لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ کی محنت : -
یہ ایک مبارک كلمه ھے جو ھم پڑھتے ھیں اور مسلمان کہلاتے ھیں اور یہ جاننا چاھیے کہ ایک تو اس کلمہ کے الفاظ ھیں اور ایک اس کلمہ کی محنت ھے جو ھمارے ذمہ ھے سو اس کلمہ كے حوالہ سے یہ كام بہت اھم هے كه هم إس کلمہ كي محنت كو سيكهيں تاكه إس كلمه كی صفات همارے اندر آسكيں۔ کلمہ طيبه "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ" کے متعلق بہت أهم سوال يه هے كه هم اس کلمہ کی كس طرح محنت كريں كه إس مبارك كلمه كے حقوق پورے ھو سکیں ۔ علماء کرام نے كلمه طيبه كي محنت کے مندرجہ ذیل تین طريقے بتائے ھیں اگر ان پر عمل پیرا ھو کر اس کلمہ کی محنت کی جائے تو ان شاء اللہ اس کے مثبت نتائج ملیں گے ۔
1- پہلا طریقہ ــ
كلمه طيبه كي دعوت دينا:
کلمہ طیبہ کی محنت میں اس مبارک کلمہ اور اس کے مفہوم اور یقین کی دعوت دوسروں کو دینا بہت اھمیت کی حامل ہے۔ یعنی اللہ تعالی کی وحدانیت اور بڑائی کی اتنی دعوت دی جائے کہ دل اللہ کی ذات سے متاثر ہو جائے اور غیر کے تاثر سے بالكل پاک ہو جائے ، اس سے شرک کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے طریقوں میں کامیابی کی اتنی دعوت دی جائے کہ سنتیں زندہ ہو جائیں اور بدعات کا خاتمہ ہو جائے - اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے سفر و حضر میں کلمہ کی خوب خوب دعوت دی جائے. اس سے دوسرے کو دعوت کا فرض ساقط ہوگا اور آپکی اصلاح ہو جائے گی. اکابرين اس ضمن میں کہتے ہیں: غیر اللہ سے ہونے کا یقین دل سے نکالو اور اللہ ہی سے ہونے کا یقین دل میں ڈالو اور اس کا راستہ ہے’’ كلمه كي دعوت‘‘۔ ’’
کلمہ طیبہ کی محنت میں اس مبارک کلمہ اور اس کے مفہوم اور یقین کی دعوت دوسروں کو دینا بہت اھمیت کی حامل ہے۔ یعنی اللہ تعالی کی وحدانیت اور بڑائی کی اتنی دعوت دی جائے کہ دل اللہ کی ذات سے متاثر ہو جائے اور غیر کے تاثر سے بالكل پاک ہو جائے ، اس سے شرک کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے طریقوں میں کامیابی کی اتنی دعوت دی جائے کہ سنتیں زندہ ہو جائیں اور بدعات کا خاتمہ ہو جائے - اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے سفر و حضر میں کلمہ کی خوب خوب دعوت دی جائے. اس سے دوسرے کو دعوت کا فرض ساقط ہوگا اور آپکی اصلاح ہو جائے گی. اکابرين اس ضمن میں کہتے ہیں: غیر اللہ سے ہونے کا یقین دل سے نکالو اور اللہ ہی سے ہونے کا یقین دل میں ڈالو اور اس کا راستہ ہے’’ كلمه كي دعوت‘‘۔ ’’
ہم مسلمان ہیں ، مسلمان ملک میں پیدا ہوئے تو مسلمان ہیں، مسلمان گھرانے میں پیدا ہوگئے تو مسلمان ہیں ، ،نماز پڑھ لی تو مسلمان ہیں لیکن وہاں(مكه مكرمه ميں ) تو راستہ ہی ایک تھا ۔جو آتا تھا وہ ’’دعوت الی اللہ ‘‘کے راستے سے آتا تھا اور دعوت الی اللہ کے راستے سے آنے کے بعد اس کے پاس کوئی کام نہیں ھوتا تھا ۔دس سال تک کوئی عبادت نہیں تھی (مکہ مكرمه میں)سوائے ’’دعوت الی اللہ ‘‘کے ۔ ’’یہ محنت (مکہ مكرمه میں )دس سال تک کرائی گئي ہے ہمارا اور صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم کا بنیادی فرق یہی ہے کہ انہوں نے دس سال تک کوئی چیز دیکھی نہیں تھی ،سوائے ’’دعوت الی اللہ ‘‘کے ،اس لئے ان کو کوئی اشکال نہیں ہوا اور ھم مسلمان کے گھر میں پیدا ہوگئے تو مسلمان،نماز پڑھ لی تو مسلمان،گائے کا گوشت کھالیا تو مسلمان،ہمارے مسلمان ہونے کی کئی شکلیں ہیں ،وہاں مسلمان شمار نہیں ہوتا تھا جب تک کہ وہ ’’صاحبِ دعوت‘‘نہ ہو‘‘۔ ’’کلمہ کی دعوت‘‘کا شرعی مفہوم کیا ہے؟
قُلْ اَىُّ شَىْءٍ اَكْبَـرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللّـٰهُ ۖ شَهِيْدٌ بَيْنِىْ وَبَيْنَكُمْ ۚ وَاُوْحِىَ اِلَىَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْ بَلَـغَ ۚ اَئِنَّكُمْ لَـتَشْهَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللّـٰهِ اٰلِـهَةً اُخْرٰى ۚ قُلْ لَّآ اَشْهَدُ ۚ قُلْ اِنَّمَا هُوَ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ وَّاِنَّنِىْ بَرِىٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُـوْنَ 0
تو پوچھ کہ سب سے بڑا گواہ کون ہے، کہہ دو اللہ، میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے، اور مجھ پر یہ قرآن اتارا گیا ہے تاکہ تمہیں اس کے ذریعہ سے ڈراؤں اور اس کو بھی جس تک یہ قرآن پہنچے، کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور بھی کوئی معبود ہیں، کہہ دو میں تو گواہی نہیں دیتا، کہہ دو وہی ایک معبود ہے اور میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔
سورۃ الانعام کی آیت بالا کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے : ’’رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی خدمت میں تین کافر حاضر ہوئے اور پوچھا کہ اے محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ! تم ا للہ کے سوا کسی دوسرے کو معبود نہیں جانتے ؟(تو ان کے جواب میں رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا ) "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ " نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے ‘‘(اور جان لو کہ )میں اسی کلمہ کے ساتھ مبعوث ہوا ہوں اور اسی کلمہ کی طرف لوگوں کو دعوت دینے والا ہوں۔پس اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی
’’اے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ! ان سے پوچھئے کہ کس کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے ؟‘‘۔ اسی طرح نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے اوصاف حمیدہ سے متعلق سورۃ الاحزاب کی اس آیت مباركه ميں ذكر هے
وَدَاعِيًا اِلَى اللّـٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْـرًا 0
اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور چراغ روشن بنایا ہے۔
اس کی تفسیرحضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم یوں فرماتے ہیں : ’’وداعیاً الی شھادة لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ ‘‘ ’’یعنی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اس بات کی طرف دعوت دینے والے تھے کہ گواہی دو اس با ت کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ‘‘ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نےحضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کودعوت دینے کا طریقہ سکھایا جبکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ان کو یمن کی طر ف روانہ کررہے تھے: ((فَادْعُھُمْ الی شھادة أن لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ )) ’’سب سے پہلے ان کو’’ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ ‘‘کی طرف دعوت دو‘‘ ۔ پس ثابت ہواکہ شریعت اسلامی میں ’’کلمہ کی دعوت‘‘ایک اہم دینی و شرعی اصطلاح ہے ،جس کا سمجھنا ہر مسلمان کے لئے لازم ہے۔ کلمۂ توحید كي دعوت دينا تمام آنبياء كرام عليه السلام اور رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ كا طريقه رها هے اور پهر إسي پر صحابه كرام رضوان الله عليهم عمل پيرا رهے اور پهر إسي پر تمام آكابرين أمت كا عمل رها هے سو يه هر مسلمان كي ذمه دارى هے كه وه إس كلمه كي دعوت دوسروں كو دينے كي سعى كرے اور يه إيك حقيقت هے كه جتني إس كلمه كي دعوت دوسروں كو دي جائے گى اتنا هي إس كلمه كا يقين دعوت دينے والوں كے دلوں ميں آتا چلا جائے گا ۔ بے شمار لوگوں كي زندگياں إس بات كي شاهد هيں كه جب أنهوں نے إس محنت كو اپنا مقصد بنايا اور كلمه كي دعوت دوسروں كو دينى شروع كي تو الله تعالى نے ان كے دلوں ميں إس كلمه كے يقين كو مضبوط بنا ديا الله تعالى هم سب کو إسكي توفيق عطا فرمائيں- آمين
دوسرا طریقہ --
كلمه طيبه كي عملي مشق كرنا:
سب سے پہلا کام اس کلمہ طیبہ "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ" کی دعوت دوسروں کو دینا ہے ، جو کہ الله تعالى کی ألوهيت کا اقرار نامہ ہے، اپنے اندر كلمه طيبه كو لانے كے لئے دوسرا كام إس كي عملی مشق كرنا هے جو مندرجه زيل طريقوں سے ممكن هے :-
(أ) - غور و فكر كرنا :
هميں چاهيے كه هم تنہائیوں ميں بيٹهـ كر إس كلمه پر غوروفكر كريں يعني الله تعالى كي قدرتوں پر غور كريں الله تعالى كي پيدا كي هوئى چيزوں پر غور كريں يعني الله تعالى نے يه زمين بنائى إس ميں طرح طرح كي چيزيں پيدا فرمائيں كهيں پانی هے ، كهيں خشكي هے كهيں درخت هيں ، كهيں صحرا هے تو إس پر غور كريں الله تعالى نے دن رات بنائے، چاند ستارے اور سورج بنائے ، الله تعالى نے بغير كسي ستون كے آسمان بنايا پهلا آسمان إتنا بڑا هے كه اس كے سامنے زمين إس طرح هے جيسے إيك بهت بڑے ميدان ميں كوئى گيند پڑى هو إسي طرح دوسرا - تيسرا - چوتها - پانچواں - چهٹا اور ساتواں آسمان هے ۔ هر آسمان كي پوزيشن اوپر والے آسمان كے سامنے إيسي هي هے جيسے زمين كي پهلے آسمان كے سامنے۔ پهر الله تعالى نے جنت اور دوزخ بنائے إتني بڑى جنت بنائى كه جو سب سے ادنى درجه كا جنتي هوگا اسے بهي إس دنيا سے دس گنا بڑى جنت عطا كي جائے گى اب آپ اندازه كرليں كه جنت كتني بڑى هوگى- بڑے بڑے عظيم فرشتے پيدا فرمائے ۔ عرش معلى بنايا پهر الله تعالى كي كرسى هے تو إن چيزوں پر غور و فكر كرے كه جس الله نے إتنى بڑى بڑى مخلوق پيدا فرمائى وه الله خود كتنا بڑا هوگا إس طرح جتنا إس كلمه پر غور وفكر كريں گے أتنا هي إس كا يقين همارے دل ميں آئے گا- صوفيه كے هاں إسي غور و فكر كا نام مراقبه هے صوفيا كرام گهنٹوں كے حساب سے مراقبه كه مشق كرتے هيں اور اپنے شاگردوں كو بهي إس كي تلقين كرتے هيں- مراقبه ميں بهي يهي هوتا هے كه إنسان هر طرف سے كٹ كر صرف الله تعالى كي طرف متوجه هو ۔ قرآن مجيد ميں كئى مقامات پر حضرت إنسان كو غور وفكر كي دعوت گئى هے المختصر يه كه همارے شب و روز ميں كـچهـ وقت إس كام كے لئے بهي مختص هونا چاهيے تاكه همارے دل كا يقين مخلوق سے هٹ كر خالق پر آجائے أسباب سے هٹ كر مسبب الأسباب پر آجائے
