مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی تعمير

مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی تعمير
مہاجرین کی آمد سے پہلے انصار ایک جگہ باجماعت نماز ادا کرتے تھے جب نبی كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم تشریف لائے تو سب سے پہلے مسجد بنانے کی فکر ھوئی آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ھوئے اور اسکی لگام ڈھیلی چھوڑ دی اونٹنی چل پڑی اور اس جگہ بیٹھی جہاں آج مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ھے وہ جگہ بھی اس کے قریب تھی جہاں انصار نماز ادا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا بس اس جگہ مسجد بنے گی
نبی صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے مسجد کیلئے جگہ منتخب فرمائی یہ جگہ دو یتیم بچوں سہل رضي الله تعالى عنه اور سہیل رضي الله تعالى عنه کی تھی ان کے سرپرست حضرت اسعد بن زرارہ رضي الله تعالى عنه تھے بعض روایات میں ہے کہ سرپرست حضرت معاذ بن غفراء رضي الله تعالى عنه تھے نبی صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ان سے فرمایا کہ
تم یہ جگہ مسجد کیلئے فروخت کردو
یہ سن کر حضرت ابوایوب انصاری رضي الله تعالى عنه نے عرض کیا کہ اسکی قیمت میں ادا کردیتا ھوں آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے انکار فرمایا اور دس دینار میں زمین کا وہ ٹکڑا خرید لیا زمین کی قیمت حضرت ابوبکر صديق رضي الله تعالى عنه کے مال سے ادا کی گئی (واہ! کیا قسمت پائی ھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالى عنہ نے کہ قیامت تک مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے نمازیوں کا ثواب انکے نامہ اعمال میں بھی لکھا جا رھا ھے
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے دونوں یتیم بچوں کو بلایا اور ان سے زمین فروخت کرنے کی بات کی ان دونوں نے عرض کیا کہ ھم یہ زمین ھدیہ کرتے ہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ان یتیموں سے ھدیہ قبول کرنے سے انکار فرمادیا اور دس دینار میں وہ ٹکڑا خرید لیا ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالى عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے حکم سے قیمت ادا کی
زمین خریدنے کے بعد نبی كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے مسجد کی تعمیر کا ارادہ فرمایا اینٹیں اور گارا تیار کیا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے اپنے دست مبارک سے پہلی اینٹ رکھی پھر حضرت ابوبکر رضي الله تعالى عنه نے آپ کے حکم پر دوسری اینٹ آپ کی لگائی ہوئی اینٹ کے برابر رکھی پھر حضرت عمر رضي الله تعالى عنه کو بلایا انھوں نے آپ کے حکم پر تیسری اینٹ رکھی پھر حضرت عثمان رضي الله تعالى عنه نے آپ کے حکم پر چوتھی اینٹ رکھی ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
میرے بعد یہی خلیفہ ھوں گے
(مستدرک حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے)
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے عام مسلمانوں کو اینٹیں لگانے کا حکم فرمایا
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم پتھروں سے تعمیر کی گئی کھجور کے تنوں کے ستون اور کھجور کی چھال ٹہنیوں اور پتوں سے چھت بنائی گئی چھت پر کچھ مٹی ڈالی گئی دیواروں کی اونچائی انسانی قد کے برابر تھی جب بارش ہوتی تو مٹی ملا پانی اندر ٹپکتا اس سے مسجد میں کیچڑ ھوجاتا بعض صحابہ نے عرض کیا کہ
اگر اجازت ہو تو چھت پر زیادہ مٹی ڈال دیں تاکہ پانی نہ ٹپکے
آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا
نہیں یونہی رھنے دو
کچھ انصاری مسلمانوں نے مال جمع کرکے نبی صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی خدمت میں پیش کیا کہ اس سے مسجد بنا کر اسکو آراستہ کریں ھم کب تک چھپر کے نیچے نماز پڑھیں گے اس پر نبی صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا
مجھے مسجدیں سجانے کا حکم نھیں دیا گیا
ایک اور حدیث میں ھے
قیامت قائم ھونے کی ایک نشانی یہ ھے کہ لوگ مسجدوں میں آرائش و زیبائش کرنے لگیں گے جیسے یہود و نصاری اپنے کلیسائوں اور گرجوں میں زیب و زینت کرتے ھیں
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی تعمیر سے فارغ ہو کر نبی كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضي الله تعالى عنه اور حضرت زید بن رافع رضي الله تعالى عنه کو مکہ بھیجا تاکہ وہ آپ کے اہل و عیال کو مدینہ منوره لے آئیں خرچ کے لئے پانچ سو درھم اور دو اونٹ دیئے یہ خرچ حضرت ابوبکر رضي الله تعالى عنه نے برداشت کیا حضرت ابوبکر رضي الله تعالى عنه کے گھر والوں کو لانے کی ذمہ داری بھی انہی حضرات کو سونپی گئی رھبر کے طور پر عبداللہ بن اریقط کو ساتھ بھیجا گیا
یہ حضرات مکہ سے نبی صلی اللہ علیہ و آله وسلم کی صاحبزادیوں حضرت فاطمہ و ام کلثوم، رضي الله تعالى عنهما نبی صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی زوجہ حضرت سودہ اور دایہ ام ایمنرضي الله تعالى عنهما (جو زید بن حارثہ کی زوجہ تھیں) اور انکے بیٹے اسامہ بن زید رضي الله تعالى عنه کو لے کر مدینہ منوره آئے حضرت ابوبکر رضي الله تعالى عنه کے اہل و عیال بھی ساتھ ہی آگئے۔ ان میں حضرت ابوبکر رضي الله تعالى عنه کی زوجہ ام رومان رضي الله تعالى عنها، صاحبزادیاں حضرت عائشہ و اسماء رضي الله تعالى عنهما اور بیٹے حضرت عبداللہ رضي الله تعالى عنه شامل تھے
نبی كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ تعالى عنہا شادی شدہ تھیں انکے شوہر ابھی مسلمان نہ ہوے تھے لہذا انہیں ہجرت سے روک دیا گیا حضرت زینب نے بعد میں ہجرت کی اور اپنے شوہرابوالعاص بن ربیع کو کفر کی حالت میں مکہ ہی چھوڑ آئیں انکے شوہر غزوہ بدر میں گرفتار ہوئے لیکن انکو چھوڑ دیا گیا پھر یہ مسلمان ہوگئے
ھجرت کے اس سفر میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالى عنہ کی بیٹی حضرت اسماء رضي الله تعالى عنها کے ہاں مدینہ پہنچنے سے پہلے قبا میں حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالى عنہ پیدا ہوئے یہ ھجرت کے بعد مہاجرین کے ہاں پہلا بچہ تھا انکی پیدائش پر مسلمانوں کو بہت خوشی ہوئی کیونکہ کفار نے مشہور کر دیا تھا کہ ھم نے مسلمانوں پر جادو کر دیا ہے لہذا مہاجرین کے ہاں کوئی نرینہ اولاد نہیں ہوگی
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی تعمیر کے بعد رات کے وقت روشنی کا مسئلہ پیش آیا تو کھجور کی شاخیں جلائی گئیں پھر حضرت تمیم داری رضي الله تعالى عنه مدینہ منوره آئے تو قندیلیں رسیاں اور زیتون کا تیل لائے اور رات کے وقت انکو روشن کیا گیا نبی صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ان کو دعائیں دیں بعض روایات میں ہے کہ سب سے پہلے حضرت عمر رضي الله تعالى عنه نے قندیلیں جلائی تھیں
مدینہ منوره میں وہ زمینیں جو کسی کی ملکیت نہ تھیں ان کو نبی صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے مہاجرین میں تقسیم فرما دیا کچھ زمینیں انصار نے ھدیہ کیں وہ بھی مہاجرین میں بانٹ دی گئیں
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی تعمیر کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے دو حجرے اپنی بیویوں کے لئے بنوائے ایک سیدہ عائشہ رضي الله تعالى عنها کے لئے دوسرا سیدہ سودہرضي الله تعالى عنها کے لئے ۔ باقی حجرے ضرورت کے مطابق بعد میں بنائے گئے یہ حجرے کچے تھے کھجور کی شاخوں پتوں اور چھال سے بنا کر ان پر مٹی لیپی گئی تھی
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے چاروں طرف حضرت حارثہ بن نعمانرضي الله تعالى عنه کے مکانات تھے نبی صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے مختلف دینی مصلحتوں اور حکمتوں کی وجہ سے متعدد نکاح فرمائے جب بھی آپ نکاح فرماتے حضرت حارثہ رضي الله تعالى عنه ایک ھجرہ ھدیہ کردیتے یہاں تک کہ سارے مکانات ھدیہ کر دیئے
Share: