شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒ


شيخ الهند حضرت مولانا محمود الحسن رحمة الله عليه
ايك عهد ساز شخصيت
تاریخ ِ ہند جن شخصیات پر بجا طور پر فخر کرتی ہے، وطن ِ عزیز کا ذرہ ذرہ جن کے احسانات کو تسلیم کرتا ہے، باشندگان ِ ہند جن کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے،علم وعمل کاقافلہ،فکر ونظرکا کارواں کبھی جن کی قافلہ سالاری سے اپنے آپ کوبے نیاز نہیں کرسکتا،مسند درس وتدریس کے اساتذہ، علوم ِ فقہ وحدیث کے شناور کبھی اس کی نکتہ آفرینیوں سے بے پرواہ نہیں ہوسکتے، تفسیر ِ قرآن میں غوطہ زنی کرنے والے کبھی اس کی صدف ریزیوں اور نکتہ سنجیوں سے ناآشنا نہیں رہ سکتے، قومی، ملی درد وکڑھن کے ساتھ میدان ِ عمل میں جدوجہد کرنے والے شہسوار،ظلم وستم کے خاتمہ کے لئے تگ ودو کرنے والے،امن وانصاف کے علمبرارجس کو کبھی نظر انداز نہیں کرسکتے،ملکی اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے کبھی اس کی نگاہ ِ دورس،حکمت ِ عملی اورفراست وتدبر سے کنارہ کش نہیں ہوسکتے، چناںچہ وہ عظیم المرتبت شخصیت میرکارواں، بطل ِ حریت،شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمة الله عليه ہیں۔ کمالات کے جامع، خوبیوں کے پیکرحضرت شیخ الہند رحمة الله عليه اپنی ذات میں ایک انجمن تھے،اوراللہ تعالی نے ایک فرد سے تاریخی،انقلابی،پوری ایک جماعت کا عہد ساز کام لیا۔شیخ الہند رحمة الله عليه کی شخصیت پر بے شمار اربابِ علم وفضل نے خامہ فرسائی اور عقیدت ومحبت سے بھرپورخراج عقیدت پیش کیا،آپ نے علم وفضل اور تاریخ ساز شاگردان ِ باصفا کی ایک پوری جماعت تیار کی جس نے نہ صرف ہند میں علم کے موتی لٹائے بلکہ عالم ِ اسلام میں اپنی عظمت واہمیت کا لوہا منوایااور آپ کا ہر شاگرد اپنے دورکا امام، مرجع ِ خلائق، مرکز علم وفضل رہا۔آپ حجۃ الاسلام حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی رحمة الله عليه كے علوم کے پیکر،فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة الله عليه کے کمالات کے مظہر،سیدالطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجرمکی رحمة الله عليه کے فیوض وبرکات کاعکس جمیل تھے۔

شیخ الہند رحمة الله عليه کی پیدائش:
حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کی ولادت بریلی میں 1850ء کے اخیر یا1851ء کے شروع میں ہوئی۔ آپ دیوبند کے باشندہ تھے،آپ کے والد ماجد حضرت مولانا ذوالفقار علی رحمة الله عليه تھے۔(نقش ِ حیات:153)شیخ الہند رحمة الله عليه کے والد ِ محترم دارالعلوم دیوبند کے بانیوں میں سے تھے،دہلی میں حضرت مولانا مملوک علی نانوتوی رحمة الله عليه سے پڑھا،فراغت کے بعد بریلی کے کالج میں پروفیسر مقرر ہوئے، چند سال بعد محکمۂ تعلیم میں ڈپٹی انسپکٹر ہوئے،عربی زبان وادب پر بڑی دسترس تھی،دیوان ِحماسہ کی شرح تسہیل الداراسہ،متنبی کی شرح تسہیل البیان،سبعہ معلقہ کی شرح  التعلیقات علی السبع المعلقات، قصیدہ بانت سعاد کی شرح ارشاد اور قصیدہ بردہ کی شرح عطر انوردہ اردو میں تحریر فرمایا۔معانی وبیان میں تذکرۃ البلاغت اور ریاضی میں تسہیل الحساب آپ کی یاد گار ہیں۔ (تاریخ ِ دارالعلوم دیوبند:1/123)

دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالب علم:
حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ عالمی شہرت یافتہ اورعظیم دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالب ِ علم ہیں۔ چناںچہ 15محرم 1283ھ مطابق30مئی 1866ء بروز پنجشنبہ، چھتے کی قدیم مسجد کے کھلے صحن میں انار کے ایک چھوٹے سے درخت کے سائے میں نہایت سادگی کے ساتھ کسی رسمی تقریب یا نمائش کے بغیر دارالعلوم کا افتتاح عمل میں آیا۔ حضرت ملامحمود دیوبندی رحمة الله عليه کو جو علم وفضل میں بلند پایہ عالم ِ دین تھے مدرس مقررکیا گیا،شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن رحمة الله عليه دارالعلوم دیوبند کے اولین شاگرد تھے، جنھوں نے استاد کے سامنے کتاب کھولی،یہ عجیب اتفاق ہے کہ استاد اور شاگرد دونوں کا نام محمود تھا۔( تاریخ دارالعلوم دیوبند:1/155)
حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه نے جن اساطین ِعلم اساتذہ کرام کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا ان میں میاں جی منگلوری صاحبؒ،میاں جی عبداللطیفؒ،حضرت مولانا مہتاب علی ؒ،حضرت مولانا ملا محمود ؒ،حضرت مولانا یعقوب نانوتویؒ،حضرت مولاناذولفقار علیؒ،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ جیسے حضرات ہیں۔ (شیخ الہند مولانا محمود حسن:12)حضرت نانوتوی رحمة الله عليه سے آپ کو بے حد قریبی تعلق تھا،سفر وحضر میں آپ ان کے ہمراہ رہتے تھے،اس طرح صحاح ِ ستہ کی تکمیل آ پ نے کی،1289ھ میں آپ دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے،دارالعلوم دیوبند کے پہلے اجلاس دستار بندی منعقدہ 1290ھ میں آپ کی دستاربندی ہوئی۔(شیخ الہند:شخصیت خدمات وامتیازات:14)

دارالعلوم دیوبند میں بحیثیت ِ استاد:
فراغت ِتعلیم کے بعد1291ھ میں مدرس چہارم کی حیثیت سے دارالعلوم دیوبند میں تقرر ہوا،1308ھ میں منصب ِ صدرات پر فائز ہوئے۔آپ کے دورِ صدارت میں دارالعلوم کو عالم گیر شہرت حاصل ہوئی۔آپ کے شاگردوں میں حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ، حضرت مولانا عبید اللہ سندھی،حضرت مولانامنصورانصاریؒ،حضرت مفتی کفایت اللہ دھلویؒ، حضرت مولانا حسین احمدمدنیؒ،حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی،ؒحضرت مولانا اصغر حسین دیوبندیؒ،علامہ ابراہیم بلیاوی ؒ،حضرت مولانافخرالدین احمدؒ،حضرت مولانا اعزاز علی ؒؒ،حضرت مولانا مناظر احسن گیلانیؒ،حضرت مولانا سہول احمد صاحب بھاگلپوری ؒجیسے نامور علماء شامل ہیں۔ (مشاہیر دارالعلوم دیوبند:27)حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری طیب ؒ فرماتے ہیں کہ:حضرت شیخ الہند ؒنے مسلسل چالیس برس تک درسِ حدیث دیااور اس دوران آٹھ سو اعلی استعداد کے صاحب ِ طرز عالم ِدین، فاضل ِ علوم اورماہرین ِ فنون پیداکئے، آپ کا درس حدیث اس دور میں امتیازی شان رکھتا تھااور مرجع ِ علماء تھا،آپ کو علماء ِ عصر نے’’ محدثِ عصر‘‘ تسلیم کیا۔(کشف الباری:1/75)بانی ٔ تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ بھی آپ کے تلامذہ میں تھے۔

بیعت و سلوک:
1294ھ میں جب آپ اپنے استاد حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کے ساتھ حج کے لئے تشریف لے گئے تو وہیں پر آپ نے حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی ؒ سے بیعت ہونے کا شرف حاصل کیا،نیز حاجی صاحب کے بیعت فرمانے کے بعد حضرت نانوتوی ؒ نے بھی آپ کو خلعت ِاجازت وخلافت سے نوازا،ہندوستا ن آنے کے بعد اورحضرت نانوتوی ؒ کے انتقال کے بعد آپ نے اصلاح وتربیت کا تعلق حضرت رشید احمد گنگوہی ؒ سے قائم فرمایا۔(شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ :28)

جدوجہد آزادی میں کردار:
حضرت شیخ الہند ؒ کا ایک بڑا احسان مسلمانان ِ ہند پر بالخصوص یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ آزادی کے لئے نچھاورکردیااور صعوبتوں کو جھیل کر، قربانیوں کا نذرانہ پیش کرکے آزادی کے خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لئے جہد ِ مسلسل کرتے رہے اور اپنی بے مثال وتاریخ ساز قیادت کی ایمان افروز و حوصلہ افزا داستان رقم کی، جسے ہندوستان کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ آزادی ٔ وطن کے لئے حضرت شیخ الہند ؒمیں جو جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اس پر تفصیلی روشنی حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے ڈالی ہے، چناںچہ شیخ الاسلام حضرت مدنی ؒ نے لکھا ہے کہ:ہنگامہ ٔ انقلاب ِ آزادی 1857 میں واقع ہوا، 1857 كے واقعات کو اگرچہ صغر سنی کی وجہ سے پوری طرح نہیں دیکھ سکے تھے،مگر اجمالی طور سے یاد تھے،بڑ ے ہونے کے بعد اپنے والدین ماجدین اوراساتذہ اور گردوپیش سے وہ انسانیت سوز مظالم اور درندگی وبربریت کے معاملات جو انگریزوں نے ہندوستانیوں کے ساتھ کئے تھے سنتے اور معلوم کرتے رہے۔۔۔۔۔حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه میں ان دونوں ( حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ) بزرگوں اور بالخصوص حضرت نانوتوی ؒ کی صحبت اور شاگردی اور خدمت کی وجہ سے وہ تمام حالات جن کی وجہ سے انقلاب1857 كی کوششیں ہندوستانیوں نے کی تھیں اور وہ واقعات جو اس جنگ ِ آزادی میں پیش آئے تھے معلوم ہوکر محفوظ ہوگئے تھے،جن کی بناء پر وہ جذبہ ٔ حریت وایثاراور اس کی آگ اور امورِ حکومت پر تنقیدانہ نظر پیداہوگئی تھی کہ جس کی نظیر بجز قرون ِ اولی عالم ِ اسلام میں پائی جانی تقریبا ًممتنع ہے۔۔۔انگریزی حکومت اورہندوستان کے ان کے واقعات نے مجبور کیا کہ اپنی جان کو ہتھیلی میں رکھ کر جدوجہد عمل میں لائی جائے اور کسی قسم کے خطرہ کوبھی مرعوب یا متاثرکرنے کاموقع نہ دیا جائے۔(نقش ِ حیات:154)

تحریک ریشمی رومال:
تحریک ِ آزادی کی ایک اہم اور تاریخ ساز تحریک’’ ریشمی رومال‘‘ہے اس کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ 1913 ابتدا تھی، عالم ِ اسلام کے مختلف خطوں پر برطانوی ظلم ومداخلت کا سلسلہ بڑھتا جارہا تھا،1914 میں جنگ ِ عظیم شروع ہوئی، جس میں دولت ِ عثمانیہ کو زبردستی گھسیٹاگیااور اس کے وجود کو خطرات لاحق ہونے لگے،ہندوستان میں بھی مسلمانوں کے ساتھ ظلم وتشددکا رویہ اپنایاجانے لگا،حضرت شیخ الہند ؒ نے اس موقع پر تحریک ِ جہاد شروع کرنے کا فیصلہ کیا،یہی تحریک بعد میں ’’ریشمی رومال‘‘کہلائی۔ان حالات میں شیخ الہند ؒ نے انگریزوں کے خلاف بغاوت اور بیرونی مدد سے یاغستانی آزاد قبائل کی طرف سے ملک پر حملے کے پروگرام کوعملی شکل دینے کے لئے مولانا عبید اللہ سندھی رحمة الله عليه کو کابل بھیجا۔۔۔مولانا عبید اللہ سندھی ؒکام کی صورتِ حال سے آگاہ کرنے کے لئے ایک ریشمی رومال پر حضرت شیخ الہندؒ کے نام ایک خط لکھا،جس میں پوری کار گزاری،آئندہ کے منصوبوں، حملہ مورچوں اور دیگر تفصیلات کا ذکر تھا۔یہ خط 10جولائی 1916 کو مولانا سندھی ؒ نے اپنی تحریک کے ایک معتمد شخص عبد الحق کے سپرد کیا کہ وہ اسے مولانا عبد الرحیم سندھی تک پہنچادے، جو اسے مدینہ منورہ پہنچادیں گے، ( جہاں شیخ الہند ؒ تھے)مقدر کا فیصلہ تھا کہ اس تحریک کا راز فاش ہوگیاعبد الحق راستے میں رب نواز نامی انگریز حکام کے ایجنٹ کے پاس رکا،اس نے کسی طرح یہ خط حاصل کرلیا اور انگریز حکام کے سپرد کردیا۔اس تحریک کے انکشاف نے انگریز حکومت کی نیند اڑادی، پھر تفتیش کا طویل سلسلہ شروع ہوا،شریف ِمکہ کے ذریعہ ترکوں سے متعلق ایک فتوی کو بہانہ بناکر حضرت شیخ الہندکوگرفتارکرکے مالٹا کے قید خانے میں بھیج دیا گیا، یہ قید بامشقت تین سال سے زائد عرصے پر محیط رہی۔ 1920 میں شیخ الہند ؒمالٹاسے رہا ہوکر وطن روانہ ہوئے۔
( مستفاداز: حضرت شیخ الہند:شخصیت، خدمات وامتیازات:18،تحریک ِ آزادی میں مسلم عوام اور علماء کا کردار:83)

مالٹا سے رہائی کے بعد :
حضرت شیخ الہند مولانا محمودالحسن ؒنے مالٹا کی جیل سے رہا ہونے کے بعد دارالعلوم دیوبند آئے اور علماء وطلباء کے ایک بڑے مجمع سے خطاب فرمایا تو کہا کہ: ہم نے مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں اور فرمایا:میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی لحاظ سے کیوں تباہ ہورہے ہیں تو اس کے دوسبب معلوم ہوئے، ایک ان کا قرآن کوچھوڑ دینا، دوسرے ان کے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی، اس لئے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کرو کہ قرآن کریم کو لفظاً اورمعناعام کیاجائے،بچوں کے لئے لفظی تعلیم کے مکاتب ہربستی بستی میں قائم کئے جائیں، بڑوں کو عوامی درس قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشنان کرایاجائے اورقرآنی تعلیمات پر عمل کے لئے آمادہ کیاجائے اورمسلمانوں کے باہمی جنگ وجدال کو کسی قیمت پربرداشت نہ کیاجائے۔( وحدت ِ امت :39)

شیخ الہند ؒاور جمعیۃ علماء ہند:
آزادیٔ وطن کی امنگوں کو لے کر جو تنظیمیں وجود میں آئیں ان میں سب سے نمایاں اور اہم ’’جمعیۃ علما ء ہند‘‘ ہے۔ نومبر1919 میں جمعیۃ علماء ہند کا قیام عمل میں آیا۔ مؤرخ دیوبند محبوب رضوی لکھتے ہیں کہ:1338هـ بمطايق 1920 میں مالٹا سے رہائی کے بعد حضرت شیخ الہند ؒ جمعیۃ العلماء میں شامل ہوگئے جسے ان کے تلامذۃ نے1919میں تحریک ِ آزادی کو فروغ دینے کے لئے قائم کیا تھا۔ ( تاریخ دارالعلوم دیوبند :1/511)

وفات حسرت آیات:
30- نومبر1920ء،مطابق18- ربیع الاول1339ھ بروز منگل کو آپ کا انتقال ہوا اور دیوبند میں اپنے استاد جلیل حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کے پہلو میں سپردِ خاک کئے گئے۔ ۔
(شیخ الہند:شخصیت، خدمات وامتیازت:35)

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

مولانا ابوالکلام آزادؒ کا خراج ِ عقیدت:
امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد ؒ نے  نومبر1921ء میں لاہورمیں منعقدہ جمعیۃ علماء ہند کے اجلاس میں کہا تھا:آپ کی اس جمعیۃ کا گزشتہ اجلاس مجمع علماء ہند کے جس بزرگ ومحترم وجود کی رہنمائی وصدارت میں منعقد ہوا تھا۔وہ آج ہم میں نظر نہیں آتا،اور اس کی موجودگی کی برکتوں سے ہم محروم ہوگئے ہیں۔ میرا اشارہ حضرت مولانا محمود الحسن کی ذات ِ گرامی کی جانب ہے اور میں یقین کرتا ہوں کہ آپ میں سے ہر فرد کو ان کی یاد دعوت غم دے رہی ہے،ان کی وفات بلاشبہ ایک قومی ماتم ہے۔ مولانا مرحوم ہندوستان کے گزشتہ دور کے علماء کی آخری یادگار تھے، ان کی زندگی اس عہد حرمان وفقدان میں علمائے حق کے اوصاف وخصائل کا بہترین نمونہ تھی۔ ان کا آخری دور جن اعمال حقہ میں بسر ہوا وہ علمائے ہند کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہیں گے۔ستر برس کی عمر میں جب ان کا قد ان کے دل کی طرح اللہ کے آگے جھک چکاتھا،عین جوارِ حرم میں گرفتار کئے گئے، اور کامل تین سال تک جزیرہ مالٹا میں نظر بند رہے۔یہ انہیں صرف اس لئے برداشت کرنی پڑی کہ اسلام وملت اسلام کی تباہی پر، بربادی پران کاخدا پرست دل صبر نہ کرسکا،اورانہوں نے اعدائے حق کی مرضیات واہوا کی تسلیم واطاعت کا مردانہ انکار کردیا۔فی الحقیقت انہوں نے علمائے حق وسلف کی سنت زندہ کردی اور علمائے ہند کے لئے اپنی سنت حسنہ یادگار چھوڑگئے۔ (خطباتِ آزاد:87)
Share: