لوگوں کے حقوق غصب کرنا

لوگوں کے حقوق غصب کرنا

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًااللہ تعالى تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حق داروں کو پہنچا دو۔ اور جب تم لوگوں كے درمياں فيصله كرو تو إنصاف سے فيصله كرو - الله تعالى تمهيں نصيحت كرتا هے الله تعالى سننے والا اور ديكهنے والا هے-القرآن الكريم

فرمان نبوی صلى الله عليه وآله وسلم  هے كه اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تین آدمی ایسے ہیں جن کے خلاف قیامت کے دن میں حق طلبی کا دعویٰ کروں گا۔ 
ایک وہ شخص جو میرا نام لے کر عہد باندھے پھر اسے توڑ دے، اور وہ جو آزاد شخص کو بیچے اور اس کی قیمت ہڑپ کرجائے اور وہ جو کسی کو ملازم رکھے، اس سے پورا کام لے اور پھر اسے اجرت نہ دے۔

حديث مباركه كا مفهوم هے كه وہ لعنتی ہے جو مسلمان کو نقصان پہنچائے اور اس کے ساتھ مکر کرے۔ حقوق العباد كي تعریف تو واضح ہے البتہ اتنی وضاحت ضروری ہے کہ حقوق کی چند قسمیں ہوتی ہیں۔ مسلم معاشرت میں ان تمام حقوق کی پاسداری یکساں طورپر لازمی ہے اور ان میں سے ہرایک کی خلاف ورزی شرعاً بڑا گناہ ہے۔

ایک إنسان کے دوسرے پرحقوق

اس کے مال میں ناجائز تصرف نہ کیا جائے۔ أس كا جو حق هے اسے كسي طريقه سے بهي غصب يا متأخر نه كيا جائے- اسے حقِ وراثت سے كسي طرح بهي محروم نه كيا جائے مثلاً چوری، فریب ، خیانت، زبردستي ، جان بوجھ کر غلط بياني كرنا يا غلط مشورہ دینا وغیرہ ناجائز تصرف کی ذیل میں آتے ہیں۔
اس کی آبرو کو مجروح نہ کیا جائے۔ اس کو جانی یا بدنی نقصان نہ پہنچایا جائے۔

 اس کو ایسی كوئى بهي جاني يا ذهني اذیت نہ دی جائے جس کا وہ مستحق نہ ہو۔

اس سے جھوٹ نہ بولا جائے، وعدہ خلافی نہ کی جائے اور جان بوجهـ كر غلط مشورہ نه ديا جائے اور اگر مشوره دینے کی اہلیت نہ ہو تو مشورہ نہ دیا جائے۔ تعلیم وغیرہ کے معاملے میں بھی یہی اصول ہے۔ نااہل معلم یا مربی اپنے شاگردوں کا ایک بڑا حق غصب کرتا ہے۔

 اس کی خوشامد اور جھوٹی تعریف نہ کی جائے یعنی اس کے بگڑنے کا کوئی سامان نہ کیا جائے۔ 
اس سے تعلق اور گفتگو میں دین کو مقدم رکھا جائے۔ ان میں سے کسی ایک کی خلاف ورزی بھی
 یا تو گناہ ہے یا ایسی کوتاہی ہے جس کا آخر میں حساب دینا ہوگا ۔ 

ان کے علاوہ حقوق کی ایک ذاتی قسم بھی ہے۔ آدمی پر لازم ہے کہ وہ اپنی ہدایت کا سامان کرے اور اپنے نفس پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ بلاضرورت نہ ڈالے۔ اس ضابطے کو فراموش کرنا گناہ بھی ہے اور نفسیاتی کجی بھی۔ اسی طرح شریعت نے اہل حقوق کے مختلف طبقات بھی مقرر کردیئے ہیں مثلاً والدین اولاد ، رشتہ دار پڑوسی، دوست احباب ، شوہر اور بیوی، عام مسلمان، غیر مسلم وغیرہ۔ ان کے حقوق بھی متعین ہیں اور ہرمسلمان انہیں ادا کرنے کا پابند بھی ہے۔ 

حقوق کی پوری تفصیل کو ہم اپنی سہولت کے لیے دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد ۔ ان کی ادائیگي کی طاقت اور جذبہ ایک ہی مرکز سے پھوٹتا ہے لہٰذا یہ بات کسی بھی درجے میں قابل قبول نہیں ہے کہ آدمی اللہ کے حقوق ادا کرے اور بندوں کی طرف سے غافل ہوجائے یا بندوں کا خیال رکھے اور اللہ کی پرواہ نہ کرے۔ یہ اصول جاننا بہت ضروری ہے کہ حقوق و فرائض کا پورا نظام اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہے۔ اس بنیاد کو بھول کر یہ سارا قصہ محض بے معنی ہے اور شرعاً کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ مختصراً یہ کہ اصل چیز اللہ اور اس کے رسول ؐ کی فرماں برداری ہے۔ یہ ہر نیکی اور خیر کی بنیاد ہے جس سے کٹ کر کوئی چیز خواہ کتنی بھی بھلی معلوم ہو بیکار ہے۔
 
  رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے حقوق
 مخلوق ميں سب سے زياده حقوق رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے هيں رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم  کے حقوق کے معاملے میں اصول یہ ہے کہ آپ صلى الله عليه وآله وسلم  پر شریعت کی بتائی تفصیل کے مطابق ایمان رکھا جائے اور محبت واطاعت یا تعلق کی کسی بھی سطح پرآپ صلى الله عليه وآله وسلم  کے مقابلے میں کسی کو ترجیح نہ دی جائے بلکہ کسی کو آپ صلى الله عليه وآله وسلم کے برابر بھی نہ لایا جائے۔ عملی نقطہ نظر سے دیکھیں تو امت پررسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم  کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ آپ صلى الله عليه وآله وسلم  کے لائے ہوئے دین کو اس کی صحیح صورت میں محفوظ رکھا جائے اور اس پر پوری طرح عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم  کے حقوق اصولی طورپر حقوق العباد ہی ہیں لیکن آپ صلى الله عليه وآله وسلم  کے امتیاز کو اشتراک پر نوقیت دینا ضروری ہے۔ کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم  کے حقوق کی تعمیل پر دین کا دارومدار ہے۔ یہ حیثیت حقوق العباد کی کسی بھی قسم کو حاصل نہیں۔

اپنے نفس کے حقوق

 اس میں سے امارگی زائل کرنے کی کوشش کی جائے یعنی دین پر چلتے ہوئے اس کا تزکیہ کیا جائے۔

نفس کے دوحصے ہیں ایک طبیعت اور دوسرے ذہن - طبیعت کو اللہ اور رسول اللہ  صلى الله عليه وآله وسلم کے ساتھ سچے تعلق کے احوال فراہم کرنے کی کوشش کی جائے اور ذہن کو دین کا صحیح فہم مہیا کیا جائے۔

نفس کا وہ حصہ جو طبیعت کہلاتا ہے، اسے دین کے حالی فضائل سے اس طرح مانوس کیا جائے کہ ہر فضیلت سے مناسبت رکھنے والا ایک ماحول اس کودے دیا جائے مثلاً نفس میں تعلق باللہ کا سب سے سریع التاثیر حال شکر کا ہے ۔ جائز ذرائع سے اس کی راحت کا سامان کرکے اس میں یہ کیفیت پیدا کی جاسکتی ہے ۔ اسی طرح مثال کے طورپر صبر کو لے لیں تو یہ چیز بھی اسے شکر کے زور پر سکھائی جاسکتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے جہاں اتنی نعمتیں عطا فرمائی ہیں وہاں اگر میری ایک آدھ خواہش پوری نہیں ہوتی تو کیا ہوا؟ اسی طرح نفس کا وہ حصہ جو ذہن ہے اس کے دینی Contentکو بالکل واضح، فیصلہ کن اور صحیح صورت میں رکھا جاسکتا ہے۔ بس اصول یہ ہے کہ طبیعت کو ھوس اور ذہن کو رائے کے تابع نہ ہونے دیا جائے۔

اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے ، خواہ وہ بوجھ اٹھانا موجب فضیلت ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ اگر نفس تنگی میں پڑگیا تو ایک بڑا عمل تو ممکن ہے وہ کر گزرے لیکن پھر یہ روز مرہ کے معمولي اعمال خیر کے بھی قابل نہیں رہتا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ نفس کی خوئے انکار اور سرکشی کو ابھرنے کا بہانہ نہیں دینا چاہیے۔ خواہ اس کے لیے رخصت ہی پر عمل کیوں نہ کرنا پڑے۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ لوگ بڑی بڑی دینی ذمہ داریاں خود پر لاد لیتے ہیں لیکن ابھی تھوڑی ہی مدت گزرتی ہے کہ فرائض ادا کرنے کے لائق بھی نہیں رہتے۔
نفس بمعنی ذات کے بھی کئی حقوق ہیں جن سے غفلت برتنا شرعاً ناروا ہے مثلاً خود کو ہلاکت میں نہ ڈالنا، اپنے مال وجان و عزت کی حفاظت کرنا، اپنی صحت کا خیال رکھنا، خود کو صاف ستھرا رکھنا وغیرہ۔

حقوق العباد اور خوفِ خدا
وہ اہل حقوق جن کی فہرست قرآن وحديث ميں بتائی گئی ہے تو ان کے حقوق معروف ہیں اور ان کے اعادے کی ضرورت نہیں۔ البتہ یہ بات ملحوظ رہے کہ دو چیزیں ادائے حقوق کی روح ہیں، خوفِ خدا اور ایثار۔ ان کی نگہداشت اور نشوونما کی کوشش کرنے والا، لوگوں کے حقوق اچھی طرح پورے کرسکتا ہے۔

حقوق تلفی کے نقصانات
اس خرابی کے متعدد نقصانات گنوائے جاسکتے ہیں لیکن ان میں سے دو بنیادی ہیں
ایک يه كه  آدمی کے دل سے اللہ تعالیٰ کا خوف نکل جاتا ہے۔ 
دوسرے انسانیت کے بنیادی اوصاف باقی نہیں رہتے یا کمزور پڑجاتے ہیں۔ 
جوشخص دوسروں کی حق تلفی کو اپنی عادات بنا لیتا ہے وہ دین سے مجموعی وابستگی کا کوئی ایک تقاضا بھی پورا کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ اس کی عبادات صرف دکھاوا ہیں اور اس کے تمام اعمال بے روح اور كسي بهي آجر إلهي سے خالي هيں کیونکہ یہ ایک ایسی لعنت ہے جو آدمی کے پورے وجود کو لپیٹ میں لے لیتی ہے، یہ نہیں ہوتا کہ ایک حصہ خراب ہوگیا تو باقی بھی محفوظ ہے۔ گویا اس لعنت کی زد آدمی کے تمام دینی انسانی اوصاف پر پڑتی ہے۔ اس کے بعد نقصانات کی فہرست گنوانا غیرضروری ہے، یہی کافی ہے۔

حق تلفي كي بری عادت کا علاج
اس کا بس ایک علاج ہے، بہت سادہ اور واضح، جو حقوق تلف ہوئے ہیں، ان کی تلافی کریں اور اس معاملے کو اس طرح نمٹائیں جس طرح کوئی دیانت دار شخص اپنے قرضے چکاتا ہے۔ یعنی غصب شده حقوق كے إيك إيك پيسه كي واپسي اگر وه خدانخواسته إس صورت حال سے دوچار هے كه بالكل فقير هوگيا هے اور آدائيگي كرنا ممكن نهيں رها تو پهر یا تو متاثرہ لوگوں سے اپنی کوتاہی اور زیادتی بغير كسي دباؤ كے معاف کروائی جائے یا پھر اس کے کفارے کی کوئی متفقہ صورت اختیار کی جائے۔ اس کے علاوہ اس کا نہ کوئی نفسیاتی علاج ہے نہ عملی۔
یہ ضرور ہے کہ اس عزم تک پہنچنے کے لیے کچھ محرکات درکار ہیں، ان میں سب سے بڑا محرک اللہ تعالیٰ کا خوف ہے۔ اسے پیدا کرنے کی مختلف تدابیر کی جاسکتی ہیں: مثلاً آخر میں اللہ تعالیٰ کے جلال کا تصور ، دوزخ کا خیال، عذاب قبر کا تصور اور یہ کہ اس خرابی کی وجہ سے میں رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم کی نفرت کا نشانہ بنوں گا۔ یہ آخری خیال طبیعت کے لیے بہت مؤثر ہے۔

حقوق العباد كي عدم آدائيگي 
اور حقوق العباد كا غصب كرنا
دوسروں کے حقوق کی ادائيگی میں کوتاہی اور ان کے حقوق غصب کرنا ایک لحاظ سے دو مختلف چیزیں ہیں۔ چوری، ڈاکے ، دهوكه ، فريب اور خیانت وغیرہ کا تعلق غصب حقوق سے ہے اور یہ حق تلفی یعنی دوسرے کے حقوق نہ ادا کرنے سے بڑا گناہ ہے۔ جیسے کسی کی رقم ضائع کردینا بھی گناہ ہے لیکن وہ رقم چھین لینا بلاشبہ اس سے بھی بڑا گناہ ہے۔
-----
Share: