ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔
اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ فَمَنْ لَّمْ یَعْمَلْ بِسُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ وَتَزَوَّجُوْافَاِنِّیْ مُکَاثِرٌبِکُمُ الْاُمَمَ
’’نکاح میرا طریقہ ہے جس نے میرے طریقے پر عمل نہ کیا وہ مجھ سے نہیں، شادی کرو کیوں کہ میں تمہاری کثرت کے باعث امتوں پر فخر کرنا چاہتا ہوں
(صحیح ابن ماجہ ، کتاب النکاح)
علماء كرام كي تحقيق اور آكابر مفتيان عظيم كے فتاوى جات كا مطالعه كيا جائے تو شادي كا مسنون طريقه مختصر الفاظ ميں اس طرح سامنے آتا هے کہ مروجہ رسم ورواج اور فضول خرافات، مثلاً: نام ونمود اور برادری میں نام کمانے کی خاطر اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرنا، پیسے کا بے جا اسراف اور شریعت میں غیر ثابت رسوم کے اہتمام میں پڑنا وغیرہ سے پرہیز کیا جائے۔
شادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم کی محبوب سنت ہے اور اس کی ترغیب بھی بہت سی روایات میں آئی ہے۔ شادی کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے عقد نکاح ہو جو کہ نام ھے گواھوں کی موجودگی میں اور حق مہر کے ساتھ ایجاب و قبول کرنے کا ۔ بہتر یہ ہے کہ عقد نکاح مسجد میں ہو، تاکہ سب لوگوں کو اس کا علم ہوجائے (تاھم مسجد سے باھر بھی نکاح بلا کراھت جائز ھے ) اس کے بعد رخصتی کا عمل ہو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا رخصتی کے بارے میں عام معمول یہ تھا کہ لڑکی کا باپ یا ولی لڑکی کو تیار کرکے خود یا کسی اور کے واسطے سے دولہا کے گھر پہنچا دیتا، جیسا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالى عنها اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالى عنہا کی رخصتی سے متعلق روایات سے معلوم ہوتا ہے۔
لڑکی کی رخصتی کے لئے باقاعدہ طور پر بارات لے كر جانا، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم سے ثابت نہیں هے لہٰذا بہتر تو یہ ہے کہ لڑکی والے خود دلہن کو دولہا کے گھر پہنچائیں۔ اگر ایسا ممکن نہ ھو تو پھر دولہا خود یا کسی ایسے شخص کو (جو دلہن کا محرم بنتا ہو) لڑکی کو لانے کے لئے بھیج دے ۔ دورِ حاضر کے مروّجہ طریقوں سے بڑی بڑی باراتیں لے كر جانے کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، البتہ اگر خلافِ شرع امور سے اجتناب کرتے ہوئے لڑكا اور لڑکے کے خاندان کے چند افراد جائیں اور لڑکی کو رخصت کر کے لے آئیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ليكن ايك جمِّ غفير كي شكل ميں بارات ليكر جانے كي گنجائش هرگز نهيں هے بلكه مروجہ ”بارات” ایک ھندوانہ رسم ھے جو واجب الترک ہے لہذا اس میں جانے اور كھانا کھانے میں شرکت کرنے سے بهي احتراز کرنا هي بهتر هے دلہن کو رخصت کراکر لانے کے لیے دولہا کے ساتھ اگر چند ( دو یا تین ) افراد چلے جائیں تو يه کافی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله و سلم کی تربیت اور تعلیم کا اثر تھا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم تکلفات سے بالکل پاک تھے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک روایت میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کی بعض خوبیاں اور صفاتِ کریمہ بیان کی ہیں، ان میں سے خصوصیت سے یہ صفت بھی بیان کی ھے کہ وہ بہت کم تکلف کرنے والے تھے۔ اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم کی تعلیم ہے کہ معاملات کو جتنا سہل اور آسان اور بے تکلف کیا جائے بہتر ہے
شادی میں برتی جانے والی بہت سی مروجہ رسومات مثلاً مايوں ، مہندی، ڈھولکی، منڈھا ، بارات نیوندرہ وغیرہ سب غیر اسلامی رسوم ہیں، شریعت میں ان کی کوئی اصل نہیں ہے، ان رسومات پر عمل کرنا شرعاً جائز نہیں ہے؛ بلکہ ان کے التزام سے شادی جو ایک سنت نبوی صلى الله عليه وآله وسلم ہے، اس کے برکات سے محرومی کا شديد اندیشہ ہے۔ بس شب زفاف کے بعد مسنون ولیمہ کا انعقاد ہوجائے۔شادی كي نعمت پر اظہار مسرت کے لیے شریعت نے ”ولیمہ“ کو مسنون قرار دیا ھے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی متعدد بیویوں کے نکاح میں خود بھی ولیمہ کیا ہے، نیز صحابہ کرام رضوان الله عليهم کو ولیمے کی ترغیب بھی دی، ولیمہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ بلاتکلف وبلا تفاخر اختصار کے ساتھ جس قدر میسر ہوجائے اپنے خاص لوگوں کو کھلا دے، وليمه كے لئے بھی شرکاء کی بهت بڑي تعداد ضروري نهيں هے ۔ اگر إستطاعت نه هو تو دعوتِ ولیمہ کے لیے جانور ذبح کرنا یا کوئی خاص انتظام کرنا بھی ضروری نہیں ہے۔ بس صرف شرط یہ ہے کہ خالصتاً لوجہ اللہ ہو، اس میں غریبوں کو بھی مدعو کیا جائے، صرف امیروں ہی کو دعوت دینے پر اکتفاء نہ کیا جائے، نیز ولیمہ کا خرچ حسبِ استطاعت ہو۔ اس کے لیے سودی قرض یا قرض نہ لیا جائے۔
آجكل عموماً يه کہا جاتا ھے کہ موجودہ ماحول ميں اس طرح شادي كو آنجام دينا ممكن ھی نهيں هے ليكن آصل بات يه هے كه اگر كوئي اپنے نبي صلى الله عليه وآله وسلم كي محبت ميں ايسا كرنا چاهے تو يه بالكل ممكن هے ۔ میں بڑی مسرت سے اپنے برادرعزيز حافظ عبدالوحيد صاحب کو مثال کے طور پر پیش کرنا چاھتا ھوں جنہوں نے اپنے تین بچوں کی شادیاں مكمل طور پر سنت كے مطابق كركے يه ثابت كرديا ھے كه كرنے والوں كے لئے اب بھی يه ناممكن نهيں هے حال ھی میں حافظ صاحب نے اپنےایک بیٹے کی شادی کی ھے عموماً شادی میں برتی جانے والی مروجہ غیر اسلامی رسومات مثلاً مایوں ، مہندی، ڈھولکی، منڈھا ، بارات نیوندرہ وغیرہ حافظ صاحب كے بيٹے كي شادي ميں كہیں نظر نہیں آئيں اور الحمد لله شادي بھی بخير وخوبي أنجام پا گئي ۔ نکاح مسجد میں ھوا جو حافظ صاحب نے خود پڑھایا ۔ نکاح سے پہلے خطبۂ جمعہ میں حافظ صاحب نے مسنون نکاح پر روشنی ڈالی ۔ چند دن کے بعد صرف حافظ صاحب اُن کی اھلیہ اور دولہا لڑکی والوں کے گھر تشریف لے گئے جو اُن کی بڑی بہن کا گھر تھا اور لڑکی کو رخصت کرا کر گھر لے آئے ۔ اس موقعہ پر بھی مروجہ رسم رواج سے کلی طور پر اجتناب برتا گیا ۔ دو دن کے بعد ولیمہ کی تقریب سادہ لیکن باوقار طریقے سے حافظ صاحب کی رھائش گاہ پر ھی منعقد کی گئی ۔ ولیمہ کے شرکاء کی تعداد بھی محدود تھی ۔ عورتوں اور مردوں کا انتظام بالکل الگ الگ تھا ۔ شرکاء کو سنت کے مطابق نیچے دسترخوان بچھا کر پرلطف کھانا کھلایا گیا اور اس طرح یہ شادی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کئی ایسی سنتیں زندہ کرنے کا سبب بن گئی جو تقریباً متروک ھو چکی ھیں ۔ بیشک احادیث مبارکہ میں سنّت زندہ کرنے کا حکم اور اُس پر بڑے ثوابوں کے وعدے ہیں حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من احیا سنتی ، فقدا حبنی، ومن احبنی کان معی فی الجنۃ
جس نے میری سنت زندہ کی بیشک اُسے مجھ سے محبت ہے اور جسے مجھ سے محبت ہے وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔
( جامع الترمذی )
حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
من احیاسنۃ من سنتی قدامیتت بعدی فان لہ من الاجرمثل اجور من عمل بھامن غیران ینقص من اجورھم شیئا
جو میری کوئی سنت زندہ کرے کہ لوگوں نے میرے بعد چھوڑدی ہو جتنے اس پر عمل کریں سب کے برابر اسے ثواب ملے گا اور ان کے ثوابوں میں کچھ کمی نہ ھو گی
اسے ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من تمسک بسنتی عن فسادا متی فلہ اجر مائۃ شھید
جو فسادِ اُمت کے وقت میری سنت مضبوط تھامے اسے سَو شہیدوں کا ثواب ملے گا ۔
اسےبیھقی نے روایت کیا ھے ۔
اور ظاہر ہے کہ زندہ وہی سنّت کی جائے گی جو مُردہ ہو چکی ھو اور سنت مُردہ جبھی ہوتی ھے کہ اُس کے خلاف رواج پڑ جائے۔ احیاءِ سنت علماء کرام کا تو خاص فرضِ منصبی ہے اور دیگر مسلمانوں کے لئے بھی یہ حکم عام ہے ۔ ہر شہر کے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے شہر یا کم ازکم اپنی اپنی مساجد میں اس سنّت کو زندہ کرکے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی عملی محبت کا ثبوت دیں اور حدیثِ مبارکہ میں موجود بشارت کے مطابق سو سو شہیدوں کا ثواب حاصل کریں اور اس پر یہ اعتراض کرنا کہ کیا تم سے پہلے علماء نہ تھے ؟ ایک جاھلانہ بات ھوگی ، کیونکہ اگر اسی بات کو سامنے رکھ لیا جائے تو پھر کوئی بھی سنّت کو زندہ کرنے کے کوشش نہیں کرسکے گا جب کہ سنتوں کو زندہ کرنے کی کوشش کرنے کا حکم حدیثِ مبارکہ میں کئی جگہ پر آیا ھے
شاید کسی کے ذھن میں یہ بات بھی آئے کہ حافظ صاحب کے پاس کون سے اتنے پیسے ھوں گے جو وہ اس موقعہ پر خرچ کرتے ، میں عرض کر دوں ایسا ھرگز نہیں ھے اللہ پاک کے فضل وکرم سے حافظ صاحب ما شاء الله صاحب ثروت شخص هيں ۔ اگر وہ چاھتے تو لاکھوں روپيه رسومات ہر خرچ كر دينا بھی ان كے لئے کوئی مشکل بات نہیں تهي ليكن انہوں نے سنت رسول صلى الله عليه وآله وسلم كو مقدم رکھ كر سنت سے اپني محبت ثابت كر دي هے ۔ رھی بات خرچ کرنے کی ، حافظ صاحب کے خرچ کرنے کا میدان مدارس اور مساجد ھیں جہاں الحمد للہ اللہ کی توفیق سے اُن کی کمائی سے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے خرچ ھو رھے ھیں ۔ اللہ پاک قبول فرمائے ۔( آمین) بہرحال سنت سے اس طرح محبت كے آظہار كے لئے حافظ عبدالوحید صاحب اور ان کے اھلِ خانہ يقيناً بہت ھی مباركباد كے مستحق هيں
ھو سکتا ھے ميرے جيسے بہت سے علم دين سے ناواقف لوگ حافظ صاحب كو بيٹے كي اس طرح شادي كرنے پر تنقید كا نشانه بھی بنائيں انهيں مختلف القابات سے بھی نوازيں ليكن حافظ صاحب كو إس طعن وتشنيع كو برداشت كرنے كا بھی رب ذوالجلال كي جانب سے إن شاء الله عظيم آجر ملے گا ۔ دعا هے الله پاک حافظ صاحب کی زندگی میں برکتیں عطا فرمائے اور اللہ تعالى هم سب كو بھی اس بات كي توفيق عنايت فرمائے كه هم بھی اپنے بچوں كي شادياں سنت كے مطابق كرنے والے بن جائيں
آمين يا رب العالمين