اپنی تالیفات کو ناقص سمجھنا


سلف صالحین کےاخلاق میں سے ایک یہ ہے کہ:

اپنے آپ کو اپنی تالیف میں مختلف الفاظ اور زیادہ لکھنے کی تکلیف نیک نیت سے دیتے، نہ اس لیے کہ لوگ ان کی مدح کریں کہ فلاں نے اس کتاب میں کمی نہیں کی، اے دوست! یاد رکھ، اگر انسان کتاب کے لکھنے میں نہایت ہی کوشش کرے اور عمدگی سے لکھے تو بھی ضرور بعض اوقات مسئلہ کی کوئی نہ کوئی شق بھول جائے گا، یا تفسیر کے موقع پرمطلق رہنے دے گا، چانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، اگر قران مجید خدا کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف ہوتا۔ القران

شیخ محی الدین بن عربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، میں نے کبھی کوئی بھی کتاب غور وفکر سے نہیں لکھی، بلکہ کچھ مجھے اللہ تعالیٰ بتادیتا ہے وہی لکھتا جاتا ہوں۔

حضرت علی خواص رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، انسان کے کلام اور تحریر کے نقص اور غلطی سے محفوظ نہ ہونے کا باعث یہ ہے کہ متواتر بیداری نہیں رہتی، اسی لیے اس سے سہو وغیرہ ہوتے ہیں، حضرت احمد زاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، حقیقی ادب یہ ہے کہ انسان یہ خواہش نہ کرے کہ مجھ پر کبھی کوئی اعتراض نہ ہو، بلکہ کلام الہی کی مشابہت سے حتی الامکان بھاگتا رہے۔

یہ کتاب تنبیہ المغترین کا آخری حصہ ہے، یعنی دسویں صدی ہجری کے آخر میں جو لوگ دھوکہ کھائے ہوئے ہیں، ان کو اپنے سلف صالحین کی مخالفت پر تنبیہ کرنا، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے ہم کو یہ سجھایا ، ورنہ ہم اس راہ پر چلنے والے نہ تھے، اگر اللہ ہم کو ہدایت نہ دیتا، ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اس سے دوستوں کو نفع بخشے اور ہمارا اور ان کا خاتمہ بالخیر فرمائے، اور ہمارا اس دنیا میں آخری کلام یہ ہو، اشہد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ

اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اور تمام انبیاء سابقین پر رحمت کاملہ نازل فرمائے۔آمین

ختم شد

اخلاق سلف ترجمہ تنبیہ المغترین

Share: