قرآن حکیم کے اعجاز کا ایک پہلو یہ ہے "کہ یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جس کے حروف سے لے کر کتابت تک ایک ایک چیز کو محفوظ کرنے اور محفوظ رکھنے میں مستقل جماعتوں نے کام کیا ۔ کاتبوں نے رسم الخط کی حفاظت کی ۔ قاری حضرات نے طرز ادا اور طرز تلاوت کی حفاظت کی " حافظوں نے الفاظ اور عبارت کی حفاظت کی۔ اسی طرح اعداد و شمار کے حوالے سے بھی لوگوں نے بڑی خدمت کی اور ایک ایک لفظ " ایک ایک حرف کو حتیٰ کہ بعض نے زیرزبر تک کو شمار کیا ہے۔
یہ ساری بات تو بالکل واضح ہے کہ الفاظ قرآن پر زیرزبرپیش اوردیگر حرکات و سکنات وغیرہ بہت بعد میں لگائے گئے تاکہ غیر عرب لوگوں کو پڑھنے میں آسانی ہوسکے ۔ اسی طرح حروف پر نقطے بھی بعد ہی میں لگائے گئے
قرآن مجید کی ١١٤ سورتیں تو بلااختلاف منزل من اللہ ہیں لیکن قرآن مجید کی منازل ، رکوعات اور پاروں کی تقسیم منزل من اللہ نہیں ہے۔ یہ تقسیم رسول اللہ ۖ نے بھی نہیں فرمائی بلکہ بعد کے لوگوں نے اپنی ضرورت اور صوابدید کے تحت قائم کی پہلے قرآن مجید کو منازل میں پھر پاروں میں اس کے بعد
رکوعات میں تقسیم کیا گیا ۔
صحابہ کرام کے دور کا مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان حضرات کو قرآن حکیم سے غیر معمولی شغف تھا اور وہ کثرت کے ساتھ تلاوت کلام اللہ کیا کرتے تھے۔ ان حضرات کا معمول عموماً ہفتہ میں ایک بار قرآن مجید کو مکمل کرلینے کا ہوتا تھا ۔ لہذا اس مقصد کے لئے انہوں نے قرآن مجید کوسات حصوں میں تقسیم کیا ۔ وہ ایک حصہ کو حزب یا منزل کا نام دیتے تھے۔ اسی لئے آج بھی یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن مجید کی سات منزلیں ہیں۔
چنانچہ ایک روایت کے مطابق حضرت اوس نے کسی صحابي سے پوچھا کہ قرآن کے کتنے حزب ہیں۔ انہوں نے جواب دیا
سات .اگرچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ منزلوںکی تعیین بھی توقیفی ہے ‘لیکن منزلوں کی اس تقسیم میں گنتی کے اعتبار سے جو حسن پیدا ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت ہی کا ایک مظہر ہے. سورۃ الفاتحہ کو الگ رکھ دیا جائے کہ یہ تو قرآن حکیم کا مقدمہ یا دیباچہ ہے تو اس کے بعد پہلا حزب یا منزل تین سورتوں (البقرۃ ‘ آل عمران‘ النساء) پر مشتمل ہے. دوسری منزل پانچ سورتوں پر ‘ تیسری منزل سات سورتوں پر ‘ چوتھی منزل نو سورتوں پر‘پانچویں منزل گیارہ سورتوں پراور چھٹی منزل تیرہ سورتوں پر مشتمل ہے‘ جبکہ ساتویں منزل (حزبِ مفصل) جو کہ آخری منزل ہے ‘اس میں ٦٥ سورتیں ہیں .آخر میں سورتیں چھوٹی چھوٹی ہیں
اس کا مطلب یہ ہے کہ حزب کا لفظ صحابہ کرام کے زمانہ میں رواج پاچکا تھا جس کا ترجمہ بعد میں منزل کیا گیا۔یہ بات بھی واضح ہے کہ یہ سات احزاب منزل من اللہ نہیں تھے بلکہ صحابہ کرام نے اپنی سہولت کے لئے مقرر کئے تھے
والله عالم