صبر اور بے صبری کا معیار

صبر اور بے صبری کا معیار

وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (155) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (156) أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (157)ترجمه : اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میوؤں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے توصبر کرنے والوں کو (خدا کی خوشنودی کی) بشارت سنا دو
ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم خدا ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں
یہی لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی مہربانی اور رحمت ہے۔ اور یہی سیدھے رستے پر ہیں
الله تعالى نے حضرت إنسان كو إس دنيا ميں بيجها تاكه وه الله تعالى كے حكموں كے مطابق زندگي گزار كر اپنے رب كے پاس آئے اور پهر الله تعالى اسے اپني جنت ميں عظيم نعمتوں ميں ركهے
إس دنيا ميں إس كو مختلف حالات كا سامنا كرنا پڑتا هے كهبي خوشي هے تو كهبي غم هے كهبي فائده هے تو كهبي نقصان هے كهبي تندرستي هے تو كهبي بيماري وغيره تو اب جب خوشي اور راحت ملے تو الله تعالى كا "شكر" ادا كيا جائے اور جب غم اور پريشاني هو تو الله تعالى كا حكم سمجهـ كر "صبر" كيا جائے يهي إيك مسلمان كي زندگي كا نچوڑ هے كه وه يا تو الله تعالى كا شكر ادا كر رها هو يا بهر الله كے حكم پر صبر كررها هو
قرآن کریم اور احادیث طیبہ میں صبر کا مأمور بہ ہونا اور جزع فزع کا ممنوع ہونا تو بالکل بدیہی ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ مصائب پر رنج و غم کا ہونا ایک طبعی امر ہے، اور اس رنج کے اظہار کے طور پر بعض الفاظ آدمی کے منہ سے نکل جاتے ہیں، اب تنقیح طلب امر یہ ہے کہ صبر اور بے صبری کا معیار کیا ہے؟
اس سلسلہ میں کتاب و سنت اور اکابر کے ارشادات سے جو کچھ مفہوم معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ
اگر کسی حادثہ کے موقع پر ایسے الفاظ کہے جائیں جس میں حق تعالیٰ کی شکایت يا ناشكري پائی جائے (نعوذ باللہ) مثلاً يه كهنا كه الله تعالى كو إيسا نهيں كرنا چاهيے تها - يه ميرے ساتهـ ظلم هوا هے وغيره وغيره یا اس حادثہ کی وجہ سے مأموراتِ شرعیہ چھوٹ جائیں، مثلاً: جان بوجهـ كر نماز قضا کردے، بغير كسي شرعي عذر كے فرض روزه نه ركهـے یا کسی ممنوع شرعی کا ارتکاب ہوجائے، مثلاً: بال نوچنا، چہرہ پیٹنا چلا چلا كر رونا تو یہ "بے صبری" ہے إيسا كرنے سے بالكل إجتناب كرنا ضروري هے اور شركيه الفاظ ميں مرثيے كهنا يه بے صبري كيساتهـ ساتهـ شرك بهي هے اور شرك بذات خود إيك بهت بڑا ظلم هے
البته غمگين هونا - آنكهون سے آنسو بهانا - زبان سے إيسے صدمه كے الفاظ كهنا جن ميں الله تعالى كي ناشكري نه هو مرنے والے كو ياد كرنا اور إنهي أصولوں كو مدنظر ركهـ كر مرثيے پڑهنا وغيره اگر هوں تو يه بالكل خلافِ صبر نہیں، خیرالقرون میں بھی مرثیے کہے جاتے تھے مگر اسی معیار پر، اس اصول کو آج کل کے مرثیوں پر خود منطبق کرلیجئے كه وه صبر كے معيار پر هيں يا نهيں
صبر صرف اور صرف الله تعالى كي رضا كيلئے كيا جائے تو پهر إن شاء الله يقيناً الله تعالى إسكا آجر عظيم عنايت فرماتؤ هيں جيسا كه فرمان رباني هے
0يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ
ترجمه: اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد لیا کرو بےشک خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

جس كے ساتهـ الله تعالى خود هوجائيں تو پهر اس كے مقام كا كيا كهنا الله تعالى هميں عمل كرنيكي توفيق عنايت فرمائے - آمين 
Share: