یہ بات ہماری تاریخ کے روشن صفحات پر موجود ہے کہ
مولانا سید ابوالحسن ندویؒ جب شاہ فیصل مرحوم کی دعوت پر شاہی محل کے کمرۂ ملاقات میں داخل ہوئے تو بہت دیر تک اس کی چھت اوردرودیوار کی طرف حیرت اوراستعجاب کے ساتھ دیکھتے رہے۔
شاہ فیصل نے جب اس کا سبب پوچھا تو مولانا یوں گویا ہوئے:
”میں نے بادشاہوں کے دربار کبھی نہیں دیکھے۔ آج پہلا تجربہ ہے، اس لیے محو حیرت ہوں۔ میں جس سرزمین سے تعلق رکھتا ہوں، وہاں اب بادشاہ نہیں ہوتے، لیکن تاریخ کا ایک ایسا دور بھی تھا جب وہاں بھی بادشاہ حکومت کرتے تھے۔ میں نے تاریخ میں ایسے بہت سے لوگوں کا بارہا تذکرہ پڑھا ہے۔ آج اس دربار میں آیا ہوں تو ایک تقابل میں کھوگیا ہوں۔ میں سوچ رہا ہوں ہمارے ہاں بھی ایک بادشاہ گزرا ہے۔
آج کا بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش ، سری لنکا، برما اور نیپال اس کی حکومت کا حصہ تھے۔ اس نے 52 سالہ عہد اقتدار میں بیس برس گھوڑے کی پیٹھ پر گزارے۔ اس کے دور میں مسلمان آزاد تھے۔ خوش حال تھے۔ ان کے لیے آسانیاں تھیں
لیکن بادشاہ کا حال یہ تھا وہ پیوند لگے کپڑے پہنتا۔ وہ قرآن مجید کی کتابت کر کے اور ٹوپیاں بنا کر گزر بسر کرتا۔ رات بھر اپنے پرودگار کے حضور میں کھڑا رہتا۔ اس کے دربار میں اپنے آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرتا۔ اس وقت مسلمان حکمران غریب اور سادہ تھے اورعوام خوشحال اور آسودہ۔ آج آپ کا یہ محل دیکھ کر خیال آیا سب کچھ کتنا بدل گیا ہے؟ آج ہمارے بادشاہ خوش حال ہیں اور بڑے بڑے محلات میں رہتے ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ وہ فلسطین میں بے گھر ہیں۔ کشمیر میں ان کا لہو ارزاں ہے۔ وسطی ایشیا میں وہ اپنی شناخت سے محروم ہیں۔
آج میں نے آ پ کے محل میں قدم رکھا تو اس تقابل میں کھوگیا۔“ جب سید ابوالحسن علی ندویؒ خاموش ہوئے تو شاہ فیصل کا چہرہ آنسوؤں سے ترہوچکا تھا۔ ا ب ان کی باری تھی۔ پہلے ان کے آنسو نکلے، وہ آپ دیدہ ہوئے اور پھر ہچکی بندھ گئی۔ اس کے بعد وہ زار و قطار رونے لگے۔
وہ اتنی بلند آواز سے روئے کہ ان کے محافظوں کو تشویش ہوئی اور وہ بھاگتے ہوئے اندر آگئے۔ شاہ فیصل نے انہیں ہاتھ کے اشارے سے باہر جانے کو کہا۔ پھرسید ابوالحسن علی ندوی سے مخاطب ہوکر بولے:”وہ بادشاہ اس لیے ایسے تھے کہ انہیں آپ جیسے ناصح میسر تھے۔ آپ تشریف لاتے رہیں اور ہم جیسے کمزور انسانوں کو نصیحت کرتے رہیں۔“