات بہت بڑھ جاتی ہے اور اس آدمی کے گمراہ کرنیکی امنگ پیدا ہو جاتی ہے اورپھربہت سے مہلکات اور بڑے بڑے گناہوں میں اس کو مبتلا کر دیتا ہے اور یہی مطلب ہے حق سبحانہ و تقدس کے ارشاد ان الصلوۃ تنہی عن الفحشاء و المنکر کا 5- رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کا اِرشاد ہے کہ بدترین چوری کرنے والا شخص وہ ہے جو نماز میں سے بھی چوری کرلے۔ صحابہ كرام رضوان الله عليهم نے عرض کیا یا رسُوْلَ اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نماز میں سے کس طرح چوری کرے گا۔ آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے اِرشاد فرمایا کہ اس کا رکوع اور سجدہ اچھی طرح سے نہ کرے۔ (رواہ احمد و الطبرانی) 6- حضرت عائشہ صديقه رضي الله تعالى عنها کی والدہ ام رومان رضي الله تعالى عنها فرماتی ہیں کہ میں ایک مرتبہ نماز پڑھ رہی تھی نماز میں ادھر ادھر جھکنے لگی حضرت ابو بکر صدیق رضي الله تعالى عنه نے دیکھ لیا تو مجھے اس زور سے ڈانٹا کہ میں ( ڈر کی وجہ سے ) نماز توٹنے کے قریب ہو گئی پھر ارشاد فرمایا کہ میں نے حضور آكرم صلى الله عليه وآله وسلم سے سنا ہے کہ جب کوئی شخص نماز میں کھڑا ہو تو اپنے بدن کو بالکل سکون سے رکھے یہود کی طرح ہلے نہیں بدن کے تمام اعضاء کا نماز میں بالکل سکون سے رہنا نماز کے پورا ہونیکا جزو ہے ۔ ( الحاكم والترمذی ) ف: حضرت ابوبکر صديق رضي الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ نفاق کے خشوع سے اﷲ ہی سے پناہ مانگو صحابہ كرام رضوان الله عليهم نے عرض کیا کہ حضور أكرم صلى الله عليه وآله وسلم نفاق کا خشوع کیا چیز ہے ارشاد فرمایا کہ ظاہر میں تو سکون ہو اور دل میں نفاق ہو 7- رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم سے کسی نے حق تعالیٰ جل شانہ کے ارشاد ان الصلوۃ تنہی الخ ( بے شک نماز روکتی ہے بے حیائی سے اور نا شائستہ حرکتوں سے ) کے متعلق دریافت کیا تو رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کی نماز ایسی نہ ہو اور اس کو بے حیائی اور ناشائستہ حرکتوں سے نہ روکے وہ نماز ہی نہیں(رواه حاتم) ۔ ف : حضرت ابن عباس رضي الله تعالى عنه حضور اقدس صلى الله عليه وآله وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ جو نماز بری باتوں اور نامناسب حرکتوں سے نہ روکے وہ نماز بجائے اﷲ کے قرب کے اﷲ سے دوری پیدا کرتی ہے حضرت حسن رضي الله تعالى عنه بھی رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم سے یہی نقل کرتے ہیں کہ جس شخص کی نماز اس کو بری باتوں سے نہ روکے وہ نماز ہی نہیں بلكه اس نماز کی وجہ سے اﷲ سے دوری پیدا ہوتی ہے رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ افضل نماز وہ ہے جس میں لمبی لمبی رکعتیں ہوں مجاہد کہتے ہین کہ حق تعالیٰ جل شانہ کے ارشاد قومو ﷲ قانتین ( اور نماز میں ) کھڑے رہو اﷲ کے سامنے مؤدب اس آیت میں رکوع بھی داخل ہے اور خشوع بھی اور لمبی رکعت ہونا بھی اور آنکھوں کو پست کرنا بازوؤں کو جھکانا ( یعنی اکڑ کے کھڑا نہ ہونا) اور اﷲ سے ڈرنا بھی شامل ہے کہ لفظ قنوت میں جس کااس آیت میں حکم دیا گیا یہ سب چیزیں داخل ہیں رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کے صحابہ كرام میں سے جب کوئی شخص نماز کو کھڑا ہوتا تھا تو اﷲ تعالی سے ڈرتا تھا اس بات سے کہ ادھر ادھر دیکھے یا ( سجدہ میں جاتے ہوئے ) کنکریوں کو الٹ پلٹ کرے ( عرب میں صفوں کی جگہ کنکریاں بچھائی جاتی ہیں ) یا کسی لغو چیز میں مشغول ہو یا دل میں کسی دنیاوی چیز کا خیال لائے ہاں بھول کے خیال آ گیا ہو تو دوسری بات ہے ۔ (اخرجہ البیہقی وغيرهما ) نماز حقیقت میں اﷲ جل شانہ کے ساتھ مناجات کرنا اور ہم کلام ہونا ہے جو غفلت کے ساتھ ہو ہی نہیں سکتا نماز کے علاوہ اور عبادتیں عفلت سے بھی ہو سکتی ہیں مثلاً زکوۃ ہے کہ اس کی حقیقت مال کا خرچ کرنا ہے یہ خود ہی نفس کو اتنا شاق ہے کہ اگر غفلت کے ساتھ ہو تب بھی نفس کو شاق گذرے گا اسی طرح روزہ دن بھر کا بھوکا پیاسا رہنا صحبت کی لذت سے رکنا کہ یہ سب چیزیں نفس کو مغلوب کرنے والی ہیں غفلت سے بھی اگر متحقق ہوں تو نفس کی شدت اور تیزی پر اثر پڑے گا لیکن نماز کا معظم حصہ ذکر ہے قرات قرآن ہے یہ چیزیں اگر غفلت کی حالت میں ہوں تو مناجات یا کلام نہیں ہیں ایسی ہی ہیں جیسے کہ بخار کی حالت میں ہذیان ہوتی ہے کہ جو چیز دل میں ہوتی ہے وہ زبان پر ایسے اوقات میں جاری ہو جاتی ہے نہ اس میں کوئی مشقت ہوتی ہے نہ کوئی نفع اسی طرح چونکہ نماز کی عادت پڑ گئی ہے اس لئے اگر توجہ نہ ہو تو عادت کے موافق بلا سوچے سمجھے زبان سے الفاظ نکلتے رہیں گے جیسا کہ سونے کی حالت میں اکثر باتیں زبان سے نکلتی ہیں کہ نہ سننے والا اس کو اپنے سے کلام سمجھتا ہے نہ اس کا کوئی فائدہ ہے اسی طرح حق تعالیٰ جل شانہ بھی ایسی نماز کی طرف التفات اور توجہ نہیں فرماتے جو بلاارادہ کے ہو اس لئے نہایت اہم ہے کہ نماز اپنی وسعت و ہمت کے موافق پوری توجہ سے پڑھی جائے یہ امر بهي نہایت ضروری ہے کہ اگر في الوقت خشوع اور خضوع پيدا نه هوا هو اور وه کیفیات جو پچھلوں کی معلوم ہوئی ہیں حاصل نہ بھی ہوں تب بھی نماز كو ترك نه كرے بلكه جس حال سے بھی ممکن ہو ضرور پڑھی جائے یہ بھی شیطان کاایک سخت ترین مکر ہو تا ہے وہ یہ سمجھائے کہ بری طرح پڑھنے سے تو نہ پڑھنا ہی اچھا ہے یہ غلط ہے نہ پڑھنے سے بری طرح کا پڑھنا ہی بہتر ہے اس لئے کہ نہ پڑھنے کا جو عذاب ہے وہ نہایت ہی سخت ہے حتیٰ کہ علماء کی ایک جماعت نے اس شخص کے کفر کا فتوی دیا ہے جو جان بوجھ کر نماز چھوڑ دے ۔البتہ اس کی کوشش ضرور ہونا چاہئے کہ نماز کا جو حق ہے اور اپنے اکابر اس کے مطابق پڑھ کر دکھا گئے ہیں حق تعالیٰ جل شانہ اپنے لطف سے اس کی توفیق عطا فرمائیں الله تعالى سے دعا هے كه وه رحيم وكريم ذات هم سبكو خشوع وخضوع سے نماز پڑهنے والا بنا دے (آمين ثم آمين)

تعداد ركعات ومسائل نماز: نماز کے رکعتیں: فجر------ دو رکعت سنت اور دو ركعت فرض ظہر------ چار ركعت سنت مؤكده - چار ركعت فرض - دو سنت مؤكده اور دو ركعت نفل عصر----- چار ركعت سنت (غیرہ موکدہ) - چار فرض مغرب ---- تین ركعت فرض - دو ركعت سنت پھر دو ركعت نفل عشاء ---- چار ركعت سنت (غیرموکدہ) - چار ركعت فرض - دو ركعت سنت مؤكده - دو ركعت نفل پھر تین ركعت وتر دو ركعت نفل جمعة---- چار ركعت سنت مؤكده - دو ركعت فرض - چار ركعت سنت مؤكده - دو ركعت سنت مؤكده اور دو ركعت نفل شرائطِ نماز: نماز کی سات شرطیں ہیں:(نماز شروع کرنے سے پہلے ان شرطوں کا ہونا ضروری ہے ورنہ نماز نہیں ہوگی) 1- نمازی کے بدن كا پاک ہونا۔ 2- نمازی کے کپڑوں كا پاک ہونا۔ 3- نماز کی جگہ كا پاک ہونا۔ 4- سترِ عورت یعنی بدن کا وہ حصہ جس کا چھپانا فرض ہے وہ چھپا ہوا ہو۔ مرد کے لیے ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے اور عورت کے لیے ہاتھوں، پاؤں اور چہرہ کے علاوہ سارا بدن ستر ہے۔ 5- استقبالِ قبلہ یعنی منہ اور سینہ كا قبلہ کی طرف ہونا۔ 6- نماز كا وقت هونا یعنی نماز کا اپنے وقت پر پڑھنا۔ 7- نیت کرنا . دل کے پکے ارادہ کا نام نیت ہے اگرچہ زبان سے کہنا مستحب ہے۔ فرائضِ(أركان ) نماز: نماز کے چھ فرائض يعني أركان ہیں:كوئى بهي فرض(ركن) بهول كر يا جان بوجهـ كر ره جائے تو نماز نهيں هوگى دوباره پڑهني پڑيگي 1- تکبیرِ تحریمہ یعنی پهلي مرتبه كانوں كي لو تك هاتهـ ليجا كر اَﷲُ اَکْبَرُ کہنا۔ 2-قیام یعنی سیدھا کھڑے ہوکر نماز پڑھنا۔، بلاعذرِ صحیح اگر بیٹھ کر پڑھے گا تو ادا نہیں ہوں گی. نفل نماز میں قیام فرض نہیں۔ 3-قرآت یعنی مطلقاًایک آیت پڑھنا۔ فرض کی پہلی دو رکعتوں میں اور سنت وتر و نوافل کی ہررکعت میں فرض ہے 4-رکوع کرنا۔ 5- دونون سجود کرنا۔ 6- قعده اخیرہ (آخرى تشهد) میں بیٹھنا۔ واجباتِ نماز: نماز میں چودہ امور واجبات میں سے ہیں: نماز کے واجبات میں سے اگر کوئی واجب بھولے سے رہ جائے تو سجدئہ سہو کرنے سے نماز درست ہوجائے گی. سجدئہ سہو نہ کرنے اور قصداً تر ک کرنے سے نماز کا لوٹانا واجب ہے۔ 1-فرض نمازوں کی پہلی دو رکعتوں میں قرآ ت کرنا (یعنی تنہا نماز پڑھنے والے یا باجماعت نماز میں اِمام کے لیے). 2-فرض نمازوں کی تیسری اور چوتھی رکعت کے علاوہ تمام نمازوں کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا۔ 3-فرض نمازوں کی پہلی دو رکعتوں میں اور واجب، سنت اور نفل نمازوں کی تمام رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورت یا بڑی آیت یا تین چھوٹی آیات پڑھنا۔ 4-سورہ فاتحہ کو کسی اور سورت سے پہلے پڑھنا۔ 5-قرآ ت، رکوع، سجدوں اور رکعتوں میں ترتیب قائم رکھنا۔ 6-قومہ کرنا یعنی رکوع سے اٹھ کر سیدھا کھڑا ہونا۔ 7-جلسہ یعنی دونوں سجدوں کے درمیان سیدھا بیٹھ جانا۔ 8-تعدیلِ ارکان یعنی رکوع، سجدہ وغیرہ کو اطمینان سے اچھی طرح ادا کرنا۔ 9-قعدۂ اُوليٰ یعنی تین، چار رکعت والی نماز میں دو رکعتوں کے بعد تشہد کے برابر بیٹھنا۔ 10-دونوں قعدوں میں تشہد پڑھنا۔ 11-امام کا نمازِ فجر، مغرب، عشاء، عیدین، تراویح اور رمضان المبارک کے وتروں میں بلند آواز سے قرآ ت کرنا اور ظہر و عصر کی نماز میں آہستہ پڑھنا۔ 12-اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَۃُ اﷲِ کے ساتھ نماز ختم کرنا۔ 13-نمازِ وتر میں قنوت کے لیے تکبیر کہنا اور دعائے قنوت پڑھنا۔ 14-عیدین کی نمازوں میں زائد تکبیریں کہنا۔ سننِ نماز: جو چیزیں نماز میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہیں لیکن ان کی تاکید فرض اور واجب کے برابر نہیں سنن کہلاتی ہیں۔ ان سنتوں میں سے اگر کوئی سنت سہواً رہ جائے یا قصداً ترک کی جائے تو نماز نہیں ٹوٹتی اور نہ ہی سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے لیکن قصداً چھوڑنے والا گنہگار ہوتا ہے - نماز میں درج ذیل سنن ہیں: تکبیر تحریمہ کہنے سے پہلے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھانا۔ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو معمول کے مطابق کھلی اور قبلہ رخ رکھنا۔ تکبیر کہتے وقت سر کو نہ جھکانا۔ امام کا تکبیر تحریمہ اور ایک رکن سے دوسرے رکن میں جانے کی تمام تکبیریں بلند آواز سے کہنا۔ سیدھے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے باندھنا۔ ثناء پڑھنا۔ تعوذ یعنی اَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ پڑھنا۔ تسمیہ یعنی بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ پڑھنا۔ فرض نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورہ فاتحہ پڑھنا۔ آمین کہنا ثنا، تعوذ، تسمیہ اور آمین سب کا آہستہ پڑھنا۔ سنت کے مطابق قرآت کرنا یعنی نماز میں جس قدر قرآنِ مجید پڑھنا سنت ہے اتنا پڑھنا۔ رکوع اور سجدے میں تین تین بار تسبیح پڑھنا۔ رکوع میں سر اور پیٹھ کو ایک سیدھ میں برابر رکھنا اور دونوں ہاتھوں کی کھلی انگلیوں سے گھٹنوں کو پکڑ لینا۔ قومہ میں امام کا تسمیع یعنی سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہُ اور مقتدی کا تحمید رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہنا اور منفرد کا تسمیع اور تحمید دونوں کہنا۔ سجدے میں جاتے وقت پہلے دونوں گھٹنے، پھر دونوں ہاتھ، پھر ناک، پھر پیشانی رکھنا اور اٹھتے وقت اس کے برعکس عمل کرنا یعنی پہلے پیشانی، پھر ناک، پھر ہاتھ اور اس کے بعد گھٹنے اٹھانا۔ جلسہ اور قعدہ میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھنا اور سیدھے پاؤں کو اس طرح کھڑا رکھنا کہ اس کی انگلیوں کے سرے قبلہ رخ ہوں اور دونوں ہاتھ رانوں پر رکھنا۔ تشہد میں اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ پر شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا اور اِلَّا اﷲُ پر انگلی گرا دینا۔ قعدۂ اخیرہ میں تشہد کے بعد درودِ ابراہیمی پڑھنا۔ درود اِبراہیمی کے بعد دعا پڑھنا۔ پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف سلام پھیرنا۔۔ مستحباتِ نماز: نماز میں درج ذیل اُموربجا لانا مستحب ہے: قیام میں سجدہ کی جگہ نگاہ رکھنا۔ رکوع میں قدموں پر نظر رکھنا۔ سجدہ میں ناک کی نوک پر نظر رکھنا۔ قعدہ میں گود پر نظر رکھنا۔ سلام پھیرتے وقت دائیں اور بائیں جانب کے کندھے پر نظر رکھنا۔ جمائی کو آنے سے روکنا، نہ رکے تو حالتِ قیام میں دائیں ہاتھ سے منہ ڈھانک لیں اور دوسری حالتوں میں بائیں ہاتھ کی پیٹھ سے۔ مرد تکبیر تحریمہ کے لیے کپڑے سے ہاتھ باہر نکالیں اور عورتیں اندر رکھیں۔ کھانسی روکنے کی کوشش کرنا۔ حَيَ عَلَی الْفَلَاحِ پر امام و مقتدی کا کھڑے ہونا۔ حالتِ قیام میں دونوں پاؤں کے درمیان کم از کم چار انگلیوں کا فاصلہ ہو۔ مفسداتِ نماز: بعض اعمال کی وجہ سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور اسے لوٹانا ضروری ہو جاتا ہے، انہیں مفسداتِ نماز کہتے ہیں۔ نماز کو فاسد بنانے والے اعمال درج ذیل ہیں: نماز میں بات چیت کرنا۔ سلام کرنا۔ سلام کا جواب دینا۔ درد اور مصیبت کی وجہ سے آہ و بکا کرنا یا اُف کہنا (لیکن جنت و دوزخ کے ذکر پر رونے سے نماز فاسد نہیں ہوتی). چھینک آنے پر اَلْحَمْدُِﷲِ کہنا۔ کسی کی چھینک پر يَرْحَمُکَ اﷲُ یا کسی کے جواب میں يَھْدِيْکُمُ اﷲُ کہنا۔ بری خبر پر اِنَّاِﷲِ وَاِنَّا اِلَيْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنا۔ اچھی خبر پر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہنا۔ دیکھ کر قرآن پڑھنا۔ کھانا پینا۔ عملِ کثیر یعنی ایسا کام کرنا کہ دیکھنے والا یہ گمان کرے کہ وہ نماز میں نہیں ہے۔ نمازی کا اپنے امام کے سوا کسی اور کو لقمہ دینا۔ قہقہہ کے ساتھ ہنسنا۔(إس سے نماز كيساتهـ وضو بهي ٹوٹ جاتا هے) مکروہاتِ نماز: بعض امور کی وجہ سے نماز ناقص ہو جاتی ہے یعنی نمازی اَصل اَجر و ثواب اور کمال سے محروم رہتا ہے، انہیں مکروہات نماز کہتے ہیں۔ ان سے اِجتناب کرنا چاہیے۔ نماز کو مکروہ بنانے والے امور درج ذیل ہیں: ہر ایسا کام جو نماز میں اﷲ کی طرف سے توجہ ہٹا دے مکروہ ہے۔ داڑھی، بدن یا کپڑوں سے کھیلنا۔ اِدھر اُدھر منہ پھیر کر دیکھنا۔ آسمان کی طرف دیکھنا۔ کمر یا کولہے وغیرہ پر ہاتھ رکھنا۔ کپڑا سمیٹنا۔ سَدْلِ ثوب یعنی کپڑا لٹکانا مثلاً سر یا کندھوں پر اس طرح ڈالنا کہ دونوں کنارے لٹکتے ہوں۔ آستین آدھی کلائی سے زیادہ چڑھی ہوئی رکھنا۔ انگلیاں چٹخانا۔ بول و براز (پاخانہ / پیشاب) یا ہوا کے غلبے کے وقت نماز ادا کرنا۔ اگر دورانِ نماز میں یہ کیفیت پیدا ہو جائے اور وقت میں بھی گنجائش ہو تو نماز توڑ دینا واجب ہے۔ قعدہ یا سجدوں کے درمیان جلسہ میں گھٹنوں کو سینے سے لگانا۔ بلاوجہ کھنکارنا۔ ناک و منہ کو چھپانا۔ جس کپڑے پر جاندار کی تصویر ہو اس کو پہن کر نماز پڑھنا۔ کسی کے منہ کے سامنے نماز پڑھنا۔ پگڑی یا عمامہ اس طرح باندھنا کہ درمیان سے سر ننگا ہو۔ کسی واجب کو ترک کرنا مثلاً رکوع میں کمر سیدھی نہ کرنا، قومہ یا جلسہ میں سیدھے ہونے سے پہلے سجدہ کو چلے جانا۔ قیام کے علاوہ اور کسی جگہ پر قرآنِ حکیم پڑھنا۔ رکوع میں قرآ ت ختم کرنا۔ صرف شلوار یا چادر باندھ کر نماز پڑھنا۔ امام سے پہلے رکوع و سجود میں جانا یا اٹھنا۔ قیام کے علاوہ نماز میں کسی اور جگہ قرآنِ حکیم پڑھنا۔ چلتے ہوئے تکبیر تحریمہ کہنا۔ امام کا کسی آنے والے کی خاطر نماز کو بلا وجہ لمبا کرنا۔ قبر کے سامنے نماز پڑھنا۔ غصب کی ہوئی زمین/مکان/کھیت میں نماز پڑھنا۔ الٹا کپڑا پہن/اوڑھ کر نماز پڑھنا۔ اچکن وغیرہ کے بٹن کھول کر نماز پڑھنا جبکہ نیچے قمیص نہ ہو۔ نماز توڑنے کے عذر: بلاعذر نماز توڑنا حرام ہے، البتہ چند حالتوں میں نماز توڑنا جائز ہے مثلاً مال کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو نماز توڑنا مباح ہے جبکہ جان بچانے کے لیے واجب ہے، خواہ اپنی جان یا کسی مسلمان کی جان بچانا مقصود ہو۔ نماز توڑنے کے لیے بیٹھنے کی ضرورت نہیں بلکہ کھڑے کھڑے سلام پھیر دینا کافی ہے

نماز پڑھنے کا طریقہ: نماز شروع كرنے سے پہلے نماز كي شرائط كا بورا هونا ضروری ہے پھر ُدونوں پاؤں کے درمیان کم ازکم چار انگلیاں اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت کا فاصلہ کرکے کھڑا ہو۔ جو نماز پڑھنی ہے اس کي دل سے نيت کرے اور زبان سے کہنا مستحب ہے۔ نيت كرنيكا طريقه درج زيل هے
فرض نماز کی نیت:
جس وقت کی نماز اور جتنی رکعات ہوں، نیت میں ان کا ذکر کیا جائے۔ مثال کے طور پر ظہر کے فرضوں کی نیت یوں کی جائے گی: میں نیت کرتا / کرتی ہوں چار رکعت فرض نماز ظہر کی، واسطے اﷲ تعاليٰ کے، منہ طرف کعبہ شریف کے۔ اگر امام کے پیچھے ہوں تو پھر کہا جائے: ’پیچھے اس امام کے۔‘ اس کے بعد تکبیرِ تحریمہ یعنی اَﷲُ اَکْبَرُ کہہ کر ہاتھ باندھ لے۔
سنت/نفل نماز کی نیت: میں نیت کرتا / کرتی ہوں . . . رکعت سنت/ نفل نماز . . . کی، واسطے اﷲ تعاليٰ کے، منہ طرف کعبہ شریف کے، اَﷲُ اَکْبَر۔
واجب نماز کی نیت:
میں نیت کرتا/کرتی ہوں تین رکعت وتر واجب نماز عشاء کی، واسطے اﷲ تعاليٰ کے، منہ طرف کعبہ شریف کے، اَﷲُ اَکْبَر۔ پھر دونوں ہاتھ اپنے کانوں کی لو تک لے جائے اس طرح کہ ہتھیلیاں قبلہ رُخ ہوں اور انگلیاں نہ کھلی ہوئی ہوں نہ ملی ہوئی بلکہ اپنی نارمل حالت میں ہوں۔ اَﷲُ اَکْبَرُ کہتا ہوا ہاتھ نیچے لائے اور ناف کے نیچے باندھ لے اس طرح کہ داہنی ہتھیلی بائیں کلائی کے سرے پر ہو اور بیچ کی تین انگلیاں بائیں کلائی کی پشت پر اور انگوٹھا اور چھنگلیاں کلائی کے أطراف ميں ہوں اور نظر بالكل سجدہ کی جگہ پر رہے اور پھر ثناء پڑھے۔
ثناء: سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ، وَتَعَالٰی جَدُّکَ، وَلَا اِلٰهَ غَيْرُکَ. ’’اے اﷲ: ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں، تیری تعریف کرتے ہیں، تیرا نام بہت برکت والا ہے، تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘ اگر جماعت کے ساتھ نمازپڑھ رہا ہے تو ثناء پڑھ کر خاموش ہو جائے اور اگر تنہا ہو تو ثناء کے بعد تعوذ، تسمیہ اور سورئہ فاتحہ کے ساتھ کوئی سورۃ ملا کر پڑھے۔
تعوذ: اَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِo ’’میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگتا/مانگتی ہوںo‘‘
تسميه: بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِo ’’اﷲ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہےo‘‘
سورۃ الفاتحہ: اَلْحَمْدُِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِo مٰلِکِ يَوْمِ الدِّيْنِo اِيَاکَ نَعْبُدُ وَاِيَاکَ نَسْتَعِيْنُo اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَo صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ لا غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّآلِّيْنَo ’’سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہےo نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہےo روزِ جزا کا مالک ہےo (اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیںo ہمیں سیدھا راستہ دکھاo ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایاo ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کاo‘‘ سورۃ الفاتحہ پڑھنے کے بعد اِمام اور مقتدی دونوں آہستہ آواز سے آمین کہیں: . اس کے بعد کوئی سی چھوٹی سورت یا کم اَز کم تین آیات پڑھی جائیں۔
سورۃ الاخلاص: قُلْ هُوَ اﷲُ اَحَدٌo اَﷲُ الصَّمَدُo لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُوْلَدْo وَلَمْ يَکُنْ لَّهُ کُفُوًا اَحَدٌo ’’(اے نبيِ مکرّم!) آپ فرما دیجئے: وہ اﷲ ہے جو یکتا ہےo اﷲ سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہے o نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہےo اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہےo‘‘ پھر اَﷲُ اَکْبَرُ کہتے ہوئے رکوع میں جائے اور گھٹنوں کو ہاتھ کی انگلیوں سے مضبوط پکڑلے اور اتنا جھکے کہ سر اور کمر برابر ہوجائے اور کم سے کم تین بار تسبیح رکوع کہے: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْمِ. ’’پاک ہے میرا پروردگار عظمت والا۔ اگر جماعت ہوتو پھر رکوع سے اٹھتے ہوئے صرف امام تسمیع کہے: سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ. ’’اﷲ تعاليٰ نے اس بندے کی بات سن لی جس نے اس کی تعریف کی.‘‘
قومہ پھر دونوں ہاتھ چھوڑ کرسیدھا کھڑا ہوجائے اور مقتدی تحمید کہے۔ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ. ’’اے ہمارے پروردگار! تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں۔‘‘ تنہا نماز پڑھنے والا اور جماعت سے پڑھنے والا دونوں تحمید کہیں پھر اَﷲُ اَکْبَرُکہتا ہوا سجدہ میں جائے اس طرح کہ پہلے گھٹنے پھر دونوں ہاتھ زمین پر رکھے، پھر ناک اور پھر پیشانی خوب جمائے اور چہرہ دونوں ہاتھوں کے درمیان رکھے اور مرد بازوؤں کو کروٹوں سے اور پیٹ کو رانوں سے اور رانوں کو پنڈلیوں سے جدا رکھے اور کُہنیاں زمین سے اٹھی ہوئی ہوں اور دونوں پاؤں کی انگلیوں کے پیٹ قبلہ رُو زمین پر جمے ہوئے ہوں اور کم سے کم تین بار سجدہ کی تسبیح پڑھے:
پهلا سجدہ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْاَعْلٰی. ’’پاک ہے میرا پروردگار جو بلند ترہے۔‘‘
جلسہ: پھراَﷲُ اَکْبَرُ کہتا ہوا سجدہ سے اس طرح اٹھے کہ پہلے پیشانی، پھر ناک، پھر ہاتھ اٹھیں اور بایاں قدم بچھا کر اس پر بیٹھے اور داہنا قدم کھڑا کر کے رکھے۔ اس کی انگلیاں قبلہ رُو ہوں اور ہاتھ رانوں پر گھٹنوں کے قریب کہ ان کی انگلیاں بھی قبلہ رُخ ہوں .
دوسرا سجدہ: اسی طرح جلسہ سے ﷲُ اَکْبَرُ کہتا ہوا دوسرا سجدہ کرے اور پھر ﷲُ اَکْبَرُ کہتا ہوا کھڑا ہوجائے۔ إسي طرح دوسرى ركعت مكمل كرے
قعدہ أولى: دوسری رکعت کے دونوں سجدوں سے فارغ ہوکر اس طرح بیٹھ جائے جس طرح دو سجدوں کے درمیان بیٹھا تھا۔ پھر بیٹھ کر تشہد پڑھے۔
تشہد: اَلتَّحِيَاتُِﷲِ، وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّيِبَاتُ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُهَا النَّبِيُ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَبَرَکَاتُهُ، اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اﷲِ الصّٰلِحِيْنَ، اَشْهَدُ اَنْ لَّااِلٰهَ اِلَّا اﷲُ، وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ. ’’تمام قولی، فعلی اور مالی عبادتیں اﷲ ہی کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام ہو اور اﷲ کی رحمت اور برکتیں ہوں، ہم پر اور اﷲ کے تمام نیک بندوں پر بھی سلام ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘ جب تشہد میں کلمہ اَشْهَدُ اَنْ لَّااِلٰهَ َ پر پہنچے تو داہنے ہاتھ کی بیچ کی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنائے اور چھنگلی اور اس کے پاس والی انگلی کو ہتھیلی سے ملادے اور لفظ لَا پر شہادت کی انگلی اٹھائے اور اِلاَّ پر گرا دے اور سب انگلیاں فوراً سیدھی کردے۔ اگر دو رکعت والی نماز ہے تو اس تشہد کے بعد درود ابراہیمی اور دعا پڑھ کر سلام پھیردے۔
دو یا چار رکعات نماز کا طریقہ: اگر چار رکعت والی نماز ہے تو تشہد کے بعد اَﷲُ اَکْبَرُ کہہ کر کھڑا ہوجائے اور دونوں رکعتوں میں اگر فرض ہوں تو صرف تسمیہ اور سورئہ فاتحہ پڑھ کر رکوع و سجود کرے اور اگر سنت و نفل ہوں توسورئہ فاتحہ کے بعد کوئی اور سورۃ بھی پڑھے لیکن امام کے پیچھے مقتدی تسمیہ اور فاتحہ نہیں پڑھے گا بلکہ خاموش کھڑا رہے گا۔ پھر چار رکعتیں پوری کر کے بیٹھ جائے اور تشہد، درودِ ابراہیمی اور دعا پڑھے اور سلام پھیردے۔
درودِ ابراہیمی:
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ وَ عَلٰی آلِ اِبْرَاهِيْمَ، اِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ. اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ وَ عَلٰی آلِ اِبْرَاهِيْمَ، اِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ. ’’اے اﷲ! رحمتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ کی آل پر، جس طرح تونے رحمتیں نازل کیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔ اے اﷲ! تو برکتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ کی آل پر، جس طرح تونے برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔‘‘
دعاءِ ماثورہ:
درود ابراہیمی کے بعد یہ دعا پڑھیں: رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَتِيْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآئِo رَبَّنَا اغْفِرْلِيْ وَلِوَالِدَيَ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُo ’’اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم رکھنے والا بنا دے، اے ہمارے رب! اور تو میری دعا قبول فرما لےo اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو (بخش دے) اور دیگر سب مومنوں کو بھی، جس دن حساب قائم ہوگاo‘‘ اگرچاہے تو قرآن و حدیث میں مذکور کوئی اور دعا بھی پڑھ سکتا ہے- پھر نماز ختم کرنے کے لیے پہلے دائیں اور پھر بائیں طرف منہ کرکے سلام کہے۔ اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اﷲِ. ’’تم پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو۔‘‘ داہنی طرف کے سلام میں دا ہنی طرف کے فرشتوں اور نمازیوں کی نیت کرے کہ میں ان کو سلام کہہ رہا ہوں اور بائیں طرف کے سلام میں بائیں طرف کے فرشتوں اور نمازیوں کی نیت کرے اورجس طرف امام ہو اس طرف کے سلام میں امام کی نیت بھی کرے۔ اسی طرح امام بھی دونوں طرف کے سلاموں میں فرشتوں اور مقتدیوں کی نیت کرے . جب تنہا ہو تو دونوں طرف کے فرشتوں کی نیت کرے۔
نماز وتر پڑهنے كا طريقه: نماز وتر كا طريقه بهي وهي هے جو اوپر ذكر هوا بس يه فرق هے كه تین وتروں کی آخری رکعت میں قیام کے دوران سورۃ فاتحہ اور دوسری کوئی سورۃ پڑھنے کے بعد هاتهـ أٹها كر تكبير كهے اور دعائے قنوت پڑھی جائے (اگر نمازی دعائے قنوت پڑھنا بھول جائے اور رکوع میں چلا جائے تو واپس نہ لوٹے بلکہ سجده سہو کرے )
دعائے قنوت: اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِيْنُکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ، وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَلُّ عَلَيْکَ، وَنُثْنِيْ عَلَيْکَ الْخَيْرَ، وَنَشْکُرُکَ وَلَا نَکْفُرُکَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ يَفْجُرُکَ، اَللّٰهُمَّ اِيَاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّيْ وَنَسْجُدُ وَاِلَيْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ، وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ، وَنَخْشٰی عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفَّارِ مُلْحِقٌّ. ’’اے ﷲ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں اور تجھ سے بخشش چاہتے ہیں، تجھ پر ایمان لاتے ہیں اور تجھ پر بھروسہ کرتے ہیں، ہم تیری اچھی تعریف کرتے ہیں، تیرا شکر ادا کرتے ہیں اور تیری ناشکری نہیں کرتے، اور جو تیری نافرمانی کرے اُس سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کرتے ہیں۔ اے اﷲ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تیرے لیے ہی نماز پڑھتے، تجھے ہی سجدہ کرتے ہیں۔ تیری ہی طرف دوڑتے اور حاضری دیتے ہیں، ہم تیری رحمت کے امید وار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بے شک تیرا عذاب کافروں کو ہی پہنچنے والا ہے۔‘‘ آحاديث مباركه ميں اور بهت سي دعائے قنوت مذكور هيں كوئى بهي پڑهى جا سكتي هے ليكن چونكه اوپر والي دعا مختصر هونيكے ساتهـ جامع اورآسان بهي هے اور همارے هاں آكابرين كے معمول ميں بهي هے هر مسلمان كو كم از كم اوپر والي دعائے قنوت تو ياد هوني هي چاهيے ليكن بالفرض اگر کسی کو دعائے قنوت یاد نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ دعا یاد کرے اور جب تک دعائے قنوت یاد نہ ہو توأسوقت تك اس کی جگہ یہ دعا پڑھ لے: رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّار. (البقرة) ’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھلائی سے نواز اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ.‘‘ مرد اور عورت کی نماز میں فرق: مرد اور عورت کی جسمانی ساخت میں إيك واضح فرق پایا جاتا ہے، شریعت مطهره نے شرعی اَحکام و مسائل میں بھی اس کا لحاظ رکھا هے۔ طہارت ، حج ، روزہ ٰ وغيره کے مسائل ميں بهي عورت کے عورت ہونے کا کسی نہ کسی طرح سے اِظہار ہو جاتا ہے اِسی طرح نماز جیسی افضل عبادت میں بھی بعض مخصوص مواقع پر عورت کا طریقۂ نماز مرد سے مختلف رکھا گیا تاکہ عورت کے پردہ کا لحاظ رکھا جائے۔ اس کے اعضائے نسوانی کا اعلان و اظہار نہ ہو مثلاً عورت نماز میں تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کاندھے تک اٹھاتی ہے جبکہ مرد کانوں کی لو تک، مردوں کو سجدہ میں پیٹ رانوں سے اور بازو بغل سے جدا رکھنے کا حکم ہے۔ جبکہ عورت کو سمٹ کر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کہ وہ سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو اپنی دونوں رانوں سے چپکائے . مرد اور عورت کی نماز میں یہ بنیادی فرق پردہ کے اعتبار سے ہے۔

نماز كى محنت: سطور بالا ميں نماز كے متعلق كافي بيان هو چكا هے كوشش يه كي گئى هے كه كم از كم جو چيزيں نمازي كو روزمره پيش آتي هيں وه بيان كردي جائيں ليكن چونكه نماز كا باب بهت وسيع هے إس لئے مزيد ضرورت پڑنے پر علماء كرام سے رجوع كرنا ضروري هے ورنه إيسا نه هو كه محنت بهي كي اور حاصل بهي كچهـ نه هوا بلكه نقصان هوا مثلاً "سعودي عريبيه ميں حرم مكه كي تراويح كي نماز كو ٹي وي پر براه راست دكهايا جاتا هے بعض جاهل اپنے زعم مين ٹي وي كهول كر اس كے سامنے مصله بچها كر نماز إمام حرم كي إقتداء ميں ادا كرليتے هيں تو علماء كرام سے پوچهـے بغير خود كوئى إيسا عمل نهيں كرنا چاهيے جس كي مكمل معلومات نه هوں " تو اب آئيے إس باب كے إنتهائى إهم اور ضروري حصه "نماز كى محنت "كي طرف يه تو هر شخص جانتا هے كه كوئى بهي مقصد حاصل كرنے كيلئے محنت كرنا لازم وملزوم هے پهر يه بهي بات واضح هے كه محنت تو هر شخص كرتا هے ليكن كامياب وهي هوتا هے جو محنت صحيح طريقه سے كررها هو اگر كوئى محنت تو كررها هے ليكن اسكا طريقه صحيح نهيں هے تو وه چاهے كتني هي محنت كرتا رهے وه كهبي بهي منزل پر نهيں پهنچ پائے گا إسكي مثال إسيطرح هے كه إيك شخص نے جانا تو إسلام آباد هے ليكن سفر وه كراچي كي طرف كررها هے وه چاهے كتني هي رفتار سے سفر كرتا رهے ليكن وه إسلام آباد كهبي بهي نهيں پهنچ سكے گا كيونكه اسكي محنت كا رخ صحيح نهيں هے إسي طرح دين كے كسي بهي جز كي محنت كا فائده تب هوگا اگر وه صحيح نهج پر هوگي اور صحيح نهج وهي هوسكتي هے جو هميں رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم اور صحابه كرام سے محنت كا طريقه ملا اگر هم اپني مرضي كے طريقه پر محنت كريں گے تو كهبي بهي كامياب نه هونگے ليكن اگر وهي محنت رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقه پر هوگي تو إن شاء الله هم دونوں جهانوں ميں كامياب هوجائيں گے يهي صورت حال نماز كي محنت كي هے كه نماز كے فضائل اور فوائد حاصل كرنے كيلئے محنت ضروري چيز هے اور يه محنت رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقه پر هونا ضروري هے جيسا كه معلوم هے كه دعوت و تبليغ كا كام (6) نمبروں ميں ره كر كيا جاتا هے اور هر نمبر كي محنت بهي مندرجه زيل تين طريقه سے هونا ضروري هے:
1- دعوت دينا 2- مشق كرنا 3- دعا كرنا تو نماز كے ثمرات صحيح طرح سے حاصل كرنے كيلئے ضروري هے كه هم إسكي محنت بهي اوپر ذكر كرده تين طريقوں سے كريں تاكه هم صحيح نماز كے فوائد سے مستفيد هوسكيں
1- نماز كي دعوت : نماز كي حقيقت كو پانے كے لئے نمازي كي پهلى محنت نماز كي دعوت دوسرے لوگوں كو دينا هے جتني زياده وه نماز كي دعوت دے گا اتنا هي جلد اور زياده نماز كي حقيقت كو پائے گا يه تو هر كوئى جانتا هے اور إس ميں كوئى شك بهي نهيں كه أمت ميں أعمال كا رواج كسي نه كسي درجه ميں موجود هے ليكن يه بهي إيك حقيقت هے كه أعمال تو هيں ليكن يه أعمال حقيقت سے خالي هيں صرف شكل هے اب هوتا يه هے كه دعوت دينے والا نماز كي دعوت جب بے نمازي كو ديتا هے اور پهر جب دل هي دل مين اپنا موازنه اس سے كرتا هے تو اپنے آپ كو بهتر سمجهتا هے تو چونكه وه بے نمازي كو سامنے ركهـ كر دعوت ديتا هے إس لئے لامحاله اپني نماز ميں وه كوئى كمي محسوس نهيں كرتا إس لئے اس پر محنت كرنا بهي ضروري نهيں سمجهتا بلاشبهه بے نمازي كو بهي نماز پڑهنے كي دعوت ديني هے ليكن بے نمازي كو سامنے ركهـ كر نهيں بلكه اپني نماز كي حقيقت كو سامنے ركهـ كر جس كو دعوت ديني هے اس سے كهيں زياده دعوت دينے والا نماز كي حقيقت كو پانے كا محتاج هے پهر يه بهي إيك واضح حقيقت هے كه بے نمازي سے بهي كهيں زياده نمازي كو دعوت دينے كي ضرورت هے نماز كي دعوت كا مقصد يهي هے كه همارے اندر نماز كي حقيقت آ جائے- غور كرنے سے يه فرق خود هي عياں هوجاتا هے حديث مباركه ميں هے كه نماز يا تو روشن اور چمكدار هوكر نمازي كے لئے دعا كرتي جاتي هے يا سياه رنگ ميں نمازي كے لئے بددعا كرتي جاتي هے كه إے الله جس طرح إس نمازي نے ميرے حق كو ادا نه كركے مجهے برباد كيا إسي طرح تو اسے بهي برباد كردے پهر يه نماز پرانے كپڑے كي طرح لپيٹ كر نمازي كے منه پر مار دي جاتي هے إسي طرح حديث مباركه ميں يه بهي آتا هے كه قبر ميں نماز نمازي كے سر كي طرف موجود هوگي اور قيامت والے دن جب نمازي الله تعالى كے سامنے كهڑا هوگا تو يه نماز ميزان پر اپنا وزن كروا رهي هوگي رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم معراج شريف سے جهاں نماز ساتهـ لے كر تشريف لائے تو وهاں نماز كي حقيقت بهي ساتهـ لائے تهے إس لئے دعوت دينے والے كے لئے ضروري هے كه جب وه دعوت دے تو بے نمازي كو سامنے ركهـ كر دعوت نه دے بلكه نماز كي حقيقت كو سامنے ركهـ كر دعوت دے نماز كے خشوع وخضوع كو سامنے ركهـ كر دعوت دے نماز كي صفت إحسان كو سامنے ركهـ كر دعوت دے كه الله تعالى اسے ديكهـ رهے هيں يا كم ازكم يه كه وه الله تعالى كو ديكهـ رها هے تو إن چند چيزوں كو سامنے ركهـ كر نماز كي دعوت دي جائے چونكه دعوت دينے والے كا مقصد خود اپنے اندر نماز كي حقيقت كو بيدا كرنا هے إس لئے وه نماز كي حقيقت كي دعوت دے رها هے اگر هم بے نمازيوں كو سامنے ركهـ كر نماز كي دعوت ديں گے تو نماز كي حقيقت كو كهبي بهي نه پا سكيں گے نه هي همارى نماز ميں كوئى ترقي هوگي إس لئے نماز كي حقيقت كو سامنے ركهـ كر دعوت ديني هے إس حقيقت كو خوب كهول كهول كر بيان كيا جائے نماز كے فوائد جو دنيا اور آخرت ميں هميں مليں گے أنهيں خوب خوب سمجهايا جائے - حضور أكرم صلى الله عليه وآله وسلم كي نماز كے بارے ميں آچهي طرح بتايا جائے اور صحابه كرام رضوان الله عليهم كے واقعات بيان كيے جائيں كه أنهوں نے نماز پر كس طرح محنت كي اور نماز كے ذريعه سے هي الله تعالى سے اپنے مسائل حل كروائے تو لوگوں كا ذهن بنايا جائے كه جس طرح صحابه كرام رضوان الله عليهم نے نماز سے اپنا هر هر مسئله حل كروا ليا تو اگر آج هم بهي أسي يقين كيساتهـ نماز پڑهيں گے تو الله تعالى كے وعدے همارے لئے بهي وهي هيں جو صحابه كرام رضوان الله عليهم كے لئے تهے تو نماز كي دعوت ميں خوب خوب سمجهايا جائے جتني زياده آپ دعوت پر محنت كريں گے اتنا هي زياده نماز كا يقين آپ كے دل ميں آئے گا اور نماز كي حقيقت سمجهـ ميں آئے گي

2- نماز كي مشق:
نماز كي مشق دو إعتبار سے كرنا ضروري هوتي هے جو مندرجه زيل هيں :-
1-ظاهري مشق 2- باطني مشق

1-ظاهري مشق:
ظاهري مشق ميں نماز كے فرائض - واجبات اور سنن وغيره كا إهتمام هونا يعني طهارت ، قيام ، قرأءت ، ركوع ، قومه ، سجود ، جلسه اور قعده وغيره بالكل صحيح هوں

1- نمازی کے بدن كا پاک هونا:
ظاهري مشق ميں سب سے پهلے شرائط نماز كا إهتمام آتا هے- شرائط نماز ميں پهلى شرط طهارت كي هے كه نمازی کو اپنا بدن نجاستِ حکمی و حقیقی سے پاک کرنا فرض ہے، نجاست حکمیہ وہ ہے جو دیکھنے میں نہیں آ سکتی مگر شرعیت کے حکم سے نجاست کہلاتی ہے اس کی دو قسمیں ہیں،
1-حدثِ اکبر یا جنابت یعنی غسل فرض ہونا،
2- حدثِ اصغر یعنی بے وضو ہونا،
پس حالت جنابت کے لئے غسل اور بے وضو کو وضو کرنا نجاستِ حکمی سے بدن کو پاک کرنا کہلاتا ہے تو يه ضروري هے كه نمازي كا بدن - لباس اور نماز كا مقام بالكل پاك هوں- بدن كي طهارت ميں وضو لازمي هے اگر وضو نه كيا يا كيا تو هے ليكن وضو كے فرائض ميں سے كوئى فرض ره گيا تو وضو نه هوا اور اگر وضو نه هوا تو نماز بهي نه هوئى كيونكه نماز كے لئے وضو كا هونا شرط هے
إسي طرح اگر نمازي جنبي هے تو اسے غسل كرنا بهي ضرورى هے كيونكه اس پر غسل فرض هے اور غسل ميں يهي هے كه اسے سنت طريقه سے كيا جائے اور غسل ميں جو چيزيں فرض هيں ان ميں سے اگر كوئى إيك بهي ره گئى تو غسل نهيں هوگا اور اگر غسل نه هوا تو ظاهر هے طهارت حاصل نه هوئى تو پهر نماز بهي نه هوگي
إنكے ساتهـ هي جڑا هوا إيك اور عمل تيمم كا بهي هے كه اگر نمازي بيمار هے اور پاني كے إستعمال سے اسكي بيماري ميں آضافه هونے كا خدشه هے يا مسافر هے اور باني ميسر نهيں هے تو إن صورتوں ميں تيمم كيا جاسكتا هے جس سے طهارت حاصل هوجائے گي - نمازي كے لئے ضروري هے كه وه وضو ، غسل اور تيمم كا سنت طريقه سيكهـے اور يه بهي معلوم كرنا ضروري هے كه إن ميں كيا كيا چيزيں فرض هيں تاكه كوئى بهي فرض كرنے سے ره نه جائے - ذيل ميں وضو ،غسل اور تيمم كا سنت طريقه اور إن كے فرائض وغيره بيان كيے جارهے هيں تاكه نمازي كو إن كا إهتمام كرنے ميں آساني هو اور وه إس كي آچهي طرح مشق كرے تاكه اس كي نماز صحيح هوجائے

وُضو كا حكم:
ارشادِ باری تعاليٰ هے:
يٰاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ ا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَکُمْ وَاَيْدِيَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُ ئُوْسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَيْنِ. (المائدة)
’’اے ایمان والو! جب (تمہارا) نماز کے لیے کھڑے (ہونے کا ارادہ) ہو تو (وضو کے لیے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)

وضو کا طریقہ:
پہلے پاکی حاصل کرنے اور ثواب پانے کی نیت کرے۔ اس کے بعد بسم اللہ پڑھ کر تین بار دونوں ہاتھ کلائی تک دھوئے اور پھر تین بار کلی کرے اور مسواک کرے۔ پھر تین بار ناک میں پانی چڑھائے اور بائیں ہاتھ سے ناک صاف کرے۔ پھر تین بار منہ دھوئے اس طرح کہ پیشانی کے بالوں سے لے کر ٹھوڑی کے نیچے تک اور دونوں کانوں کی لَوتک کوئی جگہ خشک نہ رہے۔ اگر گھنی داڑھی ہو تو خلال کرے اور اگر داڑھی اتنی ہلکی ہو کہ جلد نظر آتی ہو تو جلد کو دھوئے۔ پھر تین بار دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے، پہلے دایاں پھر بایاں۔ پھر نئے پانی سے دونوں ہاتھ تر کرکے پورے سرکا ( يا كم از كم چوتهائي سر كا ) ایک بار مسح کرے اس طرح کہ پیشانی کے بالوں سے دونوں ہاتھوں کی تین اُنگلیاں پھیرتا ہوا گدی تک لے جائے اور پھر گُدی سے ہتھیلیاں پھیرتا ہوا واپس لائے۔ پھر شہادت کی انگلی سے کان کے اندرونی حصہ اور انگوٹھے کے پیٹ سے کان کی بیرونی سطح اور انگلیوں کی پشت سے گردن کا مسح کرے۔ پھر تین بار دونوں پاؤں دھوئے اور انگلیوں کا خلال کرے، پہلے دایاں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے۔ پهر تین بار بایاں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے

وضو کے فرائض:
وضو کے چارفرائض ہیں، جن کے بغیر وضو نہیں ہوتا:
1- منہ دھونا۔
2- دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت دھونا۔
3- چوتھائی سر کا مسح کرنا۔
4- دونوں پاؤں ٹخنوں سمیت دھونا۔

وضو کی سنتیں:
وضو میں تیرہ سنتیں ہیں:
1- نیت کرنا۔
2- بسم اللہ پڑھ کر شروع کرنا۔
3- دونوں ہاتھ کلائی تک دھونا۔
4- انگلیوں میں خلال کرنا۔
5- کلی کرنا۔
6- مسواک کرنا۔
7- ناک میں پانی چڑھانا۔
8- داڑھی کا خلال کرنا۔
9- پورے سَر کا مسح کرنا۔
10- کانوں کا مسح کرنا۔
11- پے درپے وضو کرناکہ پہلا عضو خشک ہونے نہ پائے
12- ترتیب قائم رکھنا
13- دھوئے جانے والے ہر عضو کو تین بار دھونا۔

وضوکے مستحبات:
وضو میں درج ذیل چند امور مستحب ہیں:
1- گردن کا مسح کرنا۔
2- قبلہ کی طرف منہ کرنا۔
3- پاک اور اونچی جگہ پر وضو کرنا۔
4- پانی بہاتے وقت اعضاء پر ہاتھ پھیرنا۔
5- بغیرضرورت دوسرے سے مدد نہ لینا۔
6- دنیا کی باتیں نہ کرنا۔
7- بچا ہوا پانی کھڑے ہوکر تھوڑا پی لینا۔
8- وضو کے بعد یہ دُعا پڑھنا:
اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِيْ مِنَ التَّوَّابِيْنَ وَاجْعَلْنِيْ مِنَ المُتَطَهِرِيْنَ وَاجْعَلْنِيْ مِنْ عِبَادِکَ الصَّالِحِيْنَ.
’’اے اللہ! مجھے توبہ کرنے والوں اور پاک لوگوں اور اپنے صالحین بندوں میں سے کر دے۔‘‘

وضو کے مکروهات:
درج ذیل امور کی بناء پر وضو مکروہ ہو جاتا ہے:
1- کلی کے لیے بائیں ہاتھ سے منہ میں پانی ڈالنا۔
2- عذر کے بغیر ایک ہاتھ سے منہ دھونا۔
3- منہ دھوتے وقت زور سے منہ پر چھینٹے مارنا۔
4- وضو کرتے وقت ضرورت سے کم پانی استعمال کرنا۔
5- وضو کرتے وقت ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کرنا۔
6- وضو کرتے ہوئے دنیاوی گفتگو کرنا۔
7- گلے کا مسح کرنا۔
8- ناپاک جگہ پر وضو کا پانی گرانا۔
9- وضو کے پانی کے قطرے وضو کے برتن میں ٹپکانا۔
10- کسی سنت کو ترک کرنا۔

وضو توڑنے والے اُمور:
درج ذیل اُمور سے وضو ٹوٹ جاتا ہے:
1- پاخانہ یا پیشاب کے مقام سے کسی چیز کا نکلنا۔
2- خون یا پیپ زدہ پانی کا نکل کر بدن پر بہہ جانا۔
3- منہ بھرقے کرنا۔
4- کسی شخص کا تکیہ لگا کر اس طرح سونا کہ تکیہ ہٹانے سے وہ گر جائے اور کولہے زمین سے ہٹ جائیں، لیکن اگر وہ بیٹھا رہا اور اس کے کولہے جگہ سے نہیں ہٹے تو وضو نہیں ٹوٹا۔
5- بالغ شخص کا نمازمیں قہقہہ لگانا۔
6- کسی وجہ سے بیہوش ہوجانا۔
7- دکھتی آنکھ سے پانی کا بہنا۔
8- منی، ودی اور مذی خارج ہونا۔

غسل كا حكم:
ارشادِ باری تعاليٰ ہے:
وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَرُوْا. (المائدة)
’’اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ۔‘‘

غسل کا مسنون طریقہ:
پہلے دونوں ہاتھ کلائی تک دھوئے، پھر استنجا کرے اور جس جگہ نجاست ہو اس کو دور کرے۔ پھر نماز كي طرح وضو کرے اور وضو کے بعد تین مرتبہ سارے جسم پر پانی بہائے، پانی بہانے کی ابتدا سر سے کرے اور اِس کے بعد دائیں کندھے کی طرف سے پانی بہائے، پھر بائیں کندھے کی طرف سے پانی بہانے کے بعد پورے بدن پر تین مرتبہ پانی ڈالے اورخوب مَلے اور دورانِ غسل بدون شديد ضرورت كے کسی سے کلام نہ کرے۔

غسل کے فرائض:
غسل کے تین فرض ہیں:
1- کلی کرنا، اس طرح کہ پانی حلق کی جڑ تک پہنچ جائے۔ لیکن روزہ کی حالت میں صرف كلي هي كرےاور اِحتیاط کی جائے۔ اگر خدانخواسته حالتِ روزہ میں پانی حلق سے نیچے اتر گیا تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔
2- ناک میں پانی ڈالنا کہ جہاں تک نرم ہڈی ہے دُھل جائے۔یکن روزہ کی حالت میں اِحتیاط کی جائے۔ اگر خدانخواسته حالتِ روزہ میں پانی اندر اتر گیا تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔
3-سارے بدن پر ایک بار اس طرح پانی بہانا کہ کوئی بھی جگہ خشک نہ رہ جائے۔ اگر إيك بال كے برابر بهي جگه خشك ره گئي تو غسل نهيں هوگا


غسل کی سنتیں:
غسل کی سنتیں درج ذیل ہیں:
1-  تین مرتبہ دونوں ہاتھ گٹوں تک دھونا 
2-  استنجا کرنا اور جس جگہ بدن پر نجاست لگی ہو اسے دھونا 
3-  ناپاکی دور کرنے کی نیت کرنا 
4- پہلے سنت کے مطابق وضو کرلینا 
5-  تمام بدن پر تین بار پانی بہانا۔ 
چوں کہ غسل سے پہلے سنت کے مطابق وضو کرنا بھی سنت ہے، اس لیے وضو کی جتنی سنتیں ہیں ان کی رعایت کرنا بھی غسل کی سنتوں میں شمار کیا گیا ہے، البتہ غسل میں اعضاء دھونے کی ترتیب مختلف ہے، نیز غسل میں استقبالِ قبلہ منع ہے۔ (درمختار مع ردالمحتار)
تیمم کا حکم:
اِرشادِ باری تعاليٰ ہے:
فَلَمْ تَجِدُوْا مَآء فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِکُمْ وَاَيْدِيْکُمْ مِّنْهُ. (المائدة)
’’پھر تم پانی نہ پاؤ تو (اندریں صورت) پاک مٹی سے تیمم کرلیا کرو۔ پس (تیمم یہ ہے کہ) اس(پاک مٹی) سے اپنے چہروں اور اپنے (پورے ) ہاتھوں کا مسح کر لو۔‘‘
اگر پانی میسر نہ ہو یا غسل / وضو کرنے سے بیماری بڑھنے کا اندیشہ ہو تو بجائے غسل و وضو کے تیمم کا حکم ہے۔ غسل اور وضو دونوں کے لئے تیمم کا طریقہ ایک ہی ہے، صرف نیت میں فرق ہے کہ غسل کے تیمم کو غسل کے اور وضو کے تیمم کو وضو کے قائم مقام خیال کرے۔

تیمم کا طریقہ:
پہلے نیت کرے کہ میں ناپاکی دور کرنے اور نماز پڑھنے کے لئے تیمم کرتا ہوں۔ پھر دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو کشادہ کر کے پاک مٹی یا کسی ایسی چیز پر جو زمین کی جنس سے ہو ایک بار مارکر سارے منہ کا مسح کرے کہ کوئی جگہ باقی نہ رہے۔ پھر اسی طرح ہاتھ مار کر دونوں ہاتھوں کا ناخنوں سے لے کر کہنیوں سمیت مسح کرے کہ کوئی جگہ باقی نہ رہے۔

تیمم کے فرائض:
تیمم کے تین فرائض ہیں:
1- نیت کرنا۔
2- دونوں ہاتھ مٹی پر مار کر سارے منہ پر پھیرنا۔
3- دونوں ہاتھوں کو مٹی پرمار کر کہنیوں تک پھیرنا۔

تیمم کی سنتیں:
تیمم کی پانچ سنتیں ہیں:
بسم اللہ کہنا۔
ہاتھوں کو زمین پر مارنا۔
انگلیاں کھلی ہوئی رکھنا۔
زیادہ مٹی لگ جانے پر ہاتھوں کو ایک ہاتھ کے انگوٹھے کی جڑ کو دوسرے ہاتھ کے انگوٹھے کی جڑ پر ماركر جھاڑنا
داڑھی اور انگلیوں کا خلال کرنا۔

موزوں پر مسح کے اَحکام: طهارت كے بيان ميں موزوں پر مسح كرنا بهي إيك إهم امر هے- هر هر نمازى كو إسكے مسائل كا علم هونا ضروري هے تاكه نمازي بوقت ضرورت إس شرعي رعايت سے فائده أٹها سكے
مسح كا معنى ومفهوم : لغت ميں ’کسی چیز پر ہاتھ پھیرنا‘ مسح کهلاتا هے اور شرعي اصطلاح میں مسح سے مراد ’تَر ہاتھ کا کسی عضو یا موزوں پر پھیرنا‘ هے۔ موزوں پر مسح کرنےكا جواز: موزوں پر مسح کرنا إيك جائز اَمر ہے اور شریعتِ مطهره میں اس کی اجازت دی گئی ہے کہ سفر و حضر میں موزوں پر مسح کرسکتے ہیں۔ یہ حکم دراصل ایک رعايت هے جو محسن إنسانيت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے أمتي کو عطا کر رکھی ہے۔ موزوں پر مسح کرنےكا وجوب: موزوں پر مسح اُس وقت واجب ہوجاتا ہے جب موزے اتارنے اور پاؤں دھونے میں نماز کے قضاء ہونے کا اندیشہ ہو۔ نیز اگر اتنا پانی نہ ہو جس سے پاؤں دھوئے جا سکیں تو واجب ہے کہ موزوں پر مسح کیا جائے۔ موزوں پر مسح ان صورتوں میں فرض ہو جاتا ہے، مثلاً: وقوفِ عرفہ یعنی حج کے موقع پر قلتِ وقت کے باعث عرفات میں ٹھہرنے کا فریضہ ادا نہ ہونے کا اندیشہ ہو تو لازم ہے کہ موزہ نہ اتارا جائے بلکہ اسی پر مسح کیا جائے۔ مندرجه بالا صورتوں کے علاوہ موزوں پر مسح کرنا محض رخصت یا اَمرِ جائز ہے مثلاً جسم کے کسی بھی عضو پر چوٹ لگی ہو، زخم پر پٹی بندھی ہو یا مرہم لگی ہو جسے پانی لگنے سے نقصان کا اندیشہ ہو تو اس کا مسح کر لینا جائز ہے۔بہرحال پاؤں دھونا مسح کرنے سے اَفضل ہے۔ موزوں پر مسح کرنے کا طریقہ: موزوں پر مسح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ دائیں پاؤں کا مسح دائیں ہاتھ کی تین انگلیوں سے اور بائیں پاؤں کا مسح بائیں ہاتھ کی تین انگلیوں سے کیا جائے گا، انگلیوں کو پاؤں کی پشت سے شروع کر کے پنڈلی تک کھینچا جائے گا۔ مسح کرتے وقت انگلیوں کا تر ہونا ضروری ہے۔ موزوں پر مسح کی شرائط: موزوں پر مسح كرنيکی درج ذیل شرائط ہیں: 1- موزے چمڑے کے ہوں یا کم اَز کم تلا چمڑے کا ہو باقی حصہ کسی اور موٹی چیز کا ہو۔ 2- موزے ایسے ہوں جسمين ٹخنے چھپ جائیں۔ 3- پاؤں سے چپٹے ہوئے ہوں کہ انہیں پہن کر آسانی سے چل پھر سکے۔ 4- وضو کر کے پہنے هوئے ہوں۔ 5- نه پہننے سے پہلے جنبی ہو نہ پہننے کے بعد جنبی ہوا ہو۔ 6- مقررہ مدت کے اندر پہنے جائیں۔ 7- کوئی موزہ پاؤں کی تین انگلیوں کے برابر پھٹا ہوا نہ ہو۔ مسح كى مدت : موزوں پر مسح کی مدت مقیم شخص (جو مسافر نہ ہو) کے لیے ایک دن اور ایک رات ہے جبکہ مسافر کے لیے مدت تین دن اور تین راتیں ہے۔ حضرت شریح بن ہانی رضي الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہ صديقه رضی اللہ تعالى عنہا کی خدمت میں حاضر ہو کر موزوں پر مسح کرنے کی مدت پوچھی تو آپ نے فرمایا: حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالى عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے یہ مسئلہ دریافت کرو کیونکہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اکثر سفر میں رہا کرتے تھے۔ اُنہوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالى عنہ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسافر کے لیے تین دن اور تین راتوں کی اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات کی مدت مقرر فرمائی ہے۔(صحيح مسلم، کتاب الطهارة) مسح کن چیزوں سے ٹوٹتا هے؟ 1- وہ چیزیں جن سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ان سے مسح بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ 2- مدتِ مسح پوری ہو جانے سے مسح ٹوٹ جاتا ہے۔ 3- اگر ایک موزہ اتار دیا تو مسح ٹوٹ جاتا ہے۔ 4- کسی طرح موزہ کے اندر پانی داخل ہو گیا مثلاً وہ آدمی پانی میں داخل ہوا اور اس کا نصف سے زیادہ پاؤں دھل گیا تو مسح ٹوٹ جائے گا۔ جن چیزوں پر مسح جائز نہیں: 1- جرابوں پر۔ 2- ہاتھ پر پہنے ہوئے دستانوں پر۔ 3- ٹوپی پر۔ 4- سر پر بندھے ہوئے مفلر یا عمامے پر۔ 5- دوپٹے یا برقعے پر۔ 6- سرپر مہندی یا خضاب کی تہہ جمی ہو۔ لیکن اگر سر پر خضاب یا مہندی کی تہہ نہ جمی ہو بلکہ بالوں کو صرف رنگ لگا ہو تو مسح ہو جائے گا۔
2- نمازی کے کپڑوں کا پاک ہونا: ويسے تو نمازى كا لباس هر وقت پاك هي هونا چاهيے- شريعت مطهره نے پاكيزگي پر بهت زور ديا هے يهاں تك طهارت كو نصف إيمان كها گيا هے إسلئے مشق تو يهي هو كه نمازى كے كپڑے هروقت پاك هوں اور جب بهي كوئى ناپاكي كپڑوں كو لگ جائے تو فوراً اسے دهو كر پاك كرليا جائے بهرحال نمازى كا لباس جسے پهن كر وه نماز ادا كرنا چاه رها هے وه پاك هونا نماز كي شرائط ميں شامل هے سو نمازي كے لئے ضروري هے كه نمازى كا لباس هر طرح سے پاك هو يعني جو کپڑے نماز پڑھنے والے کے بدن پر ہوں جیسے کرتہ پاجامہ ٹوپی، عمامہ، اچکن، موزہ وغیرہ ان سب کا پاک ہونا ضروری ہے، یعنی ان میں سے کسی پر نجاست غلیظہ کا ایک درہم سے زیادہ نہ ہونا اور نجاست خفیفہ کا کپڑا کے چوتھائی حصہ تک نہ ہونا نماز صحیح ہونے کے لئے شرط ہے پس اگر نجاست غلیظہ ایک درہم یا اس سے کم اور نجاستِ خفیفہ چوتھائی کپڑے سے کم ہو گی تو نماز مکروہ ہو گی اگر نمازی کے بدن سے متصل کپڑا پاک ہے اور اس کا فالتو حصہ جو بدن سے الگ فرش وغیرہ پر ہے اور وہ نجس ہے اگر وہ نجس حصہ نمازی کے حرکت کرنے سے حرکت کرتا ہے تو نماز نہ ہو گی اور اگر اتنا بڑا ہے کہ حرکت نہ کرے تو نماز ہو جائے گی اُس چیز کا بھی پاک ہونا فرض ہے جس کو نمازی اًٹھائے ہوئے ہے جبکہ وہ چیز اپنی قوت سے رکی ہوئی نہ ہو، مثلاً نمازی کی گود میں آدمی کا بچہ بیٹھ گیا یا اُس سے چمٹ کر چڑھ گیا اور اُس بچہ میں سنبھلنے کی سکت نہیں ہے اور اُس بچہ پر اس قدر نجاست لگی ہوئی ہے جس سے نماز درست نہیں ہوتی اور وہ بچہ اتنی دیر ٹھرا جس میں ایک رکن ادا کر سکے یعنی تین بار سبحان اللّٰہ کہہ سکے تو نماز فاسد ہو جائے گی اگر اس سے کم ٹھرا تو نماز فاسد نہیں ہو گی اور اگر وہ بچہ نمازی کے تھامنے کا محتاج نہ ہو یعنی اس میں خود سنبھلنے کی طاقت ہو اور وہ خود نمازی کو چمٹا ہو تب بھی نماز فاسد نہیں ہو گی خواہ بہت دیر تک ٹھرا رہے اگر نمازی کے جسم پر ایسی چیز ہو جس کی نجاست اپنی جائے پیدائش میں ہو اور خارج میں اس کا کچھ اثر نہ ہو تو کچھ حرج نہیں اور نماز درست ہو جائے گی، مثلاً اگر نمازی کے پاس آستین یا جیب وغیرہ میں ایسا انڈا ہو جس کی زردی خون بن چکی ہو یا انڈے میں مرا ہوا بچہ ہو تو نماز درست ہو جائے گی کیونکہ نجاست اس کے اپنے جائے پیدائش میں ہے جیسا کہ خود نمازی کے پیٹ میں اس کا فضلہ رہتا ہے اور وہ نماز کا مانع نہیں ہے اگر اکھڑے ہوئے دانت کو پھر منھ میں رکھ لیا اور نماز پڑہی تو نماز جائز ہو گی اگرچہ قدر درہم سے زیادہ ہو یہی صحیح ہے کیونکہ آدمی کا دانت پاک ہے، اگر کسی نے اس حال میں نماز پڑھی کہ اس کے پاس چوہا یا بلی یا سانپ ہے تو نماز درست ہو گی مگر گنہگار ہو گا اور یہی حکم ان سب جانوروں کا ہے جن کے جھوٹے پانی سے وضو جائز ہے اگر کوئی شخص ایک جبہ پہن کر نماز پڑھتا رہا اور اس جبہ کے اندر روئی وغیرہ کچھ بھرا ہوا تھا پھر کسی وقت اس میں مرا ہوا چوہا نکلا اگر اس جبہ میں کوئی سوراخ تھا یا وہ پھٹا ہوا تھا تو وہ تین دن رات کی نمازیں لوٹائے اور اگر تازہ مرا ہوا نکلا کہ پھولا یا پھٹا نہیں یا خشک نہیں ہوا تو ایک دن رات کی نمازیں لوٹائے، اگر کوئی سوراخ یا پھٹا ہوا نہیں تھا تو جتنی نمازیں اس جبہ سے پڑھی ہیں سب لوٹاني هونگي 3- نمازى کی جگہ کا پاک ہونا: نمازي كو إسبات كا بهي إهتمام كرنا ضرورى هے كه وه پاك جگه پر نماز ادا كرے كيونكه نماز کے صحیح ہونے کے لئے نماز پڑہنے کی جگہ کا پاک ہو نا بهي لازمي شرط ہے اس سے مراد قیام اور سجود کی جگہیں ہیں، یعنی صرف دونوں قدموں، دونوں ہاتھوں، دونوں گھٹنوں اور پیشانی کی جگہ کا پاک ہونا شرط ہے، زمین یا فرش وغیرہ جس چیز پر نماز پڑھتا ہے اس کے سارے حصہ کا پاک ہونا نماز کی صحت کے لئے شرط نہیں پس اگر ایسے فرش پر نماز پڑھی جس کے ایک طرف نجاست تھی اور اس کے دونوں پاؤں اور سجدے کی جگہ پاک ہے تو مطلقاً نماز جائز ہے خواہ وہ فرش بڑا ہو یا ایسا چھوٹا ہو کہ ایک طرف کے ہلانے سے دوسری طرف ہلتا ہو کیونکہ جو چیز نمازی کے بدن سے متصل نہیں جیسا کہ فرش و کپڑے وغیرہ کا جائے نماز تو اگر ان اعضا کی جگہ پاک ہو جو اس جائےنماز پر ٹکتے ہوں تو اس پر مطلقاً نماز جائز ہے خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا اگر ناک رکھنے کی جگہ نجس ہو اور پیشانی رکھنے کی جگہ پاک ہو تو نماز درست ہے، اسی طرح اگر ناک رکھنے کی جگہ پاک ہو اور پیشانی رکھنے کی جگہ نجس ہو اور ناک پر سجدہ کرے تو اس کی نماز جائز ہو گی کیونکہ عذر کے ساتھ ناک پر اکتفا کرنا سجدہ کے لئے کافی ہے، اگر ناک اور پیشانی کی جگہ ناپاک ہو اور ناک اور پیشانی دونوں پر سجدہ کرے تو اصح یہ ہے کہ اس کی نماز درست نہ ہو گی اور صرف سجدہ ناک پر کرے تو امام ابوحنیفہ سے ایک روایت کے مطابق نماز درست ہو جائے گی، اس لئے کہ ناک ایک درہم سے کم جگہ پر لگتی ہے اگر نجاست غلیظہ نمازی کے ایک پاؤں کے نیچے قدرِ درہم سے زیادہ ہو اور دوسرے پاؤں کی جگہ پاک ہو اور اس نے دونوں پاؤں رکھ کر نماز پڑھی تو اس میں علماء کا اختلاف ہے، اصح یہ ہے کہ اس کی نماز جائز نہ ہوگی اور اگر وہ پاؤں رکھا جس کی جگہ پاک ہے اور دوسرا پاؤں جس کی جگہ ناپاک ہے اُٹھا لیا تو نماز جائز ہوگی بلا ضرورت ایک پاؤں پر کھڑے ہو کر نماز پڑہنا مکروہ ہے، اگر نجاست دونوں پاؤں کے نیچے ہے اور ہر ایک پاؤں کے نیچے قدرِ درہم سے کم ہے اور جمع کیا جائے تو قدرِ درہم سے زیادہ ہو جائے گی تو جمع کریں گے اور اس سے نماز جائز نہیں ہو گی اسی طرح سجدہ کی جگہ اور پاؤں کی جگہ کی نجاست جمع کی جائے گی اگر سجدہ میں ہاتھوں یا گھٹنے کے نیچے کی جگہ قدرِ درہم سے زیادہ نجس ہو تو صحیح یہ ہے کہ نماز درست نہ ہو گی اگر پاک جگہ پر نماز پڑھی اور پاک جگہ پر ہی سجدہ کیا لیکن سجدہ میں اس کا کپڑا دامن وغیرہ خشک نجس جگہ پر پڑتا ہے تو اس کی نماز درست ہے اگر نجاست نمازی کے کپڑے میں قدرِ درہم سے کم ہو اور اس کے پاؤں کے نیچے بھی قدرِدرہم سے کم ہو اور جمع کریں تو قدرِدرہم سے زیادہ ہو جائے تو جمع نہیں کریں گے اور نماز درست ہو جائے گی- اگر نمازی پاک جگہ پر کھڑا ہوا پھر نجس جگہ پر چلا گیا پھر پہلی ( پاک) جگہ آ گیا تو اگر نجس جگہ پر اتنی دیر نہیں ٹھرا جتنی دیر میں چھوٹا رکن ادا کر سکیں یعنی تین بار سبحان اللّٰہ کہنے کی مقدار نہیں ٹھہرا تو اس کی نماز درست ہو گی اور اگر رکن کی مقدار ٹھہرا تو نماز درست نہیں ہو گی جن مقامات پر نماز پڑھنا مکروہ ہے 1. راستہ، 2. اونٹ، گائے، بیل، بھیڑ، بکری وغیرہ چوپایوں کے باندھنے کی جگہ، 3. گھوڑے پر، 4. جانوروں کی ذبح کرنے کی جگہ، 5. کعبہ معظمہ کی چھت (کیونکہ تعظیم و ادب کے خلاف ہے اور حدیثِ پاک میں بھی اس کی ممانعت آئی ہے) ، 6 مقبرہ (قبرستان) لیکن اگر قبرستان میں نماز کے لئے الگ جگہ بنائی گئی ہو اور اس جگہ کوئی قبر نہ ہو اور نہ نمازی کے سامنے کوئی قبر ہو اور نہ وہاں کوئی نجاست ہو تو ایسی جگہ نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے اگر قبر نمازی کے دائیں یا بائیں یا پیچھے ہو یا اگر سامنے ہو مگر سترے کی مقدار کوئی چیز نمازی اور قبر کے درمیان حائل ہو تو کچھ کراہت نہیں 7. نالہ بہنے کی جگہ، 8. مزبلہ ( کوڑا ڈالنے کی جگہ)، 9. غصب كي ہوئی زمین یا پرائی زمین میں مالک کی اجازت کے بغیر جبکہ وہ بوئی یا جوتی ہوئی ہو، ورنہ مجبوری کی حالت میں راستہ میں پڑھے 10. جنگل و میدان میں سترے کے بغیر نماز پڑھنا،ِ ( گھاس، بوریا، چٹائی اور کپڑے وغیرہ کے فرش پر نماز پڑھنے اور سجدہ کرنے میں کوئی کراہت نہیں لیکن زمین پر اولیٰ ہے کہ اس میں عجز و نیاز ظاہر ہوتا ہے)

4- نمازی کا ستر كا ڈھانپنا: آزاد بالغ عورت كا بدن اور چوتھائی سر دونوں کا ڈھانپنا فرض ہے اگر کپڑا اتنا هي ہے کہ چوتھائی سر کو نہیں ڈھانپ سکتي بلکہ کم ڈھانپتا ہے تو اس کا ڈھانپنا واجب نہیں، افضل و مستحب ہے اگر بلوغ کے قریب لڑکی چوتھائی سر ڈھانپ سکنے کی صورت میں ڈھانپنا چھوڑ دے گی تو اس پر نماز کا اعادہ واجب نہیں اگر وہ ننگی یا بغیر وضو نماز پڑھے تو نماز کو لوٹانے کا حکم کیا جائے اور بغیر اوڑھنی کے پڑھے تو نماز ہو جائے گی لیکن احسن یہ ہے کہ اوڑھنی سے پڑھے نماز میں اپنا ستر دوسروں سے چھپانا بالاجماع فرض ہے اور اپنے آپ سے چھپانا بهت سے علماء کے نزدیک فرض نہیں، پس اگر گریبان میں سے اس کو اپنا ستر نظر آئے تو نماز فاسد نہ ہو گی، لیکن قصداً اپنے ستر کی طرف نظر کرنا مکروہِ تحریمی ہے دوسرے لوگوں سے ستر ڈھانپنے کا مطلب یہ ہےکہ اپنے بدن کو چاروں طرف سے ڈھانپنا ضروری ہے اگر اندھیرے میں ننگا ہو کر نماز پڑھی اور اس کے پاس کپڑا موجود ہے تو نماز جائز نہیں ہو گی باریک کپڑا جس میں سے بدن نظر آتا ہو ستر کے لئے کافی نہیں اور اس کو پہن کر نماز جائز نہیں جبکہ اعضائے ستر پر ہو، موٹا کپڑا جس سے بدن کا رنگ نظر نہ آتا ہو مگر بدن سے ایسا چپکا ہوا ہو کہ اعضاِ بدن کی شکل معلوم ہوتی ہو ایسے کپڑے سے نماز ہو جائے گی مگر دوسرے لوگوں کو اس کے اعضا کی ہئیت کی طرف نظر کرنا جائز نہیں اور ایسا کپڑا لوگوں کے سامنے پہننا منع ہے خصوصاً عورتوں کے لئے بدرجہ اولیٰ منع ہے
نماز کے لئے مستحب لباس: مستحب یہ ہے کہ مرد تین کپڑے پہن کر نماز پڑھے 1. شلوار، تہبند یا پاجامہ وغیرہ
2. قمیض، کرتہ،
3. عمامہ، اگر ایک کپڑے میں بدن ڈھانپ کر نماز پڑھے تو بلا کراہت جائز ہے عورت کے لئے بھی مستحب ہے کہ تین کپڑے پہن کر نماز پڑھے اور وہ یہ ہیں 1. شلوار، تہبند یا پاجامہ وغیرہ
2. قمیض،
3. اوڑھنی ( دوپٹہ)، اگر عورت دو کپڑوں یعنی تہبند یا پاجامہ اور اوڑھنی میں نماز پڑھے تو نماز جائز ہو گی اور اگر ایک کپڑے میں پڑھے اور اس سے اُس کا تمام ستر ڈھک جائے تو نماز جائز ہو جائے گی،

5- پابندیِ وقت: نماز کا ايك شرط ’’نماز مقررہ اوقات کے اندر ادا کرنا‘‘ ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًاO ’’بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہےo‘‘ نماز ادا کرنے کی دو حدیں ہیں، ایک وقت شروع ہونے کی ابتدائی حد اور دوسری ختم ہونے کی آخری حد اگر ان دو حدود کے اندر نماز ادا کی جائے تو وہ ادا ہو جائے گی ورنہ نہیں مثلاً نماز فجر کو صبح صادق سے لے کر طلوع شمس سے پہلے تک کی حدود میں ادا کرنا ہے، ظہر کی نماز کا وقت سورج ڈھلنے کے بعد شروع ہوتا ہے اگر آپ نے اس سے قبل نماز ادا کر لی تو وہ ظہر کی نماز تصور نہیں ہو گی۔ اسی طرح نماز ظہر کی آخری حد اس وقت تک ہے جب تک ہر چیز کا سایہ اس چیز سے دوگنا نہ ہو جائے۔ اس کے بعد چونکہ نماز عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے اس لیے اس کے بعد ظہر کی نماز ادا نہیں ہو سکتی۔ نماز عصر کی آخری حد غروب آفتاب سے قبل ہے۔ اسی طرح نماز مغرب کا وقت غروب آفتاب سے لے کر شفق (یعنی مغرب کی طرف سے آسمان کی سرخی اور سفیدی) کے غائب ہونے تک ہے، جس کے گزر جانے کے بعد عشاء کا وقت شروع ہو جاتا ہے جو صبح صادق ہونے سے پہلے تک رہتا ہے۔ نماز پنجگانہ کے اوقات کی مقررہ حدود کی پابندی ہر مسلمان پر فرض کر دی گئی ہے۔ 6- قبلے کی طرف منھ کرنا: نمازى كا قبلہ کی طرف منھ کرنا جبکہ اس پر قادر ہو نماز صحیح ہونے کےلئے شرط ہے، مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہے، نماز خواہ فرض ہو یا نفل اور سجدہ تلاوت ہو یا نماز جنازہ ہر نماز و سجدہ کے لئے ضروری ہے کہ قبلہ کی طرف منھ کرے اس پر قادر ہوتے ہوئے اس کے بغیر کوئی نماز درست نہیں ہے خواہ قبلے کی طرف منھ کرنا حقیقتاً ہو یا حکماً مثلاً بیماری یا دشمن کے خوف سے قبلے کی طرف منھ نہیں کر سکتا تو وہ جس طرف منھ کر سکتا ہو، یا قبلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے غالب گمان سے وہ جس طرف کو اپنا قبلہ ٹہراتا ہے نماز هوجائے گي جو شخص مکہ مکرمہ میں ہے اس کو عین کعبہ کی طرف منھ کرنا لازمی ہے خواہ درمیان میں کوئی دیوار یا پہاڑ وغیرہ حائل ہو یا نہ ہو جو شخص مکہ معظّمہ سے باہر ہو اور خانہ کعبہ کو نہ دیکھتا ہو اُس کا قبلہ کعبہ معظّمہ کی جہت ہے پس اس کے چہرے کی کچھ سطح خانہ کعبہ یا فضائے کعبہ کے مقابل تحقیقتاً یا تقریباً واقع ہو خانہ کعبہ کی عمارت سے گھری ہوئی جگہ کے مطابق تحت الثریٰ یعنی ساتویں زمین کے نیچے سے لے کر عرش معلیٰ تک کے درمیان کی فضا قبلہ ہے پس اگر کوئی شخص زمین کے اندر گہرے کنوئیں میں یا اونچے پہاڑ یا ہوائی جہاز وغیرہ میں نماز پڑھے گا تو اگر کعبہ کی فضا اس کے سامنے ہو گی تو اس کی نماز درست ہو گی خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھے تو جدھر کو چاہے منھ کر لے نماز صحيح هو جائے گي اگر ریل گاڑی میں قبلے کی سمت پر قادر نہ ہو تو جس طرف پر قادر ہو اسی طرف منھ کر کے نماز پڑھ لے اور کھڑا ہونے پر قادر نہ ہونے کی صورت میں بیٹھ کر پڑھ لے، لیکن بلاوجہ قیام اور استقبال قبلہ کو ترک نہ کرے اور بہانہ تراشی نہ کرے، اگر قبله كا رخ معلوم نه هو اور كوئى إيسا معتبر شخص بهي دستياب نه هو جو صحيح قبله كي طرف رهنمائى كرسكے تو اپنے غالب گمان پر نماز ادا كرلے - شرائط کے ساتھ اٹکل سے قبلہ مقرر کر کے نماز پڑھی پھر نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس کا گمان غلط تھا تو نماز کا اعادہ نہ کرے اور اگر نماز کے اندر ہی معلوم ہو گیا یا رائے بدل گئی اور گمان غالب کسی دوسری طرف پر ہو گیا اگرچہ سہو کے سجدوں میں ہو تو قبلے کی طرف کو پھر جائے اور باقی نماز کو اسی طرح پوری کر لے نئے سرے سے پڑھنے کی ضرورت نہیں- اگر اس صورت میں فوراً اس طرف کو نہ پھرا اور ایک رکن کی مقدار دیر کی تو نماز فاسد ہو جائے گی قبلہ معلوم کرنے کے جو ذرائع موجود هيں ان پر قادر ہوتے ہوئے اٹکل لگانا جائز نہیں، عورت کے لئے بھی پوچھنا ضروری ہے ایسے وقت میں شرم نہ کرے بلکہ پوچھ کر نماز پڑھے ورنہ نماز نہ ہو گی، اگر ایسے جاننے والے شخص کے موجود ہوتے ہوئے اس سے پوچھے بغیر اٹکل سے نماز پڑھ لی، اگر ٹھیک قبلے کی طرف کو نماز پڑھی گئی تو نماز جائز ہو گی اور اگر ٹھیک سمت کو نہیں پڑھی توجائز نہ ہو گی، کسی شخص کے پاس ہونے کی حد یہ ہے کہ اگر اس کو بلند آواز سے پکارے تو وہ سن لے اگر كوئى شخص كسي جنگل میں سفر كررها هے اور اسے قبلے کا شبہ پڑ جائے اور وہ اٹکل سے کسی سمت کو قبلہ سمجھے ليكن دو معتبر آدمی اُس کو خبر دیں کہ قبلہ اور طرف ہے اگر وہ دونوں بھی مسافر ہیں تو ان کے کہنے پر توجہ نہ کرے اور اگر اسی جگہ کے رہنے والے ہوں یا اکثر آنے جانے کی وجہ سے یا علم کے کسی دوسرے طریقے سے ان کو قبلہ کی معرفت حاصل ہے تو ان کا کہنا مانے ورنہ نماز جائز نہ ہوگی، 7- نیت كرنا : خالص اللّٰہ تعالٰی کے واسطے نماز پڑھنے کے ارادہ کو نماز کی نیت کہتے ہیں يه بهي نماز كى شرائط ميں سے إيك شرط هے اور شرط اس کی یہ ہے کہ دل جانتا ہو کہ کون سی نماز پڑھتا ہے لیکن محض جاننا نیت نہیں جب تک ارادہ نہ ہو اس لئے نیت ارادے کا نام ہے، جاننے کو ارادہ لازمی نہیں لیکن ارادہ کو جاننا لازمی ہے نیت میں دل کا عمل معتبر ہے اس لئے زبان سے کہنا فرض نہیں بلكه زبان سے بھی کہنا مستحب ہے، نیتِ قلبی کے بغیر زبان کی نیت بے کار ہے - زبان سے کہنے میں عربی میں ہونا ضروری نہیں کسی بھی زبان میں کہہ لے مستحب و افضل یہ ہے کہ نیت نماز شروع کرنے کے ساتھ ہو اور نیت کا تکبیر تحریمہ پر مقدم کرنا بھی جائز ہے جبکہ نیت اور تحریمہ کے درمیان میں کوئی عمل نیت کا توڑنے والا نہ پایا جائے جو نیت تکبیر تحریمہ کے بعد ہو اس کا اعتبار نہیں یہاں تک کہ اگر اللّٰہ أكبر كے درميان يعني "الله" کہنے کے بعد اور اکبر کہنے سے پہلے نیت کی تب بھی نماز درست نہ ہو گی

أركان نماز: نماز كا كوئى بهي ركن ره جائے تو نماز هي فاسد هوجاتي هے إس لئے أنهيں سيكهنا اور اس كي آچهي طرح سے مشق كرنا نمازى كے لئے ازحد ضروري هے
1- تکبیر تحریمه: یہ نماز كا پهلا ركن هے- اس تکبیر کو تکبیر تحریمہ اس لئے کہتے ہیں جو باتیں نماز کے خلاف ہیں وہ اس کے کہنے سے حرام ہو جاتی ہیں وہ تمام شرطیں جو نماز صحیح ہونے کے لئے ضروری ہیں یعنی نجاست حقیقی و حکمی سے پاکی و ستر عورت اور استقبال قبلہ و وقت و نیت یہ سب تکبیرِ تحریمہ کے لئے بھی شرطیں ہیں یعنی تکبیرِ تحریمہ کے ختم ہونے سے پہلے ان شرطوں کا موجود ہونا شرط ہے تکبیرِ تحریمہ کے لئے اللّٰہ اَکبَرکہنا واجب ہے اللّٰہ اَکبَر كي آدائيگي صحيح هونا بهي ضروري هے مثلاً : اللّٰہ اَکبَر میں دو جگہ ہمزہ ہے اس کو مد نہ کریں - اَکبَر کی ب کو مد نہ کریں - اللّٰہ اَکبَر میں اللّٰہ کی "ھ" کو حذف نہ کریں اور اَکبَر کی "ر" کو لمبا نہ کریں لفظ اللّٰہ کے "لام" کا مد ( الف مقصورہ) حزف نہ کرے- اللّٰہ کی ھ اور اَکبَر کی ر کو لمبا نہ کرے تکبیر تحریمہ کو كم از كم اتنی آواز سے کہے کہ خود سن لے - اور يه بهي ضروري هے كه تکبیر تحریمہ نیت کے بعد ہو- جماعت كي شكل ميں مقتدی کی تكبير تحریمہ امام کی تكبير تحریمہ سے پہلے نہ ہو - تكبير تحریمہ کو قیام کی حالت میں کہے خواہ قیام حقیقی ہو یا حکمی، جھکے جھکے تکبیرِ تحریمہ کہنا درست نہیں - قبلہ رو ہو کر کہے جب کہ کوئی عذر نہ ہو - نماز کی شرطوں کے پائے جانے کا اعتقاد یا غلبہ ظن ہو پس شک کی صورت میں تحریمہ درست نہیں ہو گی 2- قیام یعنی کھڑے ہو کر نماز پڑھنا: نماز قیام یعنی کھڑے ہو کر نماز پڑھنا فرض ہے اگر بیماری یا زخم یا دشمن کا خوف یا کوئی اور ایسا ہی قوی عذر ہو تو فرض و واجب نماز بهي بیٹھ کر ادا کر سکتا هے
سیدھا کھڑا ہونے کی کم سے کم حد یہ ہے کہ اگر اپنے دونوں ہاتھ لٹکائے تو گھٹنوں تک نہ پہنچیں فرض اور واجب نمازوں میں قیام کی ادنیٰ مقدار کی تفصیل یہ ہے کہ اس قدر کھڑا ہونا فرض ہے جس میں بقدرِ فرض قرأت پڑھی جا سکے اور پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ بھی کہی جا سکے اور بقدر قرأت واجب قیام کرنا واجب ہے اور بقدر قرأت مسنونہ قیام کرنا سنت ہے نفل نمازوں میں قیام فرض نہیں ان کا بلا عذر بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے لیکن آدھا ثواب ملے گا اور اگر عذر کی وجہ سے بیٹھ کر پڑھے تو پورا ثواب ملے گا 3. قرآت كرنا : فرض نماز کی دو رکعتوں میں خواہ وہ کوئی سي ہو اور نمازِ وتر اور سنت و نفل کی تمام رکعتوں میں قرآت فرض ہے نماز میں قیام کی حالت میں کم از کم ایک آیت پڑھنا فرض ہے نمازي كو چاهيے كه وه نماز ميں قرآت كرنے والى عبارت كي خوب مشق كرے - قرآت کا آصل مطلب هي یہ ہے کہ قدرت ہوتے ہوئے تمام حروف مخارج سے ادا کئے جائیں تاکہ ہر حرف دوسرے سے صحیح طور پر ممتاز ہو جائے اورآہستہ پڑھنے کی صورت میں خود سن لے جو شخص صرف خیال سے پڑھے گا زبان سے الفاظ ادا نہیں کرے گا یا مخارج سے صحیح ادا نہیں کرے گا یا آہستہ قرآت والی نماز میں ایسا نہیں پڑھے گا کہ خود سن سکے تو اس کی نماز درست نہیں ہو گی نیند کی حالت میں قرآت کی تو جائز نہیں اسے پھر پڑھے اسی طرح رکوع یا سجدہ یا جو رکن بھی نیند کی حالت میں ادا کیا اس کو جاگنے پر دوبارہ ادا کرے ( لیکن اگر کوئی رکن فرض و واجب کی مقدار بیداری کی حالت میں ادا ہوا اور باقی حصہ نیند میں تو اس رکن کے لوٹانے کی ضرورت نہیں ) صرف اصل عربی قرآن پاک کی هي قرآت کي جائے فارسی یا اردو وغیرہ غيرعربي زبان میں قرآت کرنا جائز نہیں 4. رکوع كرنا : رکوع کے معنی جھکنے کے ہیں ہر رکعت میں صرف ایک مرتبہ رکوع کرنا فرض ہے پورا رکوع یہ ہے کہ پیٹ سیدھی بچھائے یعنی سر اور پیٹھ اور سرین ایک سیدھ میں ہو جائیں اگربیٹھے ہوئے رکوع کرے تو اس کی ادنیٰ حد یہ ہے کہ سر کمر سميت کسی قدر جھک جائے اور اس کی پیشانی دونوں زاويوں کے سامنے آ جائے اگر کوئی اتنا کبڑا ہو کہ رکوع کی حد تک جھکا ہو یا بڑھاپے کی وجہ سے اس قدر کمر جھک گئی ہو تو ایسے شخص کے لئے سر سے اشارہ کرنا کافی ہے پس اس کے سر کو جھکا دینے سے اس کا رکوع ادا ہو جائے گا بلا عذر صرف سر جھکا دینے سے رکوع ادا نہیں ہو گا 5. دو سجدے كرنا : زمین پر پیشانی رکھنے کو سجدہ کہتے ہیں ہر رکعت میں دو مرتبہ سجدہ کرنا فرض ہے- بلا عذر صرف پیشانی پر سجدہ کیا تو جائز ہے مگر مکروہ ہے اور بلاعذر صرف ناک پر سجدہ کیا تو سجدہ ادا نہیں ہو گا عذر کے ساتھ جائز ہےجبکہ ناک کا سخت حصہ زمین پر ٹک جائے ورنہ جائز نہیں- صرف رخسار یا ٹھوڑی پر سجدہ کیا خواہ عذر سے ہو یا بلا عذر کسی حالت میں بھی جائز نہیں پس اگر پیشانی اور ناک دونوں پر عذر ہے مثلاً زخم ہےتو سجدے کے لئے سر سے اشارہ کر لینا کافی ہے کسی اور عضو سے سجدہ نہ کرے کسی ایسی نرم چیز پر سجدہ جائز نہیں جس میں سر دہنس جائے اور پیشانی و ناک قرار نہ پکڑے مثلاً گھاس یا بھوسه یا روئی یا یا صوفہ یا تکیہ یا بچھونا یا بلا جمی ہوئی برف وغیرہ اور اگر وہ چیز اس قدر سخت ہو کہ پیشانی و ناک اس پر قرار پکڑ لے اور مزید دبانے سے نہ دبے اور سر نیچے نہ جائےتو جائز ہے چارپائی اگر تخت کی طرح سخت ہے کہ اس میں سر نہ دھنسےاور پیشانی قرار پکڑ لے تو جائز ہے اور اگر گھاس وغیرہ اتنی نرم ہو کہ سر دھنس جائے اور قرار نہ پکڑے تو سجدہ جائز نہیں، گیہوں یا جَو کے دانوں پرسجدہ جائز ہے مکئی یا جوار یا چنے یا چاولوں پر جائز نہیں کیونکہ یہ پھسل کرپیشانی کو جمنے نہیں دیتے اور اگر یہ اناج تھیلوں وغیرہ میں کس کر بھرے ہوں تو ان پر سجدہ جائز ہے اگر قدموں کی جگہ سجدے کی جگہ سے ایک بالشت یعنی بارہ انگل تک اونچی ہو تو سجدہ جائز ہو گا اور اگر اس سے زیادہ اونچی ہو تو بلا عذر جائز نہیں عذر کو ساتھ جائز ہے سجدے میں کم از کم ایک پاؤں کا زمین پر رکھنا ضروری ہے اگر سجدہ کیا اور دونوں پاؤں زمین پر نہ رکھے تو سجدہ جائز نہیں اور اگر ایک پاؤں رکھا تو عذر کے ساتھ بلا کراہت جائز ہے اور بلاعذر کراہت کے ساتھ جائز ہے 6- قعدہ اخیرہ: نمازکی رکعتیں پوری کرنے کے بعد بیٹھنے کو قعدہ اخیرہ کہتے ہیں، تمام نمازوں میں خواہ وہ فرض ہوں یا واجب یا سنت و نفل قعدہ اخیرہ فرض ہے قعدہ اخیرہ میں بقدر تشہد یعنی التحیات تا عبدہ رسولہ صحتِ الفاظ کے ساتھ جلدی جلدی پڑھنے کی مقدار بیٹھنا فرض ہے خواہ تشہد پڑھے یا نہ پڑہے اور تشہد کا پڑھنا واجب هے

2- باطني مشق:-
الله تعالى كا يقين و دهيان ، الله تعالى كا خوف اور دل ميں نماز سے الله تعالى كي خزانوں سے ملنے كا كامل يقين هونا
جيسا كه عرض كيا جا چكا كه نماز كي باطني مشق سے مراد دوران نماز صرف الله تعالى كي طرف هي دهيان هونا ، الله تعالى كا خوف هونا ،نماز ميں الله تعالى كا كامل يقين هونا اور دل ميں نماز سے الله تعالى كي خزانوں سے ملنے كا كامل يقين هونا اور جب بهي كوئى ضرورت پيش آئے تو توجه كا فوراً نماز كي طرف جانا هے
عجزو انکساری اور ادب کے ساتھ دلی توجہ کا دوسرا نام ”خشوع“،ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ مومنین نماز کو ایک بے رُوح ڈھانچہ نہیں سمجھتے بلکہ ان کی پوری توجہ نماز کی باطنی کیفیت اور حقیقت پر ہوتی ہے، اکثر لوگ ایسے ہیں جو نماز میں از حد کوشش کرتے ہیں کہ عالمِ نماز میں خضوع وخشوع اور الله کی طرف دلی توجہ کریں، مگر وہ ایسا نہیں کرپاتے، نماز اور دیگر عبادات کے دوران خضوع، خشوع اور حضور قلب کے لئے مندرجہ ذیل امور میں پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے:
1۔ معلومات کواس حد تک پہنچانے کہ انسان کی نگاہ میں دنیا کی ذلت وپستی اور الله کی رفعت وبلندی اور عظمت وبزرگی واضح ہوجائے تاکہ کوئی بھی دنیاوی امر بارگاہ میں حاضری کے وقت اپنی طرف متوجہ نہ کرسکے ۔
2۔ پریشان خیالی اور ذہنی انتشار جو اس کو ایک طرف مرکوز رکھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، لہٰذا انسان جتنا ان کو کم کرے، دلی توجہ اور یکسوئی میں ممدو معاون ثابت ہوگا ۔
3۔ نماز اور دیگر عبادات کے لئے مقام کا محلّ وقوع بھی خاصہ موٴثر ہے، اسی بناء پر اپنی جگہوں پر نماز ادا کرنا مکروہ ہے، جو انسان کی توجہ کو ہٹانے کا سبب ہوں، مثلاً آئینے کے سامنے نمازپڑھنا، کھلے دروازوں کے سامنے جہاں سے لوگوں کی آمد ورفت ہوتی ہو، نماز پڑھنا اور کسی تصویر یا پُرکشش منظر کے سامنے نماز ادا کرنا وغیرہ اسی وجہ سے مساجد غير ضرورى زیب وزینت اور آرائش سے خالی ہونی چاہئیں تاکہ نمازي كى توجه الله تعالى کی طرف ہی رہے ۔
4۔ گناہ سے پرہیز کرنا، کیونکہ گنا ہ کے ارتکاب سے انسان الله سے دُور ہوجاتا ہے اور نماز میں حضور قلبی سے محروم رہتا ہے ۔
5۔ نماز میں جو کچھ پڑھا جاتا ہے اس کے معنی اور اس کے افعال واذکار سے واقفیت حاصل کرنا اور نماز کے مخصوص آداب اور مستحبات کو ادا کرنا چاہے ان کا تعلق مقدمات نماز سے ہو یا خود اصل نماز سے ۔
6- مذکورہ بالا تمام امور سے قطع نظر نماز ميں دهيان اور توجه يعني خضوع وخشوع کے حصول کے لئے مسلسل اور پیہم مشق اور پوری توجہ کی ضرورت ہے، کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان شروع شروع میں تھوڑی دیر کے لئے دلی یکسوئی پیدا کرلیتا ہے اور اگر وہ اس کی مسلسل مشق کرے اور ہر نماز میں برابر اس کے اضافے کی کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایسا ملکہ پیدا نہ کرے کہ ہمیشہ حالتِ نماز میں وہ غیر الله سے بالکل بے نیاز ہوجائے ۔
7-ایمان کی تجدید اور نافرمانی سے بچنا بهي نماز ميں توجه حاصل كرنے كے لئے ضروري هے چونکہ ایمان کے بعد نافرمانی غفلت سے ہوتی ہے اور نماز غفلت زائل کرنے کا اہم ذریعہ ہے، اسی سے اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس پر ایمان کا جذبہ تازہ ہوتا ہے۔
8- هر وقت دل ميں اللہ کی محبت وخشیت بهي نماز ميں خشوع وخضوع پيدا كرنے كا إيك سبب هے چونکہ نماز کے دوران اللہ تعالیٰ کی عبادت میں جسم کے تمام اعضاء حصہ لیتے ہیں اس سے محبت الٰہی کا جذبہ پورے جسم میں سرایت کرتا ہے اور پھر طبیعت اتباع شریعت پر آمادہ ہوتی ہے، گویا نماز ظاہری و باطنی طور پر یاد الہی ہے۔ اسی طرح عام زندگی کی تمام حالتیں (کھڑا ہونا، بیٹھنا، جھکنا، لیٹنا، حرکت کرنا، پرسکون ہونا) نماز میں جمع ہیں۔ جب ان تمام حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی یاد رہتی ہے تو باہر کی زندگی میں ان تمام حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہونے کی مشق ہو جاتی ہے۔
9- نماز چونکہ سراسر اللہ تعالیٰ کی یاد ہے، جب یہ یاد کامل طور پر پائی جائیگی تو کبھی بھی اس کے ساتھ گناہ جمع نہیں ہو سکے گا یعنی اس سے اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا ہوگی اور وہ گناہوں سے بچانے کا سبب بنے گی۔ اسی طرح”مالک یوم الدین“ کا تذکرہ آخرت کی بھی یاد دہانی کا باعث بنتا ہے الغرض نماز خود بهي محبت اور خشیت الہی کے جذبات پیدا کرتی ہے إس لئے نمازى كے لئے الله تعالى كي محبت اور خشيت كي مشق هونا بهت ضروري أمور ميں سے هے اور نمازي کے يه لطيف جذبات اتباع شریعت کا اہم جزهيں خلاصہ کلام يه کہ نماز ہی سے اسلامی زندگی کی نشوونما ہوتی ہے بشرطيكه نماز صحيح معنوں ميں نماز هو۔

نماز کی حقیقت اور روح:
نماز تین عناصر سے مرکب ہے
(1)اللہ تعالیٰ عظمت اور بڑائی کی فکر اور استحضار
(2)ایسی دعائیں اور اذکار جو بندہ کی توجہ الی اللہ، بندگی اور عاجزی پر دلالت کرتے ہیں
(3)ایسے افعال جن سے اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہوتی ہے۔ قیام، رکوع، سجدہ وغیرہ.

نماز کی روح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قہر و جلال کا تصور اور گہرا دھیان حاصل کرنا اس کے سامنے عاجزی، محبت اور توجہ آمیز تعظیم کے ساتھ ....بس۔ یہ تفصیل حضرت شاہ ولی اللہ رحمتہ اﷲ علیہ نے حجة اللہ البالغة میں بیان فرمائی ہے اسی کو احادیث میں مناجاة یعنی اللہ کے ساتھ سرگوشی سے تعبیر کیا گیا ہے جس نماز میں اس درجہ کی خشوع اور عاجزی ہو وہی نماز جاندار اور کامل ہے اور اس کی اتنی اہمیت ہے کہ سفیان ثوری رحمة الله عليه نے اس کے بغیر نماز کو فاسد اور حسن بصری رحمة الله عليه نے اندیشہ عذاب قرار دیا ہے اور ابن عربی رحمة الله عليه نے خشوع سے خالی نمازیں پڑھنے والوں کی اصلاح کے لیے پوری نظم لکھی ہے جو تنبیہ کے ساتھ بتلاتی ہے کہ بلاخشوع نماز پڑھنے والا مستحق سزا ہے الغرض بلا خشوع نماز حد درجہ ناقص ہوتی ہے ۔ قرآن میں جو اقامت صلوٰة کا بار بار حکم اس اقامت کا معنی احادیث کی روشنی میں یہی ہے کہ خشوع وخضوع کے ساتھ تلاوت اور ارکان کا حق ادا کرکے نماز پڑھی جائے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی قدر وقیمت ہے ۔

نماز میں الله تعالى كا دهيان يعني خشوع وخضوع پیدا کرنے کا طریقہ اور اس کی اہمیت:
توجہ سے اذان کا جواب دینا اور معانی کا استحضار، اذان کے بعد تمام کام چھوڑ کر آداب کے ساتھ مسجد جانا، سنت کے موافق وضو کرنا اور فضائل وضو کا استحضار، باطنی نجاست سے پاکی کی ضرورت یاد کرنا اور اس کے لیے توبہ واستغفار، نیت باندھتے وقت اللہ کے حضور پیشی یاد کرنا، گناہوں کے انجام کا خوف اور فضائل نماز کا استحضار، جسم کو کعبہ اور دل کو رب کعبہ کی طرف متوجہ کرنا، تمام اذکار نماز کے معانی کی طرف متوجہ رہنا اور ان کی کیفیات میں ڈوب جانا، سورہ فاتحہ کی طرف خصوصی توجہ اور ہر آیت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب کا تصور کرنا، ارکان کو تعدیل سے ادا کرنا اور ان کی کیفیات میں ڈوب جانا، التحیات میں محسن اعظم رسول أكرم صلى الله عليه وآله وسلم پر محبت اور توجہ سے درود پڑھنا، نماز مکمل کرنے کے بعد اسے ناقص سمجھ کر استغفار کا اہتمام کرنا۔ خلاصہ یہ کہ نماز کی تیاری سے لیکر سلام پھیرنے تک پوری توجہ اور عاجزی کے ساتھ نماز کا دھیان رکھنا۔ افعال میں بھی اور اذکار میں بھی۔ یہی ظاہری و باطنی خشوع ہے اس پر نماز کی مقبولیت اور محبوبیت کا دارومدار ہے اور یہی چیز آدمی کو اللہ تعالیٰ سے قریب کرتی ہے اور اس کی خاص رحمتوں اور نعمتوں کا مستحق بناتی ہے
خشوع و خضوع کی اہمیت نماز میں ایسی ہے جسے بدن انسانی میں روح ....پھر ارکان نماز کو بدن کے اعضاء رئیسہ کا مرتبہ حاصل ہے کہ ان میں ایک بھی نہ ہوتو آدمی مر جاتا ہے جبکہ واجبات نماز بمنزلہ ہاتھ پاﺅں کے ہیں کہ ان میں ایک کا ماﺅف ہونا بڑے نقصان کا باعث ہے اور سنن و مستحبات، کمال حسن کے اسباب کی مانند ہیں جن سے شخصیت میں نکھار آتا ہے۔ کتب فقہ میں ذکر نہ ہونے کے باعث خشوع و خضوع کو كسي درجے میں نه رکھنا غلط فہمی ہے، ان کتب کا تو موضوع ہی ظاہری پہلو ہے جبکہ خشوع روح کی طرح باطنی پہلو ہے اور یہ ظاہری سے زیادہ اہم ہے جس پر کئی احادیث مبارکہ دلالت کرتی ہیں اس کیفیت خشوع کی اصلاح وتقویت کے لیے عقیدت واخلاص کے ساتھ اہل اللہ کی صحبت ضروری ہے محض ورق گردانی کافی نہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو بھی تمام روحانی کمالات صحبت سے حاصل ہوئی تھیں۔
خشوع و خضوع کی طرح نماز کے معانی سے بھی لوگ غافل ہیں حالانکہ یہ نماز کی روح ہے اور حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ بندہ کو اپنی نماز کے اتنے حصہ کا اجر ملے گا جو اس نے سمجھا (احیاءالعلوم) اگرچہ ادائیگی سے فرضیت پوری نماز کی ساقط ہو جائیگی ۔ علامہ ابن کثیر رحمة الله عليه کے مطابق ”فویل للمصلین“ میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو نماز سوچ سمجھ کر نہیں پڑھتے۔ نماز اذکار اور تعظیمی افعال سے مرکب ہے جنہیں بغیر احساس وشعور کے ادا کرنا ان کے مقاصد پورے نہیں کرتا، عجمیوں کے لیے نماز کے معانی سیکھنا ناممکن نہیں بلکہ ان پڑھ بھی کوشش سے ہفتہ عشرہ میں یاد کر سکتے ہیں۔
اسی طرح تعدیل ارکان خشوع کا اہم جز ہے اور اس میں کوتاہی ایک المیہ ہے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اعرابی سے جو تعدیل ارکان میں کوتاہی کررہا تھا تین دفعہ نماز لوٹوائی اور چوتھی مرتبہ ان کے پوچھنے پر تعدیل ارکان کی اہمیت کے ساتھ سکھائی۔ ایک شخص تعدیل ارکان میں کوتاہی کررہا تھا اس کے بارے میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ ایسے ہی نماز پڑھتا رہا تو دین محمدی پر نہیں مرے گا یہ نماز میں ایسی ٹھونگیں مارتا ہے جیسے کوّا خون میں جلدی جلدی چونچیں مارتا ہے(ابن خزیمہ)
حضرت حذیفہ رضي الله تعالى عنه نے ایک ایسے شخص سے جو تعدیل ارکان میں چالیس سال سے کوتاہی کررہا تھا فرمایا کہ تم نے گویا نماز ہی نہیں پڑھی اور اگر تم اس حالت میں مر گئے تو تمہاری موت فطرت اسلام پر نہ ہوگی (کتاب الصلوٰة لابن القیم)
نماز سے حماعتی مشکلات کی دوری، دشمن پر غلبہ، حصول صبر اور خلافت وتمکین فی الارض کا ملنا یقینی ہے لیکن نماز کی یہ تاثیر تب ظاہر ہوتی ہے جب نماز خشوع وشعور کے ساتھ حضور باجماعت ہو وگرنہ اقامت صلوٰة سے غفلت کے نتیجے میں یہ ثمرات کیسے حاصل ہو سکتے ہیں؟ آج ہماری ذلت، پستی اور مغلوبیت کی بڑی وجہ اقامت صلوٰة سے غفلت ہے۔

حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین 
 اور اسلاف کا عشق نماز:
ارشاد نبوی ہے :میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے جب نماز کا وقت قریب ہوتا تو آپ فرماتے :بلال اٹھو نماز کا بندوبست کر کے میرے دل کو چین و آرام پہنچاﺅ ۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے عشق نماز کا اندازہ اس سے لگائیں کہ طائف میں زخمی کرنے والوں کو تو بد دعا نہ دی لیکن جنگ خندق میں کفار کی وجہ سے جب نماز قضا ہوگئی تو آپ نے فرمایا:ان لوگوں نے مجھے عصر کی نماز نہیں پڑھنے دی اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔
حضرت ابوبکر رضي الله تعالى عنه جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو گویا ایک لکڑی ہے جو زمین میں گاڑ دی گئی ہے ۔ حضرت عمر رضي الله تعالى عنه کو قاتلانہ حملے کے بعد غشی کی حالت میں نماز یاد دلائی گئی تو فرمایا ہاں !نماز ضرور پڑھنی ہے جس نے نماز نہ پڑھی اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں، ان پہرہ دینے والے دو صحابہ (رضي الله تعالى عنه) کا واقعہ معروف ہے جن میں سے ایک آرام کررہا تھا اور دوسرا اپنی باری میں نماز پڑھ رہا تھا کہ دشمن کے کئی تیز انہیں لگے لیکن نماز نہیں توڑی ۔ حضرت ابوطلحہ رضي الله تعالى عنه کو نماز میں اپنے گھنے باغ کا خیال آیا جس میں پرندہ چکر لگا رہا تھا اس خلل اندازی پر پورا باغ صدقہ کردیا ۔ ایک صحابی رضي الله تعالى عنه کی نظر نماز کے دوران اپنے باغ کے پکے ہوئے خوشوں پر پڑی اتنا خلل گوارا نہ کیا اور باغ صدقہ کردیا ۔ حضرت خبیب رضي الله تعالى عنه نے سولی چڑھتے وقت بھی نماز کو یاد رکھا۔ یہ صحابہ کا نماز کے ساتھ عشق تھا ثابت بنانی رحمة الله عليه قبر میں بھی نماز پڑھنے کی دعائیں کرتے تھے، امام مجدد الف ثانی رحمة الله عليه اس بات پر روتے رہے کہ جنت میں نماز کے بغیر گزارا کیسے ہوگا؟
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کو مومن کی معراج اور اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا یہ کیفیات امت کو بھی حاصل ہو سکتی ہے بشرطیکہ نماز کے ساتھ ویسا تعلق اور عشق قائم ہو جائے جیسا کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور ان حضرات کا تھا۔ آمین ثم آمين
نماز ميں الله تعالى كا كامل يقين هونا اور دل ميں نماز سے الله تعالى كي خزانوں سے ملنے كا كامل يقين هونا اور جب بهي كوئى ضرورت پيش آئے تو توجه كا فوراً نماز كي طرف جانا نماز كي باطني مشق كا إيك إهم جزهے- درآصل نماز كي حقيقت كو زنده كرنے كا مقصد جب هي پورا هوگا جب نمازي كا يه پخته يقين بن جائے گا كه نماز سے همارا هر هر مسئله حل هوسكتا هے اپني حاجت كيلئے صلاة الحاجت كي طرف متوجه هونے كا مقصد بهي يهي هے كه همارا يقين أسباب سے هٹ كر نماز كے ذريعه لينے پر آجائے كيونكه نماز الله تعالى كے خزانوں سے لينے كا يقيني ذريعه هے دكان بالكل غير يقيني ذريعه هے كيونكه دكان سے نفع بهي هوسكتا هے اور نقصان بهي سو دكان سے نفع ملنا يقيني نهيں جب كه نماز سے الله تعالى كے خزانوں سے نفع ملنا يقيني هے بشرطيكه إسي يقين كے ساتهـ نماز كے ذريعه سے الله تعالى سے مانگا جائے
همارا معمول يه هے كه صلاة الحاجت پڑهتے هيں ليكن يقين أسباب پر أٹكا هوا هے كه أسباب كے بغير كچهـ نهيں هوگا حالانكه يقين يه هونا چاهيے كه هوگا تو نماز كے ذريعه هى هوگا گو سبب بهي أختيار كرليا جائے يعني صلاة الحاجت پڑهي ليكن مقصد پورا نه هوا تو يه سوچ كه ضرور ميرى نماز ميں كوئى كمي هے سو دوباره سه باره بلكه جب تك كام نه هو بار بار پڑهـے يعني نماز كے ذريعه سے يقين كو أسباب سے هٹا كر أعمال پر لانا هے صلاة الحاجت إسكي مشق هے يه نه هو كه يقين تو أسباب پر هي هو اور بركت كے لئے صلاة الحاجات بهي ادا كرلي
يهاں إيك نكته قابل غور هے كه إيك تو صلاة الحاجت پڑهنا هوتا هے ابني حاجت كے لئے اور إيك نماز پڑهنا هوتا هے اپنے يقين كو تبديل كرنے كے لئے يعني يقين كو أسباب سے هٹا كر أعمال ( نماز وغيره) ميں منتقل كرنے كے لئے نماز كي مشق هے تو يه إيك محنت هے جو هر نمازي كو كرنا ضروري هے سوچنے كي بات هے كه هم بے نمازي كو دعوت كيون دے رهے هيں كيا إس لئے دعوت دے رهے هيں كه وه بے نمازي هے اور هم ماشاءالله نمازي هيں يا إس لئے دعوت دي جارهي كه كه هميں نماز كى حقيقت مل جائے
اگر آپ بے نمازي كو صرف عمل كي دعوت دے رهے هيں ليكن يقين كي دعوت نهيں دے رهے تو وه شايد عمل پر تو آجائے ليكن يقين پر كهبي نهيں آئے گا وه نماز پڑهے گا ليكن جب نماز كے مقابل ميں دكان آجائے گي تو وه نماز كو چهوڑ كر دكان كو ترجيح دے گا كيونكه نماز ميں اس كا يقين تو هے نهيں إسي طرح كوئى بهي چيز يعني ملازمت ، كارخانه ، كهيت وغيره جب سامنے هوگا تو چونكه اس كا يقين إنهي أسباب پر هے إس لئے وه إن كو أختيار كرے گا اور نماز كو چهوڑ دے گا كيونكه شكل كے مقابل ميں شكل آگئى هے اگر نماز كي حقيقت كا يقين هوتا تو حقيقت كے مقابله ميں چاهے كتني هي شكليں آجاتيں وه حقيقت كو هي أختيار كرتا
نماز سميت همارے أعمال ابهي يقين پر نهيں آئے بلكه معمول پر آئے هيں رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے قيامت تك كے مسلمانوں كے لئے اپنى نماز كو إيك نمونه قرار ديا هے تو هميں اپني نمازوں كي مشق كرنا هے ظاهر كے إعتبار سے بهي اور باطن كے إعتبار سے بهي ظاهر كے أعتبار سے نماز كے ظاهرى أعمال پر مشق هو اور باطني إعتبار سے يه محنت هو كه جب بهي كوئى حاجت آئے تو توجه فوراً نماز كي طرف جائے صلاة الحاجت پرهي ليكن حاجت بوري نه هوئى تو پهر پڑهو پهر پڑهو بار بار پڑهو جب تك نماز جو اب تك غير يقيني سبب تها يقيني سبب نه بن جائے اور إسكے مقابله ميں أسباب جو ابهي تك يقينى درجه ميں تهے اب غير يقيني هوجائے
اگر حاجت كے آتے هي نماز كا خيال نه آئے تو إسكا صاف مطلب يهي هے كه ابهي نماز كي حقيقت حاصل نهيں هوئى اگر حاجت كے آتے هي سبب كا خيال آيا اور پهر سبب كے لئے نماز پڑهے تو يه يقين كا بگاڑ هے يعني يه يقين كي كمزوري هے كه أسباب كے لئے أعمال كيے جارهے هيں ليكن يقين تو يه هونا چاهيے كه عمل وه سبب هے جو الله تعالى كے خزانوں سے براه راست كاميابي دلائے گا إس ميں إنكار كي كوئى گنجائش نهيں تو ضرورت إس أمر كي هے كه نماز كے ذريعه سے الله تعالى كے خزانوں سے لينے كي مشق كي جائے إيك نماز سے دوسرى نماز كا إنتظار كيا جائے اور صلاة الحاجت كو يقين كے ساتهـ پڑهـ كر يقيني كاميابي حاصل كي جائے
صحابه كرام رضوان الله عليهم نے مشق كركے نماز كي وه حقيقت پا لي تهي كه دو ركعت پڑه كر وه الله تعالى سے مطلوبه مقصد حاصل كرليتے تهے إيك دو نهيں سينكڑوں واقعات صحابه كرام كے تاريخ كي كتابوں ميں موجود هيں كه أنهوں نے نماز پر مشق كي اور نماز كے ذريعه سے اپنے مقاصد حاصل كيے - آج بهي اگر هم اسي نماز پر آجائيں گے تو يقيناً هميں بهي الله تعالى كے وهي أنعامات مليں گے جو صحابه كرام رضوان الله عليهم كو ملے تهے


تيسرا كام -يقين والي نماز كے لئے الله تعالى سے دعا كرنا:
هر نمبر كي محنت كي طرح نماز كے لئے بهي سب سے پہلے إس کی دعوت ہے ، ، اپنے اندر نماز كا يقين لانے كے لئے دوسرا كام إس كي مشق كرنا هے إس سب كے بعد كاميابي دينے والي ذات صرف اور صرف الله تعالى كي هے إس لئے دعوت اور محنت كا عمل كرنے كے بعد تيسرا اور آخرى كام الله تعالى سے رو رو كر اور گڑگڑا كر دعا مانگني بهت ضرورى هے.
اللہ تعالی کو یہ بات بہت پسند ہے کہ اس سے مانگا جائے، ہر چیز کے لئے امید اسی سے لگائی جائے، بلکہ جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ تعالی اس پر غضبناک ہوتا ہے، اسی لیے اپنے بندوں کو مانگنے کے لئے ترغیب بھی دلاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ[غافر]
ترجمہ: اور تمہارے رب نے کہہ دیا ہے کہ: مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کرونگا۔

اللہ سے دعا مانگنے کا دین میں بہت بلند مقام ہے، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرما دیا: (دعا ہی عبادت ہے) ترمذی - ابو داود - ابن ماجہ
كلمه طيبه "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ" يعني نمبر(1) ميں دعا كے متعلق ذرا تفصيل سے بيان كرديا گيا هے تاهم يهاں پر دعا كے كچهـ آداب كا ذكر كيا جائے گا۔

دعا كے آداب :
1- دعا کرنے والا شخص توحید ربوبیت، توحید الوہیت، اور توحید اسماء و صفات میں وحدانیت الہی کا قائل ہو، اس کا دل عقیدہ توحید سے سرشار ہونا چاہیے؛ کیونکہ دعا کی قبولیت کے لئے شرط ہے کہ انسان اپنے رب کا مکمل فرمانبردار ہو اور نافرمانی سے دور ہو،
فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُون
ترجمہ: اور جس وقت میرے بندے آپ سے میرے متعلق سوال کریں تو میں قریب ہوں، ہر دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب بھی وہ دعا کرے، پس وہ میرے احکامات کی تعمیل کریں، اور مجھ پر اعتماد رکھیں، تا کہ وہ رہنمائی پائیں [البقرة ]

2- دعا میں اخلاص ہونا، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاء
ترجمہ:اور انہیں صرف اسی بات کا حکم دیا گیا تھا کہ یکسو ہو کر صرف اللہ کی عبادت کریں۔[البينة]
اور یہ بات سب کیلئے عیاں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق دعا ہی عبادت ہے، چنانچہ قبولیتِ دعا کیلئے اخلاص شرط ہے۔

3- اللہ تعالی کے اسمائے حسنی کا واسطہ دے کر اللہ سے مانگا جائے،
فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ
اور اللہ تعالی کے اچھے اچھے نام ہیں، انہی کے واسطے سے اللہ کو پکارو، اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اللہ کے ناموں سے متعلق الحاد کا شکار ہیں۔ [الأعراف]

4- دعا کرنے سے پہلے اللہ تعالی کی شایانِ شان حمد و ثنا، چنانچہ ترمذی میں فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ بیٹھے ہوئے تھے، کہ ایک آدمی آیا اور اس نے نماز پڑھی اورپھر اسی دوران دعا کرتے ہوئےکہا: "یا اللہ! مجھے معاف کر دے، اور مجھ پر رحم فرما" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اے نمازی! تم نے جلد بازی سے کام لیا، جب تم نماز میں بیٹھو، تو پہلے اللہ کی شان کے مطابق حمد و ثنا بیان کرو، پھر مجھ پر درود پڑھو، اور پھر اللہ سے مانگو)
ترمذی کی ہی ایک اور روایت میں ہے کہ: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو سب سے پہلے اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر نبی كريم  صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے، اور اس کے بعد جو دل میں آئے مانگ لے راوی کہتے ہیں: "اس کے بعد ایک اور شخص نے نماز پڑھی، تو اس نے اللہ کی حمد بیان کی، پھر نبی كريم  صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: (اے نمازی! اب دعا مانگ لو، تمہاری دعا قبول ہوگی)" اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے "صحیح ترمذی میں صحیح کہا ہے۔

5- نبی كريم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جائے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (ہر دعا شرفِ قبولیت سے محروم رہتی ہے، جب تک اس میں نبی كريم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ پڑھا جائے)
طبرانی نے "الأوسط" میں روایت کیا ہے، اور شیخ البانی نے اسے "صحیح الجامع" میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

6- قبلہ رخ ہو کر دعا کرنا، چنانچہ صحيح مسلم میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب غزوہ بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی تعداد کو دیکھا کہ ان کی تعداد ایک ہزار ہے، اور آپ کے جانثار صحابہ کرام رضوان الله عليهم  کی تعداد 313 ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے قبلہ رخ ہو کر دعا مانگنا شروع کی آپ نے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے اور اپنے رب سے گڑگڑا کر مانگنے لگے:
(اَللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي ، اَللَّهُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِي ، اَللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الإِسْلامِ لا تُعْبَدْ فِي الأَرْضِ)
[یعنی: یا اللہ! مجھ سے کیا ہوا وعدہ پورا فرما، یا اللہ! مجھے دیا ہوا عہد و پیمان مکمل فرما، یا اللہ اگر تو نے تھوڑے سے مسلمانوں کا خاتمہ کر دیا تو زمین پر کوئی عبادت کرنے والا نہ ہوگا]
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل ہاتھوں کو اٹھائے اپنے رب سے گڑگڑا کر دعائیں کرتے رہے، حتی کہ آپکی چادر کندھوں سے گر گئی۔۔۔ الحدیث-
نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں کہتے ہیں: "اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دعا کرتے وقت قبلہ رخ ہونا ، اور ہاتھوں کو اٹھانا مستحب ہے"

7- ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کرنا، چنانچہ ابو داود میں سلمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بیشک تمہارا پروردگار انتہائی باحیا اور سخی ہے، ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے والے اپنے بندے کے ہاتھوں کو خالی لوٹاتے ہوئے اسی حیا آتی ہے اس حدیث کو شیخ البانی نے "صحیح ابو داود" میں صحیح کہا ہے۔
دعا میں ہاتھ اٹھانے کے لئے ہتھیلی کی اندرونی جانب آسمان کی طرف ہوگی، جیسے کسی سے کچھ لینے کا منتظر فقیر اور لاچار شخص اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر رکھتا ہے، چنانچہ ابو داود میں مالک بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب تم اللہ تعالی سے مانگو تو اپنی ہتھیلی کے اندرونی حصے سے مانگو، ہتھیلی کی پشت سے مت مانگو) اس حدیث کو شیخ البانی نے "صحیح ابو داود" میں صحیح کہا ہے۔

8- اللہ تعالی کے بارے میں قبولیت کا مکمل یقین ہو، اور صدق دل سے دعا مانگے؛ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اللہ سے مانگو تو قبولیت کے یقین سے مانگو، یہ یاد رکھو! اللہ تعالی کسی غافل اور لا پرواہ دل کی دعا قبول نہیں فرماتا) اس حدیث کو شیخ البانی نے "صحیح ترمذی میں حسن کہا ہے۔

9- کثرت سے دعا کی جائے، اس لیے انسان کو اللہ تعالی سے دنیاوی اور اخروی ہر قسم کی دعا مانگنی چاہیے، خوب الحاح اور چمٹ کر دعا کرے، قبولیت کے لئے جلد بازی سے کام مت لے؛ اس لیے کہ نبی كريم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب تک کوئی بندہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے تو اس کی دعا قبول کی جاتی ہے، بشرطیکہ کہ جلد بازی نہ کرے) کہا گیا: "جلد بازی سے کیا مراد ہے؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (انسان یہ کہے: دعائیں تو بہت کی ہیں، پر مجھے لگتا ہے کہ میری دعائیں قبول نہیں کی جائیں گی، اوراس پر مایوس ہو کر دعا کرنا ہی چھوڑ دیتا ہے) بخاری- مسلم

10- دعا میں پختہ انداز ہو اور گزارشانہ انداز میں دعا نہ کی جائے؛ اس لیے کہ نبی كريم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تم میں سے کوئی یہ نہ کہے : "یا اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے، یا اللہ! اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما" بلکہ دعا مانگتے ہوئے پورے عزم کے ساتھ مانگے، کیونکہ اللہ تعالی کو کوئی مجبور نہیں کر سکتا) بخاری - مسلم

11- عاجزی ، انکساری، اللہ کی رحمت کی امید اور اللہ سے ڈرتے ہوئے دعا مانگے، فرمانِ باری تعالی ہے:
ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً
ترجمہ: اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے سے پکارو
[الأعراف ]
اسی طرح فرمایا:
إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ
ترجمہ: بیشک وہ نیکیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور ہمیں امید و خوف کیساتھ پکارتے تھے، اور وہ ہم سے ڈرتے بھی تھے۔[الأنبياء ]
اسی طرح فرمایا:
وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ
ترجمہ: اور اپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی اور خوف سے صبح و شام یاد کریں اور بلند آواز کے بغیر بھی اور غافلوں سے نہ ہو جائیں۔ [الأعراف]

12- تین ، تین بار دعا کرنا، بخاری و مسلم میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : " رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس نماز ادا کر رہے تھے، وہیں پر ابو جہل اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا تھا، [قریب ہی ]گزشتہ شام اونٹ بھی نحر کیے گئے تھے، تو ابو جہل نے کہا: "کون ہے جو فلاں قبیلے والوں کے اونٹوں کی اوجھڑی اٹھا کر جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں جائے تو اس کی کمر پر رکھ دے" یہ سن کر ایک بد بخت اٹھا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو اوجھڑی کو دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا ، پھر سب اوباش ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے لگے، لیکن میں کھڑا دیکھتا ہی رہ گیا، اگر میرے کنبے والے میرے ساتھ ہوتے تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر مبارک سے اسے ہٹا دیتا، لیکن نبی كريم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح سجدے کی حالت میں پڑے رہے، یہاں تک کہ ایک شخص نے جا کر فاطمہ کو بتلایا، تو وہ دوڑتی ہوئی آئیں، حالانکہ آپ بالکل چھوٹی عمر کی تھیں، پھر بھی آپ نے اوجھڑی کو ہٹایا، اور پھر اوباشوں کو برا بھلا کہنے لگیں، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز مکمل کی تو بلند آواز سے ان کے خلاف بد دعا فرمائی، -آپ جب مانگتے تو تین ، تین بار مانگتے، اور جب دعا کرتے تو تین ، تین بار کرتے- آپ نے تین بار فرمایا: (یا اللہ! قریش پر اپنی پکڑ نازل فرما )، جب اوباشوں نے آپکی آواز سنی تو انکی ہنسی بند ہوگئی، اور آپ کی بد دعا سے سہم گئے ، پھر آپ نے فرمایا: (یا اللہ! ابو جہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عقبہ، امیہ بن خلف، اور عقبہ بن ابی معیط پر اپنی پکڑ نازل فرما-آپ نے ساتویں کا نام بھی لیا لیکن مجھے اب یاد نہیں ہے- قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، جن لوگوں کے نام آپ نے لیے تھے وہ سب کے سب بدر کے دن قتل ہوئے، اور پھر ان سب کو بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا)"

13- حلال کھانے پینے کا اہتمام کرنا، مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لوگو! اللہ تعالی پاکیزہ ہے، اور پاکیزہ ہی قبول فرماتا ہے، اور اللہ تعالی نے مؤمنین کو بھی وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو دیا،
چنانچہ فرمایا:
يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
اے رسولو! پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ، اور نیک عمل کرو، بیشک تم جو بھی عمل کرتے ہو میں اسے جانتا ہوں۔[المؤمنون]
اور مؤمنین کو حکم دیتے ہوئے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ
اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں تمہیں دی ہیں ان میں سے کھاؤ [البقرة ]
پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا تذکرہ فرمایا، جو لمبے سفر میں پراگندہ حالت کے ساتھ دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے یا رب! یا رب! کی صدائیں بلند کرتا ہے، حالانکہ اس کا کھانا حرام کا، پینا حرام کا، لباس حرام کا، اسکی پرورش حرام پر ہوئی، تو اس کی دعائیں کیونکر قبول ہوں!؟)
ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اس سے معلوم ہوا کہ حلال کھانا پینا، پہننا، اور حلال پر نشو و نما پانا قبولیتِ دعا کا موجب ہے

14- اپنی دعاؤں کو مخفی رکھنا، جہری طور پر دعا نہ کرنا،
فرمانِ باری تعالی ہے:
ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً
ترجمہ: اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے سے پکارو[الأعراف]
نیز اللہ تعالی نے اپنے بندے زکریا علیہ السلام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّا
جب انہوں نے اپنے رب کو مخفی انداز میں پکارا [مريم ]

الله تعالى هم سب كو مكمل آداب كے ساتهـ دعا مانگنے كى توفيق عطا فرمائے - آمين
 دوسرے نمبر (نماز) كا بيان ختم هوا چاهتا هے - الله تعالى كهنے والے اور پڑهنے والوں كو عمل كي توفيق عطا فرمائے - تحرير كرنے والے كي غلطيوں اور كوتاهيوں كو الله تعالى اپنے فضل وكرم سے معاف فرما ئے اور إس كوشش كو اپني رحمت سے قبول فرماكر عمل كي توفيق عطا فرمائے (آمين) قابل إحترام قارئين سے گذارش هے كه وه إسے زياده سے زياده لوگوں تك پهنچانے كي كوشش كريں - إن شاء الله إس كا آجر الله تعالى سے ضرور ملے گا

الله تعالى كا لاكهـ لاكهـ شكر هے كه اس نے إس كي توفيق عطا فرمائي اور إس تمام تر كاوش كا ثواب اپنے مرحوم والدين - مرحوم بهائي جان اور بهت هي بيارے بيٹے شهيد عبدالرحمن نسيم رحمة الله عليهم تمام رشته داروں - دوست أحباب اور تمام مسلمانوں كو إيصال كرتا هوں- الله تعالى أن كي مغفرت فرمائے- ان پر رحم فرمائے - ان كے لئے آخرت كي تمام منزليں آسان فرمائے اور ان كو جنت الفردوس كے آعلى مقامات عنايت فرمائے - 
( آمين ثم آمين يا رب العلمين )
-----

Share: