شيخ الحديث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمة الله عليه


شيخ الحديث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمة الله عليه

شيخ الحديث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمة الله عليه ، اكابرین علمائے ديوبند ميں سے تھے۔ حضرت مولانا محمد یحیی کاندھلوی رحمة الله عليه کے بیٹے، حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمة الله عليه کے بھتیجے اور رئيس التبليغ حضرت محمد یوسف کاندھلوی رحمة الله عليه کے چچا زاد بھائی ہیں۔
ان کی مشہور تصنیف فضائلِ اعمال ہے۔ یہ کتاب تبلیغی جماعت کا تبلیغی نصاب (فضائل اعمال) ہے۔ اس کتاب میں اعمال اسلامی کے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ جنہیں تبلیغی جماعتیں گھر، محلہ، مسجد اور تبلیغی سفر میں بطور خاص اسکی تعلیم کرتے ہیں۔

ابتدائی تعلیم

قاعدہ
مظفر نگر کے ایک نیک صالح بزرگ ڈاکٹر عبدالحی رحمة الله عليه سے قاعدہ بغدادی پڑھا۔

حفظ القرآن الكريم
اپنے والد ماجد حضرت مولانا محمد یحیی کاندھلوی سے قرآن كريم حفظ کیا۔ مولانا زکریا رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ قرآن كريم یاد کرانے کا والد صاحب کا طریقہ انوکھا تھا کہ ایک صفحہ یاد کرنے کو دے دیتے اور فرماتے کہ 100 مرتبہ پڑھو پھر چھٹی۔ اس طرح مولانا نے قرآن پاک حفظ کر لیا۔[

علوم اسلامیہ

اردو اور فارسی کتب
   باره  یا تيره  سال کی عمر يعني 1328 هـ تک آپ كا قيام گنگوہ میں  رہا ، اس دوران  آپ نےاردو کے دینی رسائل بہشتی زیور وغیرہ اور فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھ لیں جو ذیادہ تر شفیق اور بزرگ چچا مولانا محمد الیاس رحمة الله عليه نے پڑھائیں

عربی کتب
عربی تعلیم کا باقاعدہ سلسلہ سہارنپور آکر 1328ھ میں شروع ہوا۔ مولانا یحییٰ عام متعارف درسی کتب کے خلاف تھے انکا اپنا انداز تعلیم تھا۔ صرف و نحو کی درسی کتابیں خاص طرز اور ترمیم و اضافہ کے ساتھ پڑھیں، کافیہ کے ساتھ مجموعہ اربعین اور پارہ عم کا ترجمہ پڑھایا،نفحۃ الیمن کےصرف باب ثالث کے قصائد پڑھے، اسکے بعد قصیدہ بردہ ، بانت سعاد، قصیدہ ہمزیہ پڑھے۔

مدرسہ
حضرت گنگوہیؒ کی وفات کے بعد مولانا یحیٰ ؒ کو مولانا خلیل احمدؒ نے اپنے مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور میں بطور استاذ و مدرسین کے بلوا لیا۔ اس طرح مولانا زکریاؒ کی تعلیم کا سلسلہ سہارنپور میں شروع ہوگیا، آپ نے بقیہ درسیات کی تکمیل کی ، کتب منطق مولانا عبدالوحید سنبھلی 
استاذ مظاہر العلوم اور ناظم الامور مولانا عبدالطیف سے پڑھیں۔

درسیات کی تکمیل
مولانا زکریا نے نصاب کی منتہیانہ کتب مولانا یحییٰ سے ختم کیں مولانا یحیٰ کا پڑھانے كا اصول پرانے اساتذہ جیسا تھا۔ مولانا کے یہاں طالب علم کا مطالعہ کرکے سبق کو پورے طور پر حل کرکے لانے کی پابندی تھی وہ صرف وہیں رہنمائی اور مدد فرماتے تھے طالب علم کی قوت مطالعہ اور فہم کی رسائی نہ ہو اور شرح حواشی سے مدد نہ ملتی۔ اس طرز پر شیخ زکریا نے اپنے والد سے درسیات کی تکمیل کی۔

حدیث کا آغاز
 محرم الحرام 1332ھ کو ظہر کی نما زکے بعد مشکوٰۃ شریف شروع ہوئی، پہلے مولانا یحیٰ نے غسل فرمایا، پھر مشکوٰۃ شریف کی بسم اللہ کرائی، خطبہ پڑها، پھر قبلہ رو ہوکر دیر تک دعاکی ، شیخ ؒ فرماتے ہیں کہ یہ تو نہیں معلوم ہوسکا کہ والد صاحب نے کیا کیا دعائیں کیں، لیکن میری ایک ہی دعا تھی اور وہ یہ کہ حدیث کا سلسلہ دیر سے شروع ہوا، اللہ کرے کبھی چھوٹے نہیں۔

دورہ حدیث
  دورہ حدیث کی ابتدا 1333 هـ میں ہوئی ، یہی سال تھا جب مولانا سہارنپوری نے طویل قیام کے ارادہ سے حجازکا قصد کیا۔ شیخ کا خیال تھا کہ مجھے نہ ملازمت کرنی ہے اور نہ کوئی عجلت ہے، ایک سال میں دورہ حدیث مکمل کرنے کی کوئی پابندی نہیں اس لئے اپنے والد مولانا یحییٰ کے درس میں ابوداؤد شروع کردی ، ترمذی شریف کو حضرت سہارنپوری کی واپسی پر ملتوی رکھا تھا لیکن بعض اسباب کی بنا پر ترمذی، بخاری اور ابن ماجہ کے سواء بقیہ کتب صحاح والد صاحب ہی سے پڑھیں یہ سال بڑی محنت اور انہماک کا تھا اس کا بڑا اہتمام تھا کہ کوئی روایت بھی بے وضو نہ پڑھی جائے۔ مسلسل پانچ چھ گھنٹے سبق ہوتا تھا ، اس میں کبھی کبھی ہفتہ عشرہ میں سبق کے درمیان وضو کی ضرورت پیش آتی تھی اور صرف اتنی دیر کے لئے اٹھنا ہوتا تھا تو ہم درس سبق مولانا کے سبق کے حرج کی وجہ سے اپنا سبق روک لیتے۔

بیعت
شوال 1333ھ میں حضرت سہارنپوری حجاز مقدس کے طویل قیام کا اردہ فرمارہے تھے اور لوگ کثرت کے ساتھ بیعت ہو رہے تھے۔ شیخ زکریا فرماتے ہیں کہ اپنے اندر بھی بیعت كا جذبہ پیدا ہوا اور حضرت سہارنپوری نے مولانا عبداللہ اور شیخ زکریا کو بیعت کیا۔ مولانا عبداللہ صاحب کی دھاڑیں مار مار کو رونے کی وجہ سے مولانا یحیٰ اور شاہ عبدالرحیم چھت کی منڈیر پر منظر دیکھنے آگئے۔ مولانا یحیٰ کو تعجب ہوا کہ بلا علم و اطلاع کے انہوں نے اتنا برا کام کرلیا لیکن حضرت رائے پوریؒ نے اس جرات پربڑی تصویب فرمائی اور بہت دعائیں دیں۔


والد ماجد کا انتقال
 مولانا محمد یحییٰ کا  انتقال  1334 هـ ميں ہوا۔ والد صاحب نے 8000 روپے قرضہ میں چھوڑے تھے جسے مولانا زکریا نے والد کی وفات کے بعد اپنے ذمہ لے لیا اور سب کو خطوط کے ذریعے اطاع دی اور رفتہ رفتہ تمام قرضہ اتاردیا۔

تدریس پر تقرر
یکم محرم 1335ھ کو حضرت شیخ زکریا کا بحثیت مدرس مدرسہ مظاہرالعلوم میں تقرر ہوا اور 15 روپے تنخواہ مقرر ہوئی۔

ابتدائی اسباق
بطور مدرس ابتداء "اصول الشاشی" ، "علم الصّیغہ" ،نحو، علم منطق ، فقہ اور عربی کی ابتدائی کتابوں سے ہوئی۔ اس وقت شیخ زکریاؒ کی عمر 20 سال تھی۔


اہم اسباق
اگلے تعلیمی سال شوال 1335ھ میں پہلے سال سے اونچی اور درسی و فنی لحاظ سے اہم کتابیں پڑھانے کو ملیں، تیسرے سال شوال 1336ھ میں "مقامات حریری" اور "سبع معلقہ" بھی درس میں آئے۔


بخاری و مشکوٰۃ
 ہدایہ اوّلین ، حماسہ وغیرہ  1337میں اور رجب 1341ھ میں بخاری شریف کے تین پارے بھی حضرت سہارنپوریؒ کے حکم و اصرار سے منتقل ہوکر آئے اور انکے پڑھانے میں بھی شیخ سے غیر معمولی اہلیت، قوت، مطالعہ اور فنی مناسبت کا اظہار ہوا، اس کے بعد آپ کو مشکوٰۃ شریف مل گئی 1344ھ تک مشکوٰۃ كي تدريس آپ کے زیر سایہ رہی۔


مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ سے قرابت
شیخ زکریا فرماتے ہیں کہ مولانا خلیل احمد سہارنہوریؒ سے قرابت کا یہ عالم تھا کہ
ایک اجنبی نے میرے ہر وقت کی حاضری پر حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سے کہا یہ حضرت کے صاحبزادے ہیں؟ حضرت نے فرمایا صاحبزادہ سے بڑھ کر۔


عقدِ نکاح
مولانا یحییٰ کے انتقال کے بعد انکی اہلیہ کو ہمیشہ بخار رہتا یہاں تک کہ اس بخار نے بعد میں تپ دق کی صورت اختیار کرلی۔ اس اثنا میں شیخ زکریا ؒ کی والدہ کے اصرار پر مولانا رؤف الحسن صاحبؒ کی صاحبزادی بی بی امۃ المتین صاحبہ سے  نکاح طے پا گیا۔ مولانا رؤف الحسن کی دوسری صاحبزادی مولانا الیاس کے نکاح میں تھیں۔ اس طرح شیخ زکریا اور مولانا الیاس چچا اور بھتیجا آپس میں ہم زلف ہوئے۔


والدہ ماجده کا انتقال

 والدہ کا انتقال 1335 كو ہوا، محمد خلیل سہارنپوری نے نماز جنازہ پڑھائی۔


عقد ثانی
شیخ زکریا کی پہلی اہلیہ کی وفات جو مولانا رؤف الحسن کی صاحبزادی تھی 5 ذی الحجہ 1355ھ بمطابق 17 فروری 1937ء میں ہوئی، انکی طبیعت اب بالکل یکسوئی اور علمی و تصنیفی انہماک کی طرف مائل تھی اور عقد ثانی کا کوئی خیال نہیں تھا۔ اپنی آپ بیتی میں شیخ زکریاؒ لکھتے ہیں کہ
مرحومہ کے انتقال کے بعد میں اپنے مشاغل علیمہ کی وجہ سے بالکل ہی یہ طے کرچکا تھا کہ دوسرا نکاح نہیں کروں گا کہ بڑا حرج ہوگا لیکن شفیق چچا نے جو باپ کے قائم مقام تھے شیخ کی اس تجرد کو پسند نہیں کیا دوسرے شفیق بزرگوں کی بھی یہی خواہش تھی کہ شیخ کا گھر پھر آباد ہوجائے۔ اس لیئے چار مہینے بھی پورے نہیں گزرے تھے کہ شیخ کا عقد ثانی شفیق چچا مولانا الیاس کی صاحبزادی (مولانا یوسف کی ہمشیرہ) عطیہ صاحبہ سے 8 ربیع الثانی 1354ھ بمطابق 18 جون 1937ء کو ہوگیا۔ نکاح نطام الدین دہلی میں ہوا ، اس موقع پر حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ بھی تشریف لے آئے، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کو سہارنپور اسٹیشن پر معلوم ہوا تو پیغآم بھیجا کہ نکاح میں پڑھوں گا، چنانچہ دہلی تشریف لائے اور بعد نمازِ جمعہ نکاح پڑھایا۔


پہلا حج
 محمد خلیل سہارنپوری نے 1338 ھ میں دوبارہ حج کا عزم کیا تو مرشد کی ہم رکابی کا جذبہ رفاقت کا محرک ہوا، یہ شیخ زکریا پہلا حج تھا۔ شعبان 1338ھ کو روانہ ہوئے۔بمبئی میں اپنے تمام رفقاء کو دعوت طعام پر بلوایا۔بحری سفر تھا راستہ میں رمضان کا مہینہ آیا تراویح کا اہتمام جہاز ہی میں کیا۔ حضرت سہارنپوری اور شیخ زکریا دونوں حضرات نے قرآن سنایا مکہ معظمہ حاضری ہوئی تو مولانا محب الدین نے جلد ہندوستان جانے کا مشورہ دیا اور فرمایا کہ یہاں تو قیامت آنے والی ہے۔ مولانا محب الدین حاجی امداداللہ مہاجرمکی کے ممتاز خلیفہ اور بڑے صاحب کشف و ادراک بزرگ تھے۔ مکہ میں قیامت سے مراد شریف مکہ حسین بن علی کی بغاوت اور نجدیوں کے حملہ کی طرف اشارہ تھا۔


مدینہ طیبہ حاضری
اس زمانے میں حجاز میں سخت بدامنی تھی۔ مدینہ طیبہ کے راستہ میں قافلوں کو بے دھڑک دن دیہاڑے لوٹ لیا جاتا تھا۔ حجاج بہت سخت خطرات و مصائب کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچتے تھے۔ شوال کا مہینہ شروع ہوا حضرت شیخ قافلہ کے امیر مقرر ہوکر مدینہ ھاضری کے لئے پہنچے۔ تاہم الله تعالى كے فضل سے راستہ سکون سے طے ہوا۔مدینہ میں ایک ماہ تک قیام کیا۔

وفات
  مکۃالمکرمہ کے ہسپتال میں 24مئی 1982ء 05:40 منٹ پر مغرب سے پہلےچند روز زیر علاج رہنے کے بعد دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ


تدفین
مسجد الحرام میں نماز جنازہ کے بعد مدینۃ منورہ میں واقع قبرستان جنت البقیع میں آپ کی تدفین کی گئ۔ مقامی افراد کے مطابق اتنا بڑا جنازہ شاید ہی کہیں دیکھا گیا ہو

**أسمان تيري لحد په شبنم أفشاني كرے**
Share: