لقمۂ حلال کی اھمیت اور اس کی برکتیں

دین کی تبلیغ کرنا ھر طرح سے ایک آحسن کام ھے  لیکن لسانی تبلیغ  کے ساتھ ساتھ عملی تبلیغ بعض اوقات بہت ھی مؤثر ثابت ھوتی ھے اور اس کے نتائج بھی  بہت آچھے نکلتے ھیں ۔ زیرِ نظر واقعہ لقمۂ حلال کی برکات کے ساتھ ساتھ اسی عملی تبلیغ کے متعلق بھی ھے ۔ 

پاکستان بننے سے پہلے اچھرہ، لاہور کے قریب ایک اسلامی قصبہ تھا ۔ اُس زمانہ میں اس قصبہ میں یہ حیران کن واقعہ پیش آیا ۔ جس زمانے کا یہ واقعہ ہے اس وقت اچھرہ کی آبادی لاہور سے بالکل الگ تھلگ تھی اور درمیان  میں لمبے فاصلے تک کھیت ھی کھیت تھے  ۔ ایک مرتبہ اس قصبہ کی جامع مسجد میں نماز مغرب ادا کی جا رھی تھی  کہ ایک نہایت ہی دبلا پتلا مسافر آیا اور شامل ِنماز ہوگیا، اگرچہ یہ مسافر محض ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا ،تاہم اس کی صورت بااثر تھی ،نماز ادا ھو گئی اورنمازی اپنے اپنے گھروں کو  چلے گئے اور یہ مسافر اکیلا ھی مسجد میں رہ گیا ۔ تھوڑی دیر کے  بعد ایک مقامی مسلمان کھانا لے کر داخل ِ مسجد ہوا اور اس نووارد مسافر سے کہا "آپ بھوکے ہوں گے ،میں کھانالایا ہوں ، براہ ِ کرم  آپ کھانا تناول فرمالیں ،آپ کی بڑی عنایت ہوگی"۔ مسافر نے جواب دیا: " معاف فرمائیے ، درآصل مجھے کچھ پرہیز ہے"۔ "حضرت آپ کچھ فکر نہ کیجئے ،یہ سادہ سی روٹی ہے،مرچ کم ہے اورگھی بھی بازاری نہیں ہے"۔مقامی مسلمان نے جواب دیا "بھائی میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے"۔مسافر نے کہا "پھر کیا مطلب ہے"۔مقامی مسلمان نے پوچھا؟ مسافرچپ ہوگیا اورمقامی مسلمان اس کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا،چند منٹ بعد مسافر نے  زبان کھولی اورکہا:"امید ہے آپ مجھے معاف فرمائیں گے ،مجھے آپ سے کچھ بھی کہنے سننے کی ضرورت نہ تھی ، لیکن آپ کھانا لے کر آگئے تو مجبوراً مجھے عرض کرنا ضروری ہوگیا ہے،آپ جانتے ہیں کہ شریعتِ اسلام میں طعامِ حلال ، نمازِ پنجگانہ ہی کی طرح فرض ہے، ایک روایت میں ہے کہ اگر کسی مسلمان کا لقمۂ  حلال نہ ہو تو  اللہ کی بارگاہ میں اس کے نہ فرض قبول ہوتے ہیں اورنہ ھی  نفل ؛چونکہ اس انگریزی راج میں حلال وحرام کی تمیز اٹھ چکی ہے ،اس واسطے میں جب تک پوری طرح جان پہچان نہیں کرلیتا ،میں کسی بھائی کو بھی کبھی کھانے کی تکلیف نہیں دیتا"۔ "حضرت! آپ نے یہ کیا فرمایا ’’،مقامی مسلمان نے کہنا شروع کیا:"معاذاللہ! میں حرام خور نہیں ہوں ،یہ چوری کامال نہیں ہے جو آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا، میں یہاں منڈی میں آڑھتی ہوں اوربیوپار کرکے اپنی روزی کماتاہوں ،آپ اس کا وھم نہ کیجئے"۔"تو پھر کیا آپ کی تجارت کے کسی مرحلہ میں سود کالینا دینا نہیں ہوتا  ؟"مسافر نے پوچھا۔ "میں یہ تو نہیں کہہ سکتا، کئی مواقع پر ہم کومنڈی سے قرض لینا پڑتاہےاورمقررہ شرح پر سود بھی دینا پڑتا ہے،اسی طرح تجارتی مال کے کین دین  میں ھم دوسرے سے بھی سود وصول  کرلیتے ہیں "۔مقامی مسلمان نے جواب دیا۔ "تو بہت اچھا ، میں معافی چاہتا ہوں کہ آپ کو تکلیف ہوئی ،احکام ِ قرآن کے مطابق وہ تجارتی منافع جس میں سود کی آمیزش ہوحلال نہیں کہلاسکتا۔ممکن ہے آپ تجارتی رسوم یا حکومتی اصرار کے ماتحت مجبور ہوں ،لیکن میں مجبور نہیں ہوں ، بیشک آپ کو تکلیف ہوئی اورآپ کی دل شکنی بھی ہوئی ہوگی مگر آپ کے اسلامی اخلاق سے امید کرتاہوں آپ اس کے لئے مجھے معاف فرمادیں گے"۔ اس کے بعد مسافر نے مقامی مسلمان سے رخ پھیر لیا اورقبلے کی طرف منہ کرلیا،اور یادِ خدامیں مشغول ہوگیا ۔ مقامی مسلمان اس آخری جواب سے سخت مضطرب اورپریشان ہوا،اس نے نہایت ندامت سے برتن اٹھائے اور سر جھکا کر واپس چلا آیا ۔ 

برتن گھر پہنچا کر ھمسایہ  کے ہاں پہنچا اوراس سے کہاکہ مسجد میں ایک بزرگ مسافر آئے ھوئے ہیں ،آپ اپنے ہاں سے کھانا لے کر جائیں اور اُنہیں کھانا کھلا آئیں  ، یہ ہمسایہ مقامی ہسپتال میں ڈاکٹر تھا، ڈاکٹر صاحب نے کھانا اٹھایا اورمسجد میں جاپہنچے ، مسافرنے نہایت نرمی اورخوش خوئی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب سے تعارف اورجان پہچان کی فرمائش کی،ڈاکٹر صاحب ذرا باتونی  بزرگ تھے ، انہوں نے کہانی سنانا شروع کی اورفرمایا: "حضرت !مجھ پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے۔میری ایک سوروپیہ تنخواہ ہے،دوچار روپئے ہرروز اوپر سے بھی آجاتے ہیں ،بڑا لڑکا کچہری میں ملازم ہے،وہ 75روپے تنخواہ پاتا ہے،اوردو چار روپے  روزانہ وہ بھی لے آتا ہے، زمین بھی ہے،جہاں سے سال کاغلہ آجاتا ہے وغیر ہ وغیرہ"۔ ڈاکٹر صاحب کی کہانی ختم ہوئی تو مسافر نے انہیں نہایت ہی محبت اورشیرینی سے سمجھایا کہ اسلام ِ مقدس کی رو سے  رشوت ستانی کس قدر بڑا جرم ہےاور آخر میں اپنی معذوری ظاہر کرکے کھانا کھانے سے انکار کردیا۔مسافر کی گفتگو اس قدر سنجیدہ اورباوقارتھی کہ ڈاکٹر صاحب نے بھی ان کے سامنے اپنی گردن خم کردی اوربڑی ندامت کے ساتھ کھانا اُٹھا کر گھر  واپس چل دئے ،یہاں تاجر صاحب پہلے ہی ان کے منتظر تھے، یہ دونوں نہایت ہی درد وندامت کے ساتھ ایک دوسرے کو اپنی کہانی سنارہے تھے کہ دوچار اور نیک دل مسلمان وہاں جمع ہوگئے ،انھوں نے بھی یہ دونوں کہانیاں سنیں اورآناً فاناً یہ بات محلے میں عام ہو گئی۔ ڈاکٹر صاحب اورتاجر صاحب نے مل کرعرض کیا کہ اب کسی زمیندار کے ہاں سے کھانا بھجوانا چاہئے۔تاکہ اس پر سود یا رشوت کا  کوئی الزام نہ آسکے ۔ 

چنانچہ اسی وقت ایک زمیندار کے ہاں سے کھانا بھجوایا گیا۔ مسافر نے زمیندار سے پوچھا :"آپ کے پاس کوئی گروی زمین تو نہیں  ہے؟’’جب زمیندار صاحب نے اس کا اقرار کیا تو مسافر نے ان کا کھانا کھانے سے بھی انکار کر دیا اورکہاکہ جو شخص مسلمان ہو کر زمین گروی رکھتا ہے اس کی کمائی حرام سے خالی نہیں ہوسکتی۔ 

 اس کے بعد ایک عالم صاحب کو کھانا دے کر مسافر کے پاس بھیجا گیا، عالم صاحب کی مسافر سے بات ھوئی تو مسافر نے پوچھا کہ کیا انھوں نے اور اُن کے والد نے اپنی بہنوں اورلڑکیوں کو حکم ِ شریعت کے مطابق جائیداد میں  حصہ  دیاتھا؟ مسافر کی بات کا جواب عالم کے پاس نہیں تھا اس واسطے مسافر نے ان کا کھانا بھی رَد کر دیا  اور فرمایا کہ آپ بہنوں اورلڑکیو ں کے حصۂ شرعی کے غاصب ہیں اورآپ کے ہرلقمے میں آدھے سے کم حرام شامل نہیں ہے ۔ 

نمازِ مغرب سے یہ سلسلہ شروع ہوااور رات کے ۹ بج گئے ،متعدد مسلمان کھانا لے کرگئے مگر مسجد سے شرمندگی اور ندامت کے ساتھ واپس آئے۔ مسافرکُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّباًکی کسوٹی لئے مسجد میں بیٹھا تھا اورہر ایک مسلمان کو جو کھانا  لے کر جاتا تھا ،اسی قرآنی کسوٹی پر پرکھتا تھا اور شرمندہ کرکے  واپس بیجھ  دیتا تھا۔

تمام آبادی میں شوربرپا ہوگیا، جابجا اس مسافر کا ھی  چرچا تھا۔ مسلمانوں کو بھوک اور نیند بھول گئی، گھروں میں ، بازاروں میں ،گلی کوچوں میں جہاں بھی چار آدمی بیٹھے تھے، یہی گفتگو اور ذکر تھا، جب کسی جگہ ایک مسلمان دوسرے کو کہتا تھا کہ:"تم کھانا لے جاؤ  تاکہ مسافر بھوکا نہ رھے تو وہ اسی وقت  کانوں پر ہاتھ رکھ دیتا تھا، کوئی کہتا تھا کہ میں راشی ہوں ، کوئی کہتا تھا کہ میں سود خوار ہوں ،کوئی کہتا تھا کہ میں کم تولتا ہوں ،کوئی کہتا تھا کہ میں نے لڑکیوں کو حصہ نہیں دیا۔کوئی کہتا تھا کہ میرے لڑکوں کی آمدنی میں حرام شامل ہے، مختصر یہ کہ دلوں کے عیوب آج زبانوں پر آگئے تھے اوران کابرملا اِعلان  بھی ہورہاتھا،اگرچہ اچھرہ میں ہزارہا  مسلمان آباد تھے ،مگر ایک شخص بھی اکللِ حلال کا مدعی بن کرسامنے نہیں آ پا رھا تھا ۔ ،بزرگان ِ قصبہ کی گردنیں خم تھیں ، بااحساس مسلمان زمین میں غرق ہوئے جاتے تھے کہ آج ہزارہا مسلمانوں میں ایک شخص بھی نہیں ملتا جو ایک ایسے مہمان کو جو آکلِ حلال کا طالب تھا۔ایک ہی وقت کا کھانا کھلا سکے  ،رات کے دس بج گئے ،مگر کسی گھر سے کھانا نہ گیا،اب سوال یہ درپیش تھاکہ کیا یہ مسافر اچھرہ سے بھوکا ھی چلا جائے گا؟ کیا رسول ﷺکے امتی حرام کھانے پر ھمیشہ اسی طرح مصر ر ہیں گے ؟ جوں جوں وقت گزرتا جاتا تھا  دلوں کا اضطراب بڑھتاجاتاتھا ،یہاں تک کہ رات کے گیارہ بج گئے’’۔ آخر مجمع کے اندر امید کی کرن جلوہ گرہوئی،ایک شخص نے کہا:میں ابھی لڑکیوں کاحصہ ادا کر دیتا ہوں اوراس نے دے دیا،دوسرے نے کہا:میں گروی زمین چھوڑتاہوں اوراس نے چھوڑدی۔تیسرے شخص نے کہا: میں آج کے بعد کبھی سود نہ لوں گااوراس نے سود کا جاروبار ختم  کردیا،مختصر یہ کہ آن کی آن میں اچھرہ کے بیشمار مسلمانوں پر توبہ واستغفارکے دروازے کھل گئے،کسی نے رشوت چھوڑدی ،کسی نے جھوٹی گواہی کا پیشہ چھوڑدیا، کسی نے راگ رنگ سے توبہ کرلی،کسی نے یتیموں کا غصب شدہ مال واپس کردیا،اس کے بعد تائبین کی جماعت کھانا لے کر مسافر کے پاس آئی اور اُسے بتایا گیاکہ اچھرہ کے بیشمار مسلمان اب اللہ کی بارگاہ میں جھک گئے ہیں۔انھوں نے اپنی غلطیوں کو محسوس کرلیا ہے اور اب عملی اصلاح وتوبہ کے بعد آپ کے پاس آئے ہیں اوریہ کھانا پیش کرتے ہیں ۔ مسافر نے جب یہ واردات سنی تو سجدے میں گر گیا، اس کے بعد دستر خوان بچھایا گیاجس میں سے مسافر نے چند لقمے کھائے اور اس کے بعد لوگوں کورخصت کردیا۔ صبح کے وقت اچھرہ کے بیشمار مسلمان جوق درجوق مسجد میں آئے تاکہ اللہ کے اس بندے  کی زیارت کریں جس کے زہد ِبے ریاء نے اپنے صرف ایک ہی عمل سے اچھرہ کے آدھے مسلمانوں کو صحیح معنوں میں سچامسلمان بنادیا تھا ۔ مگر وہ حیرت زدہ رہ گئے جب انہیں بتایا گیا  کہ مسافر تہجد کے بعد مسجد سے نکلاتھااور واپس نہیں آیا۔ ..... 

یہ ایک واقعہ ہے جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ اہل اللہ کس طرح خلق ِ خدا کی اصلاح کیاکرتے ہیں ؟ مسافر نے کوئی وعظ نہیں کیا ،کوئی چلہ نہیں کیا ،کوئی کتاب نہیں چھاپی ،کوئی درس وتدریس کا نصاب نہیں بنایا، وہ مغرب سے تہجد تک صرف چند گھنٹے اچھرہ کی جامع مسجد میں ٹھہرا ،مگر جب وہاں سے نکلا تو سینکڑوں مسلمانوں کی اصلاح ہوچکی تھی

Share: