دیوبند کی وجہِ تسمیہ


 ایک دن دوران درس حضرت الاستاذ مفتی امین صاحب پالن پوری نے فرمایا کہ  حضرت قاری طیب صاحبؒ نے ہمیں یہ واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ کیا تم جانتے ہو دیوبند کو دیوبند کیوں کہتے ہیں؟ پھر واقعہ بتایا کہ دیوبند میں ایک مندر تها جس کا نام "دیوی کنڈ" تها  مندر کے برابر سے ایک نهر بھی گزرتی تهي  جہاں ہندو قوم سالانہ تہوار مناتی تهي  (وہ مندر آج بھی موجود ہے جہاں ہندو قوم آج بهي سالانہ تہوار مناتی ہے، آج کل اس علاقے کا نام "چمار چودس" ہے) صدیوں پہلے اس مندر میں یہ رواج تھا کہ تہوار کے موقع پر ایک لڑکی کو دلہن کی طرح سنوار کر اس مندر میں رات کو چھوڑ دیا جاتا، صبح وہ لڑکی غائب ہوجاتی تھی۔ ہندوؤں کا کہنا تھا کہ لڑکی کو دیوی لے جاتی ہے، اس سے سب لوگ پریشان بھی رہتے تھے لیکن هر صورت ايسا كرنا هي پرتا تها ۔ لڑکی دینے کے لئے لوگوں میں باری لگی ہوتی تھی کہ فلاں سال تم دو گے اور فلاں سال تم دو گے ایک مرتبہ اس سرزمین (دیوبند) سے ایک مسلمان مسافر کا گزر ہوا، رات ہونے کی وجہ سے وہ مسلمان وہیں کسی ہندو کے یہاں قیام پذیر ہوگیا، اس وقت تہوار کا زمانہ تھا، وہ مسلمان جس ہندو کے یہاں قیام پذیر ہوا اتفاقاً اس سال لڑکی دینے کی باری اسی ہندو کی تھی، جس کے ایک ہی لڑکی تھی جس وجہ سے پورا گھر رنج و غم میں مبتلا تھا۔ اس مسلمان مسافر نے رنج و غم کی وجہ معلوم کی تو اسے گھر والوں نے ساری تفصیلات سے اگاه كيا اور بتایا کہ یہ ماجره ہے۔ مسلمان مسافر نے اپنے میزبان کو تسلی دی کہ تم گھبراؤ نہیں اس کام کے لئے میں تیار ہوں میزبان نے کہا کہ تم تو مرد ہو جب کہ وہاں لڑکی دینے کی بات ہوتی ہے مسلمان مسافر نے کہا کہ مجھے تم لوگ بنا سنوار دینا گھونگھٹ میں کیا پتا چلے گا کہ لڑکا ہے یا لڑکی اور وہ بھی رات میں کون سمجھ پائے گا؟ خیر وقت آیا تو ایسا ہی کیا گیا اس مسلمان مسافر کو مندر میں ڈال کر مندر کا دروازہ باہر سے بند کردیا گیا (یہ بات اس گھر والے کے علاوہ کسی اور کو معلوم نہیں تھی) صبح کو لوگ جب مندر میں پہنچے تو دیکھا کہ ایک مرد آرام سے مندر میں لیٹا ہوا ہے لوگوں نے اسے جگایا اور اس سے تفصیلات معلوم كيں کہ تم یہاں کیسے؟ تو اس نے ساری صورت حال بتائی اور رات پیش آئے واقعات سے بھی سب کو باخبر کیا  اس نے بتايا كه رات جو واقعہ ہوا وه يه هے کہ جب اسے مندر میں ڈال کر باہر سے مندر کا دروازہ بند کردیا گیا تو اسے بھی ڈر اور خوف محسوس ہونے لگا کہ اب کیا ہوگا ليكن  وہ ذکر واذکار میں مشغول ہوگیا جب رات تاریک ہوئی تو کیا دیکھتا ہے کہ نهر میں (جو مندر کے بغل سے گزر رہی ہے) مندر سے دور ایک کشتی ہے جس سے روشنی ظاہر ہورہی ہے اور مندر کی جانب بڑھ رہی ہے وہ مسلمان ڈر کے مارے قرآن مجید کی آیتین (جو بھی یاد ہوگا آیت الکرسی وغیرہ) پڑھنے لگا کشتی مندر کے قریب ہوتی گئی جب کشتی مندر کے دیوار سے ٹکرائی تو کشتی واپس بہت دور چلی گئی پھر دھیرے دھیرے مندر کے پاس کشتی پہنچی جب دیوار سے دوبارہ ٹکرائی تو پھر واپس بہت دور چلی گئی اس طرح تین بار ہوا (وہ مسلمان مسلسل قرآن کی تلاوت کرتا رہا) چوتھی بار جب کشتی مندر کے دیوار سے ٹکرائی تو کشتی ٹوٹ کر نهر میں ڈوب گئی پھر مسلمان آرام سے سوگیا یہاں تک کہ جب صبح ہوئی تو لوگوں نے اسے جگایا اس دن سے اس سرزمین کا نام "دیوبند" پڑگیا کہ آج اس دیو كو جو لڑکیوں کو لے جاتا تھا الله كے فضل وكرم سے دفن کردیا گیا یہ واقعہ قاری طیب صاحبؒ نے حضرت الاستاذ مفتی امین صاحب پالن پوری کو سنایا تھا اور انہوں نے طلباء كو دوران درس سنایا تھا

Share: