إسلام میں اچھی بات رائج کرنا

إسلام میں اچھی بات رائج کرنا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا ہے کہ: جو شخص اسلام میں کوئی اچھی بات رائج کرے گا، اسے ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کے برابر مزید ثواب بھی ہوگا 
( صحیح مسلم  )

إس حديث مباركه ميں عموماً جو يه اِشکال ہوتا هے كےكه الله تعالى نے تو حضور أكرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے زمانے میں ہی اسلام مکمل کردیا تها اور حضور صلی اللہ علیہ وآله وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عليهم  نے بہتر سے بہتر عبادات کے طریقوں پر عمل کرکے ہمارے لئے نمونہ بھی مہیا کردیا۔ کیا آج کے دور کے کوئی مفکر صحابہ کرام رضوان اللہ عليهم  سے بہتر عبادات کا طریقہ پیدا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ وغيره وغيره
يه إشكال درآصل حدیث مباركه کا أصل مفہوم نہ سمجھنے کی وجہ سے هوا ہے۔
صحیح مسلم میں اس حدیث کا قصہ مذکور ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے
کہ ایک موقعه پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے کچھ حاجت مندوں کو صدقہ دینے کی ترغیب دی تھی، ایک انصاری صحابي رضي الله تعالى عنه دراہم کا ایک بڑا توڑا اُٹھا لائے، ان کو دیکھ کر دُوسرے حضرات بھی پے درپے صدقہ دینے لگے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے يه ارشاد فرمایا تھا كه کہ: جو شخص اسلام میں کوئی اچھی بات رائج کرے گا، اسے ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کے برابر مزید ثواب بھی ہوگا 
( صحیح مسلم )
 لہٰذا اس حدیث میں “اچھی بات” سے مراد وہ نیک کام هيں جن کی شریعت نے ترغیب دی ہے، جن کا رواج مسلمانوں میں نہیں رہا۔ برعکس اس کے “بُری بات” کے رواج دینے والے پر اپنا بھی وبال ہوگا، اور دُوسرے عمل کرنے والوں کا بھی۔
اور مرورِ زمانہ کی وجہ سے نیکی کے بہت سے کاموں کو لوگ بھول جاتے ہیں اور ان کا رواج یا مٹ جاتا ہے یا کم ہوجاتا ہے، اور رفتہ رفتہ بہت سی بُرائیاں اسلامی معاشرے میں در آتی ہیں، مثلاً: داڑھی رکھنا نیکی ہے، واجبِ اسلامی ہے، سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہے، اسلامی شعار ہے، اور داڑھی منڈانا گناہ ہے، بُرائی ہے، حرام ہے، لیکن مسلمانوں میں یہ بُرائی ایسی عام ہوگئی ہے کہ اس پر کسی کو ندامت بھی نہیں، اور بہت سے لوگ تو اسے گناہ بھی نہیں سمجھتے، بلکہ بعض تو اس کے برعکس داڑھی رکھنے کو عیب اور عار سمجھتے هيں
پس جو لوگ إن حالات مين داڑھی كى سنت کو رواج دیں گے، ان کو اپنا بھی ثواب ملے گا اور جو لوگ ان کے رواج دینے کے نتیجے میں اس نیکی کو اپنائیں گے، ان کا ثواب بھی ان کو ملے گا۔ اس کے برعکس جس شخص نے داڑھی منڈانے کا رواج ڈالا اس کو اپنے فعلِ حرام کا بھی گناہ ملے گا اور اس کے بعد جتنے لوگ قیامت تک اس فعلِ حرام کے مرتکب ہوں گے، ان کا بھی۔ جيسا كه حدیث شریف میں ہے کہ دُنیا میں جتنے قتلِ ناحق ہوتے ہیں، حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل کو ہر قتل کا ایک حصہ ملتا ہے، کیونکہ یہ پہلا شخص ہے جس نے قتل کی بنیاد ڈالی۔
الغرض! حدیث میں جس اچھی بات یا نیکی کے رواج دینے کی فضیلت ذکر کی گئی ہے، اس سے وہ چیز مراد ہے جس کو اللہ و رسول نیکی کہتے ہیں ورنه جو چيز إسلام ميں موجود نهيں وه اب إيجاد كرنا تو صريحاً بدعت هے جو إيك گمراهي هے اور هر گمراهي دوزخ ميں لے جانے والي هے
الله تعالى هم سب كو توفيق عطا فرمائے كه هم بدعات سے إجتناب كرتے هوئے رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كي مبارك سنتوں كو زنده كرنے كي كوششوں ميں معاون بنيں آمين
رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے ارشاد كا مفهوم هے كه إيك زمانه آئے گا كه ميرى سنتيں مرده هوچكي هوں گي اس وقت جو ميرى إيك سنت كو زنده كرے گا اسے سو شهيدوں كا ثواب ملے گا -
وما توفيقي إلا بالله
Share: