اِنسانی حقوق کا قرآنی فلسفہ

اِنسانی حقوق کا قرآنی فلسفہ
اِسلام جملہ شعبہ ہائے حیات میں اعتدال اور توازن کا درس دیتا ہے۔ حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زندگی کے ہر پہلو کے حوالے سے ایسی تعلیمات عطا کیں جو زندگی میں حسین توازن پیدا کرنے کی ضمانت دیتی ہیں۔ اسلام کا یہ بنیادی اصول اس کی تمام تعلیمات اور احکام میں کارفرما ہے۔ حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عطا کردہ انسانی حقوق بھی اسی روح سے مملو ہیں۔ دنیا کے دیگر معاشرتی و سیاسی نظام حق کے احترام و ادائیگی کی اس بلندی و رفعت کی نظیر پیش نہیں کرسکتے جس کا مظاہرہ تعلیمات نبوی میں نظر آتا ہے۔ اسلام کا فلسفہ حقوق دیگر نظام ہائے حیات کے فلسفہ حقوق سے بایں طور مختلف و ممتاز ہے
 اسلام مطالبہ حق کی بجائے ایتائے حق کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ ہر شخص اپنے اوپر عائد دوسرے افراد کے حقوق کی ادائیگی کے لئے کمربستہ رہے۔ اور یہاں تک کہ وہ صرف حق کی ادائیگی تک ہی محدود نہ رہے بلکہ اس ادائیگی کو حد احسان تک بڑھا دے۔ قرآن فرماتا ہے
إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ 

(النحل  )
”بے شک اللہ (تمہیں) عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔“
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں مذکور عدل اور احسان قرآن حکیم کی دو اصطلاحات ہیں۔ عدل کا مفہوم تو یہ ہے کہ وہ حقوق جو شریعت اور قانون کی رو سے کسی فرد پر لازم ہیں وہ ان کی ادائیگی کرے جبکہ احسان یہ ہے کہ فرض و عائد حقوق سے بڑھ کر بھی وہ دوسرے افراد معاشرہ سے حسن سلوک کرے۔
حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عطا کردہ تصور احسان انسانی معاشرے کو سراپا امن و آشتی بنانے کی ضمانت فراہم کرتا ہے کیونکہ ایک فرد کا فرض دوسرے کا حق ہے جب ہر فرد اپنے فرائض کو ادا کرے گا یعنی دوسرے کے حقوق پورا کرنے کے لئے کمربستہ رہے گا تو لامحالہ معاشرے میں کسی طرف بھی حقوق کی عدم ادائیگی کی وجہ سے مطالبہ حقوق کی صدا بلند نہ ہوگی، اور پورے معاشرے کے حقوق از خود پورے ہوتے رہیں گے اور اس طرح معاشرہ قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے احترام کا آئینہ دار بن جائے گا۔
 حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انسانی حقوق کا ایسا نظام عطا کیا ہے جہاں حقوق و فرائض میں باہمی تعلق و تناسب  پایا جاتا ہے۔ یعنی کوئی شخص بغیر اپنے فرائض پورے کئے حقوق کا مطالبہ نہ کرے گا۔ چونکہ اساسی زور فرائض کی ادائیگی اور ایتائے حقوق پر ہے، سو کوئی بھی فرد معاشرہ اس وقت تک اپنے حقوق کے لئے آواز بلند نہیں کرسکتا جب تک وہ اپنے فرائض ادا نہ کرچکا ہو۔ اور فرائض کی ادائیگی کی صورت میں حقوق کا حصول ایک قدرتی اور لازمی تقاضے کے طور پر خود بخود ہی تکمیل پذیر ہوجائے گا۔
 حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حقوقِ انسانی کا ایسا جامع تصور عطا کیا جس میں حقوق و فرائض میں باہمی توازن پایا جاتا ہے۔ اس بنیادی تصور کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی کئی مغالطوں نے بھی جنم لیا۔ حقوق و فرائض کے مابین توازن ہی کے سبب سے بعض اوقات ظاہراً حقوق کے مابین عدم مساوات نظر آتی ہے حالانکہ درحقیقت ایسا نہیں۔ مثلاً عورتوں اور مردوں کے حصہ ہائے وراثت میں موجود فرق بھی اس حکمت کی وجہ سے ہے ورنہ مطلق حقوق کے باب میں مرد و عورت میں کوئی تمیز روا نہیں رکھی گئی۔ ارشاد ربانی ہے
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ 

( البقرہ  
اور دستور کے مطابق عورتوں کے مردوں پربهي  اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر۔
جبکہ میراث میں لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ( النساء) (لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے) کے اصول کے تحت جو فرق رکھا گیا وہ مرد و عورت پر عائد دیگر فرائض اور ذمہ داریوں کی وجہ سے ہے۔ چونکہ مرد ہی خاندان کی کفالت اور دیگر امور کا ذمہ دار ہے جبکہ عورت کو اس ذمہ داری سے مبرا قرار دیا گیا لہٰذا وراثت میں مرد کا حصہ بھی دوگنا کر دیا گیا تاکہ وہ اپنی معاشی و کفالتی ذمہ داریوں سے بطور احسن عہدہ برآ ہو سکے۔
 اسلام نے بعض امور کو ان کی قانونی و معاشرتی اہمیت کے پیش نظر حق نہیں بلکہ فرض قرار دیا اور ان کی عدم ادائیگی پر سزا کا مستوجب ٹھہرایا ہے مثلاً شہادت (گواہی)۔ اسلام میں گواہی دینا مردوں پر فرض ہے
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَادَةً عِندَهُ مِنَ اللّهِ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ

 ( البقرہ )
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جس نے اس گواہی کو چھپایا جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے موجود ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں
وَلاَ تَكْتُمُواْ الشَّهَادَةَ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ

 ( البقرہ  )
اور تم گواہی کو نہ چھپایا کرو، اور جو شخص گواہی چھپاتا ہے تو یقیناً اس کا دل گنہگار ہے، اور ﷲ تمہارے اعمال کو خوب جاننے والا ہے
معاشرے میں قانون کی حکمرانی کے لئے گواہی کا شفاف اور مؤثر نظام لازمی عنصرکی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے اسلام نے مردوں کو ہر حال میں گواہی دینے کا پابند بنایا جبکہ دوسری طرف عورتوں کو ان کی ذمہ داریوں کے فطری فرق کے پیش نظر اس ذمہ داری سے مبرا قرار دیا اور گواہی کو فرض کی بجائے ان کا حق قرار دیا۔اور اسی لئے اس کی شرائط بھی مختلف کر دیں۔ یہاں مرد و عورت کے حقوق میں امتیاز مقصود نہیں بلکہ گواہی کے نظام کو مؤثر بنانا مقصود ہے حالانکہ بعض معاملات میں صرف عورتوں ہی کی گواہی معتبر ہوتی ہے
Share: