دامادِ رسول حضرت عثمانِ غني رضي الله تعالى عنه كا إخلاص و إنفاك في سبيل الله اور الله تعالى كي طرف سے إس ميں بے مثال بركت
جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو وھاں پینے کے صاف پانی کی بڑی قلت تھی۔ مدينه منوره ميں ایک یہودی کا کنواں تھا اس کنویں کا نام “بئر رومہ” یعنی رومہ کنواں تھا۔ كنويں كا مالك يهودي مسلمانوں کو پانی بهت مہنگے داموں فروخت کرتا تھا۔ مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی اور اپنی پریشانی سے آگاہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون ہے جو یہ کنواں خریدے اور مسلمانوں کے لیے وقف کر دے ۔ ایسا کرنے پر اللہ تعالیٰ اسے جنت میں إيك چشمہ عطا کرے گا
إرشاد نبوي (صلى الله عليه وآله وسلم ) سن كرحضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ أس یہودی کے پاس گئے اور کنواں خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ کنواں چونکہ منافع بخش آمدنی کا ذریعہ تھا اس لیے یہودی نے فروخت کرنے سے انکار کردیا۔۔۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ تدبیر کی کہ یہودی سے کہا پورا کنواں نہ سہی ، آدھا کنواں مجھے فروخت کر دو، آدھا کنواں فروخت کرنے پر ایک دن کنویں کا پانی تمہارا ھو گا اور دوسرے دن میرا ہو گا۔۔ یہودی لالچ میں آ گیا ۔ اس نے سوچا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دن میں پانی زیادہ پیسوں میں فروخت کریں گے ،اس طرح زیادہ منافع کمانے کا موقع مل جائے گا۔ اس نے آدھا کنواں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فروخت کر دیا ۔۔
آدها كنواں خريد كر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپني بارى كے دن مسلمانوں کو کنویں سے مفت پانی حاصل کرنے کی اجازت دے دی۔۔ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کي بارى والے دن مفت پانی حاصل کرتے اور اگلے دن کے لیے بھی ذخیرہ کر لیتے۔ یہودی كي بارى کے دن کوئی بھی شخص پانی خریدنے نہ جاتا۔۔ یہودی نے جب دیکھا کہ اس کی تجارت ماند پڑ گئی ہے تو اس نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے باقی آدھا کنواں بھی خریدنے کی گزارش کی۔ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ راضی ھو گئے اور پورا کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا ۔۔
اس دوران ایک آدمی نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کنواں دوگني قیمت پر خریدنے کی پیش کش کی۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مجھ اس سے کہیں زیادہ کی پیش کش ہے ۔اس نے کہا میں تین گنا دوں گا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا مجھے اس سے کئی گنا کی پیش کش ہے۔ اس نے کہا میں چار گنا دوں گا۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا مجھے اس سے کہیں زیادہ کی پیش کش ہے۔ اس طرح وہ آدمی رقم بڑھاتا گیا اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہی جواب دیتے رہے۔ یہاں تک اس آدمی نے کہا کہ حضرت آخر کون ہے جو آپ کو دس گنا دینے کی پیش کش کر رہا ہے؟۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میرا رب مجھے ایک نیکی پر دس گنا اجر دینے کی پیش کش کرتا ہے ۔۔
وقت گزرتا گیا اور یہ کنواں مسلمانوں کو سیراب کرتا رہا یہاں تک کہ کنویں کے اردگرد کھجوروں کا باغ بن گیا۔ عثمانی سلطنت کے دور میں اس باغ کی دیکھ بال ہوئی۔ بعد ازاں سعودی عہد میں يه سلسله جارى رها اور اس باغ میں کھجوروں کے درختوں کی تعداد پندرہ سو پچاس ہو گئی ۔۔
یہ باغ میونسپلٹی آف مدينه منوره میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر رجسٹرڈ ہیں۔۔ بجلي كا بل بهي حضرت عثمان رضي الله تعالى عنه كے نام كا آتا هے إسكي آمدني محفوظ كرنے كے لئے بينك ميں حضرت عثمان رضي الله تعالى عنه كے نام كا آكاؤنٹ بهي كهولا گيا هے سعودي عريبيه كي وزارتِ زراعت یہاں کے کھجور بازار میں فروخت کرتی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر بینک آكاؤنٹ میں جمع کرتی رہی یہاں تک کہ اکاونٹ میں اتنی رقم جمع ہو گی کہ مدينه منوره كے مرکزی علاقہ میں يعني حرمِ نبوي صلى الله عليه وآله وسلم كے نزديك ایک پلاٹ خريد لیا گیا جہاں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر فندق ( ایک رہائشی ہوٹل ) تعمیر کیا جانے لگا ۔۔ اس ہوٹل سے سالانہ پچاس ملین ریال آمدنی متوقع ہے۔جس کا آدھا حصہ حرمِ نبوي (صلى الله عليه وآله وسلم ) پر اور غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم ہو گا باقی آدھا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بینک اکاونٹ میں جمع ہو گا۔
اندازہ کیجیئے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انفاق کو اللہ تعالیٰ نے کیسے قبول فرمایا اور اس میں ایسی برکت عطا فرمائي کہ قیامت تک ان کے لیے صدقہ جاریہ بن گیا ۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ کے ساتھ تجارت کی اور الله تعالى نے إس تجارت ميں بركت عنايت فرمائى بالفاظ ديگر انھوں نے اللہ تعالیٰ کو قرض دیا ،اچھا قرض، پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں کئی گنا بڑھا کر لوٹا دیا