(ب) - ذياده سے ذياده كلمه كا ذكر كرنا:
إس مبارك كلمه كا ذياده سے ذياده ذكر كرنا دل كے يقين كو مضبوط كرنے كا إيك بہت بڑا سبب هے جتنا ذكر ذياده كريں گے أتنا هي دل كي صفائى هوگي دل نرم هوگا اور الله تعالى كے غير كا يقين دل سے نكلے گا اور الله تعالى كا يقين آئے گا يه إيك كامن سينس كي بات هے كه جس چيز كا ذياده ذكر كيا جائے أس چيز كي محبت أتنا هي دل ميں گهر كرتي هے هم كثرت سے دنيا كا ذكر كرتے هيں تو هروقت دنيا كي محبت دل ميں بسي رهتي هے تو هميں چاهيے كه هم إس كلمه كا ذياده سے ذياده ذكر كريں حديث مباركه كا مفهوم هے كه جس شخص نے هر روز ميں 100 مرتبه كلمه كا ذكر كيا وه كل قيامت والے دن إس طرح أٹهايا جائے گا كه اس كا چہرہ چوهدويں كے چاند كي طرح چمكتا هوگا إس طرح کلمہ طیبہ کے ذکر کی مختلف تعداد پر مختلف فضائل وارد هوئے هيں ۔ تصوف ميں يهى كلمه مركزى ذكر كي حيثيت ركهتا هے دل كي صفائى كے لئے مشائخ حضرات مريدوں كو مخصوص تعداد ميں پڑهنا تجويز كرتے هيں ۔ تو إسي طرح إس كلمه كا يقين بنانے كے لئے بهي إس كا ذياده سے ذياده ذكر بهت هي مفيد ثابت هوتا هے ۔
سب سے پہلا کام اس کلمہ طیبہ "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ" کی دعوت دوسروں کو دینا ہے ، جو کہ الله تعالى کی ألوهيت کا اقرار نامہ ہے، اپنے اندر كلمه طيبه كو لانے كے لئے دوسرا كام إس كي عملی مشق كرنا هے جو مندرجه زيل طريقوں سے ممكن هے :-
(أ) - غور و فكر كرنا :
هميں چاهيے كه هم تنہائیوں ميں بيٹهـ كر إس كلمه پر غوروفكر كريں يعني الله تعالى كي قدرتوں پر غور كريں الله تعالى كي پيدا كي هوئى چيزوں پر غور كريں يعني الله تعالى نے يه زمين بنائى إس ميں طرح طرح كي چيزيں پيدا فرمائيں كهيں پانی هے ، كهيں خشكي هے كهيں درخت هيں ، كهيں صحرا هے تو إس پر غور كريں الله تعالى نے دن رات بنائے، چاند ستارے اور سورج بنائے ، الله تعالى نے بغير كسي ستون كے آسمان بنايا پهلا آسمان إتنا بڑا هے كه اس كے سامنے زمين إس طرح هے جيسے إيك بهت بڑے ميدان ميں كوئى گيند پڑى هو إسي طرح دوسرا - تيسرا - چوتها - پانچواں - چهٹا اور ساتواں آسمان هے ۔ هر آسمان كي پوزيشن اوپر والے آسمان كے سامنے إيسي هي هے جيسے زمين كي پهلے آسمان كے سامنے۔ پهر الله تعالى نے جنت اور دوزخ بنائے إتني بڑى جنت بنائى كه جو سب سے ادنى درجه كا جنتي هوگا اسے بهي إس دنيا سے دس گنا بڑى جنت عطا كي جائے گى اب آپ اندازه كرليں كه جنت كتني بڑى هوگى- بڑے بڑے عظيم فرشتے پيدا فرمائے ۔ عرش معلى بنايا پهر الله تعالى كي كرسى هے تو إن چيزوں پر غور و فكر كرے كه جس الله نے إتنى بڑى بڑى مخلوق پيدا فرمائى وه الله خود كتنا بڑا هوگا إس طرح جتنا إس كلمه پر غور وفكر كريں گے أتنا هي إس كا يقين همارے دل ميں آئے گا- صوفيه كے هاں إسي غور و فكر كا نام مراقبه هے صوفيا كرام گهنٹوں كے حساب سے مراقبه كه مشق كرتے هيں اور اپنے شاگردوں كو بهي إس كي تلقين كرتے هيں- مراقبه ميں بهي يهي هوتا هے كه إنسان هر طرف سے كٹ كر صرف الله تعالى كي طرف متوجه هو ۔ قرآن مجيد ميں كئى مقامات پر حضرت إنسان كو غور وفكر كي دعوت گئى هے المختصر يه كه همارے شب و روز ميں كـچهـ وقت إس كام كے لئے بهي مختص هونا چاهيے تاكه همارے دل كا يقين مخلوق سے هٹ كر خالق پر آجائے أسباب سے هٹ كر مسبب الأسباب پر آجائے
(ب) - ذياده سے ذياده كلمه كا ذكر كرنا:
إس مبارك كلمه كا ذياده سے ذياده ذكر كرنا دل كے يقين كو مضبوط كرنے كا إيك بہت بڑا سبب هے جتنا ذكر ذياده كريں گے أتنا هي دل كي صفائى هوگي دل نرم هوگا اور الله تعالى كے غير كا يقين دل سے نكلے گا اور الله تعالى كا يقين آئے گا يه إيك كامن سينس كي بات هے كه جس چيز كا ذياده ذكر كيا جائے أس چيز كي محبت أتنا هي دل ميں گهر كرتي هے هم كثرت سے دنيا كا ذكر كرتے هيں تو هروقت دنيا كي محبت دل ميں بسي رهتي هے تو هميں چاهيے كه هم إس كلمه كا ذياده سے ذياده ذكر كريں حديث مباركه كا مفهوم هے كه جس شخص نے هر روز ميں 100 مرتبه كلمه كا ذكر كيا وه كل قيامت والے دن إس طرح أٹهايا جائے گا كه اس كا چہرہ چوهدويں كے چاند كي طرح چمكتا هوگا إس طرح کلمہ طیبہ کے ذکر کی مختلف تعداد پر مختلف فضائل وارد هوئے هيں ۔ تصوف ميں يهى كلمه مركزى ذكر كي حيثيت ركهتا هے دل كي صفائى كے لئے مشائخ حضرات مريدوں كو مخصوص تعداد ميں پڑهنا تجويز كرتے هيں ۔ تو إسي طرح إس كلمه كا يقين بنانے كے لئے بهي إس كا ذياده سے ذياده ذكر بهت هي مفيد ثابت هوتا هے ۔
ذكر دو طرح سے هوتا هے ذكر خفي اور ذكر جہری- جس طرح طبيعت مائل هواسي طرح كرليا جائے ليكن ذكر جہری كيلئے يه ضروري هے كه كسي كو تكليف نه هو ، كسي كي نيند وغيره ميں خلل نه پڑے اور دكهلاوے كا عنصر بهي شامل نه هو - ذكر خفي بهرحال ذكر جہری سے أفضل هے - الله تعالى سے تعلق مضبوط بنانے كے لئے كلمه طيبه كا ذكر أكسير كا درجه ركهتا هے
(ج) - ذكر كي مجالس ميں شركت کرنا:
اگر كسي شخص كو إيسي مجالس تک رسائى حاصل هوجائے جس مييں الله تعالى كا ذكر هوتا هو كلمه طيبه كا بيان هوتا هو كلمه طيبه كے فضائل اور مقاصد بيان هوتے هوں تو إيسي مجالس كو اپنے لئے إيك نعمت سمجهـے اور إن ميں ضرور شركت كرے - جہاں پر رضائے إلہی كے لئے إس طرح كي مجالس هوں انكي معاونت كرنا ان ميں شركت كرنا يقيناً دل ميں كلمه كا يقين جمنے اور آجر عظيم كا سبب هوگا - إخلاص كے ساتھ إس طرح كي مجالس قائم كرنا يقيناً بہت بڑے أخروي آجر كا سبب بنے گا اور جتنے لوگ إس ميں شامل هوں گے انكا ثواب بهي مجلس كا إهتمام كرنے والوں كو ملے گا
(ج) - ذكر كي مجالس ميں شركت کرنا:
اگر كسي شخص كو إيسي مجالس تک رسائى حاصل هوجائے جس مييں الله تعالى كا ذكر هوتا هو كلمه طيبه كا بيان هوتا هو كلمه طيبه كے فضائل اور مقاصد بيان هوتے هوں تو إيسي مجالس كو اپنے لئے إيك نعمت سمجهـے اور إن ميں ضرور شركت كرے - جہاں پر رضائے إلہی كے لئے إس طرح كي مجالس هوں انكي معاونت كرنا ان ميں شركت كرنا يقيناً دل ميں كلمه كا يقين جمنے اور آجر عظيم كا سبب هوگا - إخلاص كے ساتھ إس طرح كي مجالس قائم كرنا يقيناً بہت بڑے أخروي آجر كا سبب بنے گا اور جتنے لوگ إس ميں شامل هوں گے انكا ثواب بهي مجلس كا إهتمام كرنے والوں كو ملے گا
(د) سونے سے پہلے اپنا محاسبه كرنا:
مشق كے حواله سے إيک بہت إهم كام إنسان كا اپنا محاسبه كرنا بهي هے جو كلمه طيبه كا يقين بنانے كيلئے بهت هي مفيد هے إس كا طريقه يه هے كه إنسان جب سونے كيلئے بستر پر جائے تو اپنے رب كي طرف رجوع كرے اور اپنا محاسبه كرے كه گزرے هوئے (24) گهنٹه ميں كلمه طيبه كي دعوت كتنے لوگوں كو دى هے ذكر كتنا كيا هے ذكر كي مجلس ميں شركت هوئى يا نهيں الله تعالى كے كتنے آحكام پورے كيے رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ كي كتني سنتوں پر عمل كيا اور جو كچهـ كيا هے اس ميں الله تعالى كي رضا كي نيت كتني تهي اگر دكهلاوه وغيره تها تو" لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" كہے اور اس سے سچي توبه كرے تو إس طرح هرروز اپنا محاسبه كرتا رهے اور جو جو كمي اپنے اندر موجود هو اس كي تلافي كي كوشش بهي كرے اور دعا بهي كرے - إن شاء الله اگر إس عمل كو اپنے لئے لازمي كرليا تو بإذن الله أهسته آهسته خامياں ختم هوتي چلي جائيں گي اور إن شاء الله دل ميں كلمه كا يقين مضبوط سے مضبوط بنتا چلا جائے گا
(هـ) كسي باعمل عالم دين بزرگ سے روحاني تعلق قائم كرنا:
إس كلمه كا يقين دل ميں بنانے كے لئے إيك طريقه يه بهي هے كه كسي باعمل عالم دين سے اپنا روحاني تعلق قائم كرے ۔ اس كي نگراني ميں اپنا روحاني سفر طے كرے ۔ بيعت كركے ايسا كرنا هو تو وه بهي إيك مستحب عمل هے اور اگر دل بيعت كرنے پر آماده اور راضي نه هو تو پهر بهي كسي بهي باشرح عالم دين سے اپنا تعلق قائم ركهے اور اپني كوتاهيوں كي إصلاح كرتا رهے إن شاء الله إصلاح ضرور هوجائے گي بشرطيكه نيت إصلاح كي هي هو ۔ جس شخص سے اپنا روحاني تعلق قائم كرے اسكے بارے ميں پہلے اچهي طرح إطمينان كرلے ۔ إس مقصد كے لئے صرف باعمل عالم دين كا هي إنتخاب كرے
تيسرا طریقہ --
كلمه طيبه كے يقين كے لئے الله تعالى سے دعا كرنا:
سب سے پہلے اس کلمہ طیبہ "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ" کی دعوت ہے ، جو کہ رب کائنات کی خدائی کا اقرار نامہ ہے، اپنے اندر كلمه طيبه كو لانے كيلئے دوسرا كام إسكي مشق كرنا هے إس سب كے بعد كاميابي دينے والي ذات صرف اور صرف الله تعالى كي هے إس لئے دعوت اور مشق كا عمل كرنے كے بعد الله تعالى سے رو رو كر اور گڑگڑا كر كلمه كے يقين كي دعا مانگني بہت ضرورى هے. دُعا ﷲ اور بندے کے درمیان ایک ایسا مخصوص تعلق ہوتا ہے جس میں بندہ اپنے معبود سے اپنے دل کا حال بیان کرتا ہے ، اپنی مشکل کا اظہار کر تا ہے ، اپنے گناہوں کی معافی طلب کر تا ہے ، بخشش کی درخواست کر تا ہے ، مختصر یہ کہ جو کچھ اس کے دل میں ہوتا ہے وہ سیدھے سادہ طریقے سے بیان کر دیتا ہے ،دعا در اصل مخلوق اور اس کے خالق کے درمیان براہ راست را بطہ ہوتی ہے، تمام إنسان الله تعالى كے سامنے چونكه فقير هي هيں جيسا كه الله تعالى نے فرآن مجيد ميں ارشاد فرمايا:
سب سے پہلے اس کلمہ طیبہ "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ" کی دعوت ہے ، جو کہ رب کائنات کی خدائی کا اقرار نامہ ہے، اپنے اندر كلمه طيبه كو لانے كيلئے دوسرا كام إسكي مشق كرنا هے إس سب كے بعد كاميابي دينے والي ذات صرف اور صرف الله تعالى كي هے إس لئے دعوت اور مشق كا عمل كرنے كے بعد الله تعالى سے رو رو كر اور گڑگڑا كر كلمه كے يقين كي دعا مانگني بہت ضرورى هے. دُعا ﷲ اور بندے کے درمیان ایک ایسا مخصوص تعلق ہوتا ہے جس میں بندہ اپنے معبود سے اپنے دل کا حال بیان کرتا ہے ، اپنی مشکل کا اظہار کر تا ہے ، اپنے گناہوں کی معافی طلب کر تا ہے ، بخشش کی درخواست کر تا ہے ، مختصر یہ کہ جو کچھ اس کے دل میں ہوتا ہے وہ سیدھے سادہ طریقے سے بیان کر دیتا ہے ،دعا در اصل مخلوق اور اس کے خالق کے درمیان براہ راست را بطہ ہوتی ہے، تمام إنسان الله تعالى كے سامنے چونكه فقير هي هيں جيسا كه الله تعالى نے فرآن مجيد ميں ارشاد فرمايا:
يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اَنْتُـمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّـٰهِ ۖ وَاللّـٰهُ هُوَ الْغَنِىُّ الْحَـمِيْدُ 0
اے لوگو تم اللہ کی طرف محتاج ہو، اور اللہ بے نیاز تعریف کیا ہوا ہے۔
سو فقير هونے كي حيثيت سے اپنے رب سے براه راست رابطه كرنے کا وسيله صرف اور صرف دعا هے ۔ دعا كرنا همارے لئے بہت ضروري هے- ﷲ کے پیارے نبی حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے دُعا کی عظمت ، اس کی بر کتیں ، دُعا کے آداب اور دعا کرنے کے بارے میں واضح ہدایات دی ہیں ۔ایسی بے شمار احادیث ہیں جن میں دعا کا ذکر ہے اور دعا کی اہمیت و فضیلت کو واضح کیا گیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرما یا’’ ﷲ کے یہاں کوئی چیز اور کوئی عمل دعا سے زیادہ عزیز نہیں ﷲ تعالیٰ رحیم ہے، کریم ہے، مہربان ہے، سننے والا ہے، دینے والا ہے، مانگنے والے بندے پر اسے پیار آتا ہے ، بندے کا اپنے رب سے مانگنے کا عمل اسے عزیز ہے، بندہ اپنے رب سے خاموشی کے ساتھ ، عاجزی کے ساتھ، انکساری کے ساتھ، اطاعت کے ساتھ ، فرمانبر داری کے ساتھ، فقیری کے ساتھ ، گدائی کے ساتھ ،چپکے چپکے، دھیمی آواز کے ساتھ، خشو ع و خضوع کے ساتھ، اعتراف گناہ اور احساس ندامت کے ساتھ ، گڑ گڑا کر دُعا کرے ، یہ افضل ہے اور ﷲ کو بے حد پسند بھی ہے ۔ اس کے بر عکس وہ اپنے اس بندے کو پسند نہیں کرتا جو اس سے نہ مانگے، اس سے وہ ناراض ہوتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ الله کے پیارے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا ’’ جو ﷲ سے نہ مانگے اس پر ﷲ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے‘‘۔ ﷲ سے اس کا فضل طلب کرنے، دعا مانگنے اور دعا کا اہتمام کرنے کی خاص ہدایت رسول ﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے ثابت ہے ۔ حضرت عبدﷲ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فر مایا ’’دعا کارآمد اور نفع مند ہوتی ہے اور ان حوادث میں بھی جو نازل ہوچکے ہیں اور ان میں بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے‘ پس اے خدا کے بندوں دعا کا اہتمام کرو‘‘۔ایک اور حدیث حضرت عبدﷲ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مردی ہے کہ حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ ﷲ سے اس کا فضل مانگو یعنی دعا کرو کہ وہ فضل و کرم فرمائے، کیونکہ ﷲ کو یہ بات محبوب ہے کہ اس کے بندے اس سے دعا کریں اور مانگیں ‘‘ اور فرمایا کہ ’’ ﷲ تعالیٰ کے کرم سے امید رکھتے ہوئے اس بات کا انتظار کرنا کہ وہ بلا اور پریشانی کو اپنے کرم سے دور فرمائے گا اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے ‘‘
حدیث مبارکہ ہے کہ رسول ﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ دعَا مانگنا بعینہ عبادت کرنا ہے ۔ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے بطور دلیل قرآن کریم کی سورۃ ’المؤمن كي آیت نمبر ( 60 ) کی تلاوت فرمائی
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِـىٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ اِنَّ الَّـذِيْنَ يَسْتَكْبِـرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِىْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّـمَ دَاخِرِيْنَ ()
اور تمہارے رب نے فرمایا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا، بے شک جو لوگ میری عبادت سے سرکشی کرتے ہیں عنقریب وہ ذلیل ہو کر دوزخ میں داخل ہوں گے۔
حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ دعا عین عبادت ہے ‘‘ اور حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے جس میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے دعا کو عبادت کا مغز اور جوہر قرار دیا ہے ۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’دعا عبادت کا مغز اور جوہر ہے‘‘۔
حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ دعا عین عبادت ہے ‘‘ اور حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے جس میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے دعا کو عبادت کا مغز اور جوہر قرار دیا ہے ۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’دعا عبادت کا مغز اور جوہر ہے‘‘۔
حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا ’’کیا میں تمہیں وہ عمل بتاؤں جو تمہارے دشمنوں سے تمہارا بچاؤ کرے اور تمہیں بھر پور روزی دلائے ۔ وہ یہ ہے کہ اپنے ﷲ سے دُعا کیا کرو رات میں اور دن میں ‘ کیو نکہ دُعا مؤمن کا خاص ہتھیار یعنی اس کی خاص طاقت ہے‘‘
دعا بندے کی جانب سے اپنے رب کے حضور ايك درخواست اور التجا ہے، وہ اپنے بندے کی سنتا ہے ، بندے کا کام اس کے حضور اپنی خواہش کا مسلسل اظہار کرتے رہنا ہے۔
المختصر يه كه كلمه كا يقين إيک بہت قيمتي چيز هے إسكے حصول كيلئے جہاں إسكي محنت ضروري هے وهاں الله تعالى سے راتوں كو ، دن كو رو رو كر مانگنا بهي ازحد ضروري هے چنانچه كافي عرصه قبل إيك تبليغي جماعت تركي ميں كام كررهي تهي جماعت كے إيك ساتهي كو ميزبان رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ حضرت أبو أيوب أنصاري رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ كي خواب ميں زيارت هوئي تو أنهوں نے خواب ميں فرمايا كه بهائى ! كام تو تم لوگ بهي وهي كررهےهو جو هم كرتے تهے ليكن تم ميں اور هم ميں إيك فرق آ گيا هے وه فرق يه هے كه "هم لوگ دن كو مخلوق پر خوب محنت كرتے تهے اور رات كو اپنے خالق و مالک كے سامنے رورو كر دعائيں مانگتے تهے تو اب رات كو الله تعالى سے مانگنے والا عمل كمزور هوگيا هے ۔
تو یہ بات بہت ضروری ھے کہ هم صرف اپنى محنت پر بهروسه نه كريں بلكه كلمه "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ" كے يقين كو الله تعالى سے رو رو كر مانگيں۔ الله تعالى هم سب كو إسكي توفيق عنايت فرمائے (آمين ثم آمين )"
الله تعالى ھم سب كو عمل كي توفيق عطا فرمائے - (آمين ثم آمين)