پانچواں نمبر : إخلاصِ نيت

دعوت إلى الله اور تبليغى جماعت

(قسط نمبر - 7 )

پانچواں نمبر : إخلاصِ نيت 


إخلاصِ نيت
گذشته أقساط ميں كلمه طيبه "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ " - "نماز" - "علم وذكر" اور" إكرام مسلم" كے أبواب كا ذكر هوا - طوالت سے بچنے كي كوشش كے باوجود سلسه قدرے طويل بهي هوا أس كي وجه يه هے كه إن أقساط ميں يه كوشش كي جارهي هے كه إن مبارك صفات سے متعلقه أمور كو بهي كسي حد تك قلمبند كيا جائے ممكن هے كوئى الله كا بنده إن صفات كو عملي طور اپني زندگي مين لانے كا إراده كرلے تو اسے كچهـ نه كچهـ مطلوبه مواد ميسر آسكے - دعا هے الله تعالى هم سب كو إس كي توفيق عنايت فرمائے -آمين

إخلاصِ نيت كے معنى ومفهوم
اخلاص کا معنی ہے نیت کا پاکیزہ اور خالص ہونا.  إخلاص یا خلوص ہماری شخصیت کا وہ پہلو ہے جس کے ہونے کی وجہ سے کوئی دوسرا ہم پر اعتبار کر سکتا ہے۔ نیت کا یہ خلوص اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اور بندوں کے ساتھ بھی۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نیت کے خلوص کا مطلب یہ ہے کہ انسان جو نیک عمل بھی کرے ، صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے کرے، اس میں اس کا کوئی دنیاوی مفاد يا دكهلاوه وغيره پیش نظر نہ ہو۔ بندوں کے ساتھ خلوص یہ ہے انسان کی نیت میں کسی قسم کا کوئی کھوٹ نہ ہو اور وہ سب کا خیر خواہ ہو
شرعي إصطلاح مين إخلاص كا مفهوم يهي هے كه إنسان جب بهي كوئي ذكر وعبادت كرے يا كوئي بهي نيكي كا كام كرے يا كرنے كا إراده كرے اس ميں الله تعالى كي رضا كے ساتهـ دوسري كسي جيز كي آميزش نهيں هوني چاهيے بلكه نيت صرف اور صرف يه هو كه ميرا الله مجهـ سے راضي هو جائے الله كے علاوه كسي اور كي رضا مطلوب نه هو كسي كي جانب سے تعريف كي طلب نه هو اپني مشهوري مقصد نه هو تو مختصراً يه كه اخلاص سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے کام کو صرف الله تعالى كي رضا کے لئے انجام دے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان نفسانی خواہشات ، مال و دولت کے حصول ، شہرت و عزت ، لالچ و حرص وغیرہ کے لئے کوئی کام نہیں کرتا ۔ اخلاص ایک ایسی صفت ہے کہ اگر اس کی بنیاد پر اقدام کیا جائے تو یہ تلوار کی طرح اپنے سامنے آنے والے ہر مانع کو دور کرتی جاتی ہے
يهاں إيك نكته ياد ركهنا ضروري هے كه إخلاص كا مقام عمل كرنے والے كا اپنا دل هوتا هے أس ميں الله تعالى كي رضا كے علاوه كوئي دوسري نيت نهيں هوني چاهيے يهي مطلوب ومقصود هے ليكن مثلاً إيك شخص باجماعت نماز كے لئے مسجد جاتا هے تو يقيناً لوگ اسے ديكهتـے هيں اور هوسكتا هے وه تعريف بهي كريں "كه يه شخص تو بهت نيك هے پابندي سے مسجد ميں جا كر نماز ادا كرتا هے وغيره " تو اگر إس كے اپنے دل ميں إيسي كوئي نيت نهيں تو محض كسي كي تعريف كرنے سے إس كے إخلاص پر كوئي فرق نهيں پڑے گا يهي حال حج , عمره , إعتكاف وغيره باقي تمام أعمال كا بهي هے
همارا كهلم كهلا دشمن شيطان لعين بعض أوقات هميں يه دهوكه دينے كي كوشش كرتا هے كه تيرے عمل كو تو دوسرے لوگ ديكهـ رهے هيں جو دكهلاوه ميں آتا هے اس كا آجر تو ملنا نهيں بلكه الٹا بازبرس هوگي تو پهر عمل كرنے كا كا كيا فائده؟  إس طرح وه مؤمن كو نيك عمل كرنے سے روكنے كي كوشش كرتا هے هميں إس صورت حال سے هوشيار رهنا چاهيے اور إس خيال كو زهن سے جهٹك كر اپني نيت كي طرف متوجه هو جانا چاهيے اور اگر بالفرض نيت ميں كوئي فتور
 محسوس هورها هو تو پهر (لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا باللَّهِ) پڑه كر الله تعالى سے مدد طلب كرني چاهيے


إخلاصِ نيت كا مقصد
نیت کے إخلاص كا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالی کے لئے اخلاص ہو۔ اور ہر بات اور کام کا مقصد اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنا ہواور ریا، شہرت، فخر اور تکبر سےدور رہے ۔ بلاشبہ یہ (چیزیں ) قول اور عمل کی برکت ختم ہونے اور اجر و ثواب کے ضائع ہونے کا سبب ہے۔ جب انسان بچپن سے اپنے آپ کے محاسبےاور عمل میں خلوص ، دل کی پاکی اور تمام حالات میں سچائی کا عادی ہوجائے، اور اللہ تعالی کے بارے میں ، اس کی کتاب (قرآن مجید)، اس کے رسول (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآله وسلم)، علماء إسلام اور عام لوگوں کے ساتھ اپنے تمام معاملات میں خیر خواہی کا عادی ہوجائے ، تو اللہ تعالی اس انسان کے اعمال اور اقوال میں برکت فرمادے گا اور اس کو ہر خیر کی توفیق بخشے گا ۔ اللہ تعالی دلوں کو جاننے والا ہے اور نیتوں کا علم رکھنے والا ہے۔ چنانچه أرشاد باری تعالی ہے
أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ0 (الملک
یعنی: کیا وہی (اللہ ) نہیں جانتا ہے جس نے( سب کچھ ) پیدا کیا؟ ! جب کہ وہ باریک بین اور باخبر ہے ۔
اور دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ0
یعنی: ہم نے انسان کو پیدا کیا ہےاور اس کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں ان سے ہم واقف ہیں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں۔
إخلاص نيت ميں احسان كا إيك درجه ہے جیسا کہ رسول كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے أرشاد فرمایا
" کہ تو اللہ تعالی کی عبادت اس طرح کر كه گویا تو اسے دیکھ رہا ہو، اگر تو إيسا نه كرسكے تو پھر یہ تو سمجھ کہ وہ تجهے دیکھ رہا ہے۔ اللہ تعالی ہمارا امتحان لے رہا ہے تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ کون اپنے عمل میں احسان کرتا ہے اور کون غلط کار ہے۔ چنانچه اللہ تعالی کا ارشاد ہے
لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ0 (الملک
یعنی: (اللہ تعالی نے موت و زندگی پیدا کی) تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے، اور وہ غالب (اور)بخشنے والا ہے۔
عمل کے ساتھ احسان كا مطلب یہ ہے کہ نیت صحیح ہو اور ظاہر اور باطن میں اللہ تعالی کے لئے اخلاص ہو۔ جس شخص نے عمل میں غیر اللہ کو شریک ٹھہرایا ، تو اس کا عمل راکھ ہو جائے گا، اور اس کی محنت و مشقت ضائع ہو جائے گی۔اس کے قول اور فعل (اعمال)کی 
برکت زائل ہوجائے گی، اور وہ خسارہ زدوں میں سے بن جائے گا۔
إخلاص نيت كا إيك مقصد يه بهي هے كه مسلمان اپنے مباح کاموں میں بهي خیر کی نیت کرے گا، تو بہت ثواب ملے گا، (ہمارے) اسلاف میں سے بہت سارے لوگ عمل کرنے سے پہلے رُکتے تھے تاکہ وہ ریا ، شہرت، اور اللہ کی خوشنودی کے سوا دوسرے کسی بھی مقصد سے اپنی نیت کو  پاک وصاف کریں۔
اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کا مقصد یہ ہے کہ آدمی کا عبادت سے مقصود تقرب الٰہی اور جنت کا حصول ہو اور اگر عبادت سے مقصود کچھ اور ہو تو اس کی کئی قسمیں ہو سکتی ہیں، چند کی تفصیل حسب ذیل ہے
عبادت سے مقصود اگر غیر اللہ کا تقرب اور لوگوں کی طرف سے تعریف و توصیف کا حصول ہو تو اس سے عمل ضائع ہو جاتا ہے کیونکہ یہ شرک ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے صحیح حدیث میں مروی ہے کہ نبی كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
«اَنَا اَغْنَی الشُّرَکَاءِ عَنِ الشِّرْکِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا اَشْرَکَ فِيْهِ مَعِیَ غَيْرِی تَرَکْتُهُ وَشِرْکَهُ»’’میں تمام شرکاء کی نسبت شرک سے سب سے زیادہ بے نیاز ہوں، جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں اس نے میرے ساتھ کسی غیر کو بھی شریک کر لیا تو میں اسے اور اس کے شرک كو چھوڑکر دست بردارہوجاتا ہوں
عبادت سے مقصود اقتدار، منصب یا مال وغیرہ کی دنیوی غرض کا حصول ہو، تقرب الٰہی کا حصول مقصود نہ ہو تو یہ عمل بھی رائیگاں جاتا ہے اور اس کا تصرف انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے کا سبب نہیں بنتا، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے
0مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لا يُبْخَسُونَ
0أُوْلَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ لَيۡسَ لَهُمۡ فِي ٱلۡأٓخِرَةِ إِلَّا ٱلنَّارُۖ وَحَبِطَ مَا صَنَعُواْ فِيهَا وَبَٰطِلٞ مَّا كَانُواْ يَعۡمَلُونَ 
جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کے طالب ہوں، ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیں اور اس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جاتی 
یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آتش (جہنم) کے سوا اور کچھ نہیں اور جو عمل انہوں نے دنیا میں کیے سب برباد ہوئےاور جو کچھ وہ کرتے رہے، سب ضائع ہوئے۔
اس میں اور پہلی قسم میں فرق یہ ہے کہ پہلی قسم میں مقصود یہ تھا کہ اس کی تعریف کی جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا ہے جب کہ دوسرے شخص کا مقصود یہ نہیں ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں، لوگوں کی تعریف کرنے یا نہ کرنے کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں بلکہ اس کا مطمع نظر تقرب الہی کے بجائے کچھ اور ہی ہے جس کا تذکرہ ابھی ابھی کیا جاچکا۔
عبادت سے مقصود تقرب الٰہی کے حصول کے ساتھ ساتھ کوئی دنیوی غرض بھی ہو، مثلاً عبادت کے لیے طہارت کی نیت کے وقت جسمانی بشاشت اور نظافت کا ارادہ بھی کر لے، نماز ادا کرتے وقت جسمانی ورزش کا بھی ارادہ کر لے، روزے کے ساتھ جسمانی وزن کے کم کرنے اور فضلات کےدور کرنے کا بھی قصد کرلے اور حج کے ساتھ خريدو فروخت کا ارادہ بھی کر لے تو اس سے اخلاص کے اجر میں کمی آجاتی ہے اور اگرچہ غالب نیت عبادت ہی کی ہے تو اس سے کمال اجر و ثواب میں کمی آجاتی ہے لیکن وہ اسے گناہ یا جھوٹ کے ساتھ نقصان مضرت رسانی کا باعث نہ ہوگا کیونکہ حجاج کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
لَيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ أَن تَبۡتَغُواْ فَضۡلٗا مِّن رَّبِّكُمۡۚ (البقرة
اس کا تمہیں کچھ گناہ نہیں کہ (حج کے دنوں میں بذریعہ تجارت) اپنے پروردگار سے روزی طلب کرو۔
ليكن اگر اغلب نیت عبادت کی نہ ہو تو اسے آخرت میں اس کا کوئی ثواب نہیں ملے گا، اسے اس کا بدلہ دنیا ہی میں مل جائے گا اور یہ بھی خدشہ ہے کہ وہ اس کے لئے گناہ گار بننے کا باعث بهي بن جائے کیونکہ اس نے عبادت کو، جو اعلیٰ مقصود ہے، حقیر دنیا کے حصول کا وسیلہ کے طورپر اختیارکیا۔ ایسا شخص گویا کہ ان لوگوں کی طرح ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
وَمِنۡهُم مَّن يَلۡمِزُكَ فِي ٱلصَّدَقَٰتِ فَإِنۡ أُعۡطُواْ مِنۡهَا رَضُواْ وَإِن لَّمۡ يُعۡطَوۡاْ مِنۡهَآ إِذَا هُمۡ يَسۡخَطُونَ (التوبة
’’اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں کہ (تقسیم) صدقات میں تم پر طعنہ زنی کرتے ہیں اگر ان کو اس میں سے (خاطر خواہ) مل جائے تو خوش رہیں اور اگر (اس قدر) نہ ملے تو جھٹ خفا ہو جاتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلى الله عليه وأله وسلم ایک آدمی جہاد کا ارادہ رکھتا ہے مگر جہاد سے اس کا مقصود دنیوی مال کا حصول ہے، تو نبی كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا
«لَا اَجْرَ لَهُ»سنن ابی داود
’’اسے کوئی اجر نہیں ملے گا۔‘‘
اس شخص نے اپنے سوال کو تین بار دہرایا ہر بار نبی كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے یہی فرمایا اسے کوئی اجر نہیں ملے گا۔‘‘ صحیحین میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا
«مَنْ کَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيْبُهَا، اَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ اِلٰی مَا هَاجَرَ اِلَيْهِ
(صحیح البخاری، وصحیح مسلم)
جس شخص کی ہجرت دنیا کے حصول یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اس طرف ہوگی جس طرف اس نے ہجرت کی۔
اگر اس کے نزدیک دونوں امر مساوی ہوں یعنی نہ تو عبادت کی نیت غالب ہو اور نہ غیر عبادت کی تو اس کا معاملہ محل نظر ہے۔ زیادہ صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت میں اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا، اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے، جو عمل اللہ کے لیے بھی کرتا ہے اور غیر اللہ کے لیے بھی۔
اس قسم اور اس سے پہلی قسم میں فرق یہ ہے کہ اس سے پہلے قسم میں غیر عبادت کی غرض بالضرورۃ حاصل ہے اور اس کا ارادہ اس کے عمل کے ساتھ بالضرورۃ وجود پذیرہوا ہے مراد یہ ہے کہ اس نے اس دنیوی امر کا ارادہ کیا جو اس کے عمل کا قدرتی تقاضا ہے۔
اگر کہا جائے کہ اس قسم میں یہ جاننے کے لیے معیار کیا ہے کہ عبادت کا پہلو زیادہ غالب ہے یا غیرعبادت کا؟ اس کے جواب یہ هے کہ معیار یہ ہے، خواہ حاصل ہو یا نہ ہو کہ عبادت کے سوا اس کا کوئی دوسرا مقصود ہے ہی نہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے عمل میں عبادت کی نیت زیادہ غالب ہے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو غالب نیت غیر عبادت کی ہوگی۔
بہرحال نیت، جو دل کے ارادے کا نام ہے، إس مين إخلاص کا معاملہ بہت عظیم اور اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ نیت كا إخلاص ہی انسان کو صدیقین کے درجے تک پہنچا دیتی ہے اور نیت ہی انسان کو پست سے پست درجے تک گرا دیتی ہے۔ بعض سلف کا قول ہے: ’’اخلاص کی وجہ سے مجھے اپنے نفس کے خلاف جس طرح جہاد کرنا پڑا، کسی اور چیز کی وجہ سے مجھے ایسا جہاد نہیں کرنا پڑا۔
 اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاص نیت كا مقصد سمجهنے كي اور عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمين
اللہ تعالیٰ کے لئے جو اعمال کئے جاتے ہیں، ان میں نیت کے خالص ہونے کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ حضور أكرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ہر عمل کا دارومدار نیت ہی کو قرار دیا ہے اور یہ بھی ارشاد فرما دیا ہے کہ کوئی شخص جس مقصد کے لئے کوئی کام کرتا ہے، اسے وہی حاصل ہوتا ہے۔ اگر کوئی مال و دولت یا شہرت و ناموری کے حصول کے لئے جہاد جیسا اعلیٰ عمل بھی کرتا ہے تو اسے وہی ملے گا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا کوئی اجر نہ ہوگا۔ایک اور حدیث کے مطابق ایسے لوگ جو قرآن مجید کی تلاوت داد وصول کرنے کے لئے کرتے رہے، معاشرے میں اعلیٰ مقام بنانے کے لئے سخاوت کے دریا بہاتے رہے اور شہرت کے لئے جہاد جیسا عمل کرتے رہے، آخرت میں کوئی اجر نہ پاسکیں گے اور جہنم میں پھینک دیے جائیں گے۔ جب ایک عمل اللہ تعالیٰ کے لئے کیا ہی نہیں گیا تو پھر وہ اس کا اجر کیوں دے گا۔یہی وجہ ہے کہ ریا کاری کو شرک اصغر قرار دیا گیا ہے۔
انسانوں کے ساتھ خلوص کو حضور أكرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے خیر خواہی سے تعبیر فرمایا ہے۔ مشہور حدیث ہے کہ " الدین نصیحۃ " یعنی دین خیر خواہی کا نام ہے۔ایک بندہ مومن کا یہ کام ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ خیر خوا ہی سے پیش آئے۔ ان کا خیال رکھے اور ان کے حقوق پورے پورے ادا کرے۔ جو ایسا نہیں کرتا، اسے اس دنیا میں بھی ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اس خواری کے علاوہ کچھ نہ ملے گا۔ ہم سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ دوسرے اس کے ساتھ مخلص ہوں۔ اسی طرح دوسروں کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ہم اس کے ساتھ مخلص ہوں۔
صحابه كرام کے اندر یہ صفت کمال کی حد تک تھی ۔ حضرت عمر فاروق رضي الله تعالى عنه اکثر فرماتے تھے کہ اگر میرا کوئی عزیز ترین فرد بھی عدل و انصاف کے خلاف کوئی قدم اٹھائے گا تو میں اس سے بھی چشم پوشی نہیں کروں گا اور ایسا کیا بھی ۔ حساس موقعوں پر وظیفہ کی انجام دہی کے ذریعہ دوسرے لوگوں کو بھی احساس دلایا ۔ خلوت میں ، جلوت میں ، چھوٹا کام ہو یا بڑا ، آپ نے ہمیشہ اخلاص کو اپنی ذاتی زندگی میں اپنایا اور یہی وہ درس تھا جس کی بنا آپ کے چاہنے والے جوق در جوق سرحد پر دشمن سے جنگ کرنے دوڑے چلے جاتے تھے ۔ یہی وہ درس تھا جس کی بنیاد پر نه صرف جزيرة العرب بلكه تمام عالم میں معجز ہ نما اسلامی انقلاب نمودار ہوا ۔ایک بزرگ تحریر فرماتے ہیں : اگر فرض کریں (بہ فرض محال )کہ رسول اکرم صلى الله عله وآله وسلم اپنے تمام امور کو ایک معین ہدف کے تحت انجام دیتے تھے اور آپ کا ہدف یہی ہوتا تھا کہ اپنے ان امور کو انجام کے مراحل تک پہنچا دیں اور پہنچا بھی دیا کرتے تھے مگر کسی اور شخص کی طرف سے یعنی کسی اور کے نام سے ۔ کیا اس صورت میں کہا جا سکتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے اس فعل سے راضی نہیں ہوتے تھے ؟ کیا یہ فرماتے تھے کہ یہ فعل چونکہ دوسرے کی طرف سے انجام دے رہا ہوں لہذا انجام نہیں دوں گا ؟ یا نہیں ، بلکہ آپ کا ہدف اپنے امور کی انجام دہی تھی اور بس ۔ قطع نظر اس سے کہ وہ فعل کس کے نام سے یا کس کی طرف سے انجام دیا جا رہا ہے ۔
حقیقت یہی ہے کیونکہ ایک مخلص شخص کی نگاہ میں کسی فعل کی انجام دہی اہم ہوتی ہے۔ اس کا ذہن ” من و تو “ سے ماوراء ہوتا ہے ۔ وہ اس بات سے بے پرواہ ہوتا ہے کہ اس فعل کا سہرا کس کے سر بندھے گا؟ ایسا شخص با اخلاص ہوتا ہے اور خدا پر کامل یقین رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ الله تعالى یقینا اس کے فعل کا صلہ اس کو دے کر رہے گا کیونکہ الله تعالى ارشاد فرماتا ہے: ( وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ ) خدا کے اس لشکر میں اکثر و بیشتر میدان جنگ میں شہید ہو جاتے ہیں اور ظاہری اعتبار سے ختم ہو جاتے ہیں لیکن الله تعالى فرماتا ہے ( وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ )  یعنی یہ لوگ مرنے کے بعد بھی غالب ہیں
  اسلام میں اخلاص كو اصلاح دنیا کے لئے اصل و اصیل  بتایا گیا ہے ۔ ہر مسئلے کی شروعات یہیں سے ہوتی ہے ۔ قرآن کریم ميں هے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا  (سورہ شمس  ) اگر إبتداء اسلام میں اسلامی معاشرہ انسانی نفوس کے تزکیہ سے شروع نہ ہوا ہوتا اور اس میں مناسب حد تک با اخلاص اور متقی افراد پیدا نہ ہو گئے ہوتے تو اسلام قطعاً اپنی بنیادیں مستحکم نہیں کر سکتا تھا ۔ یہی مخلص اور متقی اور سچے مسلمان تھے جن کی بنیاد پر اسلام دوسرے شرکائے مذاہب اور
ممالک پر فاتح ہو کر تاریخ عالم میں اپنا نام ثبت کر سکا ہے ۔

إخلاصِ نيت کی اہمیت
قرآن مجيد اور آحاديث مباركه ميں بهت إهتمام سے إخلاص نيت كو بيان فرمايا گيا هے إس كي إهميت كا أندازه إس بات سے بهي بخوبي لگايا جاسكتا هے كه حضرت إمام بخارى رحمة الله عليه نے اپني صحيح بخارى كو مندرجه ذيل إسي حديث مباركه سے شروع كيا هے جس ميں نيت كے إخلاص كا ذكر كيا گيا هے 
عن أميرِ المؤمنينَ أبي حفصٍ عمرَ بنِ الخطَّابِ رَضِي اللهُ عَنْهُ قالَ: سَمِعْتُ رسولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقولُ: إِنَّمَا الأَعْمَالُ بالنِّيَّاتِ وإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ ما نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلى اللهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا أَو امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی زبان سے سنا ، وہ فرما رہے تھے کہ میں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا ۔ پس جس کی ہجرت ( ترک وطن ) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو ۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔ (صحیح بخاري)
تو اس حدیث مباركه سے بھی اخلاص نیت کی وضاحت ہوجاتی ہے۔ "اخلاص نيت" ایک عظیم نعمت ہے اور اس سے عاری ہونا نہایت مہلک ہے۔ اللہ تعالى عمل کو اسی وقت قبول فرماتے ہيں جب وہ عمل صالح ہو اور خالص اللہ تعالى کی رضا کے لیے هي کیا گیا ہو۔ تو جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں اس نے غیر اللہ کو شریک کیا، تو اللہ تعالى اس عمل کو قبول نہیں فرمائيں گے۔ خواہ وہ عمل کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔ اور جس نے خالص اللہ تعالى کے لیے عمل کیا، اللہ تعالى اس کےعمل کو قبول فرمائيں گے خواہ وہ عمل کتنا ہی کم كيوں نه ہو۔ چنانچه قرآن مجيد ميں اللہ تعالى كا فرمان هے
إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ [الزمر
”یقیناً ہم نے اس کتاب کو آپ (صلى الله عليه وآله وسلم) کی طرف حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے، پس آپ اللہ ہی کی عبادت کریں، اسی کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے۔”
تو يه معلوم هوا كه إخلاص إيك ایسی چیز هے جس کے بغیر اللہ سبحانہ تعالی کوئی بهي عمل قبول نہیں فرماتے، “اخلاص نيت”۔ هي وه عظيم نعمت هے جس کی وجہ سے کسی کے درجات بلند کیے جاتے ہیں اور کسی کے پست۔
اخلاص ایک بہت ہی اہم مقصد ہے اور وہ قبول عمل کا ایک رکن ہے۔ اللہ تعالیٰ کوئی بهي عمل صرف اسي حالت میں قبول فرماتے هيں جب وہ عمل صالح ہو, سنت كے مطابق هو اور خالص الله تعالى کی خوشنودی هي کے لیے كيا گيا ہو؛ لیکن اگر کوئی شخص ایسا عمل کرتا ہے جس میں وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی شریک کردیتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کا یہ عمل قبول نہیں فرماتے خواہ اس کا وہ عمل کتنا ہی زیادہ اچھا كيوں نه ہو۔
کسی چیز کے شرعی وجوب کو ثابت کرنے کے لیے قرآن کریم کی ایک دلیل ہی کافی ہے۔ مندرجه بالا آیت میں عبادت کے لیے وجوب "اخلاص نیت" کی واضح دلیل پائی جاتی ہے۔ لہذا کوئی بهي عبادت اخلاص نیت کے بغیر، اللہ کے نزدیک قابل قبول نہیں۔ چنانچہ جو بھی اچھاعمل صرف اللہ تعالى کی رضامندی وخوشنودی کی نیت سے کیا جائے (بشرطیکہ وہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق بهي ہو) وہی عمل اللہ تعالى کے نزدیک مقبول ہوگا،اور جس عمل میں کسی اور جذبے کی آمیزش ہوگی یا وہ عمل سنت رسول صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا مخالف ہوگا تو وہ عمل ناقابل قبول ہوگا۔
چنانچہ اخلاص اس طرح ہونا چاهيے کہ اپنے عمل میں اللہ وحدہٗ لاشریک لہ کی رضامندی کا ارادہ کيا جائے اور اسے ریا کاری وشہرت وغيره کے لیے نہ کيا جائے۔ کیونکہ جب عمل اخلاص سے خالی ہوگا، تو وہ عمل باعث ثواب هونے كي بجائے باعث وبال بن جائے گا۔ اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث مباركه پر غور کرنے كي ضرورت هے
شفیا اصبحی سے مروی ہے، وہ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو ایک ایسے آدمی سے سامنا ہوا جن کے گرد لوگ جمع تھے، انہوں نے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں؟تو لوگوں نے کہا: یہ حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه ہیں۔ میں ان کے قریب پہنچ کر ان کے سامنے بیٹھ گیا، جبکہ وہ لوگوں کوحدیث بیان کررہے تھے۔ جب وہ خاموش ہوگئےاورتنہائی ہوئی تو میں نے ان سے کہا: جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایسی حدیث سنائیے جسے آپ نے سنا اور سمجھا ہو۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے انہیں ایسی ہی حدیث سنانے کا وعدہ کیا، پھر آپ نے ایک حدیث سنائی جس میں تین افراد کا ذکر تھا؛
جن میں سے پہلا وہ قاری القرآن ہے جس سے قیامت کے دن اللہ تعالى پوچھيں گے کہ بتاؤ: کیا میں نے اپنے رسول(صلى الله عليه وآله وسلم) پر نازل كيا ہوا قرآن مجيد تمہیں نہیں سکھایا تها ؟ وہ کہے گا:جی ہاں، اے میرے رب! پھر اللہ فرمائيں گے: تم نے اپنے سیکھے ہوئے علم میں کیا عمل کیا؟ وہ کہےگا: میں دن رات اس کے مطابق عمل کرتا رہا، تو اللہ تعالى اسے جواب ديں گے کہ تم نے جھوٹ کہا۔ فرشتہ بھی اس سے کہے گا کہ تم نے جھوٹ کہا۔ پھر اللہ تعالى فرمائيں گے تو نے عمل کرتے وقت دل ميں يه ارادہ کیا تھا کہ یہ کہا جائے کہ فلاں شخص بهت آچها قاری ہے، چنانچہ تجھے وہ کہا گیا۔
پھر ایک مالدار(سخي) کو حاضر کیا جائےگا، تو اللہ تعالیٰ اس سے پوچھيں گے کہ کیا میں نے تیرے رزق میں وسعت نہیں دی تھی اور کیا تجھے ایسا نہیں بنا دیا تها کہ تو کسی کا محتاج نہ رہے؟ وہ مالدار جواب دے گا کہ جی ہاں، اے میرےرب!، پھر اللہ تعالى پوچھيں گے کہ پهر تو نے میرے دیئے ہوئے اس مال کا کیا کیا؟ وہ جواب دے گا کہ میں نے اسے صلہ رحمی میں خرچ کیا اور صدقہ کرتا رہا، تو اللہ تعالى اسے جواب ديں گے كه تونے جھوٹ کہا۔ فرشتہ بھی اس سے کہے گا كه تو نے جھوٹ کہا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائيں گے کہ تو نے اس طرح خرچ کرنے میں یہ ارادہ کیا تھا کہ یہ کہا جائے کہ فلاں شخص بہت سخی ہے، چنانچہ تجھے ایسا کہا گیا۔
پھر اس شخص کو حاضر کیا جائے گا جسے الله تعالى كے راسته ميں قتل کردیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس سے پوچھيں گے کہ تو کس لیے قتل کردیا گیا تھا؟ وہ جواب دے گا کہ مجھے فی سبیل اللہ جہاد کا حکم دیا گیا تھا، چنانچہ میں دشمن سے لڑا، یہاں تک کہ میں قتل کردیا گیا۔ تو اللہ تعالیٰ اسے جواب ديں گے كه تو نے جھوٹ کہا، اور فرشتہ بھی اس سے کہے گا کہ تو نے جھوٹ کہا۔ پھراللہ تعالیٰ فرمائيں گے كه تو نے جہاد میں یہ ارادہ کیا تھا کہ یہ کہا جائے کہ فلاں شخص بہت بہادر ہے،چنانچہ تجھے وہ کہا گیا۔
مذکورہ بالا تینوں قسم كے افراد کے بارے میں سوال وجواب بیان کرنے کے بعد حضرت ابو ہریرہ رضي الله تعالى عنه نے کہا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے میرے گھٹنے پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ اے ابو ہریرہ (رضي الله تعالى عنه ) وہ تینوں (قسم کے) افراد اللہ تعالى کی سب سے اوّلين مخلوق ہوں گے جن سے قیامت کے دن جہنم کی آگ كو سلگايا جائے گا (الترمذی)
تو إخلاص نه هونے كي وجه سے مذكوره بالا بڑے بڑے أعمال بهي نه صرف يه كه ضائع هو جائيں گے بلكه باعث عذاب بهي هوں گے - الله تعالى حفاظت فرمائے اور هم سب كو إس سے محفوط فرمائے (آمين 

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا
0وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اﷲَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ
’’حالانکہ انہیں فقط یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اسی کے لیے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے ﷲ کی عبادت کریں‘‘۔(البينه

نیت اور عمل میں ایک خاص تعلق ہے اور وہ یہ کہ کوئی بھی عمل حسنِ نیت کے بغیر قبولیت اور درجہ کمال کو نہیں پہنچتا۔ اگر ہم زندگی میں کسی اچھے اور نیک کام کی نیت کریں لیکن بعد ازاں کسی رکاوٹ کے باعث نہ کرنے کے باوجود بھی ہمیں اس نیک نیت کا اجر مل جائے گا۔ نیت خود ایک مطلوب عمل ہے۔ یہ دل کا عمل ہے اور دل کے عمل کا درجہ جسمانی اعضاء کے اعمال سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبي كريم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
اذا هم عبدی بحسنه فلم يعملها کتبتها له حسنة فان عملها کتبتها له عشر حسنات
(صحيح مسلم)
یعنی اگر کوئی شخص کسی نیک کام کی نیت کر لے لیکن کسی مجبوری کے باعث نہ کرسکے تب بھی اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھی جائے گی اور اگر وہ عمل کر لے تو پھر اس عمل کے کرنے پر دس گنا اجر لکھا جاتا ہے۔
الله تعالى نے ارشاد فرمایا
مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ اَمْثَالِهَا(الانعام
’’جو کوئی ایک نیکی لائے گا تو اس کے لیے (بطورِ اجر) اس جیسی دس نیکیاں ہیں‘‘۔
یہ نیکی کا کم سے کم اجر ہے۔ ایک نیکی پر اجر کہاں تک بڑھتا ہے إس كے متعلق حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کل عمل ابن ادم يضاعف الحسنة عشر امثالها الی سبعمائة ضعف
’’ابن آدم کو ہر نیکی پر 16 گنا اجر سے لے کر 766 گنا سے بھی زائد اجر ملتا ہے‘‘۔ (مصنف ابن ابی شيبه)
گویا ایک ہی عمل پر کسی کو 16 نیکیاں، کسی کو 166 نیکیاں، کسی کو اسی عمل پر 766 نیکیاں اور کسی کو 766 سے بھی زیادہ بے حساب نیکیاں ملتی ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمل تو ایک تھا، اس کی کمیت میں کوئی فرق نہیں تھا مگر ہر ایک کو جدا جدا اجرو ثواب کیوں ملا؟
یاد رہے کہ نیکیوں اور درجات کے کم و بیش ہونے کی وجہ حسنِ نیت ہے۔ نیت عمل کے پیچھے ٹمٹاتے ہوئے چراغ کی مانند ہے۔ نیت کا یہ چراغ جس قدر روشنی دے گا، وہ عمل اسی قدر روشنی پا کر جگمگائے گا اور اجر و ثواب پائے گا۔ کسی شخص کی نیت ٹمٹماتے ہوئے چراغ جیسی ہے، کسی کی لالٹین جیسی، کسی کی چراغ جیسی، کسی کی بلب جیسی، کسی کی ٹیوب لائٹ جیسی، کسی کی چاند جیسی اور کسی کی نیت سورج جیسی ہے۔ الغرض جتنی روشنی اور نور کسی کی نیت میں ہے، اسی قدر اس کے عمل کا ثواب بڑھتا جاتا ہے۔ نیت کے اندر موجود خالصیت اور للہیت اس نیت کے نور، قوت، برکت، قبولیت اور درجے کو بڑھانے کا سبب ہے۔ جوں جوں نیت کی قوت بڑھتی چلی جاتی ہے توں توں عمل کا درجہ اور اجر و ثواب بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔

اجرو ثواب میں فرق کا سبب
سورہ الاحقاف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَلِکُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا (الاحقاف
’’اور سب کے لیے ان (نیک و بد) اعمال کی وجہ سے جو انہوں نے کیے (جنت و دوزخ میں الگ الگ) درجات مقرر ہیں‘‘۔
یعنی ہر عمل کرنے والے کے لیے درجات مختلف ہیں۔ عمل کے نتیجے میں جدا جدا درجات کا ہونا نیتوں کی کیفیت کے باعث ہے کہ نیت کیسی ہے؟ جیسی نیت ہوگی عمل کے نتیجہ میں ویسے ہی درجہ کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نیتوں میں اخلاص کا درجہ نہایت بلند اور کامل ہونے کی وجہ سے ہی نبي كريم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لئے فرمایا کہ
آخری زمانے میں جب لوگوں کی نیتیں خراب ہو چکی ہوں گی يعني ان میں ملاوٹ آ چکی ہوگی تو وہ اُحد پہاڑ کے برابر بھی اگر سونا اللہ کی راہ میں خیرات کریں گے تو ان کو اتنا اجر نہ ملے گا جتنا میرے صحابہ میں سے کسی شخص کو ایک رائی کے دانے کے برابر خیرات پر ملے گا۔ (مجموع الفتاویٰ
چنانچه أجرو ثواب میں اس فرق کا سبب اخلاص اور خالصیت ہے۔ اسی لیے رسول كريم صلى الله وآله وسلم نے فرمایا
نية المؤمن خير من عمله و عمل المنافق خير من نيته.(المعجم الکبير
مؤمن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے اور منافق کا عمل اس کی نیت سے بہتر ہے‘‘۔
منافق عمل پر زیادہ زور دیتا ہے کیونکہ عمل نظر آنے والی شے ہے اور اس کے دنیاوی اثرات و نتائج بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ منافق کی پوری توجہ نیت کے بجائے عمل کو بڑھانے پر ہوتی ہے، اس لئے کہ اس کے عمل کی غرض و غایت ریا اور دکھلاوا ہے، دنیا میں مدح سرائی مقصود ہے۔ لہٰذا وہ عمل کی کمیت اور عمل کو مزین بنانے پر توجہ رکھتا ہے۔ وہ نیت کو رد کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ نیت لوگوں نے نہیں دیکھنی اور اس کے ظاہری فوائد اور اثرات بھی مجھے حاصل نہیں ہونے۔ دوسری طرف رسول كريم صلى الله وآله وسلم نے فرمایا کہ مومن کا حال منافق کے برعکس ہے۔ مومن کا عمل اگر قلیل بھی ہو تو وہ پرواہ نہیں کرتا، وہ اپنی نیت کو خالص رکھنے کی طرف متوجہ رہتا ہے اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ عمل لوگوں نے دیکھنا ہے جبکہ نیت پر رب کی نگاہ پڑ رہی ہے

دین کو خالص کرنے کا حکم
اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے اسی جانب متوجہ فرمایا
وَمَآ اُمِرُوْا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اﷲَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ.(البينة
’’حالانکہ انہیں فقط یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اسی کے لیے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے ﷲ کی عبادت کریں‘‘۔
یعنی اس کامل اطاعت میں ایسا اخلاص ہو کہ نیت و توجہ الی اللہ رہے، اس نیت اور توجہ میں کوئی جھول اور ملاوٹ نہ ہو۔ اخلاص پر مبنی اس اطاعت و بندگی کو اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے اس کے ساتھ مزید ایک شرط بھی بیان کی۔ ارشاد فرمایا
حُنَفَآءَ(البينة
’’(ہر باطل سے جدا ہوکر) حق کی طرف یکسوئی پیدا کریں‘‘۔
حُنَفَآءَ حنیف کی جمع ہے اور حنیف کا معنی ہے
هو الذی يتحنف عن الاديان أي يميل إلی الحق.(ابن منظور افريقی، لسان العرب
یعنی جو سارے مذاہب اور ادیان سے منہ پھیر کر دین حق کی طرف ہو جائے اور اپنے راستے میں اتنی استقامت اور کامل یکسوئی کے ساتھ سیدھا چلے کہ کسی قدم پر بھی وہ دائیں بائیں لغزش نہ کھائے۔
حُنَفآء کی شرط کے ساتھ اللہ رب العزت نے مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ کی تعریف کی کہ اخلاص ایسا ہو کہ صرف للہیت پر قائم ہو۔ اس میں توجہ اور التفات فقط الی اللہ ہو۔ ماسویٰ اللہ کا نہ کوئی دھیان رہے، نہ رجحان رہے، نہ گمان رہے اور نہ میلان رہے۔ بندہ کاملاً وَتَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا کی عملی تفسیر بنتا ہوا ہر ایک سے ٹوٹ کر صرف اُسی کا ہوجائے۔ جس کی راہ میں ایسی استقامت ہو وہی حنیف ہوتا ہے۔
نیتوں میں اس کامل اخلاص اور یکسوئی و استقامت کی طرف متوجہ کرنے کے بعد عمل کا حکم دیا کہ
وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوا الزَّکٰوةَ وَذٰلِکَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ.(البينة
’’اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیا کریں اور یہی سیدھا اور مضبوط دین ہے‘‘۔
اللہ رب العزت نے دین میں اخلاص کا حکم دیتے ہوئے اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ جیسے عمل کو مؤخر کیا۔ پہلے نیت کی صفائی کی، دل، روح، من، دھیان، رجحان اور خیال کی زمین میں اخلاص و للہیت کا پودا بویا ہے اور ہر باطل اور ما سوی اللہ سے توجہ کو ہٹایا ہے۔ جب یکسوئی نیت خالصتاً نصیب ہو گئی تو اُس کے بعد اعمال صالحہ کی بات کی اور فرمایا کہ َذٰلِکَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ یہ دین قیم ہے یعنی اگر دین مستقیم کی راہ چاہتے ہو تو اس ترتیب سے چلو۔ گویا نیت کی اصلاح
مقدم ہے، تب جا کر عمل قبول ہوتا ہے۔

عمل کے کمال یا زوال کی کنجی
لطف کی بات یہ ہے کہ اگر محض نیتِ حسنہ ہو اور عمل کسی مجبوری سے رہ جائے تو اُس نیت کا بھی اجر ہے لیکن اگر محض عمل نیک ہو اور اس کے پیچھے نیت نیک نہ ہو تو نیک عمل بھی کسی اجر کا باعث نہیں بنتا بلکہ رائیگاں جاتا ہے۔ گویا نیت بغیر عمل کے بھی درجہ اور ثواب دیتی ہے جبکہ بغیر نیت کے عمل، کمال تو دور کی بات درجہ اور ثواب بھی نہیں دیتا۔ اگر نیتِ باطلہ آ جائے تو نہ صرف عمل اجر سے محروم ہو جائے گا بلکہ باعثِ عذاب بھی ہوگا۔ عمل کی قبولیت یا مردودیت، عمل کے کمال یا عذاب میں بدل جانے کی کنجی نیت میں ہے۔ قرآن مجید میں الله تعالى
نے ارشاد فرمایا
فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ () اَلَّـذِيْنَ هُـمْ عَنْ صَلَاتِـهِـمْ سَاهُوْنَ () اَلَّـذِيْنَ هُـمْ يُرَآءُوْنَ ()وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ ()
پس افسوس (اور خرابی) ہے ان نمازیوں کے لیے۔ جو اپنی نماز (کی روح) سے بے خبر ہیں (یعنی انہیں محض حقوق اﷲ یاد ہیں حقوق العباد بھلا بیٹھے ہیں)o وہ لوگ (عبادت میں) دکھلاوا کرتے ہیں (کیوں کہ وہ خالق کی رسمی بندگی بجا لاتے ہیں اور پسی ہوئی مخلوق سے بے پرواہی برت رہے ہیں)o اور وہ برتنے کی معمولی سی چیز بھی مانگے نہیں دیتے‘‘۔ (الماعون)

یعنی یہ لوگ نماز پڑھتے ہیں مگر نماز میں نیت چونکہ دکھلاوا اور ریا کاری ہے لہذا وہ نماز بھی ان کے لئے دوزخ کے اذیت ناک عذاب کا باعث بن جاتی ہے۔ پڑھی تو نماز ہے مگر نیت باطل ہونے اور اس میں ریا ہونے کی وجہ سے نماز نہ اس کے اجر کو ضائع ہونے سے روک سکی اور نہ اس کو دوزخ میں پھینکے جانے کو روک سکی۔ اس نماز نے اسے دوزخ سے نکال کر جنت میں لے جانا تھا لیکن نیت باطلہ نے پورا حال بدل دیا۔ پس نیت و عمل کے حوالے سے یہ قرآن مجید کا قاعدہ ہے کہ نیت ہر عمل کی قبولیت و مردودیت اور ثواب و عذاب کی کنجی ہے۔

زندگی کا ہر لمحہ عبادت بنايا جا سكتا هے
ہم اپنی زندگیوں میں بہت سے عمل بلا جھجک کرتے ہیں لیکن وہ رائیگاں جاتے ہیں۔ جو عمل نیت اور ارادے کے بغیر کیا جائے وہ عمل نہیں بلکہ فعل کہلاتا ہے۔ اس کا کوئی اجر نہیں ہوتا کیونکہ یہ اعمال ہماری عادتیں ہیں۔ افعال اور اعمال میں فرق ہے۔ جو کام بغیر ارادے کے کئے جائیں وہ افعال و عادات ہیں اور جو کام ارادے کے ساتھ کئے جائیں وہ اعمال ہیں۔ فعل پر اجر نہیں چونکہ وہ عادت ہے، عمل کا اجر ہے اس لئے کہ وہ عبادت ہے۔
اگر ہم چاہیں تو زندگی کا ہر لمحہ عبادت بنا لیں لیکن افسوس کہ ہم نے ساری زندگی بے کار کر رکھی ہے۔ ہماری زندگی کے سب لمحے رائیگاں جا رہے ہیں۔ ہم روز کھانا کھاتے ہیں مگر کھانا کھاتے ہوئے کبھی ایسی نیت نہیں کرتے جس سے ہمارا کھانا بھی عبادت میں بدل جائے حالانکہ یہ ممکن ہے۔ اگر ہم یہ نیت کر کے کھائیں کہ اس کھانے سے اللہ کی عبادت و اطاعت اور دین مبین کی خدمت کے لئے میرے جسم کو قوت میسر آئے۔ اتنی نیت کرنے میں ہمارا کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا مگر جو کچھ رزق حلال میں سے ہم کھائیں گے اس کا ایک ایک لقمہ عبادت بن جائے گا۔ پس اتنی نیت نے ہمارے کھانے کو عبادت بنا دیا۔ ہم روز کھاتے ہیں مگر کبھی اس طرح کی نیت نہیں کی۔صرف بسم اللہ پڑھ لینے پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور کئی کو تو یہ توفیق بھی نہیں ہوتی۔
اسی طرح نیت نیند کو بھی عبادت بنا دیتی ہے۔ اہل اللہ کی نیند دوسرے لوگوں کی نفلی عبادت سے افضل ہے کیونکہ وہ جب سوتے ہیں تو اس نیت سے سوتے ہیں کہ جسم کو آرام ملے تاکہ صبح تازہ دم ہوکر پھر اللہ اور نبي كريم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نوکری کر سکیں، دین کی خدمت بجا لاسکیں، عبادت و اطاعت بجا لا سکیں، فرائض دین جو ان کے سپرد ہیں انہیں قوت کے ساتھ انجام دے سکیں۔ پس اس نیت سے سونے سے لے کر بیدار ہونے تک ان کا ہر لمحہ عبادت بن جاتا ہے۔ ملائکہ ان کے سرہانے اور پائنتی کھڑے ان کی بخشش کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔
گویا نیت کی قوت اتنی ہے کہ اُس نے نیند، چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کو بھی عبادت بنا دیا۔ ہم اپنی زندگی میں بے شمار عمل کرتے ہیں جس میں نیت ہی نہیں ہوتی۔ پس وہ افعال اور عادات ردی کی ٹوکری میں چلے جاتے ہیں۔ ان کا نامہ اعمال میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ صرف نیت کا مسئلہ اگر سمجھ لیا جائے تو پوری زندگی بدل جائے اور لمحہ لمحہ عبادت بن جائے۔ لہذا جو کام بھی کرنے لگیں بس یہ دیکھیں کہ یہ کام اللہ تعالى کی رضا کا ہے، اللہ تعالى اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امر کی متابعت و مطابقت میں ہے۔ یعنی اس کا تعین کرلیں کہ وہ کام اللہ کے حکم کے خلاف نہ ہو کیونکہ ہر وہ کام جو مباحات زندگی میں سے ہے اگر اللہ کے لئے اس کی نیت کرلی جائے تو وہ عادت نہیں رہے گی بلکہ عبادت ہو جائے گی۔

نیت میں ملاوٹ نہ کریں
عموماً کسی کام کو کرتے ہوئے ہم نیت ہی نہیں کرتے یا نیت تو کرتے ہیں مگر نیت اللہ کے لیے نہیں ہوتی، خالصتاً لوجہ اللہ نہیں ہوتی۔ نتیجتاً وہ عمل اجر و ثواب، اللہ کی قربت اور رضا کے حصول سے محروم رہتا ہے۔ دنیاوی اغراض و مقاصد آ جانے سے وہ عمل باطل ہو جاتا ہے۔ وہ عمل نہ تو اجر و ثواب کا باعث بنتا ہے اور نہ ہمارے قلب و باطن کو نور فراہم کرتا ہے۔ عمل کر کے باطن میں پھر بھی اندھیرا رہتا ہے۔ ایسے لوگ قیامت کے دن اللہ کے حضور کھڑے ہوں گے تو ان سے پوچھا جائے گا کہ اللہ کے حضور کیا عمل لے کر آئے ہو؟
سمجھانا مقصود یہ ہے کہ نیت باطل ہو تو بڑے بڑے اعلیٰ درجے کے اعمال بھی رائیگاں جاتے ہیں۔ اگر دکھلاوے اور ریا کی نیت سے ادا کی جانے والی نماز اور جہاد دوزخ کے اذیت ناک عذاب اور سب سے نچلے درجے کا باعث بن سکتے ہیں تو باقی کون سے اعمال ہیں جن کی نیت باطل اور ریا پر مبنی ہونے کے سبب وہ اعمال بندے کو بچا لیں گے۔ ہم نیت نہیں کرتے نتیجتاً ہمارے اعمال فقط عادات اور افعال رہ جاتے ہیں اور اگر نیت ہوتی ہے تو دل کے اندر کھوٹ ہوتا ہے۔ ہم نیت خالصتاً لوجہ اللہ نہیں کرتے بلکہ کوئی نہ کوئی غرضِ دنیا پیش نظر ہوتی ہے۔
نیت کی اقسام
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ نیکی کی نیت بھی کرتے ہیں لیکن ساتھ میں دنیاوی مقاصد کی نیت بھی کرتے ہیں۔ اس طرح وہ خلط ملط کر دیتے ہیں۔ اسی لیے علماء نے نیت کی تین اقسام بیان کی ہیں:
نیتِ صافیہ - نیتِ ممتزجہ - نیت كدره

نیتِ صافیہ/نیتِ خالصہ
نیت صافیہ/ خالصہ سے مراد وہ نیت ہے جو صرف اللہ کی رضا اور اس کی لقاء کے لیے ہو۔ یعنی عمل صرف اللہ کی رضا، اس سے ملاقات، اس کے حکم کی متابعت اور اس کی خوشنودی کے لیے کیا جائے۔ یعنی سوائے اللہ تعالى کی رضا کے کچھ مطلوب نہ ہو۔ نیت صافیہ کا مفہوم ایک واقعہ سے واضح ہوتا ہے:
حسنین رضوان الله عليهم کے بیمار ہونے پر حضرت علی ٰرضي الله تعالى عنه اور سیدہ حضرت فاطمہ الزہرا رضي الله تعالى عنها نے منت مانی کہ جب وہ شفا یاب ہوں گے تو ہم تين روزے رکھیں گے۔ جب وہ شفایاب ہو گئے تو انہوں نے شکرانے کے تین روزے رکھے۔ سیدنا علی ٰرضي الله تعالى عنه اور سیده فاطمه رضي الله تعالى عنها کے پاس افطاری کے لئے نہایت کم کھانا تھا جو بمشکل انہیں ہی کفایت کرتا۔ جب افطار کرنے لگے تو ایک شخص دروازے پر آیا اور اس نے آواز دی کہ میں یتیم ہوں، میرے پاس کھانے کا کچھ نہیں، بھوکا ہوں۔ اس گھرانے کے پاس اس وقت کھانے کے لئے جو کچھ تھا، وہ اس کو دے دیا اور خود پانی سے افطار کر لیا۔
دوسرے دن روزہ رکھا، عین افطار کے وقت صدا آئی کہ میں مسکین و محتاج ہوں اور بھوکا ہوں۔ اہل بیت اطہار نے افطاری کے لئے موجود اشیاء اسے دے دیں اور خود پانی سے افطار کر لیا۔ تیسرے دن بھی وقتِ افطار اس صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑگیا۔ آواز آئی کہ میں ایک قیدی ہوں اور کئی دن سے بھوکا ہوں۔ حسب سابق سارا کچھ اسے دے دیا اور خود پانی سے افطار کر لیا۔ قرآن مجید مين إن كي شان مين آيت أتري ارشاد فرمایا
وَ يُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّهِ مِسْکِيْنًا وَّيَتِيْمًا وَّاَسِيْرًا
’’اور (اپنا) کھانا اﷲ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً) محتاج کو اوریتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں‘‘۔(الدهر)
اس آیت میں یتیم، مسکین اور قیدی کا ذکر آیا ہے۔
مراد یہ کہ کھانا دینے اور خود فاقہ کر لینے کا سرے سے ہی کوئی سبب، غرض اور نیت نہیں ہے صرف اس لیے کھلایا کہ مولیٰ راضی ہو جائے۔ جس کی مدد کی اس سے اس کا نہ کوئی بدلہ مانگتے ہیں حتیٰ کہ شکر گزاری بھی نہیں مانگتے کہ یہ کلمہ بھی ہمارے دروازے پر نہ کہو کہ ہم آپ کے بڑے شکر گزار ہیں۔ اس لئے کہ یہ سب رب کے لیے کیا ہے، تمہارے لیے نہیں کیا۔ جب اللہ کی خاطر کئے ہوئے عمل کی نیت اتنی خالص، صاف اور صافیہ ہو جائے کہ اس میں نہ جزا کی گرد رہے، نہ کسی شکریہ کی طلب کی گنجائش رہے، نیت خالصتاً لوجہ اللہ کمال پر جا پہنچے اور جو کچھ ہے وہ فقط مولا کی رضا کے لیے کیا ہو تو اس نیت کو نیت صافیہ و خالصہ کاملہ کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسی نیت کے ساتھ اعمال کرنے والوں کو جنتوں اور اس کے چشموں کا مالک بنا دیتا ہے۔
جو لوگ اپنے تعلق میں اللہ کے ساتھ خالص ہو جاتے ہیں تو پھر وہ وہ لذت پاتے ہیں۔ ان کے ہاں خستہ حالی سے بہتر خوشحالی کوئی نہیں ہوتی۔ ان کو اس حال میں کیف و سرور ملتا ہے۔
كتب ميں حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ كا إيك واقعه لكها هے وه فرماتے ہیں کہ میں حج پر گیا، کعبۃ اللہ کے طواف کے دوران میری نظر ایک جوان پر پڑی جس کے چہرے سے معرفت کے آثار نمایاں تھے۔ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، ظاہری حالت بڑی خستہ تھی۔ میں سمجھ گیا کہ وہ فقر، افلاس اور حاجتمندی کے حال میں ہے۔ میرے پاس کل ایک سو دینار تھے، میں نے سو دینار جیب سے نکالے، ہاتھ میں رکھے اور تیزی سے طواف کے دوران اس کے قریب ہوا اور اس کے ہاتھ کے ساتھ ہاتھ ملا کر سو دینار اسے دینا چاہے۔ اس جوان نے میرا ہاتھ جھٹکے سے پیچھے کر دیا۔
میں دوبارہ آگے بڑھا اور اس کے کان میں آہستہ سے کہا کہ اے جوان! میں نے تیری خستہ حالت دیکھی ہے، میرے پاس یہ سو دینار تھے، اس سے ضروریات کو پورا کر لینا، میں صدق و اخلاص سے یہ خدمت کر رہا ہوں۔ اس جوان نے رک کر مجھے جواب دیا: ذوالنون اس رب کی قسم جس کے گھر میں تم اور میں طواف میں مصروف ہیں، اس خستہ حالی کے عوض مجھے اگر کوئی جنت اور جو کچھ جنت میں ہے سارا دے کر کہے کہ یہ حال بیچ دو، تو میں ساری جنت کے عوض بھی یہ حال کبھی بیچنے کو تیار نہیں۔ وہ دارالبقاء ہے اور تو دار فناء کے چند درہم و دینار دے کر میرا حال ختم کرنا چاہتا ہے۔ جو لذت مولا کے دئیے ہوئے اس حال میں ہے، وہ درہم و دینار میں نہیں ہے۔
گویا جب نیت صافیہ اور خالصہ ہو جائے تو زندگیوں سے اذیت اور پریشانی ختم ہوجاتی ہے اور جب اذیت اور دکھ ہی نہیں رہتا تو زبان پر کبھی شکوہ ہی نہیں آتا۔

نیتِ ممتزجہ
جس نیت میں ملاوٹ آ جائے، خلوص اور دنیوی حرص آپس میں خلط ملط ہوجائیں، اس کو نیت  ممتزجہ کہتے ہیں۔ حضرت امام احمد الرفاعی  رحمۃ اللہ عليه بيان كرتے هيں كہ
ایک شخص حج کے سفر میں حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیها سے ملا، اس نے کہا کہ مجھے آپ سے بڑی محبت ہے۔ میں آپ کا سچا طالب ہوں اور آپ کی محبت میں گرفتار ہوں۔ حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا اس کی بات سن کر رُک گئیں۔ آپ نے فرمایا: سچ کہہ رہے ہو؟ اس نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایا: اچھا ایک بات سنو، میری ایک بہن ہے تم نے شاید اس کو نہیں دیکھا، مجھ سے بدرجہا خوبصورت ہے۔ اس کے حسن و جمال کی کوئی حد ہی نہیں، ذرا مڑ کر میری بہن کو دیکھو اور پھر موازنہ کرو۔ آپ کی یہ بات سن کر اس شخص نے آپ کی بہن کو تکنے کے لئے دفعتاً گردن پھیری۔ اس شخص کے اس عمل پر آپ نے ایک طمانچہ اس کے منہ پر مارا اور فرمایا: بدبخت میرے ساتھ عشق کا دعویٰ بھی کرتے ہو اور کسی دوسرے کے حسن کو بھی تکنے کی خواہش رکھتے ہو۔ میرے حوالے سے نیت میں خالصیت، رغبت اور محبت کا تمہارا دعویٰ کلیتاً باطل ہے۔ محبت جس خالصیت کو چاہتی ہے، وہ خالصیت تیرے اندر نہیں، اس میں ملاوٹ ہے۔ ابھی تیری نیت میں گنجائش ہے کہ کوئی اس سے حسیں تر مل جائے تو دھیان ادھر کر لیا جائے۔ آپ نے فرمایا: جھوٹے! تیرا حال میری محبت میں اتنا دگرگوں ہے تو الله تعالى کی محبت میں تیری خالصیت کتنی کم ہوگی؟ میں نے بہت سے لوگ دنیا میں دیکھے کہ جن کی باتیں سنیں تو عارف لگے مگر ان کا تجربہ کیا تو کاذب لگے اور تم کذابین میں سے ہو۔

نیتِ كدره 
یہ نیت صافیہ کے بالمقابل دوسری انتہاء پر ہے۔ جو نیت ریاکاری، تکبر اور دنیا پرستی کے لیے ہو، اس کو نیت کدرہ کہتے ہیں۔ یعنی اس میں کامل کدورت اور میل کچیل آ جاتا ہے اور صفائی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ آدمی ظاہری نیک اعمال کرتا ہے مگر اس کا ارادہ و غرض دنیوی حرص و لالچ کے لیے ہوتا ہے۔
حضرت ابو یزید بسطامی رحمة الله عليه کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور پوچھا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ کے پاس اسم اعظم ہے۔ مجھے بھی اس کی تعلیم دیں تاکہ جب اس کو پکاروں تو میرے بھی کام ہو جائیں۔ آپ نے فرمایا: نادان اُس ذات کے لیے اسم محدود نہیں ہے یعنی اپنے دل کو اور اپنی جان کو اللہ کے ماسویٰ سے پاک کر لے۔ اللہ سے ایسا تعلق رکھ کہ اس تعلق میں کسی غیر کے سائے کا بھی گزر نہ ہو۔ کسی غیر کا خیال، ماسویٰ اللہ کا دھیان اور غیر کی کوئی گرد بھی بھولے سے ادھر نہ آئے۔ الغرض تیرے اور تیرے مولیٰ کی رضا کے درمیان کوئی حجاب نہ ہو۔ جب تو اپنا دل اللہ کے ماسویٰ سے اس طرح خالی کر دے گا تو پھر جس نام سے چاہے رب کو پکار، وہی اسم اعظم ہے۔ ہر اسم، اسم اعظم ہے۔ جو نام پکارے گا اسی نام کی کرامت ہوگی۔
کرامت نام میں نہیں بلکہ دل کو رب کی خلوت گاہ بنانے میں ہے۔ دل کو رب کے لیے صاف کرنے میں کرامت ہے کہ بندے نے اپنا دل مولا کے لیے کتنا خلوت کدہ بنایا ہے۔۔۔؟ اللہ کے تعلق کو اپنے قلب و باطن اور چاہت میں کتنی جگہ دی ہے۔۔۔؟ کتنا خالصتاً لوجہ اللہ ہے۔۔۔؟ جوں جوں ماسوی اللہ سے دھیان کا دامن، رغبت کا دامن اور حرص و لالچ کا دامن چھوٹتا جائے گا اور التفات سوئے خدا جوں جوں کامل ہوتا چلا جائے گا ہر اسم اسم اعظم بنتا چلا جائے گا۔ اس لئے کہ نیت جب خالصہ ہوجاتی ہے تو پھر بندے کے احوال بدل جاتے ہیں

نیت کو فاسد کرنے والی چیزیں
ہماری نیت کو فاسد کرنے والی دو چیزیں ہیں، جس سے سارے اعمال برباد ہو جاتے ہیں
ایک شے ہمارے خارج میں ہے یعنی ابلیس ایک شے ہمارے داخل میں ہے یعنی همارا نفس
یہ دونوں یعنی شیطان اور نفس وسوسہ اندازی اور اپنے اثر کے ذریعے ہمارے رجحانات، زندگی کے اعمال کے پیچھے کار فرما خیالات، ہمارے دھیان کے رخ اور ہماری نیتوں کو تبدیل اور گدلا کرتے ہیں۔ چنانچه الله تعالى نے ارشاد فرمایا
الَّذِيْ يُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِ. مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ. (الناس
’’جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ خواہ وہ (وسوسہ انداز شیطان) جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے‘‘۔
باطل نظریات اور عقائد کو وسوسہ کہتے ہیں۔ اس سے یقین ختم ہو جاتا ہے۔ یقین ختم ہو جائے تو اللہ کے ساتھ خالص تعلق قائم کرنے کی رغبت و شوق ختم ہو جاتا ہے۔ وسوسہ آنے سے یقین نہ رہا بلکہ وہم آگئے نتیجتاً وہ شوق و رغبت ختم ہو گئی جس نے خالصتاً ہماری توجہ کو اللہ سے جوڑنا تھا۔ دوران عمل طرح طرح کے خیالات آنے لگ جاتے ہیں اور یہ خیالات، آرزوئیں و امیدیں بن کر ہماری نیت کو گدلا کر دیتے ہیں۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے فرمایا:
اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَـکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا.(فاطر
’’بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے سو تم بھی (اس کی مخالفت کی شکل میں) اسے دشمن ہی بنائے رکھو‘‘۔
  

شیطان کے حملوں کے طریقے
شیطان ہمیں ہلاک کرنے اور ہمارے اعمال کو باطل کرنے کے لئے مختلف طریقے استعمال کرتا ہے۔ کبھی وہ ہمارے عقائد خراب کرتا ہے، کبھی افکار و نظریات پر حملہ کرتا ہے، کبھی یقین و توکل کو وسوسہ کے ذریعے ختم کرتا ہے۔ یعنی ہم پر اعتقادی، فکری اور نظریاتی حملے کرتا ہے۔ کبھی اس کا حملہ ہم سے گناہ، معصیت، نافرمانی کا ارتکاب کروانے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ ذیل میں ہم شیطان کے ان بڑے حملوں کے متعلق جانتے ہیں جو ہماری کمزوری و نقص کے باعث شيطان لعين كے لئے بڑے کارگر ہوتے ہیں اور ان کی پہچان کے بغیر ہم ان حملوں سے بچ نہیں سکتے۔

عبادت و اطاعت سے روک دینا
شیطان کا کام ہماری زندگی میں عملی خرابیوں کے لیے صرف یہ نہیں کہ وہ ہم سے گناہ کروائے۔ اس لئے کہ گناہ اور غلطی کے بعد اگر سمجھ آ جائے کہ غلط کر رہا ہوں تو اصلاح کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ توبہ کی توفیق ہو جاتی ہے، انسان گناہوں کا احساس کرلے تو سنورنے کے امکانات ہیں۔ لہذا ہم سے گناہ کروانا، غلط کام کروانا، شراب پر لگا دینا، بدکاری پر لگا دینا یہ تمام کام شیطان کے چھوٹے حملے ہیں کیونکہ یہ سب کچھ نظر آتا ہے، سمجھ میں آتا ہے۔ لہذا اس کا اس سے بڑا حملہ بھی ہے؟ وہ بندوں کو ظاہری گناہوں پر لگانے کے بجائے بندے پر انحصار کرتا ہے۔ وہ منتخب کرتا ہے کس پر کون سا حملہ کرنا ہے اور کون سا بندہ اس کے کس حملے کے لیے موزوں ہے۔ اس کے حملے کی حکمت عملی کیس ٹو کیس ہوتی ہے۔
لہذا بعض لوگوں پر شیطان کا حملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان سے ظاہری گناہ نہیں کرواتا مگر انہیں نیکی کے کاموں اور اللہ تعالى کی اطاعت بجا لانے سے روک دیتا ہے۔ شراب، جوا، بدکاری، حرام کاری پر نہیں لگاتا مگر نماز کے لیے اس کا دل اچاٹ کروا دیتا ہے۔ نماز میں غفلت کرا دیتا ہے۔ کبھی ایک نماز چھوٹ گئی، کبھی دو چھوٹ گئیں، کبھی تین، رفتہ رفتہ کئی چھوٹ گئیں۔ پہلے چھوٹنے پر دکھ ہوتا تھا، رفتہ رفتہ دکھ بھی جاتا رہتا ہے اور غم بھی جاتا رہتا ہے۔ الغرض وہ عبادت، اطاعت اور نیکی کا عمل چھڑوا دے گا اور ان کی طرف رغبت اور رحجان بھی کم کرا دے گا۔ نیکیوں کے عمل سے روک دینا دراصل گناہوں کا ارتکاب کروانے سے بھی زیادہ بڑا حملہ ہے كيونكه اس سے انسان کا نامہ اعمال خالی ہوجاتا ہے پهر بعض أعمال فرض يا واجب كے درجه ميں هوتے هيں تو انكو ترك كرنے سے گناه بهي لازم آتا هے سو شيطان لعين كے دونوں مقصد پورے هو جاتے هيں

بدعقیدگی پیدا کردینا
ایک بنیادی نکتہ یاد رکھ لیں کہ شیطان کا مقصود، غرض اور مطمع نظر انسان سے صرف گناہ کروانا نہیں بلکہ اس کا مقصد اسے اپنے ساتھ دوزخ میں لے جانا ہے۔ اس نے اللہ تعالى کی بارگاہ میں قسم کھائی تھی کہ میں تیرے بندوں سے جہنم کو بھر دوں گا۔ لہذا وہ کئی طریقوں سے اپنے مقصد کو پورا کرتا ہے۔ جس طرح وہ گناہ کرواکر اور نیکیوں سے روک کر اپنے مقصد کی تکمیل کرتا ہے اسی طرح وہ بندوں کو بدعقیدگی کی طرف مائل کرکے بھی اپنے مقاصد کی تکمیل کرتا ہے۔ مثلاً كسي نے پھلے ساری زندگی روزے رکھے، نمازیں پڑھیں، مدرسے بنائے، شریعت شریعت کی رٹ لگائی مگر حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب اور تعظیم و تکریم کو شیطان نے ابني مكارانه چالوں سے إس شخص كے دل سے ختم کروا دیا إس بدعقيدگي سے ظاہری عبادت کا بھی کوئی اثر باقی نہ رہا۔
اب خواہ ساری زندگی نمازیں پڑھیں، اس کی فکر شیطان کو نہیں ہوتی اس لئے کہ اسے معلوم ہے کہ میں نے اس شخص کو بدعقیدہ بنا دیا ہے اور اب یہ بدعقیدگی اس کو جہنم کا ایندھن بنا دے گی۔ نمازیں کسی کھاتے میں شمار نہیں ہوں گی۔ بندہ سب کچھ کرے لیکن شیطان اگر دل سے حضور آكرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، اہل بیت رضی اللہ عنہم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت ہی نکال دے، ان کا بغض اور ان سے نفرت و عداوت دل میں ڈال دے تو ایمان برباد ہو گیا اور بندہ جہنم کا ایندھن ہوگیا۔ صحابہ کرام و اہل بیت پر سب و شتم کرنے، ان سے نفرت کرنے سے سب کچھ برباد ہوجاتا ہے اور بندہ جہنم کا ایندھن بنا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالى کے محبوب و مقرب بندوں اولیاء، صالحین سے نفرت و عداوت کا دل میں پیدا ہونا بھی بدعقیدگی کی ایک شکل اور شیطان کا ایک حملہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالى نے فرمايا هے جسكا مفهوم يه هے كه " جو میرے ولی کا دشمن ہے میرا اس کے ساتھ اعلان جنگ ہے" ۔ شیطان لعين بوري كوشش كرتا هے كه وه بندوں کی اللہ تعالى سے یہی جنگ کروا دے ، پس وه يه جنگ اس صورت ميں كرواديتا هے كه الله تعالى كے وليوں كيلئے إسكے دل ميں نفرت پيدا كرديتا هے ۔
ان تمام باتوں سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ شیطان کا انحصار صرف ایک طریقہ پر نہیں ہے۔ اس کا اصل مقصد جہنم بھرنا اور اپنے ساتھ دوزخ میں لے جانا ہے۔ اس کے لئے وہ ہزار حربے جو چاہے استعمال کر لے۔ خواہ دنیوی حربہ استعمال کرے یا دین کے نام پر حربے استعمال کرے۔ اگر آخرت اور دین کے نام پر کوئی دنیا کمائے، لوٹ مار کرے تو اس سے شیطان کا کام ہو گیا اور بندہ جہنم کا ایندھن ہو گیا۔ اسی طرح اگر کوئی لوگوں کو وعظ کرے لیکن خود عمل اس وعظ و نصیحت کے مخالف کرے اور لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۔ (تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو) کی خلاف ورزی کرے تو اس سے بھی شیطان کا کام ہو گیا اور بندے کے وعظ بھی اکارت گئے۔ الغرض شیطان ایک طرف عبادات اور اطاعات سے بندے کو روک دیتا ہے اور دوسری طرف بدعقیدہ بنا کر جہنم کی طرف اس کا سفر یقینی بنا دیتا ہے إلا كه الله تعالى مرنے سے پهلے اسكو توبه كي توفيق عنايت فرماديں

نیت کو خراب کر دينا
شیطان کے انسان کو ہلاکت میں ڈالنے کا ایک بڑا حملہ انسان کی نیت کو خراب کردینا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ انسان کو عبادات، نماز، حج و زکوٰۃ اور سب نیک کام کرنے دے مگر ان سب اعمال کے پیچھے نیت کو خراب کر دے۔ نیت فاسدہ، باطلہ اور کدرہ ہو جائے۔ یعنی نماز جی بھر کے پڑھیں مگر طبیعت میں ریا، تکبر، حسد، عداوت، بغض و عناد اور اللہ کے بندوں کے ساتھ نفرت موجود ہو۔ اس سے سارے اعمال برباد ہوگئے۔ یہ سب سے بڑا خطرناک حملہ ہے کہ شکل میں تو نیک لگے مگر پتہ نہ چلے کہ یہ آدمی برا ہے۔
ذوالخویصرہ تمیمی نے مال غنیمت کی تقسیم کے موقع پر اعتراض کیا اور رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر کہا تھا
اِتَّقِ ﷲ
(اللہ سے ڈرو۔)
دوسری روایت میں ہے کہ اُس نے کہا
اعْدِل
(عدل کرو۔)
اس کی اس بات پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالى عنہ اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جیسی شخصیات نے تلواریں نکال لیں کہ اس بے باکی و بے ادبی پر اس کی گردن اڑادیں مگر حضور آكرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ اُس نے جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ ردعمل دیکھا تو حضور أكرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف پیٹھ پھیر کر اُس مجلس سے چلا گیا۔ اس کے اس عمل پر رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا كه اس کی نسل سے ایسے لوگ ہوں گے کہ اے ميرے صحابہ! تمہیں اپنی نمازیں ان کی نمازوں کے مقابلے میں چھوٹی نظر آئیں گی۔ تمہیں اپنے روزے ان کے روزوں کے مقابلے میں قلیل نظر آئیں گے۔ تمہیں اپنی تلاوت قرآن ان کی قرات قرآن کے مقابلے میں چھوٹی نظر آئے گی مگر ان کا قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔
يمرقون من الدين کمروق السهم من الرمية
’’دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر شکار سے خارج ہوتا ہے‘‘۔
(صحيح بخاری)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اُس کو تقویٰ، عبادات اور تسبیحات کو عام صحابہ سے کئی گناه زیادہ دیکھتے تھے مگر عبادات کی یہ تمام کثرت اُس کی طرف سے رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كي بے ادبی کے ارتکاب کی وجہ سے رائیگاں گئی۔
سوال پید اہوتا ہے کہ کیا اس نے کوئی برا کلمہ کہا ہے؟ نہیں بلکہ اس نے عدل اور تقویٰ کی بات کی۔ مگر خرابی کیا تھی؟ خرابی یہ تھی کہ اس کے اندر حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حیاء اور ادب نہ تھا۔ جس ذات کو عدل اور تقویٰ اختیار کرنے کا کہہ رہا تھا، بدبخت یہ نہ جانتا تھا کہ ان کے قدموں کی دھول سے تو عدل اور تقویٰ کائنات میں پیدا ہوا ہے۔ پس حیا اور تعظیمِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہونے کے سبب وہ جہنم کا ایندھن بن گیا۔
حضرت جندب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت علی رضي الله تعالى عنه خوارج کے خلاف جنگ کررہے تھے تو سیدنا ٰحضرت علی رضي الله تعالى عنه نے مجھے خوارج کی طرف جنگ سے پہلے پیغام دے کر بھیجا۔ میں ان کی تہجد گزاری، ان کے ماتھوں پر سجدوں کے نشان، عبادت کی کثرت اور تلاوت قرآن میں مشغول حال دیکھ کر متزلزل ہوگیا کہ ان سے جنگ کرنا کہیں ہماری غلطی نہ ہو کیونکہ یہ تو شریعت کے بڑے پابند ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر ٰحضرت علی رضي الله تعالى عنه کی زبان سے میں نے یہ نہ سنا ہوتا کہ رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے ان کی یہی نشانیاں بیان کرکے فرمایا ہے کہ یہ لوگ دین سے خارج ہوںگے۔ اگر یہ حدیث نہ سنی ہوتی تو ہم ان کے ظاہری حال کو دیکھ کر انہیں ولی سمجھتے۔ مگر بدعقیدگی اور تعظیم و ادب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہونے کی وجہ سے ان کا دین برباد ہوگیا اور وہ دوزخ کا ایندھن بن گئے۔
(طبرانی، المعجم الاوسط، )
گویا شیطان کے ایسے حملے بھی ہوتے ہیں کہ وہ بندوں کے ظاہری اعمال اسی طرح رہنے دیتا ہے مگر ان کی نیتوں، عقائد اور اخلاق سیئہ میں فتنہ داخل کر دیتا ہے۔ انہیں مغرور اور مکرزدہ کر دیتا ہے۔ نتیجتاً ان کی عبادت، عبادت نہیں رہتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ شیطان اور اس کے سارے حملوں کی پہچان پیدا ہو تاکہ ان حملوں سے بچنے کی سعی کی جاسکے۔
شیطان انسان کو مقام و مرتبہ پر فائز ہونے سے کیسے کیسے روکتا ہے؟ آیئے ایک اور واقعہ سے اس کے حملوں کا اندازہ لگاتے ہیں
ایک عبادت گزار ولی اللہ ایک دیوار کے سائے میں سوئے ہوئے تھے کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور ان کو جگا کر کہنے لگا کہ اللہ کے بندے دیوار گرنے لگی ہے جلدی سے یہاں سے اٹھ جا۔ وہ دیوار سے تھوڑے ہی دور ہوئے تھے کہ دیوار گر گئی۔ ولی اللہ نے اس شخص کو پکڑ لیا اور کہا مجھے اپنا تعارف کرا کہ تو میرا اتنا ہمدرد اور بہی خواہ کون ہے؟ اس نے کہا میں ابلیس ہوں۔ پوچھا: میرے ساتھ ہمدردی کیوں کی؟ حالانکہ میری تو ساری زندگی تیرے ساتھ جنگ رہی ہے۔ شیطان نے کہا کہ تجھ سے ہمدردی نہیں ہے، اس لیے بچایا کہ اگر دیوار گرنے سے تیری موت واقع ہوجاتی تو اللہ تعالى کی بارگاہ میں تو شہید گردانا جاتا اور تیرا درجہ جنت میں شہداء تک جا پہنچتا۔ میں تمہیں درجہ شہادت سے بچانا چاہتا تھا۔ تمہیں راہ حق سے تو ہٹا نہ سکا، اللہ کی عبادت سے روک نہ سکا، مگر اتنا ہی کر لیا کہ شہادت کے درجے سے تمہیں روک لوں۔
یاد رکھیں! نیت ایک میدان ہے جہاں شیطان کے حملے ہوتے رتے ہیں۔ اگر نیت کے محاذ پر انسان جیت گیا اور شیطان شکست کھا گیا تو کئے گئے اعمال اللہ کی قربت کا باعث بن جاتے ہیں۔ لیکن اگر نیت کے محاذ پر بندہ شکست کھا گیا اور شیطان جیت گیا تو سارے اعمال بیکار اور رائیگاں گئے۔ لہذا پوری زندگی میں خیر اور شر کا مدار نیت پر ہے۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جو اعلیٰ درجہ ملا، ان کے ایمان کو دوسروں پر جو ترجیح ملی کہ وہ سب پر فوقیت لے گئے، اس کی وجہ نبي كريم صلى الله عليثه وآله وسلم نے يه بیان فرمائی کہ
ما فاق ابوبکر رضی الله عنه اصحاب محمد (صلى الله عليه وآله وسلم ) بصوم ولا صلوٰة ولکن بشیء کان فی قلبه.
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو فضیلت اور اعلیٰ درجات ملنے کی وجہ کثرت صوم و صلوٰۃ نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک خاص حالت اور کیفیت ہے جو ان کے دل کے اندر جاگزیں ہے
دل كي يه حالت نیت صافیہ ہے، صدقِ قلب ہے۔ دل کی اس کیفیت اور صدق نے انہیں ایمان اور درجے میں اعلیٰ فضیلت دی۔ سو نيت كے متعلق رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كا مشهور فرمان هماري توجه كے لئے كافي هے
إنما الأعمال بالنيات
(بخاری)
الحمدللہ تعالیٰ تحریک تبليغي جماعت کے ہر پروگرام اور سرگرمی میں نیتِ خالصہ کے حصول کے لئے محنت کی تاکید کی جاتی ہے۔ اس لئے کہ شر کی بنیاد بھی نیت کی خرابی میں ہے اور زندگی میں خیر کی ابتداء بھی نیت کی اصلاح سے ہے۔ جدھر بھی ہم شر دیکھتے ہیں وہاں بنیادی سبب نیت کی خرابی کی صورت میں نظر آتا ہے۔
اگر ہم اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کی اصلاح کے متمنی ہیں تو ہمیں اپنے اعمال کی بنیاد کی طرف متوجہ ہونا ہوگا۔ نیت کو خالص کرنے سے ہی ہم اپنے اعمال کی سمت مثبت رکھتے ہوئے کامیابی کی طرف گامزن ہوسکتے ہیں۔
مولائے رحیم وکریم علیم بذات الصدور ہے۔ اللہ رب العزت دلوں کی بات ہی نہیں بلکہ وہ دل کی ہر دھڑکن کو جانتا ہے۔ اور جاننے کے ساتھ ساتھ حساب بھی لے گا۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَافِی الْاَرْضِ وَاِنْ تُبْدُوْ مَافِی اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہِ۔ (البقرہ
 اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اگر تم ظاہر کرو جو کچھ تمہارے جی میں ہے یا چھپاؤ اللہ تم سے اس کا حساب لے گا۔
جيسا كه عرض كيا جا چكا كه نیت دل کے پکے ارادے کوکہتے ہیں ۔جو بھی کام ہم کریں گے اس میں نیت کی اچھائی و برائی دیکھی جائے گی اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں نیت کے اعتبار سے ہی سزا و جزا کا فیصلہ ہوگا، ہمارا کوئی بھی عمل نیت کے بغیر قابل اعتبار نہیں ۔ ہمارے سارے اعمال کا دارو مدار ہماری نیت پر ہے۔ خالص اللہ تعالى کی رضا جوئی کی نیت سے کام کرنا ہی فلاح کا ضامن ہے۔ بخاری شریف کی پہلی حدیث پاک ہمیں اخلاص نیت کی تعلیم دیتی ہے ۔ دنيا جانتي هے كه اللہ رب العزت نے بخاری شریف کو وہ مقبولیت عطا فرمائی ہے کہ آج بارہ سو سال گزرنے کے باوجود یہ کتاب سند کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ حضرت امام بخاری رحمة الله عليه کا اخلاص ونیک نیتی ہے۔ امام بخاری رحمة الله عليه فقہ و حدیث میں مجتہدانہ شان کے حامل ہیں۔ انہوں نے ایک ایک حدیث کو درج کرنے سے پہلے طہارت، نظافت اور پاکیزگی کے انتہائی اہتمام کے ساتھ نماز و دعا کا اہتمام فرمایا اور سولہ سال کی گراں قدر محنت ومشقت کے بعد امت کو یہ عظیم ذخیرۂ حدیث عطا فرمایا، جس میں حضور سید عالم صلى الله عليه وآله وسلم کی پوری حیات طیبہ کو دین اسلام اور اسلام کے ہر ہر جز کو امت کے سامنے پیش کر دیا تاکہ آپ (صلى الله عليه وآله وسلم )کی مکمل حیات ہمارے سامنے آجائے۔ چنانچہ بخاری شریف کی پہلی حدیث نیت کے بارے میں ہے۔ رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:
اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَاتِ وَاِنَّمَا لِکُلِّ اَمْرِءِ مَّاتَوَلّٰی فَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتہٗ اِلَی اللّٰہ وَرَسُوْلِہٖ…..الخ۔
ترجمہ: بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور بے شک ہر انسان کے لئے وہی ہے جو وہ نیت کرے تو جس کی ہجرت اللہ و رسول کے لئے ہے تو اللہ و رسول کے لئے ہجرت کا ثواب اسے ملے گا اور جس کی ہجرت دنیا کے حصول یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لئے ہے تو اس کی ہجرت کا اجرو ثواب اسے وہی ملے گا جس کے لئے اس نے ہجرت کی ۔(صحیح بخاری

اگر ہم غور وفکر سے کام لیں تو صرف یہی ایک حدیث ہماری نیتوں کی درستگی اور اعمال کی پاکیزگی کے لئے کافی ہے۔ بڑے واضح اور جامع انداز میں نبی رحمت صلى الله عليه وآله وسلم نے ہمارے عمل و کردار کا رخ متعین فرمادیا ہے کہ ہمارے سارے اعمال و افعال نیت کے بغیر صحیح نہیں ہوتے ۔ جیسی نیت ویسی برکت ۔ آقائے دو عالم صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ بندہ کے بہت سے نیک اعمال کوانجام دیتا ہے۔فرشتے اس کو آسمان پر لے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان اعمال کو اس کے نامۂ اعمال سے نکال دو،کیونکہ اس نے یہ کام میری خوشنودی کے لئے نہیں کیے ہیں اور ہاں، فلاں فلاں اعمال اس کے نامہ اعمال میں درج کردو۔ فرشتے عرض کرتے هين الہ العالمین !اس بندے نے تو یہ کام کیے نہیں ہیں تب اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ اس نے دل میں ان کاموں کی نیت کی تھی۔ حدیث پاک میں ہے
نیۃ المؤمن خیرمن عملہ (المعجم الکبیر،طبرانی
مومن کی نیت عمل سے بہتر ہے۔
عمل و کردارمیں دکھاوا، اہلِ دنیا کی خوشنودی شامل ہوسکتی ہے مگر نیت میں ریا(دکھاوا) کا دخل نہ ہوگا۔ ہمارے کام کو اہل دنیا دیکھ سکتے ہیں مگر ہماری نیت کو صرف مولائے علیم و خبیر دیکھتا ہے۔لہٰذا ہمارے کام اور ہماری نیت کی جزا و سزا بھی رب تعالیٰ ہی عطا فرمائے گا۔ حدیث پاک کی روشنی میں ایک دلچسپ و سبق آموز واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔سرکار دوعالم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا
یومِ قیامت بارگاہِ الٰہی میں ایک بندہ پیش ہوگا جس کے داہنے ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جائے گا۔ جس میں بنده حج ، عمرہ ، جہاد ، زکوٰۃ ، صدقہ لکھا دیکھے گا۔ بندہ دل میں کہے گ کہ میں نے اس میں کچھ بھی نہیں کیا ،یہ میرا نامہ اعمال نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا یہ تمہار ہی نامہ اعمال ہے۔ تم اپنی زندگی میں یہ کہتے تھے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا توحج و عمرہ کرتا ، صدقہ و خیرات کرتا، جہاد کرتا ۔میں جانتا ہوں کہ تم اپنی اس نیت میں سچے ہو تو میں نے تم کو ان سب چیزوں کا ثواب عطا فرما دیا تونیت خالص (نِیَّۃُ الْمُؤمِنْ خَیْرٌمِّنْ عَمَلِہٖ ) مومن کی نیت عمل سے بہتر ہے۔مذكوره بالا واقعے میں تو عمل کا کوٹہ بھی نہیں ہے۔ نہ حج وعمرہ نہ جہاد و زکوٰۃ مگر صرف نیت کی برکت نے سارے اعمال دفتر میں درج کرادیئے۔
حضور نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ چار قسم کے لوگ ہیں ۔
ایک وہ هے جو مال رکھتا ہے اور علم کے مطابق مال کو خرچ کرتا ہے۔
 دوسرا وه هے جو نیت تمنا رکھتا ہے کہ اگر یہ مال میرے پاس ہوتا تو میں اس کو راہِ خدا میں خرچ کرتا۔ تو ان دونوں کا ثواب برابر ہے۔
 تیسرا وہ هے جو کہ مال کو بے جا و ناروا خرچ کرتا ہے
 اچوتھا وہ هے جو یہ کہتا هے و آرزو رکھتا هے کہ میرے پاس بهي اگر مال ہوتا تو میں ایسا ہی کرتا تو ان دونوں کا گناہ یکساں و برابر ہے۔ معلوم ہوا کہ نیت اس عمل کا حکم رکھتی ہے جو نیت کے مطابق ہو۔
حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپني كتاب "کیمیائے سعادت" میں بنی اسرائیل کے ایک عابد کا قصہ درج فرمایا ہے کہ قوم بنی اسرائیل کا ایک آدمی ریت کے ڈھیر کے قریب سے گزرا۔ قحط کا زمانہ تھا اس نے کہا کہ اگر اس ٹیلے (ڈھیر) کے برابر میرے پاس گیہوں ہوتے تو میں فقیروں اور مساکین میں بانٹ دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے نبی پر وحی نازل فرمائی اور حکمِ الٰہی ہوا۔ اے میرے نبی! اس شخص سے کہہ دو وہ صدقہ خدائے پاک نے قبول کر لیا ہے اور جس ڈھیر کے برابر گیہوں ہوتے اتنا ثواب تجھے عطا کیا گیا ہے۔ اور اگر تو نے صدقہ دینے کا عمل کیا ہوتا تو اتنا ہی ثواب تجھے ملتا۔
حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ سید عالم صلى الله عليه وآله وسلم غزوہ تبوک کے لئے مدینہ منورہ سے باہر تشریف لائے تو ارشاد فرمایا کہ مدینے میں بہت سے لوگ رہ گئے ہیں مگر وہ ہمارے رنج و دکھ جو بھوک سفر سے ہم اٹھا رہے ہیں اس میں وہ شریک ہیں۔ ہم نے عرض کی یا رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم ایسا کیوں ہے؟حالانکہ وہ ہم سے دور ہیں ۔ نبی رحمت صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا:وہ لوگ عذرکی وجہ سے ہمارے ساتھ جہاد میں شریک نہیں ہو سکے ہیں لیکن ان کی نیت ہماری نیت کی طرح ہے۔
نِیَّۃُ الْمُؤمِنْ خَیْرٌمِّنْ عَمَلِہٖ ایمان کو مضبوط اورنیت کو اچھی بنانے کے لئے ایک اور حدیث مباركه ملاحظہ فرمائیں۔ اس بات کے بیان میں کہ عمل بغیر نیت اور خلوص کے صحیح نہیں ہوتے اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جو نیت کرے گا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورصلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: أعمال نیت سے ہی صحیح ہوتے ہیں(یا نیت ہی کے مطابق ان کا بدلہ ملتا ہے) اورہر آدمی کو وہی ملے گا جو نیت کرے گا۔ پس جو کوئی اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليه وآله وسلم کی رضا کے لئے ہجرت کرے اللہ اور اس كي هجرت الله تعالى اور اس کے رسول کی طرف ہوگی۔ اور جو کوئی دنیا کمانے کے لئے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لئے ہجرت کرے گا تو اس کی ہجرت ان ہی کاموں کے لئے ہوگی۔(بخاری )
صالحین کرام و علماء كرام فرماتے ہیں کہ پہلے عمل کی نیت سیکھو اس کے بعد عمل کرو۔ ایک شخص لوگوں سے سوال کرتا پھرتا کہ مجھے کوئی ایساعمل سکھاؤ کہ رات دن اسی میں مصروف عمل رہوں اور کبھی نیکی و ثواب سے محروم نہ رہوں۔ تو ایک بزرگ نے فرمایا کہ ہمیشہ نیکی کی نیت رکھا کرو اور اسی نیک نیتی کے ساتھ عمل میں مصروف رہو رات و دن نیکی و ثواب کی دولت ملتی رہے گی۔ حضرت سیدنا امام حسن بصری رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ انسان کو چند روز کی محنت سے جنت نہیں ملے گی بلکہ اچھی نیت سے جنت حاصل ہوگی جس کی کوئی حد و انتہا نہیں ہے۔
کہ ہر شخص کو اس کی نیت کے ترازو میں تولاجائے گا۔ خلاصہ یہ ہے جان لو کہ نیت کا سر چشمہ اخلاص کے دریا سے ہے اور اسی سر زمین (اخلاص) میں اس کی پیدائش ہے۔ اسی لئے اس حدیث کی جبروتیت ہے کہ
اِنَّ اللّٰہَ لَایَنْظُرُوْ اِلیٰ صُوَرِکُمْ وَلَا اِلٰی اَعْمَالِکُمْ وَ لٰکِنْ یَنْظُرُ اِلٰی قُلُوْ بِکُمْ وَنِیَّاتِکُمْ (رواۃ مسلم
ترجمہ:اللہ تمہاری صورتوں اور کاموں کو نہیں دیکھتا مگر تمہارے دلوں اور نیتوں کو دیکھتا ہے
اور ايك اور حدیث مباركه ميں رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم فرمایا 
وَیَحْشُرُوالنَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃَ عَلٰی نِیّٰاتِہِمْ۔
ترجمہ:قیامت کے دن لوگوں کا حشر ان کی نیتوں پر ہوگا۔
شهيدوں کے خون کو غلط نيت نے پانی کردیا ہے۔ کل قیامت کے دن جہان والے اس قدر چیخ ماریں گے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتی۔ آج رات میں تو شراب کی مستی ہے۔ کل خمار ٹوٹے گا تو معلوم ہوجائے گا يعني جب سامنے سے پردہ ہٹ جائے گا تو ظاہر ہوجائے گا کسی نے کیا رکھا ہے۔ شرک یا توحید، کفر یا اسلام جب یہ بات مسلم ہوگئی کہ افعال و اعمال کی قدر نیت کے اعتبار سے ہوتی ہے سو بقدر وسعت ہوشیار اور بیدار ہونا چاہئے اور تصحیح نیت میں پوری کوشش کرنی چاہئے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ امید ہے کہ بات حاصل ہوجائے گی۔
کلامِ الٰہی قرآن مجید میں اور احادیث مبارکہ میں نیت کا بیان صراحت کے ساتھ موجود ہے ۔ ظاهر هے يهاں سب لکھنا ممکن نہیں ۔ بزرگانِ دین کے چند اقوال ملاحظہ فرمائیں 
حضرت سیدنا سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے میری والدہ نے کہا اے بیٹے!علم حاصل نہ کر جب تک تو اس پر عمل کرنے کی نیت نہ کر لے ورنہ قیامت کے دن وہ علم تیرے لئے وبال ہوگا۔
 حضرت ابو عبداللہ انطاکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یومِ قیامت اللہ تعالیٰ ریاکار کوکہے گا کہ جا اپنے عمل کا ثواب ان لوگوں سے لے جن کو تو دکھانے کے لئے عمل کرتا تھا۔
 حضرت سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اکثر نیک نیت کیا کرو کیونکہ ریا نیت میں داخل نہیں ہوتی۔
 حضرت سیدنا داؤد طالسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عالم جب کوئی کتاب لکھے تو اسے مناسب ہے اس سے نصرت دین کا قصد کرے نہ کہ حسن تالیف کے سبب اپنے ہم عصروں میں تعریف کا طالب ہو۔
 حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نیت کے معاملے میں دل پر اس لئے نظر فرماتا ہے کیونکہ دل ہی نیت کا مقام ہے اس لئے سید عالم صلى الله عليه وآله وسلم نے أرشاد فرمايا كه کاموں کا ثواب اور عمل کا دارومدار نیت سے ہے فرمایا۔ ہر شخص کو عمل و عبادت کا ثواب اتنا ہی ملے گا جیسی اس کی نیت ہوگی۔(کیمیائے سعادت )
اب اگر کسی کام میں ہماری نیت اہلِ دنیا کی خوشنودی حاصل کرنا ہے تو پھر اسے ریاکاری میں شمار کیا جائے گا ۔ بندوں کو اگرچہ اس قبیح نیت کی خبر نہیں مگر جو علیم بذات الصدور ہے (اللہ دلوں کی بات جانتا ہے) وہ دل کی ہر دھڑکن کو جانتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
رَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوْسِکُمْ ط اِنْ تَکُوْنُوْا صٰلِحِیْنَ فَاِنَّہٗ کَانَ لِلْاَوَّابِیْنَ غَفُوْرًا۔( اسرائیل
ترجمہ: جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے تمہارا رب خوب جانتا ہے اگر تم نیک ہو تو وہ رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔

وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمْ ۔
ترجمہ: اللہ تمہارے کاموں کو جانتا ہے
اللہ سے دعا ہے کہ عبادت و معاملات میں ہمیں نیک نیتی کی دولت سے نوازے ۔ آمین ،ثم آمین

إخلاصِ نيت کی فضيلت

اچھی نیت عمل خیر سے بہتر کیوں؟
ایک حدیث میں آتا ہے کہ ”نیة المومن خیر من عملہ“ مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے ، اس حدیث کی تفسیر میں علماء کا اختلاف ہے، جو درحقیقت اختلاف نہیں ،بلکہ اس حدیث کی مختلف تفسیریں اور تعبیریں ہیں۔ دراصل بظاہر اس حدیث میں یہ اشکال واقع ہوتا ہے کہ عمل کرنے سے نیت کا درجہ کیسے بڑھ سکتا ہے ، کیوں کہ نیت تو عمل سے پہلے ہوتی ہے ، پھر اس میں مشقت بھی کچھ نہیں اور عمل میں مشقت ہے ؟ اس لیے بعض علماء نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا کہ انسان کئی قسم کے ہیں ، ایک وہ کہ انسان نیک نیتی کرے اور عمل نہ کرے اور دوسرا وہ جو عمل تو کرتا ہے مگر نیت ٹھیک نہیں ہے ، مثلاً عمل میں ریا کا شائبہ ہے یا کسی دنیوی غرض کو حاصل کرنے کے لیے نیک کام کر رہا ہے تو چوںکہ اس دوسرے شخص کی نیت ٹھیک نہیں ، اس لیے اس کے عمل کا بھی کوئی ثواب نہیں ، بلکہ ریا وغیرہ کا گناہ ہو گا ،بخلاف اس شخص کے کہ جس نے صرف نیت کی تھی ، اس کو نیت کا ثواب تو مل گیا، گو وہ عمل نہ کر سکا اور پہلے شخص کو نہ نیت کا ثواب ملا اور نہ عمل کا تو اس صورت میں نیت عمل سے بڑھ گئی ، کیوں کہ بہرحال وہ نیت ثواب کا باعث ہوئی اور یہ عمل کچھ بھی نہ ہوا۔
بعض علماء نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ چوںکہ عمل تو ہوتا ہے محدود اورنیت انسان غیر محدود کی بھی کر سکتا ہے تو اس صورت میں نیت عمل سے بڑھی ہوئی ہے ، مثلاً حدیث میں ہے کہ ایک تو ایسا شخص ہے کہ جس کو خدا تعالیٰ نے مال بھی عطا فرمایا ہے اور علم بھی اور وہ اس مال کو اپنے علم کے مطابق صحیح جگہوں میں خرچ کرتا ہے ، یعنی جہاں خرچ کرنے کا حکم ہے وہاں خرچ کرتا ہے اور جہاں خرچ کرنے کی ممانعت ہے ، وہاں خرچ کرنے سے رک جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ شخص ایسا ہے کہ اس کو اجر اورثواب بہت ملے گا، کیوں کہ جہاں جہاں اس کو خرچ کرنے کی ضرورت ہو گی ، دل کھول کر خدا کی راہ میں خرچ کرے گا او رایک دوسرا شخص ہے کہ اس کے پاس نہ مال ہے اور نہ علم ہے، وہ اس کو دیکھ دیکھ کر حسرت کھاتا اور رشک کرتا ہے کہ کاش! الله تعالیٰ مجھے بھی اس طرح مال دیتا اور میں اس کو الله تعالى کی راہ میں اس شخص کی طرح خرچ کرتا ، تو نبی کریم صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا ” ھما فی الأجر سواء“ یعنی یہ دونوں اجر اور ثواب میں برابر ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ اس دوسرے کے پا س مال ودولت نہیں ہے، مگر اس کی نیت تو ہے کہ اگر ہوتا تو میں خرچ کرتا ، تو چوںکہ یہاں اس کی نیت شامل ہو گئی ، اس لیے اس کو اجر ثواب میں اس کے برابر کر دیا گیا۔
تیسرا وہ شخص کہے کہ الله تعالیٰ نے اس کو مال دیا، مگر اس نے علم حاصل نہیں کیا، اس لیے اپنے مال کو اندھا دھند اور عیش پرستیوں اور فضول خرچیوں میں خرچ کر رہا ہے اور کسی مفلس آدمی نے اس کو دیکھ کر کہ یہ شخص تو خوب مزے اڑا رہا ہے اور عیش کر رہا ہے ، اس لیے اس نے بھی یہ حسرت کی کہ اگر مجھے مال ملے تو میں بھی یوں ہی عیش اڑاؤں اور دنیا کے مزے لوٹوں، تو فرمایا کہ یہ دونوں گناہ میں برابر ہیں ، تو یہ برابری محض نیت کی وجہ سے ہوئی ، اس لیے انسان کوچاہیے کہ اگر کسی کو نیک کاموں میں خرچ کرتے دیکھے تو کہے کہ اگر مجھے بھی مال میسر ہوتا تو میں بھی خدا کی راہ میں خرچ کرتا او رکسی کو دیکھو کہ وہ اپنے مال کو بے جا خرچ کرکے گناہ میں مبتلا ہے تو یہ کہو کہ يا الله! تیرا احسان ہے اور شکر ہے کہ تو نے مجھے دیا ہی نہیں کہ میں اس خرافات میں خرچ کرتا۔
بعض اولیائے کرام کے کلام میں دیکھا کہ دو چیزیں عجیب وغریب ہیں: ایک توبہ اور دوسری نیت ، یہ دونوں عجیب وغریب اس لیے ہیں کہ نیت کا کام ہے کہ معدوم چیز کو موجود بنا دینا، مثلاً ہم نے کوئی عمل نہیں کیا، مگر نیت کر لی تو ثواب ملے گا تو بغیر عمل کے ثواب ملنے کا یہی حاصل ہوا کہ عمل موجود نہیں،مگر نیت نے اس کو موجود کر دیا اور دوسری چیز توبہ ہے جو موجود کو معدوم کر دیتی ہے، کیوں کہ انسان خواہ ستر (70) برس تک گناہ کرتا رہے، بلکہ شرک وکفر میں بھی مبتلا رہے ، جب بارگاہ الہٰی پر ایک سجدہ کیا اور معافی مانگی، سب یک قلم معاف اور گناہوں کا ایک بے شمار ذخیرہ جو موجود تھا اس کو ایک مخلصانہ توبہ نے معدوم کر ڈالا، یہ دونوں نعمتیں خدا تعالیٰ نے اہل ایمان کوعطا کی ہیں ، عجیب نعمتیں ہیں ”فللہ الحمد حمداً کثیراً“․

اخلاصِ نیت کی برکات
قرآن مجید اور احادیث میں جا بجا ترغیبات موجود ہیں کہ اعمال کی قبولیت کا دار ومدار نیت پر ہے اور نیت کے فضائل اور اس کا ثواب قرآن وحدیث میں اکثر جگہ موجود ہے ۔ چناںچہ قرآن مجید میں ایک جگہ خدا تعالیٰ نے فقرائے مسلمین کی بارے میں آیت نازل فرمائی جس کا شان نزول یہ ہے کہ مکہ کے سردار اور رؤسا نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے یہ درخواست کی کہ ہم آپ کی بات اس شرط پر سننے کو تیار ہیں کہ جس وقت ہم لوگ آپ کی مجلس میں حاضرہوا کریں تو آپ ان غریب اور کم درجہ کے لوگوں کو اپنے پاس سے اٹھا دیا کریں ، کیوںکہ ہمیں ان کے ہمراہ بیٹھنے میں سخت عار آتی ہے اور ہماری شان کے خلاف ہے کہ ہم اتنے بڑے بڑے لوگ ایسے کم درجہ کے لوگوں کے ساتھ بیٹھیں۔ جب ان لوگوں نے آپ سے یہ درخواست کی تو آپ اس سلسلے میں متردد تھے، حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی
وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ َ(الأنعام
ترجمه : آپ ( اپنے پاس سے ) ان لوگوں کو الگ نہ کریں جو اپنے پرورد گار کو صبح شام پکارتے ہیں، جس سے ان کی غرض یہ ہے کہ وہ خالص الله تعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں۔
یعنی ان کی عبادت اور الله کو پکارنا محض اخلاص اور نیک نیتی سے ہے اور کوئی غرض ان کی اس میں شامل نہیں ۔ یہی مطلب ہے لفظ ﴿ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ َ﴾ کا ، تو خدا تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ آپ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ان سرداروں اور رؤسا کی خاطر نہ اٹھائیں، خواہ یہ سردار آپ کے پاس آئیں یا نہ آئیں۔
اس آیت میں غور کرنے سے معلو م ہو گا کہ اخلاص اور نیک نیتی کی خدا تعالیٰ کے ہاں کتنی قدر ہے اوراس کا کتنا مرتبہ ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ یہ بات ناممکن ہے کہ نعوذ بالله نبی کو امیروں سے ان کی امارت کی بنا پر محبت اور انس ہو اور غریبوں سے ان کے افلاس اور فقر کی وجہ سے نفرت ہو، بلکہ نبی کریم صلی الله علیہ وآله وسلم جو اس ا مر میں متردد تھے ، اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو یہ حرص تھی کہ اگر میں چند منٹ کے لیے ان سردارانِ مکہ کی اس بات کو مان لوں اورتھوڑی دیر کے لیے دعوت اسلام کے خاطران سے تخلیہ میں گفتگو کر لوں تو ممکن ہے کہ یہ اسلام لے آئیں اور اس طرح ان کو ہدایت ہو جائے ، پھر یہ امرا امرا نہیں رہیں گے، بلکہ دل سے ویسے ہی درویش صفت ہو جائیں گے ، جیسے کہ یہ فقرائے مسلمین ہیں تو گویا آپ کا خیال مبارک یہ تھا کہ یہ چند روز کی بات ہے ، پھر جب الله تعالیٰ ان کو اسلام لانے کی توفیق دے دے گا تو پھر یہ معاملہ ہی نہیں رہے گا۔
غرض رسول أكرم صلى الله عليه وآله وسلم کو جو اس جانب میلان خاطر تھا وہ اس پر تھا کہ آپ (صلى الله عليه وآله وسلم)ان امراء کو فقراء صفت بنانا چاہتے تھے اور فقرائے مسلمین چوںکہ سرتاپا جاں نثار اور غلام تھے ، اس لیے ان کو بھی گرانی کے ہونے کا کوئی خدشہ نہیں تھا۔ یہ مصالح تبلیغ ودعوت تھیں، جن کی بنا پر آپ(صلى الله عليه وآله وسلم) کا خیال مبارک اس بارے میں متردد تھا، مگر چوںکہ خدا تعالیٰ کی شان بے نیازی ہے اور اس کی بارگاہ میں کسی کی پروا نہیں ، اس لیے فرمایا کہ خواہ یہ امرا اسلام لائیں یا نہ لائیں، آپ(صلى الله عليه وآله وسلم) پرواه نہ کریں ، لیکن ان مسلمانوں کو جو اخلاص اور نیک نیتی سے صبح وشام خدا کو پکارتے ہیں، اپنے دربار سے نہ ہٹائیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے جو یہ اتنا بڑا اعزاز واکرام ان فقرائے مسلمین کا فرمایا او ران کو ان سرداروں کے مقابلہ میں اتنا بڑا مرتبہ عطا فرمایا، اس کی علت کیا ہے اور اس کی وجہ کیا ہے ؟ سو اس کی جو علت خود حق تعالیٰ بیان فرما رہے ہیں ، وہ یہ ہے کہ ﴿ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ َ﴾ یعنی یہ مرتبہ ان کو اس لیے عطا کیا جا رہا ہے کہ یہ خدا تعالی کی عبادت محض اس لیے کرتے ہیں کہ ان کو اس کی رضا اور خوش نودی کی تلاش ہے ، کوئی دنیوی غرض یا اپنی ذاتی خواہش نہیں ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے جو اپنی نیتوں کو الله تعالى کی رضا جوئی کے لیے خالص کر لیا تھا اس اخلاص اور نیک نیتی کی یہ برکت ہے کہ ان کو اس مرتبہ عظمیٰ پر فائر کیا گیا اور فقط اسی پر اکتفا نہیں فرمایا، بلکہ یہ حکم دیا
وَ إِذا جاءَكَ الَّذينَ يُؤمِنونَ بِـٔايٰتِنا فَقُل سَلٰمٌ عَلَيكُم كَتَبَ رَبُّكُم عَلىٰ نَفسِهِ الرَّحمَةَ (الأنعام
اس میں بھی یہی ذکر ہے کہ جب یہ فقرا آپ کے پاس آئیں تو آپ ان کو سلام کیجیے اور ہمارا یہ پیغام پہنچا دیجیے کہ الله تعالىیٰ نے ان لوگوں پر رحمت نازل کرنے کو اپنے اوپر لازم فرمالیا ہے۔ تو یہ اعزاز بھی اسی نیک نیتی اور اخلاص کی بنا پر ہو رہا ہے کہ جب نبی كريم صلی الله علیہ وآله وسلم کے پاس یہ لوگ آئیں تو نبی كريم صلى الله عليه وآله وسلم  ان کو سلام کریں اور الله تعالیٰ کی درگاہ میں حاضر ہوں تو وہ ان پر رحمت فرمائیں اور تیسرا اعزاز یہ کہ امراء آئیں یا نہ آئیں، کوئی پرواه نہیں ، مگر ان لوگوں کو نبی كريم صلی الله علیہ وآله وسلم کے پا س سے ان رؤسا کی خاطراٹھانا گوارا نہیں۔
جو حدیث ابتدا میں ذکر کی گئى تهي اس میں نبی کریم صلی الله علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ " اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے" ، یعنی اعمال بمنزلہ جسم کے ہیں اور نیت بمنزلہ روح کے ہے ۔ جس درجہ کی نیت ہو گی اسی درجہ کا عمل ہو گا ، اگر نیت اچهي ہے تو عمل بھی اچھا ہو گا اور اگر خدانخواسته نيت ميں فطور هے يعني فاسد نیت ہے تو عمل بھی فاسد ہو گا۔ اس سے بھی ”نیة المؤمن خیر من عملہ“ کا نیا مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ جب نیت بمنزلہ روح کے ہے اورعمل بمنزلہ جسم کے ہے تو ظاہر ہے کہ روح کا درجہ جسم سے بڑھا ہوا ہے، آج کل کے فلسفیوں کو اور مادہ پرستوں کو اس جگہ یہ اشکال پیش آتا ہے کہ یہ باتیں محض ڈھکوسلے ہیں او محض سنی سنائی باتیں ہیں اور اس کے لیے کوئی عقلی دلیل نہیں ، کیوں کہ عقل اس بات کو تسلیم کرنے سے منکر ہے کہ عمل کا دارومدار نیت پر ہو ، لیکن ان کا یہ خیال غلط ہے ، اس کے لیے عقلی دلیل بلکہ مشاہدہ موجود ہے ، دیکھیے ، آپ باپ ہونے کی حیثیت سے اپنے بچے کو طمانچہ مار دیں تو اس سے اس بچے کے دل میں، جو آپ کی محبت ہے، اس میں کوئی فرق نہیں آئے گا، لیکن اگر آپ کسی محلے کے بچے کے طمانچہ مار دیں تو اس بچے کو بھی ناگوارہو گا اوراس کے والدین اورسرپرستوں کو بھی ناگوار گزرے گا، سوچنا چاہیے کہ آخر یہ فرق کیوں ہوا؟ وہی نیت کا فرق ہے کہ اپنے بچے کو مارنے میں اس کی اصلاح اور تربیت مدنظر ہے اور محلے کے بچے کو مارنے میں یہ چیز نہیں۔ اسی طرح اگر کسی شخص سے نادانستہ کسی کا نقصان ہو جائے کہ اس کی نیت اور ارادہ اس کا نقصان کرنے کا نہیں تھا ، مگر لاعلمی اور غیراختیاری طور پر وہ نقصان ہو گیا تو اگر یہ دوسرا شخص عدالت میں دعویٰ دائر کرے اور عدالت میں یہ بات ثابت ہو جائے کہ یہ کام اس نے قصداً نہیں کیا، بلکہ نادانستہ ہو گیا ہے تو عدالت اس کو سزا نہ دے گی اور اگر دے گی تو اس درجہ کی سزا نہ دے گی جیسی کہ قصداً کرنے میں دی جاتی ، تو جب دنیا کے احکام نیت سے بدل جاتے ہیں تو آخرت کے احکام بطریق اولیٰ بدل جائیں گے، حدیث ”نیة المومن خیر من عملہ“ کی ایک توجیہ علماء نے یہ کی ہے کہ نیت ایک ایسا فعل ہے کہ اس میں ریا کا احتمال نہیں ، اس لیے یہ عمل سے بہتر ہے، کیوںکہ عمل میں ریا کا احتمال ہے
اورایک توجیہ اس کی امام غزالی رحمة الله عليه نے لکھی ہے ، وہ یہ کہ عمل کا تعلق تو اعضا ظاہری سے ہے اور نیت کا تعلق باطن سے ہے ، تو اس کی مثال ایسی ہے کہ اطبا جو مریضوں کو دوا دیتے ہیں ان میں بعض تو اوپر لیپ کرنے کی ہوتی ہیں اوربعض دوائیں پلانے کی ہوتی ہیں ، تو ظاہر ہے جو دوا جسم کے اندر پہنچ کر اپنا اثر کرے گی ، وہ زیادہ موثر ہو گی بہ نسبت اس دوا کے جو اوپر سے لیپ کے طور پر لگادی جائے، اس طرح هي نیت اور عمل کا حال ہے۔
إنسانیت کی پیدائش کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کی ”عبادت “ ہے اور عبادت میں جان ”اخلاص“ سے هي پڑتی ہے چنانچه اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
قُلْ انَّ صَلَاتِيْ وَنُسُکِيْ وَمَحْیَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ․(الانعام
ترجمہ:(اے نبی!) کہہ دیجئے ! بے شک میری نمازاور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا (سب) اللہ کے لیے ہی ہے جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔
چنانچہ اخلاص تمام اعمال کی روح ہے، اور وہ عمل جس میں اخلاص نہ ہواُس جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو، گویا اخلاص عبادات واعمال میں روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہر انسان کا بنیادی مطمحِ نظر یہی ہونا چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرکے اس کی رضا کو حاصل کرے اور جنت کا دخول انھیں نصیب ہو، اس مقصد کے لیے اخلاص کا ہونا ضروری ہے، اللہ تعالیٰ کے یہاں اعمال کا حسن معتبر ہے نہ کہ محض کثرت، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے
لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ أحْسَنُ عَمَلاً (الملک
ترجمه : تاكه تمهيں جانچے كون تم ميں اچها عمل كرتا هے
اس آیت مباركه میں اللہ تعالیٰ نے اَعمال کے حسن کو جانچنے کا تذکرہ کیا ہے،کثرت کا نہیں؛چنانچہ اعمال کی قبولیت اور اس پراجر وثواب کے حصول کے لیے اس میں روحانیت واخلاص اور کیفیت کا اعتبار ہے نہ کہ محض تعداد یا قلت وکثرت کا۔ حضرات مفسرین نے آیت کے لفظ”اَحْسَنَ عَمَلاً“ کا یہی مطلب بیان کیا ہے کہ اس سے وہ عمل مراد ہے جو اخلاص پر مبنی ہو اور شریعت کے مطابق ہو۔اس آیت کے پیش نظر علماء محققین نے اعمالِ صالحہ کی قبولیت کے لیے دو شرطیں ذکر کی ہیں
 اخلاص یعنی وہ عمل صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے کیا جائے۔
 اتباعِ سنت یعنی وہ عمل قرآن وسنت کی تعلیمات کے موافق ہو۔ بدعت یا کسی اور طرح سے خلافِ شرع نہ ہو۔
ایک حدیث مباركه میں رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِيَّ الْغَنِيَّ الْخَفِيَّ(مسلم
ترجمہ:اللہ تعالیٰ متقی ، (مخلوق سے) مستغنی اور اخفاء پسند بندے کو پسند فرماتے ہیں۔
اس حدیث مباركه میں تین صفات والے بندے کواللہ تعالیٰ نے اپنا محبوب قراردیا ہے
 تقی
وہ بندہ جو ظاہر وباطن میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کے عذاب سے ڈرتا ہواور اس کی معصیت سے بچتا ہو۔

غنی
وہ بندہ جو لوگوں کے مال وجاہ سے کوئی غرض اور کوئی حرص ومفاد وابستہ نہ رکھتا ہو؛بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے فقر وحاجت کااظہار کرتا ہو، وہ مخلوق سے استغناء برتتا ہو اور اللہ کے سامنے خود کومحتاج بنا کررکھتا ہو۔

 خفی
وہ بندہ جو اپنے نیک اعمال بھی مخلوق کے دکھاوے سے بچنے کے لیے چھپ کر کرتا ہو اور اگر کوئی گناہ صادر ہوجاتا ہو تو اس کوبھی چھپاتا ہواور اس پر خوب توبہ واستغفار کرتا ہو؛ کیوں کہ اپنے گناہوں کا بندوں کے سامنے اظہار بھی شریعت میں پسندیدہ نہیں ہے ۔
حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ اخلاص سے خالی عمل کرنے والے شخص سے کہہ دو کہ خواہ مخواہ اپنے آپ کونہ تھکائے؛ کیوں کہ بغیراخلاص کے عمل کرنے والے کی مثال اُس مسافر کی سی ہے جواپنے زادِ راہ کی جگہ مٹی سے اپنی چادر بھر رہا ہو؛کیوں کہ اس طرح وہ خود کو فضول کام میں تھکا رہا ہے جس میں اُسے کوئی نفع نہیں ہے۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تم نیت کی درستی اور اس کی حقیقت اچھی طرح سیکھ لو؛کیوں کہ یہ عمل سے زیادہ طاقت ور ہے اور یہ نیت بسااوقات انسان کواتنی بلندی تک پہنچا دیتی ہے جہاں تک عمل نہیں پہنچا سکتا۔
بعض اسلاف سے منقول ہے وہ فرماتے تھے؛ میرا دل یوں چاہتا ہے کہ مجھے اور کوئی مصروفیت نہ ہوتو میں لوگوں کوصرف إخلاص نیت کی تعلیم دینا شروع کردوں؛ کیوں کہ بہت سے لوگ اس کی حقیقت نہ جاننے کی وجہ سے اپنے بڑے بڑے عمل ضائع کربیٹھتے ہیں۔
حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہر وہ عمل جسے میں لوگوں کے سامنے ظاہر کردیتا ہوں، اسے اپنے اعمال میں شمار نہیں کرتا؛ کیوں کہ ہم جیسوں سے اُس عمل کو اخلاص سے ادا کرنا اور باقی رکھنا مشکل ہے، جسے لوگوں نے دیکھ لیا ہو۔
اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ لوگوں کے دیکھنے کی وجہ سے عمل کو ترک کردیا جائے؛ بلکہ مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو دکھلانے کی نیت سے نیک عمل نہ کیا جائے، اس طرح اگر ایسے قصد وارادے کے باوجود لوگ وہ عمل دیکھ لیں یا وہ عمل لوگوں پر ظاہر ہوجائے تو یہ چیز اخلاص کے منافی نہیں ہے؛ بلکہ بعض اوقات لوگوں کوعمل پرابھارنے کی نیت سے اگر کوئی عمل ظاہرکردیا جائے تو اس میں بھی مزید اجز کی امید ہے۔ ان شاء اللہ، پھر یہ بات اُن اعمال میں ہے جواخفاء کے ساتھ کرنا افضل ہیں ورنہ جواعمال ایسے ہیں جواجتماعی شکل میں کیے جاتے ہیں تو اُن کو چھپا کرکرنے کی کوئی وجہ نہیں، مثلاً نماز باجماعت ادا کرنا، جہاد کرنا ، حج وعمره كرنا اور تعلیم وتدریس وغیرہ۔
ملاحظه فرمائيں اخلاص کی کچھ مثالیں ان اعمال کے بارے میں جنہیں انسان بہ کثرت بجا لاتا ہے ۔اولاً تو اپنے ہر نیک عمل میں اپنی نیت کو ٹٹولا جائے اور دیکھا جائے کہ آیا میں وہ عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کررہا ہوں یا کوئی اور فاسد غرض اس کامحرِّک ہے؟ یوں سب سے پہلے اپنی نیت میں اخلاص پیدا کرنا ضروري هے۔
وضو میں اخلاص كا هونا بهت ضروري هے كيونكه وضو ایک ایسا عمل ہے جس سے انسان کو پانچ وقت کی نمازوں میں عام طور سے واسطہ پڑتا ہے، اب وہ عمل پورے اخلاص اور اس بات کوذہن میں حاضر رکھ کر کیا جائے کہ یہ عمل میرے لیے اجروثواب کا باعث ہے اور میں اسے صرف اللہ تعالیٰ کی رضاکے لیے کررہا ہوں۔
اذان کا جواب دینے میں اخلاص كا هونا اور اسی طرح پانچ وقتہ اذانوں کاجواب دینا بھی عظیم اجروثواب کا باعث ہے اور اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے لیے مقامِ محمود کی دعا جس پرحدیث میں بہت بڑی سعادت کے حصول کی خوش خبری دی گئی ہے کہ ایسے شخص کو قیامت کی ہولناکیوں میں رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی تو ایسے بلند پایہ عمل سے ہر مسلمان کو دن میں پانچ مرتبہ سابقہ پڑتا ہے اس میں اگر اخلاص والی روح پیدا کرلی جائے اور اس بات کوذہن میں تازہ رکھاجائے تو خود اندازہ ہوجائے گا کہ یہ کتنی بڑی رحمت کا دروازہ اُس کے لیے کھل گیا ہے۔
اسی طرح نماز میں اخلاص، روزوں میں اخلاص،زکوٰة وصدقات میں اخلاص، توبہ میں اخلاص، اللہ تعالیٰ کی خشیت سے رونے اور گریہ وزاری کرنے میں اخلاص، باپردہ عورت کے لیے پردہ کرنے میں اخلاص یعنی اللہ تعالی کو راضی کرنے اور اتباعِ شریعت کی نیت کرنا ضروری ہے ورنہ تو وہ محض ایک معاشرتی رسم بن کررہ جائے گا۔اس حوالے سے بعض احادیث کاملاحظہ کرلینا ضروری ہے۔ مثلاً صدقات کے بارے میں ارشاد فرمایا:(وہ اشخاص جن کوقیامت کے روز اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے سائے میں رہنے کااعزازعطافرمائیں گے اُن میں ایک وہ) آدمی ہوگا جس نے صدقہ اس خفیہ اندازسے کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کوبھی پتہ نہ چلا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے؟ اسی طرح اسی حدیث میں ایک اُس شخص کا تذکرہ بھی ہے جس نے تنہائی میں اللہ کا ذکر کیا اور اس کے خوف وخشیت سے وہ رونے اور گریہ وزاری کرنے لگا تو اُسے بھی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے عرش کا سایہ نصیب ہوگا(بخاری شریف)۔امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی مُسند میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ حدیث منقول ہے کہ جس شخص نے”لاالہ الااللہ“ اخلاصِ قلب سے کہا وہ جنت میں داخل ہوگا(المناقب للکردری)۔ الغرض اس موضوع پر بہت سی احادیث ہیں ان سب کا خلاصہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں موجود ہے
اِنَّا نَزَّلْنَا الَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصاً لَہُ الدِّیْن(سورة الزمر
(اے نبی!) ہم نے یہ کتاب آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل کی ہے، پس آپ اللہ کی عبادت کیجیے اُس عبادت کواسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔
قرآن وسنت میں اخلاص سے کی گئی عبادات اورنیک اعمال پردنیا وآخرت میں مفید ثمرات وفوائد کی خوش خبری دی گئی ہے،اُن سب کی تفصیل اس مختصر سی تحریر میں دشوار ہے، چند فوائد ملاحظه هوں ۔
 اخلاص سے ہونے والے اعمال، خاص جہاد وقتال فی سبیل اللہ پر اللہ تعالیٰ اِس امت کی مدد ونصرت فرماتے ہیں۔
 آخرت میں مخلصین کوبلند وبالا درجات نصیب ہوں گے۔
 دنیا میں مخلصین کو گمراہی سے بچا لیا جاتا ہے۔
 مخلص عبادت گذار کے نورِ ہدایت میں بڑھوتری ہوتی رہتی ہے اور اس کا ظاہر وباطن نورِ ہدایت سے روشن ہوجاتا ہے۔
 زمین وآسمان کی مخلوق اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُس بندے سے محبت رکھتی ہے۔
 دنیاوی مصائب میں اُن کے لیے آسانی کی راہ پیدا کردی جاتی ہے۔
 دل کو اطمینان وسکون نصیب ہوتا ہے۔
 مخلصین کی پاکیزہ صحبت اس کومیسّر آتی ہے۔
 مصائبِ دنیوی جس قدر بھی شدید ہوجائیں اُن پر صبر کی توفیق مل جاتی ہے۔
 حسنِ خاتمہ کی عظیم تر نعمت سے وہ سرفراز كيا جاتا ہے۔
 قبر کی تنہائی اور وحشت میں اس کو انسیت اور انعاماتِ ربانی سے سرور وفرحت پہنچتی ہے۔
 اُس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور یوں وہ مستجابُ الدعوات بن کر اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں میں شامل ہوجاتا ہے۔
إس كے علاوه اور بيشمار اخلاص کے فضائل وفوائد هيں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اخلاص کی حقیقت اور اس کا نور نصیب فرمائے ،ہمیں اپنے مخلص بندوں کی جماعت میں شامل فرمائے اور اپنی رضا والی موت نصیب فرمائے۔ آمين
صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّم

إخلاصِ نيت کي محنت
سطور بالا ميں إخلاص نيت كي فضيلت كے متعلق بيان هو چكا هےيهاں إن شاء الله إخلاص نيت كي محنت كے متعلق كچهـ عرض كرنے كى كوشش كي جائے گي چونكه إخلاص نيت كا باب بهت هي إهم باب هے هماري تمام عبادتوں كا دارومدار نيت پر هي هے تو گويا نيت كا خالص هونا أعمال كي آصل بنياد هے سو إس كي محنت كرنا بهي بهت ضرورى هے اور اگر بالفرض إس سے پهلے إس ميں ميں كسي وجه سے سستي رهي هو اور يه محنت كرنے سے محرومي رهى هو تو اب بهي يه محنت كي جاسكتي هے بلكه كرني ضروري هے
يه تو هر شخص جانتا هے كه كوئى بهي مقصد حاصل كرنے كيلئے محنت كرنا لازم وملزوم هے پهر يه بهي بات واضح هے كه محنت تو هر شخص كرتا هے ليكن كامياب وهي هوتا هے جو محنت صحيح طريقه سے كررها هو اگر كوئى محنت تو كررها هے ليكن اسكا طريقه صحيح نهيں هے تو وه چاهے كتني هي محنت كرتا رهے وه كهبي بهي منزل پر نهيں پهنچ پائے گا إسكي مثال إسيطرح هے كه إيك شخص نے جانا تو إسلام آباد هے ليكن سفر وه كراچي كي طرف كررها هے وه چاهے كتني هي رفتار سے سفر كرتا رهے ليكن وه إسلام آباد كهبي بهي نهيں پهنچ سكے گا كيونكه اسكي محنت كا رخ صحيح نهيں هے
إسي طرح دين كے كسي بهي جز كي محنت كا فائده تب هوگا اگر وه صحيح نهج پر هوگي اور صحيح نهج وهي هوسكتي هے جو هميں رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم اور صحابه كرام سے محنت كا طريقه ملا اگر هم اپني مرضي كے طريقه پر محنت كريں گے تو كهبي بهي كامياب نه هونگے ليكن اگر وهي محنت رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقه پر هوگي تو إن شاء الله هم دونوں جهانوں ميں كامياب هوجائيں گے
يهي صورت حال إخلاص نيت كي محنت كي هے كه إخلاص نيت كو صحيح معنوں ميں حاصل كرنے كے لئے محنت ضروري چيز هے اور إس كے فضائل اور بركات حاصل كرنے كے لئے يه محنت رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے طريقه پر هونا ضروري هے قرآن و سنت كي روشني ميں يه محنت بهي مندرجه زيل تين طريقوں سے هونا ضروري هے

 دعوت دينا

 مشق كرنا

 دعا كرنا

تو إخلاص نيت كے ثمرات صحيح طرح سے حاصل كرنے كے لئے ضروري هے كه هم إس كي محنت بهي اوپر ذكر كرده تين طريقوں سے كريں تاكه إخلاص نيت كے فوائد وبركات سے مستفيد هوسكيں

 إخلاصِ نيت كي دعوت
إخلاص نيت كي محنت ميں دوسروں كو إس كي دعوت دينا إيك إهم حصه هے إس راسته پر عمل پيرا هوكر إنسان نه صرف خود إخلاص نيت كے فضائل و فوائد حاصل كرتا هے بلكه وه دوسروں كو بهي إس كي ترغيب ديتا هے اور إس طرح إيك مسلمان ميں يه فكر بيدار هوجاتي هے كه هر هرعمل كرنے سے پهلے وه اپني نيت كي طرف دهيان ديتا هے جيسا كه قرون أولى ميں مسلمانوں كا يه طريقه كار تها
إخلاص نيت سے يه مطلوب هے كه هر هر وقت اور هر عمل سے پهلے اپني نيت كي طرف توجه ديں - إخلاص نيت كيا هے إيك إيك مسلمان كو إس كي قيمت سمجهاني هے هر إيك كو يه بتانا هے كه جب تك هماري نيت خالص الله تعالى كي رضا والي نهيں هوگي تب تك أعمال كے فوائد اور فضائل هميں نهيں مل سكتے نيت كا معامله كتنا إهم هے إس كے متعلق رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے أرشادات لوگوں كو سنانے هيں
إسي كے ساتهـ صحابه كرام كے واقعات سنانے هيں إس دعوت كے دينے كا مقصد يه هے كه هماري نيتيں درست هوجائيں اور هم هر عمل سے پهلے اور عمل كي درميان اور عمل كے آخر ميں اپني نيتوں كو ٹٹولنے كے عادي بن جائيں
يه إيك كهلي هوئي حقيقت هے كه آج هم اپني ناداني اور الله تعالى كے وعدوں اور وعيدوں پر عدم يقين كي وجه سے اپنے أعمال صرف مخلوق كو دكهانے كي نيت هونے كي وجه سے آخرت كے آجر سے محروم هو جاتے هيں اور إس كو هم صحيح بهي سمجهتے هيں ليكن كيا يوم القيمه كو مخلوق إن أعمال كا آجر هميں دے گي تو يقيناً إس كا جواب نفي ميں هے اور قيامت والے دن جب الله تعالى يه فرما ديں گے كه جن كے لئے يه أعمال كيے تهے انهي سے إس كا آجر لے لو تو پهر هم كدهر جائيں گے كيونكه اس دن تو آجر صرف اور صرف الله تعالى هي سے مل سكے گا اور وه بهي صرف أن أعمال كا جو خالصتاً الله كي رضا كے لئے كيے گئے هوں گے
هر مسلمان كو نيت كے خالص هونے كے فوائد اور فضائل اور فاسد نيت كے نقصانات قرآن مجيد كي آيات اور آحاديت مباركه كي روشني ميں لوگوں كو بتانے هيں جو شخص جتني زياده دعوت دوسروں كو دے گا اتنا هي أس كي اپني نيت ميں إخلاص آنا شروع هو جائے گا اور وه عمل كرنے سے پهلے خود اپني توجه اپني نيت كي طرف كرنا ضروري سمجهے گا
إخلاص نيت كي دعوت سے يه چاها جارها هے كه هم اپنے تمام أعمال ميں اپني نيت كو خالص الله تعالى كي رضا كے لئے ركهنے والے بن جائيں اور فاسد نيت سے اپنے آپ كو بچانے والے بن جائيں اور إسكي دعوت قرآن مجيد اور آحاديث مباركه كي روشني ميں دوسروں كو دينے والے بن جائيں جيسا كه ارشاد خداوندي هے
ادْعُ إِلٰی سَبِيْلِ رَبِّکَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّکَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهٖ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ(النحل
اپنے رب کے راستے کی طرف بلاؤ (1) دانائی سے(2)اور اچھی نصیحت سے(3)اور ان سے ایسے بحث کرو جو سب سے بہتر ہو،بےشک تمہارا رب اس کو خوب جاننے والا ہے جو اللہ کے راستے سے گمراہ ہوا اور وہ راہ پانے والوں کو خوب جاننے والا ہے۔
اس آیت مباركه کی روشنی میں ہم سوشل میڈیا پربهي دعوت وتبلیغ يعني آمر بالمعروف و نہی عن المنکر کے یہ اصول اخذ کرسکتے ہیں الله تعالى هميں إس كي توفيق عنايت فرمائے - آمين
 اب إن شاء الله " إخلاص نيت كي مشق" كے متعلق كچهـ عرض كرنے كى كوشش كي جائے گي ليكن "إخلاص نيت كي مشق" كي بات سے پہلے مختصر سا ذكر تخليق إنساني كے مقصد كا كرنا ضروري هے تاكه هم اپني مقصد حيات كو جان سكيں
قرآن پاک میں اللہ عزوجل نے واضح الفاظ میں انسان کی تخلیق کے مقصد کو بیان فرما دیا ہے
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۝ مَآ اُرِيْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِيْدُ اَنْ يُّطْعِمُوْنِ۝ اِنَّ اللہَ ہُوَالرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِيْنُ۝ (الذاریات  
 میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں ، میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں ، اللہ تو خود ہی رزاق ہے ، بڑی قوت والا اور زبردست
يعني تخليق إنساني كا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ کہ ہم دنیا میں بس کھانے پینے ، لہوولعب میں وقت برباد کرنے ،شادی بیاہ، سیرو تفریح کے لیے آئے ہیں اور پھر مر کر ختم ہوجائیں گے اور تخليق إنساني كا مقصد صرف یہ بهي نہیں ہے كه بس نماز ،روزہ ،حج وغيره ادا کرلیا اور چند خوشی غمی کی رسوم کو پورا کر دیا بلکہ إهل علم سمجھتے ہیں کہ عبادت کا مفہوم بڑا وسیع ہے، انسان کی ساری کی ساری زندگی اللہ تعالی کے سامنے تسلیم ہو جانا ہی کامل عبادت ہے۔اسی طرح انسان پرلازم ہے کہ وہ خود زندگی کے الہی ضابطہ حیات یعنی اسلام پر چلے اوراپنے قرب و جوار میں بالخصوص اور ساری انسانیت تک بالعموم اسلام کے پیغام کو پہنچانے کی مسلسل جدوجہد کرے۔اس فرض سے ہر وہ آدمی سبکدوش نہیں ہو سکتا جو اس بات کا دعویدار ہے کہ اس نے محمد عربی صلى الله عليه وآله وسلم کے پیغام کو مکمل طور پر قبول کر کے اسلام کو اپنی زندگی کا کامل ضابطہ حیات مان لیا ہے۔
آج انسانوں بالخصوص مسلمانوں میں احساس ذمہ داری کا عنصر كافي حد تك مفقود ہوگیا ہے۔۔آخرت کے انجام کی بيفكري اپني إنتها كو جهو رهي هے ، کوئی نہیں جانتا بلکہ جاننا بھی نہیں چاہتا کہ اس کے پیدا کرنے کا مقصد اصلی کیا ہے کیوں کہ اگر وہ یہ جان لے گا تو اس سے ذمہ داری نبھانے کا مطالبہ کیا جائے گا اور آج کا انسان اپنا أصل کام يعني اپنا فرض منصبي ادا کرنے کو بالکلیہ تیار نہیں۔۔
عام مشاهده هے كه ایک عقلمند انسان جب کوئی دنيوي کام بهي کرتا ہے تو اس کے کچھ مقاصد اور اغراض ہوتے ہیں ، جن کی تکمیل کے لیے وہ شب و روز جد و جہد کرتا ہے ، جانی ومالی قوت صرف کرتا ہے اور ان کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور كرنيكي هر ممكن كوشش کرتا ہے ، اگر کچھ مسائل و مصائب درپیش ہوں تو بهي انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کرلیتا ہے لیکن اپنے مقصد اور مشن سے قدم پیچھے نہیں ہٹاتا اور نہ ہی لا یعنی اوربیکار چیزوں میں اپنا وقت ضائع کرتا ہے ، ایک انسان جب بلا مقصد کوئی دنياوي کام نہیں کرتا تو اس وسیع و عریض کائنات میں کبھی غور كرنيكي ضرورت هے كه کیا یہ چمکتا ہوا چاند ، روشن سورج ، اونچے نیل گوں آسمان ، چوڑی چکلی زمین ، یہ ہرے بھرے درخت ، پھیلے ہوئے پہاڑ ، چرند و پرند ، تالاب اور سمندر اور بھی ان گنت چیزیں جن سے الله تبارك الله تعالى نے إس کائنات کو سجایا اور بسایا ہے ، اس کا مقصد اور غرض كيا ہے ؟ اگر هم کبھی اپنے وجود میں غور کريں کہ یہ حیرت انگیز جسمانی ساخت ، دماغ اور معدہ کا پیچیدہ نظام ، آنکھ ، کان ، ناک ، ہونٹ ، زبان اور دیگر اعضاء کی مناسب تخلیق کس نے اور کیوں کی ؟ کیا یہ سارا نظام یوں ہی وجود میں آگیا یا اس کا کچھ مقصد اور غرض ہے ؟
یہ اور اس طرح کے مختلف سوالات کے جواب کے لیے قرآن اور احادیث کی تصریحات پر غور کیا جائے تو یہ واضح ہوگا کہ ساری کائنات کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے نفع کے لیے بنایا ، اگر کسی میں ظاہری طور پر ضرر کا پہلو نظر آئے تو بھی یقین کرنا چاہئے کہ اس میں بھی انسان کا نفع پوشیدہ ہے ، ہماری عقل اس کے ادراک سے قاصر ہے ، بہر حال دنیا کی تمام چیزیں انسانی خدمت اور ان کی نفع رسانی کے لیے ہے اور انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے
بقول شاعر
جانور بهي پيدا هوگئے تيري رضا كے واسطے
سارا جهان تيرے لئے مگر تو خدا كے واسطے

یعنی انسان کو چاہئے کہ وہ دنیا اور اس کے مشمولات سے نفع اٹھائے اور اپنے رب کی بندگی و اطاعت کرے ، اپنی مرضی کو اسی کی مرضی کے تابع کرے اور اسی کو حاجت روا اورمشکل کشا سمجھے
مذکورہ بالا آیات میں اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے جو چیز مطلوب ہے وہ عبادت ہے ، عام انسانوں کی طرح کوئی ذاتی نفع یا خدمت مقصود نہیں ، جیسا کہ دنیا میں دستور ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا آدمی اگر کوئی غلام خریدتا ہے تو اس کا مقصد اس کے ذریعے رزق حاصل کرنا ، اسے کسی کام میں مصروف رکھ کر اس کا عوض لینا یا اپنے کاموں میں مدد لینا ہوتا ہے ، مگر اللہ تعالیٰ ان تخیلات سے پاک اور برتر ہے ، وہ کسی کا محتاج نہیں ، وہ رزق کا محتاج نہیں کہ وہ بندوں سے رزق کا مطالبہ کرے ، وہ اتنی زبردست قوت کا مالک ہے کہ وہ خود ساری مخلوقات کو رزق دیتا ہے ، ان کے مسائل کو حل کرتا ہے اور ان کی مرادیں پوری کرتا ہے ، ایسے زور آور اور قادر و توانا کو بندوں کی خدمت کی کیا حاجت ؛ اس لیے انسان کی تخلیق کا مقصد صرف عبادت و عبودیت ہے کہ وہ اپنے رب کی شہنشاہی اور عظمت و کبریائی کا قولاً وفعلاً اعتراف کرکے اسي هي کي عبادت کرے اور اپنی ساری خواہشات اور قلبی ارمان کو اس کے تابع کردے ۔
عبادت كيا هے؟ إسكا خلاصه يه هے كه " الله تعالى كے حكموں كو رسول كريم صلى الله عليه وآله كے طريقوں كے مطابق پورا كرنا عبادت كهلاتا هے"
چنانچه ارشاد خداوندي هے
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ
يعني رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم تمهيں جو حكم ديں أس كو مان لو اور جس سے تمهيں منع فرمائيں اس سے منع هوجاؤ اور الله سے ڈرو
تو عبادت کا اصل مطلب الله تعالى کے آگے پستی اور عاجزی اختیار کرنا اور رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كي كامل آطاعت كرنا ہے الله تعالى کو بڑا اور محسن حقیقی سمجھتے ہوئے اس کے لیے اپنے آپ کو انتہائی حد تک بچھا دینا ہے ، جب انسان میں یہ صفت پیدا ہوگی تو اس میں تضرع و انکساری اور حد درجہ کی عاجزی پائی جائے گی اور یہی کیفیت خدا کو مطلوب ہے اور یہی خلاصۂ عبادت بھی ہے تويه بات تو معلوم هوگئ كه إنسان كي تخليق كا مقصد صرف اور صرف الله تعالى كي عبادت هے اور إس عبادت كيلئے أولين چيز نيت هے جس ميں إخلاص كا هونا ضروري هے تاكه عبادت الله كے هاں قبول بهي هو إس كے لئے إس كي مشق كرنا ضروري هے 

إخلاصِ نيت كي مشق
جيسا كه ذكر هوا كه إنساني تخليق كا مقصد صرف الله تعالى كي عبادت كرنا هے حضرت علي رضي الله تعالى عنه كو إيك يهودي نے سوال كيا كه تم لوگ دن رات ميں عبادت ميں كتنا وقت صرف كرتے هو تو حضرت على رضي الله تعالى نے جواب ديا كه هم لوگ (24) گهنٹے عبادت ميں هي هوتے هيں تو يهودي نے حيران هو كر پوجها كه پهر تم لوگ دنيا كے دوسرے كام كب كرتے هو تو حضرت علي نے جواب ديا جسكا كم و بيش مفهوم يه هے كه هو هر كام الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم صلى الله عليه كے طريقه كے مطابق كرتے هيں إس لئے وه بهي عبادت هي هوتا هے سو هم 24 گهنٹے عبادت ميں مصروف رهتے هيں تو
(وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۝ 
میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں
كا تقاضا يه هے كه هم 24 گهنٹے عبادت ميں رهيں وه إس طرح ممكن هے كه هم هر فعل و عمل ميں الله تعالى كا حكم كي تعميل كريں اور إس ميں رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كا طريقه إختيار كريں اور تمام أفعال وإعمال كرتے هوئے نيت الله تعالى كي رضا كي كريں اور شيطان لعين سے اپني نيت كي حفاظت بهي كريں كيونكه وه زياده تر إنسان كي نيت پر حمله آور هوتا هے تو إخلاص نيت كي بركت سے يه تمام أفعال وأعمال مقبول عبادت بن جائيں گے بشرطيه يه أعمال وأفعال خلاف شريعت نه هوں
هر إنسان كے پاس دن رات كي (24) گهنٹے هوتےهيں ان (24) گهنٹوں ميں وه كچهـ تو إيسے أعمال كرتا هے جنهيں عرف عام ميں بهي عبادت كها جاتا هے مثلاً نماز - روزه - تلاوت وغيره اور كجهـ أفعال إيسے هيں جن كو عرف عام ميں عبادت تو نهيں كها جاتا مثلاً كهانا - سونا - معاش كمانا وغيره تو مشق كچهـ إس طرح كرني هے كه يه أفعال (جنهيں هماري أكثريت عبادت نهيں سمجهتي) بهي عبادت كا درجه حاصل كرليں تاكه إيك مسلمان (24) گهنٹے عبادت ميں ره سكے
 إيك مسلمان دن رات ميں كچهـ أعمال وأفعال كرتا هے إن تمام أعمال اور أفعال ميں نيت كا خالص هونا إيك إهم چيز هے اگر نيت خالص نه هوئى تو كيے هوئے أعمال يعني عبادات (نماز - روزه وغيره ) بهي برباد هو جائيں گے اور اگر نيت درست هوگي تو كيے هوئے دنياوي أفعال بهي عبادت كا درجه پا ليں گے رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم کا يه ارشاد مبارک كه
قبولیت ِاعمال کا دارومدار نیت پر ہے ایک مختصر مگر جامع فلسفۂ زندگی ہے جس پر کسی بھی عمل کرنے والے کے فلاح و خسران کا دارومدار ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه روايت كرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا
’’لوگ قیامت کے دن صرف اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے۔‘‘ (زادِ راہ )۔
اللہ تعالیٰ نے ظاہری نیکی کو قبول نہیں فرمایا بلکہ بنده ارادہ، نیت، شعوری کوشش،قلب و ذہن کی آمادگی کو مدنظر رکھ کر اجر و ثواب کا مستحق سمجھے گا۔ دلوں کا حال اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یہ وہ علم ہے جو صرف اسی خالق کو ہی زیبا ہے جس نے ساری مخلوقات کو پیدا فرمایا۔
ایک شخص بظاہر بہت اعلیٰ درجہ کا نیک کام کر رہا ہومگر اس کی خواہش اور ارادہ اور نیت محض دنیا کی شہرت اور دکھاوا ہو۔ لوگوں کی زبان سے تعریف مدح سرائی سننا ہی مطلوب ہو تو اس کو وہی مل جائے گا جس کی خواہش کی ہے، آخرت میں اس کو کوئی حصہ نہ دیا جائے گا۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اعمال کا وزن بڑے بڑے کارناموں، مال کی کثرت سے نہ کیا جائے گا بلکہ خلوص نیت کے پیمانے سے اعمال کو جانچا پرکھا جائے گا۔ ہو سکتا ہے ایک شخص شہید کہلایا جاتا ہو یا بہت سخی کہلایا جاتا ہو مگر نیت کے خالص نہ ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی نظر میں کوئی وقعت نہ رکھتا ہو مگر ایک معمولی سا کام جس کی بظاہر کوئی اہمیت نظر نہ هوتی ہو، خلوصِ نیت اور طلب رضائے الٰہی کا جذبہ اْسے بلند مقام دلا دے۔ ہجرت کرنے والا سب مہاجروں کے ساتھ سفر پہ نکلا ہو مگر اللہ تعالیٰ ہی دلوں کا حال جانتا ہے کہ وہ سفر کی صعوبتیں کس لئے اٹھا رہا ہے۔
طلبِ رضائے الٰہی میں کھوٹ (ریا کا شائبہ) معمولی بھی ہو تو ناقابل قبول ہے جیسا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے أرشاد فرمایا كه معمولی ریا بھی شرک ہے(مشکٰوۃ)۔
اور شرک ناقابل معافی ہے ۔طلبِ رضائے الٰہی کا ایک ہی معیار ہے کہ یا تو ’’ہے‘‘ یا پھر ’’نہیں ‘‘ ہے۔ اس مشروبِ محبت میں ریا کا ایک قطرہ بھی سارے مشروب کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مؤمن کی زندگی کا ہر لمحہ عبادت میں شمار کئے جانے کے قابل گردانا ہے۔اگر ہر لمحہ اس کی رضا کے لئے گزارا گیا ہو حتیٰ کہ سانس لینے کا عمل ایک غیر اختیاری فعل ہے مگر ہر سانس کا اجر محفوظ ہو سکتا ہے اگر نعمت عطا کرنے والے رب کی خوشنودی اور اس کے شکرانے کا احساس شعور میں زندہ رہے۔مومن کا کھانا، پینا، سونا، جاگنا، ہنسنا،بولنا، پہننا اوڑھنا، لینا دینا، ملنا جلنا، کام کاج کرنا، وظائف زندگی ادا کرنا اسی رب العالمین کی رضا کے مطابق ہوتا ہے۔ مومن وہ سب کام کرتا ہے جو سب انسان کرتے ہیں۔ دونوں میں فرق صرف نیت، ارادے شعوری کوشش اور خلوص کا ہے۔اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہی نیک عمل کے اجر و ثواب کو متعین کرتی ہے۔اپنی دنیاوی ذمہ داریوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امانت سمجھ کر ادا کرنا اجر و ثواب کا باعث بنا دیتا ہے۔
ایک کام میں ذمہ داریوں پر متعین افراد آخرت میں مختلف مقام رکھ سکتے ہیں۔ مثلاً ایک مسجد بنانے والے نے رقم لگائی مسجد جیسی عظیم عبادت گاہ بنانے میں۔ اس شخص کی نیت محض دنیاوی عزت و مرتبہ ہے۔ اس کو آخرت میں کوئی حصہ نہ ملے گا،لیکن اس مسجد کو تعمیر کرنے والے مزدوروں میں سے کوئی معمولی مزدور اللہ تعالیٰ کے گھر کی تعمیر میں اس لئے حصہ لگا رہا ہے کہ اس ذاتِ کریم کی رضا حاصل ہو جائے تو وہ آخرت میں اپنی حسن نیت کی وجہ سے بے حساب اجر و ثواب کا مستحق ہو سکتا ہے۔ ایسا اجر و ثواب جس کو قرآن پاک میں ’’ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ"  کہا گیا ہے،مگر کثیر رقم خرچ کرنے والے شخص کو آخرت میں اجر سے محروم ہونا پڑے گا، اپنے عمل میں خلوص نہ ہونے کی وجہ سے وہ ’’خُسْرَانٌ مُبِينٌ،‘‘ میں مبتلا ہو گا۔
اسی طرح ایک خاتون جو صاحب جائیداد، امیر کبیر، جاہ و حشمت کی مالک اور مختار کل ہے۔ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے بڑے بڑے کام کرتی ہے۔ محض دنیا کی واہ واہ کے لئے، میڈیا میں نام و نمود کے لئے ۔اس کا یہ رقم،وقت، صلاحیتیں خرچ کرنا کسی کام نہ آئے گا، مگر اسی خاتون کے گھر کی معمولی گمنام نوکرانی اپنی ذمہ داریوں کو پوری ایمان داری خوف خدا اور طلب رضائے الٰہی کے ساتھ ادا کرتی ہے تو آخرت میں اپنی جاہ و حشمت رکھنے والی اور نامور مالکن سے زیادہ اعلیٰ شان کا مرتبہ حاصل کر سکتی ہے۔
دینی مجالس میں واعظین اپنے حسن کلام اور جوشِ خطابت سے القاب و آداب اور مال و منال کے خواہش مند ہوں گے تو ان کو یہی عطا کر دیا جائے گا مگر آخرت کی کھیتی بنجر اور ویران ہو گی۔ اپنی مجالس کا اہتمام کرنے والے معمولی کارکن گمنام، خاموش، پانی پلانے والے، جوتے قطار میں لگانے والے، صفیں بچھانے والے حتیٰ کہ واش روم کی صفائی کرنے والے، اپنی ڈیوٹی کو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے پوری ایمانداری سے ادا کرنے کی وجہ سے آخرت میں اعلیٰ مقام حاصل کر سکیں گے اور دنیا حاصل کرنے کے خواہش مند خطیب و واعظ سخت سزا کے مستحق ہوں گے۔
اسی طرح گھروں میں کھانا پکانا، صفائی ستھرائی، مہمان نوازی، تربیت اولاد، روزمرہ کے کام چاہے کسی نوکرانی کے ہوں یا مالکن کے، چپڑاسی کے ہوں یا وزیر اعظم کے، ہر نگاہ، ہر سوچ، ہر فکر، ہر قدم ،ہر عمل مومنوں کو اعلیٰ مراتب پر فائز کر سکتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ آخرت کی فکر کرتے ہوئے اللہ کی رضا کو سامنے رکھ کر کام کیا جائے تو دنیا کے کام خود ہی آسان ہو جاتے ہیں۔
ربّ کی رضا کو فراموش کر کے کوئی بھی کام کرنے کی کوشش کی جائے تو آخرت تو برباد ہوتی ہی ہے دنیا بھی نہیں ملتی اسی لئے ضرورت اپنی سوچ کا رخ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے پر جما دینے کی ہے۔ رْخِ سمت (نیت ) درست ہو گی تو منزل (جنت) مل سکتی ہے۔

کسی کے اعمال کے بارے میں بدگمانی کرنا
آخرت میں اعمال کا وزن تولنے اور ناپنے کا جو پیمانہ مقرر ہے اس کا نام ’’نیت‘‘ ہے۔ چونکہ نیتوں کا دارومدار دل کے ساتھ ہے اور دلوں کا حال اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اس لئے یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ کسی کے اعمال کے بارے میں بدگمانی کرنا جائز نہیں۔ کون کس نیت سے کام کر رہا ہے یہ اللہ تعالیٰ کو ہی معلوم ہے۔اس کا علم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نہیں دیا۔ نیتوں کو سامنے رکھ کر سارے اعمال کا حساب کتاب آخرت میں ہو گا۔
ہمارے معاشرے میں یہ بہت بْرا چلن ہے کہ ہم جلدی سے دوسروں کی نیت کے بارے میں منفی خیالات کا اظہار کرنے لگتے ہیں اور اپنے بارے میں ہمارا یہ کلی گمان ہوتا ہے کہ ’’ہماری نیت صاف ہے‘‘ مبالغہ کی حد تک، مثلاً کسی کو عوام میں مقبولیت پاتا دیکھ کر اس کی شخصیت کو مسخ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ خاندان برادری میں کسی کو عزت کے مقام پر دیکھ کرمحفلوں میں، ملاقاتوں میں ظاہر کرتے ہیں کہ فلاں کا مقصد تو محض شہرت ہے یا دوسروں سے تعریف کروانا ہے۔
ہم دوسروں کی عزت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم ’’شخصیت پرستی کے خلاف ہیں مگر ہم اپنے لئے خیال کرتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے عزت دی ہے ہم لوگوں میں اپنی خودنمائی نہیں چاہتے‘‘۔دوسروں کے بارے میں ہم یہ فیصلہ صادر کرتے ہیں کہ ’’اس نے فلاں وقت منافقت سے کام لیا‘‘ وہی کام وہی خیال اپنے لئے ہو تو ’’مصلحت کا تقاضا‘‘ ہے۔ محفل میں دوسروں کی برائی بیان کر کے ہم اس خیال سے خود کو مطمئن کرتے ہیں کہ ہم تو ’’اصلاح کی نیت‘‘ سے اظہار کر رہے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب کھونٹا راستے میں ’’گاڑ دینے‘‘ اور ’’اکھاڑ دینے‘‘ کا ثواب برابر ہے اور میدان جنگ میں بظاہر موت کے خوف سے کلمہ پڑھ لینے والے انسان کوبھی قتل کر دینا جائز نہیں اس لئے کہ دل کا حال صرف اللہ رب العزت کو معلوم ہے تو ہم کہاں سے خود کو دوسروں کی نیت پر برے گمان رکھنے کا حق دار بنا لیتے ہیں۔
ہم کیا جانیں کہ کس کو عزت اس کے اعمال کی وجہ سے مل رہی ہے یا اس کا اپنا ارادہ دنیا حاصل کرنے کا ہے۔ ہم کس طرح فیصلہ کر سکتے ہیں کہ دوسروں کا بہترین پہننا، اوڑھنا، رہن سہن دکھاوا ہے کہ شکر خداوندی؟ ہمارے اور دوسروں کے اعمال کی بنیاد کیا ہے؟ اور ہمارے دل میں دوسروں کے بارے میں خیالات کیا ہیں؟ اور دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچتی اور اظہار کرتی ہے؟
ایک دوسرے کے بارے میں جملے، ارادے،باطنی خیالات کے کیا اسرار ہیں؟ یہ اس وقت معلوم ہو گا ’’جب سب پوشیدہ خیالات و اعمال کی چھان پھٹک کی جائے گی اور یہ سب کرنا اللہ تعالیٰ کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں ۔ اس مشکل گھڑی کا سامنا کرنے سے پہلے جو آج مہلت ملی ہے اس میں مومن ہر چیز کو ظاہری آنکھ سے نہیں بصیرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وہ دوسروں کی فکر کرتا ہے اس لئے کہ اس کی اپنی نجات دوسروں کی بقا کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے۔’’وہ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی دوسروں کے لئے بھی پسند کرتا ہے۔‘‘ وہ اپنے رب کی رضا کا طلبگار ہے اَپنے معاشرہ کے ساتھ چلتے ہوئے اور معاشرے کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے۔
مومن اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہر نعمت کو شعور کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔ وہ ظاہری آنکھ سے صرف دیکھنے کا کام نہیں لیتا بلکہ اس نعمت کو استعمال کرتے ہوئے وہ نیت بھی کارفرما ہوتی ہے جس سے ہر شے میں اللہ تعالیٰ کی شان نظر آتی ہے اور وہ بے اختیار پکار اٹھتا ہے۔
’’رَبَّنَا مَاخَلَقْتَ ھٰذَا باطِلا،سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔
مظاہر قدرت کو دیکھ کر معرفتِ الٰہی پانے والے وہی ہوتے ہیں جن کے دل’’خالص اور سچی رضائے الٰہی‘‘ کی تلاش میں رہ کر طمانیت کی مٹھاس سے آشنا ہوتے ہیں
اور اس مٹھاس کا ذائقہ چکھنے کے لئے اپنی نیت کو درست رخ پر رکھنے کے لئے اپنی تربیت کرنا پڑتی ہے۔ بار بار پورے ہوش و حواس کے ساتھ اس عمل کو دہرانا پڑتا ہے اور نیت کو کھوٹ اور ریا سے پاک کرنے کی مسلسل جدوجہد کرنا پڑتی ہے ورنہ ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں تصویریں بنا لیتی ہے ۔
ان خواہشات نفس کے بتوں کو توڑنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور (اپنی اس کوشش کو کامیاب کرنے کے لئے) التجائیں مناجات کی سخت ضرورت ہوتی ہے ۔یہ نیت اور ارادے کا ہی کمال ہے کہ کچھ خوش قسمت لوگ مختصر وقت،کم سرمایہ، قلیل وسائل، گم نام ہونے کے باوجود’’ کامیاب‘‘ قرار پائیں گے اُس وقت جب اعمال کی جانچ پڑتال ہو گی، چھان پھٹک ہو گی، کھرے اعمال کو کھوٹے اعمال سے الگ کیا جائے گا۔ اُس وقت انسان کس حسرت اور پشیمانی میں مبتلا ہو گا،کف افسوس ملے گا،خیرات، صدقات، خدمات راکھ کی طرح اڑ رہی ہوں گی،میزان خالی رہ جائے گی، وقت، عمر، مہلت اور وسائل دوبارہ نہ مل پائیں گے۔
’’کل‘‘ (يوم القيمة ) اس رسوائی اور پشیمانی، حسرت سے بچنے کا واحد حل یہ ہے کہ ہم ’’آج‘‘ ایک عہد کریں اور اس عہد کی تجدید کرتے رہیں کہ ’’میرا مرنا، میرا جینا، میری عبادت، میری ریاضت، میرا دینا، میرا لینا،میرا غصہ، میری محبت، میرے حواس خمسہ کے سارے اعمال و افکار پر ایک ہی ’’چھاپ ہو گی ،سب کا ایک ہی رنگ ہو گا’’اللہ کا رنگ‘‘۔
رضائے الٰہی کی ’’چھاپ‘‘ اور آخرت میں اسی ’’چھاپ‘‘ اسی ’’برانڈ‘‘ کی مانگ اور قدر ہو گی۔ اسی کرنسی کا مطالبہ ہو گا ، باقی سب خاک ہو جائے گا۔ اپنے نفس پر اللہ کا رنگ غالب کرنے، نیت کو خالص کرنے کی مشق کرتے رہنے سے آہستہ آہستہ دل کی نگری خالص جذبہ سے مزین ہو جاتی ہے۔
ہر کام کی ابتداء بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سے کرنا سنت ہے اور یہی وہ نسخہ ہے جو انسان کو دنیاوی افکار سے نکال کر رحمن و رحیم ذات سے جوڑ دیتا ہے۔ نیت کو خالص اور ایمان کو مْسْتَحضرکر کے بسم اللہ الرحمن الرحيم پڑھ کر کام کرنے کی مشق کی جائے ۔کام کاج کرتے ہوئے بار بار خود سے سوال کیا جائے کہ ہم یہ کام کیوں کر رہے ہیں؟ یہ ذمہ داری کس نے لاگو کی؟…کس نے صلہ دینا ہے؟ کس کو خوش کرنا ہے؟
دن میں پانچ بار نماز ادا کرتے ہوئے جب بھی ’’قعدہ‘‘ میں بیٹھ کر ’’التحیات‘‘ پڑھتے ہیں تو درحقیقت دو نمازوں کے درمیان کے وقت کی کارگزاری کو اپنے رب کے حضور پیش کررہے ہوتے ہیں۔ ہم اپنے پیارے رب کے سامنے ’’رپورٹ‘‘ پیش کر رہے ہوتے ہیں کہ ’’میری مالی، جسمانی اور قولی عبادتیں اے اللہ! آپ کے لئے ہیں‘‘ اسی طرح رات کو ہمارا خود کو چھوٹی موت (نیند) کے حوالے کرنے سے پہلے عشاء کی نماز میں دعائے قنوت پڑھنا اور اصل اپنے عہدِ وفا کا اعادہ ہوتا ہے۔یہ اظہارِ بندگی کا اخلاص اور حسن کارکردگی اگر قابل قدر ٹھہرے گی تو اسی صورت میں کہ یہ ’’رپورٹ‘‘ اور عمل پیش کرتے اور ایفائے عہد کرتے ہوئے ہم محسوس کر رہے ہوں کہ اللہ تعالیٰ کو ہم اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں ورنہ کم از کم یہ استحضارہونا توہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہے ہیں اور وہ ہماری نیتوں کو اور اعمال کو خوب جانتے ہیں کہ ہم جسمانی، قولی، مالی عبادتوں کو اللہ کیلئے خالص کرنے میں کتنے سچے اور کھرے ہیں۔ کندن بننے کے لئے مجاہدے، مسلسل عمل اور رب سے استقامت طلب کرنا لازمی امر ہے۔
جب مجاہدے اور کوشش سے ہر کام میں عبادت کی سی لگن، لگاؤ، انبساط پیدا کر لیا جائے تو پھر طبعی طور پر افعالِ صالحہ (حسن نیت کے ساتھ اعمال) صادر ہونے لگتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت اور رضا کا سایہ مومن کو غم اور مصائب میں بھی مطمئن، خوش و خرم، بے خوف ’’لاخوفٌ علیھم وَلاَھُمْ یَحزْنُون‘‘ کر دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے ہر عمل کو اپنے لئے خالص کرے۔ آمین۔

إسلام نے اس امر پر کافی زور و تاکید فرمائی ہے کہ مومنین اپنے جملہ اعمال صالحہ و افعال خیر کوخالص لوجہ اللہ انجام دیں ۔ ریاکاری اور نفسانی خواہشات سے اپنی عبادات و ریاضت کو دُور و محفوظ رکھیں لیکن اس دور پرُفتن میں جب کہ دنیا کے ذہن و دماغ کو مسحور کر دینے والی حسن و زیبائش اپنے شباب پر ہے جس بنا ء پر خواہی نہ خواہی اسیران دنیا کی تعداد میں روز افزوں اضافہ اورخدا پرستوں و دین داروں کی شرح فیصد میں دن بدن تنزلی و گراوٹ کا ماحول دیکھا جارہا ہے خود قوم مسلم مذہب کی حدود کو پھلانگ کر اس خوشنما و پرفریب دنیا کی حسن و زیبائش کو پالینے کی آرزو میں اس قدر سرتا قدم کوشاں و ساعی نظر آتی ہے کہ اس سے اخلاص و محبت کی وہ قوت و طاقت ، دولت و سرمایہ اور روحانیت فنا ہوتی جارہی ہے جو جملہ اعمال صالحہ و افعال خیر میں روح و جان کی حیثیت رکھتی ہے اور جس پر ان کی عبادت و ریاضت ، طہارت و تقویٰ ، ذکر و شکر اور ان دعوتی و تبلیغی امور کی قبولیت کا دار ومدار ہے جن کو خاصی تگ ودو اور شدید مصائب و مشکلات کا سامنا کر کے بروئے کار لایا جاتا ہے۔
اس لئے آج اہم ضرورت ہے کہ قوم مسلم کو اخلاص و محبت کی اہمیت سے روشناس کرایا جائے تاکہ وہ اپنی اصلاح و فلاح کی فکر کرتے ہوئے خوشنودی الٰہی کے حصول کے لئے اپنے اندر اخلاص کا جذبۂ شیریں جاگزیں کریں۔
اخلاص نيت كے حواله سے حجۃ الاسلام امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’ نیت کسی عمل کی محرک و متقاضی کو کہتے ہیں یہ باعث و محرک اگر ایک ہے تو اس نیت کو خالص کہتے ہیں اور جب دو یا دو سے زیادہ چیزیں اس عمل کا محرک ہوں تو چونکہ اس میں شرکت ہوگئی اس لئے وہ خالص نہ رہی۔ اس شرکت کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص نے خدا کے واسطے روزہ رکھا ساتھ ہی اس کا مقصد روزہ رکھنے سے یہ بھی تھا کہ کھانا ترک کرنے سے تندرستی حاصل کرے، ساتھ ہی خرچ اس طرح کم ہوجائے گا یا کھانا پکانے کی مشفت سے نجات حاصل ہو یا اطمینان کے ساتھ ایک کام کو انجام دے سکے یا صوم کے سبب سے بیدار رہے اور بیدار رہ کر کچھ کام کرسکے۔ کیمائے سعادت)
حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حذیفہ سے دریافت کیا کہ اخلاص کیا چیز ہے؟ انہوں نے جواب دیا میں نے حضور نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم سے دریافت کیا تھا کہ اخلاص کی حقیقت کیا ہے؟ تو حضور نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا میں نے جبرئیل علیہ السلام سے سوال کیا تھا کہ اخلاص کیا ہے؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا میں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ اخلاص کیا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ میرے رازوں میں سے ایک راز ہے میں اپنے بندوں سے جس کے دل میں چاہتا ہوں اس کو امانت کے بطور رکھ دیتا ہوں۔
(غنیۃ الطالبین )
کسی دانا سے سوال کیا گیا کہ مخلص کی پہچان و نشانی بیان فرمایئے فرمایا مخلص وہ ہوتا ہے جو اپنی بھلائیوں کو اس طرح چھپاتا ہے جیسے اپنی برائیوں کو پھر عرض کیا گیا اخلاص کی آخری حد کیا ہے فرمایا اخلاص کی انتہا یہ ہے کہ مجھے لوگوں سے اپنی تعریف سننا پسند نہ آئے۔

قرآن وحدیث میں اخلاص کی تاکید
اللہ تعالى اور اس کے رسول مقبول صلى الله عليه وآله سلم نے قرآن و حدیث کے ذریعہ بندوں کو جہاں اپنے اپنے آوامرو نواہی سے روشناس کیا ہے وہیں متعدد مقامات پر اخلاص فی العمل کی اہمیت و ضرورت کی جانب توجہ مبذول کرا کے اس پر کافی تاکید فرمائی ہے اور بیان کیا ہے کہ بندہ جس قدر چاہے اطاعت خدا وندی کا اظہار کر لے لیکن اگر اس کا اندروں جذبۂ اخلاص وللہیت سے خالی ہے تو اس کی یہ ظاہری اطاعت و فرمانبرداری اس کے لئے کچھ نفع و ثواب کا باعث
ہوگی۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
اِنَّـآ اَنْزَلْنَـآ اِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّـٰهَ مُخْلِصًا لَّـهُ الدِّيْنَ ()اَلَا لِلّـٰهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّـذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٓ ٖ اَوْلِيَآءَۚ مَا نَعْبُدُهُـمْ اِلَّا لِيُـقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّـٰهِ زُلْفٰىؕ اِنَّ اللّـٰهَ يَحْكُمُ بَيْنَـهُـمْ فِىْ مَا هُـمْ فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ لَا يَـهْدِىْ مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ ()
بے شک ہم نے یہ کتاب ٹھیک طور پر آپ کی طرف نازل کی ہے پس تو خالص اللہ ہی کی فرمانبرداری مدِ نظر رکھ کر اسی کی عبادت کر۔
خبردار! خالص فرمانبرداری اللہ ہی کے لیے ہے، جنہوں نے اس کے سوا اور کارساز بنا لیے ہیں، ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ وہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں، بے شک اللہ ان کے درمیان ان باتوں میں فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کرتے تھے، بے شک اللہ اسے ہدایت نہیں کرتا جو جھوٹا ناشکرگزار ہو۔
ابن مرویہ نے یزید الرقاش سے روایت نقل کی ہے کہ کسی شخص نے بارگاہ رسالت مآب صلى الله عليه وآله سلم میں عرض کی كه يا رسول الله صلى الله عليه وآله سلم ! كيا ہميں شہرت اورناموری حاصل کرنے کے لئے مال خرچ کرنے پر اجر ملے گا۔ تو رسول اﷲ صلى الله عليه وآله سلم نے أرشاد فرمايا
لا یقبل الا من اخلص لہ الدین ثم تلاہذہ الایۃ الا ﷲ الدین الخالص۔
یعنی رسول نبی اکرم صلى الله عليه وآله سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ صرف اس کا عمل قبول کرتا ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کرے۔
إسي طرح الله تعالى كا فرمان هے
فَمَنْ کَانَ یَرجو لِقاء ربِّہٖ فَلَیَعملْ عَمَلاً صَالحاً ولا یُشْرِکْ بِعبَادَۃِ رَبِّہٖ احداً (کہف)۔
یعنی جسے اپنے رب سے ملنے کی امید ہو اسے چاہئے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے( مطلب یہ کہ اپنی عبادتوں میں ریاکاری کے بجائے اخلاص کی روح پیدا کرے)
حاکم نے بروایت طائوس مرسلا روایت کی ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلى الله عليه وآله سلم سے دریافت کیا کہ ایک شخص احسان کرتا ہے یا صدقہ دیتا ہے مگر اس کو یہ بات محبوب ہے کہ لوگ اس کی تعریف بھی کریں اور ثواب بھی ملے تو آپ صلى الله عليه وآله سلم نے اس کے سوال کا کوئی جواب مرحمت نہیں فرمایا یہاں تک کہ مندرجہ بالا آیت کریمہ نازل ہوئی۔

إسي طرح الله تعالى كا فرمان هے
إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا 0 (دھر
اس آیت مقدسہ میں رب کریم اپنے خاص بندوں کی خصوصیت ارشاد فرما رہا ہے کہ وہ میرے اس قدر مخلص بندے ہیں کہ اپنی طاقت و وسعت کے مطابق مستحقین پرخرچ کرتے ہیں لیکن اس نیکی کا بدلہ دنیا میں طلب نہیں کرتے بلکہ جو بھی عمل خیر کرتے ہیں اس کا مقصودِ واحد رضائے الٰہی ہوتا ہے اور وہ عبادات و ریاضات، صدقہ وخیرات اورجملہ اعمال صالحہ کے بعد اپنے جذبہ ٔ اخلاص کو اس خوشمنا ڈھنگ سے بیان کرتے ہیں۔
 اِنَّ صَلاتِی و نُسْکی و مَحْیَایَ وَمَمَاتِی ِلله رَبِّ العَلَّمین0 (انعام
’’ بے شک میری نمازیں ، ميري عبادتیں میری زندگی و موت سب اللہ رب العالمین کے لئے ہیں۔‘‘
زمانہ جاہلیت کے کفار و مشرکین اپنے جانوروں کو راہ خدا میں قربان کرتے اور پھر ان کے خون سے خانہ کعبہ کی دیواروں کو آلودہ کرتے اوراپنے اس عمل کو تقرب الٰہی کا وسیلہ گمان کرتے اس پر آیت نازل ہوئی۔
لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَاءُھَا وَلٰکِنْ یَنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ،۔
یعنی اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ قربانی کرنے والے صرف اخلاصِ نیت اور شروط تقویٰ کی رعایت
ہی سے اللہ کو راضی کرسکتے ہیں۔

إسي طرح الله تعالى كا فرمان هے
مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الۡاٰخِرَۃِ نَزِدۡ لَہٗ فِیۡ حَرۡثِہٖ ۚ وَ مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الدُّنۡیَا نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا وَ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ نَّصِیۡبٍ0  (شوریٰ
’’یعنی جو آخرت کی کھیتی چاہے ہم اس کے لئے اس کی کھیتی کو بڑھائیں گے اور جو دنیا کی کھیتی چاہے ہم اسے اس میں سے کچھ دیں گے اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں۔‘‘

آحادیثِ نبویہ(صلى الله عليه وآله وسلم
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وآله سلم نے ارشاد فرمایا ۔
إِنَّ اللَّهَ لا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُم ْ - رواه مسلم .. ۔
بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے اجسام اور صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تو دلوں کی طرف نظر فرماتا ہے۔ (صحیح مسلم)
حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلى الله عليه وآله سلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلى الله عليه وآله سلم! آپ ایسے شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ جس نے جہاد کیا اور اس نے جہاد کے ذریعہ ثواب اور شہرت چاہی، اس کو کیا ملے گا اس شخص نے اپنے سوال کو تین بار دہرایا اور ہر بار حضور نبی کریم صلى الله عليه وآله سلم یہی فرماتے رہے کہ اس کو کچھ بھی نہ ملے گا۔ پھر آپ صلى الله عليه وآله سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اسی عمل کو قبول کرتا ہے جو صرف اسی کے لئے ہوا ور اسی کی رضا جوئی مدنظر ہو۔ (رواہ ابودائود، نسائی)
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبي کریم صلى الله عليه وآله سلم نے ارشاد فرمایا اللہ اس بندے پر رحم فرمائے جس نے میری بات سنی اور اسے دوسروں تک پہنچایا تین باتیں ایسی جس سے کہ ( ان کے ہوتے ہوئے) مومن کا دل فریب نہیں کھاتا ۔
 عمل کو اللہ کے لئے خالص کرنا
  مسلمانون کے رہنمائوں کے ساتھ خیر خواہانہ سلوک کرنا
 مومنین کی جماعت سے الگ نہ ہونا کیونکہ ان کی دعائیں ان لوگوں کو بھی اپنے دامن میں لے لیتی ہیں جو ان کے پیچھے ہوتے ہیں جس شخص کا مقصد و نیت دنیا طلبی ہوگی فقر و فاقہ کا ڈر اس پر مسلط کر دے گا، اس کی جائیداد کو پراگندہ کردے گا اورملے گا اسے اتنا ہی جتنا مقدر ہوچکا ہے اور جس شخص کا مقصد و نیت آخرت طلبی ہوگی ، اللہ تعالیٰ اسے غنی کردے گا اور اس کی جائیداد کی نگہداشت کرے گا اور دنیا ذلیل وخوار ہو کر اس کے قدموں پر گرے گی۔
( رواہ ابن ماجہ و دارمی)

ریا کاری کے نقصانات
ان آیات قرآنیہ و احادیث نبویہ صلى الله عليه وآله وسلم سے یہ حقیقت روز روشن کی مانند عیاں و نمایاں ہوگئی کہ اسلام نے ہر قسم کے امور دینیہ میں اخلاص نیت پر بدرجہ کمال زور و تاکید فرمائی ہے لیکن یہ بھی ضرور ہے کہ کسی کے لئے بھی نیتوں میں دنیاوی مفادات و منافع سے تحذیر اسی وقت ممکن ہوسکتی ہے جب وہ اپنے نفس امارہ كو رام و غلام کرلے وجہ اس کی اس روایت سے بخوبی معلوم کی جاسکتی ہے کہ سہل بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ نفس کے لئے سب سے دشوار شئے کیا ہے؟ فرمایا اخلاص اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس کے لئے اخلاص میں کچھ حصہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان جب اپنے نفس سے مغلوب ہوجاتا ہے تو ریاكاري کی مہلک وادی میں گر کر اپنے اعمال کے اجر و ثواب سے محروم تو ہوتا ہی ہے ساتھ میں خدا تعالیٰ کی ان وعیدوں کا بھی مستحق و سزاوار بن جاتا ہے۔
فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ یُرَآوْنَ (ماعون
یعنی توان نمازیوں کے لئے خرابی ہے جو اپنی نماز سے بھولے بیٹھے ہیں اور جو دکھاوا کرتے ہیں
اور ارشاد ربانی ہے۔
فَمَنْ کَانَ یَرجو لِقاء ربِّہٖ فَلَیَعملْ عَمَلاً صَالحاً ولا یُشْرِکْ بِعبَادَۃِ رَبِّہٖ احداً (کہف
جو شخص خداوند کریم کے دیدار کا آرزو مند ہو تو اس کو چاہئے کہ اپنے رب کی عبات میں کسی کو شریک نہ بنائے۔ (یعنی ریاكاري نہ کرے)
حدیث پاک میں ہے کہ ریا کاری بھی شرک ہے۔ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلى الله عليه وآله سلم نے ارشاد فرمایا۔ ’’ یعنی جس نے دکھاوے کے لئے نماز پڑھی اس نے شرک کیا۔ جس نے دکھاوے کے لئے روزہ رکھا اس نے شرک کیا جس نے دکھاوے کے لئے صدقہ دیا اس نے شرک کیا ۔‘‘(مشکوٰۃ المصابیح 

اخلاص کی مثاليں
سیر و تواریخ کے مطالعہ كے دوران  جب ہماری نگاہوں سے سلف صالحین کے اخلاص وللہیت سے متعلقہ واقعات گذرتے ہیں تو ہمارے دل و دماغ روشن ہوجاتے ہیں نیز ایمانی روح عش عش کر اٹھتی ہے سلف صالحين كي بيشمار مثاليں إس سلسله ميں موجود هيں يهاں پر چند إيك پر إكتفا كيا جاتا هے
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بار بڑی مشکل سے کسی دشمن  کافر پر غالب آئے اور اس کے سینے پر اس نیت سے بیٹھ گئے کہ تلوار کے ایک ہی وار سے اس کا کام تمام کردیں لیکن اسی دوران اس کافر نے آپ کے مبارک چہرہ پر تھوک دیا اس کے تھوکتے ہی آپ نے اسے چھوڑ دیا اس کو بڑا تعجب ہوا پوچھا اے علی بڑی مشکل سے تم مجھ پر غالب آئے تھے پھر تم نے مجھے چھوڑ کیوں دیا؟ فرمایا کہ پہلے خالص لوجہ اللہ تجھے واصل جہنم کرنے کا ارادہ تھا جب تم نے میرے چہرے پر تھوک دیا اس سبب سے نفس کا معاملہ آڑے آگیا اخلاص نہ رہا اسی وجہ سے میں نے تیرے قتل سے ہاتھ روک لیا یہ سن کر وہ اسلام لے آیا اورمسلمان ہوگیا۔
حضرت سفیان ثوری رحمة الله عليہ اخلاص کے معاملہ میں اس قدر احتیاط سے کام لیتے تھے کہ وہ کسی سے ہدیہ تک بهي قبول نہیں فرمايا كرتے تهے ایک بار ایک شخص كچهـ ہدیہ لے کر آپ كي خدمت ميں جاضر هوا اور هديه قبول كرنے كي درخواست كي ليكن آپ نے قبول نہیں فرمایا اور فرمایا ممکن ہے کہ تم نے کبھی مجھ سے درس حدیث لیا ہو، اس شخص نے کہا میں سچ کہتا ہوں کہ میں نے کبھی آپ سے درس حدیث نہیں لیا ہے آپ نے فرمایا تم سچ کہتے ہو لیکن تمہارا بھائی مجھ سے پڑھتا ہے تو مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں اس ہدیہ کی وجہ سے میں تمہارے بھائی پر زیادہ شفقت نہ کرنے لگ جاؤں۔ (کیمائے سعادت

اخلاص کی برکت
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اخلاص کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہونچنے والے اعمال صالح کا اجرو ثواب اللہ تعالیٰ کے نزدیک بے حساب و کتاب ہے جس کو بندہ مخلص بروز قیامت اپنی آنکھوں سے دیکھے گا اور اس کے انعامات سے مستفیض ہوگا لیکن دنیا میں بھی مخلص بندے کو متعدد برکات و حسنات سے نوازا جاتا ہے بطور تمثیل یہاں ایک واقعہ بيان كیا جاتا ہے۔
حضرت مالک بن دینار ریاضت کے ابتدائی ایام میں شام کے مشہور شہر دمشق کی ایک مسجد میں اعتکاف کیا کرتے تھے ایک مرتبہ یہ خیال آیا کہ کوئی صورت ایسی ہو جائے کہ مجھے اس مسجد کا متولی بنا دیا جائے چانچہ آپ نے اعتکاف پر اعتکاف کئے اور اتنی کثرت سے نمازیں پڑھیں کہ ہر شخص آپ کو ہمہ وقت نمازمیں مشغول دیکھتا لیکن کسی نے بھی آپ کی جانب توجہ نہیں دی ایک سال بعد جب آپ مسجد سے باہر آرہے تھے تو ندائے غیبی آئی۔ اے مالک بن دینار تجھے اب تائب ہو جانا چاہئے چنانچہ اب آپ کو اپنی ایک سال کی خود غرضانہ عبادت پر شدید رنج و شرمندگی ہوئی اور آپ نے اپنے قلب کو ریا سے مبرا کر کے ایک شب خلوص نیت کے ساتھ عبادت کی تو صبح کے وقت دیکھا کہ مسجد کے دروازے پر ایک مجمع جو آپس میں کہہ رہا ہے کہ مسجد کا انتظام ٹھیک نہیں ہے لہٰذا اس شخص کو متولی بنا دیا جائے اورتمام انتظامی امور اس کے سپرد کر دیئے جائیں۔
اس کے بعد متفق ہو کر پورا مجمع آپ کے پاس پہنچا اور جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو عرض کیا ہم باہمی متفقہ فیصلے سے آپ کو مسجد کا متولی بنانا چاہتے ہیں یہ سن کر آپ حیران رہ گئے اوربارگاہ خداوندی میں عرض گذار ہوئے اے اللہ! میں ایک سال ریا کارانہ عبادت میں اس لئے مشغول رہا کہ مجھے مسجد کی تولیت ہوجائے مگر ایسا نہ ہوا اور اب جب میں صدق دل کے ساتھ ایک رات تیری عبادت میں مشغول ہوا تو تمام لوگ تیرے حکم سے مجھے متولی بنانے آ پہنچے اورمیرے اوپر یہ بار ڈالنا چاہتے ہیں لیکن میں تیری عظمت کی قسم کھاتا ہوں کہ میں نہ تو اب تولیت قبول کروں گا اور نہ مسجد سے باہر نکلوں گا یہ کہہ کر پھر عبادت میں مشغول ہوگئے۔ (تذکرہ الاولیاء
اللہ تعالیٰ جملہ مومنین و مومنات کو اخلاص فی العمل کی اہمیت کوسمجھنے اوراپنی نیتوں کو خالص لوجہ اللہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
إخلاص نيت كے حواله سے تمام تر تفصيلات كے بعد إيك سوال يه پيدا هوتا هے كه كيا محض اچھی نیت بھی فائدہ مند ہوگی؟ يعني کیا محض اچھی نیت بھی کسی کو فائدہ دے گی؟ یا اس کے لئے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہیں؟ تو ياد رهنا چاهيے كه مسلمان کی عبادت اسی وقت قبول ہوتی ہے جب اس میں دو بنیادی شرطیں پائی جائیں
 پهلي يه كه عبادت صرف اللہ کے لئے خاص ہو، یعنی انسان کی قولی، عملی، ظاہری اور باطنی تمام عبادات رضائے الہی کے حصول کے لئے ہوں۔
  دوسري يه كه عبادت کا طریقہ کار شریعت الہی کے مطابق ہو، یعنی نبی كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے جس طرح عبادت کرنے کا طریقہ بتلایا ہے عین اسی طرح عبادت کی جائے، اور آپ کی مخالفت کا اس میں شائبہ تک نہ ہو، اسی طرح کوئی ایسی عبادت یا طریقۂِ عبادت ایجاد نہ کیا جائے جو کہ نبی كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ ان دونوں باتوں کی دلیل اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے
فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً وَلا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَداً (الكهف
ترجمہ: جو بھی اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے وہ نیک عمل کرے اور اپنے پروردگار کیساتھ کسی کو شریک مت ٹھہرائے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
فرمان باری تعالی: " فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ" کا مطلب ہے کہ جو اللہ تعالی سے مل کر اجر و ثواب لینا چاہتا ہے اور " فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً " کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کے مطابق عمل کرے، یعنی نبی كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی اتباع لازمی ہو۔
نیز " وَلا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَداً " کا مطلب یہ ہے کہ: صرف ایسی عبادات کرے جس کا مقصد صرف حصولِ رضائے الہی ہو، کسی اورکی رضا مقصود نہ ہو۔
کسی بھی نیک کام کے قبول ہونے کیلئے یہ دو بنیادی رکن ہیں، ایک یہ کہ: صرف اللہ کیلئے ہو، اور دوسرا یہ کہ صرف شریعت محمدی کے مطابق ہو"
( تفسیر ابن کثیر )
اسی بنا پر اللہ تعالی نے پہلی شرط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن مجید کی سب سے عظیم سورت میں فرمایا
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ
ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں
مطلب یہ ہوا عقیدہ توحید اور اخلاص کسی بھی کام کے درست ہونے کے لئے شرط ہیں، اور اس کے بعد دوسری شرط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ : ہمیں سیدھا راستہ دكھا
مطلب یہ ہوا کہ عبادت اسی وقت درست ہوگی جب صحیح طریقے اور صراطِ مستقیم کے مطابق کی جائے گی، جو کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی اتباع میں پنہاں رکھا ہے۔
صحیح حدیث میں وارد ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے  روايت کرتی ہیں کہ
جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا حکم نہیں تھا تو وہ مردود ہے) (مسلم)
یعنی اس کا عمل قبول نہیں ہوگا، اور اسے مسترد کر دیا جائے گا، چنانچہ اگر کوئی بھی عمل ان دو شرطوں [اخلاص، اتباع شریعت]سے خالی ہوا تو عمل کرنے والے کو کوئی بھی فائدہ نہیں ہوگا، لہذا اجر و ثواب اور رضائے الہی کے متلاشیان کو اسی انداز سے عبادات بجا لانی چاہیے جیسے اللہ تعالی نے ان کا طریقہ بتلایا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ
ترجمہ: آپ کہہ دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہوتو تم میری اتباع کرو، تو اللہ بھی تم سے محبت کریگا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا، اور اللہ تعالی بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔[آل عمران]
اس لیے نیت كے خالص هونے كے ساتهـ يه بهي ضروري هے كه عمل شریعت سے متصادم نه ہو اور اللہ تعالی کی عبادت کسی بدعتی طریقے پر نه کرے ورنه اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، بہت سے اہل بدعت اپنی لا علمی کی بنا پر قرب الہی کے نت نئے طریقے ایجاد کر رہے ہیں!! یہی وجہ ہے کہ جب حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالى عنه نے ذکر الہی کے لئے اجتماعی شکل اختیار کیے ہوئے لوگوں کو دیکھا تو انہیں اس عمل سے روکا تو ان لوگوں نے اپنی اچھی نیت کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ ہم اللہ کا ذکر کرنے کے لئے ہی جمع ہوئے ہیں تو آپ نے اس وقت کہا تھا: "بہت سے نیک نیت رکھنے والے نیکی کے قریب بھی نہیں پھٹکتے" دارمی: (204
اس لیے نیکی اور اللہ تعالی سے اجرو ثواب حاصل کرنے کے لئے محض اچھی نیت ہی کافی نہیں ہے، بلکہ شریعت کے ساتھ مکمل مطابقت، اور بدعت سے مکمل احتراز بهي بہت ہی ضروری ہے۔

محض اچھی نیت كا فائدہ 
مندرجه زيل دو جگہوں پر محض اچھی نیت بهي فائدہ دے سکتی ہے
 پهلي يه كه اچھی نیت کی بدولت عادت عبادت بن جاتی ہے ۔ چنانچہ اچھی نیت سے عادت کو عبادت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، اس پر ثواب بھی ملے گا، مثلاً: کھانا کھاتے ، پیتے ہوئے اللہ کی بندگی کے لئے حصول توانائی کی نیت کرے، إسي طرح سوتے هوئے دين إسلام كي محنت اور اللہ تعالى کی بندگی کے لئے حصول توانائی کی نیت کرے اور شادی کے لئے اپنے آپ اور اپنی اہلیہ کو عفت و پاکدامنی مہیا کرنے کی نیت کرے ، اسی طرح دیگر تمام معاملات میں بھی اچھی نیت کر کے تمام أفعال كو عبادت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
  دوسري يه كه كسي نیکی کے کام کے لئے محض عزم مصمم اور پختہ ارادے سے اجر مل جاتا ہے ۔ مثلاً: کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ کسی نیک اور شرعی کام کرنے کے لئے عزم مصمم اور پختہ ارادہ تو کر لیا جاتا ہے لیکن اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے رکاوٹیں کھڑی ہو جاتی ہیں، تو ایسی صورت میں اجر لازمی ملے گا، اس بارے میں کچھ احادیث درج ذیل ہیں
أ- حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں شریک تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: (مدینہ منوره میں کچھ لوگ ہیں جو ہر گھاٹی اور وادی عبور کرنے میں تمہارے ساتھ تھے، انہیں بیماری نے مدینہ منوره میں روک لیا تھا) اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ: (وہ تمہارے ساتھ ہر گھاٹی اور وادی عبور کرنے کے اجر میں شریک ہیں) ( مسلم)
ب- حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی كريم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے بستر پر لیٹتے وقت قیام اللیل کی نیت کرے ، لیکن نیند کے غلبے کی وجہ سے صبح تک نہ اٹھے ، تو اس کے لئے نیت کے مطابق ثواب لکھ دیا جاتا ہے، اور گہری نیند اللہ کی طرف سے اس کے لئے صدقہ ہو جاتی ہے
( نسائی - ابن ماجہ -صحیح الترغیب )۔
ج - حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: جو شخص سچے دل کے ساتھ اللہ تعالی سے شہادت مانگے تو اللہ تعالی اسے شہدا کے درجے پر فائز فرمائے گا، چاہے وہ اپنے بستر پر ہی فوت کیوں نہ ہو ( مسلم)
اس کے علاوہ بھی اس بارے میں متعدد احادیث مباركه ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کوئی بھی شخص کسی نیکی کے کام کے لئے عزم مصمم اور پختہ ارادہ کرے ، لیکن اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے رکاوٹیں کھڑی ہو جائیں تو اللہ تعالی اسے اس کی نیت کا اجر دے دیتا ہے چنانچہ یہاں ان احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اچھی نیت والے شخص کو اجر ضرور ملتا ہے
تو إس تمام تحرير كا لب لباب يه هے كه هم اپنے روزمره كے تمام آفعال ميں آچهي نيت كريں تو يه أفعال همارے لئے آجر كا باعث بن جائيں گے اور عبادات ميں آچهي نيت كے ساتهـ الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كي سنتوں پر عمل كرنے والے بن جائيں تو إن شاء الله يه عبادات درجه قبوليت حاصل كرليں گي - الله تعالى هم سبكو عمل كرنيكي توفيق عنايت فرمائے
آمين ثم آمين يا رب العلمين

 إخلاصِ نيت كے لئے دعا كرنا
حصول إخلاص نيت كے لئے سب سے پہلے اس كی دعوت ديني ہے ، دوسرا كام إس كي مشق كرنا هے إس سب كے بعد كاميابي دينے والي ذات صرف اور صرف الله تعالى كي هے إس لئے دعوت اور محنت كا عمل كرنے كے بعد الله تعالى سے رو رو كر اور گڑگڑا كر دعا مانگني بهت ضرورى هے. دُعا ﷲ اور بندے کے درمیان ایک ایسا مخصوص تعلق ہوتا ہے جس میں بندہ اپنے معبود سے اپنے دل کا حال بیان کرتا ہے ، اپنی مشکل کا اظہار کر تا ہے ، اپنے گناہو ں کی معافی طلب کر تا ہے ، بخشش کی درخواست کر تا ہے ، مختصر یہ کہ جو کچھ اس کے دل میں ہو تا ہے وہ سیدھے سادہ طریقے سے بیان کر دیتا ہے ،دعا در اصل فقير اور اس کے خالق کے درمیان براہ راست رابطه  ہوتی ہے، تمام إنسان الله تعالى كے سامنے چونكه فقير هي هيں جيسا كه الله تعالى نے فرآن مجيد ميں ارشاد فرمايا
يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ ۖ
إ ے لوگو: تم سب الله تعالى كے سامنے فقير هو
سو فقير هونے كي حيثيت سے اپنے رب سے براه راست رابطه كرنے كا وسيله صرف اور صرف دعا هے - ذيل ميں دعا كي إهميت اور فضيلت كے متعلق كچهـ ذكر كيا جائےگا تاكه معلوم هوجائے كه دعا كرنا همارے لئے كيوں ضروري هے- ﷲ کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآله وسلم نے دُعا کی عظمت ، اس کی برکتیں ، دُعا کے آداب اور دعا کرنے کے بارے میں واضح ہدایات دی ہیں ۔ایسی بے شمار احادیث مباركه ہیں جن میں دعا کا ذکر ہے اور دعا کی اہمیت و فضیلت کو واضح کیا گیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آله وسلم نے ارشاد فرمایا كه ﷲ تعالى کے یہاں کوئی چیز اور کوئی عمل دعا سے زیادہ عزیز نہیں
الله تعالیٰ رحیم ہے، کریم ہے، مہربان ہے، سننے والا ہے، دینے والا ہے، مانگنے والے بندے پر اسے پیار آتا ہے ، بندے کا اپنے رب سے مانگنے کا عمل اسے عزیز ہے، بندہ اپنے رب سے خاموشی کے ساتھ ، عاجزی کے ساتھ، انکساری کے ساتھ، اطاعت کے ساتھ ،فرمانبرداری کے ساتھ، فقیری کے ساتھ ، گدائی کے ساتھ ،چپکے چپکے، دھیمی آواز کے ساتھ، خشو ع و خضوع کے ساتھ، اعتراف گناہ اور احساس ندامت کے ساتھ ، گڑ گڑا کردعا کرے ، یہ افضل ہے اور يه ﷲ تعالى کو بے حد پسند بھی ہے ۔ اس کے بر عکس وہ اپنے اس بندے کو پسند نہیں کرتا جو اس سے نہ مانگے، اس سے وہ ناراض ہوتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ﷲ کے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وآله و سلم نے فرمایا ’’ جوا ﷲ سے نہ مانگے اس پر اﷲ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے‘‘۔

دُعا مانگنے کی ہدایت
ﷲ سے اس کا فضل طلب کرنے، دعا مانگنے اور دعا کا اہتمام کرنے کی خاص ہدایت رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآله وسلم سے ثابت ہے ۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسولﷲ صلی ﷲ علیہ وآله وسلم نے فر مایا ’’دعا کارآمد اور نفع مند ہوتی ہے اور ان حوادث میں بھی جو نازل ہوچکے ہیں اور ان میں بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے‘ پس اے الله  کے بندو! دعا کا اہتمام کرو‘‘۔
ایک اور حدیث حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ سے مردی ہے کہ نبي كريم صلی ﷲ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ ﷲ تعالى سے اس کا فضل مانگو یعنی دعا کرو کہ وہ فضل و کرم فرمائے، کیونکہ ﷲ کو یہ بات محبوب ہے کہ اس کے بندے اس سے دعا کریں اور مانگیں ‘‘ اور فرمایا کہ ’’ﷲ تعالیٰ کے کرم سے امید رکھتے ہوئے اس بات کا انتظار کرنا کہ وہ بلا اور پریشانی کو اپنے کرم سے دور فر مائے گا اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے 
حضرت سلمان فارسی رضی ﷲ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ نبي كريم صلی ﷲ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ تمہارے پرور دگار میں بدرجہ غایت حیا اور کرم کی صفت ہے ‘ جب بندہ اس کے آگے مانگنے کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اس کو شرم آتی ہے کہ اس کو خالی هاتهـ واپس کرے ( کچھ نہ کچھ عطا فرمانے کا فیصلہ ضرور فر ما تا ہے) - حضرت ابو ہریرہ رضیﷲ تعالى عنہ سے روایت ہے كه نبي كريم صلیﷲ علیہ وآله وآله وسلم نے أرشاد فرمايا کہ ’’جب ﷲ سے مانگو اور دعا کرو تو اس یقین کے ساتھ کرو کہ وہ ضرور قبول کرے گا اور عطا فر مائے گا، اور جان لو اور یاد رکھو کہ ﷲ تعالى اس کی دعا قبول نہیں کرتا جس کا دل (دعا کے وقت) ﷲ تعالى سے غافل اور بے پرواہ ہو‘‘۔

دُعا کی اہمیت و فضیلت 
دُعا کے بارے میں قرآن مجید میں ﷲ تعالیٰ نے متعدد جگہ ہدایات دی هيں ان آیات مبارکہ سے بهي دعا کی عظمت واضح ہوتی ہے۔ ٰإيك مقام پر ارشاد باریٔ تعالیٰ ہے
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ 
ترجمہ : ’’ اور( اے پیغمبر) جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو ( کہہ دو کہ) میں تو (تمہارے) پاس ہُوں، جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہُوں تو ان کو چاہیے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک رستہ پائیں‘‘۔

قرآن مجید میں إيك اور مقام پرﷲ تعالیٰ ارشاد فرما تا ہے۔
اُدْعُوْ ارَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً ط اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ - وَلَاتُفْسِدُوْ ا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ
اِصْلَاحِھَا وَادْعُوْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا - اِنَّ رَحْمَتَ اﷲِ قَرِیْبُٗ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ 
ترجمہ: لوگو! اپنے پرور دگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا‘‘۔ ’’اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنا اور خداسے خوف کرتے ہوئے اور اُمید رکھ کر دعا ئیں مانگتے رہنا۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے‘‘۔
حدیث مبارکہ ہے کہ رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وآله و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ دعَا مانگنا بعینہ عبادت کرنا ہے ۔ پھر آپ صلی ﷲ علیہ وآله و سلم نے بطور دلیل قرآن کریم کی سورۃ ’المؤمن ‘   کی تلاوت فرمائی
وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنیِْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ْ
تر جمہ ’’ اور تمہارے پروردگار نے فرمادیا ہے کہ مجھ سے دعا مانگا کرومیں
تمہاری دعا قبول کروں گا‘‘۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی ﷲ تعالى عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ دعا عین عبادت ہے ‘‘ اور حضرت انس رضی ﷲ عنہ تعالى سے روایت ہے جس میں آپ صلی ﷲ علیہ وآله و سلم نے دعا کو عبادت کا مغز اور جوہر قرار دیا ہے ۔آپ صلی ﷲ علیہ وآله و سلم نے ارشاد فرمایا ’’دعا عبادت کا مغز اور جوہر ہے‘‘۔
حضر جابر رضی ﷲ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآله وسلم نے فر مایا ’’کیا میں تمہیں وہ عمل بتاؤں جو تمہارے دشمنوں سے تمہارا بچاؤ کرے اور تمہیں بھرپور روزی دلائے ۔ وہ یہ ہے کہ اپنے ﷲ سے دُعا کیا کرو رات میں اور دن میں ‘ کیو نکہ دُعا مؤمن کا خاص ہتھیار یعنی اس کی خاص طاقت ہے‘‘

دعا میں جلد بازی سے کام نہ لینا
دعا بندے کی جانب سے اپنے رب کے حضور درخواست اور التجا ہے، وہ اپنے بندے کی سنتا ہے ، بندے کا کام اس کے حضور اپنی خواہش کا مسلسل اظہار کرتے رہنا ہے۔ انسان جلد باز واقع ہوا ہے، وہ نہ صرف یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کی خواہش جوں کی توں پوری ہو بلکہ فوری اسے وہ کچھ مل جائے جس کی وہ خواہش رکھتا ہے۔ بسا اوقات جب اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہوتی تو وہ مایوس ہو جاتا ہے، اپنے عمل سے پیچھے ہٹ جاتا ہے، دعا کا عمل ترک کر دیتا ہے ۔ ہمیں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے، یہ ہماری سخت غلطی ہوگی اگر ہم مایوس ہوجائیں اور اس بنا پر دعا کرنا چھوڑ دیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا یہ عمل ہی ہماری محرومی کا سبب ہوتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی ﷲ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله رسول صلی ﷲ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ تماری دعائیں اس وقت تک قابل قبول ہوتی ہیں جب تک کہ جلد بازی سے کام نہ لیا جائے۔ جلد بازی یہ ہے کہ بندہ دل ميں يا زبان سے کہنے لگے کہ میں نے دُعا مانگی تھی مگر وہ قبول نہیں ہوئی‘‘۔دُعا و استغفار تین مرتبہ کرنی چاہیے۔ ابو داؤد میں ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآله وسلم تین بار دعا فرماتے تھے بهرحال هم اپنى محنت پر بهروسه نه كريں بلكه نيت كے إخلاص كو الله تعالى سے رو رو كر مانگيں الله تعالى هم سب كو إسكي توفيق عنايت فرمائے (آمين ثم آمين
يهانپر إخلاص نيت كا بيان ختم هوا چاهتا هے - الله تعالى كهنے والے اور پڑهنے والوں كو عمل كي توفيق عطا فرمائے - تحرير كرنے والے كي غلطيوں اور كوتاهيوں كو الله تعالى اپنے فضل وكرم سے معاف فرما ئے اور إس كوشش كو اپني رحمت سے قبول فرماكر عمل كي توفيق عطا فرمائے (آمين) قابل إحترام قارئين سے گذارش هے كه وه إسے زياده سے زياده لوگوں تك پهنچانے كي كوشش كريں - إن شاء الله إس كا آجر الله تعالى سے ضرور ملے گا
الله تعالى كا لاكهـ لاكهـ شكر هے كه اس نے إس كي توفيق عطا فرمائي اور إس تمام تر كاوش كا ثواب اپنے مرحوم والدين - مرحوم بهائي جان اور بهت هي بيارے بيٹے شهيد عبدالرحمن نسيم رحمة الله عليهم تمام رشته داروں - آساتذه كرام - دوست أحباب اور تمام مسلمانوں كو إيصال كرتا هوں- الله تعالى أن كي مغفرت فرمائے- ان پر رحم فرمائے - ان كے لئے آخرت كي تمام منزليں آسان فرمائے اور ان كو جنت الفردوس كے آعلى مقامات عنايت فرمائے -
   آمين ثم آمين يا رب العلمين 



Share: