کاتبِ وحی، جلیل القدر صحابی ، فاتح شام و قبرص حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنه
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ خوش نصیب انسان ہیں جن کو جلیل القدر صحابی ہونے کے ساتھ کاتبِ وحی اور پہلے اسلامی بحری بیڑے کے امیر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے حضورأكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے کئی دفعہ دعائیں اور بشارتیں نکلیں ، آپ رضی الله تعالی عنہ کی بہن حضرت سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ اور ام المومنین ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔
آ پ نے 19 سال تک 64 لاکھ مربع میل یعنی آدھی دنیا پر حکومت کی، تاریخِ اسلام کے روشن اوراق آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے کردار و کارناموں اور فضائل ومناقب سے بھرے پڑے ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضورأكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل جاتا ہے۔
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضور أكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی قیامت کے دن معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اس طرح اٹھائیں گے کہ ان پر نور ایمان کی چادر ہو گی''کنزالاعمال'' ایک موقعہ پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضورأكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ ! معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ہدایت دینے والا، ہدایت پر قائم رہنے والا اور لوگوں کیلئے ذریعہ ہدایت بنا۔
( جا مع ترمذی)
حضورأكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا کہ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ میری امت میں سب سے زیادہ بردبار اور سخی ہیں۔(تطہیرالجنان)۔ حضرت امیر معاویہ رضی تعالی عنہ سروقد ، لحیم وشحیم، رنگ گورا، چہرہ کتابی ،آنکھیں موٹی گھنی داڑھی، وضع قطع، چال ڈھال میں بظاہر شا ن وشوکت اورتمکنت مگر مزاج اور طبیعت میں زہد و تواضع، فرونتی، حلم برد باری اور چہرہ سے ذہانت اور فطانت مترشح تھی۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو حضور أكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مبارکبا د دی اور ''مرحبا۔۔۔۔۔۔'' فرمایا (البدایہ والنہایہ ) حضورأكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ حضرت آمير معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے سابقہ حالاتِ زندگی اور ان کی صلاحیت و قابلیت سے آگاہ تھے اس لئے انہیں خاص قرب سے نوازا ۔ فتح مکہ کے بعد آپ رضی اللہ تعالی عنہ حضورأكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی رہے اور تمام غزوات میں حضورأكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت و معیت میں بھرپور حصہ لیا۔
قرآن مجید کی حفاظت میں ایک اہم سبب ''کتابت وحی'' ہے۔ حضور أكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر مشتمل ایک جماعت مقرر کر رکھی تھی جو کہ '' کاتب وحی '' تھے ان میں حضرت آمير معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا چھٹا نمبر تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ حضورأكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو کا تب وحی بنایا تھا۔۔۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کو کاتب وحی بناتے تھے جو ذی عدالت اور امانت دار ہوتا تھا
(''ازالتہ الخفا ازشاہ ولی اللہ'')
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ خوش قسمت انسان ہیں جن کو کتابت ِوحی کے ساتھ ساتھ حضورأكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطوط تحریر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ حضورأكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے یہاں تک کہ سفرو خضر میں بھی خدمت کا موقع تلاش کرتے۔۔۔۔
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ خوش قسمت انسان ہیں جن کو کتابت ِوحی کے ساتھ ساتھ حضورأكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطوط تحریر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ حضورأكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے یہاں تک کہ سفرو خضر میں بھی خدمت کا موقع تلاش کرتے۔۔۔۔
چنانچہ ایک بار حضورأكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں تشریف لے گئے تو سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پیچھے پیچھے گئے۔ راستہ میں حضورأكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وضو کی حاجت ہوئی پیچھے مڑ ے تو دیکھا، معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پانی لئے کھڑے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے متاثر ہوئے چنانچہ وضو کے لئے بیٹھے تو فرمانے لگے '' معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ تم حکمران بنو تو نیک لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا اور برے لوگوں کے ساتھ درگزر کرنا ''۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اسی وقت مجھے امید ہو گئی تھی کہ حضور أكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشن گوئی صادق آئے گی۔
حضور أكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی خدمت اور بے لوث محبت سے اتنا خوش تھے کہ بعض اہم خدمات آپ کے سپرد فرمادی تھیں ۔ علامہ اکبر نجیب آبادی'' تاریخ اسلام'' میں رقمطراز ہیں کہ حضور أكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کی خاطر مدرات اور ان کے قیام وطعام کا انتظام واہتمام بھی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کر دیا تھا۔ حضور أكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد خلیفہ اوّل سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں آپ نے مانعینِ زکوة، منکرینِ ختم ِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، جھوٹے مدعیانِ نبوت اور مرتدین کے فتنوں کے خلاف بھرپور حصہ لیا اور کئی کارنامے سر انجام دیئے ۔
عرب نقاد رضوی لکھتا ہے کہ حضرت امیر معاویہ کسی کا خون بہانا پسند نہیں کرتے تھے مگر آپ اسلامی ہدایات کے مطابق مرتدین کے قتل و قتال میں کسی کے پیچھے نہ ہوتے ایک روایت کے مطابق مسلیمہ کذّاب حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وار سے جہنم رسید ہوا۔
خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جو فتوحات ہوئیں اس میں حضرت امیر معاویہ کا نمایاں حصہ اور کردار ہے جنگ یرموک میں آپ بڑی بہادری اور دلیری کے ساتھ لڑے اس جنگ میں غرضیکہ آپ کا پورا خاندان جنگ میں حصہ لے رہا تھا۔
خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جو فتوحات ہوئیں اس میں حضرت امیر معاویہ کا نمایاں حصہ اور کردار ہے جنگ یرموک میں آپ بڑی بہادری اور دلیری کے ساتھ لڑے اس جنگ میں غرضیکہ آپ کا پورا خاندان جنگ میں حصہ لے رہا تھا۔
خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جہاد وفتوحات میں مصروف رہے اور آپ نے رومیوں کو شکست فاش دیتے ہوئے طرابلس ، شام، عموریہ، شمشاط، ملطیہ، انطاکیہ، طرطوس، ارواڑ ، روڑس اور صقلیہ کو حدود نصرانیت سے نکال کر اسلامی سلطنت میں داخل کردئیے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان علاقوں کی فتوحات کے بعد اب یہ چاہتے تھے کہ اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے اس کو اب سمندر پار یورپ میں داخل ہونا چاہئے ''فتح قبرص'' کی خواہش آپ کے دل میں مچل رہی تھی یورپ وافریقہ پر حملہ اور فتح کے لئے بحری بیڑے کی اشد ضرورت تھی۔
بحرِروم میں رومی حکومت کا ایک بہت بڑا بحری مرکز تھا جو کہ شام کے ساحل کے قریب ہونے کے باعث شام کے مسلمانوں کے لئے بہت بڑا خطرہ تھا اسے فتح کیے بغیر شام ومصر کی حفاظت ممکن نہ تھی اس کے علاوہ سرحدی رومی اکثر مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے مسلمانوں کو تنگ کرتے رہتے تھے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے بحری بیڑے کو تیار کرنے کی اجازت ملنے کے بعد حضرت امیر معاویہ نے بڑے جوش خروش کے ساتھ بحری بیڑے کی تیاری شروع کردی اور اپنی اس بحری مہم کا اعلان کردیا جس کے جواب میں جزبہ جہاد سے سرشار مجاہدین اسلام شام کا رخ کرنے لگے۔
آٹهائيس هجری میں آپ پوری شان وشوکت تیاری وطاقت اور اسلامی تاریخ کے پہلے بحری بیڑے کے ساتھ بحر روم میں اترے لیکن وہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کرلی لیکن بعد میں مسلمانوں کو تنگ کرنے اور بدعہدی کرنے پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پوری بحری طاقت اور عظیم الشان بحری بیڑے کے ساتھ جس میں تقریباً پانچ سو کے قریب بحری جہاز شامل تھے قبرص کی طرف روانہ ہوئے اور بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے قبرص کو فتح کرلیا۔
اس لشکر کے امیر و قائد خود امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے آپ کی قیادت میں اس پہلی بحری لڑائی اور فتح قبرص کے لئے بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیم اجمعین جن میں حضرت ابو ایوب انصاری ، حضرت ابوذرغفاری، حضرت ابودردا، حضرت عبادہ بن صامت اور حضرت شداد بن اوس، سمیت دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین شریک ہوئے۔
اس لڑائی میں رومیوں نے بڑے جوش وخروش سے حصہ لیا، تجربہ کار رومی فوجوں اور بحری لڑائی کے ماہر ہونے کے باوجود اس لڑائی میں رومیوں کو بد ترین شکست ہوئی اور مسلمانوں کو تاریخی فتح حاصل ہوئی۔
حضور أكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث میں دو اسلامی لشکروں کے بارے میں مغفرت اور جنت کی بشارت وخوشخبری فرمائی ان میں سے ایک وہ لشکر جو سب سے پہلے اسلامی بحری جنگ لڑے گا اور دوسرا وہ لشکر جو قیصر کے شہر میں جنگ کرے گا۔
پہلی بشارت سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں پوری ہوئی جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلی بحری لڑائی لڑتے ہوئے قبرص کو فتح کر کے رومیوں کو زبردست شکست دی تھی اور دوسری بشارت سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میں اس وقت پوری ہوئی جب لشکر اسلام نے قیصر کے شہر قسطنطنیہ پر حملہ کرکے اس کو فتح کیا۔
اس جنگ میں حصہ لینے کے لئے شوقِ شہادت اور جذبہ جہاد سے سرشار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین وتابعین دنیا کے گوشہ سے دمشق پہنچے، ان میں حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت ابن عمر، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت سیدنا حسین بن علی، اور میزبان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا حضرت ابو ایوب انصاری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، اور دیگر مدینہ منورہ سے تشریف لاکر اس لشکر میں شریک ہوئے جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کی بشارت وخوشخبری فرمائی تھی۔
اس جنگ میں حصہ لینے کے لئے شوقِ شہادت اور جذبہ جہاد سے سرشار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین وتابعین دنیا کے گوشہ سے دمشق پہنچے، ان میں حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت ابن عمر، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت سیدنا حسین بن علی، اور میزبان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا حضرت ابو ایوب انصاری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، اور دیگر مدینہ منورہ سے تشریف لاکر اس لشکر میں شریک ہوئے جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کی بشارت وخوشخبری فرمائی تھی۔
سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور حکومت فتوحات اور غلبہ اسلام کے حوالہ سے شاندار دور حکومت ہے ایک طرف بحر اوقیانوس اور اور دوسری طرف سندھ اور افغانستان تک میں اسلام کی فتح کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلفائے راشد ین کے ترقیاتی کاموں کو جاری رکھتے ہوئے اس مندرجہ ذیل نئے اُمور کی داغ بیل ڈال کر اس کو فروغ دیا۔
أ- حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلا آقامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا۔
ب - سب سے پہلے اسلامی بحریہ قائم کیا، جہاز سازی کے کارخانے بنائے اور دنیا کی زبردست رومن بحریہ کو شکست دی۔
ج - آبپاشی اور آبنوشی کیلئے دور اسلامی میں پہلی نہر کھدوائی۔
د - ڈاکخانہ کی تنظیم نو کی اور ڈاک کا جدید اور مضبوط نظام قائم کیا۔
ه - احکام پر مہر لگانے اور حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔
و - آپ سے پہلے خانہ کعبہ پر غلافوں کے اوپر ہی غلاف چڑھائے جاتے تھے آپ نے پرانے غلافوں کو اتار کر نیا غلاف چڑھانے کا حکم دیا۔
ز - خط دیوانی ایجاد کیا اور قوم کو الفاظ کی صورت میں لکھنے کا طریقہ پیدا کیا۔
ح - انتظامیہ کو بلند تر بنایا اور انتظامیہ کو عدلیہ میں مداخلت سے روک دیا۔
ط - آپ نے دین اخلاق اور قانون کی طرح طب اور علم الجراحت کی تعلیم کا انتظام بھی کیا۔
ي - آپ نے بیت المال سے تجارتی قرضے بغیر اشتراک نفع یا سود کے جاری کرکے تجارت وصنعت کو فروغ دیا اور بین الاقوامی معاہدے کئے۔
ك- سرحدوں کی حفاظت کیلئے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے تعمیر کرا کر اس میں مستقل فوجیں متعین کیں۔
ل - حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ہی سب سے پہلے منجنیق کا استعمال کیا گیا۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضور أكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 163 آحادیث مروی ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آئینہ اخلا ق میں اخلاص ، علم وفضل، فقہ واجتہاد، تقریر وخطابت، غریب پروری، خدمت خلق، مہمان نوازی، مخالفین کے ساتھ حسنِ سلوک، فیاضی وسخاوت، اور خوف الہٰی کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔
بائيس رجب المرجب 60ھ میں کاتبِ وحی، جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فاتح شام و قبرص اور 19سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 78 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور دمشق کے باب الصغیر میں دفن کئے گئے
------
------