” جب حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت وہاں یہودیوں کی کافی بڑی آبادی تھی ، اس زمانہ میں یھود کے دس بڑے عالم مدینہ منورہ میں رہتے تھے ، جو “حبر” کہلاتے تھے قرآن کریم میں بھی “ احبار “ کا ذکر ہے ، وہ کوئی معمولی عالم نہیں تھے بلکہ یہود کے چوٹی کے علماء تھے ، جن کے بارہ میں حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ اگر مدینہ منورہ کے یہ دس یہودی عالم اسلام لے آئیں تو یہودیت کا پوری دنیا سے خاتمہ ہو جائے ، لیکن ان میں سے صرف ایک ھی یہودی عالم اسلام لایا ، ترمذی شریف اور حدیث کی دیگر کتب میں یہ روایت موجود ہے ، جب رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ مدینہ منورہ آنے والے تھے تو وہاں اس بات کا بڑا چرچا ہوا ، کیونکہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ساتھی پہلے ہی مدینہ منورہ آچکے تھے ، انہوں نے وہاں تبلیغ کا کام شروع کر دیا تھا اور بیس بنا دیا تھا ، چنانچہ اس دوران پورے مدینہ منورہ میں یہ بات پھیل گئی کہ جنہوں نے مکہ مکرمہ میں نبوت کا دعویٰ کیا ہے وہ مدینہ منورہ آرہے ہیں ، ہر آدمی ان کو دیکھنے کا مشتاق تھا ، جب رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو لوگ بڑی تیزی سے رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو دیکھنے کیلئے آئے ، ان دس یہودی عالموں میں سے ایک عالم جن کا نام اس وقت حصین تھا ، بعد ازاں انہوں نے اسلام قبول کیا تو حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ان کا نام عبد اللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ رکھا ، یہ حضرت عبد اللہ بن سلام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ تھے ، جو بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے تھے ، حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے ، انہوں نے سن ۱ھ میں اسلام قبول کیا ، پھر حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی خدمت میں رہے ، غزوہء خندق اور اس کے بعد کے معرکوں میں شریک ہوئے اور حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے پچیس احادیث بھی بیان کیں ، جو ہم حدیث کی کتابوں میں پڑھتے ہیں ، پھر یہ آخر تک مدینہ منورہ میں ہی رہے ، سن ۴۳ ھ میں مدینہ منورہ میں ہی ان کی وفات ہوئی اور جنت البقیع مین دفن ہوئے ۔
حضرت عبد اللہ بن سلام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ مدینہ منورہ تشریف لائے تو سب لوگ تیزی سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو دیکھنے کیلئے آئے تو ان لوگوں کے ساتھ میں بھی آیا تا کہ میں بھی دیکھوں ، کیونکہ یہ سابقہ کتب کے چوٹی کے عالم اور پڑھے لکھے آدمی تھے ، آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں کہ جب میں آیا اور حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو دیکھا تو ” *عرفتُ انّ وجھہ لیس بوجہ کذاب *“ میں نے ان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے چہرہ پر نظر ڈالتے ہی یہ بات پہچان لی کہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا ۔
اس کے بعد حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا مدینہ منورہ کا سب سے پہلا کلام اورخطبہ بھی انہوں نے ہی نقل کیا ہے ۔ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو دیکھا اور جان لیا کہ یہ سچے ہیں اور اپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے سب سے پہلی بات جو میں نے سنی وہ یہ تھی کہ جناب رسول اللؐہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا *یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ * اے لوگو ! یعنی تمام لوگ جو وہاں موجود تھے ان سب کو رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے مخاطب فرمایا ، یہ مدینہ منورہ میں سن ۱ ھ میں حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا ہجرت کے بعد کا سب سے پہلا خطبہ ہے ، جس میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے تین باتیں ارشاد فرمائیں ۔
کہتے ہیں کہ پہلی بات رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے یہ ارشاد فرمائی ” یٰاَیھا الناس اَفشوا السلام “ اے لوگو ! آپس میں سلام کو پھیلاﺅ ۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے جب ملتا ہے تو ان کی پہچان یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ * کہتے ہیں ۔ السلام علیکم کہے گا تو دس نیکیاں ، ورحمة اللّٰہ کہے گا تو دس اور بڑھ جاتی ہیں اور وبرکاتہ کہے گا تو دس اور بڑھ جائیں گی ، یہ مسلمانوں کا طریقہ ہے ، جو جناب رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے وہاں آتے ہی اسلام کے تعارف کے طور پر سکھایا ۔
آج ہم اسلام کا تعارف بھول چکے ہیں ، ہم اپنے بچوں کو سلام کا اسلامی طریقہ یعنی السلام علیکم کہنا نہیں سکھاتے ، ہم انہیں انگریزوں کا سلام ، یہودیوں اور دیگر غیر مسلموں کا طریقہ سکھلاتے ہیں ، وہ غیر مسلم جو قدم قدم پر ہمارے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا تمسخر اڑاتے اور اپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی توہین کرتے ہیں ۔ دوسری روایت میں آتا ہے کہ جو لوگ آپس میں سلام کرتے ہیں یعنی السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ کہتے ہیں تو اس کی برکت سے اللہ تبارک وتعالیٰ ان میں محبت پیدا کر دیتا ہے ، یہ محبت کو بڑھانے کا ذریعہ ہے ، ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے محبت ہونی چاہئے ، نفرت اور بغض نہیں ہونا چاہئے ، حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے یہ بھی فرمایا کہ سلام اس کو بھی کر جس کو تُو جانتا ہے اور اس کو بھی کر جس کو تُو نہیں جانتا ، کوئی انجان ہے تو اس کو بھی السلام علیکم کہنا چاہئے ، تو حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے سب سے پہلی بات یہ فرمائی کہ ” *اَفشوا السلام“ سلام کو پھیلاﺅ
۔
دوسری بات رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے یہ ارشاد فرمائی وَاَطعموا الطعام اور کھانا کھلاﺅ ۔ یہ اسلام کی پہچان کا دوسرا بڑا اصول ہے کہ سارے مسلمان یکساں نہیں ہوں گے ، کوئی امیر ہو گا اور کوئی غریب ، اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمان بہت زیادہ غریب تھے ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ ” بَداَ الاسلام غریبا و سیعود غریبا “ اسلام کا آغاز غریب لوگوں سے ہوا اور قرب قیامت میں بھی یہ غریبوں میں ہی آجائے گا ۔ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا ” فطوبیٰ للغرباء “ ان غرباء کیلئے خوشخبری ہے ، جو اس ناداری کی حالت میں بھی اسلام کو قبول کرتے ہیں اور اس پر ڈٹے رہتے ہیں تو ان لوگوں کے متعلق رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا کہ ان کو کھانا کھلاﺅ ۔
ھر شخص کو اپنے گرد و پیش میں ، اپنے ہمسائیوں ، رشتہ داروں اور معاشرہ کے نادار لوگوں پر نظر رکھنی چاہئے ، بہت سے گھر ایسے ہوتے ہیں جہاں چولہا نہیں جلتا ، ان کے بچے بھوک سے بلک رہے ہوتے ہیں ، بہت سے حادثات بھی ہوتے ہیں ، کبھی سیلابوں کی وجہ سے آزمائش آ جاتی ہے ، اسی طرح تھر وغیرہ علاقوں میں پانی نہیں ہے ، لوگ پیاس اور بھوک سے مر رہے ہیں ، ایسے مواقع پر مسلمانوں کا حق بنتا ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ تعاون کریں ، ان کے لئے کھانے پینے کا بندوبست کریں اور حسب استطاعت ان کی ضروریات کو پورا کریں ۔
یہ دو باتیں انسانوں کے ساتھ تعلق کے حوالہ سے تھیں کہ سلام کرو گے تو ایک دوسرے کے ساتھ محبت قائم ہو گی اور کھانا کھلاﺅ گے تو ایک دوسرے کے ساتھ تعلق مضبوط ہو گا اور ہمدردی ہو گی ،
تیسری بات نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اللہ کے ساتھ تعلق کے حوالہ سے بیان فرمائی ۔ فرمایا وَصَلُّوا باللیل اور رات کو نماز پڑھو ۔ یہاں اس نماز سے مراد فرض نماز نہیں ہے کیونکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا وَالنَّاسُ نِیَام یعنی جس وقت لوگ سوئے ہوئے ہوں ۔ یہ رات کی نماز ہے ، یعنی نفلی نماز ، تہجد ، صلاة الحاجة ، صلاة التسبیح اور بہت سی نمازیں نوافل میں آتی ہیں ، جو انسان رات کے وقت پوشیدہ طور پر پڑھتا ہے ، فرمایا کہ جس وقت سب سو رہے ہوں تو اس طریقہ سے اپنا تعلق اللہ کے ساتھ قائم کرو کیونکہ وہی ہر چیز کا خالق و مالک ہے ۔
ان تین باتوں کا نتیجہ کیا ہو گا ، رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ٭ تدخلوا الجنۃ بسلام* تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاﺅ گے ۔
لہٰذا ہم سب کو جنت میں داخل ہونے کے یہ تمام اسباب اختیار کرنے چاہئیں ، اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطاء فرمائے “
آمین یا رب العالمین
※