بیوی کا اپنے نام کے ساتھ شوہرکا نام لگانا

 بیوی کا اپنے نام کے ساتھ شوہرکا نام لگانا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال : شادی کےبعد بیوی کا اپنے نام کے ساتھ شوہرکا نام لگانا شرعاً كيسا ہے؟
وعلیکم السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شادی کےبعد بیوی کا اپنے نام کے ساتھ شوہرکا نام لگانا شرعاً جائز ہے
قرآن پاک اوراحادیث مبارکہ میں جہاں اپنے آباء کی طرف نسبت کرنے اورغیر آباء کی طرف نسبت نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد نسب کے اعتبار سے نسبت کرنا ہے یعنی باپ یا دادا وغیرہ کے علاوہ کسی اور کے طرف باپ یا دادا ہونے کی حقیقی نسبت کرنا ناجائز اور گناہ ہے ، جیساکہ حضرات صحابہ کرام -رضی اللہ عنہم -اس ممانعت سے قبل حضرت زید بن حارثہ -رضی اللہ عنہ -کو نبي کریم -صلی اللّٰہ علیہ وسلم -کا بیٹا کہتے ہوئے یوں تذکرہ کرتے تھے "زید بن محمد" تو اللہ تعالٰی نے اس بات سے منع فرما دیا اور حکم دیا
اُدْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ  
 یعنی ان کی نسبت ان کے آباء کی طرف کرکے ان کو بلاؤ ، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف والی بات ہے
اس کے بعد صحابہ کرام -رضی اللہ عنہم -نے "زید بن محمد" کے بجائے "زید بن حارثہ "کہنا شروع کردیا - اس سے یہ واضح ہے کہ کسی شخص کا اپنے باپ کو چھوڑ کر کسی اور کی طرف حقیقی بیٹا ہونے کی نسبت کرنا ناجائز اور گناہ ہے - مگر سوال میں زیر بحث مسئلہ میں یہ ممنوعہ صورت سرے سے موجود ہی نہیں جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے :-
( ۱ ):- جوخاتون نکاح کے بعد اپنی نسبت اپنے شوہر کی طرف کرے اور اپنے نام کے ساتھ لاحقہ کے طور پر اس کا نام لگا ئے اس کا ہرگز یہ دعوٰی نہیں ہو تا کہ وہ اس شوہر کی بیٹی ہے اور وہ شوہر اس کا باپ ہے اگر اس کا یہ دعوٰی ہوتا کہ وہ اس شوہر کی بیٹی ہے تو ان کا باہم نکاح ناجائز ہوتا حالانکہ ان دونوں کا نکاح عملاً اس بات کی نفی کرتا ہے
نیز اس لاحقہ لگانے کے انداز میں غور کیا جائے تو اس کی ترتیب یوں ہے 
مثلا زینب خادم کہ اس میں بیوی کا نام زینب اور شوہر کا نام خادم ہے اور دونوں کے درمیان ابنیت کے اظہار کے لئے نہ کوئی لفظ موجود ہے اور نہ زبانی اس بات کا دعوٰی ہے، عربی ترکیب کے حوالہ سے ان دونوں الفاظ کے مجموعہ کو مرکب اضافی قراد دیا جا سکتا اہے جس کا مطلب ہو گا خادم کی زینب یعنی وہ زینب جس کی نسبت خادم کی طرف ہے اور یہ بات بالکل عیاں ہے کہ اس نسبت سے نکاح کے ذریعہ پیدا ہو نے والے تعلق کا اظہار درست طریقہ پر ہورہا ہے کہ یہ زینب اب خادم کی ہے یعنی اس کی منکوحہ ہے کسی اور کی طرف منسوب نہیں ہے
 مذکورہ لفظ خلاف واقعہ تب ہوتا جبکہ یہ ترکیب اس طرح ہوتی " زینب بنت خادم " یعنی خادم کی بیٹی زینب اور ایسا نہ دعوٰی ہے نہ تصور ہے اور نہ وہم
 مذکورہ ترکیب عرفا مروج ہوچکی ہے اور اس میں کوئی محظور شرعی بھی لازم نہیں آتا اس لیے اس کو ممنوع قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے
 جیسا کہ موجودہ دور میں اہل عرب کے ہاں یہ بات رواج پا چکی ہے کہ وہ ابن یا بنت کا لفظ حذف کرکے باپ اور بیٹے کے نام کو ایک ترکیب میں جمع کردیتے ہیں جس سے ابنیت کا اظہار مقصود ہوتا ہے حالانکہ یہ طریقہ متقدمین کے ہاں رائج نہ تھا چنانچہ اسماء الرجال کی کتابوں سے یہ واضح ہے بلکہ متقدمین کے دورمیں اگر کوئی ایسا طریقہ اختیارکرتا تو یہ اسماء الرجال میں تصحیف اور غلطی شمار ہوتا ، کتب احادیث کا مطالعہ کرنے والے پر یہ بات واضح ہے لیکن بعض مقامات پر اب اس ترکیب کا عرف ہونے کی وجہ سے مذکورہ ترکیب کو ناجائز نہیں کہا جاسکتا اسی طرح ہمارے معاشرے میں شوہر کے نام کو لاحقہ کے طور پر بیوی کے نام کے ساتھ لگانے کا بھی عرف ہو چکا ہے لہذا یہ کسی طرح ان آیات واحادیث کی وعید کے تحت داخل نہیں ہوتا جس میں نسب بدلنے کی ممانعت منقول ہے
واللہ اعلم باالصواب
علمائے ديوبند
Share: