روزہ آفطار کروانے کی فضیلت

ماہِ رمضان نیکیوں کا موسمِ بہار

رمضان المبارک عبادت و ریاضت، ایثار و ہمدردی، رب کی رضا کی تلاش اور اس کے قرب کا مہینہ ہے،اس میں بندۂ مومن کے ہر نیک عمل اور ہر نیکی کا اجر بڑھا دیا جاتا ہے

رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے رمضان المبارک کی عظمت و اہمیت کو اجاگر فرمايا اور اس میں نیکیوں پر بے شمار اجر و ثواب کی نوید سنائي اور روزے داروں کو روزہ افطار کرانے کی فضیلت اور اس پر ملنے والے اجر و ثواب سے آگاہ فرمایا ہے۔ روزہ افطار کرانے میں ہر فرد کی حیثیت کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ صحابہ کرام رضوان الله عليهم کے عرض کرنے پر کہ یا رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم! ہم میں سے ہر ایک تو اس کی استطاعت اور قدرت نہیں رکھتا کہ وہ روزے دار کو روزہ افطار کرا سکے؟ اس پر آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا؟ اللہ تعالیٰ یہ اجر و ثواب اسے بھی عطا فرمائے گا،جو روزے دار کو  تھوڑی لسی (شربت وغیرہ) یا پانی پلا دے (کیوں کہ اللہ کے یہاں نیت کا اجر ہے) رمضان المبارک میں روزہ افطار کرانے کا یہ عمل اور یہ روایت مسلم دنیا کے بیش تر علاقوں میں پوری شان و شوکت سے نظر آتی ہے، بالخصوص عرب دنیا اور خاص طور پر حرمین شریفین کے مقدس مقامات پر سحر و افطار کے بابرکت لمحات اور پرنور ساعتوں میں یہ مناظر عام دیکھنے میں آتے ہیں۔وہاں اس کارخیر اور باعثِ اجر و ثواب عمل میں مسابقت کے مناظر عام نظر آتے ہیں۔ خوش قسمتی سے روزہ افطار کرانے کی یہ اسلامی روایت اب وطن عزيز ميں بھی عام ہوتی جارہی ہے۔ صاحبِ خیر اور اہلِ ثروت حضرات اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں

 روزہ افطار کرانا” انفاق فی سیبل اللہ” کا ایک اہم شعبہ ہے،اس میں لوگوں کو کھانا کھلانے اور پیاسوں کو سیراب کرنے کا عمل اور اس کا اجر و ثواب بھی شامل ہوجاتا ہے۔ غربت و افلاس،مہنگائی، بے روزگاری، معاشی بدحالی اور کئی دیگر عوامل کے باعث ہمارے معاشرے میں خود داری،عزت نفس، سفید پوشی اور اپنا بھرم قائم رکھنے کے اعلیٰ اخلاقی وصف کے حامل یہ افراد نہ دستِ سوال دراز کرتے ہیں اور نہ کسی سے امید لگاتے ہیں۔ انہیں اپنا مہمان بنانا اور انہیں افطار میں شریک کرنا باعثِ اجر و ثواب عمل اور ایک عظیم نیکی ہے۔ تاہم ایسے میں بندگانِ خدا کی عزتِ نفس اور خودداری کا پورا لحاظ رکھنا چاہیے، نیک کام اور نیکی تب ہی بارگاہِ الہٰی میں مقبول ہے، جب وہ نام و نمود، شہرت و ناموری اور ریاکاری جیسی بری صفات سے پاک ہو۔اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اور نیت کا اخلاص اور ارادے کا پرخلوص ہونا نیک اعمال اور نیکیوں کی قبولیت کی بنیادی شرط ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے 

مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّـهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٦١﴾ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى ۙ لَّهُمْ أَجْرُ‌هُمْ عِندَ رَ‌بِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٢٦٢﴾ البقرة

جو لوگ اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان (کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بال میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس (کے مال) کو چاہتا ہے زیادہ کرتا ہے۔ وہ بڑی کشائش والا اور سب کچھ جاننے والا ہے (261) جو لوگ اپنا مال خدا کے رستے میں صرف کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ اس خرچ کا (کسی پر) احسان رکھتے ہیں اور نہ (کسی کو) تکلیف دیتے ہیں۔ ان کا صلہ ان کے پروردگار کے پاس (تیار) ہے۔ اور (قیامت کے روز) نہ ان کو کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے (262)


سو گنا زیادہ ثواب

اس آیت میں بیان ہو رہا ہے کہ جو شخص اللہ تعالٰی کی رضامندی کی طلب میں اپنے مال کو خرچ کرے، اسے بڑی برکتیں اور بہت بڑے ثواب ملتے ہیں اور نیکیاں سات سو گنا کرکے دی جاتی ہیں، تو فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں یعنی اللہ کی فرمانبرداری میں جہاد کے گھوڑوں کو پالنے میں، ہتھیار خریدنے میں، حج کرنے کرانے میں خرچ کرتے ہیں۔ اللہ کے نام دئیے ہوئے کی مثال کس پاکیزگی سے بیان ہو رہی ہے جو آنکھوں میں کھپ جائے اور دِل میں گھر کر جائے، ایک دم یوں فرما دیتا ہے کہ ایک کے بدلے سات سو ملیں گے اس سے بہت زیادہ لطافت اس کلام اور اس کی مثال میں ہے اور پھر اس میں اشارہ ہے کہ اعمال صالحہ اللہ کے پاس بڑھتے رہتے ہیں جس طرح تمہارے بوئے ہوئے بیج کھیت میں بڑھتے رہتے ہیں مسند احمد میں ایک حدیث مبارکہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اپنی بچی ہوئی چیز فی سبیل اللہ دیتا ہے اسے سات سو کا ثواب ملتا ہے اور جو شخص جان پر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے اسے دس گنا ملتا ہے اور بیمار کی عیادت کا ثواب بھی دس گنا ملتا ہے۔ 

رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ کے اہم شعبے ’’بھوکوں کو کھانا کھلانا اور پیاسوں کو سیراب کرنے کے بے شمار فضائل بیان فرمائے ہیں۔محسنِ انسانیت صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے: ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بندے سے فرمائے گا، اے ابن آدم! میں بیمار ہوا، تو نے میری عیادت نہیں کی، وہ گھبرا کر عرض کرے گا، اے میرے رب! تو تو سارے جہان کا پروردگار ہے، تو کب بیمار تھا! اور میں تیری عیادت کیسے کرتا! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے، اس کے باوجود تو نے اس کی مزاج پُرسی نہیں کی، اگر تو عیادت کے لیے اس کے پاس جاتا تو مجھے وہاں پاتا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا! ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا، لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔‘‘ بندہ عرض کرے گا، اے رب العالمین! تو کب بھوکا تھا اور میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا! اللہ تعالیٰ فرمائے گا! کیا تجھے یاد نہیں، میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا،لیکن تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا،اگر تو نے اس کا سوال پورا کیا ہوتا تو آج اس کا ثواب یہاں پاتا۔اسی طرح اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا، لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پلایا، بندہ عرض کرے گا، اے دونوں جہانوں کے پروردگار! تو کب پیاسا تھا، اور میں کیسے تجھے پانی پلاتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا تھا،تو نے اس کی پیاس بجھانے سے انکار کردیا تھا۔ اگر تو نے اس کی پیاس بجھائی ہوتی تو آج اس کا اجر و ثواب یہاں پاتا۔‘‘(صحیح مسلم)

حضرت ابو سعید خدری رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس جس مسلمان نے (اپنے) مسلمان بھائی کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلایا تو قیامت کے دن اللہ عزوجل اسے جنت کے پھل کھلائے گا، جس مسلمان نے کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلایا تو اللہ اسے روز قیامت مہر بند شراب (یعنی نشے سے پاک جنت کا مشروب) پلائے گا، جس مسلمان نے کسی مسلمان کو کپڑا پہنایا برہنہ جسم ہونے کی حالت میں تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن جنتی پوشاک پہنائے گا۔ (ترمذی)

حضرت عبداللہ بن عمر رضي الله تعالى عنه کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے مسلمان بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا اور پانی سے اس کی پیاس بجھائی تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے جہنم سے سات خندقوں کے فاصلے پر رکھے گا،اور ہر دو خندقوں کے درمیان پانچ سو سال کے سفر کا فاصلہ ہے۔ (الترغیب و الترہیب)

رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم کے ان ارشادات سے بھوکوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب،اس کی عظمت و اہمیت اور اس عمل خیر پر اجر و ثواب کا پتا چلتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضي الله تعالى عنه  کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم  صلى الله عليه وآله وسلم سے عرض کیا کونسا اسلام افضل ہے؟ آپ  صلى الله عليه وآله وسلمنے فرمایا! تم (بھوکوں کو) کھانا کھلاؤ اور سلام کرو ہر اس شخص کو جسے تم پہچانتے ہو یا نہیں پہچانتے۔ (بخاری)

حضرت عبداللہ بن سلام رضي الله تعالى عنه کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلى الله عليه وآله وسلم جب مدینۂ منورہ تشریف لائے تو میں آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جوں ہی میری نگاہ آپ صلى الله عليه وآله وسلم کے چہرۂ انور پر پڑی، میں سمجھ گیا کہ یہ کسی راست گو اور سچے انسان کا چہرہ ہے، پہلی بات جو اس وقت آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمائی وہ یہ تھی!

’’لوگو! سلام کو رواج دے کر اسے پھیلاؤ (بھوکوں کو) کھانا کھلاؤ،رشتے داروں سے جُڑو، رات میں جب لوگ سو رہے ہوں، تو تم نماز پڑھو، اور سلامتی کے ساتھ بہشت میں داخل ہوجاؤ۔‘‘ (جامع ترمذی)

اسلام دین رحمت، نظام فطرت اور مذہب انسانیت ہے،اس کی تعلیمات بنی نوع آدم کی فلاح اور نجات کی حقیقی ضامن ہیں۔ قرآن کریم اور تعلیماتِ نبوی صلى الله عليه وآله وسلم میں ایثار و سخاوت، انفاق فی سبیل اللہ، خدمتِ خلق، سماجی بہبود اور رفاہ عامہ کو اعلیٰ درجے کی نیکی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اسلام میں ضرورت مندوں کی حاجت روائی کو دین کا ایک اہم شعبہ قرار دیا گیا ہے۔”انفاق فی سبیل اللہ” میں ’’بھوکوں کو کھانا کھلانا اور پیاسوں کو پانی پلانا‘‘۔ ایک عظیم کارخیر اور باعثِ اجر و ثواب عمل ہے۔ پیغمبر رحمت، رسول کریم صلى الله عليه وآله وسلم کے اسوۂ حسنہ اور آپ  صلى الله عليه وآله وسلم کی سیرتِ طیبہ کا امتیازی اور روشن پہلو مظلوموں کی داد رسی،حاجت مندوں کی حاجت روائی، خدمتِ خلق اور معاشرے کے مفلوک الحال طبقے کی مدد و اعانت ہے۔

رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم پر نازل ہونے والی آخری الہامی کتاب،صحیفۂ ہدایت، نسخۂ کیمیاء قرآن کریم فرقان حمید جو اسلامی تعلیمات کا دستور اور مثالی منشور کی حیثیت رکھتا ہے۔اس کتاب مبین میں اللہ عزوجل نے اپنے مقرب اور نیک بندوں کی صفات و علامات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ھیں :-

وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًاO

اور باوجودیکہ ان کو خود کھانے کی چاہت ہوتی ہے مگر فقیروں اور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں۔

اِنَّمَا نُطۡعِمُکُمۡ لِوَجۡہِ اللّٰہِ لَا نُرِیۡدُ مِنۡکُمۡ جَزَآءً وَّ لَا شُکُوۡرًاO

اور کہتے ہیں کہ ہم تمکو محض اللہ کی خوشنودی کیلئے کھلاتے ہیں۔ نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکرگذاری۔

اِنَّا نَخَافُ مِنۡ رَّبِّنَا یَوۡمًا عَبُوۡسًا قَمۡطَرِیۡرًاO

ہم کو اپنے پروردگار سے اس دن کا ڈر لگتا ہے جو چہروں کو بگاڑنے والا اور بڑی سختی والا ہو گا۔

انفاق فی سبیل اللہ “کے قرآن کریم اور احادیث نبوی صلى الله عليه وآله وسلم میں بے شمار فضائل بیان کیے گئے ہیں،راہِ خدا میں مال خرچ کرنا ایک ایسا عمل ہے جس کی فضیلت میں  قرآن مبارك ميں  فرمایا گیا:

مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّئَةُ حَبَّةٍ وَاللهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌo۔ (البقرة)

’’جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال (اس) دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں (اور پھر) ہر بالی میں سو دانے ہوں (یعنی سات سو گنا اجر پاتے ہیں) اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے (اس سے بھی) اضافہ فرما دیتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہےo‘‘

رمضان المبارک‘‘ عبادت و ریاضت، ایثار و ہمدردی، غمگساری، رب کی رضا کی تلاش اور اس کے قرب کا مہینہ ہے۔اس میں بندۂ مومن کے ہر نیک عمل اور ہر نیکی کا اجر بڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ اہل ایمان کے انعام و اکرام کا مہینہ ہے۔ اس ماہِ مبارک میں آدمی کے ہر عمل کا اجر دس سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضي الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ جب رمضان کا مہینہ آتا تو رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم قیدی کو رہا فرما دیتے اور ہر سائل کی داد رسی فرماتے تھے۔‘‘ (مشکٰوۃ)

حديث شريف ميں هے كه شعبان المعظّم کی آخری تاریخ کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خطبہ دیا۔اس میں آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے  ارشاد فرمایا:’’لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے،جو شخص اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (یعنی سُنّت،یا نفل) ادا کرے گا،تو اسے دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر اس کا اجر ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستّر فرضوں کے برابر ملے گا۔یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنّت ہے،یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے،اور یہی وہ مہینہ ہے، جس میں مومن بندوں کے رزق میں فراخی اور اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزے دار کو (اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے) افطار کرایا،تو یہ اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتشِ دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا،اسے اس روزے دار کے برابر ثواب دیا جائے گا، بغیر اس کے کہ روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔

حضرت زید بن خالد رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی روزے دار کو افطار کروائے یاکسی مجاہد کا سامان سفر تیار کروائے تو اسے بھی اس کے مثل اجر ملے گا۔(بیہقی/ شعب الایمان)

حضرت زید بن خالد جہنی رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص کسی روزے دار کو افطار کرائے تو روزے دار کے ثواب میں سے کچھ کمی کیے بغیر افطار کرانے والے کو اتنا ہی اجر وثواب ملے گا،جتنا روزے دار کو ملے گا۔(ترمذی،ابن ماجہ)

الله تعالى هميں إخلاص كے ساتهـ  إس كا إهتمام كرنے كي توفيق عنايت فرمائے اور همارے تمام أعمال كو شرف قبوليت بخشے -  آمين يا رب العلمين

Share: