إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ (التوبة)
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہے، جو اللہ کی کتاب( یعنی لوح محفوظ) کے مطابق اس دن سے نافذ چلی آتی ہے، جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا،ان (بارہ مہینوں) میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔
ان چار حرمت والے مہینوں سے مراد رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم الحرام ہیں۔ (البخاري)
ماہ رجب کے حوالے سے لوگ مختلف قسم کی غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔
1۔ شب معراج:
ستائیس رجب کی رات کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ شب معراج ہے، اور اس رات کو بھی اس طرح گزارنا چاہیے، جس طرح شب قدر گزاری جاتی ہے، حالانکہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ستائیس رجب کے بارے میں یقینی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ وہی رات ہے، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے تھے، کیونکہ اس بارے میں روایات مختلف ہیں، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ربیع الاول کے مہینے میں تشریف لے گئے تھے، جبکہ بعض روایتوں میں رجب کا اور بعض روایتوں میں کوئی اور مہینہ بیان کیا گیا ہے، لیکن اگر بالفرض یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ستائیس رجب ہی کو معراج کیلئے تشریف لے گئے تھے، تو بے شک وہ خاص رات واقعی بڑی فضیلت والی تھی، لیکن یہ فضیلت ہر سال آنے والی ستائیس رجب کی رات کو حاصل نہیں۔
پھر دوسری بات یہ ہے کہ یہ واقعہ معراج سنہ پانچ نبوی میں پیش آیا، یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی بننے کے پانچویں سال یہ شب معراج پیش آئی، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس واقعے کے بعد اٹھارہ سال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف فرما رہے، لیکن ان اٹھارہ سالوں کے درمیان کہیں یہ ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات کے بارے میں کوئی خاص حکم دیا ہو یا اس کو منانے کا اہتمام فرمایا ہو، نہ تو آپ صلی الله عليه وسلم کا ایسا کوئی ارشاد ثابت ہے اور نہ ہی آپ صلی الله عليه وسلم کے زمانے میں اس رات میں جاگنے کا اہتمام ثابت ہے، نہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم جاگے اور نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس کی تاکید فرمائی اور نہ صحابہ کرام نے اپنے طور پر اس کا اہتمام فرمایا۔
لہذا جو چیز حضور صلی الله عليه وآلہ وسلم نے نہیں کی اور نہ آپ صلی الله عليه وآلہ وسلم کے جانثاران و وفادار صہابہ کرام نے کی، اس کو دین کا حصہ قرار دینا یا اس کو سنت قرار دینا یا اس کے ساتھ سنت جیسا معاملہ کرنا بدعت ہے، چنانچہ اس رات میں عبادت کیلئے خاص اہتمام کرنا بدعت ہے۔
(اصلاحی خطبات)
2۔ رجب کا روزہ:
بعض لوگ ستائیس رجب کے روزے کا بہت اہتمام کرتے ہیں اور اسے نہایت فضیلت والا روزہ خیال کرتے ہیں، حالانکہ اس روزے کی فضیلت کے بارے میں صحیح سند سے کوئی ایک روایت بھی ثابت نہیں۔
دوسری طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل اس باب میں ملاحظہ ہو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب اپنے دور خلافت میں پتا چلا کہ ستائیس رجب کا خاص اہتمام کرکے لوگ روزے رکھ رہے ہیں، تو فوراً گھر سے نکل پڑے اور ایک ایک شخص کو جاکر زبردستی فرمایا: میرے سامنے کھاؤ اور اس بات کا ثبوت دو کہ تمھارا روزہ نہیں ہے۔
آپ رضی اللہ عنہ نے یہ اہتمام اس لئے فرمایا، تاکہ بدعت کا سد باب ہو اور دین کے اندر اپنی طرف سے زیادتی نہ ہو، چنانچہ سیرت طیبہ اور تعامل صحابہ کی روشنی میں جو بات واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص عام دنوں کی طرح اس دن بھی روزہ رکھنا چاہے، تو اسکی ممانعت نہیں، لیکن سنت، مستحب یا زیادہ اجر و ثواب کا موجب سمجھ کر اس دن روزہ رکھنا بدعت ہے۔
(اصلاحی خطبات)
3۔کونڈے:
ماہ رجب میں ایک رسم امام جعفر صادق کے کونڈوں کے نام سے مشہور ہے، در حقیقت یہ رسم صحابہ دشمن لوگوں کی ایجاد ہے، جس وقت کاتب وحی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کا المناک سانحہ پیش آیا، تو دشمنوں نے اپنی دیرینہ خواہش پوری ہونے پر خاموشی سے مٹھائیاں تقسیم کی، ابتداءً اس خوشی کو مخفی رکھنے کی کوشش کی گئی، پھر اس راز کے فاش ہونے کے خطرے کے پیش نظر اس رسم کو امام جعفر صادق کی طرف منسوب کردیا گیا، حالانکہ اصولی طور پر اس تاریخ کو حضرت امام جعفر صادق سے کوئی مناسبت نہیں ہے، اس لئے کہ بائیسویں رجب نہ حضرت جعفر صادق رحمة اللہ علیہ کی تاریخ پیدائش ہے اور نہ ہی تاریخ وفات، حضرت جعفر صادق کی ولادت آٹھ رمضان 80 ھجری یا 83 ھجری میں ہوئی اور وفات شوال 128ھجری میں ہوئی، ہاں بائیسویں رجب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی تاریخ وفات ضرور ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس رسم کو محض پردہ پوشی کے لئے حضرت امام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ کی طرف منسوب کیا گیا، ورنہ در حقیقت یہ تقریب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خوشی میں منائی جاتی ہے، لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اس رسم سے بہت دور رہیں۔
(تاریخ کے ساتھ ساتھ)
خلاصۂ کلام یہ کہ رجب کا مہینہ حرمت ، برکت اور فضیلت والا مہینہ ہے، اس مہینہ میں زیادہ سے زیادہ نوافل کا اہتمام کرنا چاہیے، لیکن کسی رات کی عبادت کو خاص کرنا یا کسی دن کے روزے کو خاص اہتمام کے ساتھ مسنون یا مستحب سمجھ کر رکھنا شرعاً بدعت ہے۔