مسلمانوں پر قرآن کریم کے حقوق


مسلمانوں پر قرآن کریم کے حقوق

قرآنِ مجید وہ کتاب ہے جو کسی تعارف کي محتاج نہیں، یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ یہ کتاب تمام آسمانی کتابوں کي سردار ہے۔ جس طرح اس کا مرتبہ بلند وبالا ہے اسی  طرح کلام اللہ یعنی قرآنِ کریم کے مسلمانوں پر کچھ حقوق  بھی ہیں، جس کا ادا کرنا ہر مسلمان کے  ذمه لازم ہے۔ اگر قرآن کریم کے حقوق ادا نہ کیے گئے تو یہ سنگین جرم ہوگا۔


قرآن کریم كے هر مسلمان پر پانچ حقوق 

(1) قرآن کریم پر ایمان لانا۔ 

(2) قرآن پاک کی تلاوت کرنا۔ 

(3) قرآن پاک کو سمجھنا۔ 

(4) قرآن مجید پر عمل کرنا۔ 

(5) قرآن پاک کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانا۔ 


 پہلا حق -  قرآن کریم پر ایمان لانا 

قرآن مجید کا پہلا حق یہ ھے کہ اس پر دل و زبان سے ایمان لایا جائے، کہ یہ اللہ تعالی کي آسمانی کتاب ہے، انبیاء علیہم السلام میں سے سب سے آخری نبي، محمدِ مصطفی صلى الله عليه وآله وسلم پر نازل ہوا ہے، اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں۔ قرآن کریم کے متعلق یہ عقیدہ اور ایمان تقریباً ہر مسلمان کے دل میں موجود ھونا ضروری ہے۔

 ایمان کے دو پہلو ہیں۔ ایک ’’اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ‘‘ اور دوسرے ’’ تَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ‘‘ اقرارِ لسانی دائرۂ اسلام میں داخلے کی شرطِ لازم ہے اور تصدیق قلبی حقیقی ایمان کا لازمہ ہے يعني قرآن مجيد پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے اس کا اقرار کیا جائے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے‘ جو  آخری رسول حضرت محمد صلى الله عليه وآله وسلم  پر نازل ہوا۔ اس اقرار سے انسان دائرۂ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے ‘لیکن حقیقی ایمان اسے اُس وقت نصیب ہوتا ہے جب ان تمام امور پر ایک پختہ یقین اس کے قلب میں پیدا ہو جائے۔ پھر ظاہر ہے کہ جب یہ صورت پیدا ہو جائے گی تو خودبخود قرآن کی عظمت کا نقش قلب پر قائم ہو جائے گا اور جوں جوں قرآن پر ایمان بڑھتا جائے گا اس کی تعظیم و احترام میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ گویا ایمان و تعظیم لازم و ملزوم ہیں۔

 قرآن پر ایمان سب سے پہلے خود نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم  اور صهابه كرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین لائے۔جيسا كه قرآن مجيد ميں هے

اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ(البقره)

’’ایمان لایا رسولؐ اس پر جو نازل کیا گیا اس کی جانب اور (اس کے ساتھی) اہل ایمان۔‘‘

یہ ایمان پورے تصدیق قلب کے ساتھ تھا اور اس گہرے یقین پر مبنی تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔  چنانچہ نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم  کو نزولِ وحی کا شدت کے ساتھ انتظار رہتا تھا اور آپؐ اس کے لیے بے چین رہتے تھے اور چاہتے تھے کہ وحی جلد جلد آیا کرے۔ پھر جب قرآن اترتا تھا تو آپ صلى الله عليه وآله وسلم  کمالِ شوق سے جلد از جلد اس کو یاد کر لینے کی کوشش کرتے تھے۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ازراہِ محبت و شفقت ان امور میں مبالغے سے منع فرمایا۔ چنانچہ ارشاد ہوا کہ :

وَ لَا تَعۡجَلۡ بِالۡقُرۡاٰنِ  (طٰـہٰ )’’

قرآن کے لیے جلدی نہ کرو۔ 

          اور

{لَا تُحَرِّکۡ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعۡجَلَ بِہٖ } (القیامۃ ) 

قرآن (کو یاد کرنے) کی جلدی میں اپنی زبان کو (تیزی سے) حرکت نہ دو۔

 آپ صلى الله عليه وآله وسلم  رات کا اکثر حصہ  اپنے پروردگار کے حضور میں کھڑے ہو کر قرآن پڑھتے ہوئے گزار دیتے تھے حتیٰ کہ آپ کے پائے مبارک متورم ہو جاتے تھے اور قرآن ہی کی شہادت ہے کہ ایک تہائی‘ آدھی اور دو تہائی رات اس طرح بسر کرنے میں بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی آپ کا اتباع کرتے تھے۔ آنحضور صلى الله عليه وآله وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قرآن سے اس گہرے شغف اور اس کی جانب اس قدر التفات کا سبب یہ تھا کہ انہیں یہ ’’حق الیقین‘‘ حاصل تھا کہ یہ اللہ کا کلام ہے ليكن ہمارا حال اس کے بالکل برعکس  ہے۔  اگر ہم اپنے دلوں کو ٹٹولیں اور ان کی گہرائیوں میں جھانک کر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ واقعی ہمارے قلوب قرآن پر یقین سے خالی ہیں اور ریب اور شک نے ہمارے دلوں میں ڈیرا ڈالا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ ہمارے دلوں میں اس کی کوئی عظمت ہے‘ نہ اس کو پڑھنے پر ہماری طبیعت آمادہ ہوتی ہے‘ نہ اس پر غور و فکر کی کوئی رغبت ہم اپنے اندر پاتے ہیں اور نہ ہی اسے زندگی کا واقعی لائحہ عمل بنانے کا خیال کبھی ہمیں آتا ہے۔ اس پوری صورتِ حال کا اصل سبب ایمان اور یقین کی کمی ہے اور جب تک اسے دُور نہ کیا جائے کسی وعظ و نصیحت سے کوئی پائیدار نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ہم میں سے ہر ایک کا سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے دل کواچھی طرح ٹٹولے اور دیکھے کہ وہ قرآن مجید کو بس ایک  مذہبی عقیدے کی بنا پر ایک ایسی ’’مقدس آسمانی کتاب‘‘ سمجھتا ہے جس کا زندگی اور اس کے جملہ معاملات سے کوئی تعلق نہ ہو‘ یا اسے یقین ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جو اس لیے نازل ہوا ہے کہ لوگ اس سے ہدایت پائیں اور اسے اپنی زندگیوں کا لائحہ عمل بنائیں۔ 

سوال يه بھی پيدا هوتا  ہے کہ اس کمی کو پورا کرنے کی عملی تدبیر کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایمان کی تحصیل کا سب سے زیادہ آسان اور سب سے بڑھ کر مؤثر ذریعہ تو اصحابِ ایمان و یقین کی صحبت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قلوب میں ایمان و یقین کی جو کیفیت مجسمہ ایمان اور پیکر یقین صلى الله عليه وآله وسلم  کی صحبت کی بدولت پیدا ہوئی تھی اس کا تصور بھی اب ناممکن ہے آپ صلى الله عليه وآله وسلم  کی وفات کے بعد بھی عوام الناس تو نورِ ایمانی کے اکتساب کے لیے ایسے خواص کی صحبت ہی کے محتاج ہیں جن کے دلوں میں ایمان و یقین کی شمعیں روشن ہوں‘ لیکن خود اُن ’’خواص‘‘ کے لیے نورِ ایمان کا سب سے بڑا منبع قرآن مجید ہے۔ اور اس کے بعد اخبار و آثار اور سیرتِ رسول صلى الله عليه وآله وسلم  اور سیر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ایسا مطالعہ جس سے طالب کو حضورؐ اور صحابہؓ کی معنوی صحبت میسر آ جائے رہا خود قرآن پر یقین اور اس میں اضافہ تو اس کا تو بس ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ خود قرآن مجید ہے۔ 

 ایمان درحقیقت کوئی باهر سے ٹھونسی جانے والی چیز نہیں‘ اس کی شمع تو انسان کے اپنے باطن میں روشن ہے اور اس کا قلب بذاتِ خود وه آئینه ہے جس میں کائنات کے وہ تمام حقائق ازخود منعکس ہیں جن کا دوسرا نام ایمان ہے۔ ہوتا صرف یہ ہے کہ غلط ماحول اور غلط تعلیم و تربیت کے اثرات سے انسان کی شمعِ باطن کی روشنی دھندلا جاتي هے  اور اس کے اعمال بد کے سبب سے اس کا آئینۂ قلب مکدر ہو جاتا ہے!  اور اس آئینے کو صیقل کرنے اور انسان کی اس شمع باطن کے نور کو اجاگر کرنے کے لیے ہی کلامِ الٰہی( تَبۡصِرَۃً وَّ ذِکۡرٰی لِکُلِّ عَبۡدٍ مُّنِیۡبٍ) بن کر نازل ہوا ہے۔ تلاشِ حق کی نیت سے اسے پڑھا اور اس پر غور و فکر کیا جائے تو سارے حجابات دُور ہوتے چلے جاتے ہیں اور انسان کا باطن نورِ ایمان سے جگمگا اٹھتا ہے ليكن  جب کبھی غفلت یا غلبۂ بہیمیت کے سبب سے آئینۂ قلب غبار آلود ہو جائے تو اس کے جلاء و صیقل کا مؤثر ترین ذریعہ بهي  قرآن مجید ہی ہے‘ جیسا کہ آنحضورصلى الله عليه وآله وسلم  نے فرمایا 

اِنَّ ھٰذِہِ الْقُلُوْبَ تَصْدَأُکَمَا یَصدَأُ الْحَدِیْدُ اِذَا اَصَابَہُ الْمَاءُ)) قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا جِلَاءُ ھَا؟ قَالَ : ((کَثَرَۃُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَۃُ الْقُرْآنِ)) (رواہ البیہقی)

بنی آدم کے قلوب بھی اسی طرح زنگ آلود ہو جاتے ہیں جیسے لوہا پانی پڑنے سے دریافت کیا گیا یا رسول اللہ! اس زنگ کو دُور کس چیز سے کیا جائے؟ فرمایا : ’’موت کی بکثرت یاد اور قرآن مجید کی تلاوت!‘‘

خلاصۂ کلام یہ کہ  قرآن مجید کے جو حقوق ہم پر عائد ہوتے ہیں ان کی ادائیگی کی اوّلین شرط یہ هے کہ سب سے پہلے ہمارے دلوں میں یہ یقین پیدا ہو کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور ہماری ہدایت کے كے لئے  نازل ہوا ہے۔  

اس یقین کے پیدا ہوتے ہی قرآن کے ساتھ ہمارے تعلق میں ایک انقلاب آجائے گا۔ یہ احساس کہ یہ ہمارے اس خالق و مالک کا کلام ہے جس کی ذات تبارک و تعالیٰ وراء الوراء ثم وراء الوراء ہے‘ اور جس کا کسی ادنیٰ ترین درجے میں بھی کوئی تصور ہمارے بس میں نہیں  پھر ہمیں محسوس ہو گا کہ اس زمین کے اوپر اور اس آسمان کے نیچے قرآن پاک سے بڑی کوئی دولت اور اس سے عظیم تر کوئی نعمت موجود نہیں۔ 

پھر اس کی تلاوت ہماری روح کی غذا اور اس پر غور و فکر ہمارے قلوب و اذہان کے لیے روشنی بن جائیں گے اور یقینا یہ کیفیت پیدا ہو جائے گی کہ اس کی تلاوت سے ہم کبھی سیرنہ ہو سکیں گے اور اپنی بہترین ذہنی و فکری صلاحیتوں اور اپنی پوری عمر کو اس پر تدبر و تفکر میں کھپا کر بھی ہم كمي هي محسوس کریں گے  


   دوسرا حق - قرآنِ کریم  کی تلاوت کرنا 

 قرآنِ کریم کا دوسرا حق یہ ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے،اور اُسی طرح تلاوت کرنی چاہئے جس طرح حضر ت جبرئیل امین نے رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم  کے سامنے کی اور آنحضرت صلى الله عليه وآله وسلم نے صحابۂ کرامؓ کو سکھائی،جب قرآن کریم کا نزول ہو رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

فَإِذَا قَرَأْنَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہُ } (القیامۃ: ۱۸)

جب ہم( جبرئیل کے واسطے سے تمہارے سامنے) قرآن پڑھیں تو جس طرح وہ پڑھتے ہیں آپ بھی اسی طرح پڑھیں۔

قرآنِ کریم کو تجوید کے مطابق پڑھیں اس لئے قرآن مجید کو انہی آداب اور قوانین کے مطابق پڑھنا ضروری ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم کے ذریعہ سے سکھائے ہیں،قرآنِ مجید کو درست پڑھنے کے لئے باقاعدہ تجوید کا علم ہے جس میں قرآنِ مجید کے حروف کو صحیح ادا کرنے کا طریقہ سکھایا جاتا ہے،حروف کی صحیح ادائیگی بہت ضروری ہے ،بعض اوقات حروف کی درست ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے نماز ہی نہیں ہوتی،اس لئے ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآنِ کریم کو صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنا سیکھے،عربی زبان میں کل انتیس حروف ہیں،ان کو صحیح ادا کرنے کا طریقہ سیکھ لیا جائے تو قواعد کے مطابق تلاوت کی جا سکتی ہے، یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے،یہ سیکھنے کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کرنا چاہئے اور روزانہ کے معمول میں قرآن کریم کی تلاوت کو شامل کرنا چاہئے۔ کسی دور میں اسلامی معاشرے کا ایک خاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی بستیوں میں فجر کی نماز کے بعد قرآنِ کریم کی تلاوت کی آوازیں گونجا کرتی تھیں،ہر گھر میں بچہ بچہ تلاوت کیا کرتا تھا،لیکن آج افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ وہ ماحول نظر نہیں آتا۔

قرآن کریم کی روزانہ تلاوت کا معمول ہر مسلمان کو بنانا چاہئے،خواہ تھوڑی سی تلاوت ہی کیوں نہ ہو لیکن روزانہ ہونی چاہئے،قرآن کریم میں سات منزلیں ہیں،یہ سات منزلیں اس لئے مقرر کی گئیں تھیں کہ روزانہ ایک منزل پڑھی جائے اور ہر مسلمان سات دن میں قرآن مجید ختم کر لے، یوں ایک مہینے میں چار مرتبہ قرآن کریم تلاوت میں ختم کیا جاتا تھا،یہ قرون اُولی میں عام مسلمانوں کا طریقہ تھا،پھر اس میں کمی آتی چلی گئی تو روزانہ ایک پارہ پڑھنے کا معمول شروع ہو گیا ،یوں تیس دن میں ایک قرآن مجید ختم ہو جاتا تھا،لیکن اب اس کا بھی معمول نہیں رہا، کوشش کریں کہ ایک دن میں ایک پارہ نہ سہی آدھا پارہ ہی تلاوت کر لیا جائے ،وہ بھی نہ ہو سکے تو کم ازکم ایک پاؤ کی تلاوت تو ضرور کرنی چاہئے، ہمارا کوئی دن بھی قرآن کریم کی تلاوت سے خالی نہیں جانا چاہئے۔


قرآن کریم چھوڑنے والوں کے بارے میں  رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم کی شکایت

قرآن کریم کو چھوڑنے کی وجہ سے آج مسلمان دنیا میں ذلیل ہو رہے ہیں، اس دن سے ڈرنا چاہئے جس کو قرآن مجید نے سورۂ فرقان میں بیان فرمایا ہے کہ قیامت میں ایک وقت ایسا آئے گا کہ 

وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا ہٰذَا الْقُرْآنَ مَہْجُورًا }

اور رسول اللہ  فرمائیں گے کہ یا رب! میری قوم نے اس قرآن کو پیچھے چھوڑ دیا تھا ۔

رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم جو شفیع المذنبین ہیں ،جن کی شفاعت ایک مسلمان کے لئے آخرت میں آخری سہارا ہے،اگر انہوں نے بھی آخرت میں ہمارے بارے میں یہ شکایت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کردی کہ ہم نے قرآن کریم کو چھوڑ دیا تھا تو پھر ہمارے ٹھکانہ کیا ہوگا؟ اس لئے ہر مسلمان اس بات کا عزم کرے کہ اس کا کوئی دن بھی قرآن کریم کی تلاوت سے خالی نہیں جائے گا۔

یعنی جب ہم نے یہ تسلیم کیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری کتاب ہے تو پھر اس کی تلاوت بھی ضروری ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جس کی ایک ایک حرف پر نبی کریم  صلى الله عليه وآله وسلم نے دس دس نیکیوں کی بشارت سنائی ہے۔ رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم  کو بھی باقاعدہ اس کی تلاوت کا حکم دیا گیا تھا۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے:

 اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلاةَ”(سورۃ عنکبوت) 

آپ پر جو قرآن وحی کی گئی ہے اس کی تلاوت کیا کرو اور نماز قائم کیا کرو۔


 اس کے بعد رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کی یہ حالت تھی کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام جب وحی لاتے تو نبی كريم صلى الله عليه وآله وسلم ساتھ ساتھ پڑھتے تھے، نبی كريم صلى الله عليه وآله وسلم اس خوف کی وجہ سے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے کہ کہیں بھول نہ جائے، لیکن اللہ رب العزت نے حکم دیا کہ نزول کے وقت آپ زبان کو حرکت مت دیجئے، اس کو آپ کے سینے میں جمع کرنا، پھر آپ کی زبان سے پڑھانا ہماري ذمہ داری ہے۔ تلاوت کے بارے میں یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ چوبیس گھنٹے تلاوت کرے، بلکہ آداب کے ساتھ روزانہ کے بنیاد پر کرنا چاہیے۔ جتنا بس میں ہوں اتنا کرلیں، مشاھدہ یہ ھے کہ آج بھی اکثر حضرات ایسے ہیں جو روزانہ ایک پارہ تلاوت کرتے ہیں، اگرچہ سفر پر کیوں نہ ہوں۔ اسی طرح ایک معمول بنانا چاہیے جو روزانہ کے بنیاد پر ہوں۔

تلاوتِ کلامِ پاک ایک بہت بڑی عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ ایمان کو تروتازہ رکھنے کامؤثر ترین ذریعہ ہے۔ قرآن صرف ایک بار پڑھ لینے کی چیز نہیں ہے بلکہ بار بار پڑھنے اور ہمیشہ پڑھتے رہنے کی چیز ہے‘ اس لیے کہ یہ روح کے لیے بمنزلۂ غذا ہے اور جس طرح جسم انسانی اپنی بقاء و تقویت کے لیے مسلسل غذا کا محتاج ہے جو انسان کے جسدِ حیوانی کی طرح سب زمین ہی سے حاصل ہوتی ہے اسی طرح روحِ انسانی جو خود آسمانی چیز ہے‘ کلامِ ربّانی کے ذریعے مسلسل تغذیہ و تقویت کی محتاج ہے!

اگر قرآن پاک بس ایک مرتبہ پڑھ لینے کی چیز ہوتی تو رسول کریم صلى الله عليه وآله وسلم کو تو اس کے بار بار پڑھنے کی قطعاً کوئی حاجت نہ تھی۔ لیکن قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلى الله عليه وآله وسلم  کو مسلسل قرآن پڑھتے رہنے کی بار بار تاکید ہوئی۔ عہدِ رسالت کے بالکل ابتدائی ایام میں تو انتہائی تاکیدی حکم ہوا کہ رات کا اکثر حصہ اپنے ربّ کے حضور میں کھڑے ہو کر ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھتے ہوئے بسر کرو۔ بعد کے ادوار میں بھی‘ خصوصاً جب مشکلات و مصائب کا زور ہوتا تھا اور صبر و استقامت کی خصوصی ضرورت ہوتی تھی‘ رسول کریم صلی الله عليه وآله وسلم  کو تلاوتِ قرآن ہی کا حکم دیا جاتا تھا۔ چنانچہ سورۃ الکہف میں ارشاد ہوا ہے :

وَ اتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنۡ کِتَابِ رَبِّکَ ۚؕ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ۚ۟ وَ لَنۡ تَجِدَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مُلۡتَحَدًا  (الکہف)

’’اور پڑھا کر جو وحی ہوئی تجھ کو تیرے پروردگار کی کتاب سے۔ کوئی اس کی باتوں کا بدلنے والا نہیں اور نہ ہی تو کہیں پا سکے گا اس کے سوا پناہ کی جگہ۔‘‘

اور سورۃ العنکبوت میں ارشاد ہوا :

اُتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ؕ (العنکبوت)’

پڑھا کر جو وحی ہوئی تیری طرف کتاب ِ الٰہی اور قائم رکھ نماز کو!‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی تلاوت مسلسل کرتے رہنا ضروری ہے اور یہ مؤمن کی روح کی غذا ‘ اس کے ایمان کو تروتازہ اور سرسبز و شاداب رکھنے کا اہم ترین ذریعہ اور مشکلات و موانع کے مقابلے کے لیے اس کا سب سے مؤثر ہتھیار ہے۔

کتابِ الٰہی کے اصل قدر دانوں کی یہ کیفیت قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے کہ :

{اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یَتۡلُوۡنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ؕ (البقرۃ 

جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا فرمائی وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے

تلاوتِ قرآن پاک کو زندگی کے معمولات میں مستقل طور پر شامل کیا جائے اور ہر مسلمان تلاوت کا ایک مقررہ نصاب پابندی کے ساتھ لازماً پورا کرتا رہے۔ مقدارِ تلاوت مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہو سکتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ مقدار جس کی رسول کریم صلی  الله عليه وآله وسلم  نے توثیق فرمائی ہے‘ یہ ہے کہ تین دن میں قرآن مجيد ختم کیا جائے‘ یعنی دس پارے روزانہ پڑھے جائیں۔ اور کم سے کم مقدار‘ جس سے کم کا تصور بھی ماضی قریب تک نہ کیا جا سکتا تھا‘ یہ ہے کہ ایک پارہ روزانہ پڑھ کر ہر مہینے قرآن ختم کر لیا جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ وہ کم از کم نصاب ہے جس سے کم پر تلاوتِ قرآن کے معمول کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ درمیانی درجہ جس پر اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم عامل تھے اور جس کا حکم بھی ایک روایت کے مطابق آنحضورصلى الله عليه وآله وسلم  نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیا تھا‘ یہ ہے کہ ہر ہفتے قرآن ختم کر لیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ دورِ صحابہؓ میں قرآن کی تقسیم سورتوں کے علاوہ صرف سات احزاب میں تھی جن میں سے پہلے چھ احزاب علی الترتیب تین‘ پانچ‘ سات‘ نو‘ گیارہ اور تیرہ سورتوں پر مشتمل ہیں اور ساتواں جو حزبِ مفصل کہلاتا ہے‘ بقیہ قرآن مجید پر مشتمل ہے۔ اس طرح ہر حزب کم و بیش چار پاروں کا بنتا ہے جن کی تلاوت انتہائی سکون و اطمینان کے ساتھ دو گھنٹوں میں کی جا سکتی ہے جو دن رات کے عشر سے بھی کم ہے۔ تلاوتِ قرآن مجید کا یہ نصاب ہر اُس شخض کے لیے لازمی ہے جو دینی مزاج اور مذہبی ذوق رکھتا ہو اور قرآن مجید کا حقِ تلاوت ادا کرنے کا خواہش مند ہو‘ چاہے وہ عوام میں سے ہو یا اہل علم و فکر کے طبقے سے تعلق رکھتا ہو‘ اس لیے کہ جہاں تک روح کے تغذیہ و تقویت کا تعلق ہے اس کے اعتبار سے تو سب ہی اس کے محتاج ہیں۔ اس کے علاوہ عوام کو اس سے ذکر و موعظت حاصل ہو گی اور اہل علم و فکر حضرات اس سے اپنے علم کے لیے روشنی اور فکر کے لیے رہنمائی پائیں گے۔ حتیٰ کہ وہ حضرات بھی جو دن رات قرآن حکیم پر تفکر و تدبر میں لگے رہتے ہوں اور قرآن کی ایک ایک سورت پر غور وفكر كرتے هيں 

قرآن کی تلاوت کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ہر شخص اپنی حد تک بہتر سے بہتر اسلوب‘ اچھی سے اچھی آواز اور زیادہ سے زیادہ خوش الحانی سے قرآن مجید کی تلاوت کرے۔  آنحضورصلى الله عليه وآله وسلم  نے تاکیداً فرمایا ہے :

((زَیِّنُوا الْقُرآنَ بِاَصْوَاتِکُمْ))

’’ قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرو۔‘‘

آنحضورصلى الله عليه وآله وسلم  نے تاکیداً فرمایا ہے کہ :

مَا اَذِنَ اللّٰہُ لِشَیْ ءٍ مَا اَذِنَ لِنَبِیٍٍ اَنْ یَتَغَنّٰی بِالْقُرْآنِ یَجْھرُ بِہٖ

اللہ تعالیٰ کسی چیز پر ا س طرح کان نہیں لگاتا جس طرح نبی صلى الله عليه وآله وسلم  کی آواز پر لگاتا ہے‘ جبکہ وہ قرآن کو خوش الحانی کے ساتھ بآواز بلند پڑھ رہا ہوتا ہے۔‘‘

اس معاملے میں بھی غلو اگرچہ مضر ہے‘ خصوصاً جب اس میں تصنع یا ریا شامل ہوجائیں اور اس کی صورت ایک پیشے کی بن جائے تب تو یہ مہلکات میں سے شمار ہونے والی چیز بن جاتی ہے‘ لیکن ہر شخص کو اپنے ذوقِ حسن سماعت کی تسکین بہرحال قرآن کی تلاوت و سماعت ہی میں تلاش کرنی چاہیے‘ اور خود اپنے حد ِامکان تک اچھے سے اچھے طریقے پر تلاوت کی سعی کرنی چاہیے۔

تلاوت قرآن پاک کی اعلیٰ ترین صورت یہ ہے کہ نماز (خصوصاً تہجد) میں اپنے ربّ کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو کر انتہائی سکون اور اطمینان کے ساتھ متذکرہ بالا تمام شرائط کی پابندی کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر اور توقف کرتے ہوئے قرآن پڑھا جائے جس سے قلب پر اثرات مرتب ہوتے چلے جائیں۔ قرآن کی اصطلاح میں اس قسم کی تلاوت کا نام ترتیل ہے اور نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم  کو جو احکام بالکل ابتدائی عہد رسالت میں ملے ان میں سے غالباً اہم ترین حکم یہی تھا کہ :


{یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱﴾قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا ۙ﴿۳﴾اَوۡ زِدۡ عَلَیۡہِ وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا ؕ (المزمل)’’

اے مزمل! رات کو کھڑے رہا کرو سوائے اس کے تھوڑے سے حصے کے‘ (یعنی) آدھی رات‘ یا اس سے کچھ کم یا اس سے کچھ زائد۔ اور قرآن کو پڑھا کرو ٹھہر ٹھہر کر۔‘‘

 ترتیل تثبیت قلبی کا مؤثر ذریعہ ہے اور اس طرح قرآن پڑھنے سے قلب انسانی کو زیادہ سے زیادہ فیض و افادہ حاصل ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ شدتِ تاثر سے قلب پر گریہ طاری ہو جاتا ہے۔  حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے  روایت ہے کہ ایک مرتبہ آنحضورصلى الله عليه وآله وسلم  کا گزر ایک ایسے شخص پر ہوا جو قرآن مجید اس طرح پڑھ رہا تھا کہ ایک ایک آیت پڑھتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا۔ اس پر حضورصلى الله عليه وآله وسلم  نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا : ’’کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا قولِ مبارک وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا ؕ  نہیں سنا؟ دیکھ لو یہ ہے ترتیل!‘‘ قرآن مجید کو بطریق ترتیل تلاوت کرنے ہی کا حکم ہے آنحضورصلى الله عليه وآله وسلم کے اس قولِ مبارک میں کہ : ((اُتْلُوا الْقُرْآنَ وَابْکُوْا)) (ابن ماجہ) قرآن کو پڑھو اور روؤ!‘‘

چنانچہ خود نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم  کی صلوٰۃِ التجهد کی یہ کیفیت روایات میں بیان ہوئی ہے کہ قرآن پڑھتے ہوئے جوشِ گریہ سے آپ صلى الله عليه وآله وسلم  کے سینۂ مبارک سے ایسی آواز نکلتی تھی جیسے کوئی ہانڈی چولہے پر پک رہی ہو۔

 ترتیل کی شرط لازم یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ قرآن یاد کیا جائے۔ بدقسمتی سے اس کا ذوق بھی ہمارے یہاں کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہو گیا ہے حالانہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر شخص قرآن کے اس حصے کو جو اُسے یاد ہو‘ اپنا اصل اثاثہ اور سرمایہ سمجھے اور اس میں مسلسل اضافے کے لیے کوشاں رہے‘ تاکہ تلاوتِ قرآن کی سب سے اعلیٰ صورت یعنی ترتیل سے زیادہ سے زیادہ حظ حاصل کر سکے اور اپنی روح کو زیادہ سے ذیادہ روحاني غذا عمدہ سے عمدہ صورت میں فراہم کر سکے 


 تيسرا حق - قرآنِ کریم كو سمجهنا 

قرآنِ کریم کا تيسرا حق جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر عائد فرمایا ہے یہ ہے کہ ہم اس کتاب کوسمجھیں اور اس سے ہدایت حاصل کریں،اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو ہمارے لئے سرچشمۂ ہدایت بنایا ہے،اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں:

ہُدًی لِلْمُتَّقِینَ } (البقرہ: ۲)

یہ کتاب متقی لوگوں کے لئے ہدایت ہے۔

جب اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو ہمارے لئے ہدایت بنایا ہے تو اس کو جزدان میں بند کر کے رکھنا اور اس کو سمجھنے کی کوشش ہی نہ کرنا بھی اس کی حق تلفی ہے ۔ اگر کسی کو اس کا محبوب کسی ایسی زبان میں خط لکھے جس کو وہ سمجھتا نہ ہو تو اس کو اس وقت چین نہیں آئے گا جب تک اس زبان کے سمجھنے والے کے پاس جا کر اس خط کو پڑھوا نہ لے اور یہ پتہ نہ کر لے کہ اس میں کیا لکھا ہے،کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے محبوب کے خط کو طاق میں سجاکر رکھ د ے اور اس کو کھول کر بھی نہ دیکھے کہ اس میں کیا لکھا ہے؟ لیکن آج مسلمانوں نے قرآن کریم کو طاق میں سجا کر رکھا ہوا ہے،اس کی تلاوت ہی نہیں کی جاتی ، اگر کسی کو تلاوت کی توفیق ہو بھی جائے تو اس کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی،ہر مسلمان اللہ تعالیٰ،رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم  اورقرآن پر تو ایمان رکھتا ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا ،کس قدر غفلت کی بات ہے! یہ بات بھی نہیں کہ اس کو سمجھنے کے لئے بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہو، الحمد للہ اس دور میں تقریباً ہر زبان میں ہی قرآن کریم کے تراجم اور تفاسیر علماء کی جانب سے لکھے جا چکے ہیں،اس لئے ہر مسلمان کوشش کرے کہ اپنے پاس کوئی مستند ترجمہ یا تفسیر رکھے اور اس کو پڑھ کر قرآن کریم کوسمجھنے کی کوشش کرے،چونکہ آج کل بہت سے گمراہ لوگوں نے بھی تراجم وتفاسیر لکھ دی ہیں اس لئے کسی مستند عالم دین سے مشورہ کر کے کوئی ترجمہ یا تفسیر خریدنی چاہئے اور اس کو پڑھنے کا معمول بنانا چاہئے۔

کلام الہٰی میں ہمارے لیے کیا پیغام ہے؟ اس میں ہمارے لیے کیا کیا خوشخبریاں ہیں؟ یہ کتاب اللہ تعالی کی طرف سے ہمارے لیے ایک پیغام ہے، پیغام جب کسی کے پاس آجائے تو وہ اس کو غور سے مطالعہ کرتا ہے، اگر خود کوئی لفظ سمجھنے میں مشکل ہو تو کسی اور کے پاس جاتا ہے کہ اس کا کیا معنیٰ ہے، لیکن سمجھنے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔

بعض حضرات کو شیطان یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ یہ مشکل ہے، اس کا سمجھنا آسان نہیں، لیکن اللہ تعالی نے یہ وسوسہ اور بہانہ بھی ختم کر لیا۔ اللہ تعالی نے سورۃ قمر میں فرمایا:

لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ، فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ (القمر )

 کہ ہم نے قرآن نصیحت کے لیے آسان کردیا ہے، کوئی ہے جو اس سے نصیحت حاصل کرے؟ 

اور قرآن حکیم نے ایک عام ہدایت دی کہ :

 {فَلَوۡلَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرۡقَۃٍ مِّنۡہُمۡ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوۡا فِی الدِّیۡنِ } (التوبہ)’’

پس کیوں نہیں نکلتا ہر ہر فرقے میں سے ان کا ایک گروہ تاکہ سمجھ پیدا کرے دین میں۔‘‘

یاد رکھیے! قرآن کا سمجھنا دو طرح سے ہے۔ ایک یہ کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے جو دلائل ہیں وہ سمجھا جائے، بڑے بڑے احکام اور بشارات  كو سمجھا جائے، یہ ہے عوام کا سمجھنا، یعنی یہ عوام کی بس کی بات ہے، کیونکہ قرآن کریم کا طرزِ استدال بہت سادہ اور آسان ہے، جگہ جگہ مثالیں دے کر مسئلہ سمجھایا گیا، یہ صرف لفظی ترجمہ سے بھی حاصل ہوسکتا ہے۔ دوسرا ہے علماء اور فقہاء کا سمجھنا، کہ اس سے مسائل استنباط کریں، ایک ایک لفظ پر غور کریں، جس طرح مفسرین حضرات نے کیا ہے اور کرتے ہیں، چودہ سو سال سے یہ کوشش جاری ہے، سینکڑوں تفاسیر لکھی گئیں، لیکن آج تک کوئی انتہاء تک نہیں پہنچا۔ بعض لوگ تو صرف عربی گرائمر سیکھ کر قرآن فہمی کا دعویٰ کرديتے هيں، لیکن خبردار قرآن کی سمجھ وہ ہے جو احادیثِ رسول، اقوالِ صحابہ اور تابعین کی روشنی میں ہوں۔ صرف اپنی رائے سے تفسیر کرنا عذابِ الہٰی کو دعوت دینا ہے۔

 قرآن تمام ذی شعور انسانوں کو جنہیں وہ ’’اُولُوا الْاَلْبَابِ‘‘ اور ’’قَوْمٌ یَّعْقِلُوْنَ‘‘ قرار دیتا ہے ‘تفکر اور تعقل کی دعوت دیتا ہے  اور کہتا ہے کہ :

کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ  (یونس)’’

اسی طرح ہم کھولتے ہیں اپنی آیات ان لوگوں کے لیے جو تفکر کریں۔‘‘

اور فرمایا :

وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ (النحل)

اور اتارا ہم نے تم پر ذکر کہ تم جو کچھ لوگوں کے لیے اتارا گیا ہے اس کی وضاحت کرو ‘تاکہ وہ تفکر کریں۔

کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ  (البقرۃ)

اسی طرح اللہ اپنی آیات کی وضاحت فرماتا ہے تاکہ تم تعقل کر سکو۔‘‘

اِنَّا جَعَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ۚ (الزخرف)

ہم نے اسے قرآن عربی بنا کر اتارا تاکہ تم اسے سمجھ سکو۔‘‘


علماء كے نزدیک عربی زبان کی کم از کم اتنی تحصیل کہ قرآن مجید کا سرسری مفہوم انسان کی سمجھ میں آ جائے ‘ہر پڑھے لکھے مسلمان پر قرآن کا وہ حق ہے جس کی عدم ادائیگی نہ صرف قرآن بلکہ خود اپنے آپ پر بہت بڑا ظلم ہے۔

فہم قرآن کا دوسرا مرتبہ ’’تدبر قرآن‘‘ کا ہے۔ یعنی یہ کہ قرآن کو گہرے غور و فکر کا موضوع بنایا جائے اور اس کے علم و حکمت کی گہرائیوں میں غوطہ زنی کی کوشش کی جائے۔ اس لیے کہ قرآن ’’ہُدًی لِّلنَّاسِ‘‘ ہے اور جس طرح عوام کو کائنات اور اپنی ذات کے بارے میں صحیح نقطہ نظر اور زندگی بسر کرنے کی واضح ہدایات عطا فرماتا ہے اسی طرح خواص اور اصحاب ِ علم و فکر کے لیے بھی کامل ہدایت اور مکمل رہنمائی ہے اور ان کے ذہنی و فکری سفر کے ہر مرحلے اور ہر موڑ پر ان کی دستگیری فرماتا ہے۔

چنانچه قرآن نے خود واضح فرمایا ہے کہ :

کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوۡۤا اٰیٰتِہٖ وَ لِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ(صٓ)’’

(یہ قرآن) ایک کتابِ مبارک ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی تاکہ لوگ اس کی آیات پر تدبر کریں اور سمجھ دارلوگ نصیحت حاصل کریں۔‘‘

اور عدم تدبر كے متعلق قرآن كهتا هے 

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُہَا  (محمد) 

کیا یہ تدبر نہیں کرتے قرآن پر؟ یا دلوں پر لگے ہوئے ہیں ان کے قفل؟‘‘

 صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں اس امر کی تصریح ملتی ہے کہ وہ ایک ایک سورت پر تدبر و تفکر میں طویل مدتیں صرف کرتے تھے‘ حتیٰ کہ ان ہی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں جن کو آنحضورصلى الله عليه وآله وسلم  نے ہفتے میں ایک بار ضرور قرآن مجید ختم کر لینے کی تاکید کی تھی‘ یہ تصریح ملتی ہے کہ انہوں نے صرف سورۃ البقرۃ پر تدبر میں آٹھ سال صرف کیے۔ ذرا غور فرمائیں کہ یہ ان لوگوں کا حال ہے جن کی اپنی زبان میں اور اپنی آنکھوں کے سامنے قرآن نازل ہوا تھا۔ چنانچہ نہ تو انہیں عربی زبان اور اس کے قواعد کی تحصیل کی کوئی ضرورت تھی نہ شانِ نزول اور سُور و آیات کے تاریخی پس منظر کو جاننے کے لیے کھود کرید کی کوئی حاجت۔ اس کے باوجود ایک ایک سورت پر ان کا سالہا سال غور و فکر کرنا یہ بتلاتا ہے کہ قرآن حکیم کے علم و حکمت کی گہرائیوں میں غوطہ زنی کوئی آسان کام نہیں‘ بلکہ اس کے لیے سخت محنت اور شدید ریاضت کی ضرورت ہے۔ چنانچہ بعد میں ابن جریر طبری‘ علامہ زمخشری اور امام فخرالدین رازی ایسے دسیوں بیسیوں نہیں سینکڑوں اور ہزاروں انسانوں نے اپنی پوری پوری زندگیاں کھپائیں تب بھی کسی ایک ہی پہلو سے قرآن حکیم پر غور و فکر کر سکے اور حق یہ ہے کہ حق پھر بھی ادا نہ ہوا اور ان چودہ صدیوں میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں گزرا جس نے ضخیم سے ضخیم تفسیر لکھنے کے بعد بھی اس امر کا دعویٰ کیا ہو کہ اس نے قرآن حکیم پر تدبر کا حق ادا کر دیا اور اس کا فہم کماحقہ حاصل کر لیا 

قرآن کو سمجھنے کے لیے احادیث کے تمام ذخیرے پر انسان کی گہری نظر بھی لازمی ہے اور قدیم صحف آسمانی کا گہرا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ ان ساری منزلوں سے گزر کر تو انسان اس قابل ہوتا ہے کہ قرآن کو بطریق تدبر پڑھ سکے۔ اس کے بعد ایک دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے اور وہ یہ کہ انسانی تاریخ کے ہر دَور میں تجرباتی و عقلی دونوں قسم کے علوم ایک خاص سطح پر ہوتے ہیں اور قرآن پر تدبر کا حق اس کے بغیر ادا نہیں ہو سکتا کہ حکمت قرآنی کا طالب اپنی معلومات کے دائرے کو  وسیع كرے


 چوتها حق - قرآنِ کریم پر عمل كرنا 

چوتها حق قرآن مجید کا یہ ہے کہ اس میں جو ہدایات اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہیں ان کو اپنی زندگی میں نافذ کیا جائے،ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے کہ قرآن مجید کے اس حق کو پوری طرح ادا کرنے کی کوشش کرے  کیونکہ سیکھنے کے بعد عمل ہی کا مرحلہ ہے۔ اس کو عملی زندگی میں لانا چاہیے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی۔ قرآن کریم مکمّل ظابطہ حیات ہے، اس نے زندگی کی ہر پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ علم علم نہیں جس پر عمل نہ ہو، عمل کا یہ حکم نبی علیہ کو بھی دیا گیا، جن کی مبارک زندگی ہمارے لیے نمونہ اور ماڈل ہے۔ قرآن کریم میں ہے: 

اِتَّبِعۡ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ۚ  

کہ آپ اس وحی کی پیروی فرمائیں جو آپ كے رب كي طرف س (نازل) هوئي 

یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: “کان خلقہ القرآن” کہ سارا قرآن نبی كريم  صلى الله عليه وآله وسلم  کے اخلاق ہے۔ بہرحال قرآن کریم تب ذریعہ نجات بنےگا جب اس پر عمل ہو۔ سو قرآن مجید کا چوتھا حق ہر مسلمان پر یہي ہے کہ وہ اس پر عمل کرے۔ اور ظاہر ہے کہ ماننا‘ پڑھنا اور سمجھنا‘ سب فی الاصل عمل ہی کے لیے مطلوب ہیں۔ اس لیے کہ قرآن مجید نہ تو کوئی جادو یا جنتر منتر کی کتاب ہے جس کا پڑھ لینا ہی دفعِ بلیات کے لیے کافی ہو‘ نہ یہ محض حصولِ برکت کے لیے نازل ہوا ہے کہ بس اس کی تلاوت سے ثواب حاصل کر لیا جائے یا اس کے ذریعے جان کنی کی تکلیف کو کم کر لیا جائے۔  اور نہ ہی یہ محض تحقیق و تدقیق کا موضوع ہے کہ اسے صرف ریاضت ذہنی کا تختۂ مشق اور نکتہ آفرینیوں اور خیال آرائیوں کی جولا نگاہ بنا لیا جائے بلکہ‘ جیسا کہ اس سے پہلے عرض کیا جا چکا ہے‘ یہ ’’ھُدًی لِّلنَّاسِ‘‘ یعنی انسانوں کے لیے رہنمائی ہے ‘اور اس کا مقصد نزول صرف اس طرح پورا ہو سکتا ہے کہ لوگ اسے واقعتا اپنی زندگیوں کا لائحہ عمل بنا لیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود قرآن حکیم اور اُس ذاتِ اقدس نے جس پر یہ نازل ہوا (صلى الله عليه وآله وسلم) اس بات کو بالکل واضح فرما دیا ہے کہ قرآن پر عمل نہ کیا جائے تو اس کی تلاوت یا اس پر غور و فکر کے کچھ حاصل نهيں هو گا بلكه  خود ایمان ہی معتبر نہیں رہتا۔ چنانچہ قرآن مجید نے دو ٹوک فیصلہ سنا دیا کہ :

 وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ  (المائدۃ)

اور جو فیصلہ نہ کرے اس کے مطابق کہ جو اللہ نے نازل فرما یا تو ایسے ہی لوگ تو کافر ہیں۔‘‘

اور آنحضرت صلى الله عليه وآله وسلم نے مزید وضاحت فرما دی کہ :

لا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبِعًا لِّمَا جِئْتُ بِہٖ 

’’تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہش نفس اس (ہدایت) کے تابع نہ ہو جائے جو مَیں لایا ہوں۔‘‘

 مَا اٰمَنَ بِالْقُرْآنِ مَنِ اسْتَحَلَّ مَحَارِمَہٗ

جو شخص قرآن کی حرام کردہ چیزوں کو حلال ٹھہرائے وہ قرآن پر ایمان نہیں رکھتا۔‘‘

ایک ایسے شخص کا معاملہ تو مختلف ہے جو ابھی تلاشِ حق میں سرگرداں ہو اور قرآن کو پڑھ اور سمجھ کر ابھی اس کی حقانیت کے عدم یا اثبات کا فیصلہ کرنا چاہتا ہو‘ لیکن جو لوگ قرآن کو کتابِ الٰہی تسلیم کریں ان کے لیے اس سے استفادے کی شرطِ لازم یہ ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کے رُخ کو قرآن  کی سمت میں عملاً موڑ دینے اور اس کے ہر تقاضے کو پورا کرنے کی حتی الامکان سعی کے عزمِ مصمم کے بعد قرآن کو پڑھیں۔ چاہے اس میں انہیں کیسے ہی کسر و انکسار‘ ترک و اختیار اور قربانی و ایثار کے ساتھ سابقہ پیش آئے۔ بلکہ جیسا کہ اس سے قبل ’’تلاوت‘‘ کے لغوی مفہوم کے ضمن میں عرض کیا جا چکا ہے‘ واقعہ یہ ہے کہ قرآن کی ہدایت تامہ تو درحقیقت ’’منکشف‘‘ ہی صرف ان لوگوں پر ہوتی ہے جو اپنے آپ کو اس کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر کے اس کا مطالعہ کریں اس عزمِ صادق کے بعد بھی ایک طویل مجاہدے اور کٹھن ریاضت کے بعد ہی نفس انسانی میں تسلیم و انقیاد کی وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جو حديث بالا میں بیان ہوئی  یعنی :

لا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبِعًا لِّمَا جِئْتُ بِہٖ 

’’تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہش نفس اس (ہدایت) کے تابع نہ ہو جائے جو مَیں لایا ہوں۔‘‘

نفس انسانی میں اس کیفیت کا پیدا ہو جانا قرآن کی ’’ہدایت تامہ‘‘ کا نقطۂ آغاز ہے۔ پھر جوں جوں اس کتابِ ہدایت سے تمسک بڑھتا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مزید اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ اہۡتَدَوۡا زَادَہُمۡ ہُدًی وَّ اٰتٰہُمۡ تَقۡوٰىہُمۡ 

اور جو لوگ راہ یاب ہوئے تو ان کو مزید عطا ہوئی سوجھ‘ اور نصیب ہوئی پرہیزگاری۔‘‘

یعنی انسان قرآن بر عمل پيرا هونے کی  عملاً کوشش شروع کردے تو صراطِ مستقیم پر گامزن ہو جائے گا اور درجہ بدرجہ رشد و ہدایت میں ترقی کرتا چلا جائے گا  بصورت ديگر  قرآن سے ہدایت نہیں بلکہ ضلالت آتی ہے۔

 یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًا ۙ وَّ یَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا  (البقرۃ )’’

گمراہ کرتا ہے (اللہ تعالیٰ) اس سے بہت سوں کو اور ہدایت دیتا ہے اس کے ذریعے بہت سوں کو۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے جنہیں ’’تدبرِ قرآن‘‘ کا خاص ذوق عطا ہوا تھا اور جو کئی کئی برس ایک ایک سورت پر غور و فکر اور تدبرو تفہم میں صرف کر دیتے تھے ان کے بارے میں یہ تصریح ملتی ہے کہ ان کے اس توقف کا اصل سبب یہ ہوتا تھا کہ وہ قرآن کے علم کی تحصیل کے ساتھ ساتھ اس پر پورے پورے عمل کا بھی حتی المقدور اہتمام کرتے تھے اور اس وقت تک آگے نہیں بڑھتے تھے جب تک انہیں یہ اطمینان نہیں ہو جاتا تھا کہ جتنا کچھ انہوں نے سیکھا اور پڑھا ہے اس پر عمل کی توفیق بھی انہیں حاصل ہو گئی ہے آپ شایدیہ معلوم کر کے حیران ہوں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم قرآن کی کسی سورت یا اس کے کسی حصے کے حفظ کا مطلب صرف یہ نہیں سمجھتے تھے کہ اسے یاد کر لیا جائے‘ بلکہ یہ سمجھتے تھے کہ اس کا علم و فہم بھی حاصل ہو جائے اور اس پر عمل کی توفیق بھی بارگاہِ ربّ العزت سے عنایت ہو جائے اور اس طرح قرآن ان کے فکر و عمل دونوں پر حاوی ہو جائے گویا ’’حفظ قرآن‘‘ کا مطلب ان کے نزدیک یہ تھا کہ قرآن ان کی پوری شخصیت میں رچ بس جائے اور اس کا نورِ ہدایت ان کے هدايت مين  اضافے کا سبب بن جائے۔ لہذا سلامتی کی راہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ قرآن کا جس قدر علم بھی انسان کو حاصل ہو اس پر وہ حتی الامکان فوری طور پر عمل شروع کر دے۔

قرآن مجید پر عمل درحقیقت اسی وقت ہو سکتا ہے جب انسان کا فکر قرآن کے تابع ہو جائے اور قرآن کا بیان کردہ علم حقیقت انسان کے دل اور دماغ دونوں میں جاگزیں ہو جائے۔ اب يه سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ کتابِ الٰہی کے اس حق کی ادائیگی کے لیے کیا عملی تدبیر اختیار کی جائے؟  تو اس كا ايك هي جواب هے كه ایک فرد میں اسلام کی مطلوبہ تبدیلی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ  قرآن مجيد کو اس کے دل و دماغ میں اتارا جائے 


 پانچواں حق- قرآن مجيد كي تعليمات كو دوسروں تک پہنچانا

قرآن مجید کا پانچواں حق یہ ہے کہ اس کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچایا جائے۔ یہی فریضہ سب سے پہلے جناب نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم پر عائد کیا گیا تھا کہ آپ یہ قرآن دوسروں تک پہنچائیں 

يَآ اَيُّـهَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۖ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٝ ۚ وَاللّـٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ لَا يَـهْدِى الْقَوْمَ الْكَافِـرِيْنَ (67)

اے رسول(صلى الله عليه وآله وسلم)! جو تجھ پر تیرے رب کی طرف سے اترا ہے اسے پہنچا دے، اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو اس کی رسالت کا حق ادا نہیں کیا، اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا، بے شک اللہ کافروں کی قوم کو راستہ نہیں دکھاتا۔

یعنی آپ کی طرف جو وحی نازل کی گئی ہے اس کو دوسروں تک پہنچائیں، اس کی تبلیغ کریں۔ اس کے بعد نبی كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے دن رات قرآن کی تبلیغ فرمائی ہے، اس کے خاطر تکلیفیں برداشت کیں ، جنگیں لڑیں، بدر و احد کے معرکے پیش آئے لیکن نبی كريم صلى الله عليه وآله وسلم اس مشن میں مصروف رہے، آج ہر امتی کا یہ فریضہ ہے کہ وہ قرآن کی تبلیغ کرے، اس کی نشر واشاعت کرے، کیونکہ نبی كريم  صلى الله عليه وآله وسلم کےبعد نبوت کا دوازہ بند ہوچکا ہے۔ ارشاد نبوی صلى الله عليه وآله وسلم کےمطابق قرآن سیکھنے سکھانے والے کا بہت بڑا مقام ہے، چنانچہ نبی كريم صلى الله عليه وآله وسلم  نے فرمایا:

خيركم من تعلم العلم وعلمه

 تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے

یعنی ماننے‘ پڑھنے‘ سمجھنے اور عمل کرنے کے علاوہ قرآن مجید کا ایک اور حق يعني اسے دوسروں تک پہنچانا بھی ہر مسلمان پر حسبِ صلاحیت و استعداد عائد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ وہ اسے دوسروں تک پہنچانے کی حتی المقدور کوشش کرے ۔

دوسروں تک  پہنچانے کے لیے قرآن حکیم کی اصل اور جامع اصطلاح ’’تبلیغ‘‘ ہے‘ لیکن تبلیغ کے پہلو بھی بہت سے ہیں اور مدارج و مراتب بھی۔ حتیٰ کہ تعلیم بھی تبلیغ ہی کا ایک شعبہ اور تبیین بھی اسی کا ایک بلند تر درجہ ہے۔

قرآن حکیم خود اپنے مقصد نزول کی تعبیر اِن الفاظ میں کرتا ہے :

ہٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَ لِیُنۡذَرُوۡا بِہٖ (ابراہیم )

’’یہ (قرآن) پہنچا دینا ہے لوگوں کے لیے اور تاکہ وہ اس کے ذریعے خبردار کر دیے جائیں۔‘‘

بعثت کی پہلی ساعت سے لے کر حیاتِ دُنیوی کی آخری گھڑی تک مسلسل تیئیس سال آنحضورصلى الله عليه وآله وسلم اپنے اس فرضِ منصبی کی ادائیگی کے لیے محنت و مشقت اٹھاتے اور شدائد و مصائب برداشت کرتے رہے اور اس عرصہ میں آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی دعوت اگرچہ بہت سے مراحل سے گزری جن میں آپؐ کی مصروفیات بہت متنوع نظر آتی ہیں‘ لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس پورے عرصے میں آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی جدوجہد کا اصل محور قرآن مجید ہی رہا‘ اور اسی کی تلاوت و تبلیغ اور تعلیم و تبیین میں آپؐ: مسلسل مصروف رہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں چار مقامات پر آپ صلى الله عليه وآله وسلم کے طریق دعوت و تبلیغ اور نہجِ اصلاح و انقلاب کی وضاحت ان الفاظ میں ہوئی ہے کہ

 یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ 

(آل عمران - الجمعۃ  )

’’وہ (آنحضورصلى الله عليه وآله وسلم) تلاوت کرتے ہیں ان پر اس (خدا) کی آیات‘ اور تزکیہ کرتے ہیں ان کا‘ اور تعلیم دیتے ہیں ان کو کتاب اور حکمت کی۔‘‘

 بہرحال اس طریق پر مسلسل تیئیس برس محنت کر کے رسول كريم  صلى الله عليه وآله وسلم نے قرآن مجید کی تبلیغ کا حق ادا فرما دیا‘ اور اللہ کی امانت اس کے بندوں تک پہنچا دی۔ ادائے امانت الٰہی کی اس جدوجہد کے دوران بھی آپ نے اپنے جاں نثاروں  سے اپنے اس فرضِ منصبی کی ادائیگی میں اس تاکیدی حکم کے ذریعے تعاون حاصل فرمایا کہ :

بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ اٰیَۃً

پہنچاؤ میری جانب سے چاہے ایک ہی آیت هو 

اور اپنے مشن کی تکمیل پر مستقبل کے لیے فریضہ تبلیغِ قرآن کی پوری ذمہ داری اپنی اُمت کے حوالے فرما دی۔ چنانچہ حجۃ الوداع کے خطبے میں سوا لاکھ سے زائد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے متعدد بار یہ شہادت لے کر کہ میں (صلى الله عليه وآله وسلم) نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا ہے آئندہ کے لیے یہ مستقل ہدایت جاری فرما دی کہ :

 فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ 

یعنی اب جو لوگ یہاں موجود ہیں ان کا فرض ہے کہ ان تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں۔ 

اور اس طرح قیامت تک کے لیے فریضۂ تبلیغ قرآن كي ذمه داري  اُمت محمد صلى الله عليه وآله وسلم کے کاندھوں پر آ گئي جس کے لیے بحیثیت مجموعی وہ خدا کے ہاں مسئول ہوگی۔ اب ظاہر ہے کہ اُمت افراد ہی پر مشتمل ہے۔ لہذا اس اُمت کا ہر فرد اپنی اپنی صلاحیت و استعداد کے مطابق اس فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے۔ علماء اور فضلاء پر ذمہ داری ان کے علم و استعداد کی نسبت سے عائد ہوتی ہے اور عوام پر ان کی صلاحیت کی نسبت سے۔ بہركيف آنحضورصلى الله عليه وآله وسلم کے ان مبارک الفاظ کے عموم سے کہ ((بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ اٰیَۃً)) ثابت ہوتا ہے کہ اس ذمہ داری سے بالکل بَری کوئی بھی نہیں۔ جسے ناظرہ پڑھنا آتا ہے وہ دوسروں کو ناظرہ پڑھنا سکھا دے‘ جسے حفظ ہے وہ دوسروں کو یاد کرائے‘ جسے ترجمہ آتا ہے وہ دوسروں کو ترجمہ پڑھائے اور جسے اس کا کچھ علم و فہم حاصل ہے وہ اسے دوسروں تک پہنچائے۔ حتیٰ کہ اگر کسی کو ایک آیت ہی یاد ہو اور وہ اسے ہی دوسروں کو یاد کرا دے یا قرآن کی کسی ایک آیت یا سورت کا مفہوم معلوم ہو اور وہ صرف اسی کا علم دوسروں تک منتقل کر دے تو یہ بھی ’’تبلیغ قرآن‘‘ میں شامل ہے۔ اگرچہ اس مقدس اور عظیم الشان فرض کی ادائیگی کی جو ذمہ داری اُمت ِمسلمہ پر بحیثیت ِمجموعی عائد ہوتی ہے وہ صرف اس وقت پوری ہو سکتی ہے جب قرآن کا متن اور اس کا مفہوم اطراف و اکنافِ عالم تک پہنچا دیا جائے! بحالاتِ موجودہ یہ ایک بہت دُور کی بات اور سہانا خواب معلوم ہوتا ہے‘ اس لیے کہ واقعی صورت حال یہ ہے کہ وہ اُمت کو قرآن کو اقوام و اُممِ عالم تک پہنچانے کی ذمہ دار بنائی گئی تھی آج اس کی محتاج ہے کہ خود اسے قرآن ’’پہنچایا‘‘ جائے۔ لہٰذا اس وقت اصل ضرورت اس کی ہے کہ خود اُمت مسلمہ میں تعلیم و تعلّم قرآن کی ایک رَو چل نکلے اور مسلمان درجہ بدرجہ قرآن سیکھنے اور سکھانے میں لگ جائے۔  اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

جیسا کہ  عرض کیا گيا كه  تبلیغ ہی کا ایک شعبہ تعلیم بھی ہے اور اسی کا ایک اعلیٰ درجہ وہ ہے جسے قرآن حکیم ’’تبیین‘‘ کا نام دیتا ہے۔ یعنی یہ کہ قرآن مجید کو صرف ’’پہنچا‘‘ ہی نہ دیا جائے بلکہ اس کی پوری وضاحت کی جائے اور قرآن کا نورِہدایت لوگوں کی نگاہوں کے عین سامنے روشن کر دیا جائے جیسا کہ آنحضورصلى الله عليه وآله وسلم سے خطاب کرکے فرمایا گیا کہ :

وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ (النحل )

اور اتاری ہم نے تجھ پر یہ ’’یاددہانی‘‘ تاکہ تو واضح کر دے لوگوں کے سامنے جو کچھ اترا ہے ان کے لیے

 جیسا کہ فرمایا گیا :

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمۡ ؕ (ابراہیم )

’’اور ہم نے نہیں بھیجا کوئی رسول مگر بولی بولنے والا اپنی قوم ہی کی تاکہ واضح کر دے ان پر (اللہ کا پیغام)۔‘‘

اور اس کا آخری درجہ یہ ہے کہ کتابِ الٰہی کے علم و حکمت اور اس کے مضمرات و مقدرات کو کھول کر بیان کیا جائے‘ اس کے نہج استدلال کو واضح کیا جائے‘ اس کے دلائل و براہین کی مدد سے تمام گمراہ کن خیالات و نظریات کی مدلل تردید کی جائے‘ اور وقت کی بلند ترین علمی سطح پر اعلیٰ ترین علمی استدلال کے ساتھ قرآن حکیم اور اس کی تعلیمات کی حقانیت کو مبیین  کر دیا جائے۔ تبیین قرآن کے ادنیٰ درجے کے حق کی ادائیگی کی صورت فی الوقت یہ ہے کہ دنیا کی ہر قابل ذکر زبان میں قرآن مجید کے فصیح و بلیغ تراجم مع مختصر تشریح و تفسیر شائع کیے جائیں اور ان کی وسیع پیمانے پر اشاعت کی جائے اور اعلیٰ درجہ میں اس کے حق کی ادائیگی صرف اس طرح ہو سکتی ہے کہ عالم اسلام میں  اکیڈمیاں اوریونیورسٹیاں قائم ہوں جن کا مرکزی موضوع قرآن حکیم ہو اور ان کے ذریعے اعلیٰ ترین علمی سطح پر قرآن مجید کی ہدایت کی وضاحت کی جائے۔

 یہ  قرآن مجید کے وہ حقوق ہیں جو  ہم سب پر بحیثیت مسلمان عائد ہوتے ہیں اور جن کی ادائیگی کی فکر ہمیں کرنی چاہیے۔ ہم وہ خوش قسمت قوم ہیں جس کے پاس اللہ کا کلامِ پاک من و عن محفوظ اور موجود ہے۔ یہ بات جہاں بڑے اعزاز کا باعث ہے وہیں اس کی بنا پر ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ اس كے علاوه هميں  سورۃ الفرقان کی اس آیت ِکریمہ پر بهي خوب غور وفكر كرنا چاهيے جس ميں الله تعالى نے ارشاد فرمايا  کہ :

وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا 

’’اور  رسولؐ کہیں گے کہ  اے میرے ربّ! میری قوم نے اس قرآن کو نظرانداز کردیا تھا۔‘‘

اگرچہ آيت مباركه مين  اصلاً تذکرہ ان کفار کا ہے جن کے نزدیک قرآن سرے سے کوئی قابلِ التفات چیزہے ہی نہیں ‘لیکن قرآن کے وہ ماننے والے یقینا اس کے ذیل میں آتے ہیں جوعملاً قرآن کے ساتھ عدم توجہ و التفات کی روش اختیار کریں۔ چنانچہ حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

’’ آیت میں اگرچہ ذکر صرف کافروں کا ہے تاہم قرآن کی تصدیق نہ کرنا‘اس میں تدبر نہ کرنا‘ اس پر عمل نہ کرنا‘ اس کی تلاوت نہ کرنا‘ اس کی تصحیح قرا ء ت کی طرف توجہ نہ کرنا‘ اس سے اعراض کر کے دوسری لغویات یا حقیر چیزوں کی طرف متوجہ ہونا ‘یہ سب صورتیں درجہ بدرجہ ہجرانِ قرآن کے تحت میں داخل ہو سکتی ہیں۔‘‘

 ہمیں کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے تاکہ ہمیں قرآن مجید کے حقوق ادا کرنے کی توفیق بارگاہِ ربّ العزت سے حاصل ہو جائے :

اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنَا بِالْقُرْآنِ الْعَظِیْمِ وَاجْعَلْہُ لَنَا اِمَامًا وَّنُوْرًا وَھُدًی وَّرَحْمَۃً‘ اَللّٰھُمَّ ذَکِّرْنَا مِنْہُ مَا نَسِیْنَا وَعَلِّمْنَا مِنْہُ مَا جَھِلْنَا وَارْزُقْنَا تِلَاوَتَہٗ آنَائَ اللَّیْلِ وَاَطْرَافَ النَّھَارِ وَاجْعَلْہُ لَنَا حُجَّۃً یَّا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ (آمین)

’’پروردگار!ہم پرقرآن عظیم کی بدولت رحم فرما اور اسے ہمارے لیے پیشوا‘ نور اور ہدایت و رحمت بنا دے۔ پروردگار! اس میں سے جو کچھ ہم بھولے ہوئے ہیں وہ ہمیں یاد کرا دے اور جو ہم نہیں جانتے ہمیں سکھا دے ۔اور ہمیں توفیق عطا فرما کہ اس کی تلاوت کریں راتوں کو بھی اور دن کے حصوں میں بھی اور بنا دے اسے دلیل ہمارے حق میں اے تمام جہانوں کے پروردگار! ‘‘

(آمین يا رب العالمين)




Share: