ان والدین کے لئے جو بچوں کا کارٹون دیکھنا برائی نہیں سمجھتے*


کارٹون ۔۔۔کارٹون ۔۔۔کارٹون


پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ ’’ فرح خالد ‘‘


اپنے نوٹس لینے دوسرے کمرے میں جاتی ہے ۔


دروازہ کھولتی اور دھک سے رہ جاتی ہے ،


قدم وہیں گڑ جاتے ہیں ، آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں ۔


ننھی بچی ’’ فاطمہ ایوب ‘‘


ہیٹر کے آگے خشوع خضوع سے بیٹھی ہے ۔


دونوں ہاتھوں سے رام رام کر رہی ہے ۔


جی ہاں وہ آگ کی پوجا کر رہی ہے ۔


فاطمہ !!!


فرح کی آواز گہرے کنوے سے برآمد ہوتی ہے ۔


یہ فرح کی اوپر کی منزل میں رہنے والے مالک مکان کی بیٹی ہے ۔


وہ ہولے سے پیچھے دیکھتی ہے ۔


یہ کیا کر رہی ہو ؟


آپی !


وہ بھی تو ایسا ہی کرتا ہے نا


ہاں وہ فلاں کارٹونز میں فلاں بھی تو ایسا ہی کرتا ہے نا !


اور اس کا دل چاھتا ہے لوگوں کو چیخ چیخ کر کہہ دے ، کہ یا بچوں کو مسلمان بنا لیں ، یا بچوں کو کارٹونز دکھا لیں ۔


۔۔۔۔۔۔۔


ہمارے یہاں بہت نامی گرامی تعلیمی ادارے ھیں 


دین دار لوگ بھی ان کو پریفر کرتے ہیں کہ ان کا ماحول نسبتا بہتر ہے ۔


یہاں کا واقعہ ہے ۔


ایک ننھی بچی رات کو سونے سے قبل ’’کارٹون ‘‘ ہیرو کو ’’خدا ئی مقام ‘‘ دے رہی ہے اور اپنے ’’بابا ‘‘ سے اس کی شان بیان کررہی ہے ۔


انتہائی ملحدانہ نظریہ !الحاد کی کی بدبو میں لپٹا جملہ اس معصوم بچی کی زبان سے وارد ہوتا ہے ۔ اور بابا کے تن بدن میں آگ لگا دیتا ہے ۔


بابا دینی مزاج کے حامل ہیں ۔۔


ان کی رات کروٹیں بدلتے گزرتی ہے ۔


اگلے دن


فورا اس تعلیمی ادارے کا رخ کرتے ہیں ۔


وہاں جا کر معلوم ہوتا ہے یہاں باقاعدہ ’’ کارٹون کلاس ‘‘ ہوتی ہے ۔


اسی کا اثر ہے کہ بچی


اپنے بنانے والے کریم رب کو نہیں جانتی ،


اپنے کارٹونی ہیرو کو خدامانتی ہے جو سب کچھ کر لیتا ہے ، جو ہر چیز پر قدرت رکھتا دکھائی دیتا ہے ۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


میں نے چند دن قبل کلاس میں اس حوالے سے بات کی ،


ایک خاتوں کہنے لگیں ، کہ کبھی ذہن میں ہی نہ آیا تھا


کہ بچوں کو اس سے بھی روکنا چاھئے ۔


یہ بھی کوئی روکنے ٹوکنے والی بات ہے !


کیا ہر کارٹون میں میوزک نہیں ہوتا ؟


کیا وہ ننھے معصوموں کے شفاف دلوں میں ’’نفاق‘‘ نہیں بھرتے ؟


کہ رسول اللہ نے فرمایا


کہ غنا(گانا وغیرہ )


نفاق اگاتا ہے ۔


کیا کارٹونز میں بے حیائی و عدم لباسی کا ایک سیلاب نہیں ہوتا ؟


کیا وہ ایسے حیا باختہ مناظر نہیں ہوتے جو ایک شریف انسان کی بساط سے باہر ہوتے ہیں۔


کیا یہ بچوں کو بے حیائی کا عادی ، نہیں بنا رہے ؟


کہ اکثر بچے کہتے ہیں


کارٹونز تو گندے نہیں ہوتے !


دھیاں دلایا جائے تو کہتے ہیں


ہاں ہاں ۔ لیکن فلاں گندے نہیں !


اور وہ ’’فلاں‘‘ بھی بہت خراب ہوتے ہیں ۔


کیا کارٹونز میں بدتمیزی ، ماؤں سے چیخ و پکار کی ادائیں نہیں سکھائی جاتیں ؟


کیا بچے اونچی بولنا، دھاڑ دھاڑ کربولنا ایک فیشن نہیں سمجھتے ؟ کہ ان کے ہیرو بھی ایسے ہی ہوتے ہیں !


کیا یہ کارٹونز بچوں سے ان کے اصل ہیرو نہیں چھین لیتے ؟


وہ بچوں کے نبی کریمﷺ ، وہ ننھے صحابہ وہ ننھے کمانڈوز !


امت محمد ی کے یہ ہیرو ہیں


اور کارٹونز


کبھی ڈورے مون کو ہیرو بنائے گیں کبھی شن چین کو !


کیا ڈورے مون جادو کا سبق نہیں دیتے ؟


کیا جادو کفر نہیں ہے ؟


کیا کارٹونز ’’ہیرو‘‘


کو خدا بنانے پر تلے نظر نہیں آتے ؟


کیا کارٹونز غیر حقیقت پسندانہ رویہ نہیں سکھاتے ؟


کیا شن چین یہ نہیں سکھلاتا کہ ماں سے بدتمیزی کرو ، ناراض رہو ، اس بات پر کہ وہ تمہیں ’’ڈھیروں ڈھیر ‘‘ اور ’’من چاہی ‘‘ شاپنگ نہیں کرواتی یا کرواسکتی ؟


اسلام کی پاکباز بیٹیوں کو کارٹونز یہ نہیں سکھلاتے ،


کہ شن چین کی ماں کی مانند ہو تو ایسی نہ رہو ۔


اس کی ہمسائی جو بے حیائی کا مرقع ہے ، اس کی تلقین پر شن چین کی ماں کی مانند ہمسائی کی مان لو ۔


ویسے ہی حیا کے جنازے نکالو !


اور کوئی برائی کی تلقین کرے تو فورا مان جاؤ ؟


کیا کارٹونز ڈانس نہیں سکھاتے ؟


کیا کارٹونز بچوں کی معصومیت سلب نہیں کر لیتے ، کہ وہ اپنی ماں ، خالہ ،پھپھو کی جانب اشارہ کرکے ہنستے ہیں ،


اور ان کی توجہ ان چیزوں پر ہوتی ہے جن کو کارٹون اجاگر کرتے ہیں !


اور پھر جب


جب سر سے پانی گذر جاتا ہے ، تب ہم کہتے ہیں ۔


ہائے آج کل کے بچے توبہ !


ہائے یہ اتنا بدتمیز کیوں ہو گیا ہے ؟


اس نے تو جینا دوبھر کر دیا ہے ۔


ہائے ایسے کالے کرتوت !


ہائے ہم نے تو ایسا سوچا تک نہ تھا ؟


ہائے اس نے ماں باپ کی عزت کا بھی بھرم نہ رکھا ۔


پھر قفط


’’ہائے ہائے ‘‘ ہی رہ جاتی ہے ، آہیں ہی دلوں کے پردے تار تار کرتی ہیں۔


مگر مگر مگر!


تب پانی سر سے گذر چکا ہوتا ہے* کے لئے جو بچوں کا کارٹون دیکھنا برائی نہیں سمجھتے*


کارٹون ۔۔۔کارٹون ۔۔۔کارٹون


پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ ’’ فرح خالد ‘‘


اپنے نوٹس لینے دوسرے کمرے میں جاتی ہے ۔


دروازہ کھولتی اور دھک سے رہ جاتی ہے ،


قدم وہیں گڑ جاتے ہیں ، آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں ۔


ننھی بچی ’’ فاطمہ ایوب ‘‘


ہیٹر کے آگے خشوع خضوع سے بیٹھی ہے ۔


دونوں ہاتھوں سے رام رام کر رہی ہے ۔


جی ہاں وہ آگ کی پوجا کر رہی ہے ۔


فاطمہ !!!


فرح کی آواز گہرے کنوے سے برآمد ہوتی ہے ۔


یہ فرح کی اوپر کی منزل میں رہنے والے مالک مکان کی بیٹی ہے ۔


وہ ہولے سے پیچھے دیکھتی ہے ۔


یہ کیا کر رہی ہو ؟


آپی !


وہ بھی تو ایسا ہی کرتا ہے نا


ہاں وہ فلاں کارٹونز میں فلاں بھی تو ایسا ہی کرتا ہے نا !


اور اس کا دل چاھتا ہے لوگوں کو چیخ چیخ کر کہہ دے ، کہ یا بچوں کو مسلمان بنا لیں ، یا بچوں کو کارٹونز دکھا لیں ۔


۔۔۔۔۔۔۔


ہمارے یہاں بہت نامی گرامی تعلیمی ادارے ھیں 


دین دار لوگ بھی ان کو پریفر کرتے ہیں کہ ان کا ماحول نسبتا بہتر ہے ۔


یہاں کا واقعہ ہے ۔


ایک ننھی بچی رات کو سونے سے قبل ’’کارٹون ‘‘ ہیرو کو ’’خدا ئی مقام ‘‘ دے رہی ہے اور اپنے ’’بابا ‘‘ سے اس کی شان بیان کررہی ہے ۔


انتہائی ملحدانہ نظریہ !الحاد کی کی بدبو میں لپٹا جملہ اس معصوم بچی کی زبان سے وارد ہوتا ہے ۔ اور بابا کے تن بدن میں آگ لگا دیتا ہے ۔


بابا دینی مزاج کے حامل ہیں ۔۔


ان کی رات کروٹیں بدلتے گزرتی ہے ۔


اگلے دن


فورا اس تعلیمی ادارے کا رخ کرتے ہیں ۔


وہاں جا کر معلوم ہوتا ہے یہاں باقاعدہ ’’ کارٹون کلاس ‘‘ ہوتی ہے ۔


اسی کا اثر ہے کہ بچی


اپنے بنانے والے کریم رب کو نہیں جانتی ،


اپنے کارٹونی ہیرو کو خدامانتی ہے جو سب کچھ کر لیتا ہے ، جو ہر چیز پر قدرت رکھتا دکھائی دیتا ہے ۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


میں نے چند دن قبل کلاس میں اس حوالے سے بات کی ،


ایک خاتوں کہنے لگیں ، کہ کبھی ذہن میں ہی نہ آیا تھا


کہ بچوں کو اس سے بھی روکنا چاھئے ۔


یہ بھی کوئی روکنے ٹوکنے والی بات ہے !


کیا ہر کارٹون میں میوزک نہیں ہوتا ؟


کیا وہ ننھے معصوموں کے شفاف دلوں میں ’’نفاق‘‘ نہیں بھرتے ؟


کہ رسول اللہ نے فرمایا


کہ غنا(گانا وغیرہ )


نفاق اگاتا ہے ۔


کیا کارٹونز میں بے حیائی و عدم لباسی کا ایک سیلاب نہیں ہوتا ؟


کیا وہ ایسے حیا باختہ مناظر نہیں ہوتے جو ایک شریف انسان کی بساط سے باہر ہوتے ہیں۔


کیا یہ بچوں کو بے حیائی کا عادی ، نہیں بنا رہے ؟


کہ اکثر بچے کہتے ہیں


کارٹونز تو گندے نہیں ہوتے !


دھیاں دلایا جائے تو کہتے ہیں


ہاں ہاں ۔ لیکن فلاں گندے نہیں !


اور وہ ’’فلاں‘‘ بھی بہت خراب ہوتے ہیں ۔


کیا کارٹونز میں بدتمیزی ، ماؤں سے چیخ و پکار کی ادائیں نہیں سکھائی جاتیں ؟


کیا بچے اونچی بولنا، دھاڑ دھاڑ کربولنا ایک فیشن نہیں سمجھتے ؟ کہ ان کے ہیرو بھی ایسے ہی ہوتے ہیں !


کیا یہ کارٹونز بچوں سے ان کے اصل ہیرو نہیں چھین لیتے ؟


وہ بچوں کے نبی کریمﷺ ، وہ ننھے صحابہ وہ ننھے کمانڈوز !


امت محمد ی کے یہ ہیرو ہیں


اور کارٹونز


کبھی ڈورے مون کو ہیرو بنائے گیں کبھی شن چین کو !


کیا ڈورے مون جادو کا سبق نہیں دیتے ؟


کیا جادو کفر نہیں ہے ؟


کیا کارٹونز ’’ہیرو‘‘


کو خدا بنانے پر تلے نظر نہیں آتے ؟


کیا کارٹونز غیر حقیقت پسندانہ رویہ نہیں سکھاتے ؟


کیا شن چین یہ نہیں سکھلاتا کہ ماں سے بدتمیزی کرو ، ناراض رہو ، اس بات پر کہ وہ تمہیں ’’ڈھیروں ڈھیر ‘‘ اور ’’من چاہی ‘‘ شاپنگ نہیں کرواتی یا کرواسکتی ؟


اسلام کی پاکباز بیٹیوں کو کارٹونز یہ نہیں سکھلاتے ،


کہ شن چین کی ماں کی مانند ہو تو ایسی نہ رہو ۔


اس کی ہمسائی جو بے حیائی کا مرقع ہے ، اس کی تلقین پر شن چین کی ماں کی مانند ہمسائی کی مان لو ۔


ویسے ہی حیا کے جنازے نکالو !


اور کوئی برائی کی تلقین کرے تو فورا مان جاؤ ؟


کیا کارٹونز ڈانس نہیں سکھاتے ؟


کیا کارٹونز بچوں کی معصومیت سلب نہیں کر لیتے ، کہ وہ اپنی ماں ، خالہ ،پھپھو کی جانب اشارہ کرکے ہنستے ہیں ،


اور ان کی توجہ ان چیزوں پر ہوتی ہے جن کو کارٹون اجاگر کرتے ہیں !


اور پھر جب


جب سر سے پانی گذر جاتا ہے ، تب ہم کہتے ہیں ۔


ہائے آج کل کے بچے توبہ !


ہائے یہ اتنا بدتمیز کیوں ہو گیا ہے ؟


اس نے تو جینا دوبھر کر دیا ہے ۔


ہائے ایسے کالے کرتوت !


ہائے ہم نے تو ایسا سوچا تک نہ تھا ؟


ہائے اس نے ماں باپ کی عزت کا بھی بھرم نہ رکھا ۔


پھر قفط


’’ہائے ہائے ‘‘ ہی رہ جاتی ہے ، آہیں ہی دلوں کے پردے تار تار کرتی ہیں۔


مگر مگر مگر!


تب پانی سر سے گذر چکا ہوتا ہے*

Share: