أحناف رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟

أحناف رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟ 
اہلسنّت وجماعت(احناف)اور غیر مقلد حضرات کے مابین بنیادی اختلاف تو ان کے عقائد ونظریات کی وجہ سے ہے۔علاوہ ازیں کچھ  فروعي مسائل کا اختلاف بھی ہے۔اس دوسری قسم کے حوالہ سے جن مسائل میں اختلاف جاری ہے ان میں ایک مسئلہ نماز میں’’رفع یدین‘‘ كرنے  کا بھی ہے۔
جسے اس وقت ایک معرکۃ الآراء مسئلہ بنا دیا گیا ہے اورمخالفین کی طرف سے اس پر یوں اودھم مچایا جاتا ہے ،جیسے ’’اسلام اورکفر‘‘ کا فیصلہ ایک اسی مسئلہ پر ہو،حالانکہ إهلحديث حضرات کے اپنے ’’جید‘‘ اور ’’اجل‘‘ قسم کے ’’علماء وفضلاء‘‘ نے بھی اس حقیقت کو اب چاروناچار تسلیم کرہی لیا ہے کہ ’’رفع یدین‘‘نہ کرنا بھی سنت ہے،اور اگر کوئی نمازی ساری عمربھی ’’رفع یدین‘‘ نہ کرے تو اس پر کوئی ملامت اور اعتراض نہیں ہے بلکہ انہوں نے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اس مسئلہ میں لڑنا جھگڑنا تعصب اور جہالت سے خالی نہیں ہے۔
ہم سب سے پہلے اس مسئلہ پر اپنا مؤقف اور اس پرقرآنی آیت، چند احادیث مبارکہ اورجلیل القدر صحابہ کرام   تابعین اوردیگر ائمہ دین و علماء کے اقوال وآراء پیش کریں گے،پھر آخر میں إهلديث حضرات  کی ’’عبارات‘‘ پیش کرکے روزِ روشن کی طرح واضح کردیں گے کہ اہل سنت وجماعت کا عمل برحق اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے،جبکہ مخالفین کا شور وغل بے معنٰی وبے مقصد ہے۔واللہ ولی التوفیق، علیہ توکلنا والیہ المصیر۔
اہلسنّت والجماعت کا مؤقف:
حضرت امام محمد رحمہٗ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
السنۃ ان یکبر الرجل فی صلاتہ کلما خفض وکلما رفع واذا انحط للسجود کبر واذا انحط للسجود الثانی کبر فامارفع الیدین فی الصلوٰۃ فانہ یرفع الیدین حذوالاذنین فی ابتداء الصلوٰۃ مرۃ واحدۃ ثم لایر فع فی شئی من الصلوٰۃ بعد ذلک وھذاکلہ قول ابی حنیفۃ رحمہٗ اللہ وفی ذلک اٰ ثار کثیرۃ۔
(مؤطا امام محمد ص۹۰،۹۱)

یعنی سنت یہ ہے کہ آدمی اپنی نماز میں ہر اونچ نیچ پر اللہ اکبر کہے، جب سجدہ کرے اور دوسرے سجدے کے لیے جھکے تو تکبیر کہے۔پس نماز میں رفع یدین کا مسئلہ،تو وہ یہ ہے کہ (نماز ی کا)نماز کے شروع میں صرف ایک بار کانوں کے برابر ہاتھ اٹھانا ہے،اس کے بعد نماز میں کسی مقام پر بھی رفع یدین نہیں کرے گا۔یہ امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کا مؤقف ہے اوراس بارے میں کثیر آثار ہیں۔
 حضرت امام طحاوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
فانھم قد اجمعواان التکبیرۃ الاولیٰ معھا رفع وان التکبیرۃ بین السجدتین لارفع معھا واختلفوا فی تکبیرۃ النھوض وتکبیرۃ الرکوع فقال قوم حکمھا حکم تکبیرۃ الافتتاح وفیھما الرفع کما فیھا الرفع وقال اٰخرون حکمھما حکم التکبیرۃ بین السجدتین ولارفع فیھما کما لا رفع فیھا…وھو قول ابی حنیفۃ وابی یوسف ومحمد رحمھم اللہ تعالیٰ۔
(شرح معانی الآثار ج۱ص۱۴۸)
یعنی اس بات پر ان کا اتفاق ہے کہ پہلی تکبیر کے ساتھ رفع یدین ہے اور سجدوں کے درمیان تکبیر کے ساتھ رفع یدین نہیں ہے اور انہوں نے جھکنے کے لیے اور رکوع والی تکبیر کے رفع یدین کے متعلق اختلاف کیا ہے۔پس ایک قوم نے کہا کہ ان دونوں کا حکم افتتاح والی تکبیر کے حکم کی طرح ہے جس طرح وہاں رفع یدین ہے تو ان دونوں مقامات پر بھی رفع یدین ہوگا ۔جبکہ دوسری جماعت نے کہا ہے کہ ان دونوں تکبیروں کا حکم سجدوں کے درمیان والی تکبیر کے حکم کی طرح ہے جس طرح سجدوں کے وقت رفع یدین نہیں ہے ایسے ہی رکوع کے وقت بھی رفع یدین نہیں کیا جائے گا۔ اور یہی قول امام اعظم ابوحنیفہ، قاضی ابویوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہم تینوں کا ہے(کہ رفع یدین صرف نماز کے شروع میں کیا جائے گا رکوع اور سجود کے وقت نہیں) ۔
حضرت ملا علی قاری حنفی علیہ الرحمہٗ فرماتے ہیں:
ولیس فی غیر التحریمۃ رفع یدین عند ابی حنیفۃ رحمہ اللہ لخبر مسلم عن جابر بن سمرۃ۔
(مرقاۃ ج۲ص۲۷۵،حاشیہ نسائی ج۱ص۱۶۱)
امام اعظم ابوحنیفہ رحمہٗ اللہ کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین نہیں کرنا چاہیئے،اس کی دلیل سیدنا جابر بن سمرہ رضي الله تعالى عنه  والی روایت ہے۔ جسے امام مسلم نے نقل کیا ہے۔
مولانا عبدالحی لکھنوی نے لکھا ہے:
قول ابی حنیفۃ ووافقہ فی عدم الرفع الامرۃ الثوری والحسن بن حیی وسائرفقھا ء الکوفۃ قدیما وحدیثاوھو قول ابن مسعود واصحابہ…الخ
یعنی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کامؤقف ہے کہ رفع یدین صرف ایک بار کرنا چاہیئے۔اور امام سفیان ثوری ،حسن بن حیی اور تمام متقدمین اور متاخرین فقہائے کوفہ اور حضور عبداللہ بن مسعود اور آپ کے اصحاب کا بھی یہی مؤقف ہے۔(التعلیق الممجد ص۹۱)

قرآن مجید کا فیصلہ
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قد افلح المؤمنون الذین ھم فی صلوٰتھم خاشعون۔
(المؤمنون،۱،۲)
ترجمہ:تحقیق وہ ایمان والے کامیاب ہوگئے،جو اپنی نمازوں کو خشوع وخضوع سے ادا کرتے ہیں۔
محدثین کی وضاحت:
اس کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت امام حسن بصری تابعی ص بیان کرتے ہیں:
’’خاشعون الذین لایرفعون ایدیھم فی الصلوٰۃ الا فی التکبیرۃ الاولیٰ‘‘ ۔
(تفسیر سمر قندی ج۲ص۴۰۸)
ترجمہ:خشوع وخضوع کرنے والے وہ لوگ ہیں جو نماز کی ابتداء میں صرف ایک بار رفع یدین کرتے ہیں۔
یعنی بار بار رفع یدین کرنا نماز میں خشوع وخضوع کے منافی ہے اس لیئے صرف ایک بار شروع میں ہی رفع یدین کرنا چاہیئے۔ اس کے بعد رکوع وسجود کے وقت رفع یدین کرنا درست نہیں۔
 امام بیہقی علیہ الرحمۃ رقمطراز ہیں:
جماع ابواب الخشوع فی الصلوٰۃ والاقبال علیما ۔قال اللہ جل ثناؤہ،قد افلح المؤمنون الذین ھم فی صلوٰتھم خاشعون…عن جابر بن سمرۃ…قال دخل علینا رسول اللہا ونحن رافعی ایدینا فی الصلوٰۃ فقال مالی اراکم رافعی ایدیکم کانھا اذناب خیل شمس اسکنوا فی الصلوٰۃ۔
(السنن الکبریٰ ج۲ص۲۸۰،۲۷۹)
ترجمہ:نماز میں خشوع وخضوع کرنے کا بیان۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: تحقیق وہ ایماندار فلاح پاگئے جو اپنی نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں…
سیدنا جابر بن سمرہ ص…بیان کرتے ہیں:
رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے،اس حال میں کہ ہم نماز میں رفع یدین کررہے تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں رفع یدین کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں،جیسے وحشی گھوڑے اپنی دمیں ہلاتے ہیں۔نماز سکون سے ادا کرو
شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:
عدم رفع راجح ست بآں کہ وے از جنس سکون ست کہ مناسب ترست بحال صلوٰۃ کہ خضوع وخشوع است ۔
ترجمہ:رفع یدین نہ کرنا راجح ہے اور اس کا تعلق سکون سے جو نماز کے مناسب ہے کہ اس میں خضوع وخشوع ہونا چاہئیے۔
(اشعۃ اللمعات ج۱ص۳۵۸)
ان حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ:
 نماز میں صرف ایک مرتبہ ،شروع میں ہی رفع یدین کرنا چاہیئے۔
 باربار رفع یدین کرنا نماز میں خشوع وخضوع اور سکون کے خلاف اور ناپسندیدہ ہے۔
 اللہ تعالیٰ نے نماز میں خشوع وخضوع کرنے کا حکم دیا اور رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے نماز میں سکون اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔
 جو لوگ نماز میں صرف ایک بار رفع یدین کرتے ہیں وہ دونوں حکموں کو مانتے ہیں ۔
 صرف ایک بار رفع یدین والی نماز اللہ ورسول دونوں کو پسند ہے۔
 صرف ایک بار رفع یدین کرنے والے کا میاب اور بامراد ہیں۔

Share: