کلمۂ طیبہ ھم سے کیا مطالبه کرتا ھے


 کلمۂ طیبہ کا مطالبه 

إس كلمه يعني " لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ " كے حواله سے همارے ذمه ایک  إهم كام يه هے كه هم إس كلمه كي حقيقت سے آگاهي حاصل كريں تاكه هميں معلوم هو كه يه كلمه هم سے كيا مطالبه كرتا هے؟  تو جاننا چاھیے کہ اس كلمه کا هم مسلمانوں سے يه مطالبه  هے كه هم من چاهي زندگي كو چهوڑ كر رب چاهي زندگي إختيار كريں يعني همارى (24) گهنٹه كي زندگي الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے طريقوں كے مطابق هو ۔ هم جو بهي كام كررهے هوں اس ميں يه ديكهنا ضروری ھے  كه إس كام ميں الله تعالى كا حكم كيا هے اور رسول كريم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كا طريقه كيا هے ؟ چوبیس گهنٹه كي زندگي الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   كے طريقوں كے مطابق گزر جائے یہی اس کلمہ کا ھم سے مطالبہ ھے اور  يهي إنسان اور جن كي بيدائش كا آصل مقصد هے جيسا كه قرآن مجيد ميں الله تعالى كا فرمان هے

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ 0 مَا أُرِيدُ مِنْهُم مِّن رِّزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَن يُطْعِمُونِ 0 إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ 0
ميں(الله تعالى) نے جِن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اورنہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں ۔ اللہ تو خود ہی رزاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست ۔

اللہ تبارک تعالی کی تخلیق کردہ کائنات اور اس کی ہرہر چیز بامعنی اور بامقصد هے اور الله تعالى کے متعین کردہ اپنےکام میں مصروف نظر آتی ہے۔ جیسا کہ اللہ رب العالمین نے خود فرمایا ہے  تو سوال يه هے كه ہمیں کیوں پیدا کیا گیا ہے؟ ہمیں خدا نے یہ زندگي کیوں دی ہے اورہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہمیں زندگي کا کیا مقصد رکھنا چاہیے ؟ اورآیا ہم اپنی تخلیق کا مقصد پورا کر رہے ہیں یا نہیں؟ إسكا هميں هر وقت جائزه ليتے رهنا چاهيے . اپنے خالق و مالک کی بندگی و اطاعت ہی ہمارا مقصدِ تخلیق ہے۔ رزق کا حصول اور اس کی دوڑ دھوپ ہماری تخلیق  کا مقصد نہیں ہے بلکہ یہ تمام چیزیں انسانی زندگی کی ضروریات تو ہیں لیکن مقصدِ تخلیق نہیں یعنی  ہمیں ان کے حصول کے لیے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ (جس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور جو رزق دیتا ہے، پرورش کرتا ہے اور ہماری زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرتا ہے ) اسی کی عبادت وپرستش اور اطاعت و بندگی کی جائے۔ يهي كلمه طيبه كا هم سے مطالبه هے جيسا كه اوپر عرض كيا گيا
اب إيك سوال یہ كه الله تعالى تو فرما رهے هيں كه "میں نے جِن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔" تو إس كا مطلب تو صاف ظاهر هے كه هميں چوبیس  گهنٹه هي عبادت ميں رهنا ضرورى هے تب هم إس مطالبه كو پورا كرسكتے هيں تو (24) گهنٹه عبادت ميں رهنا كيسے ممكن هوسكتا هے؟ هم نے اور كام اور تقاضے بهي تو پورےكرنے ھوتے هيں۔  إس كے لئے سب سے پہلے هميں عبادت كا مفهوم سمجهنے كي ضرورت هے تاكه هميں معلوم هوجائے كه إسلام كے نزديك عبادت كيا هے اور يه (24) گهنٹه كيسے ممكن هے ؟ أكثر لوگوں كے دماغ ميں عبادت كا مفهوم شايد يه هو كه كه إنسان سب كچهـ چهوڑ كر دنيا سے لا تعلق هوكر كسي إيك كونے ميں بيٹهـ كر بس الله الله كرے اگر صرف يه هي عبادت هے تو يقيناً يه تو (24)  گهنٹه ممكن نهيں . درآصل يه رهبانيت كي إيك شكل هے جو عيسائيوں اور دوسرے مذاهب ميں رائج هے ۔ إسلام ميں رهبانيت كي قطعاً آجازت نهيں بلكه حديث مباركه ميں هے

" لا رهبانية في الإسلام" -
إسلام ميں رهبانيت نهيں هے

يعني رهبانيت سے منع فرمايا گيا هے تو إسلام ميں عبادت كا مفهوم كيا هے ؟ " إسلام ميں الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   كے طريقوں كے مطابق (24) گهنٹه كي زندگي گزارنا عبادت كہلاتا هے " اگر كوئى الله كا بنده إس كي نيت كرلے تو يه نه تو ناممكن هے نه هي مشكل ۔ بس اپني زندگي كي ترتيب كو تبديل كرنے كي ضرورت هے۔ 
اب آئيے هم جائزه ليتے هيں كه (24) گهنٹه كي زندگي الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   كے طريقوں كے مطابق كيسے ممكن هے
همارى زندگي كے هر روز (24) گهنٹه ميں كچهـ وقت دن كا هے اور كچهـ رات كا هے تو آئيے رات سے إس ترتيب كا خاكه بناتے هيں:
"رات كا وقت سونے كے لئے هوتا هے تو اب هم كيا كريں كه نيند كا عمل بهي هوجائے اور الله تعالى كي عبادت ميں بهي وقفه نه آئے إس كے لئے هم يه بات سيكهـ ليں كه رسول كريم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   سونے كے عمل كو كيسے فرمايا كرتے تهـے تو هم بهي سنت كے مطابق ليٹ جائيں اور سونے كي دعا اور مسنون أذكار كرليں صبح تہجد يا كم ازكم فجر كي نماز كي نيت كرليں تو لو بهائى اب آپ سوئيں اپنی طبعي نيند جتنے گهنٹه كي هو مكمل كريں آپ سو رهے هوں گے ليكن آپ كا شمار عبادت ميں ھی ھو رھا هوگا۔ تو پوری رات عبادت میں رھنے کا مسئلہ تو حل ھو گیا۔  
اب آئیے پورا دن عبادت میں رھنے کی طرف تو جب آپ 
صبح نيند سے بيدار هوں تو أٹهنے كي مسنون دعا پڑھ ليں اور جب بيت الخلا  جائیں تو بیت الخلا کی مسنون دعا پڑهتے هوئے  سنت كے مطابق بيت الخلا ميں داخل هو جائيں آپ جب تک بيت الخلا ميں هونگے عبادت ميں هي شمار هوں گے ۔ بيت الخلا سے باهر نكلتے هوئے پهر مسنون دعا پڑھ كر سنت طريقه سے نكليں تو يه بهي عبادت هوگي ۔ إسي طرح نماز کے لئے مسجد جائیں تو گھر سے نکلنے کی دعا اور واپسی ہر داخل ھونے کی دعا پڑھ لیں ۔ اسی طرح مسجد میں داخل ھونے کی اور مسجد سے نکلنے کی دعا ہڑھ لیں ۔ اذکار اور تلاوت وغيره تو خير الحمد لله هے هي عبادت تو پهر جب  ناشته كريں تو سنت كے مطابق بيٹھ كر اور مسنون دعا پڑھ كر كهائيں اوركهانے كو مكمل كرنے كے بعد مسنون دعا پڑھ ليں تو يه تمام وقت بهي آپ كا عبادت میں شمار هوگا ۔ 
 اب رزق حلال كے لئے گهر سے نكليں اور گهر سے نكلنے كي مسنون دعا كا إهتمام كرتے هوئے اور سواري إستعمال كرنے كي صورت ميں سواري كي دعا كا إهتمام كريں اور اپنے روزگار كي جگه آجائيں اور وهاں ديانتدارى سے اپنا كام كريں لا یعنی باتیں نہ کریں تو وه تمام وقت بهي عبادت ميں شمار هو جائے گا  ۔ واپس گهر آئيں تو گهر ميں داخل هونے كي دعا پڑهيں اور گهر ميں كوئي هو يا نه هو اونچي آواز سے " السلام عليكم "  كہیں  إسي طرح بيوى بچوں ميں وقت سنت كے مطابق گزاريں۔  تو إس طرح سے آپ (24) گهنٹه كي زندگي الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے طريقوں كے مطابق گزاريں گے تو يه سب آپ كي عبادت میں شمار هو جائے گا۔ 
إسي طرح اگر هم غمي اور خوشي كے مواقع پر الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   كے طريقوں كے مطابق عمل كرليں گے تو يه إهم مواقع بهي همارے لئے عبادت بن جائيں گے تو حاصل مطالعه يه كه مسلمان (24) گهنٹه كي زندگي الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے طريقوں كے مطابق گزار كر (24) گهنٹه عبادت ميں ره سكتا هے اور يه بالكل ممكن هے ۔ إس زمانه ميں بھی سينكڑوں نهيں هزاروں نهيں بلكه لاكهوں الله كے بندے موجود هيں جو (24) گهنٹه كي زندگي الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   كے طريقوں كے مطابق گزار كر عبادت ميں رهنے كا شرف حاصل كرتے هيں ۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالى کی تخلیق و نشانیوں کا تذکرہ کرنے کے بعد کتنے ہی مقامات پر یہ کہا گیا " ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ " کہ یہ اور یہ کام کرنے والا ہی تمہارا رب ہے اور وہی سچا معبود ہے۔ اللہ کے خالق اور رازق ہونے کو توحید کی دلیل کے طور پر قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے:

اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ هَلْ مِن شُرَكَائِكُم مَّن يَفْعَلُ مِن ذَلِكُم مِّن شَيْءٍ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ {سورة الروم }
اللہ ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا، پھر تمہیں رزق دیا، پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے، پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو ان میں سے کوئی کام بھی کرتا ہو؟ پاک ہے وہ اور بہت بالاوبرتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔

تو کسی دوسرے کو شریک کیے بغیر اپنے خالق ، مالک، رب ،رازق اور حقیقی معبود کی بندگي ہی ہماری پیدا کیے جانے کا مقصد ہے۔اور ہمارےانسان ہونے کے مقام کی حقیقی عزت ورفعت اور شرف اسی میں ہے کہ ہم بس اپنے رب ہی کی بندگی کریں۔ ورنہ ہمارا جسمانی وجود توایک وقت مقرره تک زندہ رہے گا لیکن ہمارا حقیقی وجود اپنا مقصد پورا نہ کرنے کی بنا پر بے کار ہوجائے گا اورجسمانی موت سے بہت پہلے ہی جیتے جی مر جائے گا۔اس طرح اللہ کی نشانیوں پر توجہ نہ کر کے توحید سے غافل رہنے اور اپنے رب کی بندگی کا یہ مقصد پورا نہ کرنے پر ہماری زندگي حقیقی علم کی روشنی سے محروم ہو کراندھیروں میں بھٹکتی ایسی حیوانی زندگی رہ جائے گي کہ جس کا مقصد پیٹ کے پیچھے ہی دوڑتے رہنا، کھانا پینا، افزائش نسل اور آسائشوں کی تلاش کے علاوہ اور کچھ نہ رہ جائےگا، دیکھیے کہ ایسے غافل لوگوں کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے:-

لَهُمْ قُلُوبٌ لاَّ يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لاَّ يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لاَّ يَسْمَعُونَ بِهَا أُوْلَـئِكَ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ (سورة الأعراف )
ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہی وہ لوگ ہیں جوغافل ہیں۔

یعنی اللہ سے غافل لوگوں کا دیکھنا، سننا اور سوچنا بالکل حیوانوں کی طرح  ہے ۔ انہیں جانوروں کی طرح وہ سب کچھ سنائی دیتا،نظر آتا اور سجھائی دیتا ہے جس کا تعلق لذت کام ودہن سے ہو لیکن ایک خدا ہی کی نشانیوں کی طرف انہیں کوئي توجہ نہیں ہوتی۔چیزوں کے ظاہری پہلو پر ہی سوچتے ہیں مگرجس حقیقت کی طرف یہ چیزیں نشاندہی کرتی ہیں اس طرف ان لوگوں کا کوئي خیال نہیں جاتا۔ جانور کے لیے تو ایسا دیکھنا ، سننا اور سوچنا قابل مذمت نہیں ہے کیونکہ وہ تو اسی کے مکلف ہیں لیکن صاحب عقل و شعور انسان جب حیوانوں کی طرح کا رویہ اختیار کرتا ہےتو وہ حیوانوں سے بھی بدتر ہے کیونکہ اسے تو یہ صلاحیتیں اسی لیے دی گئیں اورپیدا ہی اس لیے کیا گیا کہ آفاق و انفس کی نشانیوں میں غور و فکر کر کےوہ اپنے خالق و مالک کو پہچان سکے گا، اس کے بھیجے پیغامات سے نصیحت حاصل کرے گااور اسی کی بندگی کرے گا۔ الله تعالى سے دعا ہےکہ اللہ سبحانہ وتعالی ہمیں اسے سمجھنے کی اور اس کے مطابق عمل كرنے كي توفیق عطا فرمائے۔ اور (24) گهنٹه كي زندگي الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے طريقوں كے مطابق گزارنے كي توفيق عطا فرما دے - آمين ثم آمين
رسول كريم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  إيک مربتہ ابو طالب سمیت عتبہ،شیبہ،ابو جہل اور ابو سفیان وغیرہ سے یوں مخاطب ہوئے: ’’ لوگو ! میں صرف ایک کلمہ کا مطالبہ کرتا ہوں۔ اگر تم اسے مان لو تو تم سارے عرب کے مالک بن جاؤ گے اور عجم تمہارا مطیعِ فرمان ہوگا۔ـ‘‘ اس حدیث شریف میں جس کلمہ کا مطالبہ کیا گیا تھا، وہ کلمہ طیبہ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ  " ہے، یہ توحید کا کلمہ ہے۔ یہ اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی غلامی کا کلمہ ہے، یہ تسخیر کائنات کا کلمہ ہے، یہ دین کی اساس ہے اور ایمان کا اثاثہ البیت ہے ۔چنانچہ اس کلمہ طیبہ کو پڑھنے کا مطالبہ اس اعتبار سے نہیں ہے جس طرح ہم بازار میں دکانوں کے نام پڑھتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔اگر اس کو پڑھنے سے ایسا ہی مقصود ہو تا تو عرب کے مشرکین اس کلمہ کو ضرور بآسانی پڑھ لیتے مگر وہ جانتے تھے کہ من چاہی اور رب چاہی زندگی ضدین ہیں اوریہ بیک وقت ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔ لہٰذا کلمہ کو پڑھنے کے بعد ہمیں من چاہی زندگی چھوڑکر رب چاہی زندگی اختیا ر کرنا ہوگی اور اپنی پوری زندگی کو اسلام کے قالب میں ڈھالنا ہوگا۔
حقيقت یہ ہے كه سرداران ِ قریش نے خوب سمجھا تھا کہ یہ کلمہ ایک محنت چاہتا ہے جس کی بناء پر انسان کی زندگی میں ایمان و یقین اور نیک اعمال کی بہار آتی ہے۔ اس کلمہ کا زبان سے اقرار اوردل سے تصدیق کرنے کے بعد ایمان و اعمال کو مرتبۂ کمال تک پہنچانے کے لئے جدوجہد اور سعی ومشقت درکار ہے۔ کسی بندہ کو ہدایت ِدین عطا کرنے کی اللہ کی سنت یہ ہے کہ بندہ اللہ کی طرف انابت اور رجوع کرے، اس کی بار گاہ میں گڑگڑائے، بلبلائے اور آہ و زاری کرے ،غرض یہ کہ اللہ سے ہدایت اس طرح طلب کرے جیسے کوئی بھکاری کسی کے درپربھیک مانگتا ہے ۔ یہاں رجوع الی االلہ کے بعد ایمان کی محنت اور جد وجہد کا اختیار کرنا لازم وملزوم ہے کہ یہی چیزیں انسان کو ہدایت و تائید الہٰی سے قریب کرنے والی ہیں۔ اکثر گمراہ انسان ہدایت کے معاملہ میں کفر و ضلالت اور گمراہی کی گھاٹیوں میں یہ سوچ کر پڑے رہ جاتے ہیں کہ جب ہدایت کا دینا نہ دینا بھی اللہ کے ہی ہاتھ میں ہے تو وہ ہمیں ہدایت کیوں نہیں دے دیتا۔ٹھیک اسی طرح بعض کمزور علم و ایمان والے کلمہ خواں ، شیطان کے وساوس اور بہکاوے میں آکر یہ ہانکتے ہیں کہ جب اللہ توفیق دے گا تو عمل کریں گے۔واضح ہونا چاہیے کہ ایمان کی ہدایت اور اعمال صالحہ کی توفیق صرف اسی بندہ کو ملتی ہے یا ملے گی جو خود اس کے لئے طالب اور کوشاں ہو ۔یہی سنت الہیٰہ ہے ۔ اللہ کی سنت تبدیل نہیں ہوتی اور اللہ پاک بندوں سے بے نیاز ہے۔ساتھ ہی یہ بات بھی دھیان میں رکھنے کی ہے کہ جب بندہ اللہ کی طرف چلتا ہے تو اس کی رحمت بندہ کی طرف دوڑ کر آتی ہے۔ گویا دیر بندہ کی طرف سے ہی ہوتی ہے، ورنہ اس کے الطاف وانعام تو بہت عام ہیں ۔ وہ بس کسی انسان کو رحمت عطا کرنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔ اگرچہ دنیا میں بے شمار انسان محنت کر رہے ہیں تاہم یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ اسی انسان کی محنت کامیاب و با مراد ہوگی جس کی محنت رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی محنت کے اسلوب و نہج سے میل کھاتی ہو۔ اس محنت کے اسلوب کو قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا هے

هُوَ الَّـذِىْ بَعَثَ فِى الْاُمِّيِّيْنَ رَسُوْلًا مِّنْـهُـمْ يَتْلُوْا عَلَيْـهِـمْ اٰيَاتِهٖ وَيُزَكِّـيْـهِـمْ وَيُعَلِّمُهُـمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَۖ وَاِنْ كَانُـوْا مِنْ قَبْلُ لَفِىْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ 0
وہی ہے جس نے اُمّی  لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، بیشک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھےO 

اس آیت مباركه کی روشنی میں ایمان کو راسخ کرنے اورثابت قدمی کے لئے ضروری ہے کہ کلمہ خواں اس آیت شریفہ کا چلتا پھرتا نمونہ بن جائیں یعنی قرآن مجید کی آیتوں میں تدبر ، تفکر کرنا اور اللہ کی آیتیں کو پڑھ کر سنانا کہ یہ دعوت الی اللہ ہے ، دینی مجالس میں شرکت کرنا، ایمان کے مذاکرے کرنا، اپنا تزکیۂ نفس کرنا، کتاب و حکمت سیکھنا۔ کلمہ طیبہ پڑھ کر ایمان کی بار بار تجدید کرنا ، ذکر و فکر کی عادت ڈالنا ،اللہ کے اوامر اور رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی سنتوں پر عمل آوری کرنا، مخلوقات الہٰیہ میں غور و فکر کرنا کہ یہ معرفت کی کنجی اور بہترین عبادت ہے تاکہ مخلوق کے ذریعے سے اس کے خالق کو پہچانا جاسکے ۔ اہلِ علم و اہلِ دل کی صحبت اختیارکرنا کیوں کہ اس صحبت کے اثر سے اللہ تعالی حکمت کے نور سے مردہ دل کو ایسا زندہ فرماتا ہے جیسے مردہ زمین زوردار بارش سے زندہ ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ شیطان و نفس کے وساوس سے بچنا، شک کو یقین سے بدلنا،آخرت کا تذکرہ تاکہ اس کا استحضار نصیب ہو ، وغیرہ امور سے ایمان وعمل راسخ ہوتا ہے۔
رسول كريم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی مذکورہ بالا حدیث میں کلمہ کی دعوت پر لبیک کہنے والوں کے حق میں ایک ثابت شدہ تاریخی حقیقت ہے جس کا کوئی ذی فہم انسان انکار نہیں کرسکتا۔حضرت ابو ہریرہ رضي الله تعالى عنه ایک مرتبہ کتان کے کپڑے سے ناک صاف کر کے فرمانے لگے :کیا کہنے ابو ہریرہ کے آج کتان کے کپڑے میں ناک صاف کرتا ہے حالانکہ مجھے وہ زمانہ بھی یاد ہے جب رسول كريم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے منبر اور حجرہ کے درمیان بے ہوش پڑا ہوا ہوتا تھا اور لوگ مجنون سمجھ کر پاؤں سے گردن دباتے تھے۔ حالانکہ وہ جنون نہیں تھا بلکہ بھوک ہوتی تھی۔ ایمان کی حقیقت اور اعمال صالحہ کے لئے جدو جہد کا راستہ اختیار کر نا از حد ضروری ہے۔ دعوت اسلامی کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   اپنے عزیزو اقارب و دیگر افراد خاندان کے تعلق سے انتہائی متفکر ہو نے کے علی الرغم ان کے حق میں ایمانی ہدایت کا فیصلہ صرف اس لئے نہیں کیا گیا کہ یہ لوگ از خود اس کے طلب کرنے کا مصمم ارادہ نہیں رکھتے تھے، جب کہ اس کے بر عکس سیاہ فام حضرت بلال حبشی رضي الله تعالى عنه کو اللہ تعالی نے ہدایت سے سرفراز فرمایا۔ اللہ نے ہدایت ِ دین کو طلب ، تڑپ اور جدو جہد کے ساتھ مشروط کر رکھا ہے جس پر یہ آیت دلالت کر تی ہے:

وَالَّـذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّـهُـمْ سُبُلَنَا ۚ وَاِنَّ اللّـٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ 0 ’’ 
جو لوگ ہماری خاطرمجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔‘‘(العنکبوت )

مزید برآں جس طرح کسی شخص کے اختیار میں یہ بات نہیں ہے کہ وہ بلوغت کے آثا ر کو روک سکے، ٹھیک اسی طرح ایمان ا ور نیک عملی کے بعد کوئی شخص تقویٰ ، احسان و مروت ، جود و سخا ، ایثار و قربانی ، صبرو برداشت ، تسلیم و رضاء ،استقامت، فراست ،حلم و بردباری، اطاعت و فرمانبرداری، بلند عزائم، معرفت و آگہی، قلبی طہارت، اخوت ومحبت، ہمدردی و ایثار، خلوص ، احسان، عاجزی و انکساری وغیرہ اعلیٰ و ارفع صفات سے خالی نہیں رہ سکتا۔

قراآن کریم میں ہے
فَاَلْهَـمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوَاهَا 0 "
پھر اس کو سمجھ دی ، اس کی بدی کی اور اس کی نیکی کی۔(سورہ شمس)

گویا اللہ تعالی نے ہر انسان کے اندر ہدایت کا بیج ودیعت کر دیا ہے اور اب بندہ کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ اپنے اختیا ر کی طاقت ، قوت اور قدرت کو کس طرح استعمال کرتا ہے،آیا وہ اسے ضائع کرکے ’’شجر خبیثہ‘‘ تیا ر کرتا ہے یا محنت کرکے ’’ شجر طیبہ‘‘، تاہم اہل ایمان کے یہ مناسب حال نہیں کہ کلمہ پڑھنے کے بعد جدو جہد کا واسطہ اور وسیلہ اختیار نہ کرے۔ چنانچہ ایسی صورت میں ان کے بارے میں بھی وہی بات کہی جائے گی جیسا کہ دور نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  میں بعض بدوؤں کے تعلق سے یہ بات کہی گئی تھی:

قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا ۖ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُـوْا وَلٰكِنْ قُـوْلُـوٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِىْ قُلُوْبِكُمْ ۖ 
وَاِنْ تُطِيْعُوا اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ لَا يَلِتْكُمْ مِّنْ اَعْمَالِكُمْ شَيْئًا ۚ اِنَّ اللّـٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِـيْـمٌ 0
بدویوں نے کہا ہم ایمان لے آئے ہیں، کہہ دو تم ایمان نہیں لائے لیکن تم کہو کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں اورابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا، اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو تو تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا، بے شک اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔
Share: