خلیفۂ ثانی ،امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ

 حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی پیدائش مکۃ المکرمہ میں واقعہ فیل سے تیرہ سال بعد ہوئی۔ آپؓ صحابی رسول اور مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد ہیں۔ آپؓ کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے۔ حضرت عمرؓ رسول اللہ ؐ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خسربھی ہیں ۔آپؓ کی صاحبزادی ام المومنین حضرت سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہما رسول اللہؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج میں سے ایک ہیں۔آپؓ کا لقب فاروق، کنیت ابو حفص ہے۔ لقب و کنیت دونوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ ہیں۔ آپ کا نسب نویں پشت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐسے جا ملتا ہے۔۔

حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا شمار مکہ کے ان لوگوں میں ہوتا تھا جو پڑھ لکھ سکتے تھے۔ جب حضور ؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے اسلام کی تبلیغ شروع کی تو حضرت عمرؓ اسکے مخالف تھے۔ آپ ؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا سے آپ نے نبوت کے چھٹے سال ستائیس برس کی عمر میں چالیس مردوں اور گیارہ عورتوں کے بعد مشرف بااسلام ہوئے۔ اسی لئے آپکو مراد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہا جاتا ھے 


مکہ کے جبر وستم بہت بڑھ چکے تھے ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سرِعام تبلیغ تو درکنار‘ عبادت بھی نہیں کرسکتے تھے، چھپ کر دین اسلام کی تبلیغ وعبادت کی جاتی تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد اس وقت اُنتالیس تھی۔ ایک رات بیت اللہ کے سامنے عبادت کرتے ہوئے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردِگار سے عجیب دعا کی، مانگی بھی تو عجب شئے مانگی۔ کسی کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ دعا میں یہ بھی مانگا جاتا ہے، اسلام کی بڑھوتری کی دعا کی جاتی، اہلِ مکہ کے ایمان لانے کی دعا کی جاتی، دنیائے عالم میں اسلام کی اشاعت کی دعا کی جاتی یا اہل مکہ کے ظلم وستم کی بندش کے لیے ہاتھ اُٹھائے جاتے، لیکن میرے عظیم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ: ’’اے اللہ! عمر وابن ہشام اور عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا ۔‘‘ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں دو لوگوں کو نامزد کیا اور فیصلہ خدائے علام الغیوب پر چھوڑ دیا کہ اللہ ! ان دونوں میں سے جو تجھے پسند ہو وہ دے دے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاکو شرفِ قبولیت سے نوازا اور اسباب کی دنیا میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا سبب یہ بنا کہ ایک روز تیغِ برہنہ لیے جارہے تھے، راستہ میں بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ملا، جس نے پوچھا کہ عمر! خیریت! کہاں کا ارادہ ہے؟ کہنے لگے: محمد کو قتل کرنے جارہاہوں ،اس نے نئے دین کااعلان کرکے مکہ والوں میں تفریق کردی ہے، کیوں نہ اس قصہ کو ہی ختم کردوں۔ بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والے شخص نے کہا کہ: عمر! اگر تم نے ایسا کیا تو کیا ’’بنو ہاشم وبنو زہرہ ‘‘تم سے انتقام نہیں لیں گے؟ کہنے لگے: لگتا ہے کہ تم بھی اس نئے دین میں شامل ہوچکے ہو ،انہوںنے کہا کہ پھر پہلے اپنے گھر کی خبر تو لو، تمہاری بہن وبہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں ۔

جلال میں نکلنے والا عمر سیدھا بہن کے گھر پہنچتا ہے، یہاں سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ ان کے بہنوئی وبہن کو سورۂ طہٰ پڑھا رہے تھے، باہر سے آواز سنی اور دروازہ پر دستک دی، اندر سے پوچھاگیا کون؟ عمر! نام سنتے ہی سیدنا خباب ؓ چھپ گئے، عمر نے آتے ہی پوچھا: تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے بات ٹالتے ہوئے کہا کہ: ہم آپس میں باتیں کررہے تھے، کہنے لگے: میں نے سنا ہے تم نئے دین میں شامل ہوگئے ہو؟ بہنوئی نے کہا کہ: عمر! وہ دین تیرے دین سے بہتر ہے، تو جس دین پر ہے یہ گمراہ راستہ ہے، بس سننا تھا کہ بہنوئی کو دے مارا زمین پر، بہن چھڑانے آئی تواتنی زور سے اس کے چہرے پر طمانچہ رسید کیا کہ ان کے چہرے سے خون نکل آیا، بہن کے چہرے پہ خون دیکھ کر غصہ ٹھنڈا ہوا اور بہنوئی کو چھوڑ کر الگ ہو بیٹھے اور کہنے لگے کہ: اچھا! لائو، دکھائو، تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ بہن نے کہا کہ: تم ابھی اس کلام کے آداب سے ناواقف ہو، اس کلامِ مقدس کے آداب ہیں، پہلے تم وضو کرو، پھر دکھائوں گی، انہوںنے وضو کیا اور سورۂ طہٰ پڑھنی شروع کی، یہ پڑھتے جارہے تھے اور کلامِ الٰہی کی تاثیر قلب کو متاثر کیے جارہے تھی۔ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ یہ منظر دیکھ کر باہر نکل آئے اور کہنے لگے: عمرؓ! کل رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہِ خداوندی میں دعا کی تھی کہ: ’’اللّٰھمّ أعزّ الإسلام بأحد الرجلین إمّا ابن ھشام وإمّا عمر بن الخطاب‘‘ اور ایک دوسری روایت میں الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں کہ: ’’اللّٰھم أید الإسلام بأبي الحکم بن ھشام وبعمر بن الخطاب۔‘‘ اے اللہ ! عمر وبن ہشام یا عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا، یا ان میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کی تائید فرما۔‘‘ اے عمر! میرے دل نے گواہی دی تھی کہ یہ دعا ئے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن خطاب کے حق میں پوری ہوگی۔ اسی طرح کی ایک روایت سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: ’’کان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا رأی عمر بن الخطاب أو أبا جھل بن ھشام قال: اللّٰھم اشدد دینک بأحبّہما إلیک‘‘ یعنی جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن خطاب یا ابوجہل کو دیکھتے تو رب العزت کے حضور دستِ دعا دراز کرتے ہوئے فرماتے: اے اللہ! ان دونوں میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، اس سے اپنے دین کو قوت عطا فرما۔ (طبقات ابن سعد)

سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ: اچھا! تو مجھے بتائو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں، انہوں نے بتایا کہ: صفاپہاڑی پر واقع ارقم رضی اللہ عنہ کے مکان میں قیام پذیر ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ چل پڑے، دَرّے پر مقیم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب دیکھا کہ عمر آرہا ہے اور ہاتھ میں ننگی تلوار ہے، تو گھبرائے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا، وہیں اسداللہ ورسولہ سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بھی تھے، وہ فرمانے لگے: آنے دو، اگر ارادہ نیک ہے تو خیر ہے اور اگر ارادہ صحیح نہیں تو میں اس کی تلوار سے اس کاکام تما م کردوں گا۔

جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ وحی جاری تھا، چند لمحوں بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر ؓ سے فرمایا:’’ اے عمر! تم کس چیز کا انتظا رکررہے ہو؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم اسلام قبول کرو؟!۔‘‘ بس یہ سننا تھا کہ فوراًکلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اصحابِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کی خوشی میں اس زور سے نعرۂ تکبیر بلند کیا کہ صحنِ کعبہ میں بیٹھے ہوئے کفار ومشرکین نے بھی سنا اور اس نعرے کی آواز سے وادیِ مکہ گونج اُٹھی۔ پھر نبی رئوف ورحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سینۂ مبارک پر دستِ اقدس رکھا اور دعا فرمائی: اَللّٰھُمَّ اخْرُجْ مَافِيْ صَدْرِہٖ مِنْ غِلٍّ وَأَیِّدْ لَہٗ إِیْمَانًا۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’یا اللہ ۔!اس کے سینے میں جو کچھ میل کچیل ہو وہ دور کردے اور اس کے بدلے ایمان سے اس کا سینہ بھردے ۔‘‘ (مستدرک للحاکم) قبولِ اسلام کے وقت بعض مؤرخین کے نزدیک آپ کی عمر تیس سال تھی اور بعض کہتے ہیں کہ عمر چھبیس سال تھی۔مصر کے ایک بہت بڑے عالم مفسرِ قرآن جناب علامہ طنطناویؒ نے عجیب جملہ کہا ہے کہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ عمرؓ اسی گھڑی پیدا ہوئے اور یہیں سے ان کی تاریخی زندگی کا آغاز ہوا ۔‘‘

مفسرِ قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم : لما أسلم أتاني جبرائیل، فقال: استبشر أھل السماء بإسلام عمرؓ ‘‘ یعنی حضور سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’جبرئیل ؑ میرے پاس آئے اور کہا کہ: آسمان والے عمر ؓ کے قبولِ اسلام پر خوشیاں منا رہے ہیں۔‘‘ (مستدرک للحاکم و طبقات ابن سعد)

 چند ہی لمحوں بعدسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: اے اللہ کے نبی! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا، تو فرمانے لگے کہ: پھر چھپ کر عبادت کیوں کریں؟ چلیے خانہ کعبہ میں چل کر عبادت کرتے ہیں، میں قربان جائوں اپنے آقا ومولا صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ انہوں نے ایسے ہی عمر ؓ کو نہیںمانگا تھا، بلکہ دوررس نگاہِ نبوت دیکھ رہی تھی کہ اسلام کو عزت وشوکت عمرؓ کے آنے سے ہی نصیب ہوگی۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دو صفوں میں تقسیم کیا: ایک صف کے آگے اسد اللہ ورسولہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ چل رہے تھے اور دوسری صف کے آگے مرادِ رسولؐ، پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عطائے خداوندی یعنی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ چل رہے تھے۔ مسلمان جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو کفارِ مکہ نے دیکھا، نظر پڑی حمزہ ؓ پر اور عمر ؓ پر تو بڑے غمگین ہوئے، لیکن کس میں جرأت تھی کہ کوئی بولتا؟! اس دن سے مسلمانوں کے لیے تبلیغِ دین میں آسانی پیدا ہوئی اور یہی وہ دن تھا جب اللہ کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ: ’’إن اللّٰہ جعل الحق علٰی لسان عمرؓ وقلبہ وھو الفاروق فرّق اللّٰہ بہٖ بین الحق والباطل۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اللہ تعالیٰ نے سچ کو عمرؓ کے قلب ولسان پر جاری کردیا اور وہ فاروق ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ حق وباطل میں فرق کردیا ہے ۔‘‘ (طبقات ابن سعد)

جناب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ’’واللّٰہ ما استطعنا أن نصلّي عندالکعبۃ ظاھرین حتٰی أسلم عمرؓ‘‘۔۔۔۔ ’’اللہ کی قسم ! ہم کعبہ کے پاس کھلے بندوں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔‘‘ (مستدرک للحاکم)

اسی طرح حضرت صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ:جب عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو اسلام کو غلبہ نصیب ہوا، اور ہم کھلے بندوں اسلام کی دعوت دینے لگے اور ہم حلقہ بنا کر بیت اللہ میں بیٹھتے تھے، ہم بیت اللہ کا طواف کرنے لگے اور اب ہم پر اگر کوئی زیادتی کرتا تو ہم اس سے بدلہ لیتے تھے ۔

کچھ اسی قسم کے تأثرات فقیہ الامت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بھی ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ: ’’عمرؓ کا اسلام قبول کرنا ہماری کھلی فتح تھی، اور عمر ؓکا ہجرت کرنا ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی نصرتِ خاص تھی ، اور آپ ؓ کی خلافت تو ہمارے لیے سراپا رحمت تھی، میں نے وہ دن بھی دیکھے ہیں جب ہم بیت اللہ کے قریب بھی نماز ادا نہیں کرسکتے تھے، لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو آپ ؓ نے کفار سے مقابلہ کیا، یہاں تک کہ وہ ہمیں نماز پڑھنے دینے لگے۔ (طبقات ابن سعد)

سیدنا حضرت عمر رضی اللہ  تعالی عنہ کی شانِ رفیعہ میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے چند فرامین 

۱:-نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:

’’اے ابن خطاب !اس ذات پاک کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، جس راستے پہ آپ کو چلتا ہواشیطان پالیتا ہے وہ اس راستہ سے ہٹ جاتا ہے، وہ راستہ چھوڑ کر دوسراراستہ اختیار کرتا ہے ۔‘‘ (صحیح بخاری)

۲:-صحیح بخاری میں روایت ہے کہ :’’حضور پاک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حالتِ خواب میں دودھ پیا، یہاں تک کہ میں اس سے سیر ہوگیا اور اس کی سیرابی کے آثار میرے ناخنوں میں نمایاں ہونے لگے، پھر میں نے وہ دودھ عمرؓ کو دے دیا، اصحابِ رسولؓ نے پوچھا: یارسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علم‘‘۔

۳:-اسی طرح امام بخاری ؒنے ایک اور روایت بھی اپنی صحیح میںدرج کی ہے کہ :

’’ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: میں نیند میں تھا، میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ میرے سامنے پیش کیے جارہے ہیں اور انہوںنے قمیصیں پہنی ہوئی ہیں، کسی کی قمیص سینے تک اور کسی کی اس سے نیچے تک ،اور پھر عمرؓ کو پیش کیا گیا، انہوں نے ایسی لمبی وکھلی قمیص پہنی ہوئی تھی کہ وہ زمین پر گھسٹتی جارہی تھی ،اصحابِ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے عرض کیا کہ: یارسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’دین ‘‘۔

۴:-اسی طرح بڑی ہی مشہور ومعروف حدیث نبوی ہے کہ :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔‘‘یعنی اگر سلسلۂ نبوت جاری رہتا تو سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی منصبِ نبوت سے سرفراز کیے جاتے ۔

۵:-ایک حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ :’’رسول مکرم ومعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: تم سے پہلے جو اُمم گزری ہیں ان میں مُحدَث ہوا کرتے تھے اور میری امت میں اگر کوئی مُحدَث ہے تو وہ عمرؓ ہے۔‘‘

اسی حدیث مبارکہ میں لفظ’’مُحدَث‘‘کی تشریح میںصاحب فتح الباری علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ یوں تحریر فرماتے ہیں کہ :

’’المُحْدَث المُلْھَم وھو من ألقي في روعہ شيء من قبل الملاء الأعلٰی ومن یجری الصواب علیٰ لسانہٖ بغیر قصد۔‘‘ 

یعنی ’’محدث وہ ہے جس کی طرف اللہ کی طرف سے الہام کیاجائے، ملاء اعلیٰ سے اس کے دل میں القاء کیا جائے اور بغیر کسی ارادہ وقصد کے جس کی زبان پر حق جاری کردیا جائے۔‘‘ یعنی اس کی زبان سے حق بات ہی نکلے ۔

۶:-ایک بار سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شفیع اعظم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عمرہ کی اجازت طلب کی تو نبی مکرم ومعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یا أخي أشرکنا في صالح دعاء ک ولا تنسنا‘‘ ۔۔۔ ’’اے میرے بھائی ! اپنی نیک دعائوں میں ہمیں بھی شریک کرنا اور بھول نہ جانا۔‘‘

۷:-سلسلۂ احادیث سے آخری حدیث پیش کرتا ہوں کہ یہ سلسلہ بہت دراز ہے اور دامنِ صفحات میں جگہ کم ،بخاری شریف میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ :’’ ایک دفعہ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کے پہاڑ پر تشریف لے گئے، ہمراہ ابوبکر ؓ ،عمرؓ اور عثمان ؓ بھی تھے، اُحد کاپہاڑ لرزنے لگا توحضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قدم مبارک اُحد پر مارتے ہوئے فرمایا: ’’اے اُحد! ٹھہر جا، تجھ پر اس وقت نبی، صدیق اور شہید کے علاوہ اور کوئی نہیں۔‘‘اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ: ’’اللّٰھم ارزقني شھادۃ في سبیلک وموتا في بلد حبیبک‘‘ ۔۔۔ ’’اے اللہ! مجھے اپنی راہ میں شہادت کی موت دینا اور موت آئے تو تیرے حبیب( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے شہر میں آئے ۔‘‘

۔ ہجرت کے موقعہ پر کفار مکہ کے شر سے بچنے کیلئے سب نے خاموشی سے ہجرت کی مگر آپؓ کی غیرت ایمانی نے چھپ کر ہجرت کرنا گوارا نہیں کیا۔ آپؓ نے تلوار ہاتھ میں لی، کعبہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا ' 'تم میں سے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی بیوی بیوہ ہو جائے، اس کے بچے یتیم ہوجائیں تو وہ مکہ سے باہر آکر میرا راستہ روک کر دیکھ لے''۔ مگر کسی کافر کی ہمت نہ پڑی کہ آپ کا راستہ روک سکتا۔ رسول اللہ ؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپؓ کو مخاطب کرتے ہوئے ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ '' قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، آپ جس راستے پر چلتے ہیں شیطان وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرلیتا ہے'' (مصنف ابن ابی شیبہ)۔ ہجرت کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں رہے۔

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کفر و نفاق کے مقابلہ میں بہت جلال والے تھے اور کفار و منافقین سے شدید نفرت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک یہودی و منافق کے مابین حضور ؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا مگر منافق نہ مانا اور آپؓسے فیصلہ کیلئے کہا۔ آپؓ کو جب علم ہوا کہ نبیؐ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلہ کے بعد یہ آپ سے فیصلہ کروانے آیا ہے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کر کے فرمایا جو میرے نبیؐ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیصلہ نہیں مانتا میرے پاس اس کا یہی فیصلہ ہے۔کئی مواقع پر نبی کریمؐ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشورہ مانگنے پر جو مشورہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے دیا قرآن کریم کی آیات مبارکہ اس کی تائید میں نازل ہوئیں۔

حضرت عمر فاروقؓ باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران تھے۔ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا۔ حضرت عمرؓ حق و صداقت کے علمبردار تھے۔ امیر المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے وقت وصال امت کی زمام آپؓ ہی کے سپرد کی تھی، 22؍جمادی الثانی 13 ھجری کو آپ مسند نشین خلافت ہوئے۔آپؓ کے دور خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، سرزمین شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان فتح ہو کر مملکت اسلامی میں شامل ہوئے۔ آپ ہی کہ دور خلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا، اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریباً تہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگین آگیا۔آپؓ نے 22 لاکھ مربع میل کے رقبے پر اسلام کا جھنڈا لہرایا اور قبلہ اول بیت المقدس کی شاندار فتح کا سہرا بھی آپ کے سر ہے۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے جس مہارت، شجاعت اور عسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل شہنشاہیت کو دو سال سے بھی کم عرصہ میں زیر کر لیا، نیز اپنی سلطنت و حدود سلطنت کا انتظام، رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امور سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری کے ساتھ نبھایا وہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے۔آپؓ کا دور خلافت عدل و انصاف کا درخشندہ باب اور مثالی دور ہے نیز بہت مبارک اور اشاعت و اظہار اسلام کا باعث تھا۔ آپؓ ہی نے تقویم اسلامی (اسلامی کیلنڈر) کی ابتداء ہجرت مدینہ کی بنیاد پر یکم محرم الحرام سے کروائی۔ مفتوحہ علاقوں میں900 جامع مساجد اور 4000 عام مساجد تعمیر کروا کر اس میں تعلیم و تدریس کا انتظام کروایا، جب کہ حرمین شریفین کی توسیع بھی آپؓ کے دور خلافت میں ہوئی۔تاریخ کی سب سے پہلی مردم شماری ،کرنسی سکہ کا اجراء،مہمان خانوں(سرائے) کی تعمیر،لاوارث بچوں کی خوراک ،تعلیم و تربیت کا انتظام اور وطائف کا اجراء دور فاروقی میں کیا گیا۔ آپؓ کا مقام و مرتبہ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ''میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتے تو عمر بن خطاب ہوتے۔''(ترمذی)

آخری ایامِ حیات میں آپؓ نے خواب دیکھا کہ ایک سرخ مرغ نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین چونچیں ماریں، آپؓ نے یہ خواب لوگوں سے بیان کیا اور فرمایا کہ میری موت کا وقت قریب ہے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ ایک روز اپنے معمول کے مطابق بہت سویرے نماز کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے، اس وقت ایک درّہ آپ کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور سونے والے کو اپنے درّہ سے جگاتے تھے، مسجد میں پہنچ کر نمازیوں کی صفیں درست کرنے کا حکم دیتے، اس کے بعد نماز شروع فرماتے اور نماز میں بڑی بڑی سورتیں پڑھتے۔ اس روز بھی آپؓ نے ایساہی کیا، نماز ویسے ہی آپؓ نے شروع کی تھی، صرف تکبیر تحریمہ کہنے پائے تھے کہ ایک مجوسی کافر ابو لؤلؤ (فیروز) جو حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کا غلام تھا، ایک زہر آلود خنجر لیے ہوئے مسجد کی محراب میں چھپا ہوا بیٹھا تھا، اس نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین زخم کاری اس خنجر سے لگائے، آپؓ بے ہوش ہوکر گر گئے اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر بجائے آپؓ کی امامت کے مختصر نماز پڑھ کر سلام پھیرا، ابولؤلؤ نے چاہا کہ کسی طرح مسجد سے باہر نکل کر بھاگ جائے، مگر نمازیوں کی صفیں مثل دیوار کے حائل تھیں، اس سے نکل جاناآسان نہ تھا، اس نے اور صحابیوںؓ کو بھی زخمی کرنا شروع کردیا، تیرہ صحابی زخمی ،جن میں سے سات جاں بر نہ ہوسکے، اتنے میں نماز ختم ہوگئی اور ابولؤلؤ پکڑ لیا گیا، جب اس نے دیکھا کہ میں گرفتار ہوگیا تو اسی خنجر سے اس نے اپنے آپ کو ہلاک کردیا ۔ (خلفائے راشدینؓ ،از لکھنویؒ)
بالآخر آپ کی دعائے شہادت کو حق تعالیٰ نے قبول فرمایا اور دیارِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم میں بلکہ مُصلائے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر آپ کو ۲۷ ذو الحجہ بروز چہار شنبہ (بدھ) زخمی کیا گیا اور یکم محرم بروز یک شنبہ (اتوار) آپ رضی اللہ عنہ نے شہادت پائی۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک تریسٹھ برس تھی ،حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور خاص روضۂ نبویؐ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں آپ ؓ کی قبر بنائی گئی۔ رضي اللّٰہ تعالٰی عنہ وأرضاہ 


Share: