شعبان المعظم اور شبِ برأت

شعبان المعظم اور شبِ برأت
ماہِ شعبان کو شعبان کہنے کی وجہ یہ ہے کہ شعبان شعِب یشعَب سے ماخوذ ہے،جس کا معنی ہے نکلنا، ظاہر ہونا، پھوٹنا چونکہ اس مہینہ میں خیر کثیر پھوٹتی پھیلتی ہے اور بندوں کا رزق تقسیم ہوتا ہے اور تقدیری کام الگ ہوجاتے ہیں، اس وجہ سے اس مہینہ کا نام شعبان رکھ دیا۔   (غیاث اللغات)
شعبان اسلامی سال کا آٹھواں  مہینہ ہے، جس کا نام ہی خیر و برکت کی تقسیم انعامات ربانی اور عطایا الٰہی کی فراوانی پر دلالت کرتا ہے۔
شعبان تشعب سے ہے، جس کے معنی تقریب یعنی پھسلانا اور شاخ در شاخ ہونا ہے، ان معنوں کی تائید میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرمایا اس ماہ کا نام شعبان اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس میں روزہ رکھنے والے کو شاخ در شاخ بڑھنے والی خیر و برکت میسر ہوتی ہے حتیٰ کہ وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔
شارح بخاری علامہ بدر الدین عینی فرماتے ہیں شعبان شعب سے مشتق ہے، جو اجتماع کے معنی دیتا ہے، بزرگوں کا ارشاد ہے کہ اس مقدس مہینہ میں خیر کثیر کا اجتماع ہوتا ہے اس لئے اسے شعبان کہا جاتا ہے، شعبان کے لغوی معنی جمع کرنا اور متفرق کرنا دونوں آتے ہیں۔
عمدۃ القاری میں ہے کہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ لوگ چونکہ ادھر ادھر متفرق ہونے کے بعد اس مہینہ میں جمع ہوتے ہیں اس بناء پر اسے شعبان کہا جاتا ہے۔
بعض بزرگوں کا کہنا ہے کہ شعبان شعب سے ہے یعنی وہ راستہ جو پہاڑ کو جاتا ہو اسے شعب کہتے ہیں، ظاہر بات ہے کہ ایسا راستہ ہمیں بلندی پر لے جاتا ہے جہاں پہنچ کر ہم مسرت محسوس کرتے ہیں، تو شعبان وہ پاکیزہ مہینہ ہے جو انسانوں کو روحانیت کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔
شعبان میں پانچ حرف ہیں: ش، ع، ب ،ا، ن۔ ان میں سے ہر حرف ایک ایک بزرگی کی نشاندہی کرتا ہے، ش کا اشارہ شرف کی طرف ہے، ع بلندی کی طرف اشارہ کرتا ہے، ب سے مراد برّ یعنی نیکی ہے، الف سے مراد الفت اور ن کا حرف نور کی جانب اشارہ کرتا ہے، یہ پانچوں انعامات اس ماہِ شعبان میں اللہ کی جانب سے بندوں کو عطا کئے گئے ہیں۔ (نزہتہ المجالس- غنية الطالبین)
رسول الله صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا ارشاد عالی ہے، شعبان میرا مہینہ ہے۔
ماہ شعبان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے اپنا مہینہ قرار دیا ہے اور اس کو اپنی جانب منسوب کیا ہے، اس کے بعد شعبان کے دیگر فضائل ذکر کرنے کی حاجت نہیں رہتی، کیونکہ جو مہینہ حضور صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا ہوگا وہ عظمت و بزرگی میں بھی غیر معمولی مقام رکھتا ہوگا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے دریافت کیا گیا کہ روزوں میں بہتر روزے کون سے ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا شعبان کے روزے، رمضان کے روزوں کی تعظیم کے لئے۔  مصنف ابن ابی شیبۃ
آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کو یہ بات بہت زیادہ پسند تھی کہ شعبان کے روزے رکھتے رکھتے رمضان سے ملا دیں۔
(کنز العمال)
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآله وسلم آپ شعبان کے مہینے میں جتنے روزے رکھتے ہیں میں نے آپ کو کسی اور مہینے میں اتنے روزے رکھتے نہیں دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: یہ رجب اور رمضان کے درمیان وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہوجاتے ہیں، اور اسی مہینے میں بارگاہ رب العٰلمین میں اعمال لے جائے جاتے ہیں، تو میں یہ چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال لے جائے جائیں تو میں روزے سے ہوں۔ (نسائی) 
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے بزرگ صحابه  شعبان کا چاند دیکھ کر قرآن کریم (زیادہ) پڑھا کرتے تھے، مسلمان اپنے مال سے زکوٰۃ بھی نکالا کرتے تھے تاکہ غریب اور مسکین لوگ فائدہ اٹھا سکیں اور ماہ رمضان کے روزے رکھنے کے لئے ان کا کوئی وسیلہ بن جائے، حاکم لوگ قیدیوں کو بلا کر ان میں سے جو حد جاری کرنے کے لائق ہوتے تھے ان پر حد جاری کرتے تھے، باقی قیدی رہا کردئیے جاتے تھے، کاروباری لوگ بھی اسی ماہ میں اپنا قرض ادا کیا کرتے تھے اور دوسروں سے جو کچھ وصول کرنا ہوتا تھا وصول کرلیا کرتے تھے۔ (غنية الطالبین)

عظمتوں والی رات شبِ برأت
حٰمٓ 0 وَ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ 0 اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ 0 فِـيْـهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِـيْمٍ 0
اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا ۚ اِنَّا كُنَّا مُرْسِلِيْنَ 0
رَحْـمَةً مِّنْ رَّبِّكَ ۚ اِنَّهٝ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِـيْمُ 0
روشن کتاب کی قسم ہے۔
ہم نے اسے مبارک رات میں نازل کیا ہے، بے شک ہمیں ڈرانا مقصود تھا۔
سارے کام جو حکمت پر مبنی ہیں اسی رات تصفیہ پاتے ہیں۔
ہمارے خاص حکم سے، کیوں کہ ہمیں رسول بھیجنا منظور تھا۔
آپ کے پروردگار کی رحمت ہے، بے شک وہی سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔
ان آیات میں لیلۃ مبارکۃ سے مراد حضرت عکرمہ اور مفسرین کی ایک جماعت کے نزدیک شب برأت ہے (روح المعانی ) چنانچہ اس تفسیر پر مذکورہ آیات سے ماہِ شعبان کی پندرہویں شب کی خصوصیت سے بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
حضرت حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه ارشاد فرماتے ہیں کہ مشہور تفسیر اس آیت کی اکثر کے نزدیک یہ ہے کہ لیلۃ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے شب برأت مراد نہیں، کیونکہ دوسرے موقع پر ارشاد ہے  اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْْلَۃِ الْقَدْرِ کہ ہم نے قرآن لیلۃ القدر میں نازل کیا اور یہاں فرما رہے ہیں کہ ہم نے لیلۃ مبارکہ میں نازل کیا اور یہ ظاہر ہے کہ نزول سے مراد دونوں جگہ نزول دفعی ہے تدریجی نہیں کیونکہ وہ تو 32 سال میں ہوا، اور نزول دفعی ایک ہی مرتبہ ہوا ہے اس لئے لیلۃ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہوگی یہ قرینہ قویہ ہے اس بات کا کہ یہاں بھی لیلۃ القدر ہی مراد ہے۔
لیکن ایک قول بعض کا یہ بھی ہے کہ لیلۃ مباركه سے مراد شب برأت ہے، باقی رہا یہ اعتراض کہ اس سے لازم آتا ہے کہ نزول دفعی دو مرتبہ ہوا، تو اس کی توجیہ یہ ہے کہ نزول دفعی دو مرتبہ بھی اس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک رات میں حکم نزول ہوا اور دوسری میں اس کا وقوع ہوا، یعنی شب برأت میں حکم ہوا کہ اس دفعہ رمضان میں جو لیلۃ القدر آئے گی اس میں قرآن نازل کیا جائے گا، پھر لیلۃ القدر میں اس کا وقوع ہوگیا۔۔۔ تو  اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْْلَۃِ الْقَدْرِ میں مراد حقیقی نزول ہے کہ وہ لیلۃ القدر میں ہوا اور انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ میں حکمی نزول ہے کہ شب برأت میں ہوا۔۔۔ تو احتمال اس کا بھی ہے کہ (لیلۃ مبارکہ سے) شب برأت مراد ہو۔۔۔
درمنثور میں بروایت ابن جریر ابن المنذر و ابن ابی حاتم عکرمہ سے یہ تفسیر منقول ہے۔ ( خطبات حکیم الامت )
اسماء شب برات
ماہ شعبان میں پندرہ کی رات کو خاص فضیلت بزرگی و شرافت حاصل ہے، اور مختلف روایات میں اس رات کے کئی نام ذکر کئے جاتے ہیں
 لیلۃ المبارکۃ۔۔۔ برکتوں والی رات
 لیلۃ الرحمۃ۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کے نزول کی رات
 لیلۃ الصَّک۔۔۔ دستاویز والی رات
 لیلۃ البراء ۃ۔۔۔ دوزخ سے بری ہونے کی رات۔(روح المعانی )
 عرف عام میں اسے شب برأت کہتے ہیں، فارسی میں شب کے معنی رات کے ہیں اور برأت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی بری ہونے اور نجات پانے کے ہیں۔
چونکہ اس رات رحمت خداوندی کے طفیل لاتعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں اس لئے اس رات کو شب برأت کہتے ہیں۔

فضیلت کی راتیں
شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے ابو سعید بن منصور کے حوالے سے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ شب قدر کے بعد شعبان کی پندرہویں شب سے زیادہ افضل کوئی رات نہیں۔
سوائے چند کے۔۔۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا شعبان کی پندرہویں رات کو میرے پاس جبرئیل آئے اور کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وآله وسلم یہ ایسی رات ہے جس میں آسمان اور رحمت کے دروازے کھولے جاتے ہیں لہٰذا اٹھيے اور نماز پڑھيے اور اپنے سر اور دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھائیے، میں نے پوچھا اے جبرئیل یہ رات کیسی ہے؟ کہا یہ ایسی رات ہے کہ جس میں رحمت کے تین سو دروازے کھولے جاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ ان تمام لوگوں کو بخش دیتے ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوں، مگر جو شخص جادوگر ہو یا کاہن، کینہ رکھنے والا ہو یا ہمیشہ شراب پینے والا ، زنا پر اصرار کرنے والا ہو یا سود کھانے والا، والدین کا نافرمان ہو یا چغل خور، رشتہ داری توڑنے والا ، ان لوگوں کیلئے معافی نہیں ہوتی جب تک ان تمام چیزوں سے توبہ نہ کرلیں اور ان برے کاموں کو چھوڑ نہ دیں۔
(درۃ الناصحین )

نظرِ رحمت
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بنی اکرم صلی اللہ علیہ و آله وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب اپنی مخلوق کی طرف نظر رحمت فرما کر تمام مخلوق کی مغفرت فرما دیتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ ور کے۔ (ابن حبان - البیہقی )
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نبی كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتی ہے تو (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) ایک پکارنے والا پکارتا ہے کیا کوئی مغفرت کا طالب ہے؟ کہ میں اس کی مغفرت کردوں کیا کوئی مانگنے والا ہے ؟ کہ اس کا دامن گوہر مراد سے بھر دوں، اس وقت خدا سے جو مانگتا ہے اس کو ملتا ہے سوائے بدکار عورت اور مشرک کے۔ (رواہ البیہقی )
حضرت کعب کی روایت ہے کہ شعبان کی پندرہویں شب اللہ تعالیٰ جبرئیل کو جنت میں بھیج کر کہلواتے ہیں کہ پوری جنت سجا دی جائے، کیونکہ آج کی رات آسمانی ستاروں، دنیا کے شب و روز، درختوں کے پتوں، پہاڑوں کے وزن، اور ریت کے ذروں کی تعداد کے برابر اپنے بندوں کی مغفرت کروں گا۔
 (ماثبت بالسنۃ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: شعبان کی درمیانی رات میں جبرئیل میرے پاس آئے اور کہا اے محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاؤ، میں نے سر اٹھایا تو جنت کے سب دروازوں کو کھلا ہوا پایا، پہلے دروازہ پر ایک فرشتہ کھڑا پکار رہا تھا کہ جو شخص اس رات میں رکوع کرتا ہے(نما زپڑھتا ہے) اسے خوشخبری ہو ، دوسرے دروازہ پر ایک فرشتہ کہہ رہا تھا کہ جو شخص اس رات میں سجدہ کرتا ہے اسے خوشخبری ہو ، تیسرے دروازے پر ایک فرشتہ کہہ رہا تھا جس نے اس رات میں دعا کی اسے خوشخبری ہو، پانچویں دروازے پر ایک فرشتہ کہہ رہا تھا
جس نے اس رات میں خدا کے خوف سے آہ وزاری کی (رویا) اسے خوشخبری ہو۔چھٹے دروازے پر ایک فرشتہ کہہ رہا تھا کہ اس رات میں تمام مسلمانوں کو خوشخبری ہو، ساتویں دروازے پر ایک فرشتہ کہہ رہا تھا اگر کسی کو کوئی سوال کرنا ہے تو کرے اس کا سوال پورا کیا جائے گا، آٹھویں دروازے پر ایک فرشتہ کہہ رہا تھا کوئی ہے جو بخشش کی درخواست کرے اس کی درخواست قبول کی جائے گی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا میں نے جبرئیل سے پوچھا، یہ دروازے کب تک کھلے رہیں گے؟ انہوں نے جواب دیا شروع رات سے صبح ہونے تک کھلے رہیں گے، پھر کہا اے محمد ( صلی اللہ علیہ وآله وسلم) اللہ تعالیٰ اس رات میں دوزخ کی آگ سے اتنے بندوں کو نجات دیتا ہے، جتنے قبیلہ کلب کی بکریوں کے بال ہیں۔(غنية الطالبین )
عرب کے قبائل میں سے سب سے زیادہ بنو کلب کی بکریاں تھیں، ان تمام بکریوں کے جسموں پر جتنی تعداد میں بال تھے ان سے بھی کہیں زیادہ تعداد میں اللہ تعالیٰ لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں، یہاں کوئی خاص تعداد مراد نہیں بلکہ تعداد کی زیادتی بیان کرنا مقصود ہے، کہ ایک بکری کے جسم پر کتنے بے شمار بال ہوتے ہیں اور پھر ان کثیر تعداد بکریوں کے جسم پر کتنے بے حساب و بے شمار بال ہونگے ان سے بھی بڑھ کر اللہ رب العزت اپنے بندوں کو معاف فرماتے ہیں کوئی مانگنے والا، جھولی پھیلانے والا تو ہو۔ ؂
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
فرشتوں کی عید
جس طرح زمین پر مسلمانوں کی دو عیدیں ہیں اسی طرح آسمان پر فرشتوں کی بھی دو عیدیں ہوتی ہیں مسلمانوں کی عیدیں عید الفطر (یکم شوال) اور عید الاضحی (دس ذی الحجہ) کے دن ہوتی ہیں اور فرشتوں کی عیدیں شب برأت اور شب قدر میں ہوتی ہیں، فرشتوں کی عیدیں رات میں اس لئے ہوتی ہیں کہ وہ سوتے نہیں، مسلمان چونکہ سوتے ہیں اس لئے ان کی عیدیں دن میں ہوتی ہیں۔(غنیتہ الطالبین)
فیصلے کی رات
امّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ سرتاج دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھ سے) فرمایا کیا تم جانتی ہو کہ اس شب میں یعنی شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! (مجھے تو معلوم نہیں، آپ ہی بتا دیجئے کہ) کیا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا بنی آدم میں سے ہر وہ شخص جو اس سال پیدا ہونے والا ہوتا ہے اس رات میں لکھدیا جاتا ہے، اور بنی آدم میں سے ہر وہ شخص جو اس سال مرنے والا ہوتا ہے اس رات میں لکھا جاتا ہے، اس رات میں بندوں کے اعمال اٹھالئے جاتے ہیں اور اسی رات میں بندوں کے رزق اترتے ہیں۔ (رواہ البیہقی )
مولانا محمد رفعت قاسمی (مدرس دارالعلوم دیوبند) رقم طراز ہیں ’’دنیا بھر کی حکومتوں میں یہ دستور ہے کہ وہ اپنے وسائل اور پالیسی کے مطابق آمدنی و اخراجات کا بجٹ ایک سال پہلے ہی تیار کرلیتی ہیں، ان کے پارلیمانی اور وزراء کے اجلاسوں کی میٹنگ میں اس بجٹ پر مہینوں بحث ہوتی ہے، یہ بجٹ اپنی حکومت کے اغراض و مقاصد کا آئینہ دار بھی ہوتا ہے اور اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ آنے والے سال میں ترقی کی کن منازل کو طے کرنا ہے۔
بعینہٖ شعبان کی چودہویں اور پندرہویں تاریخوں کے درمیان ہر سال خالقِ کائنات اپنی وسیع تر مملکت دنیا کے بجٹ کا اعلان کرتا ہے اور یہ بجٹ زندگی کے ہر زاوئیے پر محیط ہوتا ہے، اس رات میں یہ بھی فیصلہ ہوتا ہے کہ آنے والے سال میں کتنے لوگوں کو دنیا میں بھیجنا ہے اور کتنے لوگوں کو ان کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کرنے کے بعد واپس بلایا جائے گا، کتنا خرچ کرنے کی اجازت ملے گی اور کس سے کتنا کچھ واپس لے لیا جائیگا، شعبان کی پندرہویں شب میں عالم بالا میں حکیم و خبیر و دانا مدبّر کے حکم کے مطابق دنیا والوں کیلئے جو روز ازل میں فیصلے کئے گئے تھے ان میں سے ایک سال کا جامع بجٹ کارکنانِ قضاء و قدر یعنی خاص مقرب فرشتوں کے سپرد کردیا جاتا ہے ، اس دنیا میں سب کچھ وہی ہوتا ہے جو فرشتوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ 

مسائل شب ِبرأت 
 حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتی ہے تو خدا کی طرف سے ملک الموت کو ایک فہرست دی جاتی ہے اور حکم دیا جاتا ہے کہ جن جن لوگوں کا نام اس فہرست میں درج ہے ان کی روحوں کو اس سال وقت مقررہ پر قبض کرنا، کوئی بندہ تو باغوں کے درخت لگا رہا ہوتا ہے، کوئی شادی کرتا ہوتا ہے، کوئی تعمیر میں مصروف ہوتا ہے، حالانکہ اس کا نام مُردوں کی فہرست میں لکھا جا چکا ہوتا ہے۔(ماثبت بالسنۃ - مصنف عبدالرزاق)
 حضرت عثمان بن محمدؒ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آله وسلم نے فرمایا:عمریں ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک طے کی جاتی ہیں یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں حالانکہ اس کا نام مُردوں کی فہرست میں داخل ہو چکا ہوتا ہے۔ (اخرجہ البیہقی )
 حضرت راشد بن سعدؒ سے مروی ہے کہ نبی كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا شعبان کی پندرہویں شب کو اللہ تعالیٰ ان تمام روحوں کو قبض کرنے کی تفصیل ملک الموت کو بتا دیتے ہیں جو اس سال میں قبض کی جائیں گی۔
(اخرجہ الدنیوری فی المجالسۃ۔ روح المعانی)
حضرت علاء بن حارث رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم رات کو اٹھے اور نماز پڑھنے لگے اور اتنے لمبے سجدے کئے کہ مجھے یہ خیال ہوا کہ آپ کی وفات ہوگئی ہے، میں نے جب یہ معاملہ دیکھا تو میں اٹھی اور آپکے پاؤں کے انگوٹھے کو حرکت دی، اس میں حرکت ہوئی، میں واپس لوٹ آئی جب آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے سجدے سے سر اٹھایا اور نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا اے عائشہ یا فرمایا اے حمیرا!کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ (اللہ کا) نبی تمہاری حق تلفی کرے گا،
میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم بخدا ایسی بات نہیں ہے، درحقیقت مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ کی وفات ہوگئی ہے کیونکہ آپ نے سجدے بہت لمبے کئے تھے، آپ نے فرمایا جانتی بھی ہو یہ کونسی رات ہے؟
میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول(صلى الله عليه وآله وسلم ) ہی زیادہ جانتے ہیں، فرمایا یہ شعبان کی پندرہویں شب ہے، اللہ عزوجل اس رات اپنے بندوں پر نظر رحمت فرماتے ہیں، بخشش چاہنے والوں کی مغفرت فرماتے ہیں، طالبین رحم پر رحم فرماتے ہیں اور کینہ وروں کو ان کی حالت ہی پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ( البیہقی)
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رات میں بڑے بڑے امور انجام پاتے ہیں یعنی اس سال جتنے پیدا ہونے والے ہیں ان کے نام لکھ دئیے جاتے ہیں، اور جنہوں نے مرنا ہے ان کے نام بھی لکھ دئیے جاتے ہیں اور اس رات بندوں کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں یعنی بارگاہ خداوندی میں پیش کئے جاتے ہیں اور مخلوق کو اس سال جو رزق ملنا ہوتا ہے وہ بھی اسی شب میں لکھ دیا جاتا ہے۔۔۔
علامہ محمد بن احمد انصاریؒ قرطبی تحریر فرماتے ہیں:
ایک قول یہ ہے کہ ان امور کے لوح محفوظ سے نقل کرنے کا آغاز شب برأت سے ہوتا ہے اور اختتام لیلۃ القدر میں ہوتا ہے۔ 
(تفسیر قرطبی)
حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر کرتے ہیں
اس میں کوئی نزاع نہیں کہ شعبان کی پندرہویں شب میں مذکورہ امور انجام پاتے ہیں۔(مرقاۃ المفاتیح)
علامہ ابو الفضل شہاب الدین سید محمود آلوسی حنفی بغدادی تحریر فرماتے ہیں، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ تمام امور کے فیصلے تو شب برأت میں ہوتے ہیں اور جن فرشتوں نے ان امور کو انجام دینا ہوتا ہے ان کے سپرد لیلۃ القدر میں کئے جاتے ہیں۔
(روح المعانی)
قبرستان كي زيارت
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم میرے پاس تشریف لائے اور اپنے کپڑے اتارے، تھوڑی دیر گزرنے نہ پائی تھی کہ آپ نے ان کو پھر پہن لیا، مجھ کو یہ خیال آیا کہ آپ اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی اور کے پاس جارہے ہیں اس لئے مجھے بہت غیرت آئی، میں آپ کے پیچھے پیچھے نکل کھڑی ہوئی، تلاش کرتے ہوئے میں نے آپ کو جنت البقیع میں پایا، آپ مسلمان مردوں عورتوں اور شہداء کیلئے استغفار کررہے تھے میں نے دل میں کہا کہ آپ پر میرے ماں باپ قربان جائیں، آپ خدا کے کام میں مصروف ہیں اور میں دنیا کے کام میں، میں وہاں سے واپس اپنے حجرے میں چلی آئی(اس آنے جانے میں) میرا سانس پھول گیا، اتنے میں حضور آكرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم تشریف لے آئے اور دریافت فرمایا یہ سانس کیوں پھول رہا ہے؟ میں نے عرض کیا آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، آپ میرے پاس تشریف لائے اور آپ نے جلدی سے دوبارہ کپڑے پہن لئے، مجھ کو یہ خیال کرکے سخت رشک ہوا کہ آپ ازواج مطہرات میں سے کسی اور کے پاس تشریف لے گئے ہیں، نوبت یہاں تک پہنچی کہ میں نے آپ کو خود بقیع غرقد میں جا دیکھا کہ آپ کیا کررہے ہیں، آپ نے فرمایا عائشہ کیا تمہارا یہ خیال تھا کہ الله کا رسول تمہارا حق ماریں گے؟ (اصل بات یہ ہے کہ ) جبرئیل علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ رات شعبان کی پندرہویں رات ہے اور خداوند عالم اس رات میں بہت سے لوگوں کو دوزخ سے آزاد کرتا ہے جو کہ قبیلۂ کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ مگر اس میں خدا تعالیٰ مشرکین، کینہ ور، رشتے ناطے توڑنے والے، ازار ٹخنوں سے نیچے رکھنے والے، ماں باپ کے نافرمان اور شراب کے عادی لوگوں کی طرف نظرِ رحمت نہیں فرماتے۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا : اے عائشہ کیا تم مجھ کو اجازت دیتی ہو کہ آج رات قیام کروں میں نے کہا کہ بے شک آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، آپ نے قیام کے بعد ایک طویل سجدہ کیا یہاں تک کہ مجھ کو خیال ہوا کہ آپ کی وفات ہوگئی۔ میں نے چھونے کا ارادہ کیا اور آپ کے تلووں پر اپنا ہاتھ رکھا تو کچھ حرکت معلوم ہوئی میں نے آپ کو سجدہ میں یہ دعا مانگتے سنا۔
اعوذُ بعفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ واعوذ بِرِضَاکَ مِنْ سخَطِکَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ جَلَّ وَجْھُکَ لا اُحْصِیْ ثَنَآءً عَلَيکَ اَنْتَ کَمَا اُثْنَےْتَ عَلٰی نفسِکَ۔
صبح کو میں نے آپ سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: اے عائشہ تم اس دعا کو یاد کرو گی؟ میں نے عرض کیا کہ ضرور، آپ نے فرمایا سیکھ لو، مجھ کو یہ کلمات جبرئیل علیہ السلام نے سکھائے ہیں اور کہا ہے کہ سجدہ میں ان کو بار بار پڑھا کرو۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآله وسلم ایک مرتبہ شب برأت میں قبرستان تشریف لے گئے تھے، لہٰذا اگر وقت ملے تو قبرستان چلے جانا چاہئے لیکن اس کو ضروری نہ سمجھا جائے۔ حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ نے جامع مسجد تھانہ بھون میں اپنے بیان کے آخر میں فرمایا، اس دن میں روزہ ، اس رات میں جاگنا، اپنی حاجت طلب کرنا، مُردوں کیلئے دعا کرنا مستحب ہے۔۔۔
لیکن بہتر یہ ہے کہ مُردوں کو اسی طریق پر نفع پہنچاؤ، جس طور جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے منقول ہے یعنی بعد عشاء کے قبرستان میں جا کر مردوں کے لئے دعا کرو، پڑھ کر بخشو، مگر فرداً فرداً جاؤ، جمع ہو کر مت جاؤ اس کو تہوار مت بناؤ۔ اور عجب لطف حق ہے کہ پندرہویں شب میں ہمیشہ چاندنی ہوتی ہے، (اکیلے) قبرستان جانے میں وحشت بھی نہ ہوگی۔(خطبات حکیم الامت
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ فرماتے ہیں ایک روایت سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع میں تشریف لے گئے تھے، اس لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شب برأت میں قبرستان جائیں، لیکن میرے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ ایک بڑی کام کی بات بیان فرمایا کرتے تھے، ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے، فرماتے تھے کہ جو چیز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہو اسی درجہ میں اسے رکھنا چاہئے، اس سے آگے نہیں بڑھانا چاہئے
لہٰذا ساری حیات طیبہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے ایک مرتبہ جنت البقیع جانا مروی ہے، چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لئے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاؤ تو ٹھیک ہے۔ لیکن ہر شب برأت میں جانے کا اہتمام کرنا، التزام کرنا اور اس کو ضروری سمجھنا اور اس کو شب برأت کے ارکان میں داخل کرنا اور اس کو شب برأت کا لازمی حصہ سمجھنا اور اس کے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برأت نہیں ہوئی، یہ اس کو اس کے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے لہٰذا اگر کبھی کوئی شخص اس نقطہ سے قبرستان چلا گیا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم تشریف لے گئے تھے میں بھی آپ کی اتباع میں جارہا ہوں تو انشاء اللہ اجر وثواب ملے گا، لیکن اس کے ساتھ یہ کرو کہ کبھی نہ بھی جاؤ۔
الفیہ نماز
شب برأت میں کوئی خاص نماز کسی خاص هيبت میں کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، بعض لوگوں کے ہاں "الفیہ نماز" کے نام سے نوافل پڑھے جاتے ہیں، یعنی سو رکعتیں اس طرح پڑھتے ہیں کہ ہر رکعت میں دس دس بار سورۂ اخلاص یعنی قل ھو اللہ احد پڑھتے ہیں، یہ صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے نہ کسی صحابی اور تابعی کا کوئی مضبوط ارشاد منقول ہے۔
صلٰوۃ البرأۃ
بعض حضرات "صلوٰۃ البرأۃ"  کے نام سے باجماعت نوافل ادا کرتے ہیں، یہ بھی بدعت ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے زمانے میں اس نماز کا کوئی ثبوت نہیں، بلکہ ہجرت کے چار سو سال بعد یعنی 844ھ میں بیت المقدس میں یہ نماز ایجاد ہوئی۔ اس کا واقعہ امام طرسوسی رحمہ اللہ نے یہ لکھا ہے کہ ایک شخص بیت المقدس میں آیا اور پندرہویں شب کو اس نے مسجد میں نماز پڑھنی شروع کردی، ایک شخص نے اس کے پیچھے نماز کی نیت باندھ لی پھر ایک اور شخص نے اس کے پیچھے نیت باندھ لی اسی طرح تیسرے شخص نے پھر چوتھے نے، یہاں تک کہ ابھی اس کی نماز مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ایک بڑی جماعت لوگوں کی اس کے پیچھے نماز میں بن گئی۔ آئندہ سال بھی وہ شخص آیا بہت سے لوگوں نے اس کے ساتھ نماز پڑھی پھر دوسری مساجد اور رفتہ رفتہ تمام شہروں میں دھوم مچ گئی۔ علماء متاخرین نے اس کو بدعت قبیحہ قرار دیا ہے اور صاف بیان کیا ہے کہ اس میں کئی برائیاں ہیں، اور نفل نماز کو جماعت سے پڑھنے کیلئے مساجد میں جمع ہونا کراہت سے خالی نہیں ہے، اسی طرح چراغوں کو جلانا اور فانوسوں کا لٹکانا بدعت ہے۔  (قرۃ الواعظین )
شب بیداری
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا جب شعبان کی پندرہویں شب آئے، تو رات کو نماز پڑھو، اور اگلے دن روزہ رکھو، کیونکہ غروب شمس سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے تک اللہ رب العزت قریب کے آسمان پر نزول فرماتے ہیں، اور یوں پکارتے ہیں، کیا کوئی بخشش مانگنے والا ہے کہ میں اس کی بخشش کردوں، کیا کوئی مبتلائے مصیبت ہے جو اس مصیبت سے بچنے کی درخواست کرے، میں اس کو عافیت عطا کردوں، کیا کوئی فلاں قسم کا آدمی ہے، فلاں قسم کا آدمی ہے، ایک ایک ضرورت کا نام لے کر اللہ میاں پکارتے ہیں۔
(ابن ماجہ - مشکوٰۃ المصابیح )
شب برأت کی عظمتوں اور فضیلتوں کا کیا ٹھکانہ؟ یہی وہ مقدس رات ہے جس میں پروردگار عالم اپنی رحمت کاملہ اور رحمت عامہ کے ساتھ اہل دنیا کی طرف متوجہ ہوتا ہے، دنیا والوں کو اپنی رحمت کی طرف بلاتا ہے ان کے دامن میں رحمت و بخشش اور عطا کے خزانے بھرتا ہے، بشارت ہو ان نفوس قدسیہ کو اور ان خوش بختوں کو جو اس مقدس رات میں اپنے پروردگار کی رحمت کا سایہ ڈھونڈھتے ہیں، عبادت و بندگی کرتے ہیں، اپنے مولیٰ کی بارگاہ میں اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کی درخواست پیش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی درخواستوں کو اپنی رحمت کاملہ کے صدقہ میں قبول فرماتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
جس نے پانچ راتوں کو زندہ رکھا اس کیلئے جنت واجب ہوگئی۔
۔ آٹھویں ذی الحجہ کی رات
۔ نویں ذی الحجہ کی رات
۔ عید الاضحی کی رات
۔ عید الفطر کی رات
۔پندرہویں شعبان کی رات

شب برأت اور ہمارے اسلاف
اسی لئے اہلسنّت و الجماعت ہمیشہ سے اس شب کی فضیلت و بزرگی کا اعتقاد رکھتے چلے آئے ہیں۔
 چنانچہ علامہ ابن الحاج مالکی رحمہ اللہ نے اپنی معروف کتاب المدخل (جس کا تعارف علامہ ابن حجر عسقلانی نے ان الفاظ میں کروایا ہے ’’آپ نے ایک کتاب لکھی جس کا نام المدخل رکھا یہ کتاب بڑی فائدہ مند ہے اس میں آپ نے ان برائیوں اور بدعتوں کو کھول کھول کر بیان کیا ہے جن کا لوگ ارتکاب کرتے ہیں، اور جن میں لوگ مساہلت برتتے ہیں، ان میں اکثر منکرات ہیں اور بعض میں منکر ہونے کا احتمال ہے) میں شب برأت سے متعلق اسلاف امت کا نظریہ یوں لکھا ہے، اور کوئی شک نہیں کہ یہ رات بڑی بابرکت اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑی عظمت والی ہے اور (ہمارے) اسلاف رضی اللہ عنہم اس کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور اس کے آنے سے پہلے ہی اس کیلئے تیاری کرتے تھے، جب یہ رات آتی تھی تو وہ اس کی ملاقات اور اس کی حرمت و عظمت بجا لانے کیلئے مستعد ہوتے تھے۔ (المدخل )
فقہاء کرام نے بھی لکھا ہے کہ شب برأت میں قیام کرنا یعنی رات کو جاگ کر اللہ کی عبادت کرنا مستحب ہے۔
 چنانچہ علامہ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں ’’اہل شام میں سے جلیل القدر تابعین مثلاً حضرت خالد بن معدانؒ ، حضرت مکحولؒ ، حضرت لقمانؒ بن عامر وغیرہ شعبان کی پندرہویں شب کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور اس شب میں خوب مبالغہ کے ساتھ عبادت کرتے تھے انہی حضرات سے لوگوں نے شب برأت کی فضیلت و بزرگی کو اخذ کیا ہے۔
(لطائف المعارف)
 علامہ ابن نجیمؒ مصری حنفی رقمطراز ہیں ’’اور
مستحبات میں سے ہے رمضان کی آخری دس راتوں میں، عیدین کی راتوں میں ذی الحجہ کی پہلی دس راتوں میں، اور شعبان کی پندرہویں شب میں شب بیداری کرنا
(الترغیب و الترہیب - البحر الرائق )
علامہ علاؤ الدینؒ الحصکفی حنفی تحریر فرماتے ہیں
اور مستحبات میں سے ہے، سفر میں جاتے وقت اور واپس آکر دو رکعتیں پڑھنا، اور عیدین کی رات میں، شعبان کی پندرہویں شب میں، رمضان کے آخری عشرہ میں اور ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں شب بیداری کرنا۔ (الدر المختار )
علامہ حسن بن عمار بن علی الشر نلالی حنفی تحریر فرماتے ہیں
اور مستحب ہے شعبان کی پندرہویں شب میں شب بیداری کرنا۔
(نور الایضاح )
 حضرت مولانا عبدالحئی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں:
شب برأت میں بیدار رہ کر مختلف قسم کی نفلی عبادات کے اندر مشغول رہنے کے مستحب ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے، اس کی دلیل ابن ماجہ اور بیہقی کی شعب الایمان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی حدیث ہے اور اس سلسلہ میں دوسری احادیث بھی ہیں، جن کو بیہقی وغیرہ نے روایت کیا ہے، جیسا کہ ابن حجر مکی رحمہ اللہ نے الایضاح و البیان میں تفصیل سے بیان کیا ہے یہ تمام احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس رات کو زیادہ سے زیادہ عبادات اور دعائیں فرماتے تھے، اور آپ نے زیارت قبور بھی کی تھی اور مُردوں کیلئے دعا بھی کی تھی، اور ان تمام قولی و فعلی احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس شب میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنا مستحب ہے، ہر بندے کو اختیار ہے چاہے نماز پڑھے یا کوئی اور عبادت کرے، اگر وہ نماز پڑھنے کو اختیار کرے تو رکعتوں کی تعداد اور کیفیت میں بھی اس کو اختیار ہے، لیکن کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے شارع علیہ السلام نے صراحتاً یا اشارتاً منع کیا ہو۔
(الآثار المرفوعۃ، فضیلت کی راتیں)
حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تحریر کرتے ہیں اس شب میں بیدار رہ کر عبادت کرنا افضل ہے خواہ خلوت میں یا جلوت میں، لیکن كسي بهي شكل ميں اجتماع کا اہتمام نہ کیا جاوے۔ (زوال السنۃ عن اعمال السنتہ )
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں
ان احادیث سے جس طرح اس مبارک رات کے بیش بہا فضائل و برکات معلوم ہوئے اسی طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے لئے اس رات میں اعمال ذیل مسنون ہیں۔
۔ رات کو جاگ کر نماز پڑھنا اور ذکر و تلاوت میں مشغول رہنا۔
۔ اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور عاقبت اور اپنے مقاصدِ دارین کی دعا مانگنا۔ (فضائل و احکام شب برأت )
حضرت مولانا مفتی سید عبدالکریم گمتھلوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں ،
اس ماہ کے متعلق شریعت مقدسہ کے چند احکام ثابت ہوئے۔
۔ اس (ماہ شعبان) کے چاند کا بہت اہتمام کرنا چاہئے۔
۔ پندرہویں شب کو عبادت کرنا اور پندرہویں تاریخ کو روزہ رکھنا مستحب ہے۔
(بارہ مہینوں کے فضائل و احکام )
 حکیم العصر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ شب برأت سے متعلق اپنے ایک بیان میں فرماتے ہیں
اس رات میں کرنے کے دو کام ہیں، ایک تو جہاں تک ممکن ہو سکے عبادت کرو اور قرآن کریم کی تلاوت کرو، نماز پڑھنا سب سے افضل ہے، لیکن اگر بیٹھ کر تسبیحات پڑھنا چاہو تو یہ بھی جائز ہے۔غرضیکہ اللہ کی یاد میں جتنا وقت بھی گزار سکتے ہو گزارو، باقی سونے کا تقاضا ہو تو سوجاؤ، فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ضرور پڑھ لو، تو ایک یہ کہ جہاں ممکن ہو سکے عبادت میں وقت گزارا جائے، اور دوسرے یہ کہ رات مانگنے کی ہے، کچھ اللہ تعالیٰ سے مانگا جائے، مانگا کیا جائے؟
اس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے اشارہ فرمایا ہے، ایک تو اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگو، دوسرے اللہ تعالیٰ سے رزق مانگو، اور تیسرے اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو، لیجئے خدا تعالیٰ نے کنجیاں تمہارے ہاتھ میں دے دی ہیں، جتنا چاہے کھولو اور لو۔

مندرجہ ذیل اعمال کا احادیث مبارکہ سے کوئی ثبوت نہیں ہے۔

 حلوه پکانا۔ 
(حلوه پکانے سے شب برأت کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے) 


آتش بازی کرنا  
یہ فضول خرچی ہے، نیز اس سے دوسروں کے املاک کو نقصان پہنچنے کا بھی خدشہ 

إجتمائي عبادت كا إهتمام كرنا

اجتماعی طور پر قبرستان جانا 

 قبرستان میں عورتوں کا جانا۔ 

عورتوں کا کسی بھی وقت قبرستان جانا منع ہے

 قبرستان میں چراغاں کرنا۔

 مختلف قسم کے ڈیکوریشن کا اہتمام کرنا۔

عورتوں اور مردوں کا اختلاط کرنا۔

 قبروں پر چادر چڑھانا۔ (کسی بھی وقت قبروں پر چادر چڑھانا غلط ھے

شب برات میں كرنيوالے اعمال 
۱عشاء اور فجر کی نمازیں باجماعت اور عورتيں وقت پر ادا کریں۔
۲۔ بقدر توفیق نفل نمازیں خاص کر نماز تہجد اد ا کریں۔
۳۔ اگر ممکن ہو تو صلاۃ التسبیح پڑھ ليں۔
۴۔ قرآن پاک کی تلاوت کریں۔
۵۔ کثرت سے اللہ کا ذکرکریں۔
۶۔ اللہ تعالیٰ سے خوب دعائیں مانگیں، خاص کر اپنے گناہوں کی مغفرت چاہیں۔
۷۔ کسی کسی شب برأت میں قبرستان تشریف لے جائیں۔ اپنے اور میت کے لئے دعائے مغفرت کریں۔
لیکن ہر شب برأت میں قبرستان جانے کا خاص اہتمام کوئی ضروری نہیں ہے کیونکہ پوری زندگی میں نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم سے صرف ایک مرتبہ اس رات میں قبرستان جانا ثابت ہے۔
نوٹ: شب برأت میں پوری رات جاگنا کوئی ضروری نہیں ہے، جتنا آسانی سے ممکن ہو عبادت کرلیں، لیکن یاد رکھیں کہ کسی شخص کو آپ کے جاگنے کی وجہ سے تکلیف نہیں ہونی چاہئے۔ اس رات میں بقدر توفیق انفرادی عبادت کرنی چاہئے۔ لہذا اجتماعی عبادتوں سے حتی الامکان اپنے آپ کو دور رکھیں کیونکہ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم سے اس رات میں اجتماعی طور پر کوئی عبادت کرنا ثابت نہیں ہے۔
پندرہویں تاریخ کا روزہ:
شب برأت کی فضیلت کے متعلق بہت سی احادیث موجود ہیں مگر شب برأت کے بعد آنے والے دن کے روزے کے متعلق صرف ایک حدیث موجود ہے ۔ لہذا ماہ شعبان میں صرف اور صرف پندرہویں تاریخ کے روزہ نہ رکھنے والے کو کم تر سمجھنا صحیح نہیں ہے البتہ ماہ شعبان میں کثرت سے روزے رکھنے چاھیں 

وہ بدقسمت لوگ جنكي شب برأت ميں بهي مغفرت نهيں هوتی
**
آحاديث كے مطالعه سے يه بته جلتا هے كه شب برأت ميں الله رب العزت كي رحمت بهت وسيع هوتي هے اور هر مغفرت مانگنے والے كي مغفرت كردي جاتي هين ليكن آحاديث مباركه كے مطابق كجهـ بدقست لوگ إيسے بهي هيں جنكي إس مبارك رات ميں بهي مغفرت نهيں هوتي
جن بدقسمت لوگوں کی اس بابرکت رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی ، وہ یہ ہیں:
* مشرک
* قاتل
* ظلم كرنيوالا
* والدین کی نافرمانی کرنے والا
* كينه , بغض وعداوت رکھنے والا
* رشتہ دارى توڑنے والا
* تکبرانہ طور پر ٹخنوں سے نیچے کپڑا پہننے والا
* شراب پینے والا
* زنا کرنے والے
* جادوگر اور كاهن

لہذا ہم سب کو تمام گناہوں سے خاص کر ان مذکورہ بالا کبیرہ گناہوں سے بچنا چاہئے۔
========
Share: