زلزلے کیوں آتے ہیں


اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے جس میں زلزلے، طوفان، سیلاب، قحط و خشک سالی کے علاوہ دیگر زمینی و آسمانی آفات و بلیات شامل ہیں زلزلے اور قدرتی آفات محض عذاب الہٰی ہی نہیں بلکہ یہ بندوں پر آزمائش کی صورت میں بھی نازل ہوتی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار اور بخشش و مغفرت کے ساتھ رجوع کرنا چاہئے ان زلزلوں کا بنیادی سبب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی نافرمانی اور ھماری اپنی بداعمالیوں کو قرار دیا گیا ہے۔ جن کا ذکر قرآن حکیم  اور آحادیث مبارکہ  میں ملتا ہے جن میں سے چند آیات مبارکہ اور آحادیث مبارکہ درج کی جارہی ہیں۔


ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَيْدِی النَّاسِ لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَo (الروم)

بحر و بر میں فساد ان (گناہوں) کے باعث پھیل گیا ہے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کما رکھے ہیں تاکہ (ﷲ) انہیں بعض (برے) اعمال کا مزہ چکھا دے جو انہوں نے کیے ہیں، تاکہ وہ باز آ جائیں



وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ يْدِيْکُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ کَثِيْرٍ.0 (الشوریٰ)

اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اُس (بد اعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے حالانکہ بہت سی (کوتاہیوں) سے تو وہ درگزر بھی فرما دیتا ہے


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک علم کو اٹھا نہیں لیا جاتا۔ اس وقت کثرت سے زلزلے آئیں گے۔ ایک زمانہ دوسرے کے قریب تر ہوگا، فتنہ و فساد ظاہر ہوگا، ہرج میں اضافہ ہوگا یہاں تک کہ مال و دولت کی فراوانی اس طرح ہوگی جیسے ابل پڑے گی۔(بخاری)


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے مروی ھے کہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرب قیامت کی نشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب مال غنیمت کو گھر کی دولت سمجھا جانے لگے، امانت میں خیانت کی جائے، زکوٰۃ کو بوجھ سمجھا جائے، دینی تعلیم دنیا کے لئے حاصل کی جائے، آدمی بیوی کی اطاعت کرنے لگے، اولاد ماں کو ستانے لگے، دوستوں کو قریب اور والدین کو دور کردیا جائے، انسان سے ڈر کر اس کی عزت کی جانے لگے، گانے بجانے والی عورتیں اور سامان تعیش کی کثرت ہوجائے، شرابیں پی جانے لگیں، امت کے بعد میں آنے والے لوگ پہلے لوگوں پر لعنت ملامت کرنے لگیں تو پھر اس زمانے میں سرخ آندھیوں اور زلزلوں کا انتظار کرو اور زمین میں دھنس جانے اور صورتیں مسخ ہوجانے اور آسمان سے پتھر برسنے کے بھی منتظر رہو اور دیگر آفات و بلیات اور نشانیوں کا انتظار کرو جو اس طرح ظاہر ہوں گی جیسے کسی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے تو لگاتار اس کے دانیں گرتے رہتے ہیں۔

(جامع ترمذی)


حضرت سیدنا انس ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ  ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا کہ زلزلہ کیوں آتا ہے؟ ام المومنین نے فرمایا جب لوگ زنا کو حلال کرلیں، شراب پینے لگیں اور گانے بجانے کے مشغلہ کو اپنالیں تو پھر اللہ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور زمین کو حکم ہوتا ہے کہ زلزلہ بپا کردے۔ اگر اس علاقے کے لوگ توبہ و استغفار کرلیں اور اپنی بداعمالیوں سے باز آجائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے ورنہ ان کے لئے ہلاکت ہے۔


فقیہ الامت حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ایک مرتبہ کوفہ میں زلزلہ آیا تو انہوں نے اعلان عام کیا کہ اے لوگو! یقینا تمہارا رب تم سے ناراض ہوگیا ہے اگر اس کی رضا مندی چاہتے ہو تو فوری اس کی طرف رجوع کرو اور اجتماعی توبہ کرو وگرنہ اسے یہ پرواہ ہرگز نہیں ہوگی کہ تم کس وادی میں ہلاک ہوتے ہو۔


حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے زمانہ میں ایک مرتبہ زلزلہ آیا تو انھوں نے اپنے تمام گورنروں کو ایک خصوصی پیغام بھیجا جس میں آپ نے فرمایا کہ سنو اور اچھی طرح جان لو کہ زلزلے کے جھٹکے سزاکے طور پر آتے ہیں لہذا تم لوگ صدقہ و خیرات کرتے رہو اور توبہ و استغفار میں لگے رہو اور حضرت آدم علیہ السلام کی یہ دعا مانگتے رہو۔

 رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لََّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَo (الاعراف)

اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی۔ اور اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اور ہم پر رحم (نہ) فرمایا تو ہم یقینا نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے‘‘۔


لہذا ان مصائب و آلام سے بچنے کے لئے ہمیں بحیثیت قوم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اجتماعی توبہ و استغفار کا اھتمام کرنا چاھیے

اللہ پاک ھمیں اس کی توفیق عنایت فرمائے

آمین یا رب العالمین 

Share: