اخلاق کے اعتبار سے انسان کے دو درجے


ھر چیز کے کچھ معیار ھوتے ھیں اسی طرح انسان کے اخلاق کے اعتبار سے بھی کچھ معیار ھیں  آئیے قرآن مجید سے معلوم کرتے ھیں کہ انسان کے آخلاقی معیار کیا ھیں؟

قرآن پاک کی سوره یوسف میں اللہ پاک نے حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ بیان فرمایا ہے- اس قصے کا مطالعہ کریں تو اس سے انسان کے لئے دو ھی اخلاقی معیار معلوم هوتے ہیں، ایک یہ کہ آدمی کا شعور اتنا زیاده زنده هو کہ وه ہر صورتحال میں غلط موقف کو دریافت کر لے اور اس سے اپنے آپ کو بچائے-


دوسرا اخلاقی درجہ یہ ہے کہ اگر کسی بھی وجہ سے انسان ابتدائی مرحلے میں غلط موقف اختیار کر لے لیکن اس کے بعد جب امر حق اس پر واضح هو جائے تو کهلے طور پے اپنی غلطی کا اعتراف کر کے اصلاح کر لے-

جہاں تک اول الزکر درجہ کا تعلق ھے تو یہ درجہ اللہ پاک کے خاص بندوں کا ھےجن میں سرفہرست آنبیاء کرام ھیں اس کے علاوہ جو اس کے لئے طلب اور محنت کرے تو اللہ پاک اسے بھی  یہ درجہ عنایت فرما دیتے ھیں  تاریخ میں اس کی ایک نہیں ھزاروں مثالیں موجود ھیں

اور جہاں تک آخر الزکر درجہ کا تعلق ھے یہ بھی جس کو مل جائے تو اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ھے کہ انسان پر جب حق واضح ھو جائے تو پھر وہ اسے اپنی انا کا مسئلہ نہ بنائے بلکہ اپنی غلطی کا کھلے دل سے اعتراف کرے اور فورا توبہ کی طرف لپکے سچے دل سے اپنی غلطی سے توبہ کرے اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا پکا عہد کرے

پہلے موقف کی مثال سوره یوسف کی آیت نمبر 24میں پائی جاتی ہے:-

وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهٖ ۖ وَهَـمَّ بِـهَا لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖ ۚ كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوٓءَ وَالْفَحْشَآءَ ۚ اِنَّهٝ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ O

اور البتہ اس عورت نے تو اس پر ارادہ کر لیا تھا، اور اگر وہ اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا تو اس کا اردہ کر لیتا، اسی طرح ہوا تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی کو ٹال دیں، بے شک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔

اس آیت مبارکہ سے معلوم هوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے ایک امتحانی صورت حال پیش آئی، لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کی اس صلاحیت نے ان کی مدد کی اور وه پیش آمده امتحان میں پورے اترے-


دوسری مثال سورہ یوسف ھی کی آیت نمبر 51 میں پائی جاتی ہے:-

قَالَتِ امْرَاَتُ الْعَزِيْزِ الْاٰنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ  ؕ اَنَا رَاوَدْتُّهٝ عَنْ نَّفْسِهٖ وَاِنَّهٝ لَمِنَ الصَّادِقِيْنَ O

عزیز کی بیوی بولی کہ اب سچی بات ظاہر ہوگئی ھے ، میں نے ہی اسے پھسلانا چاہا تھا اور وہ سچا ہے

اس آیت مبارکہ سے معلوم هوتا ہے  عزیز  کی بیوی پہلے مرحلے  میں نفس سے مغلوبیت کا شکار هو گئی تھی اور حضرت یوسف علیہ السلام پر غلط الزام بھی عائد کردیا تھا- لیکن بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ حضرت یوسف  علیہ السلام مکمل طور پر بے قصور تھے

اس وضاحت کے بعد عزیز کی بیوی نے جو کچهہ کہا، اس کو قرآن پاک نے مذکورہ بالا آیت میں بیان کیا ہے یعنی عزیز کی بیوی نے کہا اب حق کهل گیا-میں نے ہی حضرت یوسف علیہ السلام کو پهسلانے کی کوشش کی تهی اور  بلاشبہ وه سچا ہے-


سو معلوم ھوا کہ اس دنیا میں انسان کے لئے دو ھی اخلاقی صورتیں ہیں ایک یہ کہ آدمی اپنے اندر وه اعلی ربانی سوچ پیدا کرے جو ہر موقع پر اس کو صحیح رہنمائی دیتی رہے- دوسرا اخلاقی درجہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کا ماده هو- معاملے کی وضاحت کے بعد وه کهلے طور پر اپنی غلطی کو مان کر اپنی اصلاح کرلے-

انسان کے لئے یہی دو اخلاقی درجے ہیں- اس کے بعد کوئی تیسرا اخلاقی درجہ انسان کے لیے نہیں  ھے  دوسرے اخلاقی درجے سے بھی نیچے گرنے کا مطلب یہ ھو گا کہ وہ شخص انسانیت سے ھی گر گیا ھے یعنی اس میں انسانیت نام کی کوئی چیز موجود نہیں ھے

اللہ پاک ھمیں رب چاھی زندگی گزارنے کی توفیق عنایت فرمائے

آمین یا رب العالمین

※※※※※

Share: