معمولات سلسلہ عالیہ نقشبندیہ

معمولات سلسلہ عالیہ نقشبندیہ

بیعت کا عمل کوئی رسمی یا رواجی چیز نہیں بلکہ رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم  کی سنت مبارکہ ہےاس کا مقصد اللہ پاک کی رضا، رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کی اتباع اور اپنی اصلاح ہوتا ہے.اس مقصد کے حصول کے لیے سالک کو کچھ معمولات و وظائف بتائے جاتے ہیں.جن پر باقاعدگی سے عمل کرنے سے سالک کی زندگی میں اسلامی ، ایمانی اور قرآنی انقلاب پیدا ہوجاتا ہے. محبت الہی اس طرح انگ انگ میں سما جاتی ہے کہ آنکھ کا دیکھنا ، زبان کا بولنا اور پاوں کا چلنا بدل جاتا ہے.سالک یوں محسوس کرتا ہے کہ میرے اوپر منافقت اور دو رنگی کا غلاف چڑها ہوا تها جو اتر گیا ہے.اور اندر سے ایک سچا اور سچا انسان نکل آیا ہے.وہ معمولات مندرجہ ذیل ہیں:
1 -   وقوف قلبی
2 -   مراقبہ
3 -   تلاوت قرآن
4 -   استغفار
5 -   درودشریف
6 -   رابطہ شیخ

جس طرح ایک بیچ میں درخت بننے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے اور اگر اس بیچ کو مالی کی
 زیر نگرانی چند دن زمین میں پرورش پانے کا موقع مل جائے تو وہ ایک پهل پهول والا درخت بن جاتا ہے اسی طرح سالک شیخ کے زیر سایہ چند روز تک ان اوراد و وظائف کو کر لے تو اس کی شخصیت پر حسن اخلاق کے پهول لگتے ہیں اور اس کا شجر امید بار آور ثابت ہوتا ہے.
یہ معمولات انسان کے باطنی امراض کے لیے تیر بہدف نسخہ ہے.ان کا فائدہ مند ہونا ایسا ہی یقینی ہے جیسے چینی کا میٹها ہونا.دنیا کے کروڑوں انسانوں نے اس نسخے کو آزمایا اور اس سے فائدہ اٹهایا ہے.لیکن اگر کوئی سالک ان اوراد و وظائف کی پابندی ہی نہ کرے اور پهر شکایت کرے کہ ہمیں فائدہ نہیں ہو رہا ہے تو اس میں شیخ کا کیا قصور ہے؟اس کی مثال تو اس مریض کی طرح ہے جو بہت بڑے ڈاکٹر سے نسخہ تو لکهوا لے اور جیب میں ڈال کے پهرے لیکن استعمال نہ کرے. جیب میں رکها ہوا نسخہ کیسے فائدہ دے سکتا ہے جب تک کہ اسے استعمال نہ کرے.؟
ان اوراد و وظائف کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ کرنے میں بہت ہی آسان ہیں لیکن باقاعدگی سے کرنے سے پوری کی پوری شریعت پر عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے.اور یہ بات دو اور دو چار کی طرح ٹهوس ہے.جسے یقین نہ ہو آزما کے دیکھ لے.
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کےلیے

وقوبِ قلبی
(ہر گهڑی ہر آن یہ رکهنا ہے دهیان ، میرا دل کر رہا ہے اللہ اللہ اللہ)
ًوقوف کا لفظی معنی ہوتا ہے ٹهرنا ، پس وقوف قلبی کے لفظی معنی ہوئے دل پر ٹهرنا.اصطلاحا اس سے مراد اپنے دل کی نگہبانی کرنا اور دل کی توجہ اللہ تعالی کی طرف رکهنا.طریقہ اس کا یہ ہے کہ ہر وقت قلب صنوبری کی طرف جو بائیں پستان سے نیچے پہلو کی طرف دو انگل کے فاصلے پر ہے اللہ تعالی کی یاد کا دهیان رکهے کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے
اللہ تعالی نے انسان کی فطرت ایسی بنائی ہے کہ اس کا دل کسی لمحہ بهی کسی سوچ اور فکر کے بغیر نہیں رہ سکتا.وہ ہر وقت کسی نہ کسی خیال کے تانے بانے بنتا رہتا ہے.وقوف قلبی میں انسان اس بات کی مشق کرتا ہے کہ دل کو ہر وقت کی فضول سوچوں سے ہٹا کر اللہ کی یاد کی طرف لگایا جائے.گویا اللہ تعالی کی ذات کا خیال انسان کی سوچ میں رچ بس جائے.بقول شخصے
نہ غرض کسی سے نہ واسطہ مجهے کام اپنے ہی کام سے
تیرے ذکر سے تیری فکر سے تیری یاد سے تیرے نام سے
مبتدی کؤ لئے یہ ذرا مشکل ہوتا ہے لیکن مسلسل کوشش کرنے سے یہ کام آسان ہو جاتا ہے.حتی کہ سالک ظاہری طور پر اپنی زندگی کے کام کاج میں مشغول ہوتا ہے جبکہ اس کا دل اللہ کی یاد میں مشغول ہوتا ہے.اسے کہتے ہیں "دست بکار دل بیار" یعنی ہاتھ کام کاج میں مشغول اور دل اللہ کی یاد میں مشغول.یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان اپنے کاموں میں بهی مشغول رہے.جبکہ اس کا دل اللہ تعالی کی یاد میں منہمک رہے؟ بات کو سمجهانے کے لئے کچھ مثالیں دی جاتی ہیں
-مثال نمبر 1
گاڑی کے ڈرائیور کی مثال پر غور کریں.وہ گاڑی بهی چلا رہا ہوتا ہے اور اپنے ساتهی سے باتیں بهی کر رہا ہوتا ہے.اس کے ہاتھ پاوں ایک خود کار عمل کے ذریعے سے حرکت کر رہے ہوتے ہے اور موقع کی مناسبت سے گاڑی کے سٹیرنگ ، گیئر ، کلچ ، بریک کو حرکت دے رہے ہوتے ہیں.بظاہر وہ باتیں کر رہا ہوتا ہے لیکن اندرونی طور پر اس کی سوچ گاڑی کی ڈرائیونگ کی طرف لگی ہوئی ہے.اسی لئے گاڑی بغیر کسی حادثے کے اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتی
ہے


مثال نمبر 2
دیہاتوں میں بعض اوقات عورتیں گهڑا سر پر رکھ کر دور سے پانی بهر کر لاتی ہیں.بعض عورتوں کو گهڑا اٹهانے کی اتنی مشک ہوجاتی ہے کہ گهڑے کو وہ ہاتھ سےپکڑے بغیرسرپرمتوازن رکھ کر چلتی ہیں.اس دوران وہ آپس میں باتیں بهی کرتی ہیں اور اونچی نیچی جگہوں سے بهی گزرتی ہیں لیکن لاشعوری طور پر ان کی ایک توجہ اپنے گهڑے کے توازن کی طرف بهی لگی ہوتی ہے.جہاں کہیں تهوڑا سا بهی توازن رد و بدل ہوتا ہے ان کا جسم خودکار انداز میں اس کو درست کر لیتا ہے اور گهڑا گرنے سے محفوظ رہتا ہے
مثال نمبر 3
فرض کریں کوئی عورت اپنے بچے کوتیار کر کےسکول بهیجتی ہے ، سکول میں بچے کا رزلٹ آنے والا ہے.اب بچے کے واپس گهر آنے تک وہ عورت گهر کے کام کاج میں بهی مشغول ہوتی ہے لیکن دهیان اور اس کی یاد مسلسل اپنے بچے کی طرف لگی رہتی ہے کہ اب بچہ سکول پہنچ گیا ہوگا.اب نتیجہ نکلا ہوگا ، اب واپس آ رہا ہوگا وغيره وغيره  اب بظاہر تو وہ گهر کے کام کاج میں مشغول ہے.لیکن ساتھ ساتھ اس کی سوچ بچے کی طرف بهی لگی ہوئی ہے
ان مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سالک بهی اگر توجہ اور مشق کرے تو زندگی کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اپنی لاشعوری سوچ کو ہر وقت اپنے دل کی طرف متوجہ رکھ سکتا ہے کہ میرا دل اللہ اللہ کررہا ہے.جب یہ مشق پختہ ہوجاتی ہے تو پهر واقعی اسے ہروقت دل سے اللہ اللہ کی آواز سنائی دیتی ہے
ذندگی ہے امراللہ ذندگی اک راز ہے
دل کہے اللہ اللہ یہ ذندگی کاساز ہے
اگر کسی کو مشکل محسوس ہو کہ ہر وقت وقوف قلبی نہیں رکھ سکتا.تووہ آہستہ آہستہ اسے بڑهائے.مثلا پہلے دن وہ نیت کرے کہ آج ایک گهنٹہ وقوف قلبی سے رہنے کی کوشش کروں گا.دوسرے دن وقت کو بڑها دے.تیسرے دن مزید بڑهائے.اس طرح کرتے کرتے ایک وقت آئے گا کہ اسے ہمہ وقت وقوف قلبی سے رہنے کی عادت پڑ جائے گی
وقوف قلبی سے رہنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بیرونی خطرات کا دل میں دخل نہ ہو ، انسان کے دل سے غفلت نکل جائے اور ماسوی اللہ کی طرف کسی قسم کی توجہ باقی نہ رہے.تاکہ آہستہ آہستہ صرف ذات الہی پر توجہ منحصر ہو جائے.وقوف قلبی کا خیال رکهنے سے سالک کی روحانی پرواز کئی گنا بڑه جاتی ہے اور اسے بہت جلد انابت الی اللہ اور رجوع الی اللہ نصیب ہوجاتا ہے.اس لیے بعض مشائخ نے اسے واصل بااللہ ہونے کا خفيه دروازہ کہا ہے

وقوف قلبی کے قرآن مجید سے  دلائل
مومنین کو ذکر کثیر کا حکم ہے
قرآن پاک میں مومنین کو ذکر کثیر کا حکم دیا گیا ہے ، ارشاد باری تعا لی ہے:
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّـٰهَ ذِكْرًا كَثِيْـرًا (41)
ترجمہ: اے ایمان والوں ! اللہ کا ذکر کثرت سے کرو(الاحزاب)

ایک جگہ ارشاد فرمایا:
وَاذْكُرُوا اللّـٰهَ كَثِيْـرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (10)
ترجمہ- اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ.(الجمعہ:10)
اس آیت میں" اذکروا"جمع کا صیغہ ہے اور امر کا بهی گویا مومنین کو ذکر کثیر کا حکم دیا جا رہا ہے.مزید یہ کہ ذکر کثیر کرنے والوں کے ساته مغفرت اور جنت کا وعدہ کیا جا رہا ہے.
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ذکر کثیر کا کیا مطلب ہے؟ کیا ہر نماز کے بعد تهوڑی دیر ذکر کر لیا کریں؟ یا صبح و شام ذکر کیا کریں یا اتنا ذکر کریں کہ تهک جائیں؟ آخر کیا کریں؟اس آیت کے تحت مفسرین میں سے حضرت مجاہد رحمة الله عليه  ذکر کثیر کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں:
""ذکر کثیر یہ ہے کہ اسے کسی حال میں بهی نہ بهولے""
کسی حال میں بهی نہ بهولنے سے مراد کیا؟ انسان کی تین بنیادی حالتیں ہیں.یا وہ لیٹا ہو گا یا بیٹها ہو گا یا کهڑا ہوگا.ہر حال میں ذکر کرنے سے مراد لیٹے ، بیٹهے ، کهڑے اللہ کو یاد کرے، یہی عقلمندوں کی نشانی بتائی گئی ہے.قرآن پاک میں "اولوالباب" عقلمندوں کے متعلق فرمایا گیا ہے
الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ
ترجمہ: وہ بندے جو کهڑے بیٹهے اور لیٹے اللہ کا ذکر کرتے ہیں(آل عمران)
مفسر صاوی رحمه الله  نےاس آیت کے تحت فرمایا ہے
"اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر جو چیز فرض کی ہے اس کے لئے اللہ تعالی نے حد مقرر کر دی ہے اور حالت عذر میں ان کومعذور سمجها ہے.سوائے ذکر کے کہ نہ تو اس کے واسطے حد مقرر کی ہے اور نہ کسی کو اس کے ترک میں معذور سمجها ہےسوائے مجنون کے، اسی لئے ان کو اللہ نے ہر حال میں ذکر کے لئے امر کیا ہے.اور بتایا ہے کہ مومن یاد کرتے ہی اللہ کو کهڑے ہوئے اور بیٹهے ہوئے اور اپنی کروٹوں پر اور اس میں اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ ذکر کی شان اور اس کی فضیلت بہت بڑی ہے".
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
جو لوگ کهڑے بیٹهے اور لیٹے اللہ کو یاد کرتے ہیں یعنی رات اور دن میں...خشکی اور تری میں... سفر اور حضر میں....غنا اور فقر میں.....مرض میں اور صحت میں....خلوت میں اور جلوت میں""
صاف ظاہر ہے ایسا ذکر تو پهر ذکر قلبی اور ذکر خفی ہی ہو سکتا ہے جو ہر حال میں کیا جا سکے.لہذا معلوم ہوا کہ قرآن پاک میں ذکر کثیر کا جو حکم دیا گیا ہے اس کی تفسیر ذکر قلبی ، ذکر خفی یا صوفیاء کی اصطلاح میں وقوف قلبی ہی ہے.اس کو کرنے کا قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے.ارشاد باری تعالی ہے:
فَاذْكُرُوا اللّـٰهَ قِيَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰى جُنُـوْبِكُمْ ۚ
ترجمہ:اللہ کو یاد کرو کهڑے ، بیٹهے اور لیٹےہوئے (النساء: 103)
پس ثابت ہوا کہ وقوف قلبی کے لئے قرآن مجید میں حکم فرمایا گیا ہے.


وقوف قلبی کے آحاديث سے دلائل
متعدد احادیث میں ذکر خفی (ذکر قلبی) کی باقاعدہ ترغیب وارد ہوئی ہے، مثلاً
ایک حدیث میں حضور أكرم  صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا ارشاد نقل کیا گیا ہےکہ
اللہ تعالی کو ذکرِ خامل سے یاد کیا کرو، کسی نے دریافت کیا ذکر خامل کیا ہوتا ہے؟ ارشاد فرمایا ذکر خفی........ (رواہ ابن المبارک فی الزهد ، الجامع صغیر)

حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا
بہترین ذکر ذکر خفی ہے اور بہترین رزق وہ ہے جو کفایت کا درجہ رکهتا ہو.....
(صحہ ابن حبان و ابو یعلی)
بخاری شریف ی حدیث ہے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہر لمحے اللہ کا ذکر کیا کرتے تهے.
اس حدیث پاک سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی عادت مبارکہ اور سنت بیضاء ہمہ وقت یاد الہی میں مشغول رہنا تهی.اس حدیث کو اپنے اطلاق اور عموم پر بلااستثناء چهوڑ دیا جائے تو یقینا اس سے ذکر قلبی مراد ہے.کیونکہ بہت سے اوقات ایسے ہوتے ہیں جن میں انسان ذکر لسانی نہیں کرسکتا. اس لئے مشائخ عظام اسی کی اتباع کے لئے سالکین طریقت کو وقوف قلبی کی مشق کرواتے ہیں.پس ثابت ہوا کہ ذکر قلبی کی تعلیم قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے.خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس کو سیکهنے کے لیےمشائخ عظام کی سرپرستی میں وقت گزارتے ہیں.

ذکرِ لسانی اور ذکرِ قلبی
ذکر کی دو قسمیں ہیں ....ذکر لسانی اور ذکر قلبی.
بقول شخصے....
میری زبان اور میرا دل اس کے ذکر سے خوش ہیں اور آدمی کے پاس دل اور زباں ہی تو ہوتی ہے.
احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآله  وسلم سے ذکر قلبی کی فضیلت ذکر لسانی پرثابت ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا ارشاد ہے
وہ ذکر خفی جس کو فرشتے بهی نہ سن سکیں (ذکر لسانی) سے ستر درجے زیادہ بڑها ہوا ہے.جب قیامت کے دن اللہ جل شانہ تمام مخلوق کو حساب کے لئے جمع فرمائے گا اور کراما کاتبین اعمال نامے لیکر آئیں گے تو ارشاد ہوگا کہ فلاں بندے کے اعمال دیکھو کچھ اور باقی ہے؟ فرشتے عرض کریں گےہم نے تو کوئی بهی اور چیز ایسی باقی نہیں چهوڑی جو لکهی نہ ہو اور محفوظ نہ ہو تو ارشاد ہو گا کہ ہمارے پاس ایک نیکی ایسی باقی ہےجو تمہارے علم میں نہیں ہے وہ ذکر خفی ہے
(مسند ابویعلی  )

عقلی دلائل
عقلی طور پر دیکها جائے تو بهی ذکر قلبی کو ذکر لسانی پر فضیلت حاصل ہے.مثلا
ذکرقلبی ہر وقت کرنا ممکن ہے جبکہ ذکر لسانی ممکن نہیں. مثلا جب سالک کهانا کها رہا ہوتا ہے....تقریر کر رہا ہوتا ہے.....یا دوکان پر بیٹها گاہک سے سودا طے کر رہا ہوتا ہے تو وہ زبان سے ایک وقت میں دو کام تو نہیں کر سکتا.گفتگو کرے یا ذکر اللہ کرے.زبان سے ایک وقت میں ایک ہی کام ممکن ہے.جب کہ ذکر قلبی کام کاج کے دوران ....لیٹے. ...بیٹهے. ...چلتے.....پهرتے ہر حال میں کیا جا سکتا ہے.
ذکر لسانی کرتے ہوئے زبان ہلے گی ہونٹ حرکت کریں گے، ہر وقت یہ ڈر رہے گا کہ کسی کو پتہ نہ چل جائے جبکہ ذکر قلبی کا پتہ یا تو کرنے والے کوہوتا ہے یا جس کا ذکر ہورہا ہوتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے.
وہ جن کا عشق صادق ہے وہ کب فریاد کرتے ہیں
لبوں پر مہر خاموشی ہے دلوں میں یاد کرتے ہیں
ایک روایت میں آتا ہے کہ ذکر قلبی فرشتے بهی نہیں سن سکتے.انہیں ایک خوشبو آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے.قیامت کے دن معاملہ کهلے گا کہ یہ تو یاد الہی کی خوشبو تهی.
میان عاشق ومعشوق رمزے است
کراما کاتبین را ہم خبر نیست
( عاشق اور معشوق میں کچھ راز ایسے ہوتے ہیں کہ وہ کراما کاتبین کو بهی نہیں معلوم ہوپاتے)
اسی لئے ذکر قلبی کو ذکر خفی کہا جاتا ہے.
در حقیقت جسم انسانی میں یاد کا مقام قلب ہے جبکہ زبان سے اس کا اظہار ہوتا ہے.کبهی کسی ماں نے بیٹے سے یہ نہیں کہا کہ میری زبان تمہیں بہت یاد کرتی ہے ، بلکہ ہمیشہ یہی کہے گی کہ بیٹا میرا دل تمہیں بہت یاد کرتا ہے.معلوم ہوا کہ یاد کا مقام انسان کا قلب ہے.پس عقلی دلائل سے بهی ثابت ہوا کہ ذکر قلبی ذکر لسانی سے اففل ہے.

ذکر کے فوائد
کثرت ذکر کے فوائد عجیب و غریب ہیں.چند ایک بیان کیے جاتے ہیں.
ذکر دل کی صفائی کا باعث ہے
ذکر کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ اس سے دل کی ظلمت دور ہوتی ہے.اور آدمی کو قلب سلیم نصیب ہوتا ہے.چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا...
"ہر چیز کا ایک صقیل ہوتا ہے اور دل کا صقیل (صفائی) ذکر اللہ ہے". (مشکوہ)
جب دل صاف اور روشن ہو تو اس کو عبادات میں لذت ملتی ہے اور خیر کی ہر بات اس پر اثر کرتی ہے.اور دل صاف نہ ہوتو قساوت قلب کے باعث خیر کی بات دل پر اثر نہیں کرتی.اور نہ وہ عبادت و طاعت کی طرف مائل ہوتا ہے.اسی لیے نبی علیہ السلام نے فرمایا....
بنی آدم کے جسم میں گوشت کا ایک لوتهڑا ہے.اگر وہ درست ہو جائے تو سارا جسم درست ہوجاتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے جان لو کہ وہ دل ہے."
اسی بات کو ایک شاعر نے یوں کہا....
دل کے بگاڑ ہی سے بگڑتا ہے آدمی
جس نے اسے سنوار لیا وہ سنور گیا

ذاکر کو اللہ تعالی یاد رکھتے ہیں
اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں...
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ
"تم مجهے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا. (البقرہ152)
اس آیت میں خوشخبری ہے اہل ذکر کے لیے کہ جب وہ ذکر کر رہے ہوتے ہیں.یعنی اللہ کویاد کر رہے ہوتےہیں تو اللہ تعالی بهی انہیں یاد کر رہے ہوتےہیں.
محبت دونوں عالم میں یہی جاکرپکار آئی
جسے خود یار نے چاہا اسی کو یاد یار آئی
ایک حدیث مبارکه میں بهی ایسی ہی خوشخبری سنائی گئی ہے....
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
حق تعالی شانہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں بندے کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرتا ہوں جیسا وہ میرے متعلق گمان کرتا ہے.اور جب وہ مجهے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بهی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں. اور اگر وہ میرا مجمع میں ذکر کرتا ہے تو میں اس مجمع سے بہتر (فرشتوں) کے مجمع میں اسکا ذکر کرتا ہوں اور اگر وہ میری طرف ایک بالشت متوجہ ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں. اور اگر وہ ایک ہاتھ بڑھاتا ہے تو میں دو ہاتھ ادهر متوجہ ہوتا ہوں. اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں.
کس قدر خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور اللہ تعالی ایسے بندوں کا ذکر فرشتوں کی جماعت میں کرتے ہیں.

ذاکر سے اللہ تعالی کی دوستی
ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں
"میں اس کا ہم نشین(ساتهی) ہوں جو مجهے یاد کرتا ہے."
کس قدر شرف کی بات ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے آپ کو ذکر کرنے والوں کا جلیس اور ہم نشین کہا.لہذا جس شخص کے دل میں ہر وقت اللہ تعالی کی یاد ہوگی گویا وہ ہر وقت اللہ تعالی کا ہم جلیس ہوگا.اسی کو حضوری کہتے ہیں.لیکن غافل بندوں اور نفس کے گرفتاروں کو کیا پتہ کہ قرب الہی کی لذتوں کا کیا معاملہ ہے..
عندلیب مست داند قدر گل
چغد را از گوشئہ ویرانہ پرس
پهول کی قدر تو مست بلبل ہی خوب جانتی ہے.جنگل کے ویران کونے کی بابت پوچهنا ہو تو الو سے پوچهو
لہذا ہمیں چاہیے کہ اپنے دلوں سے غفلت کونکال پهینکیں.اور انهیں اللہ تعالی کی یاد سے مزین کر لے تاکہ ہم اللہ کے دوست بن جایئں.
ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا
"جو شخص اللہ تعالی کا ذکر کرتا ہے اور جو نہیں کرتا ان دونوں کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے".متفق علیہ
یعنی ذکر کرنے والا زندہ ہے اور ذکر نہ کرنے والا مردہ ہے.اس کی تفسیر میں علماء کی مختلف آراء ہیں
بعض علماء نے کہا ہے کہ اس میں دل کی حالت کا بیان ہے کہ جو شخص ذکر کرتا ہے اس کا دل زندہ ہے اور جو ذکر نہیں کرتا اس کا دل مردہ ہے.
بعض علماء نے فرمایا کہ تشبیہ نفع نقصان اعتبار سے ہے کہ اللہ کا ذکر کرنے والے کو جس نے ستایا وہ ایسے ہی ہے جیسے کسی زندہ کو ستایا یعنی اس سے انتقام لیا جائے گا.اور غیر ذاکر کو ستانے والا ایسا ہے جیسے مردہ کو ستایا کہ وہ خود انتقام نہیں لے سکتا.
بعض نے کہا کہ اس میں ہمیشگی کی زندگی مراد ہے کہ کثرت سے ذکر کرنے والے مرتے نہیں بلکہ وہ اس دنیا سے منتقل ہوجانے کے بعد بهی زندوں میں رہتے ہیں.جیسا کہ شہداء کے متعلق ارشاد ہے
بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لا تَشْعُرُونَ (154)
ترجمہ: وہ زندہ ہیں مگر تم ان کی ذندگی کا شعور نہیں رکهتے،
بہرحال تمام آراء کا مقصد و مفہوم ایک ہی ہے.جس سے ذکر کی فضیلت اور افادیت ظاہر ہوتی ہے.
اللہ کا ذکر اطمینان قلب کا باعث ہے
ارشاد باری تعالی ہے
أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
ترجمہ :خبردار دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر سے وابستہ ہے. (الرعد 28)
اس آیت کریمہ میں صاف طور پر اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ کے ذکر کے بغیر اطمینان قلب مل ہی نہیں سکتا.
نہ دنیا سے نہ دولت سے نہ گهر آباد کرنےسے
تسلی دل کو ملتی ہے خدا کو یاد کرنے سے
لہذا جس کے دل میں اللہ تعالی کی یاد نہیں ہے وہ دنیاوی عیش و آرام کے باوجود سکون کی دولت سے محروم ہے.اطمینان قلب تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب اللہ تعالی کا ذکر کثرت سے کیا جائے. آج دنیا میں بے چینی کی جو لہر آئی ہوئی ہےاس کی حقیقی وجہ ہی یہ ہے کہ اللہ کی یاد دلوں سےرخصت ہو گئی ہے.چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى (124)
ترجمہ: جس نے میری یاد سے منہ پهیرا اس کے لیے تنگی والی زندگی ہے اور قیامت کے دن ہم اسے اندها کھڑا کریں گے.(طہ 124)
علامہ شبیراحمد عثمانی رحمه الله  (تنگی والی ذندگی کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں"اس کی ذندگی تنگ اور مکدر کر دی جاتی ہے گو دیکهنے میں اس کے پاس بہت مال و دولت اور سامان عیش و عشرت نظر آئے"اس کے برعکس جن کے دل اللہ کی یاد سے معمور ہوتے ہیں وہ فقیری میں بهی امیری کا لطف اٹهارہے ہوتے ہیں.
کتنی تسکین وابستہ ہے تیرے نام کے ساتھ
نیند کانٹوں پہ بهی آجاتی ہے آرام کے ساتھ

ذکر کی وجہ سے عذاب قبر سے نجات
قبر کی گهاٹی میں بهی ذکر کا نور کام آئے گا اور آدمی عذاب قبر سے محفوظ رہے گا.حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا
"اللہ کے ذکر سے بڑھ کر آدمی کا کوئی عمل عذاب قبر سے نجات دلانے والا نہیں ہے".
(رواہ احمد)

ذکر اللہ سے غفلت کا انجام
کثرت ذکر کےفوائد بے شمار ہیں اس کے بالمقابل ذکر الہی سے غفلت بہت بڑے خسارے اور حسرت کا باعث ہے.متعدد قرآنی آیات اور احادیث میں اس بارے خبردار بهی کیا گیا ہے
اللہ تعالی کے ذکر سے غفلت کا سب سے پہلا نقصان تو یہ ہوتا ہے کہ آدمی پر شیطان مسلط ہوجاتا ہے. لہذا شیطان کی سنگت میں رہنے کی وجہ سے وہ آدمی بهی شیطانی گروہ میں شمار کیا جاتا ہے.
اِسْتَحْوَذَ عَلَيْـهِـمُ الشَّيْطَانُ فَاَنْسَاهُـمْ ذِكْـرَ اللّـٰهِ ۚ اُولٰئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ ۚ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُـمُ الْخَاسِرُوْنَ (19)
ترجمہ:ان پر شیطان تسلط ہوگیا.پس اس نے ان کو اللہ کے ذکر سے غافل کر دیا.یہ لوگ شیطان کا گروہ ہیں خوب سمجھ لو شیطان کا گروہ خسارہ اٹھانے والا ہے". (المجادلہ 19)

عموما انسان کو مال ودولت کی مشغولیت ہی اللہ کے ذکر سےغافل کرتی ہے اس لیے اس بارے میں تنبیہ کی گئی ہے.


يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّـٰهِ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْخَاسِرُوْنَ (9)
ترجمہ: اے ایمان والو! تمہیں تمہارے مال و اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کرنے پائیں. اور جو لوگ ایسا کریں گے ہی خسارہ اٹھانے والے ہیں". (المنافقون 9)

اللہ کی یاد سے بیگانگی اختیار کرنے اور منہ موڑے والوں کو سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے.چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں. .
وَمَنْ يُّعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهٖ يَسْلُكْهُ عَذَابًا صَعَدًا (17)
ترجمہ: اور جس شخص نے اپنے رب کی یاد سے منہ موڑا اللہ تعالی اسے سخت عذاب میں داخل کرے گا". (الجن 17)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضواکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا
جو شخص ایک مجلس میں بیٹهے اور اس میں اللہ کویاد نہ کرے اس کایہ بیٹھنا اللہ کی طرف سے افسوس اور نقصان ہوگا.اور جو شخص خوابگاہ میں لیٹے اس طرح کہ اللہ کو یاد نہ کرے اس پر اللہ کی طرف سے افسوس اور نقصان ہوگا.(ابو داود)

جنتیوں کی حسرت
یہ غفلت تو اتنی بری چیز ہے کہ جنتی لوگوں کو بهی اپنے ان لمحات پر افسوس ہو گا جواللہ کی ذکر کے بغیر گزر گئے.حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا...
"جنت میں جانے کے بعد اہل جنت کو دنیا کی کسی چیز کا قلق نہیں ہوگا بجز اس گهڑی کے جو اللہ تعالی کے ذکر کے بغیر گزر گئی ہو". (طبرانی و بہیقی)
در سے تو آشنا ہو باہر سے بیگانہ ہو ، یہی طریقہ بہتر ہے اور دنیا میں بہت کم ہے



ہر طرف سے ہٹ کٹ کر اللہ تعالى  کی
 رحمت کے انتظار میں بیٹھنا 
مراقبہ کو فکر کے ساتھ موسوم کیا جاتا ہے.کیونکہ اس کی حقیقت فکر ہی ہے.کسی خاص فکر میں ہمہ تن متوجہ ہوجانا حتی کہ اتنا استغرق ہوجانا کی اسی حال میں محو ہوجانا.

فکر کی کارفرمائیاں
بنیادی طور پرفکر کا تعلق انسان کے دل سے ہے.غور وفکرکی صلاحیت اللہ تعالی نےصرف انسان کو بخشی ہے دیگر حیوانات کو یہ نعمت نصیب نہیں ہے.انسان کی فکری صلاحیتیں جب کسی ایک خاص نکتہ پر مرکوز ہوجاتی ہیں تو یہ عجیب و غریب گل کهلاتی ہیں.اس کی بہت سی مثالیں ہمیں دنیا میں نظر آسکتی ہیں.
سائنس دان اپنی فکری صلاحیتوں کو جب علت و معلول کے سمجهنے کی طرف لگاتے ہیں تو نئے نئے نظریات اور قوانین اخذ کرتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ نئی ایجادات اور انکشافات کر ڈالتے ہیں.مثلا آئن سٹائن ایک معروف ریاضی دان تها اس نے اپنی فکر کو فزکس کے فورمولوں کی طرف لگایا تو ایک ایسی مساوات (Equation )بنا دی جو مادے اور توانائی کے تعلق کو ظاہر کرتی تهی.جس کی بنیاد پر بعد میں ایٹمی توانائی کے اسٹیشن بنائے گئے.اسی طرح اور کئی محیرالعقول ایجادات ایسی ہیں جو فکر کے مسلسل استعمال کے نتیجے میں وجود میں آئیں.
ہندو جوگی گیان دهیان کی بعض ایسی مشقیں کرتے ہیں کہ ان کو ارتکاز خیالات کےذریعے دوسروں پر اپنا اثر ڈالنے کا ملکہ حاصل ہوجاتا ہے.اس طرح انہیں لوگوں کے عقائد خراب کرنے کا ایک بڑا کامیاب گر ہاتھ آجاتا ہے.حقیقتا وہ یہ سارا کچھ ارتکاز فکر کی مشق کی وجہ سے کرتے ہیں.
ہمارے ہی معاشرے میں بہت سے شعبدہ باز (مداری)ایسے نظر آجاتے ہیں جو مختلف مقامات پر اپنے حیران کن شعبدے دکها کر لوگوں سے انعام وصول کر رہے ہوتے ہیں.اور بعض جگہوں پر ایسے عامل ہوتے ہیں جولوگوں کے دماغ کی سوچ بتا کر "بڑی کرنی والے" مشہور ہوجاتے ہیں.لیکن یہ بهی ارتکاز فکر کے کرشمے ہیں.
یہ سائنس کا دور ہے لہذا سائنس کی ایک شاخ "مابعدالطبیعاتی سائنس" بنا دی گئی ہے.جس میں ارتکاز خیالات اور دیگر غیر مادی مظاہر پر تحقیق کی جارہی ہے.چنانچہ اسی ذیل میں ٹیلی پیتهی اور ہپٹانزم جیسے علوم بهی معلوم ہوچکے ہیں.ان علوم میں مختلف مشقوں کے ذریعے آدمی کو اپنی توجہ مرکوز کرکے دوسرے ذہن اور نفسیات پر اثر انداز ہونے کے طریقے سکهائے جاتے ہیں.بعض مغربی ممالک میں اب مجرموں کی ذہن سازی کے لیے باقاعدہ ہپناٹسٹ ماہرین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں.
مغرب میں اعصابی دباؤ سے نجات کے لیے اور ذہنی سکون حاصل کرنے کے لئے ماہرین ارتکاز فکر کی مشق کراتے ہیں. جسے وہ میڈیٹیشن کہتے ہیں.اس کے لئے باقاعدہ اب میڈیٹیشن کلب بنے ہوئے ہیں.جس میں ارتکاز خیالات کی ایسی مشقیں کروائی جاتی ہیں کہ وہ ذہنی سکون حاصل کر سکیں.
فکر کو مبذول کرنے کے یہ سب مظاہردنیاوی ہیں. اللہ والے بهی انسان کی اسی غور و فکر والی صلاحیت کو استعمال کرتے ہیں لیکن وہ اسے معرفت الہی کے حصول میں لگاتے ہیں.اولیائے کاملین اپنے متوسلین کو ایسی مشقیں کرواتے ہیں جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان کی فکر اللہ کے ہر غیر سے ہٹ کٹ کر اللہ تعالی کی طرف لگ جائے.جتنا کسی سالک کو اس فکر میں جمعیت نصیب ہوتی ہےاس کی معرفت بڑھتی چلی جاتی ہے.ارتکاز توجہ کی اسی مشق کو مراقبہ کہہ دیتے ہیں.
مراقبہ
مراقبہ ماخوذ ہے رقیب سے ، جس کے معنی ہیں منتظر ، نگہبان ، پاسبان جیسے ارشاد فرمایا گیا...
وَكَانَ اللّـٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ رَّقِيْبًا (52)
ترجمہ : "بے شک اللہ تم پر نگہبان ہے". (الاحزاب )
حضرت امام غزالی رح مراقبہ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ:
"قلب کا رقیب کو تاکتے رہنا اور اسی طرف مشغول اور ملتفت رہنا اور اسی کو ملاحظہ کرنا اور متوجہ ہونا"
محاسبی رح مراقبے کا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"اس کا شروع یہ ہے کہ دل کو قرب پروردگار کا علم ہو"
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رح اپنی کتاب القول الجمیل میں فرماتے ہیں:
"مراقبہ یہ ہوتا ہے کہ تو اپنے دل پر اس بات کو لازم کر لے کہ اللہ تعالی تیری طرف دیکھ رہا ہے"
مشائخ اپنے متوسلین کی اصلاح احوال کےلئے ان کے حسب حال مختلف فسم کے مراقبے کرواتے ہیں مثلا
بعض مشائخ مراقبہ موت کرواتے ہیں کہ انسان آنکھیں بند کر کے تصور کرے کہ ایک دن میں مر جاؤں گا تو یہ مال واسباب کچھ بهی نہیں ہوگا میں قبر میں تنہا ہوں گا وغیره وغیره. ...
بعض مشائخ کسی محبوب مجازی کی محبت دل سے نکالنے کے لئے اس محبوب کی صورت بگڑ جانے کا مراقبہ کرواتے ہیں....
بعض مشائخ بیت اللہ کا مراقبہ کرواتے ہیں تاکہ سالک کے دل جو شیطانی وساوس و خیالات کی اماجگاہ اور حیوانی شہوات و لذت کا خوگر ہو چکا ہے. وہ ان سے کٹ جائے اور اللہ تعالی کی طرف دهیان جم جائے.
اس کے علاوہ اور بهی مختلف قسم کے مراقبے مشائخ سے منقول ہیں لیکن مقصود سب کا ایک ہی ہے کہ سالک کی توجہ کو اللہ تعالی کے غیر سے ہٹا دیا جائے اور اللہ تعالی کی طرف لگا دیا جائے.

مراقبے کا طریقہ
سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں جو مراقبہ بتایا جاتا ہے اس کے تحت سالک جب دنیاوی کاموں سے فارغ ہوجائے تو ساری دنیا سے یک سو ہوکر ، یک رو ہوکر ، قبلہ روہو کر اور باوضو ہوکر بیٹھ جائے.آنکهوں کو بند کر لے، سر کو جهکا لے اور دل کے تمام پریشان خیالات و خطرات سے خالی کرکے پوری توجہ اور نہایت ادب کے ساتھ اپنے خیال کی توجہ دل کی طرف اور دل کی توجہ اللہ کی طرف کر لے.تهوڑی دیر کے لئے سوچے کہ نہ زمین ، نہ آسمان ، نہ انسان ، نہ حیوان ، نہ شیطان کچھ بهی نہیں ہے.بس اللہ تعالی کی رحمت آرہی ہے اور میرے دل میں سما رہی ہے.میرے دل کی ظلمت و سیاہی دور ہو رہی ہے اور میرا دل اللہ اللہ اللہ کہہ رہا ہے.شروع شروع میں سالک کا دل ذکر کی طرف متوجہ نہیں ہوتا جیسے ہی سر جهکایا دنیا کے خیالات و وساوس نے ہجوم کیا.مثل مشہور ہے ' ہر برتن میں سے وہی نکلتا ہے جو اس میں ہوتا ہے" دل میں دنیا بهری ہونے کی واضح دلیل ہے کہ سر تو جهکاؤ یاد الہی کی خاطر مگر پریشان خیالات تنگ کرنے لگیں.سالک کو اس بات سے گهبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ مجهے تو بہت محنت کرنی چاہیے. اگر دل میں یہی کچھ لے کر آگے منزل پر چلے گئے تو کتنی رسوائی ہوگی.
سالک مراقبے میں بیٹهتے وقت جب یہ سوچتا ہے گمان کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت آرہی ہے تو حدیث (میں بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں) کے مطابق رحمت دل میں سما جاتی ہے.بالفرض پہلے دن سارا وقت دنیا کے خیالات آئے فقط ایک لمحہ اللہ کا خیال آیا تو دوسرے دن دنیا کے خیالات نسبتا کم آئیں گے.تیسرے دن اور کم حتی کہ وہ وقت آئے گا کہ جب سر جهکائیں گے تو فقط اللہ کا دهیان رہے گا.دنیا کمینی دل سے نکل جائے گی.
دل کے آئینے میں تصویر یار
جب ذرا گردن جهکائی دیکھ لی
مراقبے کے دوران بعض سالکین پر اونگه سی طاری ہوجاتی ہے.یہ "جب تمہارے اوپر اونگه طاری کر دی گئی" کے مصداق کسب فیض ہی کی علامت ہوتی ہے.گهبرانے کی صرورت نہیں ، ترقی ہوتی رہتی ہے.سالک کی مثال مرغی کی مانند ہے جو انڈوں پر بیٹھ کر انہیں گرمی پہنچاتی ہے.ابتداء میں جو انڈے پتهر کی طرح بےجان محسوس ہوتے ہیں ان میں جان پڑتی ہے حتی کہ چوں چوں کرتے چوزے نکل آتے ہیں. اسی طرح سالک کو ابتداء میں اپنا دل پتهر کی مانند نظر آتا ہے لیکن مراقبے میں بیٹھ کر ذکر کی حرارت پہنچانے سے وہ وقت آتا ہے جب دل اللہ اللہ کرنا شروع کر دیتا ہے.ظاہر میں یہ عمل جتنا ہلکا پهلکا سادہ سا لگتا ہے اس کا اثر اتنا ہی زیادہ ہے.چند دن مراقبہ کی پابندی کرنے سے تو یہ حالت ہو جاتی ہے کہ
دل ڈھونڈتا ہےپهروہی فرصت کےرات دن
بیٹهے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے
معمولات نقشبندیہ میں مراقبہ کا یہ معمول بہت ہی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ باقی تمام معمولات تو عمومی ہوتے ہیں لیکن یہ ہر سالک کے لئے خصوصی ہوتا ہے.سالک کی روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کو بهی سبقا سبقا اگے بڑهایا جاتا ہے.

مراقبہ کے فوائد
 مراقبہ کے دلائل قرآن و حدیث کی روشنی میں آپ کے سامنے پیش کئے گئے اب مراقبہ کے بعض فوائد کا ذکر کیا جاتا ہے.

افضل ترین عبادت
مراقبہ افضل ترین عبادت ہے کیونکہ اس میں غور و فکر کارفرما ہوتی ہے.
ام درداء رضی اللہ عنہا سے کسی نے پوچها کہ ابودرداء رضی اللہ عنہ کی افضل ترین عبادت کیا تهی.فرمایا غور و فکر.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک ساعت کا غور و فکر تمام رات کی عبادت سے افضل ہے.حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بهی یہی نقل کیا گیاہے.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک ساعت کا غور و فکر ساٹھ برس کی عبادت سے افضل ہے.
افضل ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ پهر دوسری عبادات کی ضرورت نہیں بس یہی کرتے رہو، ہر عبادت کا اپنا ایک درجہ ہے اگر فرائض واجبات اور آداب و سنن کو چهوڑ دیا جائے تو انسان عذاب و ملامت کا مستحق بن جاتا ہے.

مراقبہ سے ایمان کا نور پیدا ہوتا ہے:
عامر بن قیس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام رضوان  اللہ عنہم سے سنا ہے ایک سے دو سے نہیں بلکہ زیادہ سے سنا ہے کہ ایمان کی روشنی اور ایمان کا نور غور و فکر ہے.
یہی وجہ ہے کہ مراقبہ کی پابندی کرنے سے دل میں نور پیدا ہوتا ہے جس سے ایمان کی حلاوت بڑھ جاتی ہے.دیکهتے ہیں کہ جتنا مراقبہ کی کثرت کرتے ہیں ، نماز میں حضوری ، اعمال کا شوق ، فکر آخرت اور اللہ کی محبت جیسی کیفیات بڑهتی چلی جاتی ہیں.

مراقبہ شیطان کے لئے باعث خجالت ہے:
حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے ایک دفعہ شیطان کو بالکل ننگا دیکها.آپ نے پوچها کہ تمہیں شرم نہیں آتی کہ آدمیوں کے سامنے ننگا ہوتا ہے.وہ کہنے لگا کہ یہ بهی کوئی آدمی ہیں ، آدمی وہ ہیں جو شونیز کی مسجد میں بیٹهے ہیں جنہوں نے میرے بدن کو دبلا کردیا ہے اور میرے جگر کے کباب کر دیئےہیں.آپ فرماتے ہیں کہ میں شونیز کی مسجد میں گیا تو دیکها کہ چند حضرات گهٹنوں پر سر رکهے ہوئےمراقبہ میں مشغول ہیں.

مراقبہ سے روحانی ترقی نصیب ہوتی ہے:
مراقبہ کی کثرت سے سالک کو روحانی ترقی نصیب ہوتی ہے.سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں مختلف مراقبات پر مبنی اسباق کا ایک سلسلہ ہے جو سالکین کو درجہ بدرجہ طے کروائے جاتے ہیں. ہرہر سبق پر سالک کی روح نفس کی کثافتوں سے آزاد ہوکر فوق کی طرف پرواز کرتی ہےاور اسے اس سبق کی مخصوص کیفیات نصیب ہوتی ہیں. حتی کہ نسبت مع اللہ کی نعمت ، معیت الہی کا استحصار ، نماز کی حقیقت ، اولوالعزم نبیاء کے فیوضات اور دیگر کمالات میں سے حصہ ملتا ہے.لیکن یہ تمام نعمتیں مراقبہ کی پابندی اور کثرت کی وجہ سے نصیب ہوتی ہیں. محنت کرنے والوں کے لئے میدان کهلا ہے ہمت اور استقامت کی ضرورت ہے.
وَفِىْ ذٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ (26)
پس( نعمتوں کے )شائقین کو چاہیئے کہ وہ اس میں رغبت کریں. (مطففین )

تلاوتِ قرآن مجید
(ایک پارہ یا آدها پارہ روزانہ)
قرآن مجید اللہ رب العزت کا کلام ہے انسانیت کے نام ہے.حقیقت میں یہ انسانیت کے لئے مشورہ حیات ہے ، انسانیت کے لئے دستور حیات ہے ، انسانیت کے لئے
ضابطہء حیات ہے بلکہ پوری انسانیت کے لئے آب حیات ہے.
"قرآن سے برکت حاصل کرو کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور اس سے صادر ہواہے"
چونکہ ہم اللہ رب العزت کی محبت اور تعلق چاہتے ہیں لہذا ہمیں چاہئے کہ اس کے کلام سے اس کے پیغام سے اپنا ناطہ جوڑیں اور روزانہ محبت سے اس کی تلاوت کیا کریں.مشائخ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ سالکین کو روزانہ تلاوت قرآن کریم کی ہدایت کرتے ہیں. ایک پارہ ہوتو بہت اچها ہے ، ورنہ کم از کم آدھ پارہ ضرور تلاوت کریں. علماء طلباء جن کو تعلیمی مصروفیات زیادہ ہو وہ اس سے بهی کچھ کم کر لیں لیکن روزانہ تلاوت ضرور کریں. اور اگر کوئی پہلے سے قرآن پاک پڑهنا نہیں جانتا تو اسے چاہئے کہ کسی قاری صاحب سے قرآن پاک پڑهنا شروع کردے.اس میں اس کے لئے دوہرا اجر ہے.
تلاوت کرتے وقت باوضو اورقبلہ رو ہوکر بیٹھیں اور تمام ظاہری اور باطنی آداب کا خیال رکهتے ہوئے اس کی تلاوت کریں.
دلائل از قرآن مجید
دلیل نمبر 1:
ارشاد باری تعالی ہے.....
فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ۚ
ترجمہ: "قرآن پاک کی تلاوت کرو جس قدر تم سے ہوسکے"(مزمل 20)
اس آیت کریمہ میں قرآن پاک کو پڑهنے کا حکم دیا گیا ہے.اسی کی تعمیل میں مشائخ حضرات سالکین طریقت کو تلاوت قرآن پاک کی تلقین کرتے ہیں.

دلیل نمبر 2
ارشاد باری تعالی ہے....
اَلَّـذِيْنَ اٰتَيْنَاهُـمُ الْكِتَابَ يَتْلُوْنَهٝ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ ؕ اُولٰٓئِكَ يُؤْمِنُـوْنَ بِهٖ
ترجمہ: جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا فرمائی ہے.وہی اس کو ایسا پڑهتے ہیں جیسے اس کی تلاوت کا حق ہے.یہی لوگ ہیں ایمان رکهنے والے"(البقرہ 121)
تو معلوم ہوا کہ جو اہل ایمان ہیں وہ قرآن پاک کی تلاوت سے غافل نہیں ہوتا اور اس کا حق ادا کرتے ہیں.

احادیث سے دلائل
دلیل نمبر 1
طبرانی نے جامع الصغیر میں روایت نقل کی ہے کہ رسول  كريم صلى الله عليه وآله وسلم  نے ایک صحابی کو نصیحت کی.....
"میں تجهے خدا سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں ، کیونکہ یہ تمام امور کی جڑ ہے.اور تلاوت قرآن اور ذکر اللہ کولازم رکھ. کیونکہ یہ آسمان میں تیرے ذکر کا سبب ہیں اور زمین میں تیری ہدایت کا"

دلیل نمبر 2
ایک حدیث میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے....
"فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ، تم پر تلاوت قرآن ضروری ہے ، کیونکہ یہ تیرے لئے زمین میں ہدایت کا سبب ہے اور آسمان میں یہ تیرا زخیرہ ہے"

دلیل نمبر 3
بہیقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے....
"فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ان دلوں پر زنگ لگ جاتا ہے.جس طرح پانی لگنے سے لوہا زنگ آلود ہوجاتاہے.عرض کیا گیا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم! ان کو صاف کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا موت کا ذکر کثرت سے کرنا اور قرآن پاک کی تلاوت کرنا."

دلیل نمبر 4
امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے یہ حدیث نقل کی ہے....
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا جس آدمی نے نفلوں میں کهڑے ہوکر دس آیات پڑهیں ، ایسا شخص عبادت گزار لوگوں میں شمار ہوگا اور جس شخص نے ایک ہزار آیات پڑهیں وہ اجر میں خزانوں کو جمع کرنے والا ہو گا"

دلیل نمبر 5
امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث نقل کی ہے....
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک لمبی روایت ہے اور اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کم از کم ایک ماہ میں قرآن کا ختم کرو."
مندرجہ بالا احادیث کی تعمیل کیلئے ہمارے مشائخ روزانہ تلاوت کلام پاک کا حکم دیتے ہیں





Share: