مسجد جانے اور باجماعت نماز کی أهميت اور فضيلت

نماز بهت هي عظيم الشان عبادت هے اس كا إهتمام كرنے والوں كے لئے الله تعالى نے اپني ضمانت پر جنت ميں داخله كا وعده فرمايا هے بدقسمتي سے آجكل امت كا ايك بڑا حصه نماز كي نعمت سے محروم هے اس كے ساتهـ ساتهـ يه بهي حقيقت هے كه كچھ لوگ نماز تو پڑهتے هيں ليكن مسجد جانا اور باجماعت نماز ادا كرنا كوئى ضرورى نهيں سمجهتے جبکہ نبئ کریم صلى الله عليه وآله وسلم کی اتنی واضح احادیث کی موجودگی میں اسے ترك كرنے كي گنجائش باقي نهيں ره جاتي جب ہمیں نبئ کریم صلى الله عليه وآله وسلم کا واضح حکم مل گیا هے تو همارے لئے عافيت اور كاميابي كا راسته يهي ره جاتا هے كه هميں بهانه بازي سے كام لينے كي بجائے اپنے پيارے رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے فرمان پر سر تسلیم خم کرکے اس پر عمل پیرا ہو جانا چاہیۓ۔ چنانچه قرآن پاك ميں الله تعالى كا ارشاد هے
وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ وَآتُواْ الزَّكَاةَ وَارْكَعُواْ مَعَالرَّاكِعِينَ
نماز قائم كرو اور ذكوة ادا كرو اور ركوع كرنے والوں كيساتهـ ركوع كرو
(يعني نماز باجماعت ادا كرو) (البقره)
إس آيت مباركه ميں الله تعالى نے نماز جماعت كے ساتهـ ادا كرنے كا حكم فرمايا هے
اللہ تعالی ہم سب کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

نماز با جماعت کی اہمیت
حضرت عبدالله ابن عمر رضی اللہ تعالی عنه سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا:" اکیلے شخص کی نمازسے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا 27 درجہ زیادہ (ثواب رکھتا) ہے۔(بخاری ، مسلم)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے سے روايت هے جو شخص اللہ تعالی سے قیامت کے دن مسلمان ہو کر ملاقات کرنا چاہتا ہے تو اسے نمازوں کی حفاظت کرنی چاہیۓ اور " بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے ہمیں ہدایت کے طریقے سکھائے۔ ان ہدایت کے طریقوں میں یہ بات بھی شامل ہے که :" اس مسجد میں نماز ادا کی جائے جس میں اذان دی جاتی ہے۔۔ اور اگر تم نماز اپنے اپنے گھروں میں پڑھوگے جیسے (جماعت سے) پیچھے رہنے والا شخص اپنے گھر میں پڑھ لیتا ہے تو تم اپنے نبئ کریم صلى الله عليه وآله وسلم کی سنت چھوڑ دوگے۔ اور اگر نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کی سنت چھوڑدوگے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔ اور جب کوئى شخص اچھا وضو کرکے مسجد جاۓ تو اللہ تعالی ہر قدم کے بدلے ایک نیکی لکھتا ہے، ایک درجہ بلند کرتا ہے اور ایک برائى مٹا دیتا ہے۔ (مسلم)

رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے زمانه ميں جماعت سے سوائے کھلے منافق کے کوئى پیچھے نہیں رہتا تها يهان تك كه بیمار بھی دو آدمیوں کے سہارے نماز کے لیۓ آجاتا تھا۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا:" اس ذات کی قسم جس کے قبضئه قدرت میں میری جان ہے البتہ میں نے ارادہ کیا کہ لکڑی جمع کرنے کا حکم دوں۔ پھر اذان کہلواؤں اور کسی شخص کو امامت کے لیۓ کہوں پھر ان لوگوں کے گھر جلا دوں جو نماز (جماعت) میں حاضر نہیں ہوتے- (بخاری ، مسلم )۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک نابینا شخص (حضرت عبداللہ بن مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ) آئۓ انہوں نے اپنے اندھے ہونے کا عذر پیش کر کے اپنے گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت چاهی کیونکہ انہیں کوئى مسجد میں لے کر آنے والا نہیں تھا۔ تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے پوچھا: اذان سنتے ہو؟ حضرت عبداللہ بن مكتوم رضي الله تعالى عنه نے کہا-جی ہاں! آپ(صلى الله عليه وآله وسلم) نے فرمایا:" تو پھر تم نماز كي جماعت میں حاضر ہو (مسلم )۔

یہ تمام احادیث مردوں کے لئے باجماعت نماز ادا کرنے پر دلالت كرتي ہیں۔ اور پھر نبئ کریم صلى الله عليه وآله وسلم کے اس ارشاد کی جانب نظر کیجیۓ کہ آپ اپنے گھروں میں نماز پڑھنے والے مردوں پر اتنے غضبناک ہوتے ہیں که ان کے گھروں کو جلانے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں۔ اور ایک نابینا صحابی کو بھی مسجد میں آکر باجماعت پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔

نماز باجماعت کی فضیلت
نماز باجماعت کی فضیلت كے بارے ميں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے إرشادات آجاديث كي كتابوں مين كثرت سے ذكر كيے گئے هيں جيسا كه عرض كيا جاچكا كه مردوں كے لئے حكم يه هے كه وه مسجد جا كر باجماعت نماز ادا كرنے كي كوشش كريں - مسجد جانے اور باجماعت نماز كے بيشمار فضائل بهي آحاديث مباركه ميں وارد هوئے هيں يهان إنتهائى إختصار كے ساتهـ چند فضائل كا ذكر كيا جاتا هے تاكه هميں باجماعت نماز كي قدرو قيمت كا پته چل جائے چونكه هماري أخروي زندگي كي كاميابي كا دارومدار بهي همارى نماز پر هے إس لئے إسے زياده زياده قيمتي بنانا همارا فرض هے تو مسجد جانے اور باجماعت نماز کی فضيلت كے متعلق آحاديث مباركه ملاحظه فرمائينں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص عشاء کی نماز باجماعت پڑھے تو گویا وہ آدھی رات تک قیام کرتا رہا۔ جو شخص صبح کی نماز باجماعت پڑھتا ہے تو گویا اس نے ساری رات قیام کیا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم:)

رسول كريم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ اور فرشتے پہلی صف والوں پر رحمتیں بھیجتے ہیں‘‘ (صحیح ابن حبان)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص مسلسل چالیس روز تک تکبیر اُولیٰ کے ساتھ نماز پڑھتا رہا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے دو آزادیاں لکھ دیتا ہے، ایک جہنم سے آزادی اور دوسری منافقت سے آزادی‘‘۔ (ترغیب و ترھیب:)

پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص فجر کی نماز باجماعت پڑھتا ہے ، پھر بیٹھ کر ذکر الٰہی کرتا ہے حتی کہ سورج طلوع ہو جائے، پھر دو رکعت نفل پڑھتا ہے تو اس کے لئے حج و عمرے کا ثواب مل جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: مکمل مکمل یعنی مکمل اجر و ثواب ملے گا‘‘۔ (ترغیب:)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "جو اپنے گھر میں طہارت کرے پھر اللہ کے کسی گھر(مسجد) میں جائے کہ اللہ کے فرضوں میں سے کسی فرض کو ادا کرے تو اس کے قدم ایسے ہوں گے کہ ایک (قدم رکھنے سے) اس کے گناہ معاف ہوں گے جبکہ دوسرے سے اس کے درجات بلند ہوں گے"۔ (صحیح مسلم)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "جو شخص صبح کو یا شام کو مسجد میں گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے جنت میں ضیافت (مہمانی) تیار کی ہر صبح اور شام میں"۔ (صحیح مسلم)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "آدمی کی جماعت سے نماز اس کے گھر اور بازار کی نماز سے بیس پر کئی درجے افضل ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ آدمی نے جب وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا پھر مسجد کو آیا اور نماز کے علاوہ کسی (حاجت) نے نہیں اٹھایا اور نماز کے علاوہ اس کا اور کوئی ارادہ نہیں ہوا تو وہ کوئی قدم نہیں رکھتا مگر اس کے عوض اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کردیتا ہے اور ایک گناہ گھٹا دیتا ہے یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہوجاتا ہے۔ پھر جب وہ مسجد میں داخل ہوجاتا ہے تو جب تک وہ نماز کے انتظار میں رہتا ہے (اس کے لئے ویسا ہی اجر لکھا جاتا ہے گویا) وہ نماز ہی میں ہے اور فرشتے اس کے لئے دعائے خیر کرتے ہیں جب تک وہ اپنے مصلیٰ (نماز پڑھنے کی جگہ) پہ رہتا ہے۔ اور فرشتے کہتے ہیں کہ یا اللہ تو اس پر رحم کر یا اللہ تو اس کو بخش دے، یا اللہ تو اس کی توبہ قبول کر، جب تک کہ وہ ایذا نہیں دیتا یا جب تک وہ حدث نہیں کرتا (وضو نہیں توڑتا)" (متفق علیہ)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "کیا میں تم کو وہ باتیں نہ بتاؤں جن سے گناہ مٹ جائیں اور درجے بلند ہوں؟" لوگوں نے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول (بتائیے) ۔ آپ نے فرمایا: "وضو کا پورا کرنا سختی اور تکلیف میں (اچھی طرح وضو کرنا) اور مسجد کی طرف قدموں کا کثرت سے ہونا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا یہی رباط ہے۔" (رباط کے معنی نفس کا عبادت کے لئے روکنا اور رباط جو جہاد میں ہوتا ہے) (صحیح مسلم)
Share: