بد گماني

بد گماني
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا
 [الحجرات]
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! بہت سے گمان سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں اور نہ جاسوسی کرو اور نہ تم میں سے بعض دوسرے کی غیبت کرے
سمجھنے کے إعتبار سے یہ آیت مباركه بہت هي اہم ہے، کیونکہ ہم میں سے ہر دوسرا شخص اسکا شکار ہے۔
آیت بالا میں مسلمان کی عزت کو محفوظ رکھنے کی بہت ہی زیادہ تاکید کی گئی ہے، چنانچہ پہلے تو کسی بھی مسلم بھائی کے معاملے میں خواہ مخواہ کے گمان سے منع فرمایا جس کا کوئی باعث اور کوئی سبب نہ ہو، اگر گمان کرنے والا کہے کہ میں اس کی تحقیق کے لئے جستجو کرتا ہوں تو اسے کہا گیا
’’وَلَا تَجَسَّسُوا‘‘
’’ جاسوسی مت کرو۔‘‘
اگر وہ کہے جاسوسی کے بغیر مجھے یہ بات ثابت ہو گئی ہے تو کہا گیا 
وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا
ایک دوسرے کی غیبت (دوسرے بھائی کی عدم موجودگی میں وہ بات جو اسے ناپسند ہو خواہ اس میں موجود ہی ہو۔) مت کرو۔
(فتح الباری)
 ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا
’’ گمان سے بچو کیونکہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے۔‘‘
 (متفق علیہ)
صحیح بخاری میں يه پوری حدیث اس طرح ہے:
وَلَا تَحَسَّسُوا وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا تَنَاجَشُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا۔۔
’’ اور نہ ٹوہ لگاؤ، نہ جاسوسی کرو، نہ دھوکے سے (خرید و فروخت میں) بولی بڑھاؤ، نہ ایک دوسرے پر حسد کرو ، نہ ایک دوسرے سے دل میں کینہ رکھو اور نہ ایک دوسرے سے قطع تعلق کرو اور إے الله كے بندو آپس ميں بهائي بهائي بن كر رهو
إسكي تشریح ميں علماء كيا فرماتے هيں
قرطبی نے فرمایا کہ اس جگہ ظن سے مراد ایسی تہمت ہے جس کا کوئی سبب نہ ہو مثلا ایک آدمی کے بدکار یا شرابی ہونےکا خیال دل میں جما لینا حالانکہ اس سے ایسی کوئی بات سرزد نہیں ہوئی کہ اسے ایسا سمجھا جائے، اس لیے اس کے ساتھ فرمایا
’’ ولا تجسسوا‘‘
’’جاسوسی مت کرو۔‘‘
کیونکہ جب کسی شخص کے برے ہونے کا خیال دل میں جگہ پکڑ لیتا ہے۔ حالانکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی تو آدمی وہ بات ثابت کرنے کےلئے جاسوسی کرتا ہے ، ٹوہ لگاتا ہے، کان لگاتا ہے  اس لیے اللہ تعالی نے اس سے منع فرما دیا۔
ظن کی دو حالتیں ہیں
ایک ظن غالب جو کسی دلیل یا مضبوط علامت کے ساتھ قوی ہو جائے ، اس پر عمل کرنا درست ہے
شریعت کے اکثر احکام اسی پر مبنی ہیں- اور دنیا کے تقریبا تمام کام اسی پر چلتے ہیں، مثلا عدالتوں کے فیصلے،گواہوں کی گواہی، باہمی تجارت، ٹیلی فون اور خطوط کے ذریعے اطلاعات اور خبر واحد کے راویوں کی روایت وغیرہ ان سب چیزوں میں غور وفکر ، جانچ پڑتال اور پوری کوشش سے حاصل ہونے والا علم بھی ظن غالب ہے اور اس پر عمل واجب ہے، اسے ظن اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی جانب مخالف ادنی سا امکان رہتا ہے، مثلا ہو سکتا ہے گواہ کی گواہی درست نہ ہو، اطلاع دینے والا جھوٹ بول رہا ہو، راوی کو غلطی لگی ہو وغیرہ لیکن اس امکان کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ اگر اس امکان پر جائیں تو دنیا کا کوئی کام بهي نه ہو سکے، اس لیے اپنی پوری کوشش کے بعد دلائل سے جو علم حاصل ہو ، ظن غالب ہونے کے باوجود اس پر عمل واجب ہے-
دوسرا ظن وہ ہے جو دل میں آ جاتا ہے ، مگر اس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی دلیل نہ ہونے کی وجہ سے دل میں اس کے ہونے یا نہ ہونے کی بات برابر ہوتی ہے اسے شک بھی کہتے ہیں یا اس کے ہونے کا امکان اس کے نہ ہونے سے بھی کم ہوتا ہے، یہ وہم کہلاتا ہے- ظن کی یہ صورتیں مذموم ہیں اور ان سے اجتناب واجب ہے

إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ
’’بے شک بعض گمان گناہ ہیں۔‘‘
سے یہی مراد ہے اور
إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا
 [یونس]
’’بے شک گمان حق کے مقابلہ میں کچھ فائدہ نہیں دیتا۔‘‘
اور
إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنْفُسُ
 [النجم]
’’یہ لوگ صرف اپنے گمان اور اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں- میں اسی ظن کا ذکر ہے۔‘‘
جیسا کہ اوپر گذرا حدیث میں ایسے ظن (گمان) سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے جو بے دلیل ہو مثلا ایک آدمی جو ظاہر میں صالح ہے ، اس کے عیوب پر اللہ کی طرف سے پردہ پڑا ہو ا ہے، عام مشاہدہ میں وہ عفیف اور امانت دار ہے اس کی بدنیتی یا گناہ گار ہونے کی کوئی دلیل یا علامت نہیں، اس وقت گمان بدگمانی حرام ہے
ہاں اگر گمان کرنے کی کوئی واقعی دلیل یا علامت موجود ہو تو اس وقت گمان منع نہیں، اس لیے اللہ تعالی نے ہر گمان سے منع فرمایا بلکہ فرمایا
اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ
’’زیاده گمان سے بچو کیونکہ بعض گمان گنا ہ ہیں۔‘‘
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں فرمایا:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالى عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا میں گمان کرتا ہوں کہ فلاں اور فلاں ہمارے دین کی کوئی بات نہیں جانتے ہیں ۔
لیث بن سعد نے بیان کیا کہ یہ دونوں آدمی منافق تھے ۔
اس جائز گمان سے وہ گمان مراد ہے جس کی علامات اور دلیلیں واضح ہوں۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا
’’إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ لِأُمَّتِي عَمَّا وَسْوَسَتْ أَوْ حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ بِهِ أَوْ تَكَلَّمْ‘‘ 
(بخاری)
اگر دل میں کسی شخص کے برا ہونے کا خیال آئے مگر آدمی اسے اپنے دل میں جگہ نہ دے نہ ہی اس کا پیچھا کرے نہ اس کی غیبت کرے تو اس میں کوئی گناہ نہیں
بد گمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے کیونکہ جب کوئی شخص کسی کے متعلق بد گمانی کرتا ہے تو وہ فیصلہ کر لیتا ہےشخص ایسا ایسا ہے، چونکہ حقیقیت میں وہ شخص ایسا نہیں ہوتا، اسے لیے اس کے اس فیصلے کو جھوٹ کہا گیا
اور بد ترین اس لیے کہ اس نے بغیر کسی قرینے یا سبب کے محض نفس اور شیطان کے کہنے پر اسے برا قرار دیا ، جب که اسکے برا ہونے کی سرے سے کوئی بنیاد نہیں
اللہ تعا لیٰ سے دعا ہے کہ وہ هم سب کو اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے - آمين يا رب العلمين
-------
Share: