شادی کا مسنون طریقہ

شادی کا مسنون طریقہ
علماء كرام كي تحقيق اور آكابر مفتيان عظيم كے فتاوى جات كا مطالعه كيا جائے تو شادي كا مسنون طريقه مختصر الفاظ ميں اس طرح سامنے آتا هے
شادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم کی محبوب سنت ہے اور اس کی ترغیب بھی بہت سی روایات میں آئی ہے۔ شادی کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے عقد نکاح ہو، بہتر یہ ہے کہ عقد نکاح مسجد میں ہو، تاکہ سب لوگوں کو اس کا علم ہوجائے (تاهم مسجد سے باهر شادي هال يا گهر وغيره ميں بهي نكاح بلا كراهت جائز هے)  اس کے بعد رخصتی کا عمل ہو

رخصتي كا كوئي خاص طريقه تو شريعت ميں متعين نهيں هے البته رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا رخصتی کے بارے میں عام معمول یہ تھا کہ لڑکی کا باپ یا ولی لڑکی کو تیار کرکے خود یا کسی اور کے واسطے سے دولہا کے گھر پہنچا دیتا، جیسا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالى عنها اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالى عنہا کی رخصتی سے متعلق روایات سے معلوم ہوتا ہے۔
لڑکی کی رخصتی کے لئے باقاعدہ طور پر بارات لے كر جانا، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله و سلم سے ثابت نہیں هے لہٰذا سب سے بہتر یہ ہے کہ لڑکی والے خود دلہن کو دولہا کے گھر پہنچائیں۔ اگر وہ پہنچانے کے لئے تیار نہ ہوں تو پھر دولہا خود یا کسی ایسے شخص کو (جو دلہن کا محرم بنتا ہو) لڑکی کو لانے کے لئے بھیج دے ۔ مروّجہ طریقوں سے بارات لے كر جانے کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، البتہ اگر خلافِ شرع امور سے اجتناب کرتے ہوئے لڑكا اور لڑکے کے خاندان کے چند افراد جائیں اور لڑکی کو رخصت کر کے لے آئیں تو اس کی بهي گنجائش ہے ليكن ايك جم غفير كي شكل ميں بارات لے كر جانے كي گنجائش هرگز نهيں هے بلكه مروجہ ”بارات” ایک واجب الترک رسم ہے، اس میں جانے اور كهانا کھانے میں شرکت کرنے سے بهي احتراز کرنا هي بهتر هے دلہن کو رخصت کراکر لانے کے لیے دولہا کے ساتھ اگر چند  افراد چلے جائیں تو يه کافی هے ليكن يه تب هي ممكن هے جب لڑكي اور لڑكے والے اس كے لئے پوري طرح تيار هوں اور كسي بهي بدمزگي كا خدشه نه هو  تاهم فساد سے هر صورت بچنا چاهيے اور إعتدال كا راسته أختيار كرنا چاهيے   ۔
شادی میں برتی جانے والی مروجہ رسومات مثلاً مايوں ، مہندی، ڈھولکی، منڈھا ، بارات وغیرہ سب غیر اسلامی رسوم ہیں، شریعت میں ان کی کوئی اصل نہیں ہے، ان رسومات پر عمل درآمد کرنا شرعاً جائز نہیں ہے؛ بلکہ ان کے التزام سے شادی جو ایک سنت نبوی صلى الله عليه وآله وسلم ہے، اس کے برکات سے محرومی کا شديد اندیشہ ہے بس شب زفاف کے بعد ولیمہ کا انعقاد ہوجائے۔شادی كي نعمت پر اظہار مسرت کے لیے شریعت نے ”ولیمہ“ کو مسنون قرار دیا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی متعدد بیویوں کے نکاح میں خود بھی ولیمہ کیا ہے، نیز صحابہٴ کرام رضوان الله عليهم کو ولیمے کی ترغیب بھی دی، ولیمہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ بلاتکلف وبلا تفاخر اختصار کے ساتھ جس قدر میسر ہوجائے اپنے خاص لوگوں کو کھلادے، وليمه كے لئے بهي بهت بڑي تعداد ضروري نهيں هے اگر إستطاعت نه هو تو دعوتِ ولیمہ کے لیے جانور ذبح کرنا یا کوئی خاص انتظام کرنا بهي ضروری نہیں ہے، بس صرف شرط یہ ہے کہ خالصتاً لوجہ اللہ ہو، اس میں غریبوں کو بھی مدعو کیا جائے، صرف امیروں ہی کو دعوت دینے پر اکتفاء نہ کیا جائے، نیز حسب طاقت ہو۔ اس کے لیے لون یا سودی قرض نہ لیا جائے۔
آجكل عموماً يه بات كهي جاتي هے كه آج كل كے ماحول ميں اس طرح شادي كو آنجام دينا ممكں نهيں هے ليكن آصل بات يه هے كه اگر كوئي اپنے نبي صلى الله عليه وآله وسلم كي محبت ميں ايسا كرنا چاهے تو يه بالكل نا ممكن نهيں هے گذشته سال  ميرے برادرعزيز حافظ عبدالوحيد صاحب نے اپني بيٹي كي رخصتگي  شادی میں برتی جانے والی مروجہ غیر اسلامی رسومات مثلاً مہندی، ڈھولکی، منڈھا ، بارات وغیرہ سے مكمل طور پر إجتناب كرتے هوئے سنت كے مطابق كركے يه ثابت كرديا كه كرنے والوں كے لئے اب بهي يه ناممكن نهيں هے 

 دعا هے الله تعالى هم سب كو بهي اس كي توفيقعنايت فرمائے كه هم بهي اپني اولاد كي 
 شادياں سنت كے مطابق كرنے والے بن جائيں 
 آمين يا رب العالمين


Share